ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
ابھی پچھلے دنوں ابن سعید صاحب کا ایک دھاگا دیکھا تو خیال آیا کہ اس قسم کی حرکت اپنی تک بندیوں کے ساتھ بھی کی جائے ۔ پچھلی تین چار دہائیوں سے شعر لکھ رہا ہوں لیکن بوجوہ شعر خوانی ایک خاص حلقہء احباب تک ہی محدود رہی ہے ۔ میں نے کبھی اسے اشاعت کے قابل نہیں سمجھا کہ دنیا میں روشنائی اور کاغذ کے اس سے کہیں بہتراستعمالات موجود ہیں ۔ پچھلے دنوں جناب فاتح صاحب کی اسی سے ملتی جلتی رائے یہیں کسی صفحے پر پڑھی تو اطمینان ہوا کہ میں اس کشتی میں اکیلا نہیں ہوں ۔ پچھلے ایک دو برس سے نسبتًا کچھ فراغت میسر آئی ہے توکاغذ کے پُرزوں سے ڈھونڈ ڈھونڈ کر اشعار ٹائپ کرنے کا کام شروع کیا ہوا ہے ۔ اب سوچا ہے کہ انہیں ایک لڑی میں لگادیا جائے تو اسی بہانے انٹرنیٹ پر ایک جگہ جمع ہوجائے گا۔
کچھ پِکسلز کا ضیاع کاغذ کی نسبت پھر قابلِ برداشت ہے ۔ شاید ۔
کچھ پِکسلز کا ضیاع کاغذ کی نسبت پھر قابلِ برداشت ہے ۔ شاید ۔