طلاق کا مسئلہ: برطانیہ میں عورتیں حلالہ کے نام پر عصمت لٹا بیٹھتی ہیں

صرف علی

محفلین
طلاق کا مسئلہ: برطانیہ میں عورتیں حلالہ کے نام پر عصمت لٹا بیٹھتی ہیں
headlinebullet.gif

shim.gif

dot.jpg

shim.gif

128499_l.jpg

لندن (رپورٹ، آصف ڈار) برطانیہ میں طلاق اور حلالہ کا مسئلہ انتہائی سنگین ہوگیا ہے اور شوہروں کی جانب سے تین طلاقیں پانے والی عورتیں اس مسئلہ کو حل کرانے کے لئے جب بعض مولویوں کے پاس جاتی ہیں تو حلالہ کے نام پر ان سے اپنی عصمتیں لٹا بیٹھتی ہیں۔ حلالہ کے لئے ایک رات کی دلہن بننے والی عورتیں اپنے گھروں میں عزت و وقار کھو بیٹھتی ہیں اور اکثر اوقات نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوجاتی ہیں، لندن ، برمنگھم ، بریڈفورڈ سمیت کئی شہروں میں خفیہ حلالہ سینٹر قائم ہوگئے ہیں جس کے باعث عورتوں کی تذلیل سنگین مسئلہ بن گئی، ان حلالہ سینٹرز میں عورتوں کی مجبوری کا فائدہ اُٹھایا جاتا ہے ، ہزاروں گھر اُجڑ گئے ، تاہم حقیقی علماء اس کی مذمت کرتے ہیں۔ اس حوالے سے جنگ لندن کی جانب سے کی جانے والی ایک تحقیق میں سنسنی خیز انکشافات ہوئے ہیں۔ جنگ نے برطانیہ میں حلالہ کے نام پر پاکستانی اور دوسری مسلمان خواتین کی بے حرمتی کے حوالے سے جن علماء سے رابطہ کیا اور ان سے تصدیق کرنا چاہی تو تقریباً سب نے اس بات پر اتفاق کیا کہ حلالہ کے نام پر مسلمان عورتوں کی تذلیل کی جارہی ہے۔ تاہم علمائے کرام اور حقیقی مولوی اس مسئلہ کو اس لئے اجاگر نہیں کررہے کہ اس سے ساری مسلم کمیونٹی مزید بدنام ہوگی جو پہلے ہی چائلڈ سیکس گرومنگ اور دوسرے کیسوں کی وجہ سے انتہائی خراب حالات سے گزر رہی ہے۔ جنگ کی ریسرچ کے مطابق بعض نام نہاد مولویوں نے لندن، برمنگھم، بریڈفورڈ اور بعض دوسرے شہروں میں خفیہ طور پر حلالہ سینٹر قائم کئے ہوئے ہیں جن میں مشورے کے لئے آنے والے افراد کو گمراہ کیا جاتا ہے۔ مردوں کے ساتھ آنے والی عورتوں کو بھی یہ کہہ کر گمراہ کیا جاتا ہے کہ ان کی ان کے شوہر سے طلاق ہوچکی ہے۔ لہٰذا وہ اب اپنے شوہر کے پاس اس وقت تک واپس نہیں جاسکتیں جب تک ان کا نکاح کسی دوسرے شخص کے ساتھ نہ ہوجائے اور وہ باقاعدہ طور پر ایک رات کے لئے کسی اور کی دلہن نہ بن جائیں۔ اس پر کئی کئی بچوں کی مائیں اور ان کے وہ شوہر سخت پریشان ہوتے ہیں جو اپنے غصے میں آکر ایک ساتھ تین طلاقیں دے چکے ہوتے ہیں۔ مرد اور عورت دونوں اپنے بچوں کی وجہ سے اپنا گھر برباد نہیں کرنا چاہتے اور مذہبی احکامات کی بھی پابندی کرنا چاہتے ہیں۔ بعض مولوی ان مسلمان اور سادہ لوح خواتین کی اس کمزوری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کو حلالہ کرانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ جب ان کو بتایا جاتا ہے کہ اس سے ان کی بدنامی ہوگی۔ ظاہر ہے کہ جب ایک عورت ایک رات کیلئے کسی اور کے ساتھ رہے گی تو وہ اس کو بعد میں بلیک میل بھی کرسکتا ہے۔ چنانچہ نام نہاد مولوی ان عورتوں کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ان کے ساتھ ایک رات کیلئے حلالہ کرلیں۔ کئی مرتبہ ان مولویوں اور عورتوں کے شوہروں کے درمیان زبانی طور پر یہ معاہدہ ہوتا ہے کہ وہ حلالہ کے بعد اپنی بیوی کو صبح واپس لے جائیں گے۔ یہ مولوی جب عورت کے ساتھ نکاح کرلیتے ہیں تو ان میں سے بعض ان پر اپنا حق جتانے لگتے ہیں اور طلاق دینے سے انکار کردیتے ہیں۔ انہیں جب ان کے معاہدے کی یاد دلائی جاتی ہے تو وہ عورتوں کے سابق شوہروں سے بھاری رقوم کا تقاضا کرتے ہیں۔ جبکہ بعض مولوی محض اپنی جنسی تسکین کیلئے عورتوں کو کئی کئی دن اپنے پاس رکھتے ہیں۔ اس پر جب عورت مولوی سے حلالہ کرانے کے بعد واپس اپنے شوہر کے پاس جاتی ہے تو ان دونوں کے تعلقات بھی خراب ہوجاتے ہیں اور وہ ان سے دوسرے مردوں کے ساتھ گزارے جانے والے دنوں کا حساب تک مانگتے ہیں۔ اس پر مجبور عورتیں اپنے بچوں کی وجہ سے مردوں کے ساتھ گزارا کرتی ہیں اور بعض نفسیاتی بیماریوں کا شکار ہوجاتی ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ خفیہ حلالہ سینٹرز کے یہ نام نہاد مولوی ہمیشہ حلالہ کے شکار کی تلاش میں رہتے ہیں اور ان میں بعض ایک دوسرے کو حلالہ تحفہ کے طور پر بھی پیش کرتے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ یہ خفیہ سینٹرز بعض مدارس اور بعض مولویوں نے اپنے گھروں میں بھی کھول رکھے ہیں۔ان افراد کے ایک دوسرے کے ساتھ رابطے ہوتے ہیں اور انہوں نے باقاعدہ اپنے ایجنٹ کمیونٹیز کے اندر چھوڑے ہوئے ہوتے ہیں جو مجبور اور بے بس افراد کو ان کے پاس لاتے ہیں۔ اگر عورتیں حلالہ پر تیار ہوجائیں تو ان میں سے بعض کو ان ایجنٹوں کو بھی تحفے میں دے دیا جاتا ہے۔ ریسرچ کے مطابق ان عورتوں کے ساتھ اکثر اوقات دھوکہ بازی کی جاتی ہے۔ ان عورتوں کو کئی مرتبہ ان کے اپنے شوہر خفیہ حلالہ مراکز میں لے جاتے ہیں جبکہ اگر معاملہ خاندان کے اندر ہو تو تین طلاقیں پانے والی عورتوں کا ایک رات کیلئے نکاح ان کے شوہر کے چھوٹے یا بڑے بھائی سے بھی کرادیا جاتا ہے یا پھر کسی اور قریبی رشتہ دار کو یہ ذمہ داری سونپی جاتی ہے۔ اس طرح عورت اپنے شوہر پر حلال ہوتے ہوتے ذلیل و خوار ہوجاتی ہے اور اس کی خبر سارے معاشرے کو ہوتی ہے مگر کوئی اس حوا کی بیٹی کی مدد نہیں کرتا۔ مرد کے قصور کا سارا عذاب عورت کو اپنے جسم پر سہنا پڑتا ہے۔ جنگ کی ریسرچ کے مطابق عورتوں کے ساتھ ہونے والے اس ظلم کے مردوں کے ساتھ ساتھ وہ نام نہاد مولوی بھی ذمہ دار ہیں جو ان کو اپنی ہوس کی وجہ سے غلط مشورے دیتے ہیں۔ حلالہ کے حوالے سے سارے علماء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ برطانیہ میں یہ مسئلہ انتہائی سنگین ہوگیا ہے۔ چند خفیہ حلالہ مراکز اور بعض ایجنٹوں کی وجہ سے عورتوں کی بے حرمتی کی جارہی ہے مگر یہ علماء کرام اس مسئلہ کو اس لئے سامنے نہیں لاتے کہ کمیونٹی مزید بدنام ہوگی۔ تاہم جمعیت اہلحدیث کے شفیق الرحمن کا کہنا ہے کہ اگر اس انڈر کارپٹ مسئلے کو سامنے نہ لایا گیا اور اس کا حل نہ نکالا گیا تو یہ زہر آہستہ آہستہ ساری مسلم کمیونٹی کے اندر پھیل جائے گا اور حلالہ جیسی بدکاری کو مذہب کا حصہ بنادیا جائے گا۔ انہوں نے جنگ لندن کو بتایا کہ وہ ایک طویل عرصہ سے اس غیر شرعی طریقہ کار کے خلاف مہم چلارہے ہیں اور ہمیشہ لوگوں کو اس طرح کی غیر شرعی حرکات سے دور رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ حلالہ کے نام پر عورتوں کا جنسی استحصال کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اب اس انڈرکارپٹ مسئلے کو بھی سامنے آنا چاہیئے اور عورتوں کی بے حرمتی بند ہونی چاہئے۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=128499
 

x boy

محفلین
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

اب لندن وہ جگہہ بن گئی ہے جہاں اسلام کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں،
کبھی کس طریق، کبھی کس طریق،
عورتوں کو ان شوہروں کے پاس واپس کیوں جانا ہے جو ٹھنڈے مزاج نہیں
غصے میں میں نے طلاق دی ہے کہ جملے بہت سننے میں آتے ہیں
محبت و پیار میں کون طلاق دیتا ہے اتنا غصہ آتا ہے تو ساتھ کیوں رکھنا
حلالہ ویسے بھی جائز نہیں ہے گمراہ لوگ اس کو کرتے ہیں
کچھ دنوں پہلے شورٹ میرج کا معاملے والے شور والا دھوان
لندن سے ہوتا ہوا اے ار وائی کے چینلنز تک پہنچ گیا۔
اللہ پاک نے جب جوڑے بنائے ہیں اور میاں بیوی کو ایک
دوسرے کا پوشاک کہا ہے تو یہ پوشاک اتارکر پھینکنا کیوں ہے
اور ڈسپوسیبل پوشاک کیوں اختیار کرنا ہے
خیر ہم سب امت کے لئے دعاء کرتے ہیں
کہ اللہ پاک ہمیں ان سب دجالی فتنوں سے محفوظ رکھے ، آمین
سب دل کہے آمین۔
 

حسینی

محفلین
۔
اس پر کئی کئی بچوں کی مائیں اور ان کے وہ شوہر سخت پریشان ہوتے ہیں جو اپنے غصے میں آکر ایک ساتھ تین طلاقیں دے چکے ہوتے ہیں۔ ۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=128499

اسلام دین فطرت ہے اور اس میں کوئی بھی قانون فطرت کے خلاف نہیں۔۔۔۔ اسلام نے نکاح کو انتہائی آسان اور طلاق کو بہت ہی مشکل بنایا ہے۔۔۔
لیکن ہمارے مولویوں نے برعکس کے کر کے نکاح کو انتہائی مشکل اور طلاق کو بہت ہی آسان کر دیا ہے۔۔۔
ہمارے فقہ کے مطابق ایک ہی دفعہ تین طلاقیں دینے سے تین طلاقیں نہیں ہو جاتیں کیونکہ ایسا عقلا ناممکن ہے۔۔۔ چونکہ جب پہلی بار طلاق دی تو وہ عورت اس کی بیوی ہی نہیں رہی۔۔۔ جب وہ عورت اس کی بیوی نہیں تو دوسری اور تیسری بار طلاق کی نوبت ہرگز نہیں پہنچتی۔۔۔ طلاق صرف اس کو دی جاسکتی ہے جو شرعا اس کی بیوی ہو۔۔ جبکہ وہ عورت پہلی طلاق پر اس سے جدا ہو گئی۔۔۔ اور اس کے لیے اجنبی بن گئی۔
اسی طرح سے غصہ یا نیند کی حالت میں یا اسی طرح مذاق میں طلاق کہنے سے بھی طلاق نہیں ہوتا۔۔۔ چونکہ طلاق کے لیے قصد اور ارادہ ، عربی صیغہ اور دو عادل لوگوں کی گواہی فقہ جعفری میں ضروری ہے۔۔ ان تمام شرائط کی موجودگی میں تین بار طلاق کی نوبت شاذ ونادر ہی آتی ہے۔۔
 

دوست

محفلین
ایک نشست کی طلاق تین کیا دس بھی ہوں ایک ہی ہو گی۔ یہی سنتِ رسول ہے اور یہی قرآنی طرزِ عمل بھی ہے۔ سورہ طلاق کا مطالعہ کرنے والے جانتے ہیں کہ طلاق کا عمل کم از کم نو ماہ پر محیط ہوتا ہے جس میں تین طلاقیں اور پھر رجوع کے لیے کچھ ماہ کا وقت دیا جاتا ہے۔ ہر طلاق کے بعد زوجین کے پاس اختیار ہوتا ہے کہ واپس رجوع کر لیں یا علیحدگی اختیار کر لیں۔ اگر تین کی بجائے ایک طلاق کے بعد ہی الگ ہو جایا جائے حلالے جیسی قباحت سے بھی بچا جا سکتا ہے اور دوبارہ رجوع کا راستہ بھی کھلا رہ سکتا ہے۔
 

حسینی

محفلین
ایک نشست کی طلاق تین کیا دس بھی ہوں ایک ہی ہو گی۔ یہی سنتِ رسول ہے اور یہی قرآنی طرزِ عمل بھی ہے۔ ۔

لیکن اگر آپ یوسف-2 کی اوپر والی پوسٹ پڑھ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔۔۔ یہاں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی نشت میں تین طلاقیں ہو سکتی ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ جب ایک دفعہ طلاق دینے کے بعد وہ اس کی بیوی ہی نہ رہی تو دوسری طلاق کیس حیثیت سے دی جا سکتی ہے۔۔۔ اور تیسری تو دور کی بات۔۔۔۔
اسی طرح سے اس پوسٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ :

۔ اگر قرآنی ہدایات کے برعکس بھی طلاق دی جائے تو فقہاء کے نزدیک نافذ اور مؤثر ہوگی۔۔۔ لیکن ایسا کرنے والا گنہگار ہوگا۔۔ (ہدایت نمبر 1)
یہ کیا بات ہوئی کہ قرآنی ہدایات کے برعکس (حالت حیض یا وہ طہر جس میں قربت کی گئی ہو) طلاق دی جائے تو وہ بھی ناٍفذ ہوگی۔۔
آیا شرعی احکام کے سب سے پہلا اور معتبر ترین ماخذ قرآن کریم نہیں ہے؟؟؟ جس کے ہدایات کی مخالفت کیسے کی جاسکتی ہے؟؟

۔ جب شوہر بیوی کو طلاق دے تو دو صاحب عدل لوگوں کو گواہ بنائے۔ (ہدایت 3)۔ اور یقینا یہی سورہ طلاق آیت 2 کا صریح حکم ہے۔
تو فقہاء کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ یہ شرط ختم کی جائے؟؟؟؟؟؟؟

۔ کم سن لڑکیوں سے نکاح ودخول جائز ہے جنہیں ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو۔۔۔ (ہدایت 5)
آیا ایسی کم سن لڑکی نابالغ نہیں ہوتی؟؟؟ آیا نابالغ لڑکی سے نکاح اور دخول جائز ہے؟؟
آیا رسول اکرم نے حضرت عائشہ کے بالغ ہونے کا انتظار نہیں کیا تھا؟؟
 

یوسف-2

محفلین
قرآن وحدیث کی روشنی میں حلالہ کیا ہے؟
ارشاد باری تعالیٰ ہے
فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ ۭ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَاجُنَاحَ عَلَيْھِمَآ اَنْ يَّتَرَاجَعَآ اِنْ ظَنَّآ اَنْ يُّقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۭ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ يُبَيِّنُھَا لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ
(البقرہ:٢٣٠)
پھر اگر اس عورت کو طلاق دی تيسر ی بار تو اب حلال نہیں اسکو وہ عورت اسکے بعد جب تک نکاح نہ کرے کسی خاوند سے اس کے سوا پھر اگر طلاق دے دے دوسرا خاوند تو کچھ گناہ نہں ان دونوں پر کہ پھر باہم مل جاویں اگر خاال کریں کہ قائم رکھں گے اللہ کا حکم اور یہ حدیں باندھی ہوئی ہںو اللہ بابن فرماتا ہے ان کو واسطے جاننے والوں کے۔

مذكورہ بالا آیت ميں اللہ تعالي نے واضح الفاظ ميں بتا ديا كہ اگر كسي نے تيسري مرتبہ طلاق بھي دے دي (طلاق کے قرآنی طریقہ کے لئے اوپر کا مضمون ملاحظہ کیجئے) تو اس كے بعد وہ عورت اس كے لئے حلال نہيں ہو تي وقيتكہ وہ كسي دوسرے شخص سے شادي كر كے اس كے ساتھ وظيفہ زوجيت ادا كر لے۔۔ اور ايسا كرنے كے بعد اگر كسي وجہ سے ان دونوں ميں جدائي ہوتي ہے۔۔۔ يا شوہر كا انتقال ہو جاتا ہے تو اب اس عورت كو يہ اختيار حاصل ہے كہ اگر وہ اور اس كا سابقہ شوہر دونوں اس بات پر راضي ہوں كہ وہ دوبارہ نكاح كر كے ساتھ رہيں تو ان كو ايسا كرنے كي اجازت ہے۔۔۔ ليكن اگر عورت نے دوسرے شوہر سے ازدواجي تعلقات قائم نہ كئے تو سابقہ شوہر كے لئے حلال نہيں ہوگي۔۔

اس كا يہ مطلب نہيں ہے كہ عورت يا مرد كو يہ ترغيب دي جا رہي ہے كہ وہ طلاق كے بعد ضرور اس عورت كا كسي مسلمان سے نكاح كروا كر پھر اس سے طلاق لي جائے۔۔ جیسے کہ مقلدین اور کچھ جاہل مولویوں نے اِس کا الٹ مطلب کے کر عورت کو بکائو مال سمجھ کر یہ کہا کہ اِس کو ایک دن اور ایک رات یا کچھ دنوں کے لیے کسی سے نکاح کروا دو۔۔ ۔۔۔۔۔ یہ ایک رات کسی کے بستر پر رہے گی تو تیرے لیے حلال ہوجائے گی۔۔۔۔۔۔ مگر احادیث میں اِس کو زنا کہا گیا ہے اور اِیسا کرنے والے اور کروانے والے پر پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔ ۔۔۔۔

اس قسم کا ”حلالہ کرنے“ كی ممانعت نبی كريم صلی اللہ عليہ وآلہ سلم كی صحيح احاديث سے ثابت ہے
ابو داود ميں حديث مروى ہے كہ نبی كريم صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا: " اللہ تعالٰی حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والے پر لعنت كرے "
سنن ابو داود حديث نمبر 2076

اور سنن ابن ماجہ ميں عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروى ہے كہ نبی كريم صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا:كيا ميں تمہيں كرائے يا عاريتاً لئے گئے سانڈھ كے متعلق نہ بتاؤں ؟ صحابہ كرام رضی اللہ عنہم نے عرض كيا: كيوں نہيں اے اللہ تعالٰی كے رسول صلی اللہ عليہ وآلہ و سلم آپ ضرور بتائيں تو رسول كريم صلی اللہ عليہ وآلہ و سلم نے فرمايا " وہ حلالہ كرنے والا ہے، اللہ تعالٰی حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والے پر لعنت كرے "
سنن ابن ماجہ حديث نمبر 1936

حلالہ ”کرنا اور کروانا“ حرام ہے ۔ جبکہ ”حلالہ کا ہونا“ ازروئے قرآن درست ہے۔ ”حلالہ کا ہونا“ سے مراد یہ ہے کہ اگر کسی عورت کو اس کے شوہر نے طلاق دے کر رجوع کر لیا (یا بعد از عدت باہمی رضامندی سے نکاح ثانی، نئے مہر کے ساتھ) ۔ پھر طلاق دے کر رجوع کرلیا (یا بعد از عدت باہمی رضامندی سے نکاح ثلاثہ، نئے مہر کے ساتھ) اور پھر تیسری بار بھی طلاق دے دی تو ایسا شوہر اب پھر نہ تو اس عورت سے رجوع کرسکتا ہے اور نہ ہی عدت کے بعد اس سے نیا نکاح کرسکتا ہے۔ اللہ نے بار بار طلاق دینے والے اس شوہر کے لئے اب یہ عورت حرام کردی ہے تاکہ یہ اسی طرح بار بار عورت کو رسوا نہ کرتا رہے کہ طلاق دی، رجوع کرلیا یا بعد از عدت پھر نکاح کے لئے راضی، امیدوار ہوگیا)۔ اب اگر عورت شادی کرنا چاہتی ہے تو اسے لازماً کسی اور مرد سے شادی کرنی پڑے گی۔ یہ شادی عورت اپني مرضي سے کرے گی۔ اس پر كوئي جبر نہيں كر سكتا نہ اس کا اپنا خاندان نہ ہی سابقہ شوہر یا اس کا خاندان۔
یہ دوسری شادی کسی ”پیشگی معاہدہ“ کے تحت نہیں ہوسکتی کہ نئے شوہر کو لازماً طلاق دینا ہوگا۔ اب یہ دونوں عام شوہر بیوی کی طرح زندگی گزاریں گے۔ اب اگر یہ دوسرا خاوند فوت ہوجائے یا خدا نخواستہ ان کے درمیان کوئی تنازعہ پیدا ہوجائے اور شوہر اس عورت کو طلاق دیدے۔ تو عورت پھر ”آزاد“ ہوجائے گی، اگر عدت کے اندر اندر اس دوسرے شوہر نے رجوع نہیں کیاتو۔ بعد از عدت اگر دوسرا شوہر پھر نکاح کا خواہشمند ہو تو عورت اپنی آزادانہ مرضی سے چاہے تو اسی دوسرے مرد سے نیا نکاح کرسکتی ہے۔ لیکن اگر عورت یہ سمجھے کہ یہ دوسرا مرد تو پہلے مرد سے بھی بطور شوہر خراب تر ثابت ہوا ہے۔ اور اس موقع پر پہلا شوہر پھر اس سے نکاح کا خواہشمند ہو تو اب اس عورت کو پہلے مرد سے نیا نکاح کرنے کی شرعاً اجازت حاصل ہوگئی ہے۔ اس فطری پروسس کو ”حلالہ ہونا“ کہا جاسکتا ہے۔


اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر تيسري طلاق كے بعد ”مرد پر اتني پابندياں“ كيوں عائد كي گئي ہيں۔۔۔ اس كو سمجھنے كے لئے اسلام ميں عورت كے مقام۔ اسلام ميں نكاح اور نظام طلاق كو سمجھنا بہت ضروري ہے۔۔ اگر وہ آپ سمجھ ليں گے تو پھر خود بخود يہ بات سمجھ ميں آ جائے گي۔

چونكہ اللہ كے حكم وجہ سے ايك اجنبي عورت اس شخص كي بيوي بن كر دنیا كي سب سے قريب ترين ہستي بن جاتي ہے۔ جس كي قدر و منزلت اور اس كے حقوق كا خيال ركھنا اس شخص كا فريضہ قرار ديا گيا ہے۔ حتي الامكان اس رشتہ كو قائم ركھنا شريعت ميں مطلوب ہے۔۔۔ ليكن اگر بعض نا گزير حالات كي وجہ سے جدائي كي نوبت آ ہي جائے تب بھي شريعت نے اس كا ايك خاص نظام بنايا ہے جس كو طلاق كا نام ديا گيا ہے۔۔ اس نظام طلاق كے مختلف درجات مقرر كئے گئے ہيں۔ تا كہ وہ اس شخص كو خوب سوچنے سمجھنے كا موقع مل سكے۔۔ اور وہ اللہ كي مقرر كردہ حدود سے تجاوز نہ كر ے۔طلاق كے اللہ نے تين درجات مقرر كئے ہيں۔ان درجات كي تفصيل گذر چكي ہے۔ ان ميں سے دو طلاق تك اس شخص كو اپني بيوي سے رجوع كرنے كا اختيار حاصل ہے۔ عدت كے دوران۔۔جس ميں بيوي كي رضا مندي ضروري نہيں۔ ليكن عدت كے بعد بھي وہ رجوع كر سكتا ہے ليكن اس كے لئے بيوي كي رضا مندي اور نئے نكاح اور نئے حق مہر كا تعين ضروري ہو گا۔۔


اتني رعايت دينے كے باوجود بھي ہمارے اكثر مسلمان بھائي انتہائي اقدام اٹھانا ہي اپني جہالت كي وجہ سے پسند كرتے ہيں۔۔ اور پھر اس كا اثر تو مرتب ہو گا ہي۔۔ وہ اثر اللہ نے يہي بتايا ہے كہ اب وہ عورت ايسے شخص كو دوبارہ كبھي نہيں مل سكتي۔ تا وقتكيہ وہ دوسرے شوہر سے نكاح كر كے اس كي بيوي نہ بن جائے۔۔۔ اور اس كے بعد اگر وہ عورت چاہے تو اس سے دوبارہ نكاح كر سكتي ہے۔۔ مرد كوتنہا اختيار حاصل نہيں ہے۔

واللہ اعلم بالصواب
 

حسینی

محفلین
حلالہ ۔۔۔ ۔۔ ایک غیر شرعی فعل ہے ۔ معلوم نہیں لوگوں نے کس طرح اس کو اسلام سے وابستہ کردیا ۔

ظفری بھائی حلالہ ہرگز غیر شرعی فعل نہیں ہے۔۔۔۔ یہ سورہ بقرہ کی آیت 230 کا صریح حکم ہے۔۔۔
لیکن مسئلہ سارا یہ ہے کہ ہم نے اس کو سمجھا غلط ہوا ہے۔۔۔ اور مولوی حضرات اس کو غلط استعمال کر رہے ہیں۔۔۔
اگر درست دیکھا جائے تو حلالہ کی نوبت شاید ہی کبھی آجائے۔۔۔۔ چونکہ شوہر اور بیوی کے لیے پہلی طلاق کے بعد رجوع جائز ہے۔۔ اگر رجوع نہیں کرتے یہاں تک کی عدت ختم ہوجائے۔۔ تو پھر بھی نکاح کے ذریعے پھر اس عورت کو اپنی بیوی بنا سکتا ہے۔۔۔ وہ عدت میں رجوع کرتا ہے یا عدت کے بعد نکاح کرتا ہے۔۔ اب اگر اس کے بعد دوسری مرتبہ پھر طلاق دیتا ہے تو عدت کے ایام میں پھر میاں بیوی بغیر نکاح کے رجوع کر سکتے ہیں۔۔۔ اگر رجوع نہیں کرتے اور عدت ختم ہوجاتی ہے۔۔ تو پھر بھی نکاح کے ساتھ دوبارہ میاں بیوی بن سکتے ہیں۔۔۔ اب اگر وہ عدت میں رجوع کرتا ہے۔۔۔ یا عدت کے بعد نکاح کرتا ہے اور میاں بیوی بن جاتے ہیں اور پھر تیسری مرتبہ طلاق دیتا ہے۔۔۔ تو اس صورت میں حلالہ کی بوبت آتی ہے۔۔۔
اب آپ بتائیے ایسی صورت حال کب اور کتنی مرتبہ آسکتی ہے۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟
 
ایک اشاعت میں دیا گیا طلاق کے ہزار اعلان اس وقت تک صرف ایک شمار ہوں گے جب تک کہ عدت کی مدت پوری نا ہوجائے۔ دوسری طلاق عدت کی مدت پوری ہونے سے پہلے واقع نہیں ہوسکتی۔ جو حضرات متفق نہیں وہ کسی دوسرے فرد کے کہے کا کٹ پیسٹ کرنے کے بجائے۔ اللہ تعالی کے کلام سے مکمل آیات کٹ پیسٹ کرکے ہماری معلومات میں اضافہ فرمائیں۔۔

والسلام
 

حسینی

محفلین
ایک اشاعت میں دیا گیا طلاق کے ہزار اعلان اس وقت تک صرف ایک شمار ہوں گے جب تک کہ عدت کی مدت پوری نا ہوجائے۔ دوسری طلاق عدت کی مدت پوری ہونے سے پہلے واقع نہیں ہوسکتی۔ جو حضرات متفق نہیں وہ کسی دوسرے فرد کے کہے کا کٹ پیسٹ کرنے کے بجائے۔ اللہ تعالی کے کلام سے مکمل آیات کٹ پیسٹ کرکے ہماری معلومات میں اضافہ فرمائیں۔۔

والسلام

اور یہ کہ طلاق کے لیے گواہوں کی شرط کیوں ختم کی گئی حالانکہ سورہ طلاق ٰ آیت 2 میں واضح حکم ہے۔۔۔ اگر گواہ کی شرط ہو جائے تو ہمارے معاشرے کے طلاق آدھا ہو کر رہ جائے۔۔۔۔
اور اسی طرح قصد اور ارادہ بھی بنیادی شرط ہونی چاہے۔۔۔ چونکہ کوئی بھی معاملہ اور عقد بغیر قصد اور نیت کے ٹھیک نہیں۔۔۔ یہ کیا بات ہوئی کہ غلطی سے منہ سے طلاق نکل گیا اور بیوی کو طلاق ہو گئی۔۔۔۔ تین بار اگر نکل گیا تو حلالہ۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

یوسف-2

محفلین
1۔ یہاں تو معلوم ہوتا ہے کہ ایک ہی نشت میں تین طلاقیں ہو سکتی ہیں۔ سوال صرف یہ ہے کہ جب ایک دفعہ طلاق دینے کے بعد وہ اس کی بیوی ہی نہ رہی تو دوسری طلاق کیس حیثیت سے دی جا سکتی ہے۔۔۔
جواب: آپ کی بات درست ہے۔ ایک ہی نشست میں تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوں گی، جیسا کہ دور رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں رائج تھیں۔

2۔ اگر قرآنی ہدایات کے برعکس بھی طلاق دی جائے تو فقہاء کے نزدیک نافذ اور مؤثر ہوگی۔۔۔ لیکن ایسا کرنے والا گنہگار ہوگا۔۔ (ہدایت نمبر 1) یہ کیا بات ہوئی کہ قرآنی ہدایات کے برعکس (حالت حیض یا وہ طہر جس میں قربت کی گئی ہو) طلاق دی جائے تو وہ بھی ناٍفذ ہوگی۔۔آیا شرعی احکام کے سب سے پہلا اور معتبر ترین ماخذ قرآن کریم نہیں ہے؟؟؟ جس کے ہدایات کی مخالفت کیسے کی جاسکتی ہے؟؟
جواب: جی ہاں! ”اجماع امت“ یہی ہے کہ ”حالت حیض یا وہ طہر جس میں قربت کی گئی ہو“ میں بھی اگر طلاق دی جائے تو وہ نافذ ہوگی۔ تاہم بعض فقہا اور مسلک میں ایسی طلاق کو نافذ نہیں سمجھا جاتا۔

جب شوہر بیوی کو طلاق دے تو دو صاحب عدل لوگوں کو گواہ بنائے۔ (ہدایت 3)۔ اور یقینا یہی سورہ طلاق آیت 2 کا صریح حکم ہے۔
تو فقہاء کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ یہ شرط ختم کی جائے؟؟؟؟؟؟؟
جواب: بعض اقلیتی مسالک میں نکاح کے لئے گواہ کی شرط موجود نہیں ہے جبکہ طلاق کے لئے گواہوں کی شرط موجود ہے۔ لیکن امت کی فقہا کی اکثریت (جسے اجماع امت کہا جاتا ہے) کے مطابق نکاح کے لئے گواہوں کی شرط لازمی ہے۔ اس کے بغیر نکاح نہیں ہوتا۔ اور طلاق اگر گواہوں کے بغیر بھی دیا جائے تو نافذ ہوجاتا ہے۔ آپ جس ”گروپ“ سے متفق ہوں، اسی پر عمل کیجئے

4۔ کم سن لڑکیوں سے نکاح ودخول جائز ہے جنہیں ابھی حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو۔۔۔ (ہدایت 5) آیا ایسی کم سن لڑکی نابالغ نہیں ہوتی؟؟؟ آیا نابالغ لڑکی سے نکاح اور دخول جائز ہے؟؟ آیا رسول اکرم نے حضرت عائشہ کے بالغ ہونے کا انتظار نہیں کیا تھا؟؟
جواب: اوپر کا مضمون دوبارہ پڑھئے۔ قرآنی احکامات میں بین السطور یہ ”اجازت“ موجود ہے۔ لیکن کسی اجازت کا موجود ہونے کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ایسا کرنا فرض اور لازمی ہے۔ واضح رہے کہ کمسن اور نابالغ لڑکی کا نکاح اس کے قانونی ولی کی اجازت سے ہوتا ہے، اس کے بغیر نہیں۔ یہ کمسن لڑکی کے والدین پر منحصر ہے (اور انہیں شرعاً حق حاصل ہے) کہ اگر وہ کسی بھی وجہ سے عام رواج (یعنی لڑکی کی بلوغت کے بعد نکاح) سے ہٹ کر اپنی کمسن بیٹی کا نکاح کر کے اسے شوہر کے گھر رخصت کردینا ”مناسب“ سمجھ رہے ہوں (سماج میں ایسے ”مواقع“ شاذ ہی پیش آتے ہیں، لیکن ہوتے ضرور ہیں) تو وہ ایسا کرسکتے ہیں۔ اور جب کسی بھی غیر معمولی وجوہ کی بناء پر کوئی ولی اپنی کمسن بیٹی کا نکاح کرکے اسے رخصت کر دینے پر سماجاً مجبور ہوجائے (خوشی خوشی تو کوئی بھی باپ ایسا نہیں کرتا) تب مرد پر یہ پابندی لگانا کہ گھر آئی ہوئی شرعی کمسن بیوی سے مجامعت نہ کرے، غیر عقلی سی بات ہے۔ آپ اس ”دلیل“ سے متفق ہوں یا نہ ہوں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ دلیل تو صرف سمجھنے سمجھانے کے لئے ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ قرآن میں یہ ”اجازت“ موجود ہے۔ اور اس بات پر امت کا ”اجماع“ ہے
واللہ اعلم بالصواب
 

ظفری

لائبریرین
ظفری بھائی حلالہ ہرگز غیر شرعی فعل نہیں ہے۔۔۔ ۔ یہ سورہ بقرہ کی آیت 230 کا صریح حکم ہے۔۔۔
لیکن مسئلہ سارا یہ ہے کہ ہم نے اس کو سمجھا غلط ہوا ہے۔۔۔ اور مولوی حضرات اس کو غلط استعمال کر رہے ہیں۔۔۔
اگر درست دیکھا جائے تو حلالہ کی نوبت شاید ہی کبھی آجائے۔۔۔ ۔ چونکہ شوہر اور بیوی کے لیے پہلی طلاق کے بعد رجوع جائز ہے۔۔ اگر رجوع نہیں کرتے یہاں تک کی عدت ختم ہوجائے۔۔ تو پھر بھی نکاح کے ذریعے پھر اس عورت کو اپنی بیوی بنا سکتا ہے۔۔۔ وہ عدت میں رجوع کرتا ہے یا عدت کے بعد نکاح کرتا ہے۔۔ اب اگر اس کے بعد دوسری مرتبہ پھر طلاق دیتا ہے تو عدت کے ایام میں پھر میاں بیوی بغیر نکاح کے رجوع کر سکتے ہیں۔۔۔ اگر رجوع نہیں کرتے اور عدت ختم ہوجاتی ہے۔۔ تو پھر بھی نکاح کے ساتھ دوبارہ میاں بیوی بن سکتے ہیں۔۔۔ اب اگر وہ عدت میں رجوع کرتا ہے۔۔۔ یا عدت کے بعد نکاح کرتا ہے اور میاں بیوی بن جاتے ہیں اور پھر تیسری مرتبہ طلاق دیتا ہے۔۔۔ تو اس صورت میں حلالہ کی بوبت آتی ہے۔۔۔
اب آپ بتائیے ایسی صورت حال کب اور کتنی مرتبہ آسکتی ہے۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟
آپ کے نکتہِ نظر اور رائے کااحترام کرتا ہوں ۔ میں ابھی تھوڑا مصروف ہوں مگر تھوڑا بہت اس اقتباس کے حوالے سے کہنا چاہتا ہوں ۔ مگر ایک وقفے کے بعد ۔:)
 

یوسف-2

محفلین
اور یہ کہ طلاق کے لیے گواہوں کی شرط کیوں ختم کی گئی حالانکہ سورہ طلاق ٰ آیت 2 میں واضح حکم ہے۔۔۔ اگر گواہ کی شرط ہو جائے تو ہمارے معاشرے کے طلاق آدھا ہو کر رہ جائے۔۔۔ ۔
اور اسی طرح قصد اور ارادہ بھی بنیادی شرط ہونی چاہے۔۔۔ چونکہ کوئی بھی معاملہ اور عقد بغیر قصد اور نیت کے ٹھیک نہیں۔۔۔ یہ کیا بات ہوئی کہ غلطی سے منہ سے طلاق نکل گیا اور بیوی کو طلاق ہو گئی۔۔۔ ۔ تین بار اگر نکل گیا تو حلالہ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

یہ آپ کی ذاتی رائے ہوسکتی ہے۔ جبکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث، آپ کی رائے سے اتفاق نہیں کرتی۔ کسی بھی عام قانونی کلیہ میں کسی بھی قسم کا قانونی استثنیٰ دیا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ بھی یہ استثنیٰ موجود ہے۔

1۔ ایک حدیث میں یہ کلیہ بیان کیا گیا ہے:انمالاعمال بالنیات۔ ہر عمل کا دارومدار نیت پر ہے (صحیح بخاری)

2۔ سنن ابوداؤد شریف ج۱ ص۲۹۸ میں حدیث پاک ہے (حدیث نمبر:۱۸۷۵)۔’’ عن ابی هريرۃ ان رسول الله صلی الله عليه وسلم قال ثلاث جدهن جد وهزلهن جد النکاح والطلاق والرجعة۔ ‘‘ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: تین چیزیں ہیں جن کو سنجیدگی سے اداکرنا سنجیدگی ہے اور مذاق ودل لگی سے اداکرنا بھی سنجیدگی ہے (۱)نکاح (۲)طلاق (۳)رجعت۔

(نوٹ: جن مسالک میں بخاری، ابوداؤد وغیرہ کی احادیث کو تسلیم نہیں کیا جاتا، وہ اپنے اپنے مسلک کے مطابق عمل کریں)
 

ظفری

لائبریرین
میں
ایک اشاعت میں دیا گیا طلاق کے ہزار اعلان اس وقت تک صرف ایک شمار ہوں گے جب تک کہ عدت کی مدت پوری نا ہوجائے۔ دوسری طلاق عدت کی مدت پوری ہونے سے پہلے واقع نہیں ہوسکتی۔ جو حضرات متفق نہیں وہ کسی دوسرے فرد کے کہے کا کٹ پیسٹ کرنے کے بجائے۔ اللہ تعالی کے کلام سے مکمل آیات کٹ پیسٹ کرکے ہماری معلومات میں اضافہ فرمائیں۔۔

والسلام
بھی یہی چاہتا ہوں کہ کسی بھی آیت یا حدیث کو کوٹ ( کاپی پیسٹ ) کرنے کے بجائے اپنا استدلا ل پیش کیا جائے ۔ اور پھر اپنے دلائل اور استدلال کو قرآن و حدیث سے بعد میں ثابت کیا جائے تاکہ پہلے آپ کی فکر اور بات واضع ہو ۔ کیونکہ کسی بھی حدیث اور آیت کو جب کوٹ کیا جاتا ہے تو کئی مکتبِ فکر اپنی اپنی فکر کے مطابق ان آیت اور احادیث کی تشریح کر رہے ہوتے ہیں ۔ پھر گلاس آدھا خالی یا آدھا بھرا ہوا نظر آنے لگتا ہے ۔
 
فیک رپورٹ ----ڈیسک میں بیٹھ کر روزانہ سیکڑوں ایسی فرضی رپورٹیں تیار کی جا سکتی ہیں ۔حیرت ہے جنگ جیسا معتبر اخبار بھی اس طرح کی بے بنیاد خبریں شائع کرتا ہے ۔
 

ظفری

لائبریرین
اسلام میں طلاق دینے کا طریقہ یہ ہے کہ ایک ہی طلاق دی جائے گی ۔ یہ تصور بلکل غلط ہے کہ اگر طلاق دینا مقصود ہے تو ایک طلاق ، دو طلاق ، تین طلاقیں دی جائیگی ۔یہ بات بھی غلط ہے کہ ایک ایک یا دو دو ، تین تین مہینے کے وقفے کے بعد دی جائے گی۔
قرآن نے طلاق دینے کا جو طریقہ بتا یا ہے کہاس کے مطابق ایک طلاق دی جائیگی ۔ عدت کے دوران رجوع کا حق ہے ۔ اگر یہ عدت گذر جائیگی اور رجوع نہ ہوا تو میاں بیوی الگ ہوجائیں گے ۔ اس کے بعد وہ جہاں چاہیں اپنی شادی کرسکتے ہیں ۔ فرض کریں کہ دونوں نے رجوع کرلیا ہے اور پھر کچھ عرصے بعد یہ حادثہ دوبارہ رونما ہوتا ہے ۔ اور طلاق دینے کی نوبت آجائے تو یہ دوسری طلاق ہوگی ۔ اس کے لیئے بھی وہی طریقہ کار ہوگا جو پہلے اختیار کیا گیا ہے ۔
یعنی رجوع ۔ عدت کے دوران کرلیا تو میاں بیوی کی حیثیت سے رہ سکتے ہیں ۔ عدت گذر گئی ۔ میاں بیوی نہیں رہیں گے ۔ اگر خدانخواستہ کچھ عرصے بعد پھر یہی صورتحال پیدا ہوجاتی ہے ۔ تو اس کے بعد عدت کی گنجائش باقی نہیں رہتی اور میاں بیوی طلاق ہوجائے گی ۔ غور کریں کہ ایک بار طلاق دیدی رجوع نہیں کیا طلاق ہوگئی ۔ یعنی اس کے لیئے تین طلاقوں کی شرط نہیں ہے ۔ قرآن کی اس سورہ میں یہ بات بلکل واضع ہے کہ ایک طلاق دینے سے طلاق واقع ہوجائے گی اگر رجوع نہیں کیا ۔ مگر اس طلاق کو دینے کا حق تین بار دیا گیا ہے وہ بھی اس شرط کے ساتھ جب کوئی اللہ کی بتائی ہوئی مدت کے دوران رجوع کرلیتا ہے ۔
قرآن میں حلالہ کا جو تصور ہے وہ وہی تصور ہے کو کسی عورت کو حلال کرنے کے لیئے اختیار کیا جاتا ہے ، یعنی آپ اس کے ساتھ نکاح کرتے ہیں ۔ ایک عورت کو طلاق ہوجاتی ہے تو وہ بعد میں کہیں بھی شادی کرسکتی ہے ۔ بلکل اسی طرح جس طرح اس کا پہلے نکاح ہوا تھا کہ اور پھر اتفاق سے اگر اس کی وہاں سے کسی وجہ سے طلاق ہوگئی ۔تو اس صورت میں وہ دوبارہ اپنے پہلے شوہر سے شادی کرسکتی ہے ۔ اس کے لیئے نکاح ضروری ہے اور اس مقصد کے لیئے حلالہ کا لفظ استعمال کیا گیا یعنی ایک عورت کو اپنے لیئے حلال کرنا ۔
حلالہ ہمارے یہاں جن معنوں میں لیا جاتا ہے ۔ اور صریحاً اسلام میں ممنوع ہے ۔ اور رسول اللہ صلی علیہ وآلہ وسلم کے الفاظ یہ ہیں کہ " حلالہ کرنے والا اور کرانے والا دونوں پر اللہ کی لعنت ہے ۔ " ۔ یعنی اس نیت اور منصوبے کیساتھ نکاح کرنا کہ یہ عارضی ہے اور یہاں سے طلاق لیکر پہلی جگہ شادی کرنا مقصود ہے تو یہ بلکل حرام کام ہے اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ اس بارے میں اس کی حقیقت بیان کر رہے ہیں ۔
طلاق کے ہونے نہ ہونے کا فیصلہ قضیئے سے معلوم کیا جاسکتا ہے ، اس میں عدالت اپنا فیصلہ سنا سکتی ہے ۔ یعنی ایک شخص یہ کہتا ہے کہ میں نے بلکل صحیح نیت سے طلاق دی ہے مگر اس کی بیوی حیض یا حمل کی حالت میں تھی ۔ یہاں اس سے قرآن کے قانون کی قانون شکنی ہوئی ہے ۔ اس صورتحال میں رسول اللہ کے ارشادات کی روشنی میں حیض یا حمل کی حالت دی جانے والی طلاق کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں عدالت یا قاضی یا مفتی فریق کے موقف اور نیت کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں ۔مگر یہ کہنا کہ حیض اور حمل میں طلاق واقع نہیں ہوتی ۔ بلکل غلط ہے ۔
 
آخری تدوین:

x boy

محفلین
بينونت صغرى اور كبرى اور تين طلاق كا مسئلہ
سوال:

بيس برس قبل ميں نے اپنى بيوى كو طلاق دى اور عدت ختم ہونے سے قبل اس سے رجوع كر ليا؛ اور اس كے دو برس بعد ميں نے اسے دوسرى طلاق دے دى اور اسے كہا:
تجھے طلا، تجھے طلاق، تجھے طلاق " اس سے ميرا مقصد تين طلاق تھا، ليكن عدت ختم ہونے سے قبل ميں نے بيوى سے رجوع كر ليا، اور كوئى كاروائى نہ كى نہ تو شادى كے اركان اور نہ كچھ اور، صرف اتنا كيا كہ ميں اپنے سسرال گيا اور بيوى كو اپنے گھر واپس لے آيا.
كيونكہ ميرا اعتقاد تھا كہ يہ طلاق بھى رجعى ہے، اور تيسرى بار آخرى مہينوں ميں نے اسے تيسرى طلاق دے دى ميں بہت ہى زيادہ نادم ہوں، اپنے ہاں ميں نے ايك عالم دين سے اسم سئلہ كے متعلق دريافت كيا تو اس كا جواب درج ذيل تھا:
پہلى طلاق كے بعد رجوع تو صحيح تھا، ليكن دوسرى طلاق كے بعد اور عدت سے قبل بيوى سے رجوع صحيح نہ تھا كيونكہ يہ طلاق بائن تھى جس سے بيوى كو بينونت صغرى حاصل ہوگئى تھى، اور آپ كے ذمہ واجب تھا كہ اسے واپس لانے سے قبل شادى كے اركان اور اعمال كرنے چاہيں تھے.
اور اس ليے كہ ميں نے يہ اعمال نہيں كيے تو يہ نكاح غير شرعى ہے، اور تيسرى طلاق كا كوئى معنى ہى نہيں كيونكہ يہ غير شرعى نكاح ميں ہوئى ہے. اس عالم دين نے ميرے ليے شادى كے اركان پورے كرنے كے بعد رجوع كرنا جائز قرار ديا، اس ليے كہ يہ معاملہ بہت بڑا تھا اور ميں حيران بھى ہوں اور اطمنان قلب چاہتا ہوں اس ليے ميں نے آپ كے سامنے يہ مسئلہ ركھا ہے، كيونكہ مجھے آپ پر بھروسہ ہے اور آپ كو ثقہ سمجھتا ہوں برائے مہربانى مجھے اس سلسلہ ميں فتوى سے نوازيں، آپ كى عين نوازش ہوگى؟

الحمد للہ:

اول:

كسى بھى شخص كے ليے حلال و جائز نہيں ہے كہ وہ دين اسلام ميں بغير علم كے فتوى جارى كرتا پھرے، اور جس شخص نے بھى ايسا كيا وہ كبيرہ گناہ كا مرتكب ہوگا.

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

{ آپ فرما ديجئے كہ البتہ ميرے رب نے ان تمام فحش باتوں كو حرام كيا ہے جو اعلانيہ ہيں اور جو پوشيدہ ہيں، اور ہر گناہ كى بات كو اور ناحق كسى پر ظلم كرنے اور اس بات كو كہ تم اللہ كے ساتھ كسى ايسى چيز كو شريك ٹھراؤ جس كى اللہ نے كوئى سند نازل نہيں كى اور اس بات كو كہ تم لوگ اللہ كے ذمہ ايسى بات لگا دو جس كو تم جانتے نہيں }الاعراف ( 33 ).

آپ كو اس شخص نے جو فتوى ديا ہے كہ دوسرى طلاق كے بعد آپ كو رجوع كرنا صحيح نہ تھا اور تيسرى طلاق نہيں ہوئى بلكہ آپ كو بيوى واپس لانے كے ليے نكاح كے اركان پورا كرنا ہونگے، اس كا يہ فتوى غلط ہے اور صحيح نہيں، اور يہ بغير علم كے اللہ پر قول شمار ہوتا ہے.

اس ليے جس نے بھى آپ كو يہ فتوى ديا ہے ۔ اگر آپ نے اس كو صحيح نقل كيا ہے ۔ اس شخص كو چاہيے كہ وہ توبہ و استغفار كرے، اور اس پر واجب ہے كہ آئندہ وہ فتوى نہ دے، اور خاص كر جب معاملہ عزت اور خون كے بارہ ميں ہو.

دوم:

طلاق رجعى يہ ہوتى ہے كہ جس ميں خاوند كو بيوى سے رجوع كرنے كا حق حاصل ہو، اور رجوع كرنے ميں نہ تو مہر ہوتا ہے اور نہ ہى نكاح اور نہ ہى بيوى كى رضامندى شامل ہوتى ہے.

جس طلاق ميں خاوند كو رجوع كرنے كا حق حاصل ہوتا ہے وہ پہلى اور دوسرى طلاق ہے اور عدت ختم ہونے سے قبل رجوع كيا جا سكتا ہے، اگر پہلى يا دوسرى طلاق سے عدت ختم ہو جائے تو عورت كو بينونت صغرى حاصل ہو جاتى ہے، بيوى اپنے خاوند كے پاس اسى وقت آ سكتى ہے جب نيا نكاح اور نيا مہر گواہوں اور ولى كى موجودگى ميں عورت كى رضامندى سے نكاح كيا جائے، اس ميں اہل علم كا كوئى اختلاف نہيں پايا جاتا.

اس كى دليل اللہ سبحانہ و تعالى كا يہ فرمان ہے:

{ يہ طلاقيں دو مرتبہ ہيں، پھر يا تو اچھائى كے ساتھ روكنا ہے يا عمدگى كے ساتھ چھوڑ دينا ہے، اور تمہيں حلال نہيں كہ تم نے انہيں جو دے ديا ہے اس ميں سے كچھ بھى لو، ہاں يہ اور بات ہے كہ دونوں كو اللہ كى حديں قائم نہ ركھ سكنے كا خوف ہو، اس ليے اگر تمہيں ڈر ہو كہ يہ دونوں اللہ كى حديں قائم نہ ركھ سكيں گے تو عورت رہائى پانے كے ليے كچھ دے ڈالے، اس ميں دونوں پر كوئى گناہ نہيں، يہ اللہ كى حدود ہيں، خبردار ان سے آگے نہ بڑھنا اور جو لوگ اللہ كى حدوں سے تجاوز كر جائيں وہ ظالم ہيں }البقرۃ ( 229 ).

چنانچہ اگر خاوند تيسرى طلاق دے دے تو وہ عورت اس كے ليے حلال نہيں ہوگى، الا يہ كہ وہ عورت كسى دوسرے شخص سے نكاح رغبت كرے اور پھر دخول كرنے كے بعد وہ شخص اپنى مرضى سے اسے طلاق دے دے يا فوت ہو جائے ۔ يہ بينونت كبرى ہے ۔ اور اس كى دليل اللہ سبحانہ و تعالى كا يہ فرمان ہے:

{ پھر اگر وہ اس كو ( تيسرى بار ) طلاق دے دے تو ا باس كے ليے حلال نہيں جب تك كہ وہ عورت اس كے علاوہ كسى دوسرے شخص سے نكاح نہ كر لے، پھر اگر وہ بھى اسے طلاق دے دے تو ان دونوں كو ميل جول كر لينے ميں كوئى گناہ نہيں، بشرطيكہ وہ جان ليں كہ اللہ كى حدود كو قائم ركھ سكيں گے يہ اللہ تعالى كى حدود ہيں جنہيں وہ جاننے والوں كے ليے بيان فرما رہا ہے }البقرۃ ( 230 ).

سوم:

اگر ہم اس قائل كے بارہ ميں حسن ظن ركھتے ہوئے يہ كہيں كہ اس كى رائے ميں تين طلاق دينے سے تينوں طلاقيں واقع ہو جاتى ہيں تو پھر اس كے ليے اسے بينونت صغرى كہنے كى كوئى وجہ نہيں ہے، كيونكہ تين طلاق كے قائلين كے ہاں تينوں طلاقيں واقع ہو جاتى ہيں اور اس طرح بيوى كو بينونت كبرى حاصل ہو جاتى ہے، تو پھر اس كے ليے يہ كہنا كس طرح جائز ہوا كہ اسے بينونت صغرى حاصل ہوئى اور وہ اس كے پاس نئے نكاح اور نئے مہر كے ساتھ واپس آ سكتى ہے!!!

صحيح يہى ہے كہ ايك ہى مجلس ميں تين طلاق دينے سے ايك طلاق ہى واقع ہوتى ہے،۔

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم اور ابو بكر رضى اللہ تعالى عنہ كے دور مبارك ميں اور عمر فاروق رضى اللہ تعالى عنہ كى خلافت كے دو برس ميں تين طلاق كوايك ہى شمار كيا جاتا تھا "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 1472 ).

چہارم:

آپ نے جو پہلى اور دوسرى طلاق كے بعد بيوى سے رجوع كيا وہ صحيح ہے، اور تيسرى طلاق كى بنا پر آپ كے ليے آپ پر بيوى حرام ہو گئى جس سے بيوى كو بينونت كبرى حاصل ہوئى اور وہ آپ كے ليے اجنبى ہے، اس عورت كو اس كے پورے حقوق ادا كرنے واجب ہيں، اور آپ كے ليے اس سے اس وقت تك شادى كرنا حلال نہيں جب تك وہ آپ كے علاوہ كسى دوسرے شخص سے نكاح رغبت نہ كر لے، اور وہ دوسرا شخص اپنى مرضى سے دخول كے بعد اسے طلاق دے يا پھر فوت ہو جائے تو آپ اس سے نكاح كر سكتے ہيں.

ليكن نكاح حلالہ جو آج كل كچھ لوگ كر رہے ہيں يہ حرام ہے، اور يہ نكاح فاسد ہے، اس سے عورت اپنے پہلے خاوند كے ليے حلال نہيں ہوتى، بلكہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والے پر لعنت كى ہے.

۔

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب
 
آخری تدوین:

حسینی

محفلین
جواب: اوپر کا مضمون دوبارہ پڑھئے۔ قرآنی احکامات میں بین السطور یہ ”اجازت“ موجود ہے۔ ۔ آپ اس ”دلیل“ سے متفق ہوں یا نہ ہوں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یہ دلیل تو صرف سمجھنے سمجھانے کے لئے ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ قرآن میں یہ ”اجازت“ موجود ہے۔ اور اس بات پر امت کا ”اجماع“ ہے
واللہ اعلم بالصواب

یوسف بھائی اگر آیت پیش کر کے بین السطور یہ ”اجازت“ موجود ہے والی بات مجھے بھی سمجھا دیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔۔۔ ہم تو طالب حقیقت ہیں جہاں سے بھی مل جائے۔۔۔۔
منتظر رہوں گا۔۔۔۔۔۔۔
 
آخری تدوین:

حسینی

محفلین
یعنی ایک شخص یہ کہتا ہے کہ میں نے بلکل صحیح نیت سے طلاق دی ہے مگر اس کی بیوی حیض یا حمل کی حالت میں تھی ۔ یہاں اس سے قرآن کے قانون کی قانون شکنی ہوئی ہے ۔ اس صورتحال میں رسول اللہ کے ارشادات کی روشنی میں حیض یا حمل کی حالت دی جانے والی طلاق کے ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں عدالت یا قاضی یا مفتی فریق کے موقف اور نیت کو سامنے رکھ کر یہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں ۔مگر یہ کہنا کہ حیض اور حمل میں طلاق واقع نہیں ہوتی ۔ بلکل غلط ہے ۔
آپ کی باقی ساری باتوں سے تو میں بالکل متفق ہوں۔۔۔ بلکہ آپ نے میرے منہ کی باتیں چھین لی ہیں۔
لیکن!!!!!!!!!!!!!
آپ کی یہ بولڈ شدہ عبارتیں آپس میں ٹکرا نہیں رہیں کیا؟؟؟
جب پہلے کہ چکے کہ حیض یا حمل میں تھی اور طلاق دینے سے قرآن کے قانون کی قانون شکنی ہوئی ہے۔۔۔ پس قانون شکنی والے کام سے اجتناب کرنا چاہیے یعنی ایسی حالت میں طلاق نہیں دینا چاہیے۔ ۔ ۔ پس حیض میں طلاق نہیں ہوتی والی بات بالکل غلط کیسے ہو گئی؟؟؟
ہاں البتہ حالت حمل میں ظاہرا طلاق دیا جا سکتا ہے۔۔۔۔
واللہ اعلم بالصواب
 
Top