قبلہ وارث صاحب ، اس عاجز کی صدا پر لبیک کہنے کا شکریہ!
مجھے امید ہے کہ شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والے دیگر دوست بھی اس لڑی کے مقصد کو پورا کرنے میں مدد دیں گے اور رفتہ رفتہ مطلوبہ مثالوں کا ایک ذخیرہ یہاں جمع ہوجائے گا۔
اردو میں کافر کا لفظ فائے مکسور اور فائے مفتوح دونوں تلفظات کے ساتھ مستعمل ہے ۔ عام گفتگو میں بھی دونوں تلفظ استعمال کیے جاتے ہیں اور شعر میں بھی۔ فرہنگِ آصفیہ نے واضح طور پر اس کے دونوں تلفظ درج کیے ہیں۔ میں ذیل میں فائے مفتوح یعنی کافَر کی کچھ امثال درج کرتا ہوں ۔
اے ذوقؔ دیکھ دخترِ رز کو نہ منہ لگا
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
(ذوقؔ)
چھوڑوں گا میں نہ اُس بتِ کافر کا پوجنا
چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافر کہے بغیر
(غالبؔ)
نہ سمجھا عمر گزری اُس بتِ کافر کو سمجھاتے
پگھل کر موم ہوجاتا اگر پتھر کو سمجھاتے
(داغؔ)
ایمان کی تو یہ ہے غضب ہیں بتانِ ہند
اپنا ہی سا مجھے بھی یہ کافر بنائیں گے
(داغؔ)
پنجاب کے اربابِ نبوت کی شریعت
کہتی ہے کہ یہ مومنِ پارینہ ہے کافر
(اقبالؔ)
سمجھا رہے تھے مجھ کو سبھی ناصحانِ شہر
پھر رفتہ رفتہ خود اُسی کافر کے ہوگئے
(فرازؔ)
چنانچہ غالب کے شعر میں کافَر کا استعمال لغت کے عین مطابق ہے اور کسی لسانی اصول کے خلاف نہیں۔
شکریہ ظہیر صاحب قبلہ، آپ کا قیمتی اور معلوماتی مراسلہ پڑھنے کے بعد بہت سی باتیں یاد آ گئیں۔
میرے خیال میں ایسے الفاظ کی بھی ایک فہرست بنا دینی چاہیئے۔ ایک اور مثال جو میرے ذہن میں آ رہی ہے وہ عربی لفظ موسم کی ہے۔ یہ بھی سین کی زیر کے ساتھ ہے لیکن ایک غزل میں امجد اسلام امجد نے اسے نم اور غم کا قافیہ موسَم بنایا ہے:
کسی کی آنکھ جو پر نم نہیں ہے
نہ سمجھو یہ کہ اس کو غم نہیں ہے
سوادِ درد میں تنہا کھڑا ہوں
پلٹ جاؤں مگر موسم نہیں ہے
امجد اسلام امجد ظاہر ہے اس درجے کی سند تو نہیں ہو سکتے لیکن ہو سکتا ہے موسم بھی کافر کی طرح اردو میں دونوں تلفظوں سے رائج ہو گیا ہو اور ڈھونڈنے سے کسی استاد کی سند بھی مل جائے۔