طالبان بنا نے میں سی آئی اے کا ہاتھ ہے ۔۔۔۔ فرانس

فخرنوید

محفلین
1100612788-1.gif
 

ساجد

محفلین
اگر دنیا اب یہ بات تسلیم کر رہی ہے تو یہ حقیقت کا اعتراف ہے کہ جس سے آج تک انکار کیا جاتا رہا ہے۔ امید کی جانی چاہئیے کہ اب دیگر حقائق کو بھی کھلے دل سے مان لیا جائے گا تا کہ مسئلے کا حل نکل سکے۔
 

زیک

مسافر
طالبان اور سی‌آئ‌اے والا بیان ایکسپریس کے علاوہ کہیں نظر نہیں آیا۔
 

زین

لائبریرین
شاید باقی اخبارات میں اس لیے خبر نہیں چھپ سکی اور ٹی وی چینلز پر نشر نہ ہوسکی کہ کل اسلام آباد میں‌فرانسیسی سفارتخانے کے اہلکاروں کے رویے پر احتجاج کرتے ہوئے صحافیوں‌نے اجتماعی بائیکاٹ کیا ۔
آن لائن نیوز ایجنسی کے مطابق افغانستان و پاکستان کے لیے فرانس کے خصوصی نمائندے کی پریس کانفرنس کا وقت 3 بجکر 45 منٹ مقرر کیا گیا تھا لیکن پانچ بجے تک صحافیوں کو اندر جانے نہیں‌دیا گیا صرف ایک فرانسیسی ٹی وی اور ایک نجی ٹی وی چینل والوں کو سفارتخانے کے اندر بلایا گیا ۔
جس پر صحافیوں نے احتجاجاً پریس کانفرنس کا بائیکاٹ کیا ۔
 

باسم

محفلین
ایکسپریس کی ہر خبر پر نظر کا اندازہ ہوتا ہے یہاں تک کہ معاصر اخباروں کی خصوصی طور پر لی گئی "خبر" پر بھی
یورپ تسلیم کرتا ہے کہ طالبان بنانے میں سی آئی اے کا ہاتھ ہے،لوچے
دونوں خبروں میں نمائندے کا نام مختلف ہے؟
کچھ مزید
فرانس نے بھی پاکستان اور افغانستان کیلئے اپنا خصوصی نمائندہ مقرر کردیا
غیرملکی افواج کو پاکستان میں کارروائی کا حق نہیں، ڈرون حملوں سے طالبان کی مدد ہورہی ہے، فرانسیسی خصوصی ایلچی
پئغ لیلوش سے متعلق خبر، فرانس کا پاکستان سے احتجاج
پیئغ لیلوش نے گستاخانہ خاکوں کا دفاع کیا، عوام کو بتانا فرض ہے کہ پاکستان کا دورہ کرنیوالا کون ہے، انصار عباسی
 

زیک

مسافر
جنگ کی خبر کے مطابق پیئر للوش نے یہ بیان جیونیوز کی ماریہ احمد سے گفتگو کرتے ہوئے دیا مگر جیونیوز کی انگریزی اور اردو خبروں میں اس کا کوئ ذکر ہی نہیں۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

يہاں يہ بات ياد رکھنی چاہيے کہ افغانستان پر سوويت افواج کے حملے کے بعد صرف امريکہ ہی وہ واحد ملک نہيں تھا جس نے امداد مہيا کی تھی بلکہ اس ميں مسلم ممالک جيسے سعودی عرب اور شام سميت ديگر بہت سے ممالک بھی شامل تھے اور اس وقت کے زمينی حقائق کے پيش نظر افغانستان کی مدد ايک درست فيصلہ تھا۔ کيا آپ کے خيال ميں افغانستان کے لوگوں کی مدد نہ کرنا ايک درست متبادل ہوتا؟ جہاں تک اسامہ بن لادن کا سوال ہے تو دہشت گردی کا راستہ ان کا اپنا دانستہ فيصلہ تھا۔

دنيا کے مختلف ممالک سے آنے والی فوجی اور مالی امداد براہ راست پاکستان منتقل کی جاتی رہی اور پھر پاکستان کے توسط سے يہ امداد افغانستان پہنچتی۔ کچھ ہفتے پہلے اس وقت کے پاکستانی صدر ضياالحق کے صاحبزادے اعجازالحق نے بھی ايک ٹی وی پروگرام ميں يہ تسليم کيا تھا کہ پاکستان افغانستان ميں بيرونی امداد منتقل کرنے ميں واحد کردار تھا۔ اس کے علاوہ بہت سے اہلکار جو اس تناظے کے اہم کردار تھے، انھوں نے بھی اس حقيقت کی تصديق کی ہے۔

يہ ايک تلخ مگر تاريخی حقيقت ہے کہ پاکستان ميں اس وقت کے حکمرانوں نے اس صورتحال کو اپنے مفادات کے ليے استعمال کيا اور مستقبل ميں افغانستان ميں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے ليے امداد کا رخ دانستہ طالبان کی طرف رکھا اور افغانستان ميں موجود ديگر گروپوں اور قبيلوں کو نظرانداز کيا۔ يہ وہ حقائق ہيں جو ان دستاويز سے ثابت ہيں جو ميں اس فورم پر پوسٹ کر چکا ہوں۔

ميں يہاں پر يہ نشاندہی بھی کرنا چاہوں گا کہ امريکہ نے کبھی بھی افغانستان ميں طالبان کی حکومت کو تسليم نہيں کيا تھا اور ان سے سفارتی تعلقات بھی قائم نہيں کیے تھے۔ حقیقت يہ ہے کہ اقوام متحدہ کے 191 ميں سے صرف 3 ممالک نے طالبان کی حکومت کو تسليم کيا تھا۔

اس کے علاوہ يہ بھی ياد رہے کہ طالبان کا آغاز 90 کی دہائ کے وسط ميں ہوا تھا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

arifkarim

معطل
يہاں يہ بات ياد رکھنی چاہيے کہ افغانستان پر سوويت افواج کے حملے کے بعد صرف امريکہ ہی وہ واحد ملک نہيں تھا جس نے امداد مہيا کی تھی بلکہ اس ميں مسلم ممالک جيسے سعودی عرب اور شام سميت ديگر بہت سے ممالک بھی شامل تھے اور اس وقت کے زمينی حقائق کے پيش نظر افغانستان کی مدد ايک درست فيصلہ تھا۔ کيا آپ کے خيال ميں افغانستان کے لوگوں کی مدد نہ کرنا ايک درست متبادل ہوتا؟

www.state.gov

بالکل، ہمیں کبھی بھی غیر ملکی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے تھی۔ کیا پاکستان نے کوریا وار اور ویتنام وار سے کچھ نہیں سیکھا تھا جو چل پڑے امریکہ اور سعودیوں کے کہنے پر افغانیوں کی مدد کرنے:mad:
آج کی دنیا بالکل مختلف ہوتی اگر روسی افغانستان پر قابض ہو جاتے۔ یقینا ً پھر دنیا میں ایک غنڈے کی بجائے دو دو غنڈے ہوتے تاکہ ایک دوسرے کی خبر گیری کر سکیں۔ مجھے شرم آتی ہےیہ پڑھ کر کہ مسلمانوں نے ’’سیاسی جہاد‘‘ کے نام پر مشرکین کی امداد سے طالبان پیدا کئے۔ انکو برین واش کرکے جہاد پر بھیجا۔ اور جب مشن مکمل ہو گیا تو گندی ردی کی طرح پھینک کر ملک سے فرار ہو گئے؟:eek:
اب بتائیں کیا ایسی صورت میں افغانستان کی مدد کرنا ضروری تھا یا نہیں؟ بات صرف اتنی سی ہے کہ یہ سارا کھیل آپکو ڈالرز فراہم کرنے والا امریکہ کا ہے۔ انکا سرمایہ دارانہ نظام خطرے میں تھا اگر روسی افغانستان اور پھر ایران کو اپنے ساتھ ملا لیتے۔ نیز وہ خود افغانستان پر کنٹرول چاہتے تھے (تیل اور معدنیات کے سلسلہ میں)۔ ایسے میں‌دوسری طاقت کو اپنے ٹارگٹ پر حملہ آور ہوتے دیکھ کر انکی جان نکلنا ایک فطری عمل تھا۔ براہ کرم سیاسیات کی بجائے حقائق کیساتھ گفتگو کریں۔
 

arifkarim

معطل
دنيا کے مختلف ممالک سے آنے والی فوجی اور مالی امداد براہ راست پاکستان منتقل کی جاتی رہی اور پھر پاکستان کے توسط سے يہ امداد افغانستان پہنچتی۔

www.state.gov

پاکستان کیوں؟ ایران سے کیا مسئلہ تھا؟ وہ بھی تو مسلمان ملک تھا۔ اسنے افغانیوں اور روسیوں اور خاص کر مسلمانوں کے سیاسی کھیل میں حصہ نہ لے کر آج اپنا پھل پا لیا۔ جبکہ پاکستانی۔۔۔۔۔:rollingonthefloor:
 

مہوش علی

لائبریرین
از فواد:
يہ ايک تلخ مگر تاريخی حقيقت ہے کہ پاکستان ميں اس وقت کے حکمرانوں نے اس صورتحال کو اپنے مفادات کے ليے استعمال کيا اور مستقبل ميں افغانستان ميں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے ليے امداد کا رخ دانستہ طالبان کی طرف رکھا اور افغانستان ميں موجود ديگر گروپوں اور قبيلوں کو نظرانداز کيا۔ يہ وہ حقائق ہيں جو ان دستاويز سے ثابت ہيں جو ميں اس فورم پر پوسٹ کر چکا ہوں۔

ميں يہاں پر يہ نشاندہی بھی کرنا چاہوں گا کہ امريکہ نے کبھی بھی افغانستان ميں طالبان کی حکومت کو تسليم نہيں کيا تھا اور ان سے سفارتی تعلقات بھی قائم نہيں کیے تھے۔ حقیقت يہ ہے کہ اقوام متحدہ کے 191 ميں سے صرف 3 ممالک نے طالبان کی حکومت کو تسليم کيا تھا۔

اس کے علاوہ يہ بھی ياد رہے کہ طالبان کا آغاز 90 کی دہائ کے وسط ميں ہوا تھا۔

فواد
آپکی پچھلی پوسٹ میری نظروں سے گذری ہے۔ ازراہ کرم دو چیزوں کی وضاحت فرما دیں۔


1۔ طالبان کا آغاز 90 کے وسط میں نہیں ہوا بلکہ میری ناقص معلومات کے مطابق 90 کی ابتدا ہی سے اسکی پلاننگ ہونا شروع ہو گئی تھی اور 90 کی وسط میں وہ اپنی ٹریننگ مکمل کر کے نظم و ضبط کے ساتھ جنوبی افغانستان پر قبضہ کر کے کابل پر حملے کر رہے تھے۔


2۔ آپ نے پچھلی پوسٹ میں جو رپورٹیں پیش کی تھیں، وہ سب کی سب 1996 کے آخر یا اس کے بعد کی ہیں۔
یہ وہ وقت تھا جب یہ ظاہر ہو چکا تھا کہ طالبان امریکہ کے زیر اثر نہیں اور امریکی آئل کمپنی کے علاوہ وہ ارجنٹائن کی تیل کمپنیوں کے ساتھ بھی معاہدے کرنے کے لیے انہیں دعوت دے رہے تھے۔
کیا آپ کے پاس 96 سے قبل کی ایسی رپورٹیں موجود ہیں؟
 

باسم

محفلین
اگر اس وقت کی صورتحال کو پاکستانی حکمرانوں نے اپنے مفاد میں استعمال کیا
تو کیا اس وقت امریکہ کا یہ "درست" امداد کرنا اپنے مفاد "روس کو شکست" میں نہیں تھا
اور امریکہ نے طالبان سے کبھی بھی سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے تو کیا اس کے بعد اب تک ان سےکبھی مذاکرات نہیں کیے؟
 

مہوش علی

لائبریرین
مختصر حقائق: سی آئی اے نے طالبان کو کیوں بنایا؟

انٹرنیٹ پر اس سوال کے جواب میں کافی مواد موجود ہے کہ سی آئی اے نے طالبان کو کیوں بنایا۔
تفصیلات اور ریفرنسز آگے لنکز کی صورت میں آپ کو مل جائیں گے جہاں آپ اپنی تفصیلی ریسرچ کر سکتے ہیں۔
فی الحال انٹرنیٹ پر بکھرے اس مواد سے اس سوال کا مختصر جواب کہ کیوں سی آئی اے نے طالبان کو پیدا کیا۔


1۔ امریکی حکام کی سوچ کہ طالبان بھی سعودی مذہبی حکمرانوں کی طرح ان کے خلاف نہیں کھڑے ہوں گے

سی آئی اے نے طالبان کیوں بنائی؟ اس سوال کا جواب سمجھنے کے لیے سب سے جو اہم نکتہ ہے وہ یہ ہے کہ امریکی حکام شروع میں اس غلط فہمی میں تھے کہ جس طرح سعودی مذہبی حکمرانوں سے امریکہ کے اچھے تعلقات ہیں اسی طرح کے تعلقات انکے طالبان کے ساتھ بھی مستقبل میں ہوں گے۔


The creation of the Taliban was "actively encouraged by the ISI and the CIA," according to Selig Harrison, an expert on U.S. relations with Asia. "The United States encouraged Saudi Arabia and Pakistan to support the Taliban, certainly right up to their advance on Kabul," adds respected journalist Ahmed Rashid.
When the Taliban took power, State Department spokesperson Glyn Davies said that he saw "nothing objectionable" in the Taliban's plans to impose strict Islamic law, and Senator Hank Brown, chair of the Senate Foreign Relations Subcommittee on the Near East and South Asia, welcomed the new regime: "The good part of what has happened is that one of the factions at last seems capable of developing a new government in Afghanistan." "The Taliban will probably develop like the Saudis. There will be Aramco [the consortium of oil companies that controlled Saudi oil], pipelines, an emir, no parliament and lots of Sharia law. We can live with that," said another U.S. diplomat in 1997
.


Link: http://www.thirdworldtraveler.com/Afghanistan/Afghanistan_CIA_Taliban.html

مگر امریکی حکام کو اس معاملے میں شدید غلطی ہوئی۔ 1994 میں طالبان قندھار وغیرہ پر قبضہ کر چکے تھے اور پھر 1996 میں کابل پر بھی قبضہ کر چکے تھے۔ اس کے بعد انہوں نے اسلام کو وہ ورژن نافذ کیا جو کہ سعودی ورژن کے اسلام سے کہیں شدید تر تھا اور انہوں نے جو خواتین وغیرہ کے ساتھ سلوک کیا اسکے بعد امریکہ کی کلنٹن ایڈمینسٹریشں کے لیے ممکن نہیں تھا کہ 1996 میں اقوام متحدہ میں انہیں بنا تنقید کے قبول کر سکیں۔



دیگر مقاصد کا ذکر پہلے میں کر چکی ہوں۔ مختصرا:

1۔ وسطی ایشیائی ریاستوں میں پائے جانے والے تیل کی کل مالیت 4 ٹریلین ڈالر کے قریب تھی۔ اس تیل کو پائپ لائن کے ذریعے افغانستان سے ہوتے ہوئے پاکستان اور پھر بحری راستے دنیا تک پھیلانا۔

2۔ خطے میں فرقہ وارانہ جنگ کا آغاز کروانا اور ایران کی شیعہ حکومت کے مقابلے میں افغانستان میں ایک ایسی انتہا پسند طالبانی حکومت کا قیام کہ جن کا ٹکراؤ اور جنگ کا ہونا ناگزیر تھا۔

3۔ کچھ ماہرین کے نزدیک امریکہ طالبان کے ذریعے وسطی ایشیائی ریاستوں میں بھی بھی مذہبی بدامنی پھیلانا چاہتا تھا تاکہ روس اور روسی ریاستیں مزید کمزور سے کمزور تر ہوتی جائیں اور کبھی امریکہ کے سامنے ڈٹ نہ سکیں۔

****************

انٹرنیٹ پر آپ کو بے تحاشہ رپورٹز مل جائیں گی جو کہ طالبان کے قیام میں سی آئی اے کے کردار پر روشنی ڈال رہی ہوں گی۔

میں فقط ایک لنک آپکی خدمت میں پیش کرتی ہوں کیونکہ میرے خیال میں یہاں پر جو ثبوت پیش کیے گئے ہیں وہ ناقابل تردید ہیں۔

اور وہ لنک یہ ہے۔

اگر اسکے بعد فواد صاحب گفتگو جاری رکھنا چاہیں تو میں انہیں خوش آمدید کہتی ہوں۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department



آپ نے جس رپورٹ کا حوالہ ديا ہے اس ميں يہ دعوی کہ افغان صدر حامد کرزئ کسی امريکی تيل کی کمپنی سے منسلک رہے ہيں محض ايک بے بنياد تھيوری ہے۔ اس تھيوری کی بنياد ايک پرانی خبر ہے جو کہ غلط ثابت ہو چکی ہے۔

دسمبر 2 2001 کو ايک فرانسيسی اخبار لی مونڈ نے ايک اداريے ميں يہ دعوی کيا تھا کہ حامد کرزئ ايک امريکی کمپنی يونوکال کے ساتھ ايک کنسلٹنٹ کی حيثيت سے منسلک رہے ہيں۔ ليکن اخبار نے اس دعوے کا کوئ ثبوت پيش نہيں کيا۔ يہی آرٹيکل بعد ميں بہت سے ويب سائٹس پر پوسٹ کيا گيا اور بہت سے ديگر اخبارات نے بھی اس فرانسيسی اخبار ميں شائع ہونے والے اداريے کا حوالہ استعمال کيا۔ ليکن بعد ميں جب اس خبر کی تحقيقق کی گئ تو يہ بے بنياد ثابت ہوئ۔ حامد کرزئ نے نہ ہی يونوکال نامی کمپنی ميں کبھی ملازمت کی اور نہ ہی کبھی کنسلٹنٹ کی حيثيت سے اس کمپنی کے ليے خدمات انجام ديں۔

جولائ 9 2002 کو يونوکال کمپنی کے ترجمان بيری لين نے اپنے ايک انٹرويو ميں فرانسيسی اخبار کے دعوے کو نہ صرف يکسر مسترد کر ديا بلکہ اخبار کو چيلنج بھی کيا کہ وہ اپنے دعوے کو سچ ثابت کرنے کے ليے ثبوت پيش کريں۔ ليکن يونوکال کے کھلے چيلنج کے بعد فرانسيسی اخبار سميت کوئ بھی نشرياتی ادارہ اس دعوے کو ثابت نہ کر سکا جس کے بعد يہ اقواہ اپنے آپ دم توڑ گئ۔

يونوکال کے ترجمان بيری لين کا مکمل انٹرويو آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔


http://emperors-clothes.com/interviews/lane.htm

مسٹر بيری لين کے انٹرويو سے يہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ يونوکال 90 کی دہاہی ميں افغانستان ميں تيل کی پائپ لائن کے حوالے سے ايک منصوبے ميں دلچسپی رکھتی تھی ليکن يہ منصوبہ 1998 ميں منسوخ کر ديا گيا تھا۔ يہ واقعہ 11 ستمبر 2001 سے تين سال پہلے کا ہے۔

آخر ميں صرف اتنا کہوں گا کہ اگر ماضی کے تعلقات کی بنا پر مستقبل کی سازشوں کے آپ کے کليے کو درست مان ليا جائے تو پھر يہ بھی ايک حقيقت ہے کہ حامد کرزئ 80 اور 90 کی دہاہی ميں پاکستان ميں قيام پذير رہے اور اس دوران ان کے بہت سے حکومتی اہلکاروں کے ساتھ بڑے قريبی تعلقات رہے ہيں۔ تو کيا حامد کرزئ کو افغانستان ميں پاکستان کا ايجنٹ قرار دينا چاہيے؟ يہ غير منطقی مفروضہ بہرحال تيل کی سازش کے حوالے سے آپ کے مفروضے کے مقابلے ميں حقيقت سے کسی قدر قريب ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

مہوش علی

لائبریرین
شکریہ فواد صاحب۔
بہرحال، حامد کرزئی کا ذکر انتہائی انتہائی ثانوی مسئلہ تھا۔
کیا آپ اس لنک میں موجود دیگر تمام ثبوتوں کا جواب دینا چاہیں گے جن کا تعلق امریکی سی آئ اے کا طالبان کے قیام سے ہے؟ میں امریکا کا موقف مکمل طور پر پڑھنا اور سمجھنا چاہتی ہوں۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

شکریہ فواد صاحب۔
بہرحال، حامد کرزئی کا ذکر انتہائی انتہائی ثانوی مسئلہ تھا۔
کیا آپ اس لنک میں موجود دیگر تمام ثبوتوں کا جواب دینا چاہیں گے جن کا تعلق امریکی سی آئ اے کا طالبان کے قیام سے ہے؟ میں امریکا کا موقف مکمل طور پر پڑھنا اور سمجھنا چاہتی ہوں۔


آپ نے بالکل درست کہا ہے کہ آپ نے جس لنک کا ريفرنس ديا ہے اس ميں حامد کرزئ کا حوالہ محض ثانوی نوعيت کا تھا۔ ميرا مقصد آپ کو صرف ايک مثال سے يہ باور کروانا تھا کہ يہ ريفرنس قياس، تاثر، يک طرفہ نقطہ نظر اور کئ جگہ پر مسخ شدہ حقائق کی بنياد پر ہے۔

مثال کے طور پر اس لنک ميں يہ دعوی کيا کيا ہے کہ سال 2000 تک سی – آئ – اے کی جانب سے طالبان کی امداد جاری رہی۔

يہ بالکل حقیقت کے منافی ہے۔

جولائ 4 1999 کو صدر بل کلنٹن نے ايک براہراست حکم نامہ جاری کيا تھا جس کی رو سے طالبان کے حوالے سے کسی بھی قسم کا لين دين اور ان سے متعلقہ تمام اثاثہ جات پر مکمل پابندی لگا دی گئ تھی۔ يہ امريکہ کے صدر کی جانب سے ايک براہ راست حکم تھا جس کی پابندی حکومت کی تمام ايجينسيوں اور افراد پر لازم تھی۔

صدر کلنٹن کی جانب سے جاری کيا جانے والا يہ حکم نامہ اور اس پر موجود ان کے دستخط آپ اس ويب لنک پر ديکھ سکتے ہيں۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1173175&da=y

کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ صدر کی جانب سے اس واضح حکم کے باوجود سی –آئ – اے طالبان کی امداد ميں ملوث ہو سکتی ہے؟ حقیقت يہ ہے کہ سی – آئ –اے نے کبھی بھی طالبان کی امداد نہيں کی، جن کا آغاز 1994 سے ہوا تھا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

افغانستان ميں طالبان اور يونوکال نامی امريکی آئل کمپنی کے درميانے ممکنہ معاہدے کو بنياد بنا کر بہت سی سازشی کہانياں تخليق کی گئ ہيں۔ ايسے بہت سے دوست ہيں جو يہ دعوی کرتے ہیں 911 کا حادثہ کسی طرح اسی واقعے سے منسلک ہے۔ جو ريفرنس آپ نے استعمال کيا ہے اس ميں بھی يہی دعوی کيا گيا ہے کہ انٹرنيٹ سے ايسی تمام تصاوير ہٹانے کی کوشش کی گئ ہے جن ميں امريکی عہديداروں کو طالبان کے ساتھ ملاقات کرتے دکھايا گيا ہے۔

اس ضمن ميں کچھ حقائق کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔

دسمبر 7 1997 کو طالبان کے کچھ افسران نے امريکہ ميں يونوکال کے توسط سے ساؤتھ ايشيا کے ليے امريکی اسسٹنٹ سيکرٹری آف اسٹيٹ کارل انٹرفوتھ سے واشنگٹن ميں ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے دوران طالبان کی جانب سے امريکہ کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش اور افغانستان ميں پوست کے متبادل کاشت کاری کے منصوبوں کی ضرورت پر زور ديا گيا۔ انٹرفوتھ کی جانب سے اس ضمن ميں ہر ممکن تعاون کی يقين دہانی کروائ گئ اور اس کے ساتھ ساتھ ان سے حقوق نسواں اور دہشت گردی کے حوالے سے ان کی پاليسی کے بارے ميں وضاحت بھی مانگی گئ۔ اس کے جواب ميں طالبان کا يہ موقف تھا کہ حقوق نسواں کے حوالے سے ان کی پاليسی افغان کلچر کے عين مطابق ہے اس کے علاوہ انھوں نے اس عزم کا بھی اظہار کيا کہ افغانستان کی سرزمين کو دہشت گردی کی کاروائيوں کے ليے استعمال کرنے کی اجازت نہيں دی جائے گی۔

اگرچہ طالبان کا يہ موقف تھا کہ اسامہ بن لادن ان کی دعوت پر افغانستان نہيں آئے ليکن انھوں نے دعوی کيا کہ ان کے پبلک انٹرويوز پر پابندی کے سبب ايران اور عراق ميں بے چينی پائ جاتی ہے کيونکہ وہ ان سے رابطے کی کوشش ميں ہیں۔

آپ اس ملاقات کی مکمل تفصيل اس سرکاری دستاويز ميں پڑھ سکتے ہيں۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1173286&da=y

اس دستاويز سے يہ واضح ہے کہ طالبان کی جانب سے امريکی افسران کو يہ يقين دہانی کروائ گئ تھی کہ اسامہ بن لادن طالبان کے زير حکومت افغانستان کی سرزمين کو دہشت گردی کے ليے استعمال نہيں کر سکيں گے۔ ہم سب جانتے ہيں کہ طالبان کے اس وعدے کا کيا انجام ہوا۔

يہاں يہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ اس معاہدے کے لیے طالبان اصرار کر رہے تھے ليکن امريکی افسران نے دو مواقع پر ان پر يہ واضح کيا تھا کہ اس معاہدے کی کاميابی کا دارومدار ان کی جانب سے خطے ميں امن وامان، سيکورٹی اور انسانی حقوق کی پاسداری کی يقين دہانی سے مشروط ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

یہ وہ وقت تھا جب یہ ظاہر ہو چکا تھا کہ طالبان امریکہ کے زیر اثر نہیں اور امریکی آئل کمپنی کے علاوہ وہ ارجنٹائن کی تیل کمپنیوں کے ساتھ بھی معاہدے کرنے کے لیے انہیں دعوت دے رہے تھے۔
کیا آپ کے پاس 96 سے قبل کی ایسی رپورٹیں موجود ہیں؟


چونکہ آپ نے افغانستان سے روسی انخلاء کے بعد طالبان کی تحريک کے آغاز، اور اس دوران امريکی رول کے بارے ميں سوال کيا ہے تو يہ ضروری ہے کہ قياس اور عمومی تاثر کی بجائے تاريخی حقائق کی روشنی ميں بحث کی جائے۔

ميں جو حقائق پيش کر رہا ہوں يہ کسی ادارے يا فرد کے تجزيے يا رپورٹ کی بنياد پر نہيں ہيں بلکہ امريکی حکومت کے سرکاری دستاويزات کی بنياد پر ہيں۔

يہ درست ہے کہ امريکہ اور افغان عوام نے روسی انخلاء کا خير مقدم کيا تھا۔ ليکن اس کے نتيجے ميں افغانستان ميں ايک واضح سياسی خلا پيدا ہو گيا تھا۔ اس خلا کے نتيجے ميں جب خانہ جنگی کا آغاز ہوا تو اقوام متحدہ نے اپنے ايک خصوصی نمايندے محمود مستری کے ذريعے مختلف سياسی دھڑوں کے مابين سياسی مفاہمت کی کئ کوششيں کيں ليکن وہ ناکام ثابت ہوئيں۔ اس ضمن ميں عالمی برادری نے کابل ميں ربانی اور احمد شاہ مسعود سميت کئ گروپوں کے مابين امن معاہدے کی ناکام کاوششيں کيں۔ ان ناکام کوششوں کے بعد افغانستان ميں خانہ جنگی شدت اختيار کر گئ جس ميں ربانی اور مسعود کسی حد تک حکومتی رول نبھا رہے تھے ليکن افغان جہاد کے وار لارڈ جيسے کہ ازبک کمانڈر عبدل راشد دوستم، پاکستان کے تربيت يافتہ گلبدين حکمت يار اور اسماعيل خان اپنے اثر ورسوخ اور طاقت ميں کمی کرنے پر آمادہ نہيں ہوئے جس کے نتيجے ميں مسلئے کا پرامن حل ممکن نہيں رہا۔

اس صورت حال ميں بيرونی طاقتوں نے افغانستان ميں عدم تحفظ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے سياسی اور دفاعی ايجنڈے کو فروغ دينا شروع کيا۔ مثال کے طور پر پاکستان نے افغانستان کو بھارت کے خلاف دفاعی اصطلاح ميں "اسٹريٹيجک ڈيپتھ" کے طور پر استعمال کرنے کا فيصلہ کيا۔

ابتدا ميں پاکستان نے پختون کمانڈر گلبدين حکمت يار کو سپورٹ کيا جو افغان جہاد ميں اپنے کردار کی وجہ سے افغنستان کے سياسی منظر نامے پر اپنا اثرورسوخ رکھتے تھے۔ جب حکمت يار پاکستان کے لیے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے ميں ناکام رہے تو حکومت پاکستان نے مذہبی طالب علموں کی ايک نئ تحريک کو سپورٹ کرنے کا فيصلہ کيا جو کہ طالبان کے نام سے جانے جاتے تھے۔

جيسا کہ ميں نے پہلے کہا کہ واقعات کا يہ تسلسل ان سرکاری دستاويزات سے ثابت ہے جو ميں يہاں پوسٹ کر رہا ہوں۔

نومبر 1994 کی يہ دستاويز اس واقعے کے ايک ماہ بعد کی ہے جب افغان پاکستان بارڈر پر طالبان نے سپن بولڈيک کی پوسٹ پر قبضہ کيا۔ اس کاروائ ميں طالبان کی براہراست مدد پاکستان کی فرنٹير کور نے کی تھی۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1173492&da=y

(اس دستاويز ميں يہ واضح ہے کہ طالبان کی براہراست سپورٹ پاکستان سے کی گئ جس ميں سب سے نماياں کردار جرنل بابر کا تھا۔)

اس دستاويز سے يہ بھی واضح ہے کہ اس کاميابی کے بعد طالبان کے اثرورسوخ ميں اضافہ ہو گيا اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے اسلحے کی سپلائ ميں بھی بتدريج اضافہ ہوتا گيا۔ پاکستان کی جانب سے طالبان کی سپورٹ کا فيصلہ صرف اس ليے نہيں تھا کہ افغانستان کی سڑکوں کو محفوظ بنا کرٹرانس افغان گيس پائپ لائن کو ممکن بنايا جا سکے بلکہ پاکستانی قيادت کے نزديک طالبان افغانستان کے اندر اپنے اثر ورسوخ اور طاقت کے ذريعے پاکستانی کو حکمت عملی کے حوالے سے وہ فوجی برتری دلا سکتے ہيں جو وہ بھارت کے مقابلے ميں استعمال کر سکتے ہیں۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1173496&da=y

(يہ دستاويز اس مراسلے کی ہے جو امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے افغان ڈيسک کو بيجھی گئ تھی جس ميں حکومت پاکستان اور آئ – ايس – آئ کی جانب سے طالبان کی قندھار کے قبضے کے ضمن ميں براہ راست مداخلت پر تحفظات کا اظہار کيا گيا تھا۔ اس مراسلے کے آخر ميں ہاتھ سے لکھا ہوا يہ جملہ بھی موجود ہے کہ "اج صبح جرنل بابر طالبان آپريشن کی کمانڈ کر رہے تھے")

تاريخی دستاويزات سے يہ واضح ہے کہ پاکستانی افسران کو اس بات کا احساس ہو گيا کہ طالبان پر نہ صرف يہ کنٹرول رکھنا ممکن نہيں ہے بلکہ وہ قابل اعتبار بھی نہيں ہيں۔ کچھ موقعوں پر طالبان امن کے قيام کی ضرورت کا اظہار کرتے، اقوام متحدہ سے تعاون کی يقين دہانی کرواتے اور افغانستان کے مسائل کے حل کے ليے طاقت کی بجائے پرامن طريقوں کی حمايت بھی کرتے ليکن پھر اپنا يہ نقطہ نظر بھی بيان کر ديتے کہ "جو بھی ہمارے راستے ميں آئے گا اسے ختم کر ديا جائے گا"۔

سرکاری دستاويزات سے يہ بھی واضح ہے کہ امريکہ نے افغانستان کے پرامن سياسی حل کے ليے ہر ممکن کوشش کی صرف اس ليے نہيں کہ امريکہ ٹی – اے – پی سے منسلک کاروباری فائدے حاصل کرنا چاہتا تھا بلکہ ديگر اہم ايشوز جيسے کہ انسانی حقوق، منشيات کا خاتمہ اور دہشت گردی بھی اس کے ايجنڈے کا حصہ تھے۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1173493&da=y

(اس دستاويز ميں امريکی سفير کی سويت خارجہ سفير سے ملاقات کا ذکر موجود ہے جس ميں امريکہ کی جانب سے افغنستان کے مسلئے کے حل کيے ليے ہر ممکن کوشش کا يقين دلايا گيا تھا)۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1173494&da=y

(اس دستاويز سے يہ پتا چلتا ہے کہ کابل ميں طالبان کے قبضے کے بعد پاکستان ميں امريکی قونصل خانے کو ہدايت کی گئ تھی کہ طالبان کے بارے ميں نہ صرف يہ کہ ضروری معلومات حاصل کی جائيں بلکہ اس تنظيم سے رابطہ کرنے کا انتظام بھی کيا جائے۔ اس دستاويز سے يہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ امريکہ اس وقت بھی اسامہ بن لادن کی تلاش کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہا تھا)

کئ مواقع پر امريکہ نے طالبان سے منشيات، خواتين کے حقوق اور اسامہ بن لادن کو اپنی دہشت گردی کی کاروائيوں کے لیے محفوظ مقام فراہم کرنے کے ضمن ميں اپنے خدشات سے آگاہ کيا۔

يہ تھيوری کہ سی – آئ – اے طالبان کی امداد ميں براہ راست ملوث تھی، ان دستاويزات سے غلط ثابت ہو جاتی ہے کيونکہ يہ واضح ہے کہ امريکہ کو ہر سطح پر طالبان سے بات چيت ميں شديد مشکلات درپيش تھيں۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1173495&da=y

يہ حقيقت جلد ہی واضح ہو گئ کہ طالبان کی حکومت افغانستان اور عالمی سلامتی کے ليے ايک اچھا شگون نہيں تھا۔ منشيات کو غير اسلامی قرار دينے کے باوجود اس ضمن ميں ان کی عملی پاليسی اور القائدہ سميت بے شمار دہشت گردوں کو اپنے اڈے بنانے کی اجازت اس حقيقت کو واضح کر رہے تھے۔ امريکی سيکرٹری ٹيلبوٹ نے فروری 1996 ميں پاکستان کے وزير خارجہ آصف علی سے اپنی ملاقات ميں طالبان کے حوالے سے خطرات کی نشاندہی کرتے ہوئے پاکستان کی جانب سے افغانستان ميں طالبان کی سپورٹ کو مقبوضہ کشمير ميں عسکری گروپوں کو دی جانے والی سپورٹ سے تشبيہہ دی۔ ۔ امريکی سيکرٹری ٹيلبوٹ نے کہا تھا کہ اگرچہ يہ سپورٹ پاکستان نے اپنے وسيع تر قومی مفاد ميں دی ہے ليکن اس اسپورٹ کے پاکستان اور خطے کے لیے ايسے نتائج بھی نکل سکتے ہيں جس کی نہ تو پاکستان توقع کر رہا ہے اور نہ ہی وہ پاکستان کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔

امريکی سيکرٹری ٹيلبوٹ نے جن غير متوقع نتائج کا ذکر کيا تھا وہ 11 ستمبر 2001 کو سب پر واضح ہو گئے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

بہت سے دوست اس بات پر بہت جذباتی بحث کرتے ہيں کہ طالبان کو آغاز سے ہی سی –آئ – اے نے سپورٹ کيا تھا۔ ميرے خيال ميں اس سوال کا جواب دينے کے ليے سب سے موزوں شخص وہ ہے جس نے طالبان کی تحريک کا آغاز کيا تھا – يعنی کہ خود ملا محمد عمر۔

فروری 20 1995 کی اس سرکاری دستاويز ميں ملا عمر، طالبان اور ان کی تحريک کے آغاز اور اس کے خدوخال کے حوالے سے بہت سے سوالات کے جواب موجود ہيں۔ اس دستاويز کے مطابق ملا عمر نے خود يہ واضح کيا تھا کہ ان کی تحريک کو غير ملکی حکومتوں کی سپورٹ حاصل نہيں تھی۔

http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1173311&da=y

دلچسپ بات يہ ہے کہ ملا عمر کے مطابق ان کی تحريک تمام مسلم ممالک سے اچھے تعلقات کی خواہ ہے ليکن سعودی عرب کی جانب سے افغانستان کے مذہبی معاملات ميں مداخلت پر ان کے تحفظات ہيں۔

ملا عمر کے مطابق وہ حکومت پاکستان کی جانب سے افغانستان کے اندرونی معاملات ميں مداخلت اور آئ –ايس –آئ کی جانب سے افغانستان کو پاکستان کے پانچويں صوبے کی طرح سمجھنا بالکل پسند نہيں کرتے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 
Top