ضرب الامثال

شمشاد

لائبریرین
اردو کے بہت سارے محاورے ہم روزمرہ کی زندگی میں استعمال کرتے ہیں۔ کچھ ایسے بھی ہوں گے جو متروک ہو چکے ہیں۔ شاید آپ کی وجہ سے وہ دوبارہ زندہ ہو جائیں۔ تو لکھتے ہیں اردو کا ایک محاورہ ؛

آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل
 

ظفری

لائبریرین
آپ نے ایک بہت ہی اچھا سلسلہ شروع کیا ہے ۔ مگر کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ ہم محاوروں کیساتھ ساتھ وہ کہانیاں اور قصے بھی یہاں پیش کرنے کی کوشش کریں جن کی وجہ سے یہ محاورات اور ضرب الامثال وجود میں آئیں۔
کیا خیال ہے ۔۔۔۔ ؟
 

شمشاد

لائبریرین
بہت اچھی تجویز ہے، میرے ذہن میں بھی تھی لیکن بہت سارے اراکین طوالت کی وجہ سے شرکت کرنے سے گریز کریں گے کہ اردو ٹائپ کرنا بھی ایک مسئلہ ہے۔

اگر کوئی رکن محاورے کے پیچھے جو کہانی ہے لکھنا چاہئے تو سونے پہ سہاگے والی بات ہو گی۔

محاور بھی لکھتا جاؤں

نو نقد نہ تیرہ ادھار
 

ظفری

لائبریرین
ہاں یہ بھی ایک مسئلہ ہے ۔
خیر میں آپ کے دھاگے کی بقا کے لیئے اپنی طرف سے بھی ایک محاورہ ارسال کرتا جاؤں۔

چوہا لنڈُورا ہی بھلا
 

شمشاد

لائبریرین
ظفری نے کہا:
ہاں یہ بھی ایک مسئلہ ہے ۔
خیر میں آپ کے دھاگے کی بقا کے لیئے اپنی طرف سے بھی ایک محاورہ ارسال کرتا جاؤں۔

چوہا لنڈُورا ہی بھلا

میرے خیال میں تو یہ ایسے ہے :

“بخشو بی بلی چوہا لنڈورہ ہی بھلا“
 
فاتحہ نہ درود مر گیا مردود

اس محاورے کے پیچھے کی کہانی تو مجھے آتی ہے مگر وہ ایک گروہ کے لیے باعثِ آزار ہوگی
 

شمشاد

لائبریرین
جہڑا بولے او ہی کنڈا کھولے
(جو بولے وہی کنڈی کھولے)

بہت سارے لوگ ایک کمرے میں سو رہے تھے کہ دفعتہً کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا، سردی کا موسم، نرم گرم بستر، اب کسی کا اٹھنے کو جی نہ چاہے، ہر کوئی خاموش دبک کر لیٹا رہا۔ آنے والا مسلسل دروازہ کھٹکھٹاتا رہا، آخر کار ایک بولا ‘ کون ہے‘ سوال جواب کے آخر میں اسی کو اٹھ کر دروازہ کھولنا پڑا۔
 
دور کے ڈھول سہانے

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کچھ نوجوان کسی کھیت یا باغ میں جمع ہو کر خوش گپیاں کیا کرتے تھے، ایسے میں انہیں ایک مدھر ساز کی آواز سنا کرتی تھی اور وہ باتوں کے ساتھ ساتھ اس پر سر بھی دھنتے جاتے تھے کہ کیا جادوئی ساز ہے جس سے اتنے عمدہ سر نکل رہے ہیں۔ ایک دن وہ سب مل کر اس ساز کی آواز کو ڈھونڈنے نکل پڑے اور جب انہوں نے قریب جا کر سنا تو وہ ایک تیز اور چھبنے والا ساز نکلا جس کا نام ڈھول تھا۔ اس پر ان میں سے کسی نے بے اختیار کہا کہ دھت ترے کی

دور کے ڈھول سہانے
 

قیصرانی

لائبریرین
محب علوی نے کہا:
دور کے ڈھول سہانے

ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کچھ نوجوان کسی کھیت یا باغ میں جمع ہو کر خوش گپیاں کیا کرتے تھے، ایسے میں انہیں ایک مدھر ساز کی آواز سنا کرتی تھی اور وہ باتوں کے ساتھ ساتھ اس پر سر بھی دھنتے جاتے تھے کہ کیا جادوئی ساز ہے جس سے اتنے عمدہ سر نکل رہے ہیں۔ ایک دن وہ سب مل کر اس ساز کی آواز کو ڈھونڈنے نکل پڑے اور جب انہوں نے قریب جا کر سنا تو وہ ایک تیز اور چھبنے والا ساز نکلا جس کا نام ڈھول تھا۔ اس پر ان میں سے کسی نے بے اختیار کہا کہ دھت ترے کی

دور کے ڈھول سہانے
دھت تیرے کی کے بارے میں‌نہیں‌بتایا محب بھائی۔
الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے۔
بے بی ہاتھی
 
Top