ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اٹھاؤں کیسے میں بارِ گرانِ سجدہء شوق
کہاں زمین ، کہاں آسمانِ سجدہء شوق

نبردِ عشقِ بلا کش کہاں ہوئی ہے تمام
ابھی تو دور ہے سر سے امانِ سجدہء شوق

زمانے بھر کو مسلسل فرازِ نیزہ سے
سنا رہا ہے کوئی داستانِ سجدہء شوق

حقیقت اس کی مری حسرتِ نیاز سے پوچھ
زمانے بھر کو ہے جس پر گمانِ سجدہء شوق

وہ سنگِ در تو کجا ، اُس کی رہگزر دیکھو
قدم قدم پہ سجے ہیں نشانِ @سجدہء شوق

مزا تو تب ہے کہ کھوجائیں آستان و جبیں
بس ایک تو رہے باقی میانِ سجدہء شوق

وہ روحِ بندگی جس کی تلاش میں ہے جبیں
ہے ماورائے زمین و زمان ِ سجدہء شوق

خدائے منبر و محراب ! یہ دعا ہے مری
کہ لامکاں میں عطا ہو مکانِ سجدہء شوق

ظہیر کیجے وضو آبِ انفعال سے آپ
ہوئی ہے خلوتِ جاں میں اذانِ سجدہء شوق

۔۔۔۔ اکتوبر ۲۰۱۵ ۔۔۔۔۔۔​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
خود فریبی کے نئے کچھ تو بہانے ڈھونڈیں
اُس کی الفت کے علاوہ بھی ٹھکانے ڈھونڈیں

گذری صدیوں کو گذارے چلے جائیں کب تک
چھوڑ کر ماضی چلو اور زمانے ڈھونڈیں

ہم کسی اور ہی اندازِ محبت کے ہیں لوگ
تازہ رشتوں میں بھی اقرار پرانے ڈھونڈیں

دل پہ مت لینا کہ لوگوں کی تو باتیں یوں ہیں
جیسے اُڑتے ہوئے کچھ تیر نشانے ڈھونڈیں

ڈار سے بچھڑے پرندوں کو نہیں معلوم اب
رزق ڈھونڈیں یا بسیرے کے ٹھکانے ڈھونڈیں

پھر کسی شام چلو یاد کے جنگل میں ظہیر
ہم نے جو دفن کئے تھے وہ خزانے ڈھونڈیں

۔۔۔۔۔ ۲۰۰۴۔۔۔۔۔۔۔۔

ظہیراحمدظہیر, ایک منٹ قبل تدوین رپورٹ بک مارک
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
دل تو پتھر ہوئے، غم پھر بھی کسک دیتے ہیں
آگ اتنی ہو تو پتھر بھی چمک دیتے ہیں

خاک گرتی ہے جو سر پر غمِ دنیا کی کبھی
نام لے کر ترا ہولے سے جھٹک دیتے ہیں

زندگی جب بھی نظر آتی ہے عریاں اپنی
ہم ترے درد کی پوشاک سے ڈھک دیتے ہیں

یاد کے پھول کتابوں میں دبے رہنے دو
خشک ہوجائیں تو کچھ اور مہک دیتے ہیں

جو نہ بادل میں رہیں اور نہ زمیں پر برسیں
وہی قطرے تو فضاؤں کو دھنک دیتے ہیں

جب سے آئی ہیں مری آنکھوں میں نظریں اس کی
گھپ اندھیرے بھی اجالوں کی چمک دیتے ہیں

مجھ کو چہروں پہ نظر آتی ہے رفتارِ زماں
گھر کے آئینے زمانے کی جھلک دیتے ہیں

ظہیر احمد ظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۸
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اپنی قربت کے سب آثار بھی لیتے جانا
اب جو جاؤ در و دیوار بھی لیتے جانا

چھوڑ کر جا ہی رہے ہو تو پھر اپنے ہمراہ
ساتھ رہنے کا وہ اقرار بھی لیتے جانا

دکھ تو ہوگا مگر احساس ہو کم کم شاید
جاتے جاتے مرا پندار بھی لیتے جانا

بیخودی مجھ سے مری چھین کے جانیوالے
آگہی کے کڑے آزار بھی لیتے جانا

جشنِ آزادیِ اظہار میں اے نغمہ گرو
میری زنجیر کی جھنکار بھی لیتے جانا

اُن سے ملنے کبھی جاؤ تو بطرزِ سوغات
مجھ سے مل کر مرے اشعار بھی لیتے جانا

بزم ِیاراں نہیں حاکم کی عدالت ہے ظہیر
سر پر اُونچی کوئی دستار بھی لیتے جانا


ظہیر احمدظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔2002​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کچھ جرم نئے اور مرے نام لگا دو
باقی ہے اگر کوئی تو الزام لگا دو

کیوں کرتے ہو دربارِ عدالت کا تکلف
جو حکم لگانا ہے سر ِ عام لگا دو

افسانہ ہمارا ہے ، قلم سارے تمہارے
عنوان جو چاہو بصد آرام لگا دو

دیوانوں کو پابندِ سلاسل نہ کرو تم
ذہنوں میں بس اندیشہء انجام لگادو

جب آہی گئے برسرِ بازار تو کیا شرم
اوروں کی طرح تم بھی مرے دام لگادو

جل اٹھے توجل جائے گا یہ پردہء شب تار
پابندی چراغوں پہ سر ِ شام لگا دو

غیرت ہی نہیں باقی تو بیکار ہیں ہتھیار
مل جائیں خریدار تو نیلام لگا دو

ظہیر احمد ظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۲۰۰۹​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
وہ بھی اب مجھ کو بہ اندازِ زمانہ مانگے
برسرِ عام محبت کا تماشا مانگے

جسے پندار مرے ظرفِ محبت نے دیا
اب وہ پہچان محبت کے علاوہ مانگے

میں تو اسرافِ محبت میں ہوا ہوں مقروض
دوستی ہر گھڑی پہلے سے زیادہ مانگے

راحتِ وصل بضد ہے کہ بھلادوں ہجراں
چند لمحےمجھے دے کر وہ زمانہ مانگے

مدّتیں گذریں کئے ترکِ سکونت لیکن
آج بھی دنیا اُسی گھر کا حوالہ مانگے

میں جہاں کھویا تھا شاید کہ وہیں مل جاؤں
کوئی مجھ کو غم ِ دنیا سے دوبارہ مانگے

بٹ چکی درد کی جاگیر مگر تیرا غم
دل میں ہر روز نیا ایک علاقہ مانگے

ظہیراحمدظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۳​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ہم خاک نشینوں کو نئی خاک ملی ہے
جو چھوڑ کر آئے وہی املاک ملی ہے

ہم سادہ روش لوگ بدلتے نہیں چولے
میلی ہی نہیں ہوتی وہ پوشاک ملی ہے

پہنے ہوئے پھرتے ہیں تہِ جبہ و دستار
در سے جو ترے خلعتِ صد چاک ملی ہے

رکھی ہے بصارت کی طرح دیدہِ تر میں
قسمت سےہمیں نعمتِ نمناک ملی ہے

سونے کے بدل بکتی ہے بازار میں خوشبو
پھولوں کو مگر قیمتِ خاشاک ملی ہے

رکھتے ہیں امانت کی طرح نقدیِ جاں کو
وہ لوگ جنہیں دولتِ ادراک ملی ہے

دیتے ہوئے ڈرتا ہوں اُسے جامہء الفاظ
خامے کو طبیعت مرے بے باک ملی ہے

دریا کے کنارے بھی کہیں ملتے ہیں لوگو؟
دھرتی سے کہیں سرحدِ افلاک ملی ہے؟

ظہیر احمد ظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔مئی ۲۰۱۳
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
پندار کی ویران سرا میں نہیں رہتے
ہم خاک پہ رہتے ہیں خلامیں نہیں رہتے

قامت بھی ہماری ہے ، لبادہ بھی ہمارا
مانگی ہوئی دستار و قبا میں نہیں رہتے

ہم کشمکشِ دہر کے پالے ہوئے انسان
ہم گریہ کناں کرب و بلا میں نہیں رہتے

خاشاکِ زمانہ ہیں ، نہیں خوف ہمیں کوئی
آندھی سے ڈریں وہ جو ہوا میں نہیں رہتے

ہم چھوڑ بھی دیتے ہیں کُھلا توسنِ دل کو
تھامے ہوئے ہر وقت لگامیں نہیں رہتے

روحوں میں اتر جاتے ہیں تیزاب کی صورت
لفظوں میں گھلے زہر صدا میں نہیں رہتے

احساس کے موسم کبھی ہوجائیں جو بے رنگ
خوشبو کے ہنر دستِ صبا میں نہیں رہتے

اونچا نہ اُڑو اپنی ضرورت سے زیادہ
تھک جائیں پرندے تو فضا میں نہیں رہتے

دستار بنے جاتے ہیں اب شہرِ طلب میں
کشکول کہ اب دستِ گدا میں نہیں رہتے

اس خانہ بدوشی میں خدا لائے نہ وہ دن
جب بچھڑے ہوئے یار دعا میں نہیں رہتے
ظہیر احمد ظہیر ۔ ۔۔۔۔۔ ۲۰۱۳​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اے وقت ذرا تھم جا ، یہ کیسی روانی ہے
آنکھوں میں ابھی باقی اک خوابِ جوانی ہے

کیا قصہ سنائیں ہم اس عمرِ گریزاں کا
فرصت ہے بہت تھوڑی اور لمبی کہانی ہے

اک راز ہے سینے میں ، رکھا نہیں جاتا اب
آکر کبھی سن جاؤ اک بات پرانی ہے

سچے تھے ترے وعدے ، سچے ہیں بہانے بھی
بس ہم کو شکایت کی عادت ہی پرانی ہے

جو کچھ بھی کہا تم نے ، تم کو ہی خبر ہوگی
ہم نے تو سنا جو کچھ دنیا کی زبانی ہے

گزری جو بنا تیرے اُس عمر کا افسانہ
ہونٹوں کی خموشی ہے ، آنکھوں کا یہ پانی ہے

اے یادِ شبِ الفت ! کچھ اور تھپک مجھ کو
پلکوں پر ابھی باقی دن بھرکی گرانی ہے

امید کی خوشبو ہے ، یادوں کے دیئے روشن
ہر وقت تصور میں اک شام سہانی ہے

ظہیراحمدظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۱۹۹۹​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
حبس جاں رونے سے کچھ اور گراں ہوتا ہے
آگ بجھتی ہے تو انجام دھواں ہوتا ہے

تاب گفتار ہی باقی ہے نہ موضوع سخن
اب ملاقات کا ماحول زباں ہوتا ہے

کھینچ لائی ہے ضرورت مجھے کن راہوں میں
ہر قدم پر مجھے دھوکےکا گماں ہوتا ہے

غیرسے میری شکایت کا مجھے رنج نہیں
گلہ شکوہ بھی محبت کا نشاں ہوتا ہے

کارِ دنیا کا ہمالہ ہے مجھے ریت کا ڈھیر
دل نہ چاہے تو یہی کوہ گراں ہوتا ہے


ربطِ محکم بھی ضروری ہے صد اخلاص کیساتھ
معجزہ صرف دعاؤں سے کہاں ہوتا ہے

جس عمارت میں توازن نہ دکھائی دے ظہیر
اُس کی بنیاد میں اک سنگِ زیاں ہوتا ہے

ظہیر احمد ظہیر ۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۵​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ہمیں نسبت جو کسی در سے نہ دربار سے ہے
یہ عنایت بھی ترے نام کی سرکار سے ہے

بادبانوں کا تکلف نہیں کشتی میں مری
آسرا مجھ کو ہوا سے نہیں پتوار سے ہے

گونج رہ جائے گی میری جو صدا مر بھی گئی
اتنی امید مجھے شہر کی دیوار سے ہے

شورِ زنجیر بپا رکھتی ہے جکڑی ہوئی امید
دل کی دھڑکن میں ترنم اسی جھنکار سے ہے

سرخیاں حسبِ خبر ہیں ، نہ خبر حسبِ حال
پڑھنے والوں کو گلہ آج کے اخبار سے ہے

عشق کی دین نہیں،جبرِضرورت ہے یہ ہجر
خلعتِ درد خریدی ہوئی بازار سے ہے

ظہیر احمدظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۵​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اپنی قربت کے سب آثار بھی لیتے جانا
اب جو جاؤ در و دیوار بھی لیتے جانا

چھوڑ کر جا ہی رہے ہو تو پھر اپنے ہمراہ
ساتھ رہنے کا وہ اقرار بھی لیتے جانا

دکھ تو ہوگا مگر احساس ہو کم کم شاید
جاتے جاتے مرا پندار بھی لیتے جانا

بیخودی مجھ سے مری چھین کے جانیوالے
آگہی کے کڑے آزار بھی لیتے جانا

جشنِ آزادیِ اظہار میں اے نغمہ گرو
میری زنجیر کی جھنکار بھی لیتے جانا

اُن سے ملنے کبھی جاؤ تو بطرزِ سوغات
مجھ سے مل کر مرے اشعار بھی لیتے جانا

بزم ِیاراں نہیں حاکم کی عدالت ہے ظہیر
سر پر اُونچی کوئی دستار بھی لیتے جانا

ظہیر احمدظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔ 2002​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
دل تو پتھر ہوئے، غم پھر بھی کسک دیتے ہیں
آگ اتنی ہو تو پتھر بھی چمک دیتے ہیں

خاک گرتی ہے جو سر پر غمِ دنیا کی کبھی
نام لے کر ترا ہولے سے جھٹک دیتے ہیں

زندگی جب بھی نظر آتی ہے عریاں اپنی
ہم ترے درد کی پوشاک سے ڈھک دیتے ہیں

یاد کے پھول کتابوں میں دبے رہنے دو
خشک ہوجائیں تو کچھ اور مہک دیتے ہیں

جو نہ بادل میں رہیں اور نہ زمیں پر برسیں
وہی قطرے تو فضاؤں کو دھنک دیتے ہیں

جب سے آئی ہیں مری آنکھوں میں نظریں اس کی
گھپ اندھیرے بھی اجالوں کی چمک دیتے ہیں

مجھ کو چہروں پہ نظر آتی ہے رفتارِ زماں
گھر کے آئینے زمانے کی جھلک دیتے ہیں

ظہیر احمد ظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آتشِ رنج و الم ، سیلِ بلا سامنے ہے
زندگی جلوہ نما ہے کہ قضا سامنے ہے

شعلہء جاں ہے مرا اور ہوا سامنے ہے
پیکر ِ خاک میں ہونے کی سزا سامنے ہے

ہر طرف ڈھونڈنے والو! اُسے دیکھو تو سہی
وہ کہیں اور نہیں ہے بخدا سامنے ہے

منعکس ہوں میں زمانے میں ، زمانہ مجھ میں
خود بھی آئینہ ہوں اور عکس نما سامنے ہے

لغزش ِ پائے تمنا کا بھی امکان نہیں
جادہء شوق میں گر اس کی رضا سامنے ہے

کیا خبر کون سا جلوہ ہے پسِ پردہء غیب
جس طرف دیکھئے اک راز نیا سامنے ہے

پھر وہی سوزِ دروں میرا ، وہی غفلتِ جاں
پھر وہی ساعتِ تجدیدِ وفا سامنے ہے

مجھ کو ناموس ِ غم ِ عشق ہے مانع ورنہ
چارہ گر پہلو میں بیٹھے ہیں ، دوا سامنے ہے

اپنے بارے میں نہ کھا عصمتِ یوسف کی قسم
پہلے یہ دیکھ تو لے چاکِ قبا سامنے ہے

اور کیا پیش کروں اپنی محبت کا ثبوت
میرے حالات کی صورت میں وفا سامنے ہے

ہم بھلا کون سے سقراطِ زماں ہیں جو ظہیر
روز اک زہر بھرا جام نیا سامنے ہے

ظہیر احمد ظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مئی ۵ ۲۰۱​
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
عذابِ ہجرتِ پیہم سنبھلنے دے
حصارِ بے مکانی سے نکلنے دے​

غبار ِ بے سروسامانی پردہ رکھ
قبائے بے لباسی تو بدلنے دے​

ہوائے شہر ِغربت اک ذرا دھیرے
چراغ ِشام ِ تنہائی کو جلنے دے​

دیار ِ اجنبی کے منجمد لہجے
سکوتِ گوشہء جاں میں پگھلنے دے​

فشارِ احتیاج ِ زندگی مجھ کو
کبھی تو کنجِ غفلت میں بہلنے دے​

جنونِ رخصتِ تازہ مجھے اس بار
جہاں کچھ بھی نہیں اُس سمت چلنے دے​

ظہیر احمد ظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۱۹۹۶​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
طعنہء سود و زیاں مجھ کو نہ دینا ، دیکھو
میرے گھر آؤ کبھی ، میرا اثاثہ دیکھو

در کشادہ ہے تمہارا مجھے تسلیم مگر
مجھ میں جھانکو ،کبھی قد میری انا کا دیکھو

بس سمجھ لینا اُسے میری سوانح عمری
سادہ کاغذ پہ کبھی نام جو اپنا دیکھو

اِس خموشی کو مری ہار سمجھنے والو!
بات سمجھو ، مرے دشمن کا نشانہ دیکھو

آج لگتا ہے کہ پھر اُس سے ملے ہو جاکر
گفتگو تو سنو اپنی ، ذرا لہجہ دیکھو

کس کی یادوں سے ہے میرے سخن کو نسبت
ڈائری کھولو پرانی ، یہ حوالہ دیکھو

مانگنا خیر تم اُس حاصلِ ہجرت کی ظہیر
اجنبی شہر میں جب کوئی شناسا دیکھو

ظہیر احمد ظہیر ۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۲​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
آنکھوں سےفکرِ ذات کے منظر چلے گئے
اشکوں کے بے کنار سمندر چلے گئے

محور سے جب ہٹا گئی مرکز گریزیت
ذرے سے آفتاب کے جوہر چلے گئے

دھیمی ہوئی ہے عشق فسوں گر کی جب سے آنچ
حسن ِ ستم طراز کے تیور چلے گئے

دیکھی جو خوش عقیدگی اہل ِ زمین کی
کچھ لوگ آسماں کے برابر چلے گئے

- ق -

بے خال وخد سے رہ گئے کردارِ بے نقوش
رعنائیء خیال کے پیکر چلے گئے

شایانِ زیب و زینتِ گلشن نہیں کوئی
ہم قامتِ چنار و صنوبر چلے گئے

رندانِ خوش ادا رہے مقتل میں سر بکف
جتنے تھے کج نوا سرِ منبر چلے گئے

-

بیٹھے رہو اب اپنی انا کو سنبھال کر
جن کا تھا انتظار وہ آکر چلے گئے

باقی ہیں اس خرابہء ہجرت میں ہم ظہیر
واپس ہمارے ساتھ کے اکثر چلے گئے

ظہیر احمد ظہیر ۔۔۔۔۔۔۔۔ ۲۰۰۳​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
معیار ہے سخن تو حوالہ نہ دیکھئے
شاخِ ہنر کو دیکھئے ، شجرہ نہ دیکھئے

شاید اسی طرح مجھے پہچان جائیں آپ
لہجے کا رنگ دیکھئے ، چہرہ نہ دیکھئے

رستے ہیں میرے گھر کے محبت کے راستے
دل کی کتاب کھولئے ، نقشہ نہ دیکھئے

سینہ ہے داغ داغ مگر دل تو صاف ہے
گھر دیکھئے جناب ، علاقہ نہ دیکھئے

دیواریں پڑھ رہے ہیں بس اپنی گلی کی آپ
اخبار پورا پڑھئے ، تراشہ نہ دیکھئے

سائے تو گھٹتے بڑھتے ہیں سورج کیساتھ ساتھ
قامت کو اپنی ناپئے ، سایا نہ دیکھئے

ہو عزم آہنی تو ہمالہ بھی زیر ہے
رکھئے نظر فراز پہ تیشہ نہ دیکھئے

دیوار و در کے پردے ہٹا کر کبھی کبھی
جانب خدا کی دیکھئے ، کعبہ نہ دیکھئے

بجھنے لگی ہیں شہرِنگاراں کی رونقیں
کچھ کیجئے ظہیر ، تماشہ نہ دیکھئے

ظہیر احمد ظہیر ۔۔۔۔۔ ۱۹۹۷​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
اِس کی بنیاد میں پتھر ہے پرانے گھر کا
قرض کتنا نئے گھر پر ہے پرانے گھر کا

چین سے سوتا ہوں یادوں کا بنا کر تکیہ
راس اب تک مجھے بستر ہے پرانے گھر کا

دوستو !میں تو نہیں بدلا ہوں گھر بدلا ہے
نئی چوکھٹ میں کُھلا در ہے پرانے گھر کا

نئی بستی کا کبھی نقطہء آغاز تھا یہ
شہر کے بیچ جو منظر ہے پرانے گھر کا

اِس نئے شہر کے موسم سے بہت ڈرتا ہے
آدمی جو مرے اندر ہے پرانے گھر کا

ویسے تو خوش نظر آتا ہے نئےگھر میں ظہیر
تذکرہ باتوں میں اکثر ہے پرانے گھر کا

ظہیر احمد ظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۲۰۰۸​
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
دُعا

مری نظر میں تری آرزو نظر آئے
مجھے وہ آنکھ عطا کر کہ تو نظر آئے

کلام اپنا سمودے وجود میں ایسا
کہ میری چپ میں تری گفتگو نظر آئے

میں جب بھی آئنہ دیکھوں غرورِ ہستی کا
تو ایک عکسِ عدم روبرو نظر آئے

ہٹادے آنکھ سے میری یہ خواہشات کے رنگ
جو چیز جیسی ہے بس ہوبہو نظر آئے

ہجوم ِشہر تماشہ میں گم نہ ہو رستہ
نشان ِ راہ ترا کوبکو نظر آئے

رواں دواں رہے جب تک مرا سفینۂ جاں
منارِ نور ہدیٰ چار سو نظر آئے

خلوصِ فکر عطا کر اور ایسا حسنِ عمل
کہ فکرِدنیا تری جستجو نظر آئے

ظہیر احمدظہیر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دسمبر ٢٠١١​
 
Top