طالبان بنا نے میں سی آئی اے کا ہاتھ ہے ۔۔۔۔ فرانس

گرائیں

محفلین
فواد ، آج چھے دن ہو گئے ہیں، میں اب بھی اپنی گزارشات پر آپ کے تبصرے کا منتظر ہوں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
گرائیں صاحب، کیا میں آپ سے درخواست کر سکتی ہوں کہ اس ڈورے کو صرف امریکی سی آئی اے کی پیدوار طالبان تک محدود رکھا جائے، اور باقی گیارہ ستمبر کے حوالے سے یا تو نیا تھریڈ کھول لیں یا پھر مجھے یاد ہے کہ اس موضوع پر فواد صاحب سے پہلے ہی ایک تھریڈ میں کھل کر بات ہوئی تھی، تو بہتر رہے گا کہ اس بحث کو اسی ڈورے میں آگے بڑھایا جائے۔

اگر آپ اس بات پر راضی ہوں تو ناظمین حضرات سے درخواست کی جا سکتی ہے کہ وہ آپکے مراسلے ان متعلقہ تھریڈز میں منتقل کر دیں۔

<******************

فواد صاحب،

آپ نے اوپر بہت سے مراسلے پیش کیے ہیں۔ افسوس کہ معاملات اس میں سلجھنے کی بجائے مزید الجھ گئے ہیں اور غیر ضروری اور غیر متعلق چیزوں پر زیادہ زور ہے جن کا ذکر بے موقع تھا۔



مثال کے طور پر اس لنک ميں يہ دعوی کيا کيا ہے کہ سال 2000 تک سی – آئ – اے کی جانب سے طالبان کی امداد جاری رہی۔

يہ بالکل حقیقت کے منافی ہے۔

جولائ 4 1999 کو صدر بل کلنٹن نے ايک براہراست حکم نامہ جاری کيا تھا جس کی رو سے طالبان کے حوالے سے کسی بھی قسم کا لين دين اور ان سے متعلقہ تمام اثاثہ جات پر مکمل پابندی لگا دی گئ تھی۔ يہ امريکہ کے صدر کی جانب سے ايک براہ راست حکم تھا جس کی پابندی حکومت کی تمام ايجينسيوں اور افراد پر لازم تھی۔

صدر کلنٹن کی جانب سے جاری کيا جانے والا يہ حکم نامہ اور اس پر موجود ان کے دستخط آپ اس ويب لنک پر ديکھ سکتے ہيں۔

http://www.keepandshare.com/doc/view...d=1173175&da=y

کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ صدر کی جانب سے اس واضح حکم کے باوجود سی –آئ – اے طالبان کی امداد ميں ملوث ہو سکتی ہے؟ حقیقت يہ ہے کہ سی – آئ –اے نے کبھی بھی طالبان کی امداد نہيں کی، جن کا آغاز 1994 سے ہوا تھا۔

فواد صاحب،

سن 2000 اور سن 1999 میں کتنا فرق ہے؟ کیا واقعی آپ کے نزدیک یہ بنیادی فرق ہے یا پھر ثانوی فرق؟
یہ حقیقت بہرحال اپنی جگہ ہے کہ 1998 تک طالبان حکومت کو سرکاری طور پر قبول نہ کرنے کے باوجود امریکی عہدیدار طالبان سے آئل پائپ لائن کے لیے مذاکرات کر رہے تھے اور انہیں دوروں پر بلایا جا رہا تھا۔

میں نے جو طالبان اور سی آئی اے کے حوالے سے اوپر لنک مہیا کیا تھا، اس میں ان افسران کی مکمل تفصیل موجود ہے۔


***************
از فواد:
افغانستان ميں طالبان اور يونوکال نامی امريکی آئل کمپنی کے درميانے ممکنہ معاہدے کو بنياد بنا کر بہت سی سازشی کہانياں تخليق کی گئ ہيں۔ ايسے بہت سے دوست ہيں جو يہ دعوی کرتے ہیں 911 کا حادثہ کسی طرح اسی واقعے سے منسلک ہے۔ جو ريفرنس آپ نے استعمال کيا ہے اس ميں بھی يہی دعوی کيا گيا ہے کہ انٹرنيٹ سے ايسی تمام تصاوير ہٹانے کی کوشش کی گئ ہے جن ميں امريکی عہديداروں کو طالبان کے ساتھ ملاقات کرتے دکھايا گيا ہے۔

اس ضمن ميں کچھ حقائق کی وضاحت کرنا چاہتا ہوں۔

دسمبر 7 1997 کو طالبان کے کچھ افسران نے امريکہ ميں يونوکال کے توسط سے ساؤتھ ايشيا کے ليے امريکی اسسٹنٹ سيکرٹری آف اسٹيٹ کارل انٹرفوتھ سے واشنگٹن ميں ملاقات کی تھی۔ اس ملاقات کے دوران طالبان کی جانب سے امريکہ کے ساتھ بہتر تعلقات کی خواہش اور افغانستان ميں پوست کے متبادل کاشت کاری کے منصوبوں کی ضرورت پر زور ديا گيا۔ انٹرفوتھ کی جانب سے اس ضمن ميں ہر ممکن تعاون کی يقين دہانی کروائ گئ اور اس کے ساتھ ساتھ ان سے حقوق نسواں اور دہشت گردی کے حوالے سے ان کی پاليسی کے بارے ميں وضاحت بھی مانگی گئ۔ اس کے جواب ميں طالبان کا يہ موقف تھا کہ حقوق نسواں کے حوالے سے ان کی پاليسی افغان کلچر کے عين مطابق ہے اس کے علاوہ انھوں نے اس عزم کا بھی اظہار کيا کہ افغانستان کی سرزمين کو دہشت گردی کی کاروائيوں کے ليے استعمال کرنے کی اجازت نہيں دی جائے گی۔

اگرچہ طالبان کا يہ موقف تھا کہ اسامہ بن لادن ان کی دعوت پر افغانستان نہيں آئے ليکن انھوں نے دعوی کيا کہ ان کے پبلک انٹرويوز پر پابندی کے سبب ايران اور عراق ميں بے چينی پائ جاتی ہے کيونکہ وہ ان سے رابطے کی کوشش ميں ہیں۔

آپ اس ملاقات کی مکمل تفصيل اس سرکاری دستاويز ميں پڑھ سکتے ہيں۔

http://www.keepandshare.com/doc/view...d=1173286&da=y

اس دستاويز سے يہ واضح ہے کہ طالبان کی جانب سے امريکی افسران کو يہ يقين دہانی کروائ گئ تھی کہ اسامہ بن لادن طالبان کے زير حکومت افغانستان کی سرزمين کو دہشت گردی کے ليے استعمال نہيں کر سکيں گے۔ ہم سب جانتے ہيں کہ طالبان کے اس وعدے کا کيا انجام ہوا۔

يہاں يہ امر بھی توجہ طلب ہے کہ اس معاہدے کے لیے طالبان اصرار کر رہے تھے ليکن امريکی افسران نے دو مواقع پر ان پر يہ واضح کيا تھا کہ اس معاہدے کی کاميابی کا دارومدار ان کی جانب سے خطے ميں امن وامان، سيکورٹی اور انسانی حقوق کی پاسداری کی يقين دہانی سے مشروط ہے۔

فواد،

ہماری ڈسکشن اس بات پر تھی ہی نہیں ہے کہ امریکہ افغانستان میں خواتین کے حقوق کی بات کر رہا تھا یا نہیں۔
امریکہ میں سعودی عرب میں بھی خواتین کے حقوق کے حوالے سے احتجاج کیا جاتا ہے مگر اسکے باوجود امریکی حکومت اور کمپنیاں بڑے آرام سے سعودی حکومت سے تعلقات رکھتی ہیں اور بزنس کرتی ہیں۔
طالبان کے قیام کے وقت امریکہ یہی غلطی کر رہا تھا کہ اُس کا خیال تھا کہ طالبان بھی سعودی حکمرانوں کی طرح ثابت ہوں گے جہاں انہیں استعمال کرتے ہوئے امریکہ اس خطے میں اپنے مفادات پورے کر سکے گا اور اسی لیے طالبان کو سرکاری طور پر قبول نہ کرتے ہوئے بھی ان سے پائپ لائن کے لیے مذاکرات کیے جا رہے تھے اور آپ ان مذاکرات کو چھپا نہیں سکتے اور نہ ان کا انکار کر سکتے ہیں۔ مگر امریکہ کے لیے مسئلہ یہ ہوا کہ طالبان کے حوالے سے بہت سے فتنے کھڑے ہو گئے جس میں سرفہرست مسئلہ خواتین کے ساتھ انکا جانوروں جیسا سلوک تھا، اور پھر اسامہ بن لادن اور دیگر بے تحاشہ دہشتگردوں کو پناہ دینا شامل تھا۔ اور یہ فتنے وہ تھے کہ جس پر امریکہ میں رائے عامہ طالبان کے اتنے خلاف ہو گئی کہ سی آئی اے اور امریکی حکومت کے لیے ممکن نہ ہو سکا کہ وہ طالبان کو اس خطے میں اپنے مفادات کے لیے مزید استعمال کر سکیں اور انہیں اس آئل پائپ لائن کے منصوبے کو ختم کرنا پڑا۔ بہرحال آئل پائپ لائن کا منصوبہ بھی حقیقت ہے، اس پر امریکی حکام کے طالبان سے مذاکرات بھی حقیقت ہے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ طالبان کو سرکاری طور پر قبول نہ کرتے ہوئے بھی یہ کام 1998 تک ہو رہے تھے۔ دیگر معاملات پر امریکی تشویشات اپنی جگہ، مگر یہ اس چیز کا انکار نہیں ہے کہ سی آئی اے طالبان کو آئل پائپ لائن کے حوالے سے خطے میں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا چاہتی تھی۔


*********************
از فواد:
بہت سے دوست اس بات پر بہت جذباتی بحث کرتے ہيں کہ طالبان کو آغاز سے ہی سی –آئ – اے نے سپورٹ کيا تھا۔ ميرے خيال ميں اس سوال کا جواب دينے کے ليے سب سے موزوں شخص وہ ہے جس نے طالبان کی تحريک کا آغاز کيا تھا – يعنی کہ خود ملا محمد عمر۔

فروری 20 1995 کی اس سرکاری دستاويز ميں ملا عمر، طالبان اور ان کی تحريک کے آغاز اور اس کے خدوخال کے حوالے سے بہت سے سوالات کے جواب موجود ہيں۔ اس دستاويز کے مطابق ملا عمر نے خود يہ واضح کيا تھا کہ ان کی تحريک کو غير ملکی حکومتوں کی سپورٹ حاصل نہيں تھی۔

http://www.keepandshare.com/doc/view...d=1173311&da=y

دلچسپ بات يہ ہے کہ ملا عمر کے مطابق ان کی تحريک تمام مسلم ممالک سے اچھے تعلقات کی خواہ ہے ليکن سعودی عرب کی جانب سے افغانستان کے مذہبی معاملات ميں مداخلت پر ان کے تحفظات ہيں۔

ملا عمر کے مطابق وہ حکومت پاکستان کی جانب سے افغانستان کے اندرونی معاملات ميں مداخلت اور آئ –ايس –آئ کی جانب سے افغانستان کو پاکستان کے پانچويں صوبے کی طرح سمجھنا بالکل پسند نہيں کرتے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ملا عمر کا یہ بیان پیش کرنا اور اس پھر یہ دعوے کرنا بالکل لغو ہے کیونکہ آپ نے ہی خود ہی اوپر امریکی دستاویزات پیش کی ہیں جن میں دعوی کیا جا رہا ہے کہ جنرل نصیر اللہ بابر طالبان کی سربراہی کر رہے تھے اور پاکستان فرنٹیر کور کے جوان طالبان کے نام پر جا کر جنگ لڑ رہے تھے۔ اس کی روشنی میں ملا عمر کے اس بیان کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے کہ طالبان کے قیام میں کسی بیرونی طاقت کا ہاتھ نہیں؟ یہ تو ملا عمر کا بالکل سیاسی بیان یا سیاسی جھوٹ تھا جسے آپ یہاں پر ثبوت کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔


بقیہ جو ثبوت آپ نے پیش کیے ہیں یا امریکی دستاویزات پیش کی ہیں، ان میں سے صرف دو ایسی ہیں جو 1996 سے قبل کی ہیں۔ بقیہ جو 1996 کے بعد کی ہیں ان کی کوئی ویلیو ویسے ہی نہیں ہے جس کا تفصیلی ذکر میں اوپر کر چکی ہوں۔

اور 1996 سے قبل کی دو دستاویزات آپ نے پیش کی ہیں ان پر تبصرہ تھوڑی دیر میں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
ویسے آپ نے ملا عمر کے بیان کو پتا نہیں کیوں اہمیت دی، مگر فرانس کے سفارت کار کے یورپ کے حوالے سے بیان کو کوئی اہمیت نہ دی ، امریکی عہدیداران کے بیانات کو اہمیت نہ دی، اور نہ فاروق لغاری کی بات کو اہمیت دی، اور مزید اب زرداری صاحب کا بیان آپ کے سامنے ہے۔


zardari tells american press that the cia and pakistan's isi together created the taliban

washington, may 11 (pti) in a new revelation, pakistan president asif ali zardari has said that the cia of the united states and his country's isi together created the taliban.

"i think it was part of your past and our past, and the isi and cia created them together," zardari told the nbc news channel in an interview.

In the interview, which was given to the nbc on may 7, zardari also accused the us of supporting the military rule of pervez musharraf who was alleged to be taking sides of the taliban.

He disagreed with the popular belief in the us that the pakistan military and intelligence services still have sympathies for the taliban.

"i think general musharraf may have had a mindset to run head and hand with the hound but certainly not on our watch. We don't have a tough process at all," zardari said.

Asked about the influential role of the pakistan army, zardari said he is in control of everything in the country, including the military.

"the parliament has final say. It's the parliament form of government, and i am a product of the parliament," he said.

Earlier, zardari in an another interview had said that india was not a "threat" to his country and that pakistan had moved some of its forces from its indian border to western frontier to eliminate taliban in its tribal belt.

لنک پاکستان نیوز

pti


اور اب کائرہ صاحب کی گواہی بھی سامنے آ چکی ہے:

طالبان آئی ایس آئی نہیں سی آئی اے کی پیداوار ہیں ، قمر الزمان کائرہ
پاک فوج شدت پسندوں کیخلاف بہادری سے لڑ رہی ہے ، دنیا میں امن پاکستان میں امن سے مشروط ہے ، نیویارک میں پاکستانیوں سے خطاب
نیویارک۔۔۔۔ وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ طالبان آئی ایس آئی نہیں امریکی سی آئی اے کی پیداوار ہیں ایک لاکھ بیس ہزار فوج شرپسندوں کیخلاف جنگ بہادری سے لڑ رہی ہے وہ نیویارک میں پاکستانیوں سے خطاب کررہے تھے وفاقی وزیر اطلاعات نے کہا کہ پاکستان اس وقت عالمی جنگ کا میدان بنا ہوا ہے پاکستان میں امن قائم ہوگا تو دنیا میں بھی ہوگا انہوں نے کہا کہ طالبان امریکی سی آئی اے کی پیداوار ہیں سی آئی اے کے سربراہ افغانستان پر روسی حملے کے دور میں پاکستان آکر جہاد کی اہمیت پر لیکچر دیا کرتے تھے انہوں نے کہا کہ پاکستانی دینی مدارس کے حوالے سے پائے جانے والے تحفظات کا مقابلہ جدید سکولوں سے کیا جاسکتا ہے اس حوالے سے اصلاحات کی بھی ضرورت ہے جبکہ امریکہ سے بھی مدد مانگی ہے ان کا کہنا ہے کہ سوات میں طالبان نہیں ظالمان ہیں انہوں نے کہا کہ پاک فوج بہادری سے شرپسندوں کیخلاف لڑ رہی ہے اور شدت پسندوں کا جلد صفایا کردیا جائے گا وزیر اطلاعات نے مزید کہا کہ حکومت نقل مکانی کرنے والے افراد کی دیکھ بھال کیلئے ہر ممکن وسائل بروئے کار لا رہی ہے ۔

لنک

1994کے حوالے سے فواد صاحب آپ نے جو دستاویزات پیش کی تھیں، ان میں سے ایک ہی اہمیت کی حامل تھی اور وہ یہ کہہ رہی تھی کہ طالبان کو آئی ایس آئی نے نہیں بلکہ پاکستانی حکومت نے پیدا کیا تھا۔ فاروق لغاری نے اس وقت کی حکمران بے نظیر بھٹو سے پوچھا تھا کہ وہ کیوں طالبان کی حمایت کر رہی ہیں تو مرحومہ نے جواب دیا تھا کہ امریکہ ایسا چاہتا ہے۔

1994 کی اس رپورٹ کے ذریعے اس بات کا انکار نہیں کیا جا سکتا کہ سی آئی اے نے طالبان کو بنایا ہے۔ کیونکہ یہ رپورٹ صرف پاکستان میں بیٹھے کسی نچلے درجے کے امریکی اہلکار کی رپورٹ ہے کہ جس کو سی آئی اے کے امریکہ میں موجود مین ہیڈ کوارٹر میں ہونے والے فیصلوں کے بارے میں علم نہیں ہے، بلکہ اسکا کام صرف پاکستان اور افغانستان میں ہونے والے واقعات کی رپورٹ بنا کر بھیج دینا ہے۔ میں نے اوپر اپنے ایک مراسلے میں امریکی حکومت کے اہم اہلکاروں اور سفارتکاروں کے اقتباسات آپ کے سامنے پیش کر دیے تھے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو کہ امریکہ کے سنٹر میں موجود تھے اور چیزوں کو بہت بہتر طریقے سے سمجھتے تھے اور اسی بنیاد پر انہوں نے یہ بیانات دیے تھے۔
اسکے بعد فرانس اور اب پاکستانی حکام کے بیانات بھی بالکل صاف طور پر سامنے ہیں۔ کیا ان سب کے بعد بھی یہ ممکن ہے کہ اس بات کا انکار کیا جائے کہ سی آئی اے طالبان کی پیداوار میں شامل نہیں تھی؟ بے شک امریکہ کو عورتوں کے حقوق اور ڈرگز اور دہشتگردی کے حوالے سے خدشات رہے ہوں گے، مگر یہ باتیں اس بات کا انکار نہیں کہ طالبان کو پیدا کرنے میں امریکہ نے اہم کردار ادا کیا۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اوراور آپ 2001 میں ہوائی جہاز کے مسافروں کو فون استعمال کرتے ہوئے دکھا رہے ہیں۔ جب غالباً یہ ٹیکنالوجی تھی ہی نہیں-


موبائل فون کے استعمال کے حوالے سے دستاويزی فلم "لوز چينج" ميں جو ايشو اٹھايا گيا تھا اس کی بنياد اے – کے – ڈيوڈنی نامی ايک شخص کی تحقيق تھی جو سازشی کہانیوں کی تخليق ميں خاصی شہرت رکھتے ہيں۔ ان کی تحقيق کے مطابق 8000 فٹ کی بلندی سے موبائل فون کال "ناممکن" تھی۔

جب بھی موبائل فون کے حوالے سے سوال اٹھايا جاتا ہے تو اس ميں سب سے اہم بات جو نظرانداز کر دی جاتی ہے وہ يہ ہے کہ قريب تمام فون کالز موبائل سے نہيں بلکہ جہاز کے ائر فون سسٹم سے کی گئ تھيں، جو کہ اس وقت قابل استعمال تھا۔ ہائ جيک کيے جانے والے جہازوں سے 64 فون کالز کی گئ تھيں جن ميں سے صرف 2 کالز ذاتی موبائل فون سے کی گئ تھيں۔

يہ بھی ياد رہے کہ اے – کے – ڈيوڈنی نے اپنی تحقيق ان علاقوں میں کی جو انتہائ گنجان آباد تھے جہاں پر سگنلز کی ترسيل بہت مشکل تھی جبکہ ہائ جيک ہونے والے جہازوں سے جو فون کالز کی گئ تھيں وہ کم آبادی والے علاقوں سے کی گئ تھی جہاں سگنلز کی ترسيل بآسانی ممکن تھی۔ بيس اسٹيشنز کی تعمير اسی نقطہ نظر سے کی جاتی ہے کہ شہری آبادی کے اوپر ان کی رينج 328 فيٹ تک اور کم گنجان آبادی کے اوپر 2۔9 ميل تک ہوتی ہے۔ اس لیے يہ تو ممکن ہے کہ ان جہازوں سے فون کالز کی جا سکتی تھيں البتہ اے – ٹی – اين – ٹی کی ايلکسا گراف اور وائرليس ويک ڈاٹ کام کے مطابق سال 2001 کی ٹيکنالوجی کو مدنظر رکھتے ہوئے يہ کالز منقطع ہو جانی چاہيے۔

فلائيٹ 93 سے جو دو فون کالز کی گئ تھيں وہ 9:58 منٹ پر اپالاچيان پہاڑوں کے اوپر محض 2000 فيٹ کی بلندی پر کی گئ تھيں۔ ايڈورڈ فيلٹ نامی ايک فون کالر کے مطابق وہ زمين سے محض 300 فيٹ کی بلندی پر تھے۔ يہ دونوں فون کالز 2 منٹ کے اندر منقطع ہو گئ تھيں۔

مسافروں کے علاوہ کم از کم دو ہائ جيکرز اور فلائٹ 93 کے پائلٹ کی آوازيں بھی ائر ٹريفک کنٹرول کی ريکارڈنگز ميں سنی گئ تھيں۔ ان سب آوازوں کو جعلی طور پر تيار کرنا ناممکن ہے۔ مجموعی طور پر ائر ٹريفک کنٹرول کی ريکارڈنگز ميں 25 افراد کی آوازيں سنی جا سکتی ہيں جن ميں سے اکثر اس وقت بھی لائن پر تھے جب جہاز اپنے ٹارگٹ سے ٹکرائے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department



ميں 11/9 کے حوالے سے اب تک 122 دستاويزی فلميں ديکھ چکا ہوں جس ميں اس واقعے کے بارے ميں ہر قسم کی سازش کے دعوی سے بخوبی واقف ہوں۔ اس موضوع پر ميں نے جب بھی کسی اردو فورم پر رائے کا اظہار کيا ہے تو دوستوں نے اس کے جواب ميں مجھے ہر طرح کی دستاويز اور ويڈيو لنکس بيجھے ہيں۔

سب سے بڑا مسلہ يہ ہے کہ جو لوگ اس واقعے کو سازش قرار ديتے ہيں ان کی ساری تحقي‍ق اور جستجو اسی نقطہ نظر پر مرکوز ہوتی ہے۔ وہ ہميشہ اس مواد کو دانستہ نظرانداز کرتے ہيں جس ميں اعداد و شمار اور سائنسی تحقي‍ق کی روشنی ميں ہر سوال کا جواب ديا گيا ہے۔

ويسے اس حوالے سے ميرا بھی ايک سوال ہے۔ کيا پچھلے 50 يا 60 سالوں ميں کوئ بھی ايسا واقعہ ہے جس کے بارے ميں "سازش" کے دعوے دار نہ ہوں۔ وہ چاہے شہزادی ڈيانا کی موت کا واقعہ ہو يا انسان کا چاند پر پہلا قدم۔ آپ کو انٹرنيٹ پرہر "سازش" کا ثبوت مل جائے گا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

امریکہ میں سعودی عرب میں بھی خواتین کے حقوق کے حوالے سے احتجاج کیا جاتا ہے مگر اسکے باوجود امریکی حکومت اور کمپنیاں بڑے آرام سے سعودی حکومت سے تعلقات رکھتی ہیں اور بزنس کرتی ہیں۔
طالبان کے قیام کے وقت امریکہ یہی غلطی کر رہا تھا کہ اُس کا خیال تھا کہ طالبان بھی سعودی حکمرانوں کی طرح ثابت ہوں گے جہاں انہیں استعمال کرتے ہوئے امریکہ اس خطے میں اپنے مفادات پورے کر سکے گا


ميرے خيال ميں سعودی حکومت اور افغانستان ميں طالبان حکومت کا موازنہ نہ تو منطقی ہے اور نہ ہی منصفانہ۔ يہ درست ہے کہ امريکہ سعودی معاشرے ميں بہت سے قوانين اور روايات سے متفق نہيں اور اس کا اظہار عوامی سطح پر کيا جاتا ہے۔ليکن اس کے باوجود سعودی عرب کے عوام اور ان کی حکومت سے امريکہ کے ديرينيہ تعلقات ہيں جو کئ دہائيوں پر محيط ہيں۔ جہاں تک طالبان کا سوال ہے تو وہ حکومتی سطح پر براہراست ان دہشت گردوں کی حمايت کر رہے تھے جنھوں نے امريکہ کے خلاف باقاعدہ جنگ کا اعلان کر ديا تھا۔

جہاں تک سعودی عرب ميں انسانی حقوق کے ريکارڈ کا سوال ہے تواس حوالے سے ميں يہ واضح کر دوں کہ امريکی حکومت دنيا بھر کے ممالک ميں قوانين، طرز حکومت اور ثقافتی تشخص کے خاتمے کے مشن پر نہيں ہے۔ يہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ دنيا بھر ميں ايسے بہت سے ممالک ہیں جن سے امريکہ تيل خريدتا ہے ليکن اس کے باوجود انسانی حقوق کے حوالے سے اپنے تحفظات سے انھيں آگاہ کرتا رہتا ہے۔

اس وقت دنيا ميں قريب 50 سے زائد اسلامک ممالک ہيں اور ان ميں سے زيادہ تر ممالک سے امريکہ کے باہم احترام کے اصولوں کی بنياد پر دوستانہ تعلقات ہيں۔

ايسے کئ غير مسلم ممالک بھی ہیں جہاں پر کچھ روايات اور قوانين امريکی معاشرے کے اصولوں سے مطابقت نہيں رکھتے ليکن اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں ہے کہ امريکہ ان ممالک سے سفارتی تعلقات استوار کرنے سے پہلے ان قوانين کو تبديل کرے۔

سعودی عرب سے اچھے تعلقات کے باوجود امريکی حکومت نے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے خلاف مسلسل اپنا موقف واضح کيا ہے۔ اگر آپ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی انسانی حقوق کے حوالے سے سعودی عرب پر رپورٹ کا مطالعہ کريں تو آپ کو امريکہ کے تحفظات کا اندازہ ہو جائے گا۔ دلچسب بات يہ ہے کہ ميں اس وقت بھی ايک فورم پر کچھ دوستوں کی جانب سے اس تنقيد کا جواب دے رہا ہوں کہ امريکہ کی جانب سے دوسرے ممالک کے قوانين پر تنقید ان کے اندرونی ممالک ميں مداخلت اور خودمختاری پر حملے کے ضمن ميں آتا ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

طالبان کے قیام کے وقت امریکہ یہی غلطی کر رہا تھا کہ اُس کا خیال تھا کہ طالبان بھی سعودی حکمرانوں کی طرح ثابت ہوں گے جہاں انہیں استعمال کرتے ہوئے امریکہ اس خطے میں اپنے مفادات پورے کر سکے گا اور اسی لیے طالبان کو سرکاری طور پر قبول نہ کرتے ہوئے بھی ان سے پائپ لائن کے لیے مذاکرات کیے جا رہے تھے اور آپ ان مذاکرات کو چھپا نہیں سکتے اور نہ ان کا انکار کر سکتے ہیں۔ مگر امریکہ کے لیے مسئلہ یہ ہوا کہ طالبان کے حوالے سے بہت سے فتنے کھڑے ہو گئے جس میں سرفہرست مسئلہ خواتین کے ساتھ انکا جانوروں جیسا سلوک تھا، اور پھر اسامہ بن لادن اور دیگر بے تحاشہ دہشتگردوں کو پناہ دینا شامل تھا۔ اور یہ فتنے وہ تھے کہ جس پر امریکہ میں رائے عامہ طالبان کے اتنے خلاف ہو گئی کہ سی آئی اے اور امریکی حکومت کے لیے ممکن نہ ہو سکا کہ وہ طالبان کو اس خطے میں اپنے مفادات کے لیے مزید استعمال کر سکیں اور انہیں اس آئل پائپ لائن کے منصوبے کو ختم کرنا پڑا۔ بہرحال آئل پائپ لائن کا منصوبہ بھی حقیقت ہے، اس پر امریکی حکام کے طالبان سے مذاکرات بھی حقیقت ہے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ طالبان کو سرکاری طور پر قبول نہ کرتے ہوئے بھی یہ کام 1998 تک ہو رہے تھے۔


ميں نے اس حقيقت سے بالکل انکار نہيں کيا کہ يونوکال طالبان کے دور حکومت ميں تيل کی پائپ لائن کے منصوبے ميں دلچسپی رکھتی تھی۔ بلکہ ميں نے سرکاری حکومتی دستاويز کے ذريعے ان تقاط کی تفصيل بھی پوسٹ کی ہے جو اس ميٹينگ ميں زير بحث تھے۔

آپ يہاں دو متضاد دلائل دے رہی ہيں۔ سعودی عرب کے حوالے سے آپ کا کہنا ہے کہ تيل کے معاہدوں کی وجہ سے امريکہ سعودی عرب کے انسانی حقوق کے ضمن ميں خلاف ورزيوں کو نظرانداز کر ديتا ہے۔ ليکن طالبان کے معاملے ميں آپ کا نقطہ نطر يہ ہے کہ امريکی عوام کی جانب سے طالبان کے خلاف بڑھتے ہوئے ردعمل کی وجہ سے امريکی حکومت کو طالبان کے ساتھ اپنے روابط منقطع کرنا پڑے۔ اگر تيل کے معاہدے ہی اصل ہدف تھا تو آپ کی منطق کو سامنے رکھتے ہوئے امريکہ کو سعودی عرب کی طرح طالبان کے ساتھ معاہدے پر بھی کوئ اعتراض نہيں ہونا چاہيے تھا۔

جولائ 9 2002 کو يونوکال کے ترجمان بيری لين نے اپنے انٹرويو ميں واضح کیا تھا کہ پائپ لائن کا منصوبہ سال 1995 ميں تجويز کيا گيا تھا۔

آپ بيری لين کا انٹرويو اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔

http://emperors-clothes.com/interviews/lane.htm

ميں نے اس فورم پر جو دستاويزات پوسٹ کی ہيں ان سے يہ ثابت ہے کہ اس وقت تک طالبان قريب پورے ملک پر قابض ہو چکے تھے اس لیے يہ منطق ناقابل فہم اور تاريخی حقائق کی نفی ہے کہ انھيں تيل کے معاہدے کو مدنظر رکھتے ہوئے اسپورٹ دے کر برسراقتدار لايا گيا تھا۔

بيری لين نے يہ بھی واضح کيا کہ يہ منصوبہ افغانستان ميں سيکيورٹی کی ابتر صورت حال کی وجہ سے ہميشہ تعطل کا شکار رہا۔ يہ نقطہ بھی ان دستاويزات سے ثابت ہے جن کا حوالہ ميں نے اس تھريڈ ميں ديا ہے۔ ايک دستاويز ميں متعدد بار يہ باور کروايا گيا ہے کہ اس منصوبے کی راہ ميں سب سے بڑی رکاوٹ طالبان کی جانب سے دہشت گردی کی پشت پناہی ہے۔

تيل کا يہ منصوبہ دسمبر 1998 میں اس وقت منسوخ کر ديا گيا جب القائدہ کی جانب سے افريقہ ميں امريکی سفارت خانوں پرحملوں کے بعد يہ واضح ہو گيا کہ طالبان اسامہ بن لادن اور ان کی تنظيم القائدہ کی حمايت ترک کرنے کا کوئ ارادہ نہيں رکھتے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

سی آئی اے طالبان کو آئل پائپ لائن کے حوالے سے خطے میں اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا چاہتی تھی۔

يونوکال وہ واحد کمپنی نہيں تھی جو سينٹرل ايشيا ميں تيل اور گيس کے ذخائر کے حوالے سے منصوبوں کی تکميل ميں دلچسپی رکھتی تھی۔ يونوکال درصل کئ ممالک پر مبنی سينٹ گيس نامی ايک عالمی کنسورشيم کا جزو تھا۔ اس کے علاوہ اس ميں ڈيلٹا آئل کمپنی (سعودی عرب)، ترکمنستان کی حکومت، انڈونيشيا پٹروليم لميٹڈ، انپيکس (جاپان)، اٹوچو آئل ايکسپلوريشن کمپنی لميٹڈ (جاپان)، ہنڈائ انجيرينگ اينڈ کنسٹرکشن کمپنی لميٹڈ (کوريا)، کريسنڈ گروپ (پاکستان) اور آر – اے- او گيزپروم (روس) شامل تھے۔

اگر تيل کا يہ معاہدہ کامياب ہو بھی جاتا تو اس کا يہ مطلب ہرگز نہيں تھا کہ امريکی حکومت کو خطے ميں تيل کی سپلائ پر کنٹرول حاصل ہو جاتا۔ يونوکال ايک پرائيوٹ کمپنی تھی اور وہ انھی شرائط اور معاہدوں کے تحت کام کرنے کی پابند تھی جو ميزبان ملک کی حکومت اور عالمی کنسورشيم کے ديگر مابين کے مابين طے ہو چکے ہوں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

آپ جب بھی تاريخ کا تنقيدی تجزيہ کرتے ہیں تو لامحالہ آپ اسی نتيجے پر پہنچتے ہيں کہ يقينی طور پر غلطياں کی گئ تھيں۔ ايسے فيصلے بھی سامنے آتے ہيں جو مطلوبہ نتائج حاصل نہيں کر سکے۔ ايسی پاليسياں بھی تشکيل دی گئيں جو سو فيصد درست ثابت نہيں ہوئيں۔ تاريخی لحاظ سے اس حقيقت کا اطلاق ہر ملک اور حکومت پر ہوتا ہے۔ يہ سوچ اور اپروچ اس غير حقيقی اور مقبول جذباتی طرزفکر سے قطعی مختلف ہے جس کے مطابق سب کچھ ايک سوچی سمجھی سازش اور دنيا پر کنٹرول بڑھانے کا نتيجہ تھا۔

جب پاکستان کے کچھ تجزيہ نگار اور سياست دان طالبان اور القائدہ کی تشکيل ميں امريکی امداد (جس کی ترسيل پاکستان کے افسران کے ذريعے ہوئ تھی) کو مورد الزام ٹھہراتے ہیں تو وہ کچھ ناقابل ترديد تاريخی حقائق کو نظرانداز کر ديتے ہيں۔ 90 کی دہائ ميں حکومت پاکستان کو بيجھی جانے والی 30 کے قريب رپورٹيں اورطالبان اور امريکی حکومت کے اہلکاروں کے مابين روابط کی تفصيل سے يہ ثابت ہے کہ امريکہ نے سفارتی اور انتظامی چينلز کے ذريعے دہشت گردی کے عفريت کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کی تھی۔

جب امريکہ نے بہت سے مسلم اور غير مسلم ممالک کے ساتھ مل کر افغانستان کے مجاہدين کی مدد کا فيصلہ کيا تھا تو اس کا مقصد مستقبل کے لیے دہشت گرد تيار کرنا نہيں تھا۔ اس وقت کے زمينی حقائق کے تناظر ميں وہ ايک درست پاليسی تھی۔ دہشت گردی کے اس عفريت کے مکمل ذمہ دار اور قصور وار القائدہ اور طالبان ہيں جو دہشت گردوں کی مکمل سپورٹ کر رہے تھے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

گرائیں

محفلین
یہ تو میں نے پہلے ہی کہہ دیا تھا۔ وہ امریکی حکومت کا ملازم ہے اور امریکی حکومت کسی بھی ایسے نالائق کو یہ کام نہیں سونپے گی جو ہم جیسے " جذباتی پاکستانیوں " سے ہار جائے یا لاجواب ہو جائے۔

در حقیقت۔۔ جھوٹ اتنا بولو کہ لوگ اسے سچ سمجھنے لگیں۔۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اس گفتگو کا خلاصہ: "نہ تم مانو نہ ہم"!

ميں نے کبھی بھی يہ دعوی نہيں کيا کہ ميں آپ کو يا ديگر پڑھنے والوں کو قائل کرنا چاہتا ہوں۔ اس کے علاوہ ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کا مقصد امريکہ کی خارجہ پاليسی اور اس ضمن ميں کيے جانے والے فيصلوں کے ليے حمايت حاصل کرنا نہيں ہے۔ امريکی اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کے ترجمان کی حيثيت سے ميں صرف آپ کو تاثر اور قياس سے عاری وہ حقائق اور پاليسی بيان کر رہا ہوں جو سرکاری بيانات، رپورٹس اور دستاويزات کی بنياد پر ہيں۔

آج کل کچھ افراد کے ليے يہ بہت آسان ہے کہ وہ پاکستانی ٹاک شوز ميں آ کر بغير کسی ثبوت کے بڑے بڑے بيانات اور بے سروپا سازشی کہانيوں کی تشہير کر سکتے ہيں۔ آپ خود ديکھ سکتے ہيں کہ اردو کے قريب تمام فورمز پر زيادہ تر دلائل اسی گفتگو پر مبنی ہوتے ہيں جو لوگ ان شوز ميں ديکھتے اور سنتے ہيں۔

ميں قابل تحقيق بيانات، حکومتی دستاويزات اور حقائق کی بنياد پر بحث کا دوسرا رخ آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔ يہ کوئ سازش نہيں ہے۔ کسی بھی فورم پر ايک تعميری بحث کے ليے حقائق کی پڑتال اور اس کا تجزيہ سب سے اہم اصول ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
 

arifkarim

معطل
حقائق وہی ہیں جو ہمیں نظر آرہے ہیں۔ امریکی حکومت کے "آفیشل" بیانات یا پاکستانی ٹالک شوز پر دئے جانے کمنٹس سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا!
 
Top