ضرورتِ شعری

فرہنگِ آصفیہ نے واضح طور پر اس کے دونوں تلفظ درج کیے ہیں۔
کل شب میں نے بھی فرہنگ آصفیہ سے رجوع کیا تھا، مجھے تو حیرت ہوئی کہ دہلوی صاحب نے کیوں غلط تلفظ کو لغت میں جگہ دی ... کیا کافر بالفتح فا فارسی سے اردو میں وارد ہوا؟ یا اہل ہند کی اختراع ہے؟ تعجب ویسے اساتذہ پر بھی ہوا کہ خواہ مخواہ ضرورت شعری کے نام پر غلط تلفظ کو دوام دیا، حالانکہ اساتذہ کا وظیفہ ہی عوام کی اغلاط کی درستی ہونا چاہیے ...
ضرورت شعری کی مجھے تو اچھی مثال لگی (اس بحث کے بعد)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کل شب میں نے بھی فرہنگ آصفیہ سے رجوع کیا تھا، مجھے تو حیرت ہوئی کہ دہلوی صاحب نے کیوں غلط تلفظ کو لغت میں جگہ دی ... کیا کافر بالفتح فا فارسی سے اردو میں وارد ہوا؟ یا اہل ہند کی اختراع ہے؟ تعجب ویسے اساتذہ پر بھی ہوا کہ خواہ مخواہ ضرورت شعری کے نام پر غلط تلفظ کو دوام دیا، حالانکہ اساتذہ کا وظیفہ ہی عوام کی اغلاط کی درستی ہونا چاہیے ...
ضرورت شعری کی مجھے تو اچھی مثال لگی (اس بحث کے بعد)
راحل بھائی ،
آپ کا مراسلہ پڑھ کر حیرت ہوئی ۔ آپ نے کافر بفتح دوم کو غلط تلفظ کیوں کہا؟!
لسانیات کا مسلمہ اصول ہے کہ لفظ خواہ عربی سے آیا ہو یا فارسی سے یا کسی اور زبان سے جب وہ لفظ اردو میں آگیا تو جس طرح اہلِ اردو اسے برتیں گے وہ معتبر مانا جائے گا۔ عربی اور فارسی کے ایسے سینکڑوں الفاظ ہیں کہ جن کا تلفظ اور معنی اردو میں آکر بدل گئے ہیں۔ اب ان الفاظ پر عربی فارسی کی لغت یا گرامر کا اطلاق نہیں کیا جائے گا بلکہ جس طرح یہ الفاظ اردو میں مستعمل ہوگئے اسی کو فصیح اور معیار مانا جائے گا۔ کافر بفتح دوم نہ صرف یہ کہ عام بولا جاتا ہے بلکہ ہر دور میں اساتذہ نے اسی طرح باندھا بھی ہے ۔ ہمارے خاندان میں اسی طرح بولا جاتا ہے اور میں نے متعدد اصحاب علم کو یونہی بولتے سنا ہے ۔ اس کے دونوں تلفظ رائج ہیں ۔
اور جہاں تک آپ حضرات کی "آج کی بحث" کا تعلق ہے تو پہلے ہی عرض کیا کہ کسی بھی لفظ کی تارید ہونے کے بعد اس پر اصل زبان کے قواعد نہیں بلکہ اردو کے قواعد لاگو ہوں گے ۔ اس میں کسی قسم کی بحث کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے ۔ یہ لسانیات کا ایک مسلمہ اور معروف اصول ہے ۔
اسی سے ملتے جلتے موضوع پر حال ہی میں مشکور اور ممنون کے بارے میں ایک مضمون بھی میں نے لگایا تھا ۔ اسے بھی دیکھ لیجیے ۔
ج
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
رہزنی ہے کہ دلستانی ہے
لے کے دل دلستاں روانہ ہوا

یہاں " نہ ہوا" ردیف تھی۔ضرورت شعری کی وجہ سے "روانہ " باندھنا پڑا " یعنی روانہ سے " نہ" کو کاٹ کر داخلِ ردیف کیا اس کو قافیہ معمولہ تخلیلی کہتے ہیں۔

اقتباس از مضمون، علمِ قافیہ / پروفیسر حمید اللہ شاہ ہاشمی
علی بھائی ، قافیہ معمولہ تو قافیے کی ایک قسم ہے اور قافیے کے اصولوں کے مطابق ہے ۔ بلکہ اکثر اس کو شعر کے محاسن میں شمار کیا جاتا ہے ۔اس میں کسی عروضی اصول کو نہیں توڑا گیا ۔ چنانچہ یہ ضرورت شعری کے ضمن میں نہیں آئے گا ۔ ضرورت شعری کی تعریف میں بنیادی بات یہ ہے کہ وہاں کسی اصول سے انحراف کیا گیا ہو ۔
 
لسانیات کا مسلمہ اصول ہے کہ لفظ خواہ عربی سے آیا ہو یا فارسی سے یا کسی اور زبان سے جب وہ لفظ اردو میں آگیا تو جس طرح اہلِ اردو اسے برتیں گے وہ معتبر مانا جائے گا۔
عربی سے درست تلفظ اردو میں آیا تو ہے ... اور معروف بھی ہے ...پھر خواہ مخواہ اس میں بگاڑ پیدا کرنے کی کیا ضرورت رہی؟ کافر تو بفتح فا عام بول چال میں بھی کبھی بھلا نہیں لگتا ... یا یہ ہو کہ شروع سے ہی غلط تلفظ یا معنی رواج اس طور رواج پا گئے ہوں کہ اصل معنی یکسر فراموش ہو چکے ہوں تو کوئی بات بھی ہے ... جیسےلفظ صحن ہے، شاید کوئی اسے پلیٹ کے معنی میں استعمال کرتا ہو ... مگر لفظ کافر تو اردو میں قدیما درست تلفظ کے ساتھ رائج رہا ہے، پھر خواہ مخواہ ایک غلط تلفظ کو رواج دینے کا کیا جواز ہے؟ لسانیات کے اصول اپنی جگہ لیکن اہل زبان کی شعوری کوشش یہی ہونی چاہیے کہ کسی غیر زبان کے لفظ کو اپناتے ہوئے اس کے اصل تلفظ کی حتی الوسع رعایت رکھیں، جبکہ کوئی صوتیاتی مجبوری بھی نہ ہو.
 

La Alma

لائبریرین

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
عربی سے درست تلفظ اردو میں آیا تو ہے ... اور معروف بھی ہے ...پھر خواہ مخواہ اس میں بگاڑ پیدا کرنے کی کیا ضرورت رہی؟ کافر تو بفتح فا عام بول چال میں بھی کبھی بھلا نہیں لگتا ... یا یہ ہو کہ شروع سے ہی غلط تلفظ یا معنی رواج اس طور رواج پا گئے ہوں کہ اصل معنی یکسر فراموش ہو چکے ہوں تو کوئی بات بھی ہے ... جیسےلفظ صحن ہے، شاید کوئی اسے پلیٹ کے معنی میں استعمال کرتا ہو ... مگر لفظ کافر تو اردو میں قدیما درست تلفظ کے ساتھ رائج رہا ہے، پھر خواہ مخواہ ایک غلط تلفظ کو رواج دینے کا کیا جواز ہے؟ لسانیات کے اصول اپنی جگہ لیکن اہل زبان کی شعوری کوشش یہی ہونی چاہیے کہ کسی غیر زبان کے لفظ کو اپناتے ہوئے اس کے اصل تلفظ کی حتی الوسع رعایت رکھیں، جبکہ کوئی صوتیاتی مجبوری بھی نہ ہو.
راحل بھائی ، لگتا ہے کہ آج آپ کی طرف حیران کرنے کا دن منایا جارہا ہے . :):):)
اردو جب اول اول بن رہی تھی تو عربی فارسی کے الفاظ یقینا اپنے اصل تلفظ کے ساتھ ہی آئے تھے لیکن کچھ لفظوں میں وقت کے ساتھ ساتھ بتدریج بگاڑ یا تبدیلی پیدا ہوتی گئی۔ اردو نے ایک وسیع علاقے میں پرورش پائی اور مختلف لوگوں اور معاشروں میں پروان چڑھی۔ چنانچہ بہت سارے الفاظ کے تلفظ ، تجنیس اور املا میں اختلاف کا پیدا ہوجانا ایک فطری سی بات ہے ۔ اب اس سوال کا جواب دینا انتہائی مشکل بلکہ ناممکن ہوگا کہ قفلی کب اور کیوں اور کیسے قلفی بن گیا ۔ ایک لفظ جو مذکر تھا وہ کب اور کیوں مؤنث بن گیا۔ زبان میں تغیر بہت آہستہ اور غیر محسوس طریقے پر آتا ہے ۔ شاعر حضرات نے تو لفظ کو اسی طرح استعمال کیا ہے کہ جیسا وہ اہل زبان میں رائج ہے ۔ انہوں نے اپنی طرف سے تو الفاظ ایجاد نہیں کیے ۔ اگر کسی لفظ کے دو تلفظ رائج ہیں تو وہ اپنی سہولت کے حساب سے انہیں استعمال کریں گے۔
راحل بھائی ۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ غالب اور ذوق نے اگر کافر کا غلط یا عوامی تلفظ باندھا ہوتا تو ان کے مخالفین اور معترضین ان کو کچھ نہ کہتے اور چپ چاپ برداشت کر لیتے؟ داغ اور غالب نے تو کافر کا یہ تلفظ ایک سے زیادہ بار استعمال کیا ہے ۔ غالب کی فصاحت تو میری رائے میں مستند ہے ۔ میں غالب کی غزل میں کسی عوامی یا غیر فصیح تلفظ کی امید نہیں رکھتا۔ حاصل کلام یہ کہ کافر کے دونوں تلفظ معیاری اور فصیح ہیں ۔
 

ارشد رشید

محفلین
ہو نہ یہ پھول تو بلبل کا ترنّم بھی نہ ہو
چمنِ دہر میں کلیوں کا تبسّم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو پھر مَے بھی نہ ہو خُم بھی نہ ہو
بزمِ توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو
خیمہ افلاک کا اِستادہ اسی نام سے ہے
نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے
(حضرت علامہ محمد اقبال)

اِستادہ (کھڑا ہوا، تنا ہوا ، فارسی مصدر ’’ایستادن‘‘ سے مشتق ہے جس کا مفہوم ہے ’’کھڑا ہونا‘‘، اس کا الٹ ’’نشستن‘‘ ہے جس کا معنی ہے ’’بیٹھ جانا‘‘، ضرورتِ شعری کی وجہ سے ’’ایستادن‘‘ کو ’’اِستادن‘‘ کہا گیا ہے) - اقتباس از مضمون تفہیمِ اقبال: جوابِ شکوہ)

سر میں پھر عرض کروں گا کہ یہ کوئ ضرورت ِ شعر ی نہیں ہے - فارسی زبان اردو سے مختلف ہے - فارسی کے قواعد میں تخفیف و ترخیم کے قاعدے کے تحت اس طرح کے عمل کثرت سے ہیں -
اسی تخفیف و ترخیم سے ابراہیم کو براہیم بھی لکھا جا سکتا ہے - آپ کو ان مثالوں سے اساتذہ کا کلام بھرا ملے گا اور یہ کوئ غلطی ہر گز نہیں ہے لہذا آپ اسے ضرورتِ شعری کہہ کر اعتراض نہیں کر سکتے - یہ تو بات ٹھیک ہے کہ یہاں شعر کی ضرورت تھی کی ایستادہ کے بجائے استادہ وزن میں آئے گا مگر یہ لفظ شاعر نے کسی آسانی کے لیے کسی قاعدے کو توڑ کر نہیں بھرا ہے بلکہ ایک قاعدے کو استعمال کر کے لایا ہے

اور آخر میں ایک ڈس کلیمر - میں فارسی کا بھی عالم نہیں ہوں - تمام محفلیں سے گزارش ہے کہ اگر میری بات غلط ہے تو تمیز کے دائرے میں رہ کر علمی جواب دیجیئے - اور براے کرم مجھ پہ کوئ لطیفہ بھی چسپاں نہ کیجیئے - یہاں کا ایسا وتیرہ میری بر داشت سے باہر ہو رہا ہے - ایسی بحث کا کوئ فائدہ نہیں جہاں سامنے والا خود کو حرفِ آخر سمجھتے ہوئے تمسخر سے بات کرے - آپ مجھے علمی دلیل سے قائل کریں میں آپ کا شکریہ ادا کر کے اپنے علم میں اضافہ کر لوں گا -
 
راحل بھائی ۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ غالب اور ذوق نے اگر کافر کا غلط یا عوامی تلفظ باندھا ہوتا تو ان کے مخالفین اور معترضین ان کو کچھ نہ کہتے اور چپ چاپ برداشت کر لیتے؟
میرا گلہ تو یہی ہے کہ غالب اور داغ کے پائے کے اساتذہ کو تو اس بات کا زیادہ التزام کرنا چاہیے تھا کہ تلفظ کی رعایت رکھتے ... یہ تو "کیچ 22" والی صورتحال ہو گئی ایک طرح سے ... خیر مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ اب میں بحث برائے بحث کی طرف جارہا ہوں اس لیے اس قضیے کو یہیں تمام کرتا ہوں :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
میرا گلہ تو یہی ہے کہ غالب اور داغ کے پائے کے اساتذہ کو تو اس بات کا زیادہ التزام کرنا چاہیے تھا کہ تلفظ کی رعایت رکھتے ... یہ تو "کیچ 22" والی صورتحال ہو گئی ایک طرح سے ... خیر مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ اب میں بحث برائے بحث کی طرف جارہا ہوں اس لیے اس قضیے کو یہیں تمام کرتا ہوں :)
راحل بھائی ، یقیناً آج آپ یومِ حیرانی منارہے ہیں۔:):):)
آپ توبات سمجھ ہی نہیں رہے ہیں ۔ میں آپ کو یہ سمجھانے کی کوشش کرر ہا ہوں کہ داغؔ اور غالبؔ ایسی کوشش تو تب کرتے جب وہ اس بات کے قائل ہوتے کہ کافر بالفتح دوم غلط ہے۔ وہ تو اس لفظ کے دونوں تلفظات کو درست اور فصیح سمجھتے تھے کیونکہ یہ دونوں تلفظ اہلِ اردو میں اسی طرح رائج چلے آرہے تھے۔ اسی لیے انہوں نے اس تلفظ کو اپنی شاعری میں برتا ۔

اس بات کو اس مثال سے سمجھیے کہ عربی لفظ دکان بہ تشدید دوم درست ہے اور شروع میں اسی طرح اردو میں آیا ۔ میرؔ نے ایک شعر میں دکان بروزن فعلان استعمال بھی کیا ہے ۔ لیکن پھر رفتہ رفتہ اس کا تلفظ بدل کر دکان بروزن فعول ہوگیا اور یہی فصیح ہوگیا۔ تو کیا اب مجھے بطور شاعر یہ تحریک چلانی چاہیے کہ میاں آپ سب لوگ اس لفظ کو غلط تلفظ کے ساتھ استعمال کرتے آئے ہیں اس کا اصل تلفظ تشدید کے ساتھ ہے۔ نہیں ۔ اگر میں ایسا کروں گا تو لوگ مذاق اڑائیں گے کہ اسے تو زبان کے اصولوں کا پتہ ہی نہیں ہے ۔ جو لفظ جس تلفظ ، معنی ، تعدید اور تجنیس کے ساتھ اہلِ زبان میں رائج ہوگیا وہ اسی طرح درست ہے ۔ جس طرح وہ اس لفظ کو استعما ل کرتے ہیں وہی معیار ہے خواہ وہ اصل زبان کے خلاف ہی کیوں نہ ہو۔

محمد احسن سمیع راحلؔ
 

علی وقار

محفلین
سر میں پھر عرض کروں گا کہ یہ کوئ ضرورت ِ شعر ی نہیں ہے - فارسی زبان اردو سے مختلف ہے - فارسی کے قواعد میں تخفیف و ترخیم کے قاعدے کے تحت اس طرح کے عمل کثرت سے ہیں -
اسی تخفیف و ترخیم سے ابراہیم کو براہیم بھی لکھا جا سکتا ہے - آپ کو ان مثالوں سے اساتذہ کا کلام بھرا ملے گا اور یہ کوئ غلطی ہر گز نہیں ہے لہذا آپ اسے ضرورتِ شعری کہہ کر اعتراض نہیں کر سکتے - یہ تو بات ٹھیک ہے کہ یہاں شعر کی ضرورت تھی کی ایستادہ کے بجائے استادہ وزن میں آئے گا مگر یہ لفظ شاعر نے کسی آسانی کے لیے کسی قاعدے کو توڑ کر نہیں بھرا ہے بلکہ ایک قاعدے کو استعمال کر کے لایا ہے

اور آخر میں ایک ڈس کلیمر - میں فارسی کا بھی عالم نہیں ہوں - تمام محفلیں سے گزارش ہے کہ اگر میری بات غلط ہے تو تمیز کے دائرے میں رہ کر علمی جواب دیجیئے - اور براے کرم مجھ پہ کوئ لطیفہ بھی چسپاں نہ کیجیئے - یہاں کا ایسا وتیرہ میری بر داشت سے باہر ہو رہا ہے - ایسی بحث کا کوئ فائدہ نہیں جہاں سامنے والا خود کو حرفِ آخر سمجھتے ہوئے تمسخر سے بات کرے - آپ مجھے علمی دلیل سے قائل کریں میں آپ کا شکریہ ادا کر کے اپنے علم میں اضافہ کر لوں گا -
جنابِ من! میں تو اپنے تئیں محض ریسرچر ٹائپ کا بندہ ہوں۔ کم از کم میری ذات سے آپ کو کوئی تکلیف نہ ہو گی۔ اس کی میں ضمانت دیتا ہوں۔ میں تو محض گفتگو کو آگے بڑھانے کے لیے کوئی نہ کوئی مراسلہ کر دیتا ہوں، اور بس۔ :)
 

محمد وارث

لائبریرین
قبلہ وارث صاحب ، اس عاجز کی صدا پر لبیک کہنے کا شکریہ!
مجھے امید ہے کہ شعر و ادب سے دلچسپی رکھنے والے دیگر دوست بھی اس لڑی کے مقصد کو پورا کرنے میں مدد دیں گے اور رفتہ رفتہ مطلوبہ مثالوں کا ایک ذخیرہ یہاں جمع ہوجائے گا۔
اردو میں کافر کا لفظ فائے مکسور اور فائے مفتوح دونوں تلفظات کے ساتھ مستعمل ہے ۔ عام گفتگو میں بھی دونوں تلفظ استعمال کیے جاتے ہیں اور شعر میں بھی۔ فرہنگِ آصفیہ نے واضح طور پر اس کے دونوں تلفظ درج کیے ہیں۔ میں ذیل میں فائے مفتوح یعنی کافَر کی کچھ امثال درج کرتا ہوں ۔
اے ذوقؔ دیکھ دخترِ رز کو نہ منہ لگا
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
(ذوقؔ)
چھوڑوں گا میں نہ اُس بتِ کافر کا پوجنا
چھوڑے نہ خلق گو مجھے کافر کہے بغیر
(غالبؔ)
نہ سمجھا عمر گزری اُس بتِ کافر کو سمجھاتے
پگھل کر موم ہوجاتا اگر پتھر کو سمجھاتے
(داغؔ)
ایمان کی تو یہ ہے غضب ہیں بتانِ ہند
اپنا ہی سا مجھے بھی یہ کافر بنائیں گے
(داغؔ)
پنجاب کے اربابِ نبوت کی شریعت
کہتی ہے کہ یہ مومنِ پارینہ ہے کافر
(اقبالؔ)
سمجھا رہے تھے مجھ کو سبھی ناصحانِ شہر
پھر رفتہ رفتہ خود اُسی کافر کے ہوگئے
(فرازؔ)

چنانچہ غالب کے شعر میں کافَر کا استعمال لغت کے عین مطابق ہے اور کسی لسانی اصول کے خلاف نہیں۔
شکریہ ظہیر صاحب قبلہ، آپ کا قیمتی اور معلوماتی مراسلہ پڑھنے کے بعد بہت سی باتیں یاد آ گئیں۔

میرے خیال میں ایسے الفاظ کی بھی ایک فہرست بنا دینی چاہیئے۔ ایک اور مثال جو میرے ذہن میں آ رہی ہے وہ عربی لفظ موسم کی ہے۔ یہ بھی سین کی زیر کے ساتھ ہے لیکن ایک غزل میں امجد اسلام امجد نے اسے نم اور غم کا قافیہ موسَم بنایا ہے:

کسی کی آنکھ جو پر نم نہیں ہے
نہ سمجھو یہ کہ اس کو غم نہیں ہے

سوادِ درد میں تنہا کھڑا ہوں
پلٹ جاؤں مگر موسم نہیں ہے

امجد اسلام امجد ظاہر ہے اس درجے کی سند تو نہیں ہو سکتے لیکن ہو سکتا ہے موسم بھی کافر کی طرح اردو میں دونوں تلفظوں سے رائج ہو گیا ہو اور ڈھونڈنے سے کسی استاد کی سند بھی مل جائے۔
 
عربی سے درست تلفظ اردو میں آیا تو ہے ... اور معروف بھی ہے ...پھر خواہ مخواہ اس میں بگاڑ پیدا کرنے کی کیا ضرورت رہی؟ کافر تو بفتح فا عام بول چال میں بھی کبھی بھلا نہیں لگتا ... یا یہ ہو کہ شروع سے ہی غلط تلفظ یا معنی رواج اس طور رواج پا گئے ہوں کہ اصل معنی یکسر فراموش ہو چکے ہوں تو کوئی بات بھی ہے ... جیسےلفظ صحن ہے، شاید کوئی اسے پلیٹ کے معنی میں استعمال کرتا ہو ... مگر لفظ کافر تو اردو میں قدیما درست تلفظ کے ساتھ رائج رہا ہے، پھر خواہ مخواہ ایک غلط تلفظ کو رواج دینے کا کیا جواز ہے؟ لسانیات کے اصول اپنی جگہ لیکن اہل زبان کی شعوری کوشش یہی ہونی چاہیے کہ کسی غیر زبان کے لفظ کو اپناتے ہوئے اس کے اصل تلفظ کی حتی الوسع رعایت رکھیں، جبکہ کوئی صوتیاتی مجبوری بھی نہ ہو.
کافر اردو میں فارسی سے آیا ہے اور فارسی میں فتح کے ساتھ ہی رائج ہے،ہاں یہ ضرور ہے کہ فارسی کا فتح اردو سے مختلف ہے. عنصری کے اشعار دیکھیں جو کہ قدیم فارسی شعرا میں سے ہے:
دولتت پایبنده باد و ملکت افزاینده باد
کو به ملک و دولتِ باقی شگفت اندر خور است ؟

عید فرخ بادش و دل خرم و گیتی به کام
هر که او را جز چنین خواهد در ایزد کافر است
 
امجد اسلام امجد ظاہر ہے اس درجے کی سند تو نہیں ہو سکتے لیکن ہو سکتا ہے موسم بھی کافر کی طرح اردو میں دونوں تلفظوں سے رائج ہو گیا ہو اور ڈھونڈنے سے کسی استاد کی سند بھی مل
اردو میں موسَم ہی درست ہے

ہے بہت جیب چاکی ہی جوں صبح
کیا کیا جائے فرصتِ کم میں

پرکے تھی بے کلی قفس میں بہت
دیکھیے اب کے گل کے موسم میں

میر تقی میر
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین

سید عاطف علی

لائبریرین
کافر تو بفتح فا عام بول چال میں بھی کبھی بھلا نہیں لگتا
اسی طرح اردو میں ف کی کسر کے ساتھ کافِر ہی درست ہے اگرچہ کافَر بھی بہت باندھا گیا ہے۔ والد مرحوم تو عام بول چال میں بھی کافَر، ف پر فتحہ کے ساتھ ہی بولتے تھے، اس بحث سے والد کی یاد آ گئی
ہم کافر کو بچپن سےفے کے زبر کے ساتھ استعمال کرتے رہے اور وہی ہمیں بھلا بھی لگتا رہا تا آنکہ ہماری زبان کو تعریب و تفریس کے ڈینٹ پڑ نے لگے ۔ اب ہمیں دونوں ہی بھلے لگنے لگے ہیں ۔
کئی عربی الفاظ جو درست عربی تلفظ سے اردو میں بولے جائیں تو انتہائی عجیب لگتے ہیں ۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
لسانیات کے اصول اپنی جگہ لیکن اہل زبان کی شعوری کوشش یہی ہونی چاہیے کہ کسی غیر زبان کے لفظ کو اپناتے ہوئے اس کے اصل تلفظ کی حتی الوسع رعایت رکھیں، جبکہ کوئی صوتیاتی مجبوری بھی نہ ہو.
لسانیات میں الفاظ و اصوات کی تبدیلیاں انتظامی کم اور فطری و تدریجی نوعیت کی زیادہ ہوتی ہیں ۔ اس میں مجبوریوں اور مختاریوں والی بات صرف تب قابل اعتنا ہے جب آپ زبان میں کسی اصطلاح کو داخل کر رہے ہوں جیسے کوئی قانونی و فقہی اصطلاح وغیرہ ۔
 
لسانیات میں الفاظ و اصوات کی تبدیلیاں انتظامی کم اور فطری و تدریجی نوعیت کی زیادہ ہوتی ہیں ۔ اس میں مجبوریوں اور مختاریوں والی بات صرف تب قابل اعتنا ہے جب آپ زبان میں کسی اصطلاح کو داخل کر رہے ہوں جیسے کوئی قانونی و فقہی اصطلاح وغیرہ ۔
صوتیاتی مجبوری سے میری مراد کسی مخصوص آواز کا دوسری زبان میں موجود نہ ہوناتھی ... جیسے عربی حروف ث، ض، ع وغیرہ کی منفرد آواز ہمارے یہاں نہیں ... لیکن حرکات کو بلا ضرورت اوپر نیچے کرنا مجھے توعجیب لگتا ہے ...
 
جیسے آپ حضرات اشارہ کیا کہ زبان کا ارتقا ایک نہایت سست اور غیر محسوس عمل ہے ... سو اس بات کا تعین کرنا بھی متنازع ہو سکتا ہے کہ کافر بالفتح فا کو اساتذہ نے اس لیے استعمال کیا کہ اس وقت کے ثقہ اہل زبان اسے یوں ہی بولتے تھے ... یا پھر اہل زبان نے اساتذہ سے مرعوب ہو کر اس تلفظ کو اپنا لیا (اسی کو میں نے "گپچ بائیس" کہا تھا :) )

ظہیر بھائی سے درخواست ہے کہ میرے اس اٹکل پر خدارا حیران مت ہوئیے گا :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
جیسے آپ حضرات اشارہ کیا کہ زبان کا ارتقا ایک نہایت سست اور غیر محسوس عمل ہے ... سو اس بات کا تعین کرنا بھی متنازع ہو سکتا ہے کہ کافر بالفتح فا کو اساتذہ نے اس لیے استعمال کیا کہ اس وقت کے ثقہ اہل زبان اسے یوں ہی بولتے تھے ... یا پھر اہل زبان نے اساتذہ سے مرعوب ہو کر اس تلفظ کو اپنا لیا (اسی کو میں نے "گپچ بائیس" کہا تھا :) )

ظہیر بھائی سے درخواست ہے کہ میرے اس اٹکل پر خدارا حیران مت ہوئیے گا :)
نہیں بھائی ۔ اس پر حیران نہیں بلکہ پریشان ہورہا ہوں کہ کہیں آپ نے بھی وہ "میں نہ مانوں" والی روش اپنانے کی تو نہیں ٹھان لی ۔ :grin:
 
Top