ضرب الامثال

اس سلسلے میں ہم اردو، دکنی ،فرنگیہ (انگریزی) اور دیگر زبانوں میں بولے جانے والے محاوروں کے پیچھے چھپی دلچسپ اور منفرد کہانیاں پیش کریں گے اور ان محاوروں کو زندگی میں کس طرح استعمال کر سکتے ہیں اس بارے میں بات کریں گے ۔
سلسلے کو باقاعدہ طور پر شروع کرنے سے پہلے کچھ تعارف محاورے کا کہ آخر محاورہ کس کو کہا جاتا ہے

وکی پیڈیا

(محاورہ : ( جمع= محاورے) ، کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب سے دلچسپ حصہ سمجھے جا سکتے ہیں۔ محاورہ دوسرے الفاظ میں کسی بھی زبان کے "فارمولے" کہلا‎ئے جا سکتے ہیں جو کسی بھی صورت حال کو چند الفاظ میں بیان کر دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اردو زبان میں کثرت سے استعمال ہونے والے چند مشہور محاورے درج ذیل ہیں۔* پڑھے نہ لکھے، نام محمد فاضل* مکّہ میں رہتے ہیں مگر حج نہیں کیا* لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔* قاضی جی کے گھر کے چوہے بھی سیانے۔* کمبختی آئے تو اونٹ چڑھے کو کتّا کاٹے۔* آگ کہنے سے منہ نہیں جلتا۔* اللہ ملائے جوڑی، ایک اندھا ایک کوڑھی۔* اندھوں میں کانا راجا۔* کالے صابن مل کر گورے نہیں ہوتے* اپنی گلی میں کتا بھی شیر ہوتا ہے۔* جو سکھ چوبارے۔ بلغ نہ بخارے* اپنے منہ میاں مٹھو* کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا* دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بیر* چٹ منگنی پٹ بیاہ* ایک چپ، سو سکھ* بدن پر نہ لتّا،پان کھائیں البتہ* کھودا پہاڑ نکلا چوہا* مگرمچھ کے آنسو* دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا* گیا ہے سانپ نکل، اب لکیر پیٹا کر* آگ لگنے پر کنواں گھودنا* کتّے کی دم بارہ برس بھی نلکی میں رکھنے کے بعد ٹیڑھی نکلی۔* الٹے بانس بریلی کو لے جانا۔* اشرفیاں لٹیں کوئلوں پر مہر* اپنا عیب بھی ہنر معلوم ہوتا ہے۔* اپنا رکھ پرایا چکھ* لڑے سپاہی نام سرکار کا* آگے کنواں،پیچھے کھائی* آسمان کو تھوکا، منہ پر گرے* آسمان سے گرا،کھجور میں اٹکا* اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑتا* لوہے کو لوہا کاٹتا ہے* آم کھاؤ،پیڑ نہ گنو* اندھیر نگری چوپٹ راج* اندھا بانٹے ریوڑی اپنوں کو* اونٹ کے منہ میں زیرہ* ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں* ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں* ایک تھیلی کے چٹّے بٹّے* ایک انار سو بیمار* باوا بھلا نہ بھّیا، سب سے بڑا روپیہ* بات کا چوکا آدمی، ڈال کا چوکا بندر* بچہ بغل میں،ڈھنڈورا شہر میں * بچھو کا منتر جانتے نہیں، سانپ کے بل میں ہاتھ ڈالنے چلے* بدنامی سے گمنامی اچھی* بغل میں چھری منہ میں رام رام* بڑے بول کا سر نیچا* جائے لاکھ پر رہے ساکھ* بندر کیا جانے ادرک کا سواد* بھوکے بھجّن نہ ہو* پیش از مرگ واویلا* تدبیر نہیں چلتی تقدیر کے آگے* تخت یا تختہ* جسے پیا چاہے وہ ہی سہاگن* جس کا کھانا اسی کا گانا* جہاں دیکھی تری،وہیں بچھادی دری* جتنی چادر دیکھو اتنے پیر پھیلاؤ* جس کا کام اسی کو ساجھے* جس کی لاٹھی اس کی بھینس* جنّت کی غلامی سے جہنم کی حکومت بہتر

  • سونے پہ سوہاگہ
  • تیروں سے بارش
  • ایک انار سو بیمار
  • طے شدہ، بہہ شدہ* جو سوچ، وہ کھوج
  • آ بیل مجھے مار)

دکنی محاورے

دکنی محاورے علاقہ دکن میں دکنی اردو کے ادب میں مروجہ محاورے ہیں۔ دکنی زبان تلنگانہ، آندھرا پردیش،کرناٹک، تمل ناڈو، کیرلا اور مہاراشٹر وغیرہ ریاستوں کے ایک بڑے علاقے میں میں بولی جاتی ہے۔ یہاں کی زبان ایک مختلف لہجہ کی اردو ہے۔ اس میں شیرینی بھی ہے اور ایک لطف اندوز طرز بھی۔ یہاں کے محاورے بڑے ہی دلچسپ ہیں۔ محاوروں کو ضرب المثل بھی کہا جاتا ہے۔ دکنی محاورے عام طور پر اردو ہندی، مراٹھی، بھوج پوری زبانوں کے محاوروں کی طرح ہی ہوتے ہیں، مگر لہجہ اور پیش کش مختلف ہوتی ہے۔

دکنی ادب کے چند محاورے درج ذیل ہیں۔[1]


آگے کنواں پیچھے کھائی

  • مطلب جان مشکل میں آئی
اس محاورے میں اُس چور کی طرف اشارہ ہے جو چور ی کر کے فرار ہونا چاہتا ہے اُس کو آگے کنواں دکھائی دیتا ہے اور پیچھے پلٹ کر دیکھتا ہے تو کھائی یعنی گڑھا نظر آتا ہے یعنی فرار کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا‘ ان حالات میں کہا جاتا ہے کہ آگے کنواں پیچھے کھائی۔ جان مشکل میں آئی۔


اپنا سونا خراب رہیا تو سنار کو کیا کوسنا

اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لڑکا شادی سے قبل تک والدین کا فرماں بردار رہتا ہے۔ شادی کے بعد وہ اپنی بیوی کی طرفداری کرنے لگتا ہے یا والدین کا نافرمان ہوجاتا ہے۔ ان حالات میں ماں کہتی ہے کہ اپنا بیٹا ہی اچھا نہیں ہے بہو کا کچھ قصور نہیں۔ اپنا سونا خراب رہیا تو سنار کو کیا کوسنا۔۔۔


آسمان کے تارے ہاتھ کو آتیں کیا رے

دکنی کے اس محاورے میں اُس لالچی شخص کی طرف اشارہ ہے کہ وہ دنیا حاصل کرلیتا ہے پھر بھی اس کی لالچ پوری نہیں ہوتی۔ ہر وہ چیز حاصل کرنے کی فکر میں رہتا ہے جو اس کی پہنچ سے بہت دور ہے۔ بے وقوفی سے آسمان کے تارے حاصل کرنے کے لیے بلندی پر چڑھ جاتا ہے یعنی اور بھی بہت کچھ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی ماں کہتی ہے آسمان کے تارے ہاتھ کو آتیں کیا رے۔


آسمان پو تھوکے تو اپن پوچ گرتا

دکنی کے اس محاورے میں اُس بے وقوف کی طرف اشارہ ہے کہ جو غصہ میں آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور آسمان کی طرف منھ اُٹھا کر تھوکتا ہے۔ اس بے وقوف کو یہ نہیں معلوم کہ یہ تھوک خود اُس کے منھ پر گرے گا۔


آفت کی پوڑیہ

اس محاورے میں اُس لڑکی کی طرف اشارہ ہے جو اپنی کم عمری کے باوجود چالاک اور مکار اس قدر ہے کہ قیامت کا منظر پیش کر رہی ہے اور ہر کسی کو اپنے جال میں آسانی سے پھانس لیتی ہے۔ بڑی بوڑھی خواتین ایسی لڑکی کو آفت کی پوڑیہ کہتے ہیں۔

آدمی میں بس کو دیکھو سونے کو گِھس کو دیکھو

دکنی کی اس ضرب المثل میں اُس انسان کی مثال دی جارہی ہے جو دیکھنے میں بہت اچھا ہے بات چیت بہت خوب صورت انداز میں کرتا ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ رہ کر دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کس قدر خود غرض اور کم ظرف ہے ۔
اس کی مثال اُس چمکتی چیزکی طرح ہے جو دور سے دیکھنے میں سونا معلوم ہوتی ہے لیکن جب اس چیز کو گھس کردیکھا جاتا ہے تو وہ پیتل رہتا ہے ۔

آڑی کی بلا باڑی پو ۔۔۔ باڑی کی بلا میلی ساڑی والی پو
دکنی کے اس محاورے میں چالاک عورت گھر کے کسی کام میں کچھ خرابی کردیتی ہے ۔ اور اپنی غلطی دوسروں پر ڈالنا چاہتی ہے ۔ اپنے کام کی خرابی ماننے تیار نہیں ہوتی۔ اس کام میں جو دوسری غریب عورت جس کی ساڑی میلی ہوتی ہے ۔اُس کی طرف اشارہ کرکے کہتی ہے یہ کام خراب میں نہیں کی بلکہ وہ میلی ساڑی والی عورت نے کیا ہے ۔

آدھی روٹی چھوڑ کو ساری کو گئے ساری بھی گئی آدھی بھی گئی

دکنی کے اس محاورے میں اُس لالچی انسان کی طرف اشارہ ہے کہ وہ سکون سے آدھی روٹی تو کھارہا تھا لیکن لالچ میں آکراس نے اچھی خاصی ملازمت کو چھوڑ کر دوسری ملازمت کرنے لگتا ہے وہاں کچھ تنخواہ زیادہ ملتی ہے ۔ دوسری ملازمت بھی اس وجہہ سے چھوڑ تا ہے کہ وہاں حد زیادہ تکالیف ہیں۔ اس طرح اس کی دوسری ملازمت بھی جاتی رہی اور پہلی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔

دوستوں اس سلسلے کو میں نے آپ سب کے بھروسے پر شروع کیا ہے کہ آپ سب اس میں شامل ہو کر اس کو مزید بہتر بنانے میں میرا ساتھ دیں گے امید کرتا ہوں کہ آپ سب مجھ کو مایوس نہیں کریں گے
 
Achilles' heel

مضبوط ترین شے کا کمزور ترین پہلُو

اس کا قصہ کچھ یوں ہے کہ یونانی ضمیات mythology کے مطابق سمندر کے دیوتا Neptune کی بیٹی ٹیٹس Thetis کی شادی Mermydon (ایک جنگجُو دَلیروں کا قبیلہ) کے سردار سے ہوٸی۔ جب وہ اُمید سے ہوٸی تو جنم کنڈلی سے اسے معلوم ہوگیا کہ اس کا بیٹا جوان ہوگا تو وہ ایک جنگ میں مارا جاٸےگا۔ لہٰذا اس کا توڑ کرنے کے لٸے اس نے اپنے بیٹے ( نومولود Achilles ) کو ایک دریا Styx میں اَیسے ڈَبو کر باہَر نِکالا کہ اُس کی ایک ایڑھی دیوی کے ہاتھ میں تھی اور بَچّہ اُلٹا تھا ۔

اَیسا Thetis نے اس لٸے کِیا تھا کہ دیوتا اُس دَریا میں نَہاتے تھے ۔ اَب چونکہ دیوتا لافانی ہوتے تھے (یعنی انہیں موت نہیں آتی تھی) تو Thetis نے سوچا کہ اس دریا کے جادو اثر پانی میں نہا کر اس کا بیٹا بھی لافانی ہوجاٸےگا۔ لیکن چُونکہ بچّے کا باپ انسان تھا لہٰذا بچہ لافانی تو ہو نہیں سکتا تھا۔ تاہم یہ ہُوا کہ بچے کے جسم پر پانی کے اثر سے یہ خوبی پیدا ہو گٸی کہ وہ ناقابلِ زخم پذیر ہوگیاInvulrer یعنی کوٸی تیر، تَلوار یا نیزہ اس پر اثر نہ کرتا تھا۔ اِسی لٸے Achelles زِرَّہ بکتر پہنے بِغَیر لڑتا تھا۔

لیکن چُونکہ اُس کے پاؤں کی ایک ایڑھی خُشک رہ گَئی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ جس ایڑھی کو پَکَڑ کر ماں نے بَچّے کو غَوطہ دِیا تھا ، وہ ایڑھی ہی اُس کی کَمزوری تھی ۔ اَب کوئی اُس کی ایڑھی پر تِیر مارتا تو وہ مَر جاتا ۔ Troy کی جنگ میں حُسن کی دیوی Venus نے paris کو یہ راز کی بات بتادی تھی اور Paris نے اُس کی ایڑھی کو نِشانہ بَنایا اور Achelles جیسا ناقابِلِ شِکَست سُورما مَر گَیا ۔ اَور اُس کی جَنَم پَتری کی پیشین گوئی دُرُست ثابِت ہُوئی ۔

A woman's tears are like Achellis' heel for a man .
ایک عورت کے آنسو ایک آدمی کے لئے اچیلیس کی ہیل کی طرح ہیں

مُحاوراتِ زَبانِ فَرَنگِیہ
 
محاوروں کا تعارف وکیپیڈیا سے لکھا ہے اس کے ساتھ میں وکیپیڈیا بھی لکھا ہوا ہے اور باقی سب ایک کتاب سے دیکھ کر لکھا ہے۔
کتاب کا نام۔ محاورات زبان فرنگیہ ہے اس کتاب کا نام بھی ہر محاورے کی کہانی کے ساتھ لکھ دیا کروں گا اور اگر کسی اور جگہ سے لکھا تو اس کا نام بھی شامل کر دوں گا۔
 
محاوروں کا تعارف وکیپیڈیا سے لکھا ہے اس کے ساتھ میں وکیپیڈیا بھی لکھا ہوا ہے اور باقی سب ایک کتاب سے دیکھ کر لکھا ہے۔
کتاب کا نام۔ محاورات زبان فرنگیہ ہے اس کتاب کا نام بھی ہر محاورے کی کہانی کے ساتھ لکھ دیا کروں گا اور اگر کسی اور جگہ سے لکھا تو اس کا نام بھی شامل کر دوں گا۔
لنک بھی دے دیجیے
 
عربی زبان کی ایک کہاوت ہے کہ
قتلت یوم قتل الثور الابیض
میں تو اسی دن قتل ہو گیا تھا
جس دن سفید بیل قتل ہوا تھا
اس کی تفصیل یوں ہے کہ کسی جنگل میں دوبیل رہتے تھے ایک لال اور ایک سفید جن کی آپس میں گہری دوستی تھی ایک ساتھ گھومنا پھرنا اور چرنے کیلئے بھی ایک ساتھ آنا جانا
ان کی اس مثالی دوستی کی وجہ سے اس جنگل کا شیر ان پر ہاتھ نہیں ڈال سکتا تھا اس نے جب کبھی ان میں سے کسی ایک پر حملہ کیا تو دونوں نے مل کر اس کی وہ درگت بنائی کہ شیر کو اپنی جان کے لالے پڑ جاتے
شیر نے ایک چال چلی کی لال بیل سے چکنی چپڑی باتیں کرکے اور روشن مستقبل کے سہانے سپنے دکھا کر اپنے ساتھ ملا لیا
لال بیل اس کی باتوں میں آ گیا کہ بیل کی دوستی کے مقابلے میں شیر کی دوستی زیادہ محفوظ نظر آ رہی تھی
لال بیل جب شیر سے مل گیا اور سفید بیل اکیلا رہ گیا تو چند دنوں کے بعد شیر نے اس کے شکار کا پروگرام بنایا اور اس پر حملہ کر دیا
پہلے تو دونوں مل کر شیر کو بھگا دیا کرتے تھے مگر اب اکیلے بیل کیلئے شیر کا مقابلہ مشکل ہو گیا
سفید بیل نے اپنے ساتھی بیل کو بہت پکارا بہت آوازیں دیں پرانی دوستی کے واسطے دئے اور بیل ہونے کے ناطے بھائی چارے کا احساس دلایا
مگر شیر کی دوستی کے نشے سے سرشار لال بیل ٹس سے مس نہ ہوا اور اپنی برادری کے ایک فرد کو شیر کے ہاتھوں چیر پھاڑ کا شکار ہوتا دیکھتا رہا
وہ آج بہت خوش اور مطمئن تھا کہ شکر ہے میں اس کے ساتھ نہیں تھا ورنہ آج میرا کام بھی اس کے ساتھ ہی تمام ہوجاتا
تھوڑے دن گذرے کہ شیر نے اسے بھی شکار کرنے کا پروگرام بنا لیا جب شیر نے اس پر حملہ کیا تو لال بیل نے زور سے ڈکارتے ہوئے جنگل کے باشندوں کو یہ پیغام دیا کہ
میں تو اسی دن قتل ہو گیا تھا
جس دن سفید بیل قتل ہوا تھا
امت مسلمہ بھی آج کل اسی حالت کا شکار ہے
سب شیر کی دوستی پر خوش اور مطمئن ہیں اور یہ یقین کئے بیٹھے ہیں کہ باقیوں کی باری تو لگ رہی ہے مگر ہماری باری نہیں لگے گی کیونکہ ہم تو جنگل کے بادشاہ کے دوست اور مقرب ہیں
ان احمقوں کو یہ سادہ سی حقیقت سمجھ نہیں آ رہی کہ شکاری اور شکار کے درمیان دوستی جیسا غیر فطری رشتہ ہو ہی نہیں سکتا
ہم نے باری باری
افغانستان, عراق, فلسطین, شام, بوسنیا, چیچنیا, کشمیر, برما اور صومالیہ میں مسلمانوں کے خون میں لت پت لاشوں کو تڑپتے دیکھا
حلب اور ادلب پر کیمیکل بموں کے حملے دیکھے فلسطینی مسلمانوں کے جنازوں پر بمباریاں دیکھیں عراق میں مسلمانوں کو قتل کرنے کے نئے سے نئے حربے دیکھے
برمی مسلمانوں کو زندہ جلانے اور ان کے جسمانی اعضاء کو کاٹ کاٹ کر پھینکتے دیکھا
افغانستان پر کارپٹ بمباری سے لیکر
"بموں کی ماں " کا حملہ دیکھا
مگر اس خوشی میں چپ سادھے اطمینان سے بیٹھے ہیں کہ ان سب کی باری تو لگی ہے مگر ہماری نہیں لگے گی
ہم سب سعودیہ, مصر, پاکستان وغیرہ
لال بیل ہیں
اللہ نہ کرے کہ ہم پر پچھتاوے کی وہ گھڑی آ جائے جب ہم بھی بے ساختہ یہ کہنے پر مجبور ہوجائیں کہ
" قتلت یوم قتل الثور الابیض "

کتاب. عربی محاورات معہ ترجمہ
 
Up with the lark ( rise very early )

چِنڈول اَیسا پَرِندہ ہَے جو ہَے تو چھوٹا ، لیکِن اِتنی بُلَندی پَر اُڑتا ہَے کہ جِس بُلَندی تَک دیگَر پَرِندے جا ہی نَہیں سَکتے ۔ اِسے اَنگریزی میں Lark کہتے ہَیں ۔

ایک بار پَرِندوں میں یہ بحث زور پَکَڑ گَئی کہ مَچھلِیوں میں جَیسے سَردار شارک ہَے ، اَور جانوَروں کا بادشاہ شیر ہَے ، اُسی طَرَح پَرِندوں کا بھی کوئی بادشاہ ہونا چاہِیے ۔

تو یہ رائے ٹھہری کے ایک دِن سَب پَرِندے ایک جَگہ اِکَٹّھے ہوں اَور سَب پَرواز کَریں ۔ اَب جو پَرِندہ سَب سے اُونچا اُڑے گا ، وُہی پَرِندوں کا بادشاہ کہلانے کا حَق دار ہوگا ۔

مُقَرَّرہ دِن سَب پَرِندے طَئے شُدہ دِن جَنگَل میں ایک جَگہ اِکَٹّھے ہُوئے ۔ اَور شُتَر مُرغ Ostrich ، بھیڑ مُرغ Emu ، اَور فِیل مُرغ Kiwi ، قُطبی مُرغ Penguin کو چھوڑ کَر باقی پَرِندوں نے اُڑان بَھری ۔ کبُوتر Pigeon ، قُمری ، بَیّا Robin ، پَپیہا ، نیل کَنٹھ Magpie ، پِدّی Tit ، لالی ، چِڑِیا House Sparrow ، سون چِڑِیا Robin ، جَل کُکڑی ، فاختہ Dove ، ہُدہُد Hopopo ، کَھٹ بَڑَھئی Woodpecker ، چیل Kite ، کَوّا ، پَہاڑی کَوّا Raven ، لال کَوّا ، طوطا Parrot ، مَینا ، سیمُرغ ، شِکرا Castrel / Falcon ، باز Hawk / Buzzard ، شاہین ، عَنقا Phoenix ، گِدھ Vulture ، قادُوس Albatross ، مور Peacock ، تیتَر Partridge ، اُلُّو Owl ، چَکور ، تَلور Hubara Bustard ، مَچھیرا پَنچھی Pelican بَٹیر Quail ، پیرُو Turkey ، سُرخاب Pheasant ، مُرغابی Goose ، راج ہَنس Swan ، کُونج Crane ، بُلبُل Nightingale ، مَگ Muscovy Duck ، بَطَخ Duck ، نیل سَر Mallard ، بَطَخِ ہَفت رَنگ Mandarin ، گوگیری ، اَصیل Aseel ، اَبابیل Swallow ، کوئل Cuckoo ، لال لَم ڈھینگ Flamingo ، بَگلا Stork ، مَینا Myna ، تیتَرِ چَرخی Tragopan ، مرغِ نیلگُوں Kalij ، لَم دُمّا ، ۔ ۔ ۔ ۔ غَرض سَبھی پَرِندے اُڑنے لَگے ۔ اَب جِتنی جِس کے پَروں میں طاقَت تھی ، وُہ اُتنی بُلَندی تَک جا سَکا ۔ اَور تَھک کَر واپَس نِیچے اُتَر آیا ۔ کَئی تو اِس کوشِش میں جان سے گَئے ۔

اَب مُقابلہ نِسبَتاً بَڑے پَرِندوں میں رہ گَیا ۔ شِکاری اُلُّو ، باز ، چیل ، عُقاب ، کُونج ، ہَنس ، مُرغابی ، قادُوس ، اَور گِدھ جان توڑ کوشِش کَر رَہے تھے ۔ آخِر ایک ایک کَر کے سَبھی پیچھے رہ گَئے اَور عُقاب ہی آسمان پَر رہ گَیا ۔

جَب شاہین نے یہ دیکھا کہ اُس کے دائیں بائیں اُڑنے والے سَبھی پَرِندے ہار گَئے اَور وُہ اَکیلا ہی باقی رہ گَیا ہَے تو وُہ شیخی مارنے لَگا ؛

" ہُونہہ ! بَڑے آئے مُجھ سے مُقابلہ کَرنے والے ۔ مَیں ہی سَب سے اُونچا اُڑتا ہُوں ۔ "

اِتنے میں ایک چِنڈول ،جو کہ شُرُوع میں ہی چَھلانگ لَگا کَر عُقاب پَر سَوار ہو گَیا تھا ، نے چَھلانگ لَگائی اَور عُقاب سے بھی بُلَند ہو گَیا ۔ کافی اُوپَر جا کَر اُس نے عُقاب کو لَلکارا ،

مِیاں ! اِتنا غُرُور ٹھیک نَہِیں ۔ ذَرا خُود سے اُوپَر بھی نَظَر ڈالو ۔

اَب چُونکہ عُقاب میں بھی ہِمَّت باقی نہ رَہی تھی ، جَبکہ چِنڈول تازہ دَم تھا ، سَو عُقاب اُس سے اُوپَر نہ جا سَکا ۔ تَبھی سے یہ طَئے ہو گَیا کہ چِنڈول سَب سے زیادہ بُلَندی پَر اُڑنے والا پَرِندہ ہَے ۔ لیکِن شِکاری اَور پُھرتیلا ہونے کی وَجہ سے عُقاب ہی پَرِندوں کا بادشاہ مانا گَیا ۔

لیکِن چُونکہ چِنڈول سَب سے پہلے چَھلانگ لَگا کَر اُٹّھا اَور شاہین پَر سَوار ہو گَیا تھا ، سَو اَنگریزوں نے صُبحُ سَب سے پہلے اُٹھنے اَور پیش قَدمی کَرنے کو چِنڈول کے اُٹھنے سے تَشبیہہ دی اَور یہ مُحاورہ گَھڑ لِیا ۔ ذَرا دو جُملے دیکِھیے :

Good students rise with the lark .

The army men rise with the lark .

مُحاوراتِ زَبانِ فَرَنگِیہ
 
To leave someone in lurch
مُشکِل وَقت پَر کِسی کو بے یار و مَدَدگار چھوڑ دینا ۔

گَئے وَقتوں میں گِرجے سے مُتَّصِل ایک مَخرُوطی چَھت والا ایک اَحاطہ ہوتا تھا جَہاں مُردے کو تابُوت میں ڈالا جاتا تھا اَور وَہیں پادری آ کَر جَنازے کی رَسُوم اَدا کَرتا تھا ۔

اَب کِسی چھوٹے سے گاؤں کے گِرجے میں ، شام کے وَقت ایک مُردے کو آخری رَسُوم کے لِیے لایا گَیا ، اُس غَریب کے جَنازے میں چَند ہی لوگ تھے ۔ اَب جَنازہ وَہاں رَکھ کَر باقی لوگ تو دیگَر اِنتَظامات میں لَگ گَئے ، اَور مَیَّت کے ساتھ بَس اُس کی بیوی اَکیلی رہ گَئی ۔ اُس کے پاس تَدفین کے اِخراجات کے لِیے بھی رَقَم نہ تھی ۔ جَب سُورَج ڈُوب گَیا تو اُس کا خَوف سے بُرا حال ہو گَیا ۔ جَب سَب لوگ واپَس آئے تو وُہ بُری طَرَح رو رَہی تھی ۔ سَب پہلے ہی مَرگ پَر مَغمُوم تھے ۔ لیکِن وُہ سَب پَر بَرَس پَڑی کہ تُم مُجھے ایک نَعش کے ساتھ تَنہا چھوڑ گَئے ۔ ۔ ۔ ۔ بَس تَبھی سے کِسی کو مُشکِل صُورَتِحال میں بے یارومَدَدگار چھوڑ جانے کے لِیے یہ مُحاورہ بَرتا جانے لَگا ۔

نیز ، جَب کوئی مَیدانِ جَنگ میں شِکَست کھا جائے ، یا کِسی بھی مالی یا سَماجی مُشکِل صُورَتِحال سے دوچار ہو ، اَور اُس کے اَپنے اُسے تَنہا ، اَور بے یار و مَدَدگار چھوڑ جائیں تو اَیسے مَوقِع پَر بھی اَنگریزی میں یہ مُحاورہ بَرتا جاتا ہَے ۔

ایک جملہ اپ کی نظر



The other wives left Hazrat Ayyub ( AS ) in lurch , only one faithful wife wife stayed with him and nursed him .

تَفہیمِ مُحاوراتِ زَبانِ فَرَنگِیہ
 
محاورہ شناس:cowboy1:

ہم غالباً ساتویں یا آٹھویں کلاس میں پڑھتے تھے جب ہمارا واسطہ پہلی بار محاورات اور ضرب الامثال سے پڑھا ۔ انکو پڑھ کے ہمارا سر سچ مچ گھوما :messed:لکھا کچھ ہوتا مطلب کچھ ہوتا بقول غالب
ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
یہ محاورے ہمارے لیے " ٹیرھی کھیر " ثابت ہوئے ۔ ہمیں تو یہ ایک کھلی سازش لگی کہ اردو میں کوٸی طلبہ بھی زیادہ سے زیادہ نمبر نہ لے سکے۔ اب " انگور کھٹے ہیں " کو ہی لیجیے۔ یہ پڑھ کے بندے کے ذہن میں کھٹے انگور کا تصور ذہن میں آتا ہے جن سے منہ اور دانت کھٹے ہو جاتے ہیں اور بندے زیرلب اس پھل فروش کی شان میں مغلظات بکتا جس سے انگور خریدے ہوتے ہیں ۔ اب اس محاورے کا مطلب پڑھیں تو لکھا ہوگا کہ "جو کام نہ کیا جا سکے اس میں عیب نکالنا " ۔ اس کو سمجھانے کے لیے ایک بھوکی لومڑی کی مثال دی جاتی ۔ اب آپ نے کبھی سنا ہے کہ لومڑی پھل کھاتی ہے لومڑی " ڈاگ فیملی " سے تعلق رکھتی ہے یہ فیملی گوشت خور ہوتی ہے ، گھاس اور پھل خور نہیں ۔ اور لومڑی جسکی عیاریوں کی داستان سے اردو کہانیاں بھری پڑی ہیں جیسے شیر کو کنواں میں گرانا ، کوے سے گوشت کا ٹکرا چھیننا وغیرہ وغیرہ ، وہ اتنی سادہ ہے کہ انگور اتارنے کا کوٸی اپائے نہ کر سکے ۔ لومڑی کی جگہ گدھا ہوتا تو ہم پھر بھی کچھ یقین کر ہی لیتے:thinking:

ہم نے ان دنوں ایک محاورہ پڑھا ” منہ کالا کرنا “ ۔ یہ محاور پڑھ کے سچ میں سوچ میں پڑ گٸے:idea2: جب لاکھوں روپے خرچ کر کے کریمیں ، پوڈر ، انجکشن اور پتہ نہیں کیا کیا منگوا کر لوگ اپنا منہ سفید کرنا چاہتے ہیں تو ایسا کون ہے جو اس ملک میں اپنا منہ کالا کرنا چاہتا ہے ۔ ہمارے جی میں آٸی اس پہ تحقیق کرنی چاہیے ۔ اب ہمیں کسی کالے چہرے والے کی تلاش تھی جس سے یہ راز پوچھا جائے۔ آخر ڈھونڈتے ڈھونڈتے ہمیں بہت ہی سیاہ چہرے والے ایک صاحب ملے۔ ہم نے بڑے شاٸستہ طریقے سے انکا حال احوال پوچھا ۔ انھوں نے مسکراتے ہوئے جواب دیا مگر جیسے ہی ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ نےاپنا منہ کیوں اور کیسے کالا کیا :bringiton:بس صاحب انکےچہرے کے تیور بدلنے بلکہ بگڑنے لگے ، انھوں نے ہماری شان میں کچھ بازاری قسم کے الفاظ استعمال کرنا شروع کر دیا اور ہم کو زدوکوب کو جھپٹے مگر ہم انکی پکڑ میں نہ آئے ، وہاں سے بھاگ نکلے :grin1: اب ہونا تو یوں چاہیے تھا کہ ہمیں اس تحقیق سے باز آجانا چاہیے تھا مگر ہم بھی سدا کے ڈھیٹ اور ضدی ٹھرے۔ اب کے ہم نے یہ تحقیق خواتین سے کرنی چاہی کیونکہ وہ مردوں کے مقابلے میں نرم مزاج اور کم تشدد پسند ہوتی ہیں ۔ اب مسلہ یہ تھا کہ کالے چہرے والے عورت کو تلاش کرنا جو بیوٹی پارلرز اور میک اپ کے سامان کی بدولت ناممکن تو نہیں مگر مشکل ضرور ہو گیا تھا۔ جلدی ہی ہماری " فہم و فراست " کی بدولت ایک خیال ہمارےذہن میں کوندا کہ جتنی عورتیں نقاب کرتی ہیں ان میں صرف دس فیصد پردے کے لیے کرتی ہیں باقی نوے فیصد وہ ہوتی ہیں جو کسی وجہ سے میک اپ نہیں کر سکتیں ۔ ہم نے بازار میں دو نقاب پوش خواتین دیکھیں جو ہمارے اندازے کے مطابق سیاہ رو تھیں ۔ ہم انکا چہرے دیکھنے کے لیے انکے پیچھے ہولیے ۔ آخر ایک پکوڑے فروش کے پاس آ کے وہ دونوں رکیں ، کچھ چٹوری سی معلوم ہوتی تھیں۔ انھوں نے پکوڑے لیے اور کھانے کے لیے منہ سے نقاب اتارا تو ہمیں انکے سیاہ چہرے دیکھ کے بہت خوشی ہوٸی۔ وہ پکوڑے کھانے میں مصروف تھیں کہ ہمارا بھی جی للچایا مگر جو جیب خرچ ملا تھا وہ تو ہم پہلے ہی کھا چکے تھے ۔ دل کو تسلی دینے کے لیے سوچنے لگے کہ ایک کامیاب محقق کو بھوک پیاس تو برداشت کرنی ہی پڑتی ہے۔
جیسے ہی وہ خواتین سیر بھر پکوڑے ڈکار کے اٹھیں ہم نے انہیں جا لیا ۔ بڑی تہذیب اور ادب سے سلام کیا ۔ انھوں نے بھی بڑی خندہ پیشانی سے جواب دیا۔ بعد از سلام ہم جیسے ہی اپنے مدعا پہ آئے کہ انھوں نے اپنا منہ کیسے کالے کیے۔ بس یہ سننا تھا کہ ایک موٹی سے آنٹی جن سے اتنی پھرتی متوقع ہی نہیں تھی ، انھوں نے جھٹ برقع سے دونوں ہاتھ نکال کے ہمارا گریبان پکڑ لیا۔ دوسری آنٹی بلند آواز میں چیخنے لگی کہ لڑکیوں کو چھیڑتے ہو شرم نہیں آتی۔ ہم پہلی آنٹی کی پھرتی پہ ششدر تھے کہ جب دوسری آنٹی کے منہ سے لڑکیوں کو چھیڑنے کا الزام سنا تھا ہمارے ہوش حواس ہی گم ہوگٸے:atwitsend:شور شرابا سن کر جتنے بھی لوگ اکھٹے ہوئے سب نے ہمیں فہماٸشی نظروں سے گھورا جیسے کہہ رہے ہوں کہ چھیڑنے کو تمہیں یہی چڑیلیں ہی ملی تھیں :blush: اسی اثنا میں ان آنٹیوں نے ہمارے منہ پہ چانٹے مارنے کی کوشش کی :nailbiting:تو ہم جسے تیسے خود کو بچا کے بھاگنے میں کامیاب ہوئے ۔ منہ کالے کرنے کے بارے میں جاننے کی تگ ودو میں ہمارا اپنا منہ لال ہوتے رہ گیا :boxing: ہم نے اس محاورہ شناسی سے توبہ کرلی۔
 
دکنی زبان کی شان
ڈاکٹر عابد معز - شگوفہ کے تڑی پار مدیر (اوور سیز ایڈیٹر)

یہ مانا کہ آج نہ وہ حیدرآبادی تہذیب و ثقافت باقی رہی نہ وہ جامعہ عثمانیہ اور نہ وہ دائرةالمعارف جہاں سے علم و ادب کے ایسے دریا رواں ہوئے کہ رہتی دنیا تک تشنگانِ اردو سیراب ہوتے رہیں گے۔
اِسکے باوجود دکن کی فضاؤں میں اردو اپنی بول چال کے ذریعے اپنے صدیوں پُرانے مخصوص لب و لہجے کے ساتھ نہ صرف بغیر کسی ملاوٹ کے زندہ ہے بلکہ تابندہ ہے۔ جبکہ لکھنؤ اور دہلی کے باشندے جنہیں کبھی اپنی زبان پر ناز تھا آج سنسکرت اور ہندی کی ملاوٹ کی وجہ سے فکری قبض اور تہذیبی بدہضمی کا شکار ہوچکے ہیں۔ شائد اسی لیئے اہلِ دکن دنیا میں جہاں بھی جاتے ہیں اپنے لب و لہجے کی بِنا آسانی سے پہچانے جاتے ہیں ۔
مختصر ترین الفاظ میں بڑے سے بڑے واقعہ کو بیان کردینا یہ صرف حیدرآبادیوں کا کمال ہے۔مثال کے طور پر جہاں ایک لکھنؤی کو کسی کار ایکسیڈنٹ کو بیان کرنے کیلیئے کئی جملے درکار ہوں گے وہاں ایک دکنی یوں کہے گا کہ :
"گاڑی بیگن میں مِل گئی "۔
اِس میں گاڑی کا اُلٹنا پُلٹنا شیشوں کا ٹوٹنا اور دروازوں کا چَپکنا وغیرہ سب کچھ شامل ہے ساری تفصیلات بیان کرنے کی ضرورت نہیں۔

حیدرآبادی گالیاں بھی اِتنی مختصر اور مہذّب ہوتی ہیں کہ نہ دوسروں کی طرح زبان آلودہ ہوتی ہے نہ وضو کو کوئی خطرہ ہوتا ہے جیسے
" نِکل گیا کیا؟"
یا "گُڑ ہے کیا"

موسم کی خبریں آپ نے بہت سُنی ہونگی لیکن مختصر ترین الفاظ میں بارش کی تباہ کاریوں کا منظرجو ایک حیدرآبادی بیان کر سکتا ہے اُسکے لیے دوسروں کو کئی پیراگراف درکار ہوتے ہیں جیسے
" وہ بّارش وہ بّارش وہ بّارش ٹرافکِ سترول ، روڈ پہ ایسے بڑے بڑے پوکّے، سائن بورڈ چندیاں، جگہ جگہ کُنٹے ، پوری برات پِنڈے میں مل گئی "۔

یہ ایسے محاورے ہیں جو کئی کئی تھکادینے والے جملوں کا نہ صرف نعم البدل ہوتے ہیں بلکہ میوزک کے ساتھ بھرپور تصویر کشی بھی کرتے ہیں جیسے
"بھڑ بول کے دیا ،
دھڑ بول کے گِرا ،
زپّ بول کے اُٹھا ،
گِرررررر بول کے بھاگا"۔
ایک Kidney specialistگردے کے ایک مریض کا x-ray دیکھ کر کہنے لگے :
"پھتری انی پہ ہے۔ پانی خوب دبا کے پیتے رہو بُڑُق بول کے خودیچ گرتی "۔
یہ بُڑُق تو خیر ہم سمجھ گئے لیکن یہ دبا کے پینا کیا ہے یہ ہماری سمجھ میں نہیں آیا۔ ہم نے کئی بار دبا کے سوچاکہ حیدرآباد میں ہر فعل دبا کے کیوں ہوتا ہے اسکی تحقیق کی ضرورت ہے جیسے دبا کے بھوک لگ ری تھی ، دبا کے کھایا ، دبا کے پیا ، دبا کے رائٹ لیا، دبا کے 120 کی speed سے نکلا پھر left کو دبایا۔

دکنی زبان کی چاشنی کو مردوں سے زیادہ عورتوں نے بڑھایا ہے۔
اُجاڑ مٹّھی پڑو ،
جو ہے سو ،
اللہ آپ کو نیکی دے ،
پیٹ ٹھنڈا رہو وغیرہ جیسے تکیہ کلام سالن میں کھٹّے کی طرح ہر جملے میں شامل رہتے ہیں۔
جب خواتین اپنی ساس یا نندوں بھاوجوں کے بارے میں کنایتاً محاورے داغتی ہیں وہ بہت دلچسپ ہوتے ہیں جیسے
ندیدی کو ملی ساڑی تو حمام میں جا کے ناپی،
چیل کا کھاناکم چِلّانا زیادہ ،
کام نئیں سو کُکڑی کاجل پکڑی ،
پیٹ میں پڑا دانا دھیڑ پڑا اُتانا ،
دو پیسے کی ہنڈی گئی کُتیا کی ذات پہچانی گئی وغیرہ۔
اَنہی کے بارے میں غالباً غالب نے کہا تھا کہ
اتنے شیریں ہیں اُسکے لب کہ رقیب
گالیاں کھا کے بے مزا نہ ہوا

مردوں کے تکیے کلام بھی عورتوں سے کچھ کم نہیں ہوتے جیسے
"میں بولا ایں۔۔۔اے لّگا
میں بولا اری اس کی
حیدرآبادیوں کو نہ جانے کیوں سالوں سے اتنی چِڑ ہوتی ہے کہ ہر گالی کیلئے وہ سالے کا شارٹ فارم "سلا" استعمال کرتے ہیں
"سلا اپنے آپ کو کیا سمجھ را؟"
"سلا ہر چیز مہنگی ہوگئی
"سلا صبح سے موسم خراب ہے "

حتّی کہ اگر اپنے آپ کو بھی کوسنا ہوتو سالے یا سالی کو درمیان میں گھسیٹ لاتے ہیں جیسے
" سلی اپنی بیاڈ لک خراب ہے"۔

دوسری طرف کسی کی تعریف بھی کرینگے تو وہاں بھی سالے یا سالی کو درمیان میں کھینچ لائیں گے جیسے
سلا کیا کھیلا
سلی کیا اسمارٹ ہے یارو۔

ایسا نہیں ہے کہ حیدرآبادیوں کو سالوں سے دشمنی ہے بلکہ حقیقت تو یہ ہیکہ شادی کے بعدوہ جو سب سے پہلا کام کرتے ہیں وہ یہ کہ بیوی کو بلانے کے بعد سالے کے ویزا کے لیئے کفیلوں کے چکّر لگانا شروع کرتے ہیں اگر سعودی عرب یا دوبئی وغیرہ سے سالوں کو خروج لگادیا جائے تو پورے خلیج سے آدھے حیدرآبادی نکل جائیں گے۔
اکژ غیر حیدرآبادی تمسخرانہ طور پر دعوی کرتے ہیں کہ حیدرآبادیوں کے ساتھ رہ کر وہ حیدرآبادی اچّھی طرح سمجھنے لگے ہیں لیکن جب اُن سے اِن جملوں کے معنے پوچھے جائیں تو بغلیں جھانکنے لگتے ہیں جیسے "پوٹّا بوڑی میں بنڈے بِھرکایا"
"وستاد نقشہ فِٹ کردیئے"
" تنبّی موچو "
گھایاں نکّو،
غچّپ رھو۔
ہمارا خیال ہیکہ یہ لوگ خوبانی کے میٹھے کو جب تک "خُربانی " کا میٹھا کہہ کر نہیں کھائیں گے حیدرآبادی زبان کی مِٹھاس انکو نہیں آ سکتی۔

کئیکو نکّو ہو جیسے الفاظ پر غیر حیدرآبادی اکثر یہ طعنہ زنی کرتے ہیں کہ اہلِ دکن نے اردو کو بگاڑ دیا ہے۔ ایسا نہیں ہے۔اردو حیدرآباد کی لاڈلی ہے محبت اور لاڑ میں عمران کو عِمّو اور اظہر کو اجّو کہنے کا حق صرف گھر والوں کا ہوتاہے۔ ہجرت کر کے پاکستان امریکہ یا یورپ جانے والوں کا سامنا جب مختلف زبانوں کے لوگوں سے ہوا تو وہ تکلّفاً خالص کتابی زبان بولنے پر مجبور ہوگئے۔ اسلئے انکی زبان میں تکلّف اور تصنّعartificiality ملے گی۔
لیکن اہلِ حیدرآباد کیلئے اردو انکی لاڈلی بیٹی ہے۔ حیدرآباد اردو کا اپنا گھر ہے اسلیئے یہاں بے ساختگی اور بے تکلّفی ملے گی۔ ہمارے خیال میں جو لوگ حیدرآبادیوں کو زبان اسلوب اور لہجہ بدلنے کی ترغیب دیتے ہیں وہ اُس دُم کٹی لومڑی کی طرح ہیں جسکی ایک بار دُم کٹ گئی تھی تو وہ شرمندگی مٹانے کیلئیے دوسری لومڑیوں کو بھی دُم کٹا لینے کی ترغیب دینے لگی۔

اب آئیے حیدرآبادی" پرسوں" پر بھی کچھ گفتگو ہو جائے۔جس طرح قرآن جنّتیوں کے بارے میں کہتا ہیکہ انکو دنیا میں گزری ہوی زندگی ایک دن یا اس سے بھی کم کی لگے گی اسی طرح حیدرآبادیوں کے لیئے بھی مہینے سال بلکہ صدیاں بھی سِمٹ کر پرسوں میں سما جاتے ہیں۔ تاریخ مہینہ اور عیسوی انہیں یاد نہیں رہتے اسلئے پرسوں سے کام چلا لیتے ہیں۔ جیسے
"پرسوں انڈیا آزاد ہوا"۔
"پرسوں کویت پر قبضہ ہوا تھا"۔

کئی لوگ ترجمہ در ترجمہ کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔ جیسے
بے فضول کا جھگڑا یعنے بہت ہی فضول جھگڑا ،
لکس سوپ کا صابن ،
آب زم زم کا پانی ،
سنگِ مر مر کا پتھر ،
شبِ برات کی رات ۔

بعض لوگ انگلش مکس کے ذریعے بیان کو سوپر لیٹیوکردیتے ہیں۔ جیسے
" کیا سالِڈ بَریانی تھی باس فُل دبا کے تڑی دیا" ۔
"سالڈ نیند آری تھی دو گھنٹے فُل سو کے اُٹھا"۔

ہندوستان اور پاکستان کے بیچ دو مسئلے ایسے ہیں جنکا حل ہونا مشکل ہے ایک ہے کشمیر کا مسئلہ اور دوسرا حرف ق کی ادائیگی کا مسئلہ۔
حیدرآبادی ق کو خ سے ادا کرتے ہیں اور پاکستانی ک سے۔ بیٹی کی شادی کی تقریب حیدرآبادیوں کیلئے تخریب ہے اور پاکستانیوں کیلئے تکریب۔

دکنی زبان کی مقبولیت میں شعروادب کا اہم رول رہا ہے اگرچہ کہ نثر میں کسی نے طبع آزمائی نہیں کی۔ واجدہ تبسم جیسے کچھ نثرنگار آگے آئے لیکن منٹو کے راستے پر چل کر فحش نگاری اور پھکّڑ پن کا شگار ہوگئے۔ جہاں تک دکنی شاعری کا تعلق ہے اس نے اردو کو ایک زندہ جاوید شاعری بخشی جسکا ثبوت عالمی مشاعروں سے ملتاہے۔ اندرونِ ہند ہو کہ کوئی انٹرنیشنل مشاعرہ جب تک نئیں بولے تو سنتے نئیں جیسے ضرب الامثال دینے والے دکنی شاعر نہ ہوں مشاعرہ کامیاب نہیں ہوتا۔
سلیمان خطیب ، غوث خوامخواہ ، گِلّی ، صائب میاں ، سرور ڈنڈا ، اعجاز حسین کھٹّا ، حمایت اللہ ، مصطفٰے علی بیگ وغیرہ نے دکنی زبان کی سنجیدہ اور مزاحیہ شاعری کو ساری دنیا میں پھیلایا بلکہ اردو ادب کا ناقابلِ فراموش باب بنا دیا ۔ اِس میں ڈاکٹر مصطفےٰ کمال ایڈیٹر" شگوفہ" کی عظیم خدمات بھی نا قابلِ فراموش ہیں جنہوں 42 سالوں سے مسلسل پرچہ نکالتے ہوئے اردو طنز ومزاح کی تاریخ رقم کی ہے۔

آخر میں آیئے دکنی لب و لہجے اور محاورں سے بھرپور ، فنّی اعتبار سے کامل اردو ادب کی وہ شاہکار نظمیں جو سلیمان خطیب کے کلام میں ملتی ہیں ملاحظہ فرمایئے جو بظاہر مزاحیہ ہیں لیکن اُن بے شمار تلخ سچّایئوں کو بے نقاب کرتی ہیں جو بد قسمتی سے ایک مسلم معاشرے کا بھی حصّہ بن چکی ہیں۔
مثال کے طور پر ساس اور بہو کی روایتی رقابت جو ہندوستان اور پاکستان میں مشترکہ طور پر ہر ہر جگہ موجود ہے دکنی لب و لہجے میں اُسکی ایک تصویر دیکھیئے ۔

ساس بہو سے کہتی ہے :

تیری عادت ہے ہات مارِنگی
باتاں باتاں میں بات مارِنگی
امّاں جیسی ہے ویسی بیٹی ہے
پاواں پکڑے تو لات مارِنگی
ہمیں چپ کیچ پاواں دھوتے ہیں
بچّے سانپوں کے سانپ ہوتے ہیں
تیرے لوگاں جو گھر کو آتے ہیں
کس کے باوا کا کھانا کھاتے ہیں
جھاڑو کاں کے اُجاڑ کنگالاں
میرے بچّے کو سب ڈباتے ہیں
نرم لوگاں کو سب لگڑتے ہیں
مٹّھے بیراں میں کیڑے پڑتے ہیں
منجے خنجر کی کاٹ بولی نا
منجے کِڑ کھئی سو ناٹ بولی نا
دِق کے مردوں کی کھاٹ بولی نا
گُھڑ پو پھیکے سو ٹاٹ بولی نا
منجے چپکیا سو چمبو بولی نا
منجے تڑخیا سو بمبو بولی نا
منجے دنیا کی کُٹنی سمجھی گے
لال مرچیاں کی بکنی سمجھی گے
منجے دمّہ کی دُھکنی سمجھی گے
منجے پُھٹّی سو پُھکنی سمجھی گے
مرد آنے دے پیٹھ پھوڑونگی
تیری تربت بنا کے چھوڑونگی
کِتّے جاتے ہیں تو بھی جانا گے
آ کے قئے دس تجھے لِجانا گے
پورے پیراں کے ہات جوڑونگی
مِٹّھے گھوڑے بنا کو چھوڑونگی
میرے دل کو سکون مل جیئنگا
سُکّی ڈالی پو پھول کھل جئینگا

اب بہو کا جواب ملاحظہ فرمایئے:

باتیں کرتی ہو کِس طرح امّی
بات ہیرا ہے بات موتی ہے
بات ہر بات کو نہیں کہتے
بات مشکل سے بات ہوتی ہے
بات سینے کا داغ ہوتی ہے
بات پھولوں کا باغ ہوتی ہے
بات خیرو ثواب ہوتی ہے
بات قہر و عذاب ہوتی ہے
بات برگِ گلاب ہوتی ہے
بات تیغِ عتاب ہوتی ہے
بات کہتے ہیں ربّ اَرِنی کو
بات اُمّ الکتاب ہوتی ہے
یہ نہ بھولو کہ تم بھی بیٹی ہو
بیٹی ہر گھر کی اک امانت ہے
اِک کی بیٹی جو گھر کو آتی ہے
اپنی بیٹی بھی گھر سے جاتی ہے


 

سید عاطف علی

لائبریرین
دلچسپ دھاگا ہے ۔ کیا یہ بہتر نہ ہو گاکہ اس دھا گے میں محاورے کی جگہ ضرب المثل ہو ۔
محاورہ تو لفظ کو کسی خاص پہلو میں ڈھلے ہوئے معنی تک محدود رکھتا ہے اور اس کے پیچھے کوئی کہانی عموما نہیں ہوتی ۔ جیسے ہوا کھانا ، آنسو پینا ،لہو رونا ،سبز باغ دکھانا،ہونٹ سینا وغیرہ لیکن ضرب المثل البتہ اپنے پیچھے عمومََا ایک کہانی رکھتی ہے جیسا کہ مذکورہ بالا مثالیں ۔
 
دلچسپ دھاگا ہے ۔ کیا یہ بہتر نہ ہو گاکہ اس دھا گے میں محاورے کی جگہ ضرب المثل ہو ۔
محاورہ تو لفظ کو کسی خاص پہلو میں ڈھلے ہوئے معنی تک محدود رکھتا ہے اور اس کے پیچھے کوئی کہانی عموما نہیں ہوتی ۔ جیسے ہوا کھانا ، آنسو پینا ،لہو رونا ،سبز باغ دکھانا،ہونٹ سینا وغیرہ لیکن ضرب المثل البتہ اپنے پیچھے عمومََا ایک کہانی رکھتی ہے جیسا کہ مذکورہ بالا مثالیں ۔

جی بلکل آپ کے اس مشورہ پر ابھی عمل درآمد ہو جاتا ہے
 
دلچسپ دھاگا ہے ۔ کیا یہ بہتر نہ ہو گاکہ اس دھا گے میں محاورے کی جگہ ضرب المثل ہو ۔
محاورہ تو لفظ کو کسی خاص پہلو میں ڈھلے ہوئے معنی تک محدود رکھتا ہے اور اس کے پیچھے کوئی کہانی عموما نہیں ہوتی ۔ جیسے ہوا کھانا ، آنسو پینا ،لہو رونا ،سبز باغ دکھانا،ہونٹ سینا وغیرہ لیکن ضرب المثل البتہ اپنے پیچھے عمومََا ایک کہانی رکھتی ہے جیسا کہ مذکورہ بالا مثالیں ۔

مگر لڑی کا نام کس طرح تبدیل ہوتا ہے یہ تو مجھ کو معلوم ہی نہیں
 
وهی ......مرغ کی ایک ٹانگ

جب سعادت حسن منٹو لاهور کے دماغی شفاخانے میں زیر علاج تھے تو ایک روز انکی بیوی انکے لیے کھانا لیکر آی. " یه کیا هے" منٹو نے سالن کی طرف دیکھ کر پوچھا. مرغ کا گوشت هے بیوی نے جواب دیا. منٹو نے پلیٹ بغور دیکھتے هوے پوچھا " لیکن مرغ کی ٹانگ کهاں هے؟"اسکی بیوی نے بتایا که مرغ کی ٹانگ کھانے کی ڈاکٹر نے ممانعت کی هے صرف شوربے هی سے کھانا کھانے کیلیے کها هے. منٹو نے یه بات سن کر سیخ پا هوتے هوے کها "واه یه بھی عجیب بات هے. مرغ کی ٹانگ کے بغیر گوشت کیا معنی رکھتا هے. مرغ کی ٹانگ هی تو محاورے میں استعمال هوتی هے " بیوی نے بهت کوشش کی شوهر کو کھانا کھلانے کی لیکن منٹو اپنی ضد پر اڑا رها......

وهی ..مرغ کی ایک ٹانگ.
 
Top