میں امریکیوں کو اس لحاظ سے پسند کرتا ہوں کہ یہ To the point بات کرنا پسند کرتے ہیں لیکن یہاں موجود ان کے جارحیت ونگ کےوکیل صاحب کی بد حواسیاں دیکھتے ہوئے مجھے کہنا پڑے گا کہ "امریکہ میں تو آباد ہو گئے لیکن بر صغیریت نہ گئی"۔
لیکن پھر بقول ہیلری کلنٹن ان طالبان کے "ظاہری" اسلامی تشخص کی وجہ سے امریکہ کو اپنے مفادات خطرے میں محسوس ہونے لگے تب ان میں گروپ بندی کی گئی
فواد
یہ اوپر کا پیغام تو ایک ڈرون حملہ ہے۔ یہ تو سوال ہی نہیں تھا
تو اسرائیلی مذہبی نعروں اور جذبے کی آڑ میں اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے اور عوام پر خوف اور دہشت کے ذريعے اپنا تسلط قائم کرنے کے ليے صیہونی ڈرونز کیوں استعمال کئے جاتے ہیں؟انھيں مذہبی نعروں اور جذبے کی آڑ ميں اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے اور عوام پر خوف اور دہشت کے ذريعے اپنا تسلط قائم کرنے کے ليے استعمال کيا جاتا ہے۔
کیسے تعلق نہیں ہے؟ افغان جہاد میں جو کتب برین واشنگ کی غرض سے افغانستان لائی گئی تھی، وہ سب کی سب امریکی یونیورسٹیز سے ہی تیار شدہ تھیں:ليکن اس جدوجہد کا موجودہ دور کی دہشت گرد تنظيموں اور گروہوں سے کوئ تعلق نہيں ہے جو دانستہ بغير کسی تفریق کے بے گناہ شہريوں کا خون بہا کر حکومت کو کمزور کرنے کے درپے ہيں تاکہ اپنی مرضی کا نظام مسلط کر سکيں۔
تو پھر امریکی کمپنیاں آج افغانستان اور عراق میں کیا کر رہی ہیں؟ کیا اسے قبضہ جمانا نہیں کہتے؟افغانستان ميں ہمارے مقاصد اور ہمارے اہداف کا علاقے فتح کرنا يا آباديوں پر قبضہ جمانا ہرگز نہيں ہے۔ ہمارا چيلنج تو ان مجرموں اور دہشت گردوں کا تعاقب کرنا ہے جو دانستہ انسانی آباديوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہيں۔
اب اسامہ اس دنیا میں نہیں رہا تو کیا یہ ممکن ہے کہ امریکہ بھی یہاں سے بستر گول جلدی کرلے۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ
جہاں تک آپ کا يہ کہنا ہے کہ امريکی افواج کو اس خطے سے فوری طور پر نکل جانا چاہيےتو اس حوالے سے يہ بتا دوں کہ امريکی حکام بھی يہی چاہتے ہيں کہ جلد از جلد فوجيوں کو واپس بلايا جائے خود امريکی صدر اوبامہ نے ايک سے زائد موقعوں پر اس حقیقت کو واضح کيا ہے ليکن آپ کچھ زمينی حقائق نظرانداز کر رہے ہيں۔ اس وقت امريکی افواج افغانستان ميں منتخب افغان حکومت کے ايما پر موجود ہيں اور افغان افواج کی فوجی تربيت کے ذريعے اس بات کو يقينی بنا رہی ہيں کہ خطے سے امريکی افواج کے انخلا کے بعد سيکيورٹی کے حوالے سے پيدا ہونے والے خلا کو پر کيا جا سکے۔ حکومت پاکستان سميت بہت سے ماہرين اور تجزيہ نگاروں نے اس خدشے کا اظہار کيا ہے کہ اگر امريکی افواج کو فوری طور پر واپس بلا ليا گيا تو پر تشدد کاروائيوں پر قابو پانا ممکن نہيں رہے گا اور خطے ميں امن کا قيام محض ايک خواب بن کر رہ جائے گا۔
ميں آپ کو ياد دلانا چاہتا ہوں کہ اب تک سينکڑوں کی تعداد ميں امريکی فوجی بھی اس جنگ ميں ہلاک ہو چکے ہيں۔ امريکہ افغانستان سے جلد از جلد نکلنا چاہتا ہے ليکن اس کے ليے ضروری ہے کہ افغان حکومت اس قابل ہو جائے کہ امريکی افواج کے انخلا سے پيدا ہونے والے سيکيورٹی کے خلا کو پورا کر سکے بصورت ديگر وہاں پر متحرک انتہا پسند تنظيميں جوکہ اس وقت بھی روزانہ عام شہريوں کو قتل کر رہی ہيں، مزيد مضبوط ہو جائيں گی اور سارے خطے کا امن خطرے ميں پڑ جائے گا۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
/کیا امریکہ نے اپنی مرضی کا مغربی جمہوری نظام افغانستان اور عراق میں نافظ نہیں کیا،
فواد صاحب،فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
عراق اور افغانستان ميں فوجی کاروائ کا مقصد ان ممالک ميں زبردستی جمہوريت يا کوئ اور طرز حکومت مسلط کرنا ہرگز نہيں تھا۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ ہم نے ان ممالک ميں عام عوام اور متعلقہ حکام کو اس بات کی ترغيب ضرور دی ہے کہ وہ اقوام عالم کا حصہ بنيں اور آزمودہ جمہوری قدروں کو پروان چڑھائيں۔ ليکن اس ضمن ميں حتمی اور فيصلہ کن کردار بحرحال ان ممالک کے عوام نے خود ادا کرنا ہے۔ اسی خطے ميں ايسے بہت سے ممالک بھی ہيں جہاں جمہوری نظام حکومت نہيں ہے ليکن اس کے باوجود ہمارے ان ممالک کے ساتھ ديرينہ تعلقات استوار ہيں۔
واقعات کا جو تسلسل افغانستان ميں ہماری فوجی کاروائ کا سبب بنا، وہ سب کے علم ميں ہيں۔ ميں آپ کو پورے يقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہزاروں کی تعداد ميں اپنے فوجيوں کی جانوں کو خطرات ميں ڈال کر اور مشکل معاشی حالات ميں اپنے وسائل کو بروئے کار لانے کا صرف يہ مقصد ہرگز نہيں تھا کہ ہزاروں ميل دور ايک بيرون ملک ميں زبردستی اپنی مرضی کا طرز حکومت نافذ کيا جا سکے۔
جہاں تک عراق کا سوال ہے تو امريکہ اور عالمی برادری کو صدام حکومت کی جانب سے اس خطے اور عالمی امن کو درپيش خطرات کے حوالے سے شديد تشويش تھی۔ اس ضمن ميں عراق کی جانب سے کويت اور ايران کے خلاف جارحيت، اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد ميں ناکامی اور عالمی برادری کے خدشات کو نظرانداز کرنا ايسے عوامل تھے جو عراق کے خلاف فوجی کاروائ کا سبب بنے۔
کيا آپ جانتے ہيں کہ افغانستان اور عراق ميں ہونے والے انتخابات ميں لاکھوں ووٹرز نے اپنا حق راہے دہی استعمال کيا جس ميں 40 فيصد خواتين شامل تھيں۔ اسی طرح عراق حکومت کے جن عہديداروں کو "امريکی ايجنٹ" قرار ديا جاتا ہے وہ 12 ملين عراقی ووٹوں کی بدولت برسراقتدار آئے ہيں۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ وہ 12 ملين عراقی جنھوں نے موجودہ عراقی حکومت کو منتخب کيا ہے انھيں "امريکی ايجنٹ" قرار ديا جا سکتا ہے ؟
افغانستان اور عراق ميں ہونے والے انتخابات ميں ہر مذہبی فرقے اور سياسی جماعت کو نمايندگی کا برابر موقع ملا جو ان دونوں ملکوں کی تاريخ ميں ايک نئے دور کا آغاز تھا۔ دونوں ممالک کے انتخابات اقوام متحدہ کی نامزد کردہ تنظيموں کے زيرنگرانی انتہاہی غيرجانبدارماحول ميں ہوئے جن کے نتائج کی توثيق انٹرنيشنل کمیونٹی نے متفقہ طور پر کی۔ افغانستان ميں ہونے والے انتخابات يورپی يونين کی جس ٹيم کی زير نگرانی ہوئے تھے اس ميں اسپين، جرمنی، اٹلی، آئرلينڈ، پرتگال، برطانيہ، سويڈن اور ڈينمارک سے ماہرين شامل تھے۔
اس بات کا دعوی کوئ نہيں کر سکتا کہ ان دونوں ممالک ميں حکومت کے حوالے سے تمام مسائل حل ہو گئے ہيں۔ خاص طورپر ان حالات ميں جبکہ دونوں ممالک کی حکومتيں ان انتہا پسند تنظيموں سے مسلسل نبردآزما ہيں جو کسی جمہوری نظام پريقين نہيں رکھتيں۔ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود ان دونوں ممالک ميں جمہوری نظام کی بنياد رکھ دی گئ ہے اورمستقبل میں بھی اس بات کا اختيار امريکہ کے پاس نہيں بلکہ افغانستان اور عراق کے عوام کے پاس ہے کہ ان کے اوپر حکمرانی کا حق کس کو دیا جائے۔ اگر آپ ان دونوں ممالک کے ماضی کا جائزہ ليں تو ان ممالک کے عوام اسلحہ بردار دہشت گرد تنظيموں اور ايک آمر کے رحم وکرم پر تھے۔ کيا جمہوری طريقے سے منتخب کردہ يہ حکومتيں زيادہ بہتر ہيں يا وہ نام نہاد انتخابات جن ميں صدام حسين نے اپنے آپ کو 99 فيصد ووٹوں سے کامياب قرار ديا تھا؟ کيا جو لوگ آج عراق کے حکومتی نظام کو تنقيد کا نشانہ بناتے ہيں انھوں نے صدام حسين کے نظام حکومت پر بھی تنقيد کی تھی؟
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu/
ہاہاہا۔ اسی انتہاء پسندی کو تو ختم کرنے آپکے مامے امریکی افغانستان اور عراق میں گئے تھے۔ یہ جنگ تو دوسری جنگ عظیم سے بھی زیادہ مہنگی اور طویل ہو گئی ہے جبکہ اسکے نتائج صفر ہیں۔ افغانستان اور عراق سے انتہاء پسند تنظیموں کا نہ تو خاتمہ ہوا ہے اور نہ ہی وہاں جمہوری نظام عوام کی اکثریت کی امنگوں پر پوری اتری ہے۔ جہاں تک صدام حسین کا سوال ہے تو اس امریکی ٹٹو کو ڈکٹیٹر بنانے میں سوائے امریکہ کے اور کسکا ہاتھ ہے؟ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد جب عراق نے ایران پر حملہ کیا تو کسنے اس جارحیت کا ہر طرح سے دفاع کیا سوائے امریکہ کے؟ کس نے عراقی کیمیائی ہتھیاروں کے ظالمانہ استعمال پر آنکھیں بند رکھیں سوائے امریکہ کے؟ آپکی برین واشنگ یہاں نہیں چلی گے مسٹر!اس بات کا دعوی کوئ نہيں کر سکتا کہ ان دونوں ممالک ميں حکومت کے حوالے سے تمام مسائل حل ہو گئے ہيں۔ خاص طورپر ان حالات ميں جبکہ دونوں ممالک کی حکومتيں ان انتہا پسند تنظيموں سے مسلسل نبردآزما ہيں جو کسی جمہوری نظام پريقين نہيں رکھتيں۔ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود ان دونوں ممالک ميں جمہوری نظام کی بنياد رکھ دی گئ ہے اورمستقبل میں بھی اس بات کا اختيار امريکہ کے پاس نہيں بلکہ افغانستان اور عراق کے عوام کے پاس ہے کہ ان کے اوپر حکمرانی کا حق کس کو دیا جائے۔ اگر آپ ان دونوں ممالک کے ماضی کا جائزہ ليں تو ان ممالک کے عوام اسلحہ بردار دہشت گرد تنظيموں اور ايک آمر کے رحم وکرم پر تھے۔ کيا جمہوری طريقے سے منتخب کردہ يہ حکومتيں زيادہ بہتر ہيں يا وہ نام نہاد انتخابات جن ميں صدام حسين نے اپنے آپ کو 99 فيصد ووٹوں سے کامياب قرار ديا تھا؟ کيا جو لوگ آج عراق کے حکومتی نظام کو تنقيد کا نشانہ بناتے ہيں انھوں نے صدام حسين کے نظام حکومت پر بھی تنقيد کی تھی؟
ہاہاہا۔ اسی انتہاء پسندی کو تو ختم کرنے آپکے مامے امریکی افغانستان اور عراق میں گئے تھے۔ یہ جنگ تو دوسری جنگ عظیم سے بھی زیادہ مہنگی اور طویل ہو گئی ہے جبکہ اسکے نتائج صفر ہیں۔ !
جہاں تک صدام حسین کا سوال ہے تو اس امریکی ٹٹو کو ڈکٹیٹر بنانے میں سوائے امریکہ کے اور کسکا ہاتھ ہے؟ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد جب عراق نے ایران پر حملہ کیا تو کسنے اس جارحیت کا ہر طرح سے دفاع کیا سوائے امریکہ کے؟ !
کس نے عراقی کیمیائی ہتھیاروں کے ظالمانہ استعمال پر آنکھیں بند رکھیں سوائے امریکہ کے؟
!
افغان جہاد میں جو کتب برین واشنگ کی غرض سے افغانستان لائی گئی تھی، وہ سب کی سب امریکی یونیورسٹیز سے ہی تیار شدہ تھیں
ملا عمر تو امریکہ کے انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل تھے جن کے بارے میں اطلاع دینے والے کو دس ملین ڈالر تک انعام دیا جا سکتا تھا اب اُنہی سے مذاکرات کیے جا رہے ہیں۔ کیا یہ طالبان تائب ہو گئے یا پھر امریکہ کو معلوم ہو گیا کہ افغانستان میں اصل سیاسی طاقت یہی طالبان ہیں
Mullah Omar has been wanted by theU.S. State Department's Rewards for Justice program since October 2001, for sheltering Osama bin Laden and al-Qaeda militants in the years prior to theSeptember 11 attacks
http://www.rewardsforjustice.net/english/index.cfm?page=MullahOmar
امریکہ اس بنیاد پر مذاکرات کررہا ہے کہ
1- طالبان تشدد چھوڑ دیں گے
2- القائدہ سے ناطہ توڑ لیں گے
3- ائین کا احترام کریں گے