دونون طرف سے بہت خون بہا دیا گیا ہے۔۔دونوں طرف غریب لوگ مرے ہیں۔ایک طرف فوجی(سپاہی) ھمارے بھائی ہیں اور غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں،دوسری طرف قبائلی بھی Mna Mpa یا کوئی ملک ،خان،ارباب نہیں مر رہا ہے۔۔سارے غریب لوگ ہیں۔
اس درمیان ہمارے تبصرے بے گناہوں کے بہتے ہوئے خون کے ساتھ زیادتی ہے۔نہ تو ہمیں فوجیوں خوش ہونا چاہیے کہ وہ حکم کے تابع ہیں اور نہ قبائیلیوں کے بہتے ہوئے خون پر خوش ہونا چاہیے۔۔کہ کوئی اپنا خون بے مقصد نہیں بہاتا۔
ہمیں ان اندھے حکمرانوں کی عقل او دانش پر ماتم کرنا چاہئے کہ قبائیلیوں کو کیسے اعتماد میں لئے جائیں۔کہ اج تک طاقتوروں(امریکہ) کے سامنے تو زبان کھول نہیں سکے اور اپنے عوام پر گرگس کی طرح جپٹ رہے ہیں۔
میں کہتا ہوں بھاڑ میں جائے وہ ایٹم بم جو پاکستان نے بنایا ہے۔
کس کام کا جس کی وجہ سے ہم مزید مشکلات کا سامنا کرہے ہیں۔ کس کام کا جس کی وجہ سے پوری قوم پر امریکی مظالم کا بھر ما ہے۔اور کس کام یہ ایٹم بم جس کا رعب ہم کم از کم کسی پر بھی تو نہ جما سکے۔
کہیں پر پڑھا تھا کہ اسلحہ اس وقت تک خطرناک نہیں ہوتا جب تک خطرناک ہاتھوں تک نہ پہنچے۔
ہمارا اسلحہ کس کام کا جو ہیجڑوں کے ہاتھوں میں تھمادیا گیا ہے۔
دونون طرف سے بہت خون بہا دیا گیا ہے۔۔دونوں طرف غریب لوگ مرے ہیں۔ایک طرف فوجی(سپاہی) ھمارے بھائی ہیں اور غریب گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں،دوسری طرف قبائلی بھی Mna Mpa یا کوئی ملک ،خان،ارباب نہیں مر رہا ہے۔۔سارے غریب لوگ ہیں۔
اس درمیان ہمارے تبصرے بے گناہوں کے بہتے ہوئے خون کے ساتھ زیادتی ہے۔نہ تو ہمیں فوجیوں خوش ہونا چاہیے کہ وہ حکم کے تابع ہیں اور نہ قبائیلیوں کے بہتے ہوئے خون پر خوش ہونا چاہیے۔۔کہ کوئی اپنا خون بے مقصد نہیں بہاتا۔
فیروز خان آفریدی ، آپ نے بہت پتے کی بات کہی اور یہی کچھ میں بھی کہتا آیا ہوں کہ کسی ملک ، سردار یا مُلا کا کوئی نقصان نہیں ہو رہا بلکہ غریب قبائلی اور ان کے بچے مارے جا رہے ہیں۔ اور دوسری طرف پاک فوج کا نقصان بھی ہمارا قومی نقصان ہے۔ مشرف یا شوکت عزیز کا نہیں۔ لیکن یار لوگ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے میں اس قدر محو ہیں کہ کوئی اس المیے پر غور فرمانے کے لئیے تیار نہیں ہے۔ ہم شتر مُرغ کی طرح ریت میں سر دبا رہے ہیں اور ایک دوسرے پر الزام تراشی کر کے اپنا پلا جھاڑ لیتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ انسانی قتل کرنے والوں کا ہاتھ روکا جانا چاہئیے خواہ وہ آرمی کے ہاتھوں ہو یا طالبان کے ہاتھوں۔
مشرف کی ڈھٹائی اور غلط پالیسیوں نے حالات کو مزید بگاڑ دیا ہے اور اس ایک آدمی کی وجہ سے اب پوری فوج کو گالی دی جاتی ہے جو بجائے خود ایک غلط کام ہے۔ مشرف نہیں تھا تب بھی آرمی موجود تھی اور جب آرمی چھوڑ دے گا یہ پھر بھی موجود رہے گی لیکن ہم میں سے چند ساتھی جس غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے یہاں اور دیگر دھاگوں پر فوج کی ماں بہن ایک کر رہے ہیں وہ کوئی اچھی روایت قائم نہیں کر رہے۔ اور جو لوگ ان جنونی طالبان کے کرتوتوں کی وجہ سے تمام قبائلیوں کومؤرد الزام ٹھہراتے ہیں وہ بھی غلط ہیں۔
آخر ہم حالات کے غیر جانبدار تجزئیے سے کیوں بھاگتے ہیں ؟ میں نے پہلے بھی عرض کیا تھا کہ اپنے آفس یا گھر کے کمرے میں بیٹھ کر لکھنے کی بجائے جائیے ان علاقوں میں اور دیکھئیے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ کس نے ان کو پاک آرمی کے سامنے لا کھڑا کیا ہے؟ خالی الزام تراشیوں سے کچھ بات نہیں بننے والی۔
ہاں یہ سچ ہے کہ یہ طالبان وہی ہیں جن کو پاکستان کی آئی ایس آئی ، آرمی اور خلیجی ممالک کی حمایت نے طاقت بخشی اور امریکہ ایک عرصے تک ان کا ان داتا رہا۔ یہ پراکسی وار کے مہرے تھے۔ اور مذہب کے نام پر مخالفوں کو قتل کرنے کے دھنی تھے اور ان کی اسی خونخوار جبلت سے امریکہ نے بھر پور فائدہ اٹھا کر افغانستان میں روس کو شکست سے دوچار کیا۔ جدید ترین اسلحے کی فراوانی اور ڈالروں کے سیلاب نے ان کو انسانیت کے سارے اصول و قواعد بھلا دئیے ۔ اس پر مستزاد یہ کہ حکومتِ پاکستان نے بھی اپنے مفادات کے لئیے عرصہ دراز تک ان کے انسانیت سوز جرائم سے پہلو تہی اختیار کی کیوں کہ یہ امریکہ کی پالیسی تھی اور پاکستان اس کے خلاف نہیں چل سکتا تھا۔ ان کو کھل کھیلنے کا موقع ملا تو انہوں نے عام قبائلی نوجوانوں کو بھی ورغلایا ، مذہب کو اپنی ڈھال بنایا کہ اس کے بغیر قبائلیوں کی ہمدردی حاصل نہیں ہو سکتی تھی، اور قتل و غارت کا یہ گھناؤنا کھیل حکومت پاکستان کی ناک کے نیچے کھیلا جاتا رہا۔
جو لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ امریکہ کی افغانستان میں آمد سے قبل یہ دہشت گردی کیوں موجود نہ تھی وہ لوگ یہ بات فراموش کر جاتے ہیں کہ اس وقت یہ خونخوار گروہ افغانستان کے اندر بربریت کا کھیل کھیل رہے تھے اور محض عقیدے کے اختلاف کی بنیاد پر ہر روز سینکڑوں مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگنے میں مصروف تھے۔مجسموں پر بمباری کر کے اپنے اسلام کا اظہار فرما رہے تھے۔ ہاتھوں میں ڈنڈے پکڑ کر بازاروں میں اپنی خود ساختہ شریعت کا نفاذ کرنے میں پیش پیش تھے۔ افیون کی کاشت کہنے کو تو روک دی گئی لیکن اس کی سب سے بڑی وجہ سیاسی تھی اور ویسے بھی اب پورا ملک ان کے قابو میں تھا اس لئیے آمدنی کے دیگر ذرائع بھی کم نہ تھے۔ غیر مسلموں کو اپنے چہروں پر مخصوص نشانات لگانے کے احکامات جاری کر رہے تھے۔عورتوں کی تعلیم بند ، زچہ و بچہ بھلے گھر میں مر جائیں لیکن مرد ڈاکٹر کے پاس نہیں جا سکتے ، ٹی وی پر پابندی ، وڈیو پر فتوے ،،،،جی ہاں یہی لوگ تھے جو اس وقت یہ کام افغانستان میں کر رہے تھے۔ اور جب وہاں ان کے لئیے زمین تنگ پڑی تو یہ پاکستان کا رخ کرنے لگے اور اپنے قبائلی میزبانوں کا گھر تباہ کرنے کے درپے ہو گئے اور ان کے بچوں کو ورغلانے لگے جس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔
دوستو، بہت غلطیاں ہوئی ہیں ۔ حکومتِ پاکستان سے بھی اور قبائلی رہنماؤں سے بھی ۔لیکن ہم سب ایک ہی گھر کے مکین ہیں اور اپنے گھر میں لگی آگ کو بجھانے کی کوشش کرنا ہمارا فرض ہے اس کو بھڑکتے ہوئے دیکھتے رہنا اور ایک دوسرے پر تہمت بازی کرنا مناسب نہیں ورنہ سب کچھ ختم ہو جائے گا۔
مشرف ، فوج ، قبائلی اور طالبان سب انسان ہیں اور غلطی کرتے ہیں لیکن ابھی بھی وقت ہے کہ غلطیوں کو سدھار لیا جائے ۔ ان خونیوں کو راہِ راست پر آنے کی ترغیب دی جائے اور کچھ لو اور دو کے اصول کی بنیاد پر بھی اس تشدد کو روکا جانا چاہئیے اور اس کے بعد بھی جو نہ مانے پھر اس کے لئیے معافی نام کی کوئی رعایت نہ رکھی جائے۔ آخر کب تک ہمارے قبائلی بھائی اور ہماری آرمی ان کی بربریت کا نشانہ بنتی رہے گی۔
میں اپنے ان دوستوں کہ جو قبائلی علاقہ اور صوبہ سرحد سے تعلق رکھتے ہیں ،سے گزارش کروں گا کہ وہ اس دھاگے پر اپنے احساسات کا اظہار فرمائیں تا کہ حقیقی تصویر کی رونمائی ہو سکے۔