عادتاً وحشتوں میں جیتا ہوں ۔ فاتح الدین بشیر

فاتح

لائبریرین
خوبصورت غزل ہے فاتح صاحب، سبھی اشعار بہت اچھے ہیں لیکن یہ بہت پسند آیا

ضربِ نفیِ وجود و عشق ہوں میں
گویا میں مثبتوں میں جیتا ہوں

واہ واہ واہ
بہت شکریہ جناب۔۔۔ اس غزل میں ہمیں بھی یہی شعر سب سے زیادہ پسند ہے۔
 

فاتح

لائبریرین
میں غریب الوطن، غریب مزاج
کیا عجب غربتوں میں جیتا ہوں
واه جي واه، بهت اعلي داد قبول كريں فاتح صاحب

كبھي كچھ پڑھا تھا وزن صحيح ياد نهيں
در وديوار پر حسرت كي نظر كرتے هيں
خوش رهو اهل وطن هم تو سفر كرتے هيں

بيٹھ جاتا هوں جهاں چھاؤں گھني هوتي هے
هائے كيا چيز يه غريب الوطني هوتي هے
بہت شکریہ جناب
 

فاتح

لائبریرین
بہت خوب فاتح صاحب غزل بہت اچھی ہے اس کی داد پیش ہے قبول کیجیے۔
درج بالا شعر کے قافیے کے بارے میں پوچھنا تھا کہ کیا یہ اس غزل کے دیگر قوافی کے ساتھ درست ہے؟ کیونکہ اس کا واحد "راستہ" ہے جو کہ دیگر قوافی کے واحد الفاظ "وحشت، تربت، غربت" وغییرہ کی طرح ہم آواز نہیں۔
بہت شکریہ جناب
آپ کا اٹھایا ہوا نکتہ بجا ہے۔۔۔ ہم اس کے نیچے "ضرورتِ شعری" کا نوٹ لگا دیتے ہیں۔
 

فلک شیر

محفلین
شکریہ۔ کیا یہ دونوں ایک ہی مضمون کے اشعار لگے آپ کو؟
مضمون بعینہ ایک نہیں......لیکن دونوں کا مصرعہ ثانی ہجرت کی مجبوریوں کا حوالہ لیے ہوئے تھا ....اور اگر غور کریں ، تو ہجرت ہمیشہ ہوتی ہے مجبوری کے عالم میں ہے.....اور جبر اسی کی ایک شکل.....
 

امر شہزاد

محفلین
کمال کر دیا ہے آپ نے۔

بس یہ ایک شعر سمجھ نہیں پایا۔

ضربِ نفیِ وجود و عشق ہوں میں
گویا میں مثبتوں میں جیتا ہوں
 

رانا

محفلین
جان کر تیرے نقشِ پا منزل
خاک ہوں، راستوں میں جیتا ہوں

انتہائی خوبصورت غزل فاتح بھائی۔ ایک ایک شعر لاجواب۔
 
جان کر تیرے نقشِ پا منزل
خاک ہوں، راستوں میں جیتا ہوں

کھینچے جاتا ہوں میں عدم کا وجود
عارضی حالتوں میں جیتا ہوں

موت ہے انتہائے ہجر مگر
جینے کی ذلّتوں میں جیتا ہوں

:zabardast1:
داد قبول کیجیے:applause:
 

فاتح

لائبریرین
جان کر تیرے نقشِ پا منزل
خاک ہوں، راستوں میں جیتا ہوں

کھینچے جاتا ہوں میں عدم کا وجود
عارضی حالتوں میں جیتا ہوں

موت ہے انتہائے ہجر مگر
جینے کی ذلّتوں میں جیتا ہوں

:zabardast1:
داد قبول کیجیے:applause:
محبت ہے آپ کی۔۔۔ ممنون ہوں جناب
 
Top