انتہا
محفلین
میرے محترم بھائی
انتہا پسندی یا کاملیت ۔ یہ دونوں جذبے " میں " سے ابھرتے " انا و خودی " کا روپ دھارتے ہیں ۔
میں بھی " میں " کا اسیر ہوں ۔ میری یہ " میں " مجھے یہ مہمیز دیتی ہے کہ میں اپنے آپ کو
ہر صفت قابل سے ایسے مزین کر لوں کہ دوسرے مجھ سے متاثر ہوتے بنا میرے کہے میری بات کو اہمیت دیں ۔
یہ " میں " سے ابھری میری خودی ہے ۔
میری یہی " میں " اگر مجھے مہمیز دے کہ میں اپنی صفات پر نازاں و مغرور ہوتے
دوسروں سےبہر صورت اپنی بات منوانے کی کوشش کروں ۔ اور اس کوشش میں حد سے گزر جاؤں تو
یہ میری " میں " سے ابھرتی انا ہے ۔
کاملیت کا جذبہ جو کہ خودی پر استوار ہوتا ہے ۔ مجھ سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ میں جن تعلیمات کا پرچار کرنا چاہتا ہوں ۔
ان تعلیمات کو میں بذات خود اپنے آپ پر ایسے لاگو کروں کہ میرا عمل و کردار دوسروں کے لیئے بنا کسی تبلیغ کے معتبر ٹھہرے ۔
انتہا پسندی کا جذبہ چونکہ انا پر استوار ہوتا ہے ۔ اور مجھے مجبور کرتا ہے کہ میں جن تعلیمات کو سچ جانتا ہوں ۔ بنا ان کو خود پر لاگو کیئے
زبردستی دوسروں سے منواؤں ۔ اور اس کے لیئے ہر قسم کا حربہ استعمال کروں ۔
میرے محترم بھائی " اقراء " کا حکم آپ جناب نبی پاک صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر جب نازل ہوا ۔
اس سے پہلے ہی آپ اپنے کردار و عمل سے " صادق و امین و ہمدرد " کے لقب سے مشرف ہو چکے تھے ۔
آپ کا وجود پاک اس آگہی پانے سے پہلے ہی اسم با مسمی " محمد تعریف کیا گیا " ٹھہر چکا تھا ۔
اور آپ سے بڑھ کر کاملیت کی مثال کہاں ۔
آپ کی تحقیق بہت معتبر اور استدلال بہت مدلل، گو میں اپنی ناسمجھی سے ابھی تک ان دونوں کو ”جذبے“ کا درجہ نہیں دے پا رہا، کہ انتہا پسندی کی حد تک تو استدلال پھر بھی قابل فہم ہے لیکن کاملیت کا درجہ کس طرح خودی کا جذبہ ہے، ذہن رسا نہیں ہے، میری اپنی سمجھ کی ہی کمی ہے، پھر بھی اپنے خیالات و معلومات شیئر کرنا چاہوں گا تا کہ صحیح تک رسائی حاصل کر سکوں۔
انتہا پسندی کا جذبہ کیسے پروان چڑھتا ہے؟مختلف مواقع پر مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں۔
امیدوں اور آرزوؤں کا پورا نہ ہونا، مسلسل حوصلہ شکنی، احساس محرومی، سوچ کی سمت کا صحیح نہ ہونا، رہ نما یا رہ نمائی صحیح نہ ہونا، مسلسل ظلم کا شکار ہونا،رائے کو اہمیت نہ دیا جانا، ماحول و اشیا سے متاثر ہونا، وغیرہ
اس میں ”میں“ کا عنصر شامل ہو جائے تو یہ انتہا پسندی فقط انتہا پسندی نہ رہے گی بلکہ عینیت و خود پسندی بھی اس میں شامل ہو جائے گی۔
انتہا پسندی میں نظریہ کا صحیح ہونا ممکن ہے لیکن عینیت اور ارتجاع میں بھٹکنے کا لا محالہ اندیشہ ہے۔ اس میں ان تعلیمات پر عمل پیرا ہونا جن کا میں پرچار کرتا ہوں یا درست سمجھتا ہوں شاید بہت زیادہ ضروری نہیں۔
اب یہ جس ماحول کے تحت ہو انتہا پسندی اسی کے تحت پروان چڑھتی ہے، اگر مذہب کے تحت ہے تو مذہبی، زبان کے تحت ہے تو لسانی، قوم کے تحت ہے تو قومی، مادیت کے تحت ہے تو مادی وغیرہ
اس کے بالمقابل اعتدال پسندی عدل کا تقاضا کرتی ہے یعنی ہر چیز کو اس کی جگہ پر رکھنا، اپنے جذبات، نظریات، خیالات، مالوفات، اشکالات، غرض ہر کسی سے ماورا ہو کر صرف اور صرف توازن کو برقرار رکھنے کی کوشش، ہر شے کو مساوی درجہ پر فائز کرنا کہ فضا بے اعتدال نہ ہو، ماحول خوش گوار رہے۔
کاملیت یا اکمال کیا ہے؟ شاید ایک رتبہ یا درجہ، جو کہ اپنے تمام سفلی جذبات کو مٹا کر صفات الہٰیہ سے متصف ہونے اور ان میں کمال حاصل کرنے کا نام ہے، جس میں تمام جذبوں سے بے نیاز ہو کر صرف اور صرف حق کی پہچان اور اس کی ترویج کی کوشش۔
جس درجے یا رتبے تک پہنچا جاتا ہے یا پہنچایا جاتا ہے، کسی کامل کی رہ نمائی میں
انبیا کی رہ نمائی براہ راست الطاف باری تعالیٰ کے ذریعے ہوتی ہے اور ان کے بعد کے لوگوں کی انبیا کے ذریعے اور اس کے بعد پھر جو اکمال کے درجے پر فائز ہوتے رہیں
انتقاص ، درجہ محرومی ہے کہ کاملیت کی استعداد ہونے کے باوجود، کسی کامل کا رہ نمانہ ہونا یا عقلیت کے تحت مغلوب ہو کر اپنی رائے اور سمجھ کو کل ماننا اور اس کے تحت صحیح کی تلاش اور کوشش بالآخر محرومی کا سبب ہوتی ہے جیسے شیطان محروم کیا گیا۔
اکمال یا کاملیت کے لیے حضور پر نور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مثال تو سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے ، پھر آپ کے فوراً بعد ہی خود مسلمان اعتدال کا دامن ہاتھ سے چھوڑنے لگتے ہیں، تو جب اصول ہی میں اعتدال سے انتہا پر بات آ جائے تو پھر فروع اور تاخر میں اسے تلاش کرنا اور شخصیات کو ان سے متہم کرنا چہ معنی؟
درجوں اور جذبوں میں فرق ضروری ہے کہ جذبوں کی قدر(صحیح یا غلط) کے بعد ہی درجوں تک رسائی ہوتی ہے۔
میرا مقصد صرف اپنے خیالات کو واضح کر کے صحیح کی تلاش اور پہچان ہے، یقیناً میں کم علم اور نا سمجھ ہوں اور صحیح کی طرف رہ نمائی چاہتا ہوں۔ جو میری رہ نمائی کرے وہ میرا محسن ہے اور میں اس کا شکر گزار ہوں۔
میرے الفاظ کا تاثر شاید میرے مقصد کی طرف صحیح رہ نمائی نہیں کر پاتا اس لیے شاید لوگ بد گمانی میں مبتلا ہو تے ہیں حالانکہ میں پہلے ہی ان سے برات کا اظہار کر چکا ہوں۔