واقعہ حرۃ
مختصرا ذکر کرتا چلوں، اہل مدینہ نے یزید بن معاویہ کی بیعت کو توڑا ، لیکن اس کے باوجود بہت سے علماء اور کبار صحابہ اس بیعت پر قائم بھی رہے ، جن میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما ، محمد بن علی بن ابی طالب(ابن الحنفیہ ) جلیل القدر صحابی نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ ، عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنھما ، اور سعید بن المسیب رحمہ اللہ شامل تھے ۔
اہل مدینہ کا معاملہ حسین بن علی رضی اللہ عنہ جیسا نہ تھا جنہوں نے بالکل بیعت نہ کی تھی ، بلکہ اہل مدینہ نقض بیعت کے مرتکب ہوئے تھے ، جس بناء پر ان علماء اور صحابہ نے انھیں سمجھایا۔
یزید بن معاویہ نے اہل مدینہ کو قائل کرنے کیلئے کئی وفد بھی روانہ کئے لیکن وہ اپنے مؤقف پر مصر رہے ، واضح رہے کہ میں یہاں یزید بن معاویہ کی اس موقف میں حمایت نہیں کر رہا ، یقینا مدینہ پر حملہ اس کا بہت بڑا جرم تھا ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ شبہات اور جھوٹی باتوں کو رد کرنا ضروری ہے ۔
مقتولین کی تعدا د:
خلیفہ نے اپنی تاریخ میں الحرۃ کے مقتولین کی فہرست ذکر کی ہے جس میں انھوں نے کہا ہے کہ قریش اور انصار کے 306 افراد قتل ہوئے ، ابو العرب اور اتابکی نے بھی ا س کی موافقت کی ہے ، امام مالک سے سند کے ساتھ روایت ہے کہ انھوں نے کہا کہ الحرۃ کے مقتولین 700 افراد تھے جن میں حاملین قرآن بھی شامل تھے ، راوی کہتا ہے کہ میں میرے خیال میں انھوں نے کہا کہ ان میں سے 3 یا 4 اصحاب رسول ﷺ میں سے تھے ، امام مالک کی روایت خلیفہ کی روایت سے صحت کے اعتبار سے زیادہ قوی ہے ۔
کچھ روایا ت میں اہل مدینہ کے مقتولین کی تعداد میں بے حد مبالغہ آرائی ملتی ہے واقدی اپنی ایک روایت میں مقتولین کی تعداد 10 ہزار ذکر کرتا ہے ، جس میں عورتوں اور بچوں کے قتل کا تذکرہ بھی ہے ، واقدی کی سند متروک ہے ، اور پھر جب وہ صحیح سند کے ساتھ متعارض ہو ( جو کہ امام مالک کی روایت ہے ) تو واقدی کی روایت منکر ہو گی اور مقتولین کی تعداد میں اس روایت کا اعتبار نہیں کیا جائے گا ، امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے بھی واقدی کی روایت پر تنقید کی ہے اور اس بات کو بعید جانا ہے کہ اس حد تک تعداد پہنچ جائے ۔
قتل وغارت اور لوٹ مار رہی ہے اس میں کوئی شک نہیں ، لیکن یہ بھی یاد رہنا چاہئے کہ یہ ان علاقوں میں رہی جہاں لڑائی جاری تھی چنانچہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنھما ، علی بن الحسین اور دوسرے لوگ جو معارضین میں سے کسی کے ساتھ نہیں کھڑے ہوئے ان کا گھر نہیں لوٹا گیا۔
عورتوں کو حلال کرنے کا مسئلہ :
جہاں تک عورتوں کے حلال ہونے کی بات ہے تو یہ محض مبالغہ آرائی کے سوا کچھ نہیں ۔
اس سلسلے میں دو روایات ملتی ہیں جو کہ سند کے اعتبار سے شدید کمزور ہیں ۔
مشہور معاصر مؤرخ ڈاکٹر محمد علی الصلابی لکھتے ہیں : ہم نے کتب السنۃ یا فتن کے بارے میں لکھی ہوئی کسی کتاب میں ایسا کچھ نہیں پایا ، اسی طرح اس دورانئے کی دواہم مصدر اور تاریخی کتابوں ( الطبری اور البلاذری ) میں اس قسم کے واقعہ کے وقوع ہونے کا کوئی اشارہ نہیں ملتا ، اور ان دونوں نے مشہور راویوں کی روایات پر اعتماد کیا ہے جن میں عوانہ بن الحکم اور ابو مخنف لوط بن یحیی وغیرہ شامل ہیں ۔
الصلابی آگے مزید لکھتے ہیں : مدینہ کی عورتوں کی عزت لوٹنے کے واقعہ کی صحت کے اعتبار سے کوئی اساس نہیں ، یہ بعد میں آنے والی روایات جن کا محرک اموی تاریخ کے خلاف تعصب شامی لشکر کے خلاف نفرت ہے ان کا نتیجہ ہے ۔
اسی طرح بہت سے معاصر محققین جن میں ڈاکٹر نبیہ عاقل ، عرینان ، ڈاکٹر العقیلی وغیرہ شامل ہیں نے اس کا رد کیا ہے ، اسی طرح الشیبانی نے ان روایات پر گہرائی سے تحقیق لکھی ہے اور روایات کے کذب کو ثابت کیا ہے ۔
مزید تفصیل کیلئے دیکھئے :
وقعة الحرة وموت يزيد - قصة الخلافة الأموية | موقع قصة الإسلام - إشراف د/ راغب السرجاني
هل وقعة الحرة ثابتة؟وهل ثبت الإعتداء على النساء؟ - ملتقى أهل الحديث