ضیاءالحق مرحوم کی ایک تقریر

ربیع م

محفلین
جبکہ جہاں تک رہی بات پہلے 100 سالوں کی آج کی مہذب جمہوری دنیا کے 100 سالوں کے ساتھ موازنے کی ، زیادہ دور کیوں جائیں

امریکہ میں صرف 2014 میں نسلی اقلیت سے تعلق رکھنے والے 1149 افراد پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہوئے

پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں بھی نسل پرستانہ بنیادوں پر ماورائے عدالت قتل او ر ریاستی دہشت گردی کی ایسی مثال ڈھونڈنا محال ہے ۔

یہ صرف ایک چھوٹی سی مثال ہے ، ایسی کئی مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں ۔

صرف عراق میں ہی اگر مغربی دنیا کے گھناؤنے کردار کو لے لیا جائے ، تو مسلمانوں کے ناکردہ گناہوں کو بھی مات دیدے ۔

غلامی کے خاتمے کا دعویٰ کرنے والوں کی ذہنیت ابھی تلک بدلی نہیں ۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
واقعہ حرۃ

مختصرا ذکر کرتا چلوں، اہل مدینہ نے یزید بن معاویہ کی بیعت کو توڑا ، لیکن اس کے باوجود بہت سے علماء اور کبار صحابہ اس بیعت پر قائم بھی رہے ، جن میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما ، محمد بن علی بن ابی طالب(ابن الحنفیہ ) جلیل القدر صحابی نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنھما ، اور سعید بن المسیب رحمہ اللہ شامل تھے ۔
اہل مدینہ کا معاملہ حسین بن علی رضی اللہ عنہ جیسا نہ تھا جنہوں نے بالکل بیعت نہ کی تھی ، بلکہ اہل مدینہ نقض بیعت کے مرتکب ہوئے تھے ، جس بناء پر ان علماء اور صحابہ نے انھیں سمجھایا۔
یزید بن معاویہ نے اہل مدینہ کو قائل کرنے کیلئے کئی وفد بھی روانہ کئے لیکن وہ اپنے مؤقف پر مصر رہے ، واضح رہے کہ میں یہاں یزید بن معاویہ کی اس موقف میں حمایت نہیں کر رہا ، یقینا مدینہ پر حملہ اس کا بہت بڑا جرم تھا ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ شبہات اور جھوٹی باتوں کو رد کرنا ضروری ہے ۔

مقتولین کی تعدا د:


خلیفہ نے اپنی تاریخ میں الحرۃ کے مقتولین کی فہرست ذکر کی ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ قریش اور انصار کے 306 افراد قتل ہوئے ، ابو العرب اور اتابکی نے بھی ا س کی موافقت کی ہے ، امام مالک سے سند کے ساتھ روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ الحرۃ کے مقتولین 700 افراد تھے جن میں حاملین قرآن بھی شامل تھے ، راوی کہتا ہے کہ میں میرے خیال میں انھوں نے کہا کہ ان میں سے 3 یا 4 اصحاب رسول ﷺ میں سے تھے ، امام مالک کی روایت خلیفہ کی روایت سے صحت کے اعتبار سے زیادہ قوی ہے ۔

کچھ روایا ت میں اہل مدینہ کے مقتولین کی تعداد میں بے حد مبالغہ آرائی ملتی ہے واقدی اپنی ایک روایت میں مقتولین کی تعداد 10 ہزار ذکر کرتا ہے ، جس میں عورتوں اور بچوں کے قتل کا تذکرہ بھی ہے ، واقدی کی سند متروک ہے ، اور پھر جب وہ صحیح سند کے ساتھ متعارض ہو ( جو کہ امام مالک کی روایت ہے ) تو واقدی کی روایت منکر ہو گی اور مقتولین کی تعداد میں اس روایت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا ، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی واقدی کی روایت پر تنقید کی ہے اور اس بات کو بعید جانا ہے کہ اس حد تک تعداد پہنچ جائے ۔

قتل وغارت اور لوٹ مار رہی ہے اس میں کوئی شک نہیں ، لیکن یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ یہ ان علاقوں میں رہی جہاں لڑائی جاری تھی چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما ، علی بن الحسین اور دوسرے لوگ جو معارضین میں سے کسی کے ساتھ نہیں کھڑے ہوئے ان کا گھر نہیں لوٹا گیا۔
عورتوں کو حلال کرنے کا مسئلہ :
جہاں تک عورتوں کے حلال ہونے کی بات ہے تو یہ محض مبالغہ آرائی کے سوا کچھ نہیں ۔
اس سلسلے میں دو روایات ملتی ہیں جو کہ سند کے اعتبار سے شدید کمزور ہیں ۔

مشہور معاصر مؤرخ ڈاکٹر محمد علی الصلابی لکھتے ہیں : ہم نے کتب السنۃ یا فتن کے بارے میں لکھی ہوئی کسی کتاب میں ایسا کچھ نہیں پایا ، اسی طرح اس دورانئے کی دواہم مصدر اور تاریخی کتابوں ( الطبری اور البلاذری ) میں اس قسم کے واقعہ کے وقوع ہونے کا کوئی اشارہ نہیں ملتا ، اور ان دونوں نے مشہور راویوں کی روایات پر اعتماد کیا ہے جن میں عوانہ بن الحکم اور ابو مخنف لوط بن یحیی وغیرہ شامل ہیں ۔

الصلابی آگے مزید لکھتے ہیں : مدینہ کی عورتوں کی عزت لوٹنے کے واقعہ کی صحت کے اعتبار سے کوئی اساس نہیں ، یہ بعد میں آنے والی روایات جن کا محرک اموی تاریخ کے خلاف تعصب شامی لشکر کے خلاف نفرت ہے ان کا نتیجہ ہے ۔

اسی طرح بہت سے معاصر محققین جن میں ڈاکٹر نبیہ عاقل ، عرینان ، ڈاکٹر العقیلی وغیرہ شامل ہیں نے اس کا رد کیا ہے ، اسی طرح الشیبانی نے ان روایات پر گہرائی سے تحقیق لکھی ہے اور روایات کے کذب کو ثابت کیا ہے ۔

مزید تفصیل کیلئے دیکھئے :

وقعة الحرة وموت يزيد - قصة الخلافة الأموية | موقع قصة الإسلام - إشراف د/ راغب السرجاني

هل وقعة الحرة ثابتة؟وهل ثبت الإعتداء على النساء؟ - ملتقى أهل الحديث

میں نے کسی بھی واقعے کے وقوع پذیر ہونے کی وجہ بیان نہیں کی، فقط جو وقوع پذیر ہوا اس کا ذکر کیا ہے۔

ہر بات کی بہت سی وجوہات ڈھونڈی جا سکتی ہیں اور ان کے رد بھی بیان کیے جاتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ ہر فریق کا اپنا نکتہ نظر ہے،کچھ فریق مٹ چکے کچھ کو ہم بھول چکے، مختلف نکاتِ نظر بیان ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔

مدینۃ النبی اور شہرِ امن مکہ پر چڑھائیاں اور خونریزیاں، وہ بھی فقط رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے پچاس سال بعد، وجہ کچھ بھی رہی ہو، اسلامی تاریخ کا ایک تاریک باب ہے جسے ہم تاریکی میں رکھنا ہی پسند کرتے ہیں، میں فقط یہ سوچتا ہوں کہ خدانخواستہ یہ حرکتیں یہ قتل و غارت، ان شہروں پر یہ فوج کشی کسی اور مذہب والوں نے کی ہوتیں، نصرانیوں یا یہودیوں نے، ان کو چھوڑیے، مسلمانوں ہی میں سے کسی اور مسلک والوں نے کی ہوتیں مثلا روافض یا خوارج تو کیا پھر بھی ہمارا سوادِ اعظم ان واقعات کو ایسے ہی تاریکی میں رکھتا،پھر بھی ہمارے علما و فضلا و شیوخ ان واقعات کی ایسی ہی تاویلیں کرتے جیسے اب کرتے ہیں، ایسے ہی دفاع کرتےجیسے اب کرتے ہیں؟
 
آخری تدوین:

ربیع م

محفلین
میں نے کسی بھی واقعے کے وقوع پذیر ہونے کی وجہ بیان نہیں کی، فقط جو وقوع پذیر ہوا اس کا ذکر کیا ہے۔

ہر بات کی بہت سی وجوہات ڈھونڈی جا سکتی ہیں اور ان کے رد بھی بیان کیے جاتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ ہر فریق کا اپنا نقطہ نظر ہے،کچھ فریق مٹ چکے کچھ کو ہم بھول چکے، مختلف نکاتِ نظر بیان ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔

مدینۃ النبی اور شہرِ امن مکہ پر چڑھائیاں اور خونریزیاں، وہ بھی فقط رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے پچاس سال بعد، وجہ کچھ بھی رہی ہو، اسلامی تاریخ کا ایک تاریک باب ہے جسے ہم تاریکی میں رکھنا ہی پسند کرتے ہیں، میں فقط یہ سوچتا ہوں کہ خدانخواستہ یہ حرکتیں یہ قتل و غارت، ان شہروں پر یہ فوج کشی کسی اور مذہب والوں نے کی ہوتیں، نصرانیوں یا یہودیوں نے، ان کو چھوڑیے، مسلمانوں ہی میں سے کسی اور مسلک والوں نے کی ہوتیں مثلا روافض یا خوارج تو کیا پھر بھی ہمارا سوادِ اعظم ان واقعات کو ایسے ہی تاریکی میں رکھتا،پھر بھی ہمارے علما و فضلا و شیوخ ان واقعات کی ایسی ہی تاویلیں کرتے جیسے اب کرتے ہیں، ایسے ہی دفاع کرتےجیسے اب کرتے ہیں؟

بہت عمدہ
متفق
اور یقینا ان واقعات کو بیان کرنے میں احتیاط کا دامن نہیں چھوڑنا چاہئے خاص طور جو مبالغہ آرائیاں ، بے سند باتیں تاریخ کی کتابوں میں ذکر ہیں ان سے یا تو اجتنا ب کیا جائے یا کم از کم اس پر محققین کا حکم ضرور ذکر کیا جانا چاہئیے
 

قیصرانی

لائبریرین
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے حاکم وقت ہونے کے باوجود محض اپنی ذات کیلئے جنگ کرنا گوارہ نہ کیا ، حالانکہ صحابہ کرام نے شدید اصرار بھی کیا۔لیکن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے قسم کھا کر کہا کہ جس کسی پر ان کا کچھ حق ہے وہ اپنا ہاتھ روک کر رکھے ۔
اور خلافت سے اس لئے دستبردار نہ ہوئے کیونکہ باغیوں کی اکثریت خوارج اور فتنہ گر لوگوں پر مشتمل تھی ، جن کا مقصد اصلاح کے بجائے ذاتی مفادات اور انتشار پھیلانا تھا ، اور دوسرا نبی اکرم ﷺ نے انھیں خلافت سے دستبردار ہونے سے منع کیا تھا ۔
متعلقہ حدیث کا حوالہ برمحل رہتا
 

قیصرانی

لائبریرین
میں نے کسی بھی واقعے کے وقوع پذیر ہونے کی وجہ بیان نہیں کی، فقط جو وقوع پذیر ہوا اس کا ذکر کیا ہے۔

ہر بات کی بہت سی وجوہات ڈھونڈی جا سکتی ہیں اور ان کے رد بھی بیان کیے جاتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ ہر فریق کا اپنا نقطہ نظر ہے،کچھ فریق مٹ چکے کچھ کو ہم بھول چکے، مختلف نکاتِ نظر بیان ہوتے رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔

مدینۃ النبی اور شہرِ امن مکہ پر چڑھائیاں اور خونریزیاں، وہ بھی فقط رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے پچاس سال بعد، وجہ کچھ بھی رہی ہو، اسلامی تاریخ کا ایک تاریک باب ہے جسے ہم تاریکی میں رکھنا ہی پسند کرتے ہیں، میں فقط یہ سوچتا ہوں کہ خدانخواستہ یہ حرکتیں یہ قتل و غارت، ان شہروں پر یہ فوج کشی کسی اور مذہب والوں نے کی ہوتیں، نصرانیوں یا یہودیوں نے، ان کو چھوڑیے، مسلمانوں ہی میں سے کسی اور مسلک والوں نے کی ہوتیں مثلا روافض یا خوارج تو کیا پھر بھی ہمارا سوادِ اعظم ان واقعات کو ایسے ہی تاریکی میں رکھتا،پھر بھی ہمارے علما و فضلا و شیوخ ان واقعات کی ایسی ہی تاویلیں کرتے جیسے اب کرتے ہیں، ایسے ہی دفاع کرتےجیسے اب کرتے ہیں؟
متفق
 

RAZIQ SHAD

محفلین
مردِ مومن مردِ حق ضیاء الحق ضیاء الحق
بائیں بازو کے کچھ لوگ اس نعرے سے تکلیف میں مبتلا ہو جاتے ہیں
اور خاص طور پر انگریز کے خود کاشتہ پودے کی جلن تو اور بھی تیز ہو جاتی ہے جب یہ عظیم نام سنتا ہے
اللہ پاک ان کو عقلِ عطا فرمائے جو جنرل محمد ضیاء الحق سے بغض رکھتے ہیں حالانکہ جو کام ذوالفقار علی بھٹو کی اسمبلی میں ہوا تھا اس کا کریڈٹ بھی جناب محمد ضیاء الحق کو ہی دیتے ہیں
یہ اپنی اپنی قسمت ہے کہ کوئی وردی میں جامِ شہادت نوش کرتا ہے تو کوئی ملنگ بن کےسولی پہ چڑھتا ہے
 

محمد وارث

لائبریرین
متعلقہ حدیث کا حوالہ برمحل رہتا
حدیث کے الفاظ وہ نہیں ہیں جو بدر صاحب نے تحریر فرمائے ہیں۔ حدیث میں "لباس" کی تمثیل ہے جس کی تاویل اور تشریح خلافت کی جاتی ہے۔ بدر صاحب شاید اصل حدیث کے الفاظ پوسٹ کر سکیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
حدیث کے الفاظ وہ نہیں ہیں جو بدر صاحب نے تحریر فرمائے ہیں۔ حدیث میں "لباس" کی تمثیل ہے جس کی تاویل اور تشریح خلافت کی جاتی ہے۔ بدر صاحب شاید اصل حدیث کے الفاظ پوسٹ کر سکیں۔
درست، مجھے بھی یہی شک ہوا تھا
 

ربیع م

محفلین
متعلقہ حدیث کا حوالہ برمحل رہتا

عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "يَا عُثْمَانُ، إِنْ وَلَّاكَ اللَّهُ هَذَا الْأَمْرَ يَوْمًا، فَأَرَادَكَ الْمُنَافِقُونَ أَنْ تَخْلَعَ قَمِيصَكَ الَّذِي قَمَّصَكَ اللَّهُ فَلَا تَخْلَعْهُ، يَا عُثْمَانُ، إِنْ وَلَّاكَ اللَّهُ هَذَا الْأَمْرَ يَوْمًا، فَأَرَادَكَ الْمُنَافِقُونَ أَنْ تَخْلَعَ قَمِيصَكَ الَّذِي قَمَّصَكَ اللَّهُ فَلَا تَخْلَعْهُ، يَا عُثْمَانُ، إِنْ وَلَّاكَ اللَّهُ هَذَا الْأَمْرَ يَوْمًا، فَأَرَادَكَ الْمُنَافِقُونَ أَنْ تَخْلَعَ قَمِيصَكَ الَّذِي قَمَّصَكَ اللَّهُ فَلَا تَخْلَعْهُ".

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے عثمان ، اگر اللہ رب العزت تجھے اس امر کا والی ( حاکم ) بنائے ، اور منافقین تجھ سے یہ قمیص اتارنے کا ارادہ کریں جو کہ اللہ رب العزت نے تجھے پہنائی ہے تو اسے مت اتارنا ،(نبی اکرم ﷺ نے یہ الفاظ تین بار دوہرائے )

ترمذی ، ابن ماجہ ، مسند امام احمد ، حاکم

امام البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔
حدیث کے الفاظ وہ نہیں ہیں جو بدر صاحب نے تحریر فرمائے ہیں۔

مکرمی میں نے حدیث کے الفاظ نہیں تحریر کئے تھے بلکہ مفہوم بیان کیا تھا ، جس پر تمام جید علماء کا اتفا ق ہے ، "فتدبر"

اور جیسا کہ مذکورہ روایت سے بھی واضح ہے ۔

حدیث میں "لباس" کی تمثیل ہے

محض لباس کی تمثیل نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ تجھے اللہ رب العزت اس معاملے کا والی یا حاکم یا ذمہ دار بنائیں گے ۔
 

قیصرانی

لائبریرین
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے عثمان ، اگر اللہ رب العزت تجھے اس امر کا والی ( حاکم ) بنائے ، اور منافقین تجھ سے یہ قمیص اتارنے کا ارادہ کریں جو کہ اللہ رب العزت نے تجھے پہنائی ہے تو اسے مت اتارنا ،(نبی اکرم ﷺ نے یہ الفاظ تین بار دوہرائے )

ترمذی ، ابن ماجہ ، مسند امام احمد ، حاکم

امام البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے ۔


مکرمی میں نے حدیث کے الفاظ نہیں تحریر کئے تھے بلکہ مفہوم بیان کیا تھا ، جس پر تمام جید علماء کا اتفا ق ہے ، "فتدبر"

اور جیسا کہ مذکورہ روایت سے بھی واضح ہے ۔



محض لباس کی تمثیل نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ آپ نے یہ بھی فرمایا کہ تجھے اللہ رب العزت اس معاملے کا والی یا حاکم یا ذمہ دار بنائیں گے ۔
شکریہ
 

RAZIQ SHAD

محفلین
جنر ل محمد ضیاء الحق شہید کا نام جہاں بھی آتا ہے کچھ دین سے دور اور انگریز کے پالے تکلیف میں مبتلا ہو جاتے ہیں
ان کے نام میرا فی البدیع شعر
میرا یہ شعر انہیں تک پہنچے گا اور وہ اس کا مفہوم بھی اچھی طرح جان لیں گے
ایک بات کہ تاڑنے والے بھی قیامت کی نظر رکھتے ہیں ۔ کون کیا ہے اور کہاں سے بولتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
شعر حاضر ہے
تو خود کو لاکھ پردوں میں چھپائے بھی تو کیا ہے
تو مرتد ہے ترے الفاظ چغلی کھا رہے ہیں
 

squarened

معطل
بھٹو، ضیاء، بے نظیر اور نواز شریف کے حوالے سے سابق سفیر کرامت اللہ غوری صاحب کی کتاب بارِ شناسائی بھی ایک دلچسپ کتاب ہے. ضروری نہیں کہ مصنف کی ہر بات سے اتفاق کیا جائے.
انہوں نے ان افراد کے ساتھ گزرے لمحات میں جو مشاہدات کئے، ان کو قلم بند کیا ہے.
کتاب میں نے پڑھی نہیں ہے،لیکن مختلف کالم رائٹرز کے اقتباس ضرور پڑھ رکھے ہیں ۔اب آپ کے یہاں ذکر کرنے پر پڑھنے کی تحریک پیدا ہوئی ہے
کافی ڈھونڈنے کے باوجود آن لائن نہیں مل سکی ہے۔
کافی تو نہیں ،معمولی تلاش پر ہی پتہ چلا کہ امت اخبار اسے قسط وار شائع کر چکا ہے ۔یہاں تمام اقساط کے لنکس موجود ہیں
Miscellaneous متفرق : بار شناسائی-Bar-e-shanasai

نیز گوگل پر پہلے صفحہ پر ہی سیاست پی کے کے لنکس بھی آ رہے ہیں جس میں کسی ممبر نے بڑی اچھی کوالٹی میں سکین صفحات دیے ہیں،مگر وہ کنفرم نہیں کہ مکمل کتاب کے ہیں یا نہیں
 

الف نظامی

لائبریرین
  • جہاد افغانستان کے سالارِ اعظم
  • کمیونزم اور سوویت یونین کے فاتح
  • اسلامی اقدار کے پاسبان
  • غیرت مند اور باوقار پاکستان کے معمار
  • بلا سود بینکاری کا آغاز کرنے والے
  • زکوۃ و عشر آرڈیننس
  • اسلامی نظریاتی کونسل کی تنظیم نو
  • بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کا قیام
  • بیت المال کا قیام
  • محتسب اعلیٰ کا قیام
  • فیڈرل شریعت کورٹ کا قیام
  • ملازمتوں میں معذروں کا کوٹہ
  • مطالعہ پاکستان اور اسلامیات کو لازمی مضامین کا درجہ دیا گیا
  • قومی زبان کی حوصلہ افزائی
  • بلدیاتی انتخابات
  • ایٹمی پروگرام کی تعمیر و نشو و نما
 
آخری تدوین:

RAZIQ SHAD

محفلین
  • جہاد افغانستان کے سالارِ اعظم
  • کمیونزم اور سوویت یونین کے فاتح ،
  • اسلامی اقدار کے پاسبان
  • غیرت مند اور باوقار پاکستان کے معمار
  • بلا سود بینکاری کا آغاز کرنے والے
  • زکوۃ و عشر آرڈیننس
  • اسلامی نظریاتی کونسل کی تنظیم نو
  • بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی کا قیام
  • بیت المال کا قیام
  • محتسب اعلیٰ کا قیام
  • فیڈرل شریعت کورٹ کا قیام
  • ملازمتوں میں معذروں کا کوٹہ
  • مطالعہ پاکستان اور اسلامیات کو لازمی مضامین کا درجہ دیا گیا
  • قومی زبان کی حوصلہ افزائی
  • بلدیاتی انتخابات
  • ایٹمی پروگرام کی تعمیر و نشو و نما
ٹیلیویژن پر نیوز کاسٹر کے سر پر دوپٹہ
ہر محکمہ میں صوم و صلواۃ کی پابندی
کرکٹ ڈپلومیسی کے ذریعے انڈیا پاکستان کی جنگ کو ٹالنا
مردِ مومن مردِ حق ضیاء الحق ضیاء الحق
 
واقعہ حرۃ

مختصرا ذکر کرتا چلوں، اہل مدینہ نے یزید بن معاویہ کی بیعت کو توڑا ، لیکن اس کے باوجود بہت سے علماء اور کبار صحابہ اس بیعت پر قائم بھی رہے ، جن میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما ، محمد بن علی بن ابی طالب(ابن الحنفیہ ) جلیل القدر صحابی نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنھما ، اور سعید بن المسیب رحمہ اللہ شامل تھے ۔
اہل مدینہ کا معاملہ حسین بن علی رضی اللہ عنہ جیسا نہ تھا جنہوں نے بالکل بیعت نہ کی تھی ، بلکہ اہل مدینہ نقض بیعت کے مرتکب ہوئے تھے ، جس بناء پر ان علماء اور صحابہ نے انھیں سمجھایا۔
یزید بن معاویہ نے اہل مدینہ کو قائل کرنے کیلئے کئی وفد بھی روانہ کئے لیکن وہ اپنے مؤقف پر مصر رہے ، واضح رہے کہ میں یہاں یزید بن معاویہ کی اس موقف میں حمایت نہیں کر رہا ، یقینا مدینہ پر حملہ اس کا بہت بڑا جرم تھا ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ شبہات اور جھوٹی باتوں کو رد کرنا ضروری ہے ۔

مقتولین کی تعدا د:


خلیفہ نے اپنی تاریخ میں الحرۃ کے مقتولین کی فہرست ذکر کی ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ قریش اور انصار کے 306 افراد قتل ہوئے ، ابو العرب اور اتابکی نے بھی ا س کی موافقت کی ہے ، امام مالک سے سند کے ساتھ روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ الحرۃ کے مقتولین 700 افراد تھے جن میں حاملین قرآن بھی شامل تھے ، راوی کہتا ہے کہ میں میرے خیال میں انھوں نے کہا کہ ان میں سے 3 یا 4 اصحاب رسول ﷺ میں سے تھے ، امام مالک کی روایت خلیفہ کی روایت سے صحت کے اعتبار سے زیادہ قوی ہے ۔

کچھ روایا ت میں اہل مدینہ کے مقتولین کی تعداد میں بے حد مبالغہ آرائی ملتی ہے واقدی اپنی ایک روایت میں مقتولین کی تعداد 10 ہزار ذکر کرتا ہے ، جس میں عورتوں اور بچوں کے قتل کا تذکرہ بھی ہے ، واقدی کی سند متروک ہے ، اور پھر جب وہ صحیح سند کے ساتھ متعارض ہو ( جو کہ امام مالک کی روایت ہے ) تو واقدی کی روایت منکر ہو گی اور مقتولین کی تعداد میں اس روایت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا ، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی واقدی کی روایت پر تنقید کی ہے اور اس بات کو بعید جانا ہے کہ اس حد تک تعداد پہنچ جائے ۔

قتل وغارت اور لوٹ مار رہی ہے اس میں کوئی شک نہیں ، لیکن یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ یہ ان علاقوں میں رہی جہاں لڑائی جاری تھی چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما ، علی بن الحسین اور دوسرے لوگ جو معارضین میں سے کسی کے ساتھ نہیں کھڑے ہوئے ان کا گھر نہیں لوٹا گیا۔
عورتوں کو حلال کرنے کا مسئلہ :
جہاں تک عورتوں کے حلال ہونے کی بات ہے تو یہ محض مبالغہ آرائی کے سوا کچھ نہیں ۔
اس سلسلے میں دو روایات ملتی ہیں جو کہ سند کے اعتبار سے شدید کمزور ہیں ۔

مشہور معاصر مؤرخ ڈاکٹر محمد علی الصلابی لکھتے ہیں : ہم نے کتب السنۃ یا فتن کے بارے میں لکھی ہوئی کسی کتاب میں ایسا کچھ نہیں پایا ، اسی طرح اس دورانئے کی دواہم مصدر اور تاریخی کتابوں ( الطبری اور البلاذری ) میں اس قسم کے واقعہ کے وقوع ہونے کا کوئی اشارہ نہیں ملتا ، اور ان دونوں نے مشہور راویوں کی روایات پر اعتماد کیا ہے جن میں عوانہ بن الحکم اور ابو مخنف لوط بن یحیی وغیرہ شامل ہیں ۔

الصلابی آگے مزید لکھتے ہیں : مدینہ کی عورتوں کی عزت لوٹنے کے واقعہ کی صحت کے اعتبار سے کوئی اساس نہیں ، یہ بعد میں آنے والی روایات جن کا محرک اموی تاریخ کے خلاف تعصب شامی لشکر کے خلاف نفرت ہے ان کا نتیجہ ہے ۔

اسی طرح بہت سے معاصر محققین جن میں ڈاکٹر نبیہ عاقل ، عرینان ، ڈاکٹر العقیلی وغیرہ شامل ہیں نے اس کا رد کیا ہے ، اسی طرح الشیبانی نے ان روایات پر گہرائی سے تحقیق لکھی ہے اور روایات کے کذب کو ثابت کیا ہے ۔

مزید تفصیل کیلئے دیکھئے :

وقعة الحرة وموت يزيد - قصة الخلافة الأموية | موقع قصة الإسلام - إشراف د/ راغب السرجاني

هل وقعة الحرة ثابتة؟وهل ثبت الإعتداء على النساء؟ - ملتقى أهل الحديث
ماشاء اللہ بھائی اللہ رب العزت آپ کے علم میں ترقی عطا فرمایا آمین
 

اکمل زیدی

محفلین
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر، دیوار کو در، کرگس کو ہما کیا لکھنا
اک حشر بپا ہے گھر گھر میں، دم گھٹتا ہے گنبدِ بے در میں
اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رسوا ہے وطن دنیا بھر میں
اے دیدہ ورو اس ذلت سے کو قسمت کا لکھا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
 

زیک

مسافر
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر، دیوار کو در، کرگس کو ہما کیا لکھنا
اک حشر بپا ہے گھر گھر میں، دم گھٹتا ہے گنبدِ بے در میں
اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رسوا ہے وطن دنیا بھر میں
اے دیدہ ورو اس ذلت سے کو قسمت کا لکھا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیاء صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا
واقعی اس لڑی میں ان اشعار کی ضرورت بار بار پڑتی ہے۔

ضیاءالحق مرحوم کی ایک تقریر
 

سید عمران

محفلین
اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان میں مخلص حکمران صرف تین تھے۔۔۔ ایوب، بھٹو اور ضیاء۔۔۔
یہ تینوں فرشتے تھے، نہ نبی اور نہ ہی اللہ کے کوئی بہت ہی نیک بندے اور اولیاء۔۔۔
ان سے غلطیاں بھی ہوئیں ۔۔۔ لیکن صحیح کام بھی اتنے ہوئے کہ بعد والے اس کی گرد کو بھی نہیں پہنچ سکے۔۔۔
اور وہ پہنچنا بھی نہیں چاہتے۔۔۔ کیوں کہ انہیں اس کی ضرورت بھی نہیں ۔۔۔
کیوں کہ ان کے پاس مال کمانے، اس مال کو بیرون ملک محفوظ کرنے اور ملک کو لوٹنے کے سوا کوئی اور مشن نہیں۔۔۔
سب کی جڑیں برطانیہ میں ہیں۔۔۔ ملک کو لوٹ کھسوٹ کر تھک گئے تو برطانیہ پہنچ کر تھکن دور کی۔۔۔
اتنے میں اپنے بھائی بند اسی دھندے سے لگاگئے۔۔۔
جب وہ تھک گئے تو یہ واپس آگئے۔۔۔
دوبارہ لوٹ کھسوٹ کرنے۔۔۔ اندھیر نگری مچانے۔۔۔ کوڑھ کی فصل اگانے!!!
 
آخری تدوین:
Top