سید ذیشان
محفلین
طبیعت آج پھر گھبرا رہی ہے
نظر خنجر کی جانب جا رہی ہے
ہے دستوروں کی زنجیروں میں جکڑی
اِسی جانب حریت آ رہی ہے
نہیں لوٹی تری جانب سے گویا
نظر پھر صدقے واری جا رہی ہے
اگرچہ جان لب پر آچکی ہے
محبت زیرِ لب مسکا رہی ہے
عجب ہے اپنے خوں پر آدمیت
طمنچوں کے ترانے گا رہی ہے
غمِ الفت کا جب قیدی بنا ہوں
مجھے یہ بندگی اب بھا رہی ہے
مگس شائد ہے فکرِ انگبیں میں
بطرزِ شیخ یوں لہرا رہی ہے
نظر خنجر کی جانب جا رہی ہے
ہے دستوروں کی زنجیروں میں جکڑی
اِسی جانب حریت آ رہی ہے
نہیں لوٹی تری جانب سے گویا
نظر پھر صدقے واری جا رہی ہے
اگرچہ جان لب پر آچکی ہے
محبت زیرِ لب مسکا رہی ہے
عجب ہے اپنے خوں پر آدمیت
طمنچوں کے ترانے گا رہی ہے
غمِ الفت کا جب قیدی بنا ہوں
مجھے یہ بندگی اب بھا رہی ہے
مگس شائد ہے فکرِ انگبیں میں
بطرزِ شیخ یوں لہرا رہی ہے