طالبان دہشت گرد وں کا مذکرات سے انکار

ساجد

محفلین
میں امریکیوں کو اس لحاظ سے پسند کرتا ہوں کہ یہ To the point بات کرنا پسند کرتے ہیں لیکن یہاں موجود ان کے جارحیت ونگ کےوکیل صاحب کی بد حواسیاں دیکھتے ہوئے مجھے کہنا پڑے گا کہ "امریکہ میں تو آباد ہو گئے لیکن بر صغیریت نہ گئی"۔ :)
 

سید ذیشان

محفلین
میں امریکیوں کو اس لحاظ سے پسند کرتا ہوں کہ یہ To the point بات کرنا پسند کرتے ہیں لیکن یہاں موجود ان کے جارحیت ونگ کےوکیل صاحب کی بد حواسیاں دیکھتے ہوئے مجھے کہنا پڑے گا کہ "امریکہ میں تو آباد ہو گئے لیکن بر صغیریت نہ گئی"۔ :)


بات کرنے کے لئے مواد ہوگا تو ٹو دی پوائنٹ بات کر سکیں گے نا۔ ;)
 

Fawad -

محفلین
لیکن پھر بقول ہیلری کلنٹن ان طالبان کے "ظاہری" اسلامی تشخص کی وجہ سے امریکہ کو اپنے مفادات خطرے میں محسوس ہونے لگے تب ان میں گروپ بندی کی گئی


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

آپ کی رائے شايد سابقہ امريکی وزير خارجہ ہيلری کلنٹن کی اس ويڈيو کے تناظر ميں ہے جس پر اردو محفل سميت تمام اہم فورمز پر خاصی بحث کی جا چکی ہے۔ ہيلری کلنٹن کی ويڈيو کے حوالے سے ميں نے پہلے بھی يہ واضح کيا تھا کہ وہ صرف اس بات کو اجاگر کر رہی تھيں کہ اہم مسلم ممالک جيسے کہ پاکستان، مصر، سعودی عرب کے ساتھ ساتھ امريکی حکومت نے بھی امداد کی فراہمی کے اس عمل ميں حصہ ليا تھا جس کا مقصد افغانستان کے عوام کو بيرونی قوت کی جارحيت سے محفوظ کرنا تھا۔ اس حوالے سے يقينی طور پر ايک علمی اور تاريخی بحث کی جا سکتی ہے کہ آيا حکومت پاکستان کے متعلقہ اہل کاروں کی جانب سے اس امداد کی ترسيل کا جو طريقہ کار وضح کيا گيا تھا، وہ مناسب تھا يا نہيں۔ ليکن ميں واضح کر دوں کہ تاريخی تناظر اور حالات وواقعات کا وہ سلسلہ جو اس وقت کے زمينی حقائق کا سبب بنے تھے، ان کو ديکھتے ہوئے امريکی حکومت کی جانب سے خارجہ پاليسی کے ضمن ميں جو فيصلے کيے گئے تھے وہ بالکل درست اور ان عالمی روايات اور اصولوں کے عين مطابق تھے جنھيں اقوام متحدہ نے تسليم کر رکھا ہے۔

امريکی حکومت کا کبھی بھی يہ مقصد يا خواہش نہيں رہی کہ اس سارے عمل کے ذريعے مستقبل کے ليے دہشت گردوں کے گروہ تشکيل ديے جائيں۔

جہاں تک آپ نے يہ بات کہی ہے کہ وزير خارجہ ہيلری کلنٹن نے طالبان کے اسلامی تشخص اور ان کے بڑھتے ہوئے اثرات کو افغانستان ميں فوجی مداخلت کی وجہ قرار ديا تھا، تو اس ضمن ميں آپ کو واشگاف الفاظ ميں کہہ سکتا ہوں کہ ہيلری کلنٹن سميت امريکی حکومت کے کسی بھی سرکاری اہلکار نے کبھی بھی ايسا کوئ پاليسی بيان نہيں ديا ہے۔

افغانستان ميں عالمی سطح پر مشترکہ فوجی کاروائ کا مقصد دہشت گردی کا سدباب تھا۔

افغانستان ميں فوجی کاروائ کی وجہ نہ تو طالبان کا طرز حکومت تھا، نہ ہی ان کی انسانی حقوق کی خلاف ورزياں اور نا ہی ان کی مخصوض سوچ اور خيالات اس فوجی کاروائ کا سبب بنے۔

اس حقيقت کے باوجود کہ امريکہ نے کبھی بھی طالبان کی حکومت کو تسليم نہيں کيا تھا اور ان کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں پر ہر سطح پر تنقيد بھی کی تھی، ان کے خلاف کبھی بھی براہراست فوجی کاروائ نہيں کی گئ۔ سال 1995 اور 2001 کے درميان طالبان عمومی طور پرافغانستان ميں برسراقتدار رہے۔

امريکہ نے کبھی بھی افغانستان يا کسی دوسرے ملک ميں کسی مخصوص طرز حکومت کے قيام کے لیے زور يا زبردستی نہيں کی ہے۔

امريکی حکومت دنيا بھر کے ممالک ميں اسلامی قوانين کے خاتمے کے مشن پر نہيں ہے۔ اس ضمن میں آپ کو سعودی عرب کی مثال دوں گا جہاں قانونی سازی کے عمل ميں وسيع بنيادوں پر اسلامی قوانين کا اطلاق کيا جاتا ہے۔ يہ درست ہے کہ امريکہ بہت سے قوانين اور روايات سے متفق نہيں ليکن اس کے باوجود سعودی عرب کے عوام اور ان کی حکومت سے امريکہ کے ديرينيہ تعلقات ہيں جو کئ دہائيوں پر محيط ہيں۔

اگر افغانستان ميں امريکی فوجی مداخلت کا مقصد محض طالبان کے اسلامی تشخص کے خلاف بند باندھنا ہوتا تو پھر اس بات کی کيا توجيہہ ہے کہ خطے ميں ہمارے اقدامات کو قريب تمام سرکردہ اسلامی ممالک کی حمايت حاصل ہے۔

ريکارڈ کی درستگی کے ليے ياد کروا دوں کہ سعودی عرب اور پاکستان وہ ممالک تھے جنھوں نے 90 کی دہائ ميں افغانستان ميں طالبان کی حکومت کو سرکاری طور پر تسليم کيا تھا ليکن اس کے باوجود آج يہ ممالک ان دہشت گردوں کے تعاقب ميں ہمارے شانہ بشانہ کھڑے ہيں اور تمام فريقين اس مشترکہ خطرے سے نبرد آزما ہو نے کے ليے ہمارے ساتھ وسائل کے اشتراک عمل کا حصہ ہيں۔

يہ کوئ مذہب، روايات، ثقافت يا نظريات کے خلاف جنگ نہيں ہے۔ يہ تو اس بنيادی انسانی خواہش اور کسی بھی مہذب معاشرے کے اس بنيادی اصول کی عين مطابق ايک جائز مشترکہ کوشش ہے جس کے تحت دنيا بھر ميں کہيں بھی ايسے مجرموں کو کيفر کردار تک پہنچانا ضروری ہے جو عام شہريوں کو دانستہ بڑے پيمانے پر قتل کرنے کے منصوبوں پر عمل پيرا ہيں۔

ہم طالبان، پشتون يا کسی بھی مخصوص قبيلے کے خلاف ہرگز نہيں ہيں۔ ہم قوميت اور مذہبی وابستگی سے بالاتر صرف مجرموں اور دہشت گردوں کا پيچھا کر رہے ہيں۔

يہاں تک کہ 11 ستمبر 2001 کے واقعات کے بعد بھی فوجی کاروائ کی بجائے اس بات کی کوشش کی گئ کہ طالبان حکومت کو اس بات آمادہ کيا جائے کہ وہ اسامہ بن لادن کو امريکی حکام کے حوالے کريں۔

کیا آپ يہ سمجھتے ہيں کہ طالبان کی جانب سے غير ملکی دہشت گردوں کو پناہ دينا برحق اور جائز تھا؟



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

Fawad -

محفلین
فواد
یہ اوپر کا پیغام تو ایک ڈرون حملہ ہے۔ یہ تو سوال ہی نہیں تھا


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

عزام دا امريکن کا حوالہ دينے کی دو وجوہات ہيں۔

پہلی بات تو يہ ہے کہ يہ حقيقت ان افراد کی آنکھيں کھولنے کے ليے ہے جو شدت سے اس بات پر يقين رکھتے ہيں کہ جو عسکری گروہ افغانستان ميں عام شہريوں پر دانستہ حملے کر رہے ہيں، وہ يقينی طور پر اپنی مقدس مذہبی خواہش اور ذمہ داری پوری کرنے کے جذبے سے سرشار ہيں اور اپنے نام نہاد مذہبی پيشواؤں کی رہنمائ ميں درست راہ پر گامزن ہيں۔ مگر حقيقت يہ ہے کہ يہ تو عزام دا امريکن اور ان جيسے دوسرے عادی مجرموں اور ذاتی انا کی تسکين کے جذبے سے سرشار القائدہ کے کارکنوں کے جھانسے ميں ورغلائے گئے ہيں بلکہ يہ کہنا درست ہو کا کہ انھيں مذہبی نعروں اور جذبے کی آڑ ميں اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے اور عوام پر خوف اور دہشت کے ذريعے اپنا تسلط قائم کرنے کے ليے استعمال کيا جاتا ہے۔

افغان جہاد کے دوران امريکہ اور سعودی عرب سميت ديگر ممالک نے جو فوجی اور مالی امداد کی تھی وہ افغان عوام کو روسی جارحيت سے نجات دلانے کے ليے تھی اور اس جدوجہد کو امريکہ سميت تمام عالمی برادری نے نہ صرف تسليم کيا تھا بلکہ اس ميں کاميابی کے ليے ہر ممکن مدد بھی کی تھی ليکن اس جدوجہد کا موجودہ دور کی دہشت گرد تنظيموں اور گروہوں سے کوئ تعلق نہيں ہے جو دانستہ بغير کسی تفریق کے بے گناہ شہريوں کا خون بہا کر حکومت کو کمزور کرنے کے درپے ہيں تاکہ اپنی مرضی کا نظام مسلط کر سکيں۔

عزام دا امريکن نا صرف ايک علامت ہے بلکہ وہ ان مشتبہہ اور گھناؤنے کردار کے حامل افراد کے گروہ کی نمايندگی کرتا ہے جن کے پاس کسی بھی قسم کا مذہبی فتوی دينے کا نا تو کوئ مذہبی،علمی اور قانونی اختيار ہے اور نا ہی مذہبی جدوجہد کی آڑ ميں لوگوں کو بربريت اور خون ريزی کی راہ پر ڈالنے کا انھيں کوئ جائز حق حاصل ہے۔

دوسری بات يہ ہے کہ عزام دا امريکن کی مثال اس منظم انداز سے تشہير شدہ سوچ کی بھی نفی کرتی ہے جس کے مطابق افغانستان ميں امريکی مداخلت طالبان، پشتون، مقامی افغان باشندوں يا کسی مخصوص قبيلے کے خلاف کاروائ پر مرکوز ہے۔

عزام دا امريکن اور مقامی علاقوں سميت بيرونی ممالک سے اسی قسم کے دوسرے مجرموں کی موجودگی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ مندرجہ بالا الزام کا حقيقت سے کوئ واسطہ نہيں ہے۔

افغانستان ميں ہمارے مقاصد اور ہمارے اہداف کا علاقے فتح کرنا يا آباديوں پر قبضہ جمانا ہرگز نہيں ہے۔ ہمارا چيلنج تو ان مجرموں اور دہشت گردوں کا تعاقب کرنا ہے جو دانستہ انسانی آباديوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہيں۔

جيسا کہ ميں نے پہلے بھی واضح کيا تھا کہ خطے ميں مشترکہ کاوشوں اور اس سارے عمل کا افراد کی شہريت اور ان کی مذہبی وابستگی سے کوئ تعلق نہيں ہے۔

امريکی حکومت کی توجہ اور تمام تر کوششوں کا مرکز ان افراد کی گرفتاری اور دہشت گردی کے ان اڈوں کا قلع قمع کرنا ہے جہاں اس سوچ کی ترويج وتشہير کی جاتی ہے کہ دانستہ بے گناہ افراد کی ہلاکت جائز ہے۔ چاہے يہ افراد عزام دا امريکن جيسے امريکی شہری ہی کيوں نا ہوں۔
۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

arifkarim

معطل
انھيں مذہبی نعروں اور جذبے کی آڑ ميں اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے اور عوام پر خوف اور دہشت کے ذريعے اپنا تسلط قائم کرنے کے ليے استعمال کيا جاتا ہے۔
تو اسرائیلی مذہبی نعروں اور جذبے کی آڑ میں اپنے جرائم پر پردہ ڈالنے اور عوام پر خوف اور دہشت کے ذريعے اپنا تسلط قائم کرنے کے ليے صیہونی ڈرونز کیوں استعمال کئے جاتے ہیں؟

ليکن اس جدوجہد کا موجودہ دور کی دہشت گرد تنظيموں اور گروہوں سے کوئ تعلق نہيں ہے جو دانستہ بغير کسی تفریق کے بے گناہ شہريوں کا خون بہا کر حکومت کو کمزور کرنے کے درپے ہيں تاکہ اپنی مرضی کا نظام مسلط کر سکيں۔
کیسے تعلق نہیں ہے؟ افغان جہاد میں جو کتب برین واشنگ کی غرض سے افغانستان لائی گئی تھی، وہ سب کی سب امریکی یونیورسٹیز سے ہی تیار شدہ تھیں:
In the twilight of the Cold War, the United States spent millions of dollars to supply Afghan schoolchildren with textbooks filled with violent images and militant Islamic teachings, part of covert attempts to spur resistance to the Soviet occupation.

The primers, which were filled with talk of jihad and featured drawings of guns, bullets, soldiers and mines, have served since then as the Afghan school system’s core curriculum. Even the Taliban used the American-produced books, though the radical movement scratched out human faces in keeping with its strict fundamentalist code.
باقی کیا امریکہ نے اپنی مرضی کا مغربی جمہوری نظام افغانستان اور عراق میں نافظ نہیں کیا، امریکی ٹٹو؟!​


افغانستان ميں ہمارے مقاصد اور ہمارے اہداف کا علاقے فتح کرنا يا آباديوں پر قبضہ جمانا ہرگز نہيں ہے۔ ہمارا چيلنج تو ان مجرموں اور دہشت گردوں کا تعاقب کرنا ہے جو دانستہ انسانی آباديوں کو ڈھال کے طور پر استعمال کرتے ہيں۔
تو پھر امریکی کمپنیاں آج افغانستان اور عراق میں کیا کر رہی ہیں؟ کیا اسے قبضہ جمانا نہیں کہتے؟
 

Fawad -

محفلین
اب اسامہ اس دنیا میں نہیں رہا تو کیا یہ ممکن ہے کہ امریکہ بھی یہاں سے بستر گول جلدی کرلے۔



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ

جہاں تک آپ کا يہ کہنا ہے کہ امريکی افواج کو اس خطے سے فوری طور پر نکل جانا چاہيےتو اس حوالے سے يہ بتا دوں کہ امريکی حکام بھی يہی چاہتے ہيں کہ جلد از جلد فوجيوں کو واپس بلايا جائے خود امريکی صدر اوبامہ نے ايک سے زائد موقعوں پر اس حقیقت کو واضح کيا ہے ليکن آپ کچھ زمينی حقائق نظرانداز کر رہے ہيں۔ اس وقت امريکی افواج افغانستان ميں منتخب افغان حکومت کے ايما پر موجود ہيں اور افغان افواج کی فوجی تربيت کے ذريعے اس بات کو يقينی بنا رہی ہيں کہ خطے سے امريکی افواج کے انخلا کے بعد سيکيورٹی کے حوالے سے پيدا ہونے والے خلا کو پر کيا جا سکے۔ حکومت پاکستان سميت بہت سے ماہرين اور تجزيہ نگاروں نے اس خدشے کا اظہار کيا ہے کہ اگر امريکی افواج کو فوری طور پر واپس بلا ليا گيا تو پر تشدد کاروائيوں پر قابو پانا ممکن نہيں رہے گا اور خطے ميں امن کا قيام محض ايک خواب بن کر رہ جائے گا۔

ميں آپ کو ياد دلانا چاہتا ہوں کہ اب تک سينکڑوں کی تعداد ميں امريکی فوجی بھی اس جنگ ميں ہلاک ہو چکے ہيں۔ امريکہ افغانستان سے جلد از جلد نکلنا چاہتا ہے ليکن اس کے ليے ضروری ہے کہ افغان حکومت اس قابل ہو جائے کہ امريکی افواج کے انخلا سے پيدا ہونے والے سيکيورٹی کے خلا کو پورا کر سکے بصورت ديگر وہاں پر متحرک انتہا پسند تنظيميں جوکہ اس وقت بھی روزانہ عام شہريوں کو قتل کر رہی ہيں، مزيد مضبوط ہو جائيں گی اور سارے خطے کا امن خطرے ميں پڑ جائے گا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ

جہاں تک آپ کا يہ کہنا ہے کہ امريکی افواج کو اس خطے سے فوری طور پر نکل جانا چاہيےتو اس حوالے سے يہ بتا دوں کہ امريکی حکام بھی يہی چاہتے ہيں کہ جلد از جلد فوجيوں کو واپس بلايا جائے خود امريکی صدر اوبامہ نے ايک سے زائد موقعوں پر اس حقیقت کو واضح کيا ہے ليکن آپ کچھ زمينی حقائق نظرانداز کر رہے ہيں۔ اس وقت امريکی افواج افغانستان ميں منتخب افغان حکومت کے ايما پر موجود ہيں اور افغان افواج کی فوجی تربيت کے ذريعے اس بات کو يقينی بنا رہی ہيں کہ خطے سے امريکی افواج کے انخلا کے بعد سيکيورٹی کے حوالے سے پيدا ہونے والے خلا کو پر کيا جا سکے۔ حکومت پاکستان سميت بہت سے ماہرين اور تجزيہ نگاروں نے اس خدشے کا اظہار کيا ہے کہ اگر امريکی افواج کو فوری طور پر واپس بلا ليا گيا تو پر تشدد کاروائيوں پر قابو پانا ممکن نہيں رہے گا اور خطے ميں امن کا قيام محض ايک خواب بن کر رہ جائے گا۔

ميں آپ کو ياد دلانا چاہتا ہوں کہ اب تک سينکڑوں کی تعداد ميں امريکی فوجی بھی اس جنگ ميں ہلاک ہو چکے ہيں۔ امريکہ افغانستان سے جلد از جلد نکلنا چاہتا ہے ليکن اس کے ليے ضروری ہے کہ افغان حکومت اس قابل ہو جائے کہ امريکی افواج کے انخلا سے پيدا ہونے والے سيکيورٹی کے خلا کو پورا کر سکے بصورت ديگر وہاں پر متحرک انتہا پسند تنظيميں جوکہ اس وقت بھی روزانہ عام شہريوں کو قتل کر رہی ہيں، مزيد مضبوط ہو جائيں گی اور سارے خطے کا امن خطرے ميں پڑ جائے گا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu

ہاں یار یہ تو ہے
اب افغانستان چھچوندر کی طرح سانپ کے منہ میں اٹک گیا ہے کہ نہ نگلا جائےنہ چھوڑا جائے۔
بہتر یہ ہے کہ افغان اور پاکستان سے مذاکرات کیے جاویں ۔ ایسے اقدامات کیے جاوے جو اختلافات اور جھگڑا ختم کرنے کا باعث ہوں نہ ان انے کے ابھارنے کا۔ سب سے پہلا قدم امریکہ کو یہ اٹھانا چاہیے کہ پاکستانی حکومت سے اچھے تعلقات قائم کرے اور اپنی انٹیلیجنس ایجنیسوں سے کہے کہ پاکستانی حکومت سے اچھے تعلقات قائم کریں ۔ نیز یہ کہ ڈرون حملے فورا ختم کردیں کیونکہ یہ امریکہ کی بدنامی کا باعث ہورہا ہے۔ امریکی کہیں دنیا میں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہ جائیں گے اگر یہ معاملہ جاری رہا۔ امریکی امداد کا ٹی وی میں دھنڈورہ پیٹنے سے کچھ نہیں ہوگا۔ امریکہ کو پاکستان کی مدد انرجی کے شعبے میں کرنی چاہیے تاکہ پاکستان نیوکلیر انرجی سے بجلی بنانے کے قابل ہوسکے۔

پاکستان کے ساتھ افغانستان میں بھی مذاکرات کرنے چاہیے۔ اسطرح امریکہ اچھے طریقے سے بغیر کسی ڈر اور خوف کے افغانستان سے نکل سکتا ہے۔ ہم اوبامہ کے افغانستان سے نکلنے کی پالیسی کی حمایت کرتے ہیں۔
 

Fawad -

محفلین
/کیا امریکہ نے اپنی مرضی کا مغربی جمہوری نظام افغانستان اور عراق میں نافظ نہیں کیا،


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

عراق اور افغانستان ميں فوجی کاروائ کا مقصد ان ممالک ميں زبردستی جمہوريت يا کوئ اور طرز حکومت مسلط کرنا ہرگز نہيں تھا۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ ہم نے ان ممالک ميں عام عوام اور متعلقہ حکام کو اس بات کی ترغيب ضرور دی ہے کہ وہ اقوام عالم کا حصہ بنيں اور آزمودہ جمہوری قدروں کو پروان چڑھائيں۔ ليکن اس ضمن ميں حتمی اور فيصلہ کن کردار بحرحال ان ممالک کے عوام نے خود ادا کرنا ہے۔ اسی خطے ميں ايسے بہت سے ممالک بھی ہيں جہاں جمہوری نظام حکومت نہيں ہے ليکن اس کے باوجود ہمارے ان ممالک کے ساتھ ديرينہ تعلقات استوار ہيں۔

واقعات کا جو تسلسل افغانستان ميں ہماری فوجی کاروائ کا سبب بنا، وہ سب کے علم ميں ہيں۔ ميں آپ کو پورے يقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہزاروں کی تعداد ميں اپنے فوجيوں کی جانوں کو خطرات ميں ڈال کر اور مشکل معاشی حالات ميں اپنے وسائل کو بروئے کار لانے کا صرف يہ مقصد ہرگز نہيں تھا کہ ہزاروں ميل دور ايک بيرون ملک ميں زبردستی اپنی مرضی کا طرز حکومت نافذ کيا جا سکے۔

جہاں تک عراق کا سوال ہے تو امريکہ اور عالمی برادری کو صدام حکومت کی جانب سے اس خطے اور عالمی امن کو درپيش خطرات کے حوالے سے شديد تشويش تھی۔ اس ضمن ميں عراق کی جانب سے کويت اور ايران کے خلاف جارحيت، اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد ميں ناکامی اور عالمی برادری کے خدشات کو نظرانداز کرنا ايسے عوامل تھے جو عراق کے خلاف فوجی کاروائ کا سبب بنے۔

کيا آپ جانتے ہيں کہ افغانستان اور عراق ميں ہونے والے انتخابات ميں لاکھوں ووٹرز نے اپنا حق راہے دہی استعمال کيا جس ميں 40 فيصد خواتين شامل تھيں۔ اسی طرح عراق حکومت کے جن عہديداروں کو "امريکی ايجنٹ" قرار ديا جاتا ہے وہ 12 ملين عراقی ووٹوں کی بدولت برسراقتدار آئے ہيں۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ وہ 12 ملين عراقی جنھوں نے موجودہ عراقی حکومت کو منتخب کيا ہے انھيں "امريکی ايجنٹ" قرار ديا جا سکتا ہے ؟

افغانستان اور عراق ميں ہونے والے انتخابات ميں ہر مذہبی فرقے اور سياسی جماعت کو نمايندگی کا برابر موقع ملا جو ان دونوں ملکوں کی تاريخ ميں ايک نئے دور کا آغاز تھا۔ دونوں ممالک کے انتخابات اقوام متحدہ کی نامزد کردہ تنظيموں کے زيرنگرانی انتہاہی غيرجانبدارماحول ميں ہوئے جن کے نتائج کی توثيق انٹرنيشنل کمیونٹی نے متفقہ طور پر کی۔ افغانستان ميں ہونے والے انتخابات يورپی يونين کی جس ٹيم کی زير نگرانی ہوئے تھے اس ميں اسپين، جرمنی، اٹلی، آئرلينڈ، پرتگال، برطانيہ، سويڈن اور ڈينمارک سے ماہرين شامل تھے۔


اس بات کا دعوی کوئ نہيں کر سکتا کہ ان دونوں ممالک ميں حکومت کے حوالے سے تمام مسائل حل ہو گئے ہيں۔ خاص طورپر ان حالات ميں جبکہ دونوں ممالک کی حکومتيں ان انتہا پسند تنظيموں سے مسلسل نبردآزما ہيں جو کسی جمہوری نظام پريقين نہيں رکھتيں۔ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود ان دونوں ممالک ميں جمہوری نظام کی بنياد رکھ دی گئ ہے اورمستقبل میں بھی اس بات کا اختيار امريکہ کے پاس نہيں بلکہ افغانستان اور عراق کے عوام کے پاس ہے کہ ان کے اوپر حکمرانی کا حق کس کو دیا جائے۔ اگر آپ ان دونوں ممالک کے ماضی کا جائزہ ليں تو ان ممالک کے عوام اسلحہ بردار دہشت گرد تنظيموں اور ايک آمر کے رحم وکرم پر تھے۔ کيا جمہوری طريقے سے منتخب کردہ يہ حکومتيں زيادہ بہتر ہيں يا وہ نام نہاد انتخابات جن ميں صدام حسين نے اپنے آپ کو 99 فيصد ووٹوں سے کامياب قرار ديا تھا؟ کيا جو لوگ آج عراق کے حکومتی نظام کو تنقيد کا نشانہ بناتے ہيں انھوں نے صدام حسين کے نظام حکومت پر بھی تنقيد کی تھی؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu/
 
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

عراق اور افغانستان ميں فوجی کاروائ کا مقصد ان ممالک ميں زبردستی جمہوريت يا کوئ اور طرز حکومت مسلط کرنا ہرگز نہيں تھا۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ ہم نے ان ممالک ميں عام عوام اور متعلقہ حکام کو اس بات کی ترغيب ضرور دی ہے کہ وہ اقوام عالم کا حصہ بنيں اور آزمودہ جمہوری قدروں کو پروان چڑھائيں۔ ليکن اس ضمن ميں حتمی اور فيصلہ کن کردار بحرحال ان ممالک کے عوام نے خود ادا کرنا ہے۔ اسی خطے ميں ايسے بہت سے ممالک بھی ہيں جہاں جمہوری نظام حکومت نہيں ہے ليکن اس کے باوجود ہمارے ان ممالک کے ساتھ ديرينہ تعلقات استوار ہيں۔

واقعات کا جو تسلسل افغانستان ميں ہماری فوجی کاروائ کا سبب بنا، وہ سب کے علم ميں ہيں۔ ميں آپ کو پورے يقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ ہزاروں کی تعداد ميں اپنے فوجيوں کی جانوں کو خطرات ميں ڈال کر اور مشکل معاشی حالات ميں اپنے وسائل کو بروئے کار لانے کا صرف يہ مقصد ہرگز نہيں تھا کہ ہزاروں ميل دور ايک بيرون ملک ميں زبردستی اپنی مرضی کا طرز حکومت نافذ کيا جا سکے۔

جہاں تک عراق کا سوال ہے تو امريکہ اور عالمی برادری کو صدام حکومت کی جانب سے اس خطے اور عالمی امن کو درپيش خطرات کے حوالے سے شديد تشويش تھی۔ اس ضمن ميں عراق کی جانب سے کويت اور ايران کے خلاف جارحيت، اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد ميں ناکامی اور عالمی برادری کے خدشات کو نظرانداز کرنا ايسے عوامل تھے جو عراق کے خلاف فوجی کاروائ کا سبب بنے۔

کيا آپ جانتے ہيں کہ افغانستان اور عراق ميں ہونے والے انتخابات ميں لاکھوں ووٹرز نے اپنا حق راہے دہی استعمال کيا جس ميں 40 فيصد خواتين شامل تھيں۔ اسی طرح عراق حکومت کے جن عہديداروں کو "امريکی ايجنٹ" قرار ديا جاتا ہے وہ 12 ملين عراقی ووٹوں کی بدولت برسراقتدار آئے ہيں۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ وہ 12 ملين عراقی جنھوں نے موجودہ عراقی حکومت کو منتخب کيا ہے انھيں "امريکی ايجنٹ" قرار ديا جا سکتا ہے ؟

افغانستان اور عراق ميں ہونے والے انتخابات ميں ہر مذہبی فرقے اور سياسی جماعت کو نمايندگی کا برابر موقع ملا جو ان دونوں ملکوں کی تاريخ ميں ايک نئے دور کا آغاز تھا۔ دونوں ممالک کے انتخابات اقوام متحدہ کی نامزد کردہ تنظيموں کے زيرنگرانی انتہاہی غيرجانبدارماحول ميں ہوئے جن کے نتائج کی توثيق انٹرنيشنل کمیونٹی نے متفقہ طور پر کی۔ افغانستان ميں ہونے والے انتخابات يورپی يونين کی جس ٹيم کی زير نگرانی ہوئے تھے اس ميں اسپين، جرمنی، اٹلی، آئرلينڈ، پرتگال، برطانيہ، سويڈن اور ڈينمارک سے ماہرين شامل تھے۔


اس بات کا دعوی کوئ نہيں کر سکتا کہ ان دونوں ممالک ميں حکومت کے حوالے سے تمام مسائل حل ہو گئے ہيں۔ خاص طورپر ان حالات ميں جبکہ دونوں ممالک کی حکومتيں ان انتہا پسند تنظيموں سے مسلسل نبردآزما ہيں جو کسی جمہوری نظام پريقين نہيں رکھتيں۔ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود ان دونوں ممالک ميں جمہوری نظام کی بنياد رکھ دی گئ ہے اورمستقبل میں بھی اس بات کا اختيار امريکہ کے پاس نہيں بلکہ افغانستان اور عراق کے عوام کے پاس ہے کہ ان کے اوپر حکمرانی کا حق کس کو دیا جائے۔ اگر آپ ان دونوں ممالک کے ماضی کا جائزہ ليں تو ان ممالک کے عوام اسلحہ بردار دہشت گرد تنظيموں اور ايک آمر کے رحم وکرم پر تھے۔ کيا جمہوری طريقے سے منتخب کردہ يہ حکومتيں زيادہ بہتر ہيں يا وہ نام نہاد انتخابات جن ميں صدام حسين نے اپنے آپ کو 99 فيصد ووٹوں سے کامياب قرار ديا تھا؟ کيا جو لوگ آج عراق کے حکومتی نظام کو تنقيد کا نشانہ بناتے ہيں انھوں نے صدام حسين کے نظام حکومت پر بھی تنقيد کی تھی؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu/
فواد صاحب،
آپ کچھ بھی کر لیں اور آپ کی پوری آؤٹ ریچ ٹیم بھی،
لیکن جو باتیں ہم لوگ مانتے ہیں وہ مانے رہیں گے۔ ہم یہی مانتے ہیں کہ سویت جنگ کے بعد جب آپ کے لیے پالے گئے طالبان سے پاکستان نے خود کام لینا شروع کر دیا تو آپ کے ملک امریکہ، ناجائز اسرائیل اور لے پالک ایران تک سبھی کو تکلیف ہو گئی کہ پاکستان کی سرحدیں اتنی وسیع کیسے ہو گئیں یہ سب تدبیریں الٹ کیوں گئیں۔
پھر آپ نے افغانستان سے پاکستان کا بوریا بستر گول کرنے کے لیے اپنے ایک اور ٹٹو اسامہ کو افغانستان میں جواز بنا کر بھیجا اور اسے آپ کا ملک ہر مطلوب موقع پر اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتا رہا۔ آپ کو جب ضرورت پڑتی اس کا ویڈیو بیان آ جاتا، جب کوئی نیا بل آپ کی حکومتوں نے منظور کروانا ہوتا یا کسی کو دھمکانا ہوتا تو القاعدہ کا حسب طلب بیان آ جاتا اور آپ کا کام بن جاتا۔
آپ کا ملک جتنے سٹیزن وائس پروگرام چلا لے جتنا آگاہی دینے کی کوشش کرے جمہوریت کی اور آڑ میں اپنے مقاصد پورے کرے جان لیجیے کہ ہم میں ہر لمحہ نفرت بڑھتی جا رہی ہے امریکہ کے لیے اس کی پالیسیوں کے لیے اور اس کے پٹھوؤں کے لیے۔ عوام کے دلوں میں بڑھتی بے بسی کے احساس کے ساتھ ساتھ امریکہ سے نفرت شدید سے شدید تر ہوتی جاتی ہے یاد رکھیے سوشل میڈیا کو اسیسمنٹ ٹُول کے طور پہ استعمال کرنا آپ لوگوں کی بڑی غلط فہمی ہے۔ حقیقت بہت مختلف ہے فیس بک، ٹوئیٹر وغیرہ سے۔ سب سے بڑا یہی بم ہے اور سب سے بڑا یہی وہ لاوا ہے جو دلوں میں پک رہا ہے بس دیکھیں کب عوام زنجیریں توڑتی ہے۔
 

arifkarim

معطل
اس بات کا دعوی کوئ نہيں کر سکتا کہ ان دونوں ممالک ميں حکومت کے حوالے سے تمام مسائل حل ہو گئے ہيں۔ خاص طورپر ان حالات ميں جبکہ دونوں ممالک کی حکومتيں ان انتہا پسند تنظيموں سے مسلسل نبردآزما ہيں جو کسی جمہوری نظام پريقين نہيں رکھتيں۔ لیکن ان تمام مشکلات کے باوجود ان دونوں ممالک ميں جمہوری نظام کی بنياد رکھ دی گئ ہے اورمستقبل میں بھی اس بات کا اختيار امريکہ کے پاس نہيں بلکہ افغانستان اور عراق کے عوام کے پاس ہے کہ ان کے اوپر حکمرانی کا حق کس کو دیا جائے۔ اگر آپ ان دونوں ممالک کے ماضی کا جائزہ ليں تو ان ممالک کے عوام اسلحہ بردار دہشت گرد تنظيموں اور ايک آمر کے رحم وکرم پر تھے۔ کيا جمہوری طريقے سے منتخب کردہ يہ حکومتيں زيادہ بہتر ہيں يا وہ نام نہاد انتخابات جن ميں صدام حسين نے اپنے آپ کو 99 فيصد ووٹوں سے کامياب قرار ديا تھا؟ کيا جو لوگ آج عراق کے حکومتی نظام کو تنقيد کا نشانہ بناتے ہيں انھوں نے صدام حسين کے نظام حکومت پر بھی تنقيد کی تھی؟
ہاہاہا۔ اسی انتہاء پسندی کو تو ختم کرنے آپکے مامے امریکی افغانستان اور عراق میں گئے تھے۔ یہ جنگ تو دوسری جنگ عظیم سے بھی زیادہ مہنگی اور طویل ہو گئی ہے جبکہ اسکے نتائج صفر ہیں۔ افغانستان اور عراق سے انتہاء پسند تنظیموں کا نہ تو خاتمہ ہوا ہے اور نہ ہی وہاں جمہوری نظام عوام کی اکثریت کی امنگوں پر پوری اتری ہے۔ جہاں تک صدام حسین کا سوال ہے تو اس امریکی ٹٹو کو ڈکٹیٹر بنانے میں سوائے امریکہ کے اور کسکا ہاتھ ہے؟ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد جب عراق نے ایران پر حملہ کیا تو کسنے اس جارحیت کا ہر طرح سے دفاع کیا سوائے امریکہ کے؟ کس نے عراقی کیمیائی ہتھیاروں کے ظالمانہ استعمال پر آنکھیں بند رکھیں سوائے امریکہ کے؟ آپکی برین واشنگ یہاں نہیں چلی گے مسٹر!
 

Fawad -

محفلین
ہاہاہا۔ اسی انتہاء پسندی کو تو ختم کرنے آپکے مامے امریکی افغانستان اور عراق میں گئے تھے۔ یہ جنگ تو دوسری جنگ عظیم سے بھی زیادہ مہنگی اور طویل ہو گئی ہے جبکہ اسکے نتائج صفر ہیں۔ !


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


جہاں تک آپ کا يہ دعوی ہے کہ امريکہ دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ ہار چکا ہے تو ميں نہيں سمجھ سکا کہ کس پيمانے کے تحت آپ نے يہ مفروضہ اخذ کيا ہے۔ گزشتہ 10 برسوں کے دوران اسامہ بن لادن سميت القائدہ کی دو تہائ سے زيادہ قيادت ہلاک يا گرفتار کی جا چکی ہے۔ آج اس تنظيم کی يہ صورت حال ہے کہ دنيا بھر ميں دہشت گردی کے نت نئے منصوبے تشکيل دينے کی بجائے اس کے بچے کچھے اراکين اور ليڈر اپنی بقا اور تنظيم کو موجودہ دور ميں کسی بھی حوالے سے فعال رکھنے کے ليے تگ ودو کر رہے ہيں۔ جبکہ سال 2002 ميں افغانستان ميں فوجی کاروائ سے قبل القائدہ کی صلاحيت اور اس کا تنظيمی ڈھانچہ اس کے بالکل برعکس تھا۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ دہشت گردی بدستور ايک اہم عالمی مسلہ اور تمام مہذب دنيا کے ليے ايک چيلنج ہے۔ ليکن يہ سوچنا غير منطقی اور غلط ہے کہ ہم اس ايشو کے حوالے سے اپنے قدم پيچھے ہٹا ليں گے يا ان مجرموں کے ہاتھوں شکست تسليم کر ليں گے جن کے نزديک انسانی زندگی کی کوئ وقعت نہیں ہے۔

اس ضمن ميں کوئ غلط فہمی نہيں رہنی چاہيے۔ جہاں تک دہشت گردی کا سوال ہے تو امريکہ سميت دنيا کے کسی بھی ملک کے ليے شکست کسی بھی طور قابل قبول حل يا آپشن ہرگز نہيں ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

Fawad -

محفلین
جہاں تک صدام حسین کا سوال ہے تو اس امریکی ٹٹو کو ڈکٹیٹر بنانے میں سوائے امریکہ کے اور کسکا ہاتھ ہے؟ ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد جب عراق نے ایران پر حملہ کیا تو کسنے اس جارحیت کا ہر طرح سے دفاع کیا سوائے امریکہ کے؟ !


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

عراق کی تاريخ کے حوالے سے آپ کی معلومات بالکل غلط ہيں۔ صدام حسين 1968 ميں باتھسٹ پارٹی کی بغاوت کے ذريعے اقتدار کے ايوانوں ميں آئے تھے۔ اس کے بعد 1979 ميں انھوں نے اپنی پارٹی کے اندر بغاوت کے ذريعے ليڈرشپ حاصل کر لی۔ 1980 ميں صدام نے ايران پر اس وقت حملہ کيا جب ايران اندرونی طور پر بہت سے مسائل کا شکار تھا۔ جہاں تک ايران سے جنگ کا سوال ہے تو عراق کو اسلحہ امريکہ نے نہيں بلکہ روس نے فراہم کيا تھا۔ آپ يہ کيسے دعوی کر سکتے ہيں کہ صدام کو امريکہ کنٹرول کر رہا تھا جبکہ صدام حکومت کی جانب سے امريکہ کو متعدد چيلجنجز کا سامنا تھا اور صدام حکومت کے دوران عراق ميں امريکہ مخالف پراپيگنڈا اپنے عروج پر تھا۔ اگر صدام امريکہ کے کنٹرول ميں ہوتا تو يہ صورت حال کبھی نہ ہوتی۔

ماضی ميں امريکہ کا جھکاؤ عراق کی طرف رہا ہے اورامريکہ ايرانی فوجوں کی نقل وحرکت کے حوالے سےانٹيلی ايجنس اسپورٹ بھی مہيا کرتا رہا ہے ليکن ايسا اس وقت ہوا جب ايران کا پلڑا جنگ ميں بھاری تھا۔ ياد رہے کہ يہ وہی دور تھا جب ايران ميں امريکی سفارت کار اور شہری 444 دنوں تک زير حراست رہے جس کی وجہ سے امريکہ ميں ايران کے خلاف جذبات پائے جاتے تھے۔ دنيا کا ہر ملک خارجہ پاليسی بناتے وقت اپنے بہترين مفادات کو سامنے رکھتا ہے۔ اس ميں اس وقت کے زمينی حقائق بھی ديکھے جاتے ہيں اور مختلف ممالک سے تعلقات اور اس کے دوررس اثرات اور نتائج پر بھی نظر رکھی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ يہ حقيقت بھی پيش نظر رکھی جانی چاہيے کہ ہر نئ حکومت کی پاليسی پچھلی حکومت سے الگ ہوتی ہے اور زمينی حقائق کی بنياد پر ان پاليسيوں ميں تبديلی بھی آتی رہتی ہے۔ مثال کے طور پر 70 کی دہائ ميں پاکستان پيپلز پارٹی اور خود بھٹو صاحب امريکہ سے اچھے تعلقات کو پاکستان کے مفادات کے خلاف سمجھتے تھے۔ ليکن 80 اور 90 کی دہاہی میں پاکستان پيپلز پارٹی اور بھٹو صاحب کی اپنی بيٹی امريکہ سے اچھے تعلقات کی اہميت پر زور ديتے رہے۔ اس کے علاوہ آپ پاکستان اور بھارت کے درميان تعلقات کی تاريخ ديکھيں تو ايسے ادوار بھی گزرے ہيں جب دونوں ممالک کے درميان جنگوں ميں ہزاروں فوجی مارے گئے اور پھر ايسی خارجہ پاليسياں بھی بنيں کہ دونوں ممالک کے درميان دوستی اور امن کی بنياد پر ٹرينيں اور بسيں بھی چليں۔

حقيقت يہ ہے کہ عالمی سياست کے تيزی سے بدلتے حالات کے تناظر ميں دنيا کا کوئ ملک يہ دعوی نہيں کر سکتا کہ اس کی خارجہ پاليسی ہميشہ يکساں رہے گی اور اس ميں تبديلی کی گنجائش نہيں ہے۔



فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

Fawad -

محفلین
کس نے عراقی کیمیائی ہتھیاروں کے ظالمانہ استعمال پر آنکھیں بند رکھیں سوائے امریکہ کے؟
!


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ميں آپ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ مارچ 1988 ميں حلبچہ کے مقام پر ہونےوالے بدترين انسانی سانحے پر ميڈيا اورعالمی برداری نے اس ردعمل کا اظہار نہيں کيا جيسا کہ ہونا چاہيے تھا۔ سال 1988 ميں صدام حسين کی گرفت عراقی ميڈيا سميت ہر ادارے پر انتہاہی مضبوط تھی۔ سال 1988 کے آغاز تک ايران اور عراق 8 سال تک جنگ ميں ملوث تھے اور دونوں جانب سے ايک دوسرے کے خلاف کيميائ ہتھياروں کے استعمال کا الزام معمول تھا۔ ليکن ان عوامل کے باوجود آپ کا الزام برحق ہے۔


کسی بھی حکومت کے ليے يہ ممکن نہيں ہے کہ وہ ايسی خارجہ پاليسی بنائے جو سب کو مطمئن بھی کر سکے اور حقيقت کا تدارک کرتے ہوئے سو فيصد صحيح بھی ثابت ہو۔


جہاں تک حلبچہ ميں صدام حسين کی جانب سے کيميائ ہتھياروں کے استعمال کا سوال ہے تو اس سلسلے ميں تحقيقات سے يہ بات ثابت ہے کہ صدام حسين نے يہ ہتھيار امريکی حکومت سے حاصل نہيں کيے تھے۔

23 دسمبر 2005 کو ہالينڈ کی ايک عدالت نے فرانس وين انرات نامی ايک بزنس مين کو عالمی مارکيٹ سے بڑے پيمانے پر کيميائ ہتھيار خريدنے اور انھيں صدام حکومت کو فروخت کرنے کے الزام ميں 15 سال قيد سنائ۔ ہالينڈ کی اس عدالت نے اپنے تفصيلی فيصلے ميں يہ واضح کيا کہ يہ وہی کيميائ ہتھيار تھے جو عراق ميں حلبچہ کے مقام پر استعمال کيے گئے۔ يہ پہلا موقع تھا کہ دنيا کی کسی عدالت نے حلبچہ کے مقام پر ہونے والی "نسل کشی" اور کيميائ ہتھياروں کے استعمال کی حقيقت کو تسليم کيا۔

صدام حسين نے کيميائ ہتھياروں کے حصول کے ليے بہت سی انٹرنيشنل فرموں کی خدمات حاصل کی تھيں۔

يہاں ميں کچھ ميڈيا رپورٹس کا لنک دے رہا ہوں جس ميں اس نيٹ ورک کا تفصيلی ذکر ہے جس کے ذريعے صدام حسين نے يہ کيميائ ہتھيار حاصل کيے۔

http://www.iraqwatch.org/suppliers/nyt-041303.gif

http://www.gfbv.de/pressemit.php?id=1210&PHPSESSID=bf9ba5ba3fad8ca3b89b60627a8f9498


يہ بھی بتاتا چلوں کہ حلبچہ سانحے کے مرکزی کردار علی حسن المجيد کو سزائے موت دی جا چکی ہے۔ اس کے علاوہ عراقی کابينہ نے ان تمام کمپنيوں کے خلاف عراقی حکومت کی جانب سے ہرجانے کا دعوی کرنے کا فيصلہ کيا ہے جنھوں نے صدام حکومت کو کيميائ ہتھيار مہيا کرنے ميں اہم کردار ادا کيا تھا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

Fawad -

محفلین
افغان جہاد میں جو کتب برین واشنگ کی غرض سے افغانستان لائی گئی تھی، وہ سب کی سب امریکی یونیورسٹیز سے ہی تیار شدہ تھیں


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

اگر آپ 80 کی دہائ ميں افغان عوام کی مدد کرنے کے امريکی فيصلے کے حوالے سے ميری گزشتہ پوسٹس پڑھيں تو ان ميں واضح طور پر يہ باور کروايا گيا ہے کہ ماضی ميں ديکھتے ہوئے اس حوالے سے يقينی طور بحث کی جا سکتی ہے کہ افغانستان اور پاکستان ميں متعلقہ حکام کی جانب سے جو طريقہ کار اور حکمت عملی اختيار کی گئ تھی، وہ ان قدروں سے مطابقت نہيں رکھتی تھی جن کا پرچار امريکی حکومت دنيا بھر ميں کرتی رہی ہے۔

ليکن يہ کہنے کے باوجود اس حقيقت کو بھی رد نہيں کيا جا سکتا کہ ہر چيز کو اس کے درست تناظر ميں ديکھا جانا چاہيے۔ 80 کی دہائ ميں افغانستان پر سويت افواج کا قبضہ ہو چکا تھا۔ ملک حالت جنگ ميں تھا اور لاکھوں کی تعداد ميں افغان باشندے پاکستان ميں پناہ لينے پر مجبور تھے۔ پوری قوم کا مستقبل داؤ پر لگا ہوا تھا اور آزادی کے حصول کی تڑپ افغان معاشرے ميں شدت سے سرايت کر چکی تھی جس کی جھلک اس دور کی ثقافت، ادب اور سياسی و معاشرتی بحث ميں جا بجا نظر آتی ہے۔

يہ کوئ اچنبے کی بات نہيں ہے کہ مسلح جہاد کی ترغيب اور ملک کے طول وعرض ميں نوجوانوں کے اذہان کو مخصوص رنگ ميں ڈھالنے کی حکمت عملی مقامی حکام کی ترجيح رہی ہو۔

مثال کے طور پر ہم سب پاکستان کی مايہ ناز گلوکارہ نورجہاں کے جذبات سے بھرپور ان گانوں سے آشنا ہيں جو انھوں نے 65 اور 71 کی پاک بھارت جنگوں کے دوران سرحدوں پر پاک افواج کے حوصلے بلند کرنے کے ليے خصوصی طور پر تيار کيے تھے۔ آج اگر کوئ ان نغموں اور مکالموں کو ان کے تناظر اور پس منظر اور اس دور کے قومی مزاج اور مجموعی اجتماعی سوچ سے الگ کر کے پڑھے تو يقينی طور يہ خيال ابھرے گا کہ ايک ہمسايہ ملک کے خلاف غير ذمہ دارانہ اور جارحانہ رويے کی ترغيب دی جا رہی ہے۔

اس دور ميں امريکی حکومت کے فراہم کردہ وسائل کا افغانستان اور پاکستان ميں متعلقہ حکام کی متعين کردہ پاليسيوں کی عمل داری ميں استعمال کيا جانا عين ممکنات ميں سے ہے۔ ليکن امريکی حکومت نے کبھی بھی ايسی پاليسی اختيار نہيں کی تھی جس کا مقصد ايسے دہشت گردوں کی تياری تھا جو دانستہ جانتے بوجھتے عوام پر اپنا تسلط قائم کرنے کے ليے بے گناہ شہريوں کو قتل کرتے پھريں۔

آپ کی دليل کا بنيادی نقطہ اس سوچ پر مبنی ہے کہ 80 کی دہائ ميں تيار کی جانے والی نصابی کتب ہی گويا موجودہ دور کے عالمی دہشت گردوں کو پروان چڑھانے کا سبب بنی تھيں۔ دلچسپ امر يہ ہے کہ اگر آپ واقعی پوری ايمانداری سے اس بات پر يقين رکھتے ہيں تو پھر اسی کسوٹی پر آپ کو افغانستان ميں حاليہ امريکی حکومتوں کی مثبت کاوشوں کو بھی تسليم کرنا چاہیے کيونکہ آج کی حقيقت تو يہ ہے کہ ہر سال لاکھوں کی تعداد ميں نصابی کتب افغانستان بھجوائ جا رہی ہيں جس کا مقصد افغانستان کی آئندہ نسل کو تعليم کے زيور سے آشنا کرنا ہے۔


اس ضمن ميں مارچ 16 2002 کو سابق امريکی صدر بش کا اپنے ہفتہ وار خطاب کے دوران ديا گيا ايک بيان پيش ہے
"اور سال کے اختتام تک ہم 10 ملين نصابی کتب افغانستان ميں بچوں کے ليے بھجوائيں گے۔ يہ نصابی کتب طالب علموں کو عدم رواداری اور شدت پسندی کی بجائے برداشت اور انسانی قدروں کا احترام کرنا سکھائيں گی۔"


http://www.c-spanvideo.org/program/169177-1


اسی طرح اوماہہ ورلڈ ہيرالڈ ميں ايک کالم سے ليا گيا اقتتباس


"جنگ اور ظلم کی راکھ سے جديد اور صحت مند افغان معاشرے کی تشکيل کے عمل کے ليے اميد کی ايک کرن موجود ہے کيونکہ يونيورسٹی آف نبراسکا کے حکام پڑوس ملک پاکستان ميں اپنے چھاپہ خانوں ميں نصابی کتب کی تياری ميں مصروف ہيں۔ اور يہ سب کچھ يو ايس ايڈ کی جانب سے دی گئ 5۔6 ملين ڈالرز کی امداد کے سبب ممکن ہو سکا ہے۔"


دہشت گردی گروہوں کی جانب سے کی جانے والی متششد کاروائيوں کے ليے تاريخ کے اوراق ميں سے جواز تلاش کرنے اور تمام تر ملبہ امريکہ کے سر ڈالنے کے ليے نت نئ تاويليوں کی بجائے آج کے دور کے زمينی حقائ‍ق اور اعداد وشمار پر توجہ مرکوز رکھيں۔


طالبان کے دور حکومت ميں افغانستان ميں صرف 900000 طالب علم تھے اور خواتين کو تعليم کی اجازت نہيں تھی۔ آج 7 ملين طالب علم افغانستان ميں زير تعليم ہيں جن ميں سے 2 ملين براہراست يو ايس ايڈ کے مرہون منت ہيں اور 37 فيصد طالبات بھی زير تعليم ہيں۔ يو ايس ايڈ کے زير انتظام 52،000 اساتذہ کو تربيت دينے کے علاوہ 3695 کلاس رومز کا اجراء کيا گيا ہے جن ميں 52،504 بچوں کو تعليم دی جا رہی ہے جن ميں 65 فيصد بچياں شامل ہيں۔ تعليم کے اعلی اداروں کو مستحکم کرنے کے ليے يو ايس ايڈ نے افغان پرفيسروں کو ماسٹرز ڈگری کے حصول کے ليے معاونت فراہم کی اور تعليم کے معيار کو بہتر بنانے اور جديد خطوط پر استوار کرنے کے ليے کئ مختصر مدت کے کورسز کا بھی اہتمام کيا گيا ہے۔ يو ايس ايڈ کے سپورٹ پروگرامز کے ذريعے افغانسان کے نوجوانوں اور بالغوں کو تکنيکی تعليم سے بھی روشناس کروايا جا رہا ہے تا کہ وہ ايک پرامن معاشرے کی تشکيل ميں اپنا فعال کردار ادا کر سکيں۔




فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ



www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu

zindagi_anmol_hai.jpg



revised_Ziarat_banner.jpg
 

زرقا مفتی

محفلین
ملا عمر تو امریکہ کے انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل تھے جن کے بارے میں اطلاع دینے والے کو دس ملین ڈالر تک انعام دیا جا سکتا تھا اب اُنہی سے مذاکرات کیے جا رہے ہیں۔ کیا یہ طالبان تائب ہو گئے یا پھر امریکہ کو معلوم ہو گیا کہ افغانستان میں اصل سیاسی طاقت یہی طالبان ہیں
Mullah Omar has been wanted by theU.S. State Department's Rewards for Justice program since October 2001, for sheltering Osama bin Laden and al-Qaeda militants in the years prior to theSeptember 11 attacks

http://www.rewardsforjustice.net/english/index.cfm?page=MullahOmar
 
ملا عمر تو امریکہ کے انتہائی مطلوب افراد کی فہرست میں شامل تھے جن کے بارے میں اطلاع دینے والے کو دس ملین ڈالر تک انعام دیا جا سکتا تھا اب اُنہی سے مذاکرات کیے جا رہے ہیں۔ کیا یہ طالبان تائب ہو گئے یا پھر امریکہ کو معلوم ہو گیا کہ افغانستان میں اصل سیاسی طاقت یہی طالبان ہیں
Mullah Omar has been wanted by theU.S. State Department's Rewards for Justice program since October 2001, for sheltering Osama bin Laden and al-Qaeda militants in the years prior to theSeptember 11 attacks

http://www.rewardsforjustice.net/english/index.cfm?page=MullahOmar

امریکہ اس بنیاد پر مذاکرات کررہا ہے کہ
1- طالبان تشدد چھوڑ دیں گے
2- القائدہ سے ناطہ توڑ لیں گے
3- ائین کا احترام کریں گے
 
Top