نیرنگ خیال
لائبریرین
مجھے ایک چیز پر ہمیشہ حیرانی ہوتی ہےکہ وہ چیزیں جو پہلے پڑھنے کی ہیں۔ وہ ابھی تک نہیں پڑھیں۔۔۔ اور جو نہیں پڑھنے کی تھیں۔۔۔ وہ کیوں پڑھ رکھی ہیں۔۔۔ عجیب معاملات ہیں یہ۔ اگر پڑھنا ہے تو وہ پڑھنا چاہیے جو کہ ضروری ہے۔۔۔ غیر ضروری چیزیں تو انسان پڑھتا ہی رہتا ہے۔ یہی سوچ مجھے کچھ بھی پڑھنے سے باز رکھتی ہے۔ لیکن اللہ بھلا کرے۔۔۔ ایسے صاحب دل لوگوں کا۔۔۔ جو مجھے کھینچ کر کچھ پڑھنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ اور پھر بات پڑھنے تک ہی رہ جائے تو بھی شاید خاموش رہوں۔ لیکن اس پڑھائی کے معانی بتانے کو مجھے اٹھ کر باہر آنا پڑتا ہے۔۔۔ ہلنا پڑتا ہے۔۔۔۔ اور صاحب! انصاف کی نظر سے دیکھیے، تو میرا ایسا قصور بھی نہیں۔شاعر کچھ اور بات کرتا ہے، اور زمانہ اس کو کچھ اور سمجھ لیتا ہے۔ مثال اس کی یوں لیجیے، کہ شاعر نے کہا، مجھے محبوب کی گلی میں جوتے پڑے، اور قاری یا سامع یہ سمجھ لیتا ہے کہ اللہ اللہ۔۔۔ حق کی راہ پر جو رسوائیاں اس کو ملی ہیں، کیا کہنے بھئی کیاکہنے۔۔۔ یہ دیکھ سن کر ہمارا دل جلتا ہے۔ کڑھتا ہے۔۔۔ اور جتنا جل اور کڑھ چکا ہے، مجھے یقین ہے اب تک کھوئے کی شکل اختیار چکا ہوگا۔ ہائے میری دلگدازی کا شاید یہی راز ہے۔ سبحان اللہ۔
خیر تو دوستو! میں بات یہ کر رہا تھا کہ لوگ جب اشعار کی غلط تفہیم کرتے ہیں، تو میں بیقرار ہوجاتا ہوں، بیتاب ہوجاتا ہوں۔ ہزار میں سے دو ہزار مرتبہ میں خود میں روکنے میں کامیاب رہتا ہوں، لیکن کیاکہ کبھی انسان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو ہی جاتا ہے، اور وہ اشعار کی درست تفہیم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تاکہ لوگ درپردہ حقائق تک پہنچیں، آخر یہ سب لوگ اپنے دماغ کیوں نہیں استعمال کرتے۔ ان کو بچا بچا کر رکھنے میں کیا رمز ہے۔ مجھے علم نہیں۔
ابھی دیکھیے۔۔۔۔ میں ایک اور غزل کی طرف جا رہا تھا۔۔۔۔ کہ راستے میں ظہیراحمدظہیر بھائی کی اس غزل پر نظر پڑ گئی۔۔۔ اور پھر مجھے تفہیم کے لیے میدان میں اترنا پڑا۔۔۔
واعظ نے اپنے زورِ بیاں سے بدل دیا
کتنی حقیقتوں کو گماں سے بدل دیا
بظاہر یہ شعر واعظ کی چرب زبانی اور الفاظ کو توڑ موڑ کر نئے معانی پہنانے کی عادت پر ایک کاری وار معلوم ہوتا ہے۔ لیکن درحقیقت ایسا ہے نہیں۔ سادہ لوح ذہن فورا واعظ کو برا بھلا کہنے لگتا ہے۔ لوگ ہذیان بکنے لگتے ہیں۔ انہوں نے جی تاریخ چہرہ مسخ کر دیا۔ ایسا کچھ تھا ہی نہیں۔ یہ نہیں تھا۔ وہ نہیں تھا۔ یہ بعد میں شامل ہوا۔ وہ پہلے سے نکال دیا گیا۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ مغلظات کا ایک جم غفیر ذہن و قلب سے مثال حشر نکل کر زبان کی طرف آتا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن اگر آپ یہاں رکیے، ٹھہریے، اور سوچیے۔ کہ کیا بدل دیا؟ کون سی حقیقت! اور پھر ذرا شاعر کی طرف رخ کیجیے۔ اس کے روز و شب پر نگاہ کیجیے۔ تو آپ بہ آسانی سمجھ جائیں گے کہ یہ معاملہ ایسا سیدھا ہے نہیں جتنا سیدھا دکھایا جا رہا ہے۔بات صرف اتنی سی تھی، کہ ایک معزز شخصیت نے شاعر کو کہیں ، کسی بھی حال۔۔۔ دیکھیں ہم بات نہیں کرتے۔ جو بھی معاملہ ہوا۔ آپ خود ہی سمجھیے۔ تو وہ بات جب ہوتے ہوتے گھر تک آگئی، اور عدالت عظمی و عالیہ یعنی والدہ و بیگم دونوں کے حضور پیش کر دی گئی، تو شاعر نے اپنی سخنوری کی اوٹ لیکر کھیلنا مناسب سمجھا۔ یہ تو ایسے نہیں تھا۔ میں تو وہاں تھا ہی نہیں۔ آج جب عصر کے بعد درس ہوا ہے تو میں وہاں درس سن رہا تھا۔ وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ نے ایک دو بار ہی عصر کے بعد والا درس سن رکھا ہے تو باقی عمر آپ کو درس سننے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کہیں بھی غائب ہو سکتے ہیں، اور اس کے بعد آپ حلفا کہہ سکتے ہیں کہ درس میں یہ یہ باتیں ہوئیں۔ اور لوگ آپ کو سچا مان لیں گے۔ اس سے زیادہ شرح اس شعر کی ہمیں از خود بھی نامناسب معلوم ہوتی ہے۔ آخر کو ہم بھی یار باش آدمی ہیں۔ اور دوست وہی جو پردہ رکھے۔ نہیں سمجھ میں آتی شاعری تو نہ پڑھا کریں۔ ہم سے نہیں اتنے معانی کھولے جاتے۔
ہونا تھا میرا واقعہ آغاز جس جگہ
قصے کو قصہ خواں نے وہاں سے بدل دیا
آپ لوگ ٹی وی دیکھتے ہوں گے۔ اور چونکہ پاکستان میں تفریح کے لیے خبری ٹی وی ہی دیکھے جاتے ہیں، سو امید ہے کہ وہ آپ کی واقفیت ان سے بھی کم نہ ہوگی۔ ویسے خبری چینلز کا حال تو پوری دنیا میں ہی ایک جیسا ہے سو آپ جہاں کہیں بھی ہیں، آپ اس بات سے واقف ہیں جو میں کرنے جا رہا ہوں۔ ہوتا یوں ہے کہ کیمرہ مین اپنا کیمرہ سیدھا کرکے، اور رپورٹر اپنے آلات سیدھے کر کے اپنی باری کے منتظر ہوتے ہیں، کہ لو جی ابھی باری آئی ہماری۔۔۔ اور ہم شروع کریں گے۔۔۔ جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں، میرے پیچھے ایک بہت بڑا طوفان آرہا ہے، لوگ یہاں سے بھاگ رہے ہیں۔ اور ابھی رپورٹر اتنا ہی کہہ پایا ہوتا ہے کہ ٹی وی موجود تجزیہ نگار یا میزبان جو بھی ہے وہ کہتا ہے، بہت شکریہ آپ کا۔ آئیے لیے چلتے ہیں آپ کو ایک کمرشل بریک کی طرف۔ وقت بہت کم ہے اور اشتہار بہت ضروری۔ لوگ تو مرتے رہتے ہیں۔ مرنے سے قبل اشتہار دیکھتے جائیے۔ شاید یہ مصنوعات جنت میں بھی میسر ہوں۔ خیر اس مثال سے کند ذہن قارئین کی توجہ اس مہین نکتے کی طرف مبذول کروانا مقصد ہے جس کوابھی شاعر نے اس شعر میں باندھنے سے حتی الوسع اجتناب کیا ہے۔ بظاہر یہ شعر بھی قصہ خواں کی چالاکی و ہوشیاری پر حرف اٹھاتا محسوس ہوتا ہے کہ جی ایسا چالاک آدمی۔ ایسا ہوشیار۔ ہماری باری تو بڑی صفائی سے تذکرہ ہی کھا گیا۔ اوپری واقعہ کے بعد شاعر نے نیکی کا عزم کر لیا۔ بوڑھوں کو سڑک پار کرانے سے لیکر زخمیوں کو ہسپتال چھوڑنے تک کا ہر نیک کام اپنے ذمہ لے لیا۔ ایسا ہی ایک واقعہ ہوا جب ایک لڑکے نے خون کی دو بوتل دے کر ایک مریض کی جان بچائی، توقصہ گو نےاس کا قصہ پوری مجلس میں بیان کیا۔ اور شاعرسوائے جزبز ہونے کے کچھ نہ کر سکا۔ اصل میں شاعر نے جائے حادثہ پر لوگوں سے کہا تھا کہ اس کو ہسپتال لے جاؤ۔ لیکن کسی نے بھی قصے میں اتنے اہم آدمی کا تذکرہ نہ کیا۔ جس کی وجہ سے مریض کی جان بچ پائی۔ شاعر اس بات کے بعد بہت دل گرفتہ ہوگیا۔ اور سوچ لیا کہ اب کسی کو نہیں کہوں گا اسے ہسپتال لے جاؤ۔ جب پڑے رہو گے سڑک پر ۔۔ پھر خود ہی قدر ہوگی۔
ہے شرط جوئے شیر وہی، وقت نے مگر
تیشے کو جیسے کوہ گراں سے بدل دیا
یہاں بھی شاعر نے اپنی آلکس طبیعت کا بہت ہی خوبصورت انداز میں دفاع کیا ہے۔ سردیوں کی ایک سرد شام۔۔۔ ویسے بھی عام طور پر یہی بات ہے کہ سردیوں میں شام سرد ہی ہوتی ہے۔ ہاں کوئی کہے جون جولائی کی ایک سرد شام۔۔۔ تو اہل سخن اس کو بھی ایک ہلکی سے مسکراہٹ سے قبول فرما کر کہیں گے کہ آدمی بامذاق معلوم ہوتا ہے۔ اہل سخن کی اسی شائستگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شاعر نے اپنا کام کٹھن بتایا ہے۔ کہتے ہیں بھائی! نکالی ہوگی نہر فرہاد نے۔۔۔ دودھ کی نکال لی ہوگی۔ شہد کی بھی نکال لیتا تو کیا تیر مارتا۔۔۔ تیشہ تھا اس کے پاس۔۔۔۔ میں۔۔۔ سنو ! میں۔۔۔ یعنی کہ میں۔۔۔ بھئی بہت شدید سرد شام تھی۔ ۔۔ لہو رگوں میں جم رہا تھا۔ پاؤں برف میں تھم رہا تھا۔۔۔ اور شرط وہی۔۔۔ دودھ لانا تھا۔۔۔۔ اللہ اللہ۔۔ نکلا پھر یہ مرد مجاہد۔۔۔ پیدل ہی۔۔۔ پروا نہیں کی۔۔۔ نکل پڑا۔۔۔ ۔۔۔ لایا دودھ۔۔۔۔ بھئی واہ۔۔۔ کہتے ہیں کہ کئی لوگوں نے دانتوں تلے انگلیاں داب لیں۔۔۔ چند ایک نے واقعے کی ٹھنڈک کو محسوس کر کے اپنے ہاتھ جیکٹوں کی جیبوں میں ڈال لیے۔سبحان اللہ ۔۔۔ حوالے کے لیے دیکھیے مضموں۔۔۔۔ فرہاد نے اچھے موسم میں نہر نکالی۔
اب مل بھی جائیں یار پرانے تو کیا خبر
کس کس کو زندگی نے کہاں سے بدل دیا
ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ انسان جب یہ کہتا ہے کہ لوگوں کو کیا پروا۔ تو دراصل وہ اپنا بتا رہا ہوتا ہے کہ مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یا جب آپ سنتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے، تو اصل میں کہنے والا یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ میں تمہارا جینا حرام کر دوں گا۔ اس شعر میں شاعر نے اسی روش پر عمل کیا ہے۔ شاعر خود دوستوں سے بیزار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مدت ہوئی ملک چھوڑ کر دور جا بسا۔ کسی سے ملنا چاہتا نہیں ہے۔ ایسے میں کوئی اسے خیال دلا بھی دے کہ یار مل بیٹھیں یار پرانے۔۔۔ آباد کریں وہی ٹھکانے۔۔۔ جہاں ہوئے ہم سیانے۔۔۔۔ تو شاعر پر بیزاری کی اور تہہ چڑھ جاتی ہے۔ ظاہر ہے آج اگر وہ شاعر ہے تو اپنے ماضی کی وجہ سے ہے۔ اور پھر سے وہی پرانے قصوں کا خیال، یہ ڈر کہ وہ پرانی نادانیاں جو اب بن چکی ہیں نانیاں ۔۔۔ یار پرانے دہرانا نہ شروع کر دیں۔۔۔ تو انکار بصورت اقرار۔۔۔۔ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ۔۔۔ بھئی دنیا بہت بدل چکی ہے۔۔۔۔۔ زندگی نے جانے کس کس کو بدل دیا ہوگا۔ اور یہ بات کرتے ہوئے اس کے لب و لہجے سے عیاں ہے کہ اگر زندگی نے کسی کو بدل بھی دیا ہے تو شاعر کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ اپنی مستی میں مست رہنا چاہتا ہے۔۔۔ بلاشبہ یہ شعر سخنوری کی مثال ہے۔۔۔
وقت کی کمی کے باعث بقیہ اشعار کی شرح نہیں کر پایا۔ آپ احباب کی دعائیں قبول ہوئیں کہ مزید شرح نہ کروں۔۔۔۔
25 اکتوبر 2022
خیر تو دوستو! میں بات یہ کر رہا تھا کہ لوگ جب اشعار کی غلط تفہیم کرتے ہیں، تو میں بیقرار ہوجاتا ہوں، بیتاب ہوجاتا ہوں۔ ہزار میں سے دو ہزار مرتبہ میں خود میں روکنے میں کامیاب رہتا ہوں، لیکن کیاکہ کبھی انسان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو ہی جاتا ہے، اور وہ اشعار کی درست تفہیم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ تاکہ لوگ درپردہ حقائق تک پہنچیں، آخر یہ سب لوگ اپنے دماغ کیوں نہیں استعمال کرتے۔ ان کو بچا بچا کر رکھنے میں کیا رمز ہے۔ مجھے علم نہیں۔
ابھی دیکھیے۔۔۔۔ میں ایک اور غزل کی طرف جا رہا تھا۔۔۔۔ کہ راستے میں ظہیراحمدظہیر بھائی کی اس غزل پر نظر پڑ گئی۔۔۔ اور پھر مجھے تفہیم کے لیے میدان میں اترنا پڑا۔۔۔
واعظ نے اپنے زورِ بیاں سے بدل دیا
کتنی حقیقتوں کو گماں سے بدل دیا
بظاہر یہ شعر واعظ کی چرب زبانی اور الفاظ کو توڑ موڑ کر نئے معانی پہنانے کی عادت پر ایک کاری وار معلوم ہوتا ہے۔ لیکن درحقیقت ایسا ہے نہیں۔ سادہ لوح ذہن فورا واعظ کو برا بھلا کہنے لگتا ہے۔ لوگ ہذیان بکنے لگتے ہیں۔ انہوں نے جی تاریخ چہرہ مسخ کر دیا۔ ایسا کچھ تھا ہی نہیں۔ یہ نہیں تھا۔ وہ نہیں تھا۔ یہ بعد میں شامل ہوا۔ وہ پہلے سے نکال دیا گیا۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔ مغلظات کا ایک جم غفیر ذہن و قلب سے مثال حشر نکل کر زبان کی طرف آتا محسوس ہوتا ہے۔ لیکن اگر آپ یہاں رکیے، ٹھہریے، اور سوچیے۔ کہ کیا بدل دیا؟ کون سی حقیقت! اور پھر ذرا شاعر کی طرف رخ کیجیے۔ اس کے روز و شب پر نگاہ کیجیے۔ تو آپ بہ آسانی سمجھ جائیں گے کہ یہ معاملہ ایسا سیدھا ہے نہیں جتنا سیدھا دکھایا جا رہا ہے۔بات صرف اتنی سی تھی، کہ ایک معزز شخصیت نے شاعر کو کہیں ، کسی بھی حال۔۔۔ دیکھیں ہم بات نہیں کرتے۔ جو بھی معاملہ ہوا۔ آپ خود ہی سمجھیے۔ تو وہ بات جب ہوتے ہوتے گھر تک آگئی، اور عدالت عظمی و عالیہ یعنی والدہ و بیگم دونوں کے حضور پیش کر دی گئی، تو شاعر نے اپنی سخنوری کی اوٹ لیکر کھیلنا مناسب سمجھا۔ یہ تو ایسے نہیں تھا۔ میں تو وہاں تھا ہی نہیں۔ آج جب عصر کے بعد درس ہوا ہے تو میں وہاں درس سن رہا تھا۔ وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اگر آپ نے ایک دو بار ہی عصر کے بعد والا درس سن رکھا ہے تو باقی عمر آپ کو درس سننے کی ضرورت نہیں ہے۔ آپ کہیں بھی غائب ہو سکتے ہیں، اور اس کے بعد آپ حلفا کہہ سکتے ہیں کہ درس میں یہ یہ باتیں ہوئیں۔ اور لوگ آپ کو سچا مان لیں گے۔ اس سے زیادہ شرح اس شعر کی ہمیں از خود بھی نامناسب معلوم ہوتی ہے۔ آخر کو ہم بھی یار باش آدمی ہیں۔ اور دوست وہی جو پردہ رکھے۔ نہیں سمجھ میں آتی شاعری تو نہ پڑھا کریں۔ ہم سے نہیں اتنے معانی کھولے جاتے۔
ہونا تھا میرا واقعہ آغاز جس جگہ
قصے کو قصہ خواں نے وہاں سے بدل دیا
آپ لوگ ٹی وی دیکھتے ہوں گے۔ اور چونکہ پاکستان میں تفریح کے لیے خبری ٹی وی ہی دیکھے جاتے ہیں، سو امید ہے کہ وہ آپ کی واقفیت ان سے بھی کم نہ ہوگی۔ ویسے خبری چینلز کا حال تو پوری دنیا میں ہی ایک جیسا ہے سو آپ جہاں کہیں بھی ہیں، آپ اس بات سے واقف ہیں جو میں کرنے جا رہا ہوں۔ ہوتا یوں ہے کہ کیمرہ مین اپنا کیمرہ سیدھا کرکے، اور رپورٹر اپنے آلات سیدھے کر کے اپنی باری کے منتظر ہوتے ہیں، کہ لو جی ابھی باری آئی ہماری۔۔۔ اور ہم شروع کریں گے۔۔۔ جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں، میرے پیچھے ایک بہت بڑا طوفان آرہا ہے، لوگ یہاں سے بھاگ رہے ہیں۔ اور ابھی رپورٹر اتنا ہی کہہ پایا ہوتا ہے کہ ٹی وی موجود تجزیہ نگار یا میزبان جو بھی ہے وہ کہتا ہے، بہت شکریہ آپ کا۔ آئیے لیے چلتے ہیں آپ کو ایک کمرشل بریک کی طرف۔ وقت بہت کم ہے اور اشتہار بہت ضروری۔ لوگ تو مرتے رہتے ہیں۔ مرنے سے قبل اشتہار دیکھتے جائیے۔ شاید یہ مصنوعات جنت میں بھی میسر ہوں۔ خیر اس مثال سے کند ذہن قارئین کی توجہ اس مہین نکتے کی طرف مبذول کروانا مقصد ہے جس کوابھی شاعر نے اس شعر میں باندھنے سے حتی الوسع اجتناب کیا ہے۔ بظاہر یہ شعر بھی قصہ خواں کی چالاکی و ہوشیاری پر حرف اٹھاتا محسوس ہوتا ہے کہ جی ایسا چالاک آدمی۔ ایسا ہوشیار۔ ہماری باری تو بڑی صفائی سے تذکرہ ہی کھا گیا۔ اوپری واقعہ کے بعد شاعر نے نیکی کا عزم کر لیا۔ بوڑھوں کو سڑک پار کرانے سے لیکر زخمیوں کو ہسپتال چھوڑنے تک کا ہر نیک کام اپنے ذمہ لے لیا۔ ایسا ہی ایک واقعہ ہوا جب ایک لڑکے نے خون کی دو بوتل دے کر ایک مریض کی جان بچائی، توقصہ گو نےاس کا قصہ پوری مجلس میں بیان کیا۔ اور شاعرسوائے جزبز ہونے کے کچھ نہ کر سکا۔ اصل میں شاعر نے جائے حادثہ پر لوگوں سے کہا تھا کہ اس کو ہسپتال لے جاؤ۔ لیکن کسی نے بھی قصے میں اتنے اہم آدمی کا تذکرہ نہ کیا۔ جس کی وجہ سے مریض کی جان بچ پائی۔ شاعر اس بات کے بعد بہت دل گرفتہ ہوگیا۔ اور سوچ لیا کہ اب کسی کو نہیں کہوں گا اسے ہسپتال لے جاؤ۔ جب پڑے رہو گے سڑک پر ۔۔ پھر خود ہی قدر ہوگی۔
ہے شرط جوئے شیر وہی، وقت نے مگر
تیشے کو جیسے کوہ گراں سے بدل دیا
یہاں بھی شاعر نے اپنی آلکس طبیعت کا بہت ہی خوبصورت انداز میں دفاع کیا ہے۔ سردیوں کی ایک سرد شام۔۔۔ ویسے بھی عام طور پر یہی بات ہے کہ سردیوں میں شام سرد ہی ہوتی ہے۔ ہاں کوئی کہے جون جولائی کی ایک سرد شام۔۔۔ تو اہل سخن اس کو بھی ایک ہلکی سے مسکراہٹ سے قبول فرما کر کہیں گے کہ آدمی بامذاق معلوم ہوتا ہے۔ اہل سخن کی اسی شائستگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شاعر نے اپنا کام کٹھن بتایا ہے۔ کہتے ہیں بھائی! نکالی ہوگی نہر فرہاد نے۔۔۔ دودھ کی نکال لی ہوگی۔ شہد کی بھی نکال لیتا تو کیا تیر مارتا۔۔۔ تیشہ تھا اس کے پاس۔۔۔۔ میں۔۔۔ سنو ! میں۔۔۔ یعنی کہ میں۔۔۔ بھئی بہت شدید سرد شام تھی۔ ۔۔ لہو رگوں میں جم رہا تھا۔ پاؤں برف میں تھم رہا تھا۔۔۔ اور شرط وہی۔۔۔ دودھ لانا تھا۔۔۔۔ اللہ اللہ۔۔ نکلا پھر یہ مرد مجاہد۔۔۔ پیدل ہی۔۔۔ پروا نہیں کی۔۔۔ نکل پڑا۔۔۔ ۔۔۔ لایا دودھ۔۔۔۔ بھئی واہ۔۔۔ کہتے ہیں کہ کئی لوگوں نے دانتوں تلے انگلیاں داب لیں۔۔۔ چند ایک نے واقعے کی ٹھنڈک کو محسوس کر کے اپنے ہاتھ جیکٹوں کی جیبوں میں ڈال لیے۔سبحان اللہ ۔۔۔ حوالے کے لیے دیکھیے مضموں۔۔۔۔ فرہاد نے اچھے موسم میں نہر نکالی۔
اب مل بھی جائیں یار پرانے تو کیا خبر
کس کس کو زندگی نے کہاں سے بدل دیا
ایک عمومی تاثر یہ ہے کہ انسان جب یہ کہتا ہے کہ لوگوں کو کیا پروا۔ تو دراصل وہ اپنا بتا رہا ہوتا ہے کہ مجھے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ یا جب آپ سنتے ہیں کہ لوگ کیا کہیں گے، تو اصل میں کہنے والا یہ کہہ رہا ہوتا ہے کہ میں تمہارا جینا حرام کر دوں گا۔ اس شعر میں شاعر نے اسی روش پر عمل کیا ہے۔ شاعر خود دوستوں سے بیزار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مدت ہوئی ملک چھوڑ کر دور جا بسا۔ کسی سے ملنا چاہتا نہیں ہے۔ ایسے میں کوئی اسے خیال دلا بھی دے کہ یار مل بیٹھیں یار پرانے۔۔۔ آباد کریں وہی ٹھکانے۔۔۔ جہاں ہوئے ہم سیانے۔۔۔۔ تو شاعر پر بیزاری کی اور تہہ چڑھ جاتی ہے۔ ظاہر ہے آج اگر وہ شاعر ہے تو اپنے ماضی کی وجہ سے ہے۔ اور پھر سے وہی پرانے قصوں کا خیال، یہ ڈر کہ وہ پرانی نادانیاں جو اب بن چکی ہیں نانیاں ۔۔۔ یار پرانے دہرانا نہ شروع کر دیں۔۔۔ تو انکار بصورت اقرار۔۔۔۔ کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ۔۔۔ بھئی دنیا بہت بدل چکی ہے۔۔۔۔۔ زندگی نے جانے کس کس کو بدل دیا ہوگا۔ اور یہ بات کرتے ہوئے اس کے لب و لہجے سے عیاں ہے کہ اگر زندگی نے کسی کو بدل بھی دیا ہے تو شاعر کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ اپنی مستی میں مست رہنا چاہتا ہے۔۔۔ بلاشبہ یہ شعر سخنوری کی مثال ہے۔۔۔
وقت کی کمی کے باعث بقیہ اشعار کی شرح نہیں کر پایا۔ آپ احباب کی دعائیں قبول ہوئیں کہ مزید شرح نہ کروں۔۔۔۔
25 اکتوبر 2022