ارشد رشید
محفلین
وارث صاحب میں اسے ضرورت شعری نہیں سمجھتا ہوں بلکہ غالب کی علمیت سمجھتا ہوںاس میں قافیہ کافر ہے۔ کافر عربی لفظ ہے اور فے کی زیر کے ساتھ ہے لیکن مرزا نے یہاں اسے فے کی زبر کے ساتھ قافیہ بنایا ہے۔
کافِر زیر کے ساتھ تو وہی لفظ ہے جو اردو میں مستعمل ہے یعنی کُفر کرنے والا -( کسی چیز کا انکار کرنے والا) یہ active participle ہے - یعنی کفر کا عمل کرنے والا -
مگر عربی قواعد میں اسکی ایک اور شکل کفَر بھی ہے یعنی ف کے زبر کے ساتھ - جسکا ذرا معنی الگ ہے
یہ عربی میں زمانہ حال کے لیئے استعمال ہوتا ہے اور یہ اس عمل یعنی کُفر کے عمل کے لیئے استعمال ہوتا ہے - یعنی کفر بذاتِ خود- گویا وہ شخص جو ابھی کسی چیز کا انکاری ہے مستقل حالتِ انکار میں نہیں ہے - کافِر عموما مذہبی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتا ہے جبکہ کافَر سمجھ لیں ایک عمومی اصطلاح ہے -
غالب کا کہنا آخر گناہ گار ہوں کافر نہیں ہوں میں - مطلب میں گناہ گار ہوں - کافِر نہیں ہوں کیونکہ س وقت عمل کفر میں نہیں ہوں یعنی عربی کے قواعد کی رو سے ابھی انکار ی نہیں ہوں - مطلب یہ ہوا کہ ایسا نہیں ہے کہ میں کسی چیز کے انکار میں پڑا ہو ا ہو ں بس گنہ گار ہوں -
یہ عربی کی گرامر کی باریکیاں ہیں اور اردو میں مستعمل نہیں ہیں - غالب کو یہاں قافیہ زبر کے ساتھ چاہیئے تھا تو عربی گرامر کی اپنی معلومات کو استعمال کیا ہے - میرے نزدیک
یہ کوئ غلطی نہیں ہے غالب کی زبان دانی ہے -
آخری تدوین: