محمد حسن شہزادہ
محفلین
اس سلسلے میں ہم اردو، دکنی ،فرنگیہ (انگریزی) اور دیگر زبانوں میں بولے جانے والے محاوروں کے پیچھے چھپی دلچسپ اور منفرد کہانیاں پیش کریں گے اور ان محاوروں کو زندگی میں کس طرح استعمال کر سکتے ہیں اس بارے میں بات کریں گے ۔
سلسلے کو باقاعدہ طور پر شروع کرنے سے پہلے کچھ تعارف محاورے کا کہ آخر محاورہ کس کو کہا جاتا ہے
وکی پیڈیا
(محاورہ : ( جمع= محاورے) ، کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب سے دلچسپ حصہ سمجھے جا سکتے ہیں۔ محاورہ دوسرے الفاظ میں کسی بھی زبان کے "فارمولے" کہلائے جا سکتے ہیں جو کسی بھی صورت حال کو چند الفاظ میں بیان کر دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اردو زبان میں کثرت سے استعمال ہونے والے چند مشہور محاورے درج ذیل ہیں۔* پڑھے نہ لکھے، نام محمد فاضل* مکّہ میں رہتے ہیں مگر حج نہیں کیا* لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔* قاضی جی کے گھر کے چوہے بھی سیانے۔* کمبختی آئے تو اونٹ چڑھے کو کتّا کاٹے۔* آگ کہنے سے منہ نہیں جلتا۔* اللہ ملائے جوڑی، ایک اندھا ایک کوڑھی۔* اندھوں میں کانا راجا۔* کالے صابن مل کر گورے نہیں ہوتے* اپنی گلی میں کتا بھی شیر ہوتا ہے۔* جو سکھ چوبارے۔ بلغ نہ بخارے* اپنے منہ میاں مٹھو* کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا* دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بیر* چٹ منگنی پٹ بیاہ* ایک چپ، سو سکھ* بدن پر نہ لتّا،پان کھائیں البتہ* کھودا پہاڑ نکلا چوہا* مگرمچھ کے آنسو* دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا* گیا ہے سانپ نکل، اب لکیر پیٹا کر* آگ لگنے پر کنواں گھودنا* کتّے کی دم بارہ برس بھی نلکی میں رکھنے کے بعد ٹیڑھی نکلی۔* الٹے بانس بریلی کو لے جانا۔* اشرفیاں لٹیں کوئلوں پر مہر* اپنا عیب بھی ہنر معلوم ہوتا ہے۔* اپنا رکھ پرایا چکھ* لڑے سپاہی نام سرکار کا* آگے کنواں،پیچھے کھائی* آسمان کو تھوکا، منہ پر گرے* آسمان سے گرا،کھجور میں اٹکا* اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑتا* لوہے کو لوہا کاٹتا ہے* آم کھاؤ،پیڑ نہ گنو* اندھیر نگری چوپٹ راج* اندھا بانٹے ریوڑی اپنوں کو* اونٹ کے منہ میں زیرہ* ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں* ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں* ایک تھیلی کے چٹّے بٹّے* ایک انار سو بیمار* باوا بھلا نہ بھّیا، سب سے بڑا روپیہ* بات کا چوکا آدمی، ڈال کا چوکا بندر* بچہ بغل میں،ڈھنڈورا شہر میں * بچھو کا منتر جانتے نہیں، سانپ کے بل میں ہاتھ ڈالنے چلے* بدنامی سے گمنامی اچھی* بغل میں چھری منہ میں رام رام* بڑے بول کا سر نیچا* جائے لاکھ پر رہے ساکھ* بندر کیا جانے ادرک کا سواد* بھوکے بھجّن نہ ہو* پیش از مرگ واویلا* تدبیر نہیں چلتی تقدیر کے آگے* تخت یا تختہ* جسے پیا چاہے وہ ہی سہاگن* جس کا کھانا اسی کا گانا* جہاں دیکھی تری،وہیں بچھادی دری* جتنی چادر دیکھو اتنے پیر پھیلاؤ* جس کا کام اسی کو ساجھے* جس کی لاٹھی اس کی بھینس* جنّت کی غلامی سے جہنم کی حکومت بہتر
دکنی محاورے
دکنی محاورے علاقہ دکن میں دکنی اردو کے ادب میں مروجہ محاورے ہیں۔ دکنی زبان تلنگانہ، آندھرا پردیش،کرناٹک، تمل ناڈو، کیرلا اور مہاراشٹر وغیرہ ریاستوں کے ایک بڑے علاقے میں میں بولی جاتی ہے۔ یہاں کی زبان ایک مختلف لہجہ کی اردو ہے۔ اس میں شیرینی بھی ہے اور ایک لطف اندوز طرز بھی۔ یہاں کے محاورے بڑے ہی دلچسپ ہیں۔ محاوروں کو ضرب المثل بھی کہا جاتا ہے۔ دکنی محاورے عام طور پر اردو ہندی، مراٹھی، بھوج پوری زبانوں کے محاوروں کی طرح ہی ہوتے ہیں، مگر لہجہ اور پیش کش مختلف ہوتی ہے۔
دکنی ادب کے چند محاورے درج ذیل ہیں۔[1]
آگے کنواں پیچھے کھائی
اپنا سونا خراب رہیا تو سنار کو کیا کوسنا
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لڑکا شادی سے قبل تک والدین کا فرماں بردار رہتا ہے۔ شادی کے بعد وہ اپنی بیوی کی طرفداری کرنے لگتا ہے یا والدین کا نافرمان ہوجاتا ہے۔ ان حالات میں ماں کہتی ہے کہ اپنا بیٹا ہی اچھا نہیں ہے بہو کا کچھ قصور نہیں۔ اپنا سونا خراب رہیا تو سنار کو کیا کوسنا۔۔۔
آسمان کے تارے ہاتھ کو آتیں کیا رے
دکنی کے اس محاورے میں اُس لالچی شخص کی طرف اشارہ ہے کہ وہ دنیا حاصل کرلیتا ہے پھر بھی اس کی لالچ پوری نہیں ہوتی۔ ہر وہ چیز حاصل کرنے کی فکر میں رہتا ہے جو اس کی پہنچ سے بہت دور ہے۔ بے وقوفی سے آسمان کے تارے حاصل کرنے کے لیے بلندی پر چڑھ جاتا ہے یعنی اور بھی بہت کچھ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی ماں کہتی ہے آسمان کے تارے ہاتھ کو آتیں کیا رے۔
آسمان پو تھوکے تو اپن پوچ گرتا
دکنی کے اس محاورے میں اُس بے وقوف کی طرف اشارہ ہے کہ جو غصہ میں آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور آسمان کی طرف منھ اُٹھا کر تھوکتا ہے۔ اس بے وقوف کو یہ نہیں معلوم کہ یہ تھوک خود اُس کے منھ پر گرے گا۔
آفت کی پوڑیہ
اس محاورے میں اُس لڑکی کی طرف اشارہ ہے جو اپنی کم عمری کے باوجود چالاک اور مکار اس قدر ہے کہ قیامت کا منظر پیش کر رہی ہے اور ہر کسی کو اپنے جال میں آسانی سے پھانس لیتی ہے۔ بڑی بوڑھی خواتین ایسی لڑکی کو آفت کی پوڑیہ کہتے ہیں۔
آدمی میں بس کو دیکھو سونے کو گِھس کو دیکھو
دکنی کی اس ضرب المثل میں اُس انسان کی مثال دی جارہی ہے جو دیکھنے میں بہت اچھا ہے بات چیت بہت خوب صورت انداز میں کرتا ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ رہ کر دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کس قدر خود غرض اور کم ظرف ہے ۔
اس کی مثال اُس چمکتی چیزکی طرح ہے جو دور سے دیکھنے میں سونا معلوم ہوتی ہے لیکن جب اس چیز کو گھس کردیکھا جاتا ہے تو وہ پیتل رہتا ہے ۔
آڑی کی بلا باڑی پو ۔۔۔ باڑی کی بلا میلی ساڑی والی پو
دکنی کے اس محاورے میں چالاک عورت گھر کے کسی کام میں کچھ خرابی کردیتی ہے ۔ اور اپنی غلطی دوسروں پر ڈالنا چاہتی ہے ۔ اپنے کام کی خرابی ماننے تیار نہیں ہوتی۔ اس کام میں جو دوسری غریب عورت جس کی ساڑی میلی ہوتی ہے ۔اُس کی طرف اشارہ کرکے کہتی ہے یہ کام خراب میں نہیں کی بلکہ وہ میلی ساڑی والی عورت نے کیا ہے ۔
آدھی روٹی چھوڑ کو ساری کو گئے ساری بھی گئی آدھی بھی گئی
دکنی کے اس محاورے میں اُس لالچی انسان کی طرف اشارہ ہے کہ وہ سکون سے آدھی روٹی تو کھارہا تھا لیکن لالچ میں آکراس نے اچھی خاصی ملازمت کو چھوڑ کر دوسری ملازمت کرنے لگتا ہے وہاں کچھ تنخواہ زیادہ ملتی ہے ۔ دوسری ملازمت بھی اس وجہہ سے چھوڑ تا ہے کہ وہاں حد زیادہ تکالیف ہیں۔ اس طرح اس کی دوسری ملازمت بھی جاتی رہی اور پہلی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔
دوستوں اس سلسلے کو میں نے آپ سب کے بھروسے پر شروع کیا ہے کہ آپ سب اس میں شامل ہو کر اس کو مزید بہتر بنانے میں میرا ساتھ دیں گے امید کرتا ہوں کہ آپ سب مجھ کو مایوس نہیں کریں گے
سلسلے کو باقاعدہ طور پر شروع کرنے سے پہلے کچھ تعارف محاورے کا کہ آخر محاورہ کس کو کہا جاتا ہے
وکی پیڈیا
(محاورہ : ( جمع= محاورے) ، کسی بھی زبان کا حسن ہوتے ہیں۔ خاص کر اردو زبان کے محاورے اس کا سب سے دلچسپ حصہ سمجھے جا سکتے ہیں۔ محاورہ دوسرے الفاظ میں کسی بھی زبان کے "فارمولے" کہلائے جا سکتے ہیں جو کسی بھی صورت حال کو چند الفاظ میں بیان کر دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اردو زبان میں کثرت سے استعمال ہونے والے چند مشہور محاورے درج ذیل ہیں۔* پڑھے نہ لکھے، نام محمد فاضل* مکّہ میں رہتے ہیں مگر حج نہیں کیا* لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے۔* قاضی جی کے گھر کے چوہے بھی سیانے۔* کمبختی آئے تو اونٹ چڑھے کو کتّا کاٹے۔* آگ کہنے سے منہ نہیں جلتا۔* اللہ ملائے جوڑی، ایک اندھا ایک کوڑھی۔* اندھوں میں کانا راجا۔* کالے صابن مل کر گورے نہیں ہوتے* اپنی گلی میں کتا بھی شیر ہوتا ہے۔* جو سکھ چوبارے۔ بلغ نہ بخارے* اپنے منہ میاں مٹھو* کوئلوں کی دلالی میں منہ کالا* دریا میں رہ کر مگرمچھ سے بیر* چٹ منگنی پٹ بیاہ* ایک چپ، سو سکھ* بدن پر نہ لتّا،پان کھائیں البتہ* کھودا پہاڑ نکلا چوہا* مگرمچھ کے آنسو* دھوبی کا کتا گھر کا نہ گھاٹ کا* گیا ہے سانپ نکل، اب لکیر پیٹا کر* آگ لگنے پر کنواں گھودنا* کتّے کی دم بارہ برس بھی نلکی میں رکھنے کے بعد ٹیڑھی نکلی۔* الٹے بانس بریلی کو لے جانا۔* اشرفیاں لٹیں کوئلوں پر مہر* اپنا عیب بھی ہنر معلوم ہوتا ہے۔* اپنا رکھ پرایا چکھ* لڑے سپاہی نام سرکار کا* آگے کنواں،پیچھے کھائی* آسمان کو تھوکا، منہ پر گرے* آسمان سے گرا،کھجور میں اٹکا* اکیلا چنا بھاڑ نہیں پھوڑتا* لوہے کو لوہا کاٹتا ہے* آم کھاؤ،پیڑ نہ گنو* اندھیر نگری چوپٹ راج* اندھا بانٹے ریوڑی اپنوں کو* اونٹ کے منہ میں زیرہ* ایک میان میں دو تلواریں نہیں رہ سکتیں* ایک اور ایک گیارہ ہوتے ہیں* ایک تھیلی کے چٹّے بٹّے* ایک انار سو بیمار* باوا بھلا نہ بھّیا، سب سے بڑا روپیہ* بات کا چوکا آدمی، ڈال کا چوکا بندر* بچہ بغل میں،ڈھنڈورا شہر میں * بچھو کا منتر جانتے نہیں، سانپ کے بل میں ہاتھ ڈالنے چلے* بدنامی سے گمنامی اچھی* بغل میں چھری منہ میں رام رام* بڑے بول کا سر نیچا* جائے لاکھ پر رہے ساکھ* بندر کیا جانے ادرک کا سواد* بھوکے بھجّن نہ ہو* پیش از مرگ واویلا* تدبیر نہیں چلتی تقدیر کے آگے* تخت یا تختہ* جسے پیا چاہے وہ ہی سہاگن* جس کا کھانا اسی کا گانا* جہاں دیکھی تری،وہیں بچھادی دری* جتنی چادر دیکھو اتنے پیر پھیلاؤ* جس کا کام اسی کو ساجھے* جس کی لاٹھی اس کی بھینس* جنّت کی غلامی سے جہنم کی حکومت بہتر
- سونے پہ سوہاگہ
- تیروں سے بارش
- ایک انار سو بیمار
- طے شدہ، بہہ شدہ* جو سوچ، وہ کھوج
- آ بیل مجھے مار)
دکنی محاورے
دکنی محاورے علاقہ دکن میں دکنی اردو کے ادب میں مروجہ محاورے ہیں۔ دکنی زبان تلنگانہ، آندھرا پردیش،کرناٹک، تمل ناڈو، کیرلا اور مہاراشٹر وغیرہ ریاستوں کے ایک بڑے علاقے میں میں بولی جاتی ہے۔ یہاں کی زبان ایک مختلف لہجہ کی اردو ہے۔ اس میں شیرینی بھی ہے اور ایک لطف اندوز طرز بھی۔ یہاں کے محاورے بڑے ہی دلچسپ ہیں۔ محاوروں کو ضرب المثل بھی کہا جاتا ہے۔ دکنی محاورے عام طور پر اردو ہندی، مراٹھی، بھوج پوری زبانوں کے محاوروں کی طرح ہی ہوتے ہیں، مگر لہجہ اور پیش کش مختلف ہوتی ہے۔
دکنی ادب کے چند محاورے درج ذیل ہیں۔[1]
آگے کنواں پیچھے کھائی
- مطلب جان مشکل میں آئی
اپنا سونا خراب رہیا تو سنار کو کیا کوسنا
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لڑکا شادی سے قبل تک والدین کا فرماں بردار رہتا ہے۔ شادی کے بعد وہ اپنی بیوی کی طرفداری کرنے لگتا ہے یا والدین کا نافرمان ہوجاتا ہے۔ ان حالات میں ماں کہتی ہے کہ اپنا بیٹا ہی اچھا نہیں ہے بہو کا کچھ قصور نہیں۔ اپنا سونا خراب رہیا تو سنار کو کیا کوسنا۔۔۔
آسمان کے تارے ہاتھ کو آتیں کیا رے
دکنی کے اس محاورے میں اُس لالچی شخص کی طرف اشارہ ہے کہ وہ دنیا حاصل کرلیتا ہے پھر بھی اس کی لالچ پوری نہیں ہوتی۔ ہر وہ چیز حاصل کرنے کی فکر میں رہتا ہے جو اس کی پہنچ سے بہت دور ہے۔ بے وقوفی سے آسمان کے تارے حاصل کرنے کے لیے بلندی پر چڑھ جاتا ہے یعنی اور بھی بہت کچھ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی ماں کہتی ہے آسمان کے تارے ہاتھ کو آتیں کیا رے۔
آسمان پو تھوکے تو اپن پوچ گرتا
دکنی کے اس محاورے میں اُس بے وقوف کی طرف اشارہ ہے کہ جو غصہ میں آپے سے باہر ہو جاتا ہے اور آسمان کی طرف منھ اُٹھا کر تھوکتا ہے۔ اس بے وقوف کو یہ نہیں معلوم کہ یہ تھوک خود اُس کے منھ پر گرے گا۔
آفت کی پوڑیہ
اس محاورے میں اُس لڑکی کی طرف اشارہ ہے جو اپنی کم عمری کے باوجود چالاک اور مکار اس قدر ہے کہ قیامت کا منظر پیش کر رہی ہے اور ہر کسی کو اپنے جال میں آسانی سے پھانس لیتی ہے۔ بڑی بوڑھی خواتین ایسی لڑکی کو آفت کی پوڑیہ کہتے ہیں۔
آدمی میں بس کو دیکھو سونے کو گِھس کو دیکھو
دکنی کی اس ضرب المثل میں اُس انسان کی مثال دی جارہی ہے جو دیکھنے میں بہت اچھا ہے بات چیت بہت خوب صورت انداز میں کرتا ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ رہ کر دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کس قدر خود غرض اور کم ظرف ہے ۔
اس کی مثال اُس چمکتی چیزکی طرح ہے جو دور سے دیکھنے میں سونا معلوم ہوتی ہے لیکن جب اس چیز کو گھس کردیکھا جاتا ہے تو وہ پیتل رہتا ہے ۔
آڑی کی بلا باڑی پو ۔۔۔ باڑی کی بلا میلی ساڑی والی پو
دکنی کے اس محاورے میں چالاک عورت گھر کے کسی کام میں کچھ خرابی کردیتی ہے ۔ اور اپنی غلطی دوسروں پر ڈالنا چاہتی ہے ۔ اپنے کام کی خرابی ماننے تیار نہیں ہوتی۔ اس کام میں جو دوسری غریب عورت جس کی ساڑی میلی ہوتی ہے ۔اُس کی طرف اشارہ کرکے کہتی ہے یہ کام خراب میں نہیں کی بلکہ وہ میلی ساڑی والی عورت نے کیا ہے ۔
آدھی روٹی چھوڑ کو ساری کو گئے ساری بھی گئی آدھی بھی گئی
دکنی کے اس محاورے میں اُس لالچی انسان کی طرف اشارہ ہے کہ وہ سکون سے آدھی روٹی تو کھارہا تھا لیکن لالچ میں آکراس نے اچھی خاصی ملازمت کو چھوڑ کر دوسری ملازمت کرنے لگتا ہے وہاں کچھ تنخواہ زیادہ ملتی ہے ۔ دوسری ملازمت بھی اس وجہہ سے چھوڑ تا ہے کہ وہاں حد زیادہ تکالیف ہیں۔ اس طرح اس کی دوسری ملازمت بھی جاتی رہی اور پہلی سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔
دوستوں اس سلسلے کو میں نے آپ سب کے بھروسے پر شروع کیا ہے کہ آپ سب اس میں شامل ہو کر اس کو مزید بہتر بنانے میں میرا ساتھ دیں گے امید کرتا ہوں کہ آپ سب مجھ کو مایوس نہیں کریں گے