Fawad – Digital Outreach Team – US State Department
طالبان اور امريکہ کے مابين روابط، معاہدوں اور تعلقات کے حوالے سے جو بے شمار کہانياں اور قياس آرائياں کی جاتی ہيں اس ضمن میں کچھ دستاويزی حقائق آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
مجموعی طور پر امريکہ اور طالبان کے درميان 33 مواقعوں پر رابطہ ہوا ہے جس ميں سے 30 رابطے صدر کلنٹن کے دور ميں ہوئے اور 3 رابطے صدر بش کے ۔
اس کے علاوہ طالبان کے ليڈر ملا عمر کی خواہش پر امريکی اہلکاروں کے ساتھ ان کا ايک براہراست رابطہ ٹيلی فون پر بھی ہوا۔ يہ ٹيلی فونک رابطہ 1998 ميں امريکہ کی جانب سے افغانستان ميں اسامہ بن لادن کے اڈوں پر ميزائل حملوں کے محض دو دنوں کے بعد ہوا تھا۔
يہ تمام روابط اور وہ تمام ايشوز جن پر بات چيت ہوئ ريکارڈ پر موجود ہيں۔ ميں ان ميں سے کچھ روابط کی تفصيل يہاں پوسٹ کر رہا ہوں جن سے اس تھيوری کی مکمل طور پر نفی ہو جاتی ہے کہ سی – آئ – اے يا امريکی حکومت کے مابين باہمی تعاون کے اصولوں کی بنياد پر کسی قسم کے تعلقات موجود تھے علاوہ ازيں امريکہ کا طالبان پر کوئ کنٹرول نہيں تھا۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1174871&da=y
اگست 23 1998 کو امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی جانب سے ملا عمر کی اس درخواست پر يہ جواب بھيجا گيا تھا جس ميں ملا عمر نے امريکی حکومت سے اسامہ بن لادن کے خلاف ثبوت مانگا تھا۔ اس دستاويز ميں امريکی حکومت نے فوجی کاروائ کی توجيہہ، اسامہ بن لادن کے خلاف امريکی کيس اور ان وجوہات کی تفصيلات پيش کيں جس کی بنياد پر طالبان سے اسامہ بن لادن کو افغانستان سے نکالنے کا مطالبہ کيا گيا تھا۔ اس دستاويز ميں اس بات کی نشاندہی بھی کی گئ کہ اسامہ بن لادن کے نيٹ ورک نے امريکی جہاز تباہ کرنے کی کوشش کی تھی۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1174875&da=y
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1174878&da=y
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1174876&da=y
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1174877&da=y
ان دستاويزات ميں ان تضادات کا ذکر موجود ہے جو طالبان کے جانب سے امريکی اہلکاروں کے ساتھ بيانات ميں واضح ہو رہے تھے۔ طالبان کا يہ دعوی تھا کہ ان کے 80 فيصد قائدين اور افغانوں کی اکثريت افغانستان ميں اسامہ بن لادن کی موجودگی کے مخالف تھی۔ ليکن اس کے باوجود طالبان کا يہ نقطہ نظر تھا کہ افغانستان اور مسلم ممالک ميں اسامہ بن لادن کی مقبوليت کے سبب اگر انھيں ملک سے نکالا گيا تو طالبان اپنی حکومت برقرار نہيں رکھ سکيں گے۔
ايک پاکستانی افسر نے پاکستان ميں امريکی سفير وليم ميلام کو بتايا کہ طالبان دہشت گرد اسامہ بن لادن سے جان چھڑانا چاہتے ہيں اور اس ضمن میں 3 آپشنز ان کے سامنے ہيں۔ اس افسر کا اصرار تھا کہ اس ميں آپشن نمبر 2 سب سے بہتر ہے جس کے توسط سے امريکہ اسامہ بن لادن کو طالبان سے ايک بڑی رقم کر عوض "خريد" لے۔ دستاويز کے مطابق طالبان کے مطابق اسامہ بن لادن کو نکالنے کی صورت ميں ان کی حکومت ختم ہو جائے گی کيونکہ پختون قبائلی روايت کے مطابق اگر کوئ پناہ مانگے تو اس کو پناہ دينا لازم ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
اور امریکہ نے طالبان سے کبھی بھی سفارتی تعلقات قائم نہیں کیے تو کیا اس کے بعد اب تک ان سےکبھی مذاکرات نہیں کیے؟
طالبان اور امريکہ کے مابين روابط، معاہدوں اور تعلقات کے حوالے سے جو بے شمار کہانياں اور قياس آرائياں کی جاتی ہيں اس ضمن میں کچھ دستاويزی حقائق آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔
مجموعی طور پر امريکہ اور طالبان کے درميان 33 مواقعوں پر رابطہ ہوا ہے جس ميں سے 30 رابطے صدر کلنٹن کے دور ميں ہوئے اور 3 رابطے صدر بش کے ۔
اس کے علاوہ طالبان کے ليڈر ملا عمر کی خواہش پر امريکی اہلکاروں کے ساتھ ان کا ايک براہراست رابطہ ٹيلی فون پر بھی ہوا۔ يہ ٹيلی فونک رابطہ 1998 ميں امريکہ کی جانب سے افغانستان ميں اسامہ بن لادن کے اڈوں پر ميزائل حملوں کے محض دو دنوں کے بعد ہوا تھا۔
يہ تمام روابط اور وہ تمام ايشوز جن پر بات چيت ہوئ ريکارڈ پر موجود ہيں۔ ميں ان ميں سے کچھ روابط کی تفصيل يہاں پوسٹ کر رہا ہوں جن سے اس تھيوری کی مکمل طور پر نفی ہو جاتی ہے کہ سی – آئ – اے يا امريکی حکومت کے مابين باہمی تعاون کے اصولوں کی بنياد پر کسی قسم کے تعلقات موجود تھے علاوہ ازيں امريکہ کا طالبان پر کوئ کنٹرول نہيں تھا۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1174871&da=y
اگست 23 1998 کو امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی جانب سے ملا عمر کی اس درخواست پر يہ جواب بھيجا گيا تھا جس ميں ملا عمر نے امريکی حکومت سے اسامہ بن لادن کے خلاف ثبوت مانگا تھا۔ اس دستاويز ميں امريکی حکومت نے فوجی کاروائ کی توجيہہ، اسامہ بن لادن کے خلاف امريکی کيس اور ان وجوہات کی تفصيلات پيش کيں جس کی بنياد پر طالبان سے اسامہ بن لادن کو افغانستان سے نکالنے کا مطالبہ کيا گيا تھا۔ اس دستاويز ميں اس بات کی نشاندہی بھی کی گئ کہ اسامہ بن لادن کے نيٹ ورک نے امريکی جہاز تباہ کرنے کی کوشش کی تھی۔
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1174875&da=y
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1174878&da=y
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1174876&da=y
http://www.keepandshare.com/doc/view.php?id=1174877&da=y
ان دستاويزات ميں ان تضادات کا ذکر موجود ہے جو طالبان کے جانب سے امريکی اہلکاروں کے ساتھ بيانات ميں واضح ہو رہے تھے۔ طالبان کا يہ دعوی تھا کہ ان کے 80 فيصد قائدين اور افغانوں کی اکثريت افغانستان ميں اسامہ بن لادن کی موجودگی کے مخالف تھی۔ ليکن اس کے باوجود طالبان کا يہ نقطہ نظر تھا کہ افغانستان اور مسلم ممالک ميں اسامہ بن لادن کی مقبوليت کے سبب اگر انھيں ملک سے نکالا گيا تو طالبان اپنی حکومت برقرار نہيں رکھ سکيں گے۔
ايک پاکستانی افسر نے پاکستان ميں امريکی سفير وليم ميلام کو بتايا کہ طالبان دہشت گرد اسامہ بن لادن سے جان چھڑانا چاہتے ہيں اور اس ضمن میں 3 آپشنز ان کے سامنے ہيں۔ اس افسر کا اصرار تھا کہ اس ميں آپشن نمبر 2 سب سے بہتر ہے جس کے توسط سے امريکہ اسامہ بن لادن کو طالبان سے ايک بڑی رقم کر عوض "خريد" لے۔ دستاويز کے مطابق طالبان کے مطابق اسامہ بن لادن کو نکالنے کی صورت ميں ان کی حکومت ختم ہو جائے گی کيونکہ پختون قبائلی روايت کے مطابق اگر کوئ پناہ مانگے تو اس کو پناہ دينا لازم ہے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov