ظفری نے کہا:ہاں یہ بھی ایک مسئلہ ہے ۔
خیر میں آپ کے دھاگے کی بقا کے لیئے اپنی طرف سے بھی ایک محاورہ ارسال کرتا جاؤں۔
چوہا لنڈُورا ہی بھلا
دھت تیرے کی کے بارے میںنہیںبتایا محب بھائی۔محب علوی نے کہا:دور کے ڈھول سہانے
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کچھ نوجوان کسی کھیت یا باغ میں جمع ہو کر خوش گپیاں کیا کرتے تھے، ایسے میں انہیں ایک مدھر ساز کی آواز سنا کرتی تھی اور وہ باتوں کے ساتھ ساتھ اس پر سر بھی دھنتے جاتے تھے کہ کیا جادوئی ساز ہے جس سے اتنے عمدہ سر نکل رہے ہیں۔ ایک دن وہ سب مل کر اس ساز کی آواز کو ڈھونڈنے نکل پڑے اور جب انہوں نے قریب جا کر سنا تو وہ ایک تیز اور چھبنے والا ساز نکلا جس کا نام ڈھول تھا۔ اس پر ان میں سے کسی نے بے اختیار کہا کہ دھت ترے کی
دور کے ڈھول سہانے