طلاق کا مسئلہ: برطانیہ میں عورتیں حلالہ کے نام پر عصمت لٹا بیٹھتی ہیں

ظفری

لائبریرین
دیکھیے سزا ملنا یا نہ ملنا اور بحث ہے۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
بحث اس میں ہے کہ ایسا طلاق درست ہے یا نہیں؟؟؟ نافذ ہے یا نہیں؟؟ جب قرآن کے صریح حکم کی مخالفت ہوئی تو درست کیسی ہوئی۔۔۔ اگر مخالفت پر بھی کام درست ہوتا ہو تو قرآن کو منع کرنے ٰ کی ضرورت ہی کیا تھی۔
ایک اور مثال سے سمجھاتا ہوں۔۔۔ ۔ قرآن نے کہا ہے کہ جب کوئی جانور ذبح کیا جا رہا ہو تو غیر خدا کے نام کے ساتھ ذبح نہ کرو۔۔۔ ۔ بلکہ اسم خدا پر ذبح ہونا چاہیے۔۔۔
اب اگر کوئی اس حکم کی مخالفت کرے۔۔۔ ۔ تو نہیں کہ سکتے کہ جانور تو اس کا حلال ہے۔۔۔ لیکن اس کو اس مخالفت کی صرف سزا ملے گی۔۔ یا اس پر مقدمہ ہوگا۔
بلکہ وہ جانور ہی مردار اور اس کا گوشت حرام ہے۔۔۔
ویسے جانور والی بات، طلاق والی بات سے بلکل مختلف ہے ۔ :)
 

ظفری

لائبریرین
کیسے بھائی جی۔۔۔ ۔۔۔ ۔ وہاں جانور ذبح ہو رہا ہے۔۔۔ ۔ اور یہاں رشتہ ذبح ہو رہا ہے۔۔۔ ۔۔ ہے نا؟؟؟؟؟؟؟:ohgoon::laughing:
ان شاءاللہ اب اگلے ویک اینڈ پر اس موضوع پر بحث کا اہل ہوسکوں گا ۔ مگر جاتے جاتے صرف ایک نقطہ واضع کرنا چاہوں گا ۔ غور کیجیئے گا ۔
طلاق کے معاملے میں قرآن کے قانون کی خلاف ورزی ہوئی ۔ پیچیدگی پیدا ہوگئی ۔
ذبح کے معاملےمیں ارشاد ہے کہ غیر اللہ کا نام نہ لو ، مگر کسی کا نام لیئے بغیر جانور ذبح کردیا جاتا ہے ۔ یہاں پیچیدگی پیدا ہوجاتی ہے کہ موقف یہ اختیار کیا جاتا ہے کہ " صرف غیر اللہ کا نام لینے سے منع فرمایا ہے ۔ "
آپ کیا کہیں گے ۔ ؟
 
قرآن میں تین طلاق کا کہیں ذکر نہیں ہے، پھر حلالہ کا ذکر کہاں سے آگیا۔
الطَّلاقُ مَرَّتٰنِ کا مطلب بھی دو طلاقیں نہیں ہے بلکہ ایک ہی طلاق ہے جس کو دو بار کہنا ہے۔ یعنی پہلی بار نوٹس کے طور پر اور دوسری بار فیصلے کے طور پر۔ فیصلہ سنانے کے بعد بھی رجوع ہو سکتا ہے۔ تیسری طلاق کا کہیں دور دور تک نام و نشاں ہی نہیں ہے۔ صرف ہمارے فقہا نے روایات کی بنیاد پر اس طلاق کو جو خلع بالمال کی ہے تیسری طلاق کہ دیا ہے۔ اور ہم تقلیدی طور پر اسی بات پر اڑے ہوئے ہیں کہ قرآن میں تین طلاق ہیں۔ کوئی قرآن کو غور سے پڑھتا ہی نہیں کہ وہ اس بارے میں کیا کہہ رہا ہے۔
حلالہ کی شرط صرف اس عورت کے لئے ہے جو مال دے کر طلاق حاصل کرے جسے خلع بالمال بھی کہا جاتا ہے۔
فَاِن طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَہُ مِن بَعدُ حَتّٰی تَنکِحَ زَوجَ غَیرُہٗ، فَاِنطَلَّقَھَا فَلَا جُنَاح عَلَیھِمَا اَن یَّتَرَاجَعھَااِن ظَنَّا اَن یُّقِیمَا حُدُودَاللّٰہِ، وَ تِلکَ حُدُودُاللّٰہِ یُبَیِّنُھَا لَقَومٍ یَّعلَمُونَ کا تعلق اپنے ما قبل جملے فَاِن خِفتُم اَلَّا یُقِیمَاحُدُودَ َاللّٰہِ، فَلَا جُنَاح عَلَیھِمَافِیمَا افتَدَت بِہٖ، تِلکَ حُدُودُ اللّٰہِ فَلَا تَعتَدُوھَاوَمَن یَّتَعَدَّحُدُودَاللّٰہِ فَاُلٰٓءِکَ ھُمُ الظّٰلِمُونَ سے ہے نہ کہ اَلطَّلاقُ مَرَّتٰنِ کے ساتھ۔ ضمائر پر غور کریں تو یہ بات بخوبی واضح ہو جاتی کیونکہ ان دونوں میں واحد غائب کے صیغے ہیں جبکہ اَلطَّلاقُ مَرَّتٰنِ کے بعد جمع مخاطب کے صیغے ہیں۔
بھلا جو عورت مال دے کرخلع حاصل کرے گی تو وہ سابقہ شوہر سے نکاح کیوں کرنے لگی اس لئے حلالہ اس صورت میں بھی موثر نہیں ہوتا یہ صرف میرے خیال اللہ کی طرف سے اس عورت کے لئے بیزاری کا اظہار ہے جو صلح کی ہر کوشش کو ٹھکراکر طلاق لینے کے لئے مال بھی دینے کو تیار ہوجاتی ہے۔ ۔ اہل تشیع کا موقف(اگرچہ میرا تعلق اہل تشیع سے نہیں ہے) کہ جب ایک بار طلاق ہوگئی پھر وہ اس کی بیوی ہی نہیں رہی تو وہ دوسری طلاق کس کو دے گا بالکل صحیح ہے۔
ہمارے علماء کا یہ وطیرہ ہے کہ پہلے ایک جائز چیز کو حرام کردیتے ہیں پھر کسی جواز کے ذریعے اس کو حلال کرتے ہیں جس کوحلالہ کا نام دیا جاتا ہے۔ پہلے تین طلاق (جس کا سرے سے کوئی وجود ہی نہیں ہے) کے بہانے سے بیوی کو شوہر پر حرام کرتے ہیں پھر حلالے کے ذریعے اس کو حلال کرتے ہیں۔ پہلے بنک کے سود کو حرام کرتے ہیں پھر فتوؤں کے ذریعے سے بنک کی نوکری کو حلال کرتے ہیں اور جی پی فنڈ پر سود کو بھی حلال کرتے ہیں یہ بھی ایک قسم کا حلالہ ہی ہوتا ہے۔ پہلے لاؤڈ سپیکر حرام پھر فتوے کے ذریعے سے حلال۔ پہلے انہوں نے کاغذ کے روپیے کو بھی حرام کیا تھااب وہ حلال ہے۔یہی حال فوٹو، شناختی کارڈ وغیرہ کا کیا۔ اصل میں ان کے اندر اتنی اہلیت ہی نہیں کہ وہ قرآن کو سمجھیں اور اگر کسی میں ہے تو وہ روایت پرستی کی نظر ہوجاتی۔ اہل علم جو موجودہ زمانے کے تمام علوم میں ماہر ہوں ان کو چاہیے کہ آگے آئیں اور موجودہ مسائل کا حل قرآن کی روشنی میں نکالیں۔ ہمارے مذہبی علما تو ابھی تک سود کا حل نہیں تلاش کرسکے ان سے اور کیا توقع کی جاسکتی ہے۔ ان کا کردار تو ازمنہ وسطٰی کر پادریوں سے ملتا ہے جو پیسے لیکرلوگوں کو معافی نامے دیا کرتے تھے -یہ بھی پیسے لیکر فتوے دیتے ہیں۔
 
طلاق کا کہنا ، صرف اور صرف طلاق کا اعلان ہے۔ اگر کوئی طلاق نامہ اخبار میں چھپوادے ، اخبار کی تعداد 10 ہزار ہو تو کیا یہ طلاق کا اعلان ایک بار ہوا؟ یا 10 ہزار طلاقیں واقع ہوئیں ِ؟

بہت ہی اہم بات یہ ہے کہ طلاق کے اعلان کے بعد میعاد شمار کرنا ضروری ہے۔ کوئی اگر دس ہزار طلاقیں نشر کرتا ہے یا دو طلاقیں یا ایک طلاق یا تین طلاق یا چار یا کوئی بھی نمبر۔ اس اعلان کےبعد میعاد کا شمار کرنا ضروری ہے ۔
ہائیں بھائی؟ ہم نے تو ایس انہیں سنا؟
جی ملا ازم، طلاق کی تعداد کو فروغ دیتا ہے کہ تین طلاق مارو اور دوڑا دو۔ کس کو ۔۔ میری ماں کو ؟ کسی حق کے بغیر؟ ہر بیوی کسی نا کسی کی ماں ہوتی ہے۔

جب کے رب کرم ، اللہ تعالی کا فرمان قرآن حکیم میں بہت ہی صاف ہے کہ جب طلاق دو تہ مدت شمار کرو۔ حلالہ نام کی کوئی چیز اس مین موجود ہی نہیں ہے۔ حلالہ صرف اور صرف ایک لعنت ہے جو ملا ازم کی پیداوار ہے جہاں ملاء ، ہماری ماں کی عزت سے کھیلتا ہے

دیکھئے طلاق کے اعلان اور مدت کے شمار کرنے کا واضح حکم ۔
سورۃ طلاق ، ایت نمبر 1
يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّةَ وَاتَّقُوا اللَّهَ رَبَّكُمْ لَا تُخْرِجُوهُنَّ مِن بُيُوتِهِنَّ وَلَا يَخْرُجْنَ إِلَّا أَن يَأْتِينَ بِفَاحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ وَتِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ وَمَن يَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّهِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَهُ لَا تَدْرِي لَعَلَّ اللَّهَ يُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِكَ أَمْرًا
ترجمہ:
اے نبی! (مسلمانوں سے فرما دیں:) جب تم عورتوں کو طلاق دینا چاہو تو اُن کے طُہر کے زمانہ میں انہیں طلاق دو اور عِدّت کو شمار کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو جو تمہارا رب ہے، اور انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو اور نہ وہ خود باہر نکلیں سوائے اس کے کہ وہ کھلی بے حیائی کر بیٹھیں، اور یہ اللہ کی (مقررّہ) حدیں ہیں، اور جو شخص اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو بیشک اُس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے، (اے شخص!) تو نہیں جانتا شاید اللہ اِس کے (طلاق دینے کے) بعد (رجوع کی) کوئی نئی صورت پیدا فرما دے

طلاق کے اعلان کے بعد، مدت گزرنے تک کوئی طلاق مکمل نہیں ہوتی۔ اس لئےکہ اللہ تعالی اس اعلانکے بعد اس مدت کے دوران ملاپ کی کوئی صورت پیدا فرما سکتے ہیں۔۔

والسلام
 
ہ اللہ کی (مقررّہ) حدیں ہیں،

تمام ملاء ، اج تک حدود آرڈینینس میں یہ کیوں نہیں شامل کرتے کہ جو طلاق دے کر مدت نا شمار کرے اس پر بھی حد لگے گی۔ اور اس کی سزا بھی وہی ہوگی جو دوسری حدود کی ہوتی ہے۔

اس کی وجہ ہے، ملاء، اس لعننت اور جرم کا شریک ہے، وہ خود حلالہ کرتا ہے اور معصوم عورت، ہماری ماں کو شام کو شادی کرکے ، ایک رات رکھ کر صبح طلاق دے کر -- گھر سے نکال دیتا ہے --- کہ جا تو پاک صاف ہوگئی اب اپنے شوہر سے شادی کرلے۔
ور انہیں اُن کے گھروں سے باہر مت نکالو اور نہ وہ خود باہر نکلیں

جی؟ اگر 3 طلاق کے بعد مدت شمار نا کرنے اور گھر سے نکالنے پر سزا ہوتی تو ملاء سزا بھگت رہا ہوتا اور کوڑے کھا رہا ہوتا۔
جو شخص اللہ کی حدود سے تجاوز کرے تو بیشک اُس نے اپنی جان پر ظلم کیا ہے

کس قدر ظلم ہے جو ملاء ازم نے اسلام کے نام پر مسلمانوں میں پھیلایا ہے؟

والسلام
 
طلاق کسی بھی حالت میں دی جائے، طلاق ہو جاتی ہے۔ یہ کہنا کہ غصہ کی حالت میں دی گئی طلاق، طلاق نہیں ہوتی، غلط ہے۔
طلاق دی ہی غصہ کی حالت میں جاتی ہے۔ پیار سے تو کوئی بھی طلاق نہیں دیتا۔
یہی تو میں بار بار کہ رہا ہوں دوست بھائی کہ پہلے طلاق کے بعد ان کے آپس کا رشتہ ختم ہوگیا، وہ میاں بیوی ہی نہیں رہے اور اجنبی بن گئے ۔۔۔۔۔۔۔ تو دوسری اور تیسری طلاق کس عنوان کے تحت ٹھیک ہوگا؟؟
محترم پہلی طلاق كے بعد رجعت كا حق باقی رہتا ہے، اس لئے آپس كا رشتہ ختم نہیں ہوتا، رشتہ ختم ہوتا ہے بینونت سے یعنی طلاق بائن سے اس لئے اگر كسی نے تین طلاق دیا ہے تو فوراً رشتہ ختم ہوگیا اور اب اس كو رجعت حق حاصل نہیں ، تین طلاق میں پہلی طلاق سے رشتہ ختم نہیں ہوا بلكہ تیسری طلاق سے رشتہ ختم ہوا اس لئے تین طلاق تین ہی ہوتی ہے، ایك نہیں ہوتی ، اگر تین طلاق دینے سے پہلی طلاق پر ہی رشتہ ختم ہوگیا اور اسی لئے ایك ہی طلاق واقع ہوگی اس كو صحیح مان لیا جائے تو پھر دو طلاق اگر ایك ساتھ دیا تو اس كو رجعت كا حق نہیں مانیں گے اگر نہیں مانیں گے تو قرآن كی آیت كا انكار ہوجاءے گا
 
محترم پہلی طلاق كے بعد رجعت كا حق باقی رہتا ہے، اس لئے آپس كا رشتہ ختم نہیں ہوتا، رشتہ ختم ہوتا ہے بینونت سے یعنی طلاق بائن سے اس لئے اگر كسی نے تین طلاق دیا ہے تو فوراً رشتہ ختم ہوگیا اور اب اس كو رجعت حق حاصل نہیں ، تین طلاق میں پہلی طلاق سے رشتہ ختم نہیں ہوا بلكہ تیسری طلاق سے رشتہ ختم ہوا اس لئے تین طلاق تین ہی ہوتی ہے، ایك نہیں ہوتی ، اگر تین طلاق دینے سے پہلی طلاق پر ہی رشتہ ختم ہوگیا اور اسی لئے ایك ہی طلاق واقع ہوگی اس كو صحیح مان لیا جائے تو پھر دو طلاق اگر ایك ساتھ دیا تو اس كو رجعت كا حق نہیں مانیں گے اگر نہیں مانیں گے تو قرآن كی آیت كا انكار ہوجاءے گا
کئی فقہا اس بات سے اختلاف رکھتے ہیں کہ ایک وقت میں تین طلاقیں ہو سکتی ہیں۔ ان کے نزدیک یہ ایک پروسس ہے کہ جس پہلی کے بعد رجعت کی رخصت رکھی گئی ہے اور اسی طرح دوسری کے بعد۔ اس بات پہ اصرار کہ ایک مخصوص فرقے کی بات ہی اٹل ہے، درست نہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
محترم پہلی طلاق كے بعد رجعت كا حق باقی رہتا ہے، اس لئے آپس كا رشتہ ختم نہیں ہوتا، رشتہ ختم ہوتا ہے بینونت سے یعنی طلاق بائن سے اس لئے اگر كسی نے تین طلاق دیا ہے تو فوراً رشتہ ختم ہوگیا اور اب اس كو رجعت حق حاصل نہیں ، تین طلاق میں پہلی طلاق سے رشتہ ختم نہیں ہوا بلكہ تیسری طلاق سے رشتہ ختم ہوا اس لئے تین طلاق تین ہی ہوتی ہے، ایك نہیں ہوتی ، اگر تین طلاق دینے سے پہلی طلاق پر ہی رشتہ ختم ہوگیا اور اسی لئے ایك ہی طلاق واقع ہوگی اس كو صحیح مان لیا جائے تو پھر دو طلاق اگر ایك ساتھ دیا تو اس كو رجعت كا حق نہیں مانیں گے اگر نہیں مانیں گے تو قرآن كی آیت كا انكار ہوجاءے گا
عبد الجبار طیب ندوی صاحب اردو محفل میں خوش آمدید۔

اپنا تعارف تو دیں۔ تاکہ دوسرے اراکین اردو محفل آپ سے متعارف ہو سکیں۔

یہ رہا تعارف کا زمرہ
 
Top