عالمی دھشت گرد: امریکہ

امریکی ایوانِ نمائندگان نے ایک بل منظور کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عراق سے امریکی فوجیوں کی اکثریت کو اگلے برس اپریل تک واپس بلا لیا جائے۔ (خبر
امریکہ کے عالمی دھشت گردانہ کردار میں کسی کو شک نہیں۔ افغانستان و عراق میں‌ کھلم کھلا حملہ اور دوسرے ممالک جیسے پاکستان ، لبنان، سوڈان میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے دھشت گردی کو فروغ امریکہ نے دیا ہے وہ کبھی ماضی میں‌دیکھنے میں‌ نہیں‌ایا۔ اس وقت امریکہ کے دھشت گردانہ کردار کی مزاحمت کمزور ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ قوت پکڑ رہی ہے۔ امریکہ کے نشانوں پر ممالک اپنے اندر بے حد انتشار رکھتے ہیں جیسا کہ لال مسجد کے واقعے سے ظاہر ہوا کہ سو کالڈ مذہبی لوگ بھی فرقہ واریت کی عینک لگا کر واقعات کو دیکھتے ہیں۔ ان کا رویہ بھی وہ ہی امرانہ ہے جس کا مظاہرہ امریکہ کے حامی سیکولر طبقہ مثلا متحدہ کرتا رہا ہے۔ اس تناظرمیں‌ یہ بات واضح ہورہی ہے کہ نشانے پر موجود ممالک خصوصی طور پر مسلمان ممالک واضح قطبیت کی طرف گامزن ہیں۔ اب تفریق اتنی واضح ہوتی جارہی ہے کہ تصادم کے امکانات بہت بڑھتے نظر ارہے ہیں۔ کم و بیش اسی طرح‌کی قطبیت انقلاب ایران سے پہلے ایران میں‌نظر اتی تھی۔ جب کمیونسٹ شاہ کے خلاف صف ارا تھے اور امریکہ شاہ کے ساتھ کھڑا تھا۔ کمیونسٹوں‌کی اس جدوجہد کو اسلامی طبقہ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اور امریکہ اپنے حمایتوں‌ کو بیچ طوفان میں‌ چھوڑ کر بھاگ گیا۔
میرے خیال میں‌جنگ کے ھدف واضح ہوتے جارہے ہیں۔ پاکستان کے اندر تصادم کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں لوگوں‌ کو اپنی وابستگیاں‌ واضح رکھنی پڑیں‌گی۔ اب کوئی گرے ایریا نہیں‌ ہوگا۔ ہر چیز بلیک اینڈ وائٹ ہوگی۔
 

محمد وارث

لائبریرین
۔ پاکستان کے اندر تصادم کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں لوگوں‌ کو اپنی وابستگیاں‌ واضح رکھنی پڑیں‌گی۔ اب کوئی گرے ایریا نہیں‌ ہوگا۔ ہر چیز بلیک اینڈ وائٹ ہوگی۔

ہمت علی بھائی، ایسے جملے لکھتے وقت "خاکم بدہن" بھی لکھتے ہیں شاید۔
 
امریکی ایوانِ نمائندگان نے ایک بل منظور کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ عراق سے امریکی فوجیوں کی اکثریت کو اگلے برس اپریل تک واپس بلا لیا جائے۔ (خبر
امریکہ کے عالمی دھشت گردانہ کردار میں کسی کو شک نہیں۔ افغانستان و عراق میں‌ کھلم کھلا حملہ اور دوسرے ممالک جیسے پاکستان ، لبنان، سوڈان میں اپنے ایجنٹوں کے ذریعے دھشت گردی کو فروغ امریکہ نے دیا ہے وہ کبھی ماضی میں‌دیکھنے میں‌ نہیں‌ایا۔ اس وقت امریکہ کے دھشت گردانہ کردار کی مزاحمت کمزور ہے مگر وقت کے ساتھ ساتھ قوت پکڑ رہی ہے۔ امریکہ کے نشانوں پر ممالک اپنے اندر بے حد انتشار رکھتے ہیں جیسا کہ لال مسجد کے واقعے سے ظاہر ہوا کہ سو کالڈ مذہبی لوگ بھی فرقہ واریت کی عینک لگا کر واقعات کو دیکھتے ہیں۔ ان کا رویہ بھی وہ ہی امرانہ ہے جس کا مظاہرہ امریکہ کے حامی سیکولر طبقہ مثلا متحدہ کرتا رہا ہے۔ اس تناظرمیں‌ یہ بات واضح ہورہی ہے کہ نشانے پر موجود ممالک خصوصی طور پر مسلمان ممالک واضح قطبیت کی طرف گامزن ہیں۔ اب تفریق اتنی واضح ہوتی جارہی ہے کہ تصادم کے امکانات بہت بڑھتے نظر ارہے ہیں۔ کم و بیش اسی طرح‌کی قطبیت انقلاب ایران سے پہلے ایران میں‌نظر اتی تھی۔ جب کمیونسٹ شاہ کے خلاف صف ارا تھے اور امریکہ شاہ کے ساتھ کھڑا تھا۔ کمیونسٹوں‌کی اس جدوجہد کو اسلامی طبقہ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ اور امریکہ اپنے حمایتوں‌ کو بیچ طوفان میں‌ چھوڑ کر بھاگ گیا۔
میرے خیال میں‌جنگ کے ھدف واضح ہوتے جارہے ہیں۔ پاکستان کے اندر تصادم کے امکانات بڑھتے جارہے ہیں لوگوں‌ کو اپنی وابستگیاں‌ واضح رکھنی پڑیں‌گی۔ اب کوئی گرے ایریا نہیں‌ ہوگا۔ ہر چیز بلیک اینڈ وائٹ ہوگی۔
عالمی دھشت گرد اب پاکستان میں‌دھشت گردی کا بازارگرم کرنا چاہتا ہے۔ پاکستانیوں‌کو متحد ہوکرمقابلہ کرنا پڑے گا۔ اپنے تمام معاملوں‌کو اس تناظر میں‌دیکھنے کی ضرورت ہے کہ بالاخر امریکہ پاکستان کی سرعت انگیز تباہ کن حملہ کہ صلاحیت کو چھین لینا چاہتا ہے تاکہ بے دست و پا کرکے فائدہ اٹھاتا رہے۔
 

قسیم حیدر

محفلین
یہ ایسے حالات پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ حکومت اور عوام آپس میں لڑ پڑیں۔ فوج اور عوام ایکدوسرے کے خلاف صف آرا ہوں۔ ملک میں انتشار اور افراتفری پھیلے۔ پاکستان میں بسنے والے مختلف قومیتوں اور مختلف زبان بولنے والے لوگوں کو صرف اسلام کی اخوت متحد رکھ سکتی ہے۔ لیکن جب سے روشن خیال اسلام آیا ہے صورتحال خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔ اور افسوس ہے کہ حکومت پے در پے ایسے اقدامات کرتی جا رہی ہے جو حالات کو بہت خراب کر سکتے ہیں۔
 

arifkarim

معطل
اسلام کو درست طریقے پر سمجھنا بھی ضروری ہے! خالی مسلمان ہو جانے سے راہ نجات نہیں ملتی!
 
کچھ تو جاپان کے شہروں‌پر گرادیے اور باقی ابھی پیٹ میں ہیں۔
انسانی تاریخ کی سب سے بڑی دھشت گردی کا مجرم امریکہ اقوام عالم سے سزا کا منتظر ہے۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad - Digital Outreach Team - US State Department

محترم،

ميں آپ کے سامنے کچھ اعداد وشمار رکھنا چاہتا ہوں۔

سال 2002 ميں امريکی حکومت نے پاکستان کو صحت اور تعليم کے ضمن ميں 55۔39 ملين ڈالرز کی امداد دی۔ سال 2003 ميں صحت اور تعليم کے ضمن ميں ہی مزيد 145۔50 ملين ڈالرز کی امداد پاکستان کو دی گئ۔ اگست 2002 ميں امريکی حکومت کے ادارے يوايس ايڈ اور وزارت تعليم حکومت پاکستان کے درميان ايک معاہدہ طے پايا جس کی رو سے تعليم کے شعبے ميں مزيد 100 ملين ڈالرز کی امداد پاکستان کے حصے ميں آئ۔ سال 2002 اور 2006 کے درميانی عرصے ميں يوايس ايڈ کی جانب سے تعليم، صحت اور معشيت کے شعبوں ميں پاکستان کو 449 ملين ڈالرز کی امداد دی گئ۔ ستمبر 2007 ميں حکومت پاکستان اور امريکہ کے درميان ايک معاہدہ طے پايا جس کی رو سے اگلے 5 سالوں ميں پاکستان کو مزيد 750 ملين ڈالرز کی امداد ملے گی۔ اس کے علاوہ اس سال فاٹا کے علاقوں ميں ترقياتی کاموں کے ليے 105 ملين ڈالرز کی امداد مختص کی گئ ہے۔

8 اکتوبر 2005 کو آنے والے زلزلے کی تباہی کے بعد يوايس ايڈ کے ادارے نے پاکستان کو فوری طور پر 67 ملين ڈالرز کی امداد دی۔ اس کے بعد ہونے والی تباہی سے نبرد آزما ہونے کے ليے اسی ادارے نے مزيد 200 ملين ڈالرز کی امداد حکومت پاکستان کو دی۔

1951 سے لے کر اب تک يوايس ايڈ کی جانب سے صرف تعليم، صحت اور معيشت کے ضمن ميں پاکستان کو جو مجموعی امداد دی گئ ہے وہ 7 بلين ڈالرز ہے۔

پاکستان کو ترقياتی کاموں کے ضمن ميں سب سے زیادہ امداد دينے والا ملک امريکہ ہے۔ دوسرے نمبر پر جاپان اور تيسرے نمبر پر برطانيہ ہے۔ اس کے بعد جرمنی، فرانس اور ہالينڈ کا نمبر آتا ہے۔

ميں نے يہ سارے اعداد وشمار کسی آرٹيکل، کتاب يا رسالے سے نہيں حاصل کيے بلکہ براہراست يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے حاصل کيے ہيں۔ يہ اعداد وشمار محض تعليم، صحت اور معيشت کے ضمن ميں ملنے والی امداد کےحوالے سے ہيں۔ اس ميں وہ امداد شامل نہيں ہے جو دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے حکومت پاکستان کو براہراست دی گئ ہے۔ وہ امداد يو ايس ايڈ کے داۂرہ اختيار سے باہر ہے۔ ايک بات اور، يوايس ايڈ کا ادارہ نہ صرف حکومت پاکستان کو امداد فراہم کرتا ہے بلکہ پاکستان ميں کام کرنے والی بے شمار امدادی تنظيميں بھی اس داۂرہ کار ميں آتی ہيں۔ ان اعداد وشمار کو پيش کرنے کا مقصد يہ نہيں ہے کہ ميں آپ کے سامنے امريکہ کا مثبت اميج پيش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اور نہ ہی ميں امريکہ کی خارجہ پاليسی کی حمايت کر رہا ہوں۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ امريکہ کی خارجہ پاليسی کے بہت سے پہلوؤں پر تنقيد کی جا سکتی ہے۔ ليکن ميں تصوير کا دوسرا رخ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔

کيا پاکستان کے ہر قومی مسلئے اور حادثے کا ذمہ دار بلواسطہ يا بلا واسطہ امريکہ کو قرار دے کر ہم اپنی قومی ذمہ داريوں سے چشم پوشی نہيں کرتے؟ حد تو يہ ہے کہ ہم صدر پرويز مشرف کی تمام تر پاليسيوں (اس بات سے قطع نظر کے وہ صحيح ہيں يا غلط) کا ذمہ دار امريکہ کو ہی ٹھراتے ہيں۔ صدر مشرف کو پاکستان کا صدر امريکہ نے نہيں بنايا۔ انہيں قومی اسمبلی ميں عوام کے منتخب کردہ نمايندوں نے 57 فيصد ووٹ دے کر ملک کا صدر بنايا ہے۔ يہی نمايندے 18 فروری کو دوبارہ عوام کے سامنے پيش ہوں گے، اگر عوام سمجھتی ہے کہ انھوں نے غلط فيصلہ کيا تھا تو ذات پات برادری اور سياسی وابستگی سے ہٹ کر ملک کے ليے صحيح فيصلہ کريں۔

کسی بھی ملک کی تقدير کے ذمہ دار"بيرونی عناصر" نہيں بلکہ اس ملک کے سياست دان ہوتے ہيں جو منتخب ہو کر اسمبليوں ميں جاتے ہيں اور ملک کے ليے قوانين بناتے ہيں۔ ليکن ہمارے ملک ميں سياست دان جب عوام کے سامنے پيش ہوتے ہيں تو اپنی کاردگی پر بات کرنے کی بجائے "کشمير ہمارا ہے" اور "امريکہ کا جو يار ہے، غدار ہے، غدار ہے" جيسے پرجوش نعرے دے کر اپنی تمام ذمہ داريوں سے ہاتھ صاف کر ليتے ہيں۔ کيا وجہ ہے کہ جو اعداد وشمار ميں نے آپ کے سامنے رکھے ہيں وہ آج تک کبھی کسی سياست دان نے پيش نہيں کيے؟

اگر امريکہ کا مقصد پاکستان کو کمزور کرنا ہے تو امريکہ پاکستان کو امداد دينے والا سب سے بڑا ملک کيوں ہے؟ جہاں تک ايٹمی اساسوں کے حوالے سے تشويش کا سوال ہے تو ميڈيا کی قياس آرائيوں اور اخباری تبصروں سے ہٹ کر ميں آپ کی توجہ امريکی سينيٹ کی ہوم لينڈ سيکيورٹی کے چيرمين جوزف ليبرمين کے اس بيان کی طرف دلواتا ہوں

"پاکستان کے ايٹمی اساسے محفوظ ہاتھوں ميں ہيں۔ ہم نے پرويز مشرف پر زور ديا ہے کہ وہ ملک ميں جمہوری انتخابات کا عمل يقينی بنائيں اور پاکستان کو دی جانے والی امداد کو صاف اور شفاف انتخابات سے مشروط قرار ديا ہے۔"


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov
 

شمشاد

لائبریرین
مجھے آپ کی بات سے اتفاق ہے، مسئلہ امریکہ کا نہیں، ہمارے لیڈروں اور حکومتوں کا ہے۔ یہ جو اتنی امداد ملتی رہی ہے کبھی بھی صحیح طریقے پر خرچ نہیں ہوئی یہ تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں۔ امداد چاہے تعلیم کےلیے ملی تھی یا زلزلہ زدگان کے لیے۔
 
محترم،

ميں آپ کے سامنے کچھ اعداد وشمار رکھنا چاہتا ہوں۔

سال 2002 ميں امريکی حکومت نے پاکستان کو صحت اور تعليم کے ضمن ميں 55۔39 ملين ڈالرز کی امداد دی۔ سال 2003 ميں صحت اور تعليم کے ضمن ميں ہی مزيد 145۔50 ملين ڈالرز کی امداد پاکستان کو دی گئ۔ اگست 2002 ميں امريکی حکومت کے ادارے يوايس ايڈ اور وزارت تعليم حکومت پاکستان کے درميان ايک معاہدہ طے پايا جس کی رو سے تعليم کے شعبے ميں مزيد 100 ملين ڈالرز کی امداد پاکستان کے حصے ميں آئ۔ سال 2002 اور 2006 کے درميانی عرصے ميں يوايس ايڈ کی جانب سے تعليم، صحت اور معشيت کے شعبوں ميں پاکستان کو 449 ملين ڈالرز کی امداد دی گئ۔ ستمبر 2007 ميں حکومت پاکستان اور امريکہ کے درميان ايک معاہدہ طے پايا جس کی رو سے اگلے 5 سالوں ميں پاکستان کو مزيد 750 ملين ڈالرز کی امداد ملے گی۔ اس کے علاوہ اس سال فاٹا کے علاقوں ميں ترقياتی کاموں کے ليے 105 ملين ڈالرز کی امداد مختص کی گئ ہے۔

8 اکتوبر 2005 کو آنے والے زلزلے کی تباہی کے بعد يوايس ايڈ کے ادارے نے پاکستان کو فوری طور پر 67 ملين ڈالرز کی امداد دی۔ اس کے بعد ہونے والی تباہی سے نبرد آزما ہونے کے ليے اسی ادارے نے مزيد 200 ملين ڈالرز کی امداد حکومت پاکستان کو دی۔

1951 سے لے کر اب تک يوايس ايڈ کی جانب سے صرف تعليم، صحت اور معيشت کے ضمن ميں پاکستان کو جو مجموعی امداد دی گئ ہے وہ 7 بلين ڈالرز ہے۔

پاکستان کو ترقياتی کاموں کے ضمن ميں سب سے زیادہ امداد دينے والا ملک امريکہ ہے۔ دوسرے نمبر پر جاپان اور تيسرے نمبر پر برطانيہ ہے۔ اس کے بعد جرمنی، فرانس اور ہالينڈ کا نمبر آتا ہے۔

ميں نے يہ سارے اعداد وشمار کسی آرٹيکل، کتاب يا رسالے سے نہيں حاصل کيے بلکہ براہراست يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے حاصل کيے ہيں۔ يہ اعداد وشمار محض تعليم، صحت اور معيشت کے ضمن ميں ملنے والی امداد کےحوالے سے ہيں۔ اس ميں وہ امداد شامل نہيں ہے جو دہشت گردی کے خاتمے کے حوالے سے حکومت پاکستان کو براہراست دی گئ ہے۔ وہ امداد يو ايس ايڈ کے داۂرہ اختيار سے باہر ہے۔ ايک بات اور، يوايس ايڈ کا ادارہ نہ صرف حکومت پاکستان کو امداد فراہم کرتا ہے بلکہ پاکستان ميں کام کرنے والی بے شمار امدادی تنظيميں بھی اس داۂرہ کار ميں آتی ہيں۔ ان اعداد وشمار کو پيش کرنے کا مقصد يہ نہيں ہے کہ ميں آپ کے سامنے امريکہ کا مثبت اميج پيش کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ اور نہ ہی ميں امريکہ کی خارجہ پاليسی کی حمايت کر رہا ہوں۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ امريکہ کی خارجہ پاليسی کے بہت سے پہلوؤں پر تنقيد کی جا سکتی ہے۔ ليکن ميں تصوير کا دوسرا رخ آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں۔

کيا پاکستان کے ہر قومی مسلئے اور حادثے کا ذمہ دار بلواسطہ يا بلا واسطہ امريکہ کو قرار دے کر ہم اپنی قومی ذمہ داريوں سے چشم پوشی نہيں کرتے؟ حد تو يہ ہے کہ ہم صدر پرويز مشرف کی تمام تر پاليسيوں (اس بات سے قطع نظر کے وہ صحيح ہيں يا غلط) کا ذمہ دار امريکہ کو ہی ٹھراتے ہيں۔ صدر مشرف کو پاکستان کا صدر امريکہ نے نہيں بنايا۔ انہيں قومی اسمبلی ميں عوام کے منتخب کردہ نمايندوں نے 57 فيصد ووٹ دے کر ملک کا صدر بنايا ہے۔ يہی نمايندے 18 فروری کو دوبارہ عوام کے سامنے پيش ہوں گے، اگر عوام سمجھتی ہے کہ انھوں نے غلط فيصلہ کيا تھا تو ذات پات برادری اور سياسی وابستگی سے ہٹ کر ملک کے ليے صحيح فيصلہ کريں۔

کسی بھی ملک کی تقدير کے ذمہ دار"بيرونی عناصر" نہيں بلکہ اس ملک کے سياست دان ہوتے ہيں جو منتخب ہو کر اسمبليوں ميں جاتے ہيں اور ملک کے ليے قوانين بناتے ہيں۔ ليکن ہمارے ملک ميں سياست دان جب عوام کے سامنے پيش ہوتے ہيں تو اپنی کاردگی پر بات کرنے کی بجائے "کشمير ہمارا ہے" اور "امريکہ کا جو يار ہے، غدار ہے، غدار ہے" جيسے پرجوش نعرے دے کر اپنی تمام ذمہ داريوں سے ہاتھ صاف کر ليتے ہيں۔ کيا وجہ ہے کہ جو اعداد وشمار ميں نے آپ کے سامنے رکھے ہيں وہ آج تک کبھی کسی سياست دان نے پيش نہيں کيے؟

اگر امريکہ کا مقصد پاکستان کو کمزور کرنا ہے تو امريکہ پاکستان کو امداد دينے والا سب سے بڑا ملک کيوں ہے؟ جہاں تک ايٹمی اساسوں کے حوالے سے تشويش کا سوال ہے تو ميڈيا کی قياس آرائيوں اور اخباری تبصروں سے ہٹ کر ميں آپ کی توجہ امريکی سينيٹ کی ہوم لينڈ سيکيورٹی کے چيرمين جوزف ليبرمين کے اس بيان کی طرف دلواتا ہوں

"پاکستان کے ايٹمی اساسے محفوظ ہاتھوں ميں ہيں۔ ہم نے پرويز مشرف پر زور ديا ہے کہ وہ ملک ميں جمہوری انتخابات کا عمل يقينی بنائيں اور پاکستان کو دی جانے والی امداد کو صاف اور شفاف انتخابات سے مشروط قرار ديا ہے۔"


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

http://usinfo.state.gov

فواد ! چھوڑیں‌ ان اعداد و شمار کے گورکدھندوں کو۔ اس امداد نے تو ہم کو کہیں‌نہیں‌رکھا۔ ایے حقائق کی بات کرتے ہیں۔ اگر یہ امداد ذرا بھی مفید ہوتی توہمارا معاشرہ اج اٹے کی بحران میں مبتلا نہیں‌ہوتا۔ اور قوم تعلیم یافتہ ہورہی ہوتی۔ مگر حقائق اس کے برعکس ہیں۔ پھر جن نجی غیر سرکاری ایجنٹوں‌کو امریکہ جو امداد دیتا ہے وہ پاکستان میں‌معاشرے میں‌اپنی مرضی کے خیالات و معاشرت داخل کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ اکثر و بیشتر یہ امداد پاکستانی معاشرے میں انتشار کا سبب بنی ہے۔ اپ کی یہ لوجک کہ امریکہ پاکستان کو امداد دیتا ہے اس صورت میں‌ زیادہ موثر ہوتی جب پاکستانی معاشرہ بہتری کی جانب گامزن ہوتا۔ مگر چونکہ ایسانہیں‌ہورہالہذا یہ بااسانی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ یہ امداد زھرقاتل ہے۔

پھر یہ بات بھی ذھن میں‌رکھیں‌کہ ایک بڑی امداد "دھشت گردی" کے خلاف جنگ کے لیے ہے۔ یہ بات بجائے خود مضحکہ خیز ہے کہ دھشت گرد ایک ایسی جنگ کو جو دوسرے ممالک کے لوگ اپنے ملک پر غیر ملک کی افواج (بلاشبہ دھشت گرد افواج) کے خلاف لڑائی کو "دھشت گردی" گردانتےہیں۔
چلیے اس کو بھی چھوڑیں۔ مگر اپ نے جواعداد و شمار پیش کیے ہیں‌وہ 2002 سے لیکر اب تک کے ہیں۔ اور اپ نے 1951 سے اب تک کی امداد کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس 1951 کی اب تک امداد کے ثمرات کم ازکم عوام تک تو نہیں‌پہنچے۔ 2002 سے لیکر ابتک امریکہ نے ایک فوجی آمر کے ہاتھ پکے کیے جب کہ خود جہموریت کا چیمپین بنتا ہے۔ "کیا یہ کھلا تضاد نہیں؟"
پھر اپ کا تضاد مزید واضح ہوتا ہے جب اپ کہتے ہیں‌کہ میں‌امریکی پالیسی کی حمایت نہیں‌کررہا اور دوسرے لمحے اپ امریکی پالیسیوں‌ کی حمایت میں‌ اعدادوشمار پیش کررہے ہوتے ہیں؟ یہ کیا مذاق ہے؟
پھر الزام اپ پاکستانی عوام پردھر دیتے ہیں‌ کہ انھوں‌نے مشرف کو منتخب کیا۔ یہ امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ اتنا ہی اندھا ہے کہ اس کو یہ بھی نظر نہیں‌ اتا کہ مشرف کس طرح اقتدار میں‌ ایا اور اسمبلیاں‌کیسے وجود میں ائیں؟ میرا خیال ہے کہ امریکی اسٹیٹ دیپارٹمنٹ اتنا کم نظر نہیں‌مگر امریکی پالیسی کی دفاع میں کچھ بھی کیا جاسکتا ہے ۔ ہے نا؟
کیا نواز شریف کو اس بات کی سزا نہیں‌ملی کہ اس نے ایٹمی دھماکے کیے تھے؟
امريکی سينيٹ کی ہوم لينڈ سيکيورٹی اس وقت تک اس قسم کے بیانات جاری کرتی رہے گی جب تک مشرف اور پاکستانی افواج کے جرنیل کاٹھ کے الو بنے رہیں‌گے اگر کچھ اور کیا تو پھر وہ بھی "کیمیکل علی" اور "صدام" بن جائیں‌گے۔
ویسے اتنا کچھ لکھنے کے بعد مجھے ڈر ہورہا ہے کہ امریکی سی ائی اے مجھے اٹھوا ہی نہ لے۔
 

شمشاد

لائبریرین
امریکہ کے پاس لاٹھی تو ہے ناں، تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔
اور مسلمانوں میں یکجہتی نہیں ہے۔

وہ آپ نے سنا ہو گا کہ ایک بھیڑ کا بچہ ندی پر پانی پی رہا تھا اور اس سے کچھ فاصلے پر ایک چیتا بھی پانی پی رہا تھا۔ تو چیتا کہنے لگا تم میرے پانی کو جھوٹا کر رہے ہو۔ بچہ بولا لیکن پانی تو آپ کی طرف سے بہہ کر آ رہا ہے۔ چیتے نے کہا تمہاری یہ جرات کہ میری بات کو جھٹلاتے ہو۔ اب سزا بھگتو، یہ کہتے ہوے وہ بچے پر جھپٹا اور چٹ کر گیا۔
 
یہ حقیقت ہے کہ امریکہ پاکستان کو ایک بہت اچھی جگہ دیکھنا چاہتا ہے۔ ہم اس بات سے کہانیاں‌سنا کر انکار نہیں کرسکتے۔
درج ذیل خبر دیکھئے۔ درج ذیل لوگ کس طرح پاکستانیوں کی خدمت کررہے ہیں؟

جنگ کی خبر کا لنک اور متن دونوں دئے ‌ہیں۔

یہ لڑکا کہتا ہے کہ ایک مولوی نے اس کو تیار کیا کہ وہ ٹریننگ کے لئے جنوبی وزیرستان جائے۔
Shah had told his interrogators a Muslim cleric sent him to South Waziristan where he lived in Makeen, a Mehsud stronghold.
کیا یہ ہمارے روزمرہ کے مولوی ہیں جو اس طرح لڑکوں کو قتل عام کرنے کے لئے تیار کررہے ہیں؟‌ ایسا ماننا مشکل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مجرموں‌نے ہمارے معاشرے میں مولویوں کا روپ دھارا ہے کہ ان کی سب سے زیادہ عزت ہوتی ہے۔

بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر اسلامی لبادہ پہن کر کوئی کالا چور بھی آجاتا ہے تو لوگ اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ یہاں تخریب کاروں نے مذہبی رہنماؤں کا روپ دھار رکھا ہے اور معصوم بچوں کو تیار کررہے ہیں کہ جاؤ لوگوں کو برسرعام قتل کرو۔ جنگ نے یہ خبر مکمل نہیں دی، اسی خبر کا ڈان کا ورژن دیکھئے۔ اندوہناک ہے۔ واضح رہے کہ میں ‌سٹیٹ ‌ڈپارٹمنٹ ‌کے لئے کام نہیں‌کرتا لیکن فواد نے جو لکھا ہے بلا شبہ درست ہے۔ امریکہ پاکستان کے لئے خطرہ نہیں، یہ مجرم جنہوں نے مولویوں کا روپ دھار رکھا ہے، زیادہ بڑا خطرہ ہیں۔

خبر دیکھیں:
http://search.jang.com.pk/update_details.asp?nid=25560#
ڈیرہ اسماعیل خان...........جنگ نیوز..........ڈیرہ اسماعیل خان میں2خودکش حملہ آور گرفتارکرلئے گئے ہیں۔ذرائع کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان میں آج دوپہر کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے میں ایک خودکش حملہ آور کو گرفتا ر کیا جس کی عمر 15 سے 17 سال بتائی جاتی ہے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ملز م محترمہ کو قتل کر نے والے خودکش حملہ آوروں کی ٹیم میں شامل تھا اور اس کی نشاندہی پر ایک اور خودکش حملہ آور کو بھی گرفتا ر کر لیا گیا ہے جس کی عمر 18 سے 19 سال تک بتائی گئی ہے جو محر م الحرام کے موقع پر تخریب کاری کا منصوبہ بنارہاتھا۔دوسرے خود کش حملہ آور سے دھماکہ خیز موادبھی برآمد ہو اہے۔ وزارت داخلہ کی جانب سے بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے میں خودکش حملہ آور کو گرفتا رکر نے کی تصدیق کی گئی ہے تاہم دوسرے خودکش حملہ آور کے بارے میں تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں۔
 
عالمی دھشت گرد اب پاکستان میں‌دھشت گردی کا بازارگرم کرنا چاہتا ہے۔ پاکستانیوں‌کو متحد ہوکرمقابلہ کرنا پڑے گا۔ اپنے تمام معاملوں‌کو اس تناظر میں‌دیکھنے کی ضرورت ہے کہ بالاخر امریکہ پاکستان کی سرعت انگیز تباہ کن حملہ کہ صلاحیت کو چھین لینا چاہتا ہے تاکہ بے دست و پا کرکے فائدہ اٹھاتا رہے۔

امعافی چاہتا ہوں لیکن صاحب ! س سے زیادہ جہالت کی بات آج تک نہیں سنی۔ ہمت اگر امریکہ پاکستان کو کمزور کرنا چاہتا تو اس طرح کی بے وقوفی کی کاروائیوں کی ضرورت نہیں تھی۔ آپ تھوڑا سا پڑھیں اور دیکھئے کہ نہ پاکستان معشیت مظبوط ہے اور نہ ہی پاکستان کی دفاعی صلاحیت ایسی ہے کہ وہ امریکہ سے کبھی لڑسکے۔ اور پھر ہم کو امریکہ سے لڑنے کی ضرورت بھی کیا ہے۔ آپ کسی چاول کے ایکسپورٹر سے، کسی کپڑے کے ایکسپورٹر سے، کسی بھی تاجر سے پوچھئے کہ اس کی سب سے بڑی مارکیٹ کہاں ہے؟ دنیا کی صف میں کھڑا ہونا سیکھئے۔ آپ مجرمانہ پراپیگنڈے سے بہت متاثر لگتے ہیں۔

والسلام۔
 
یہ حقیقت ہے کہ امریکہ پاکستان کو ایک بہت اچھی جگہ دیکھنا چاہتا ہے۔ ہم اس بات سے کہانیاں‌سنا کر انکار نہیں کرسکتے۔
درج ذیل خبر دیکھئے۔ درج ذیل لوگ کس طرح پاکستانیوں کی خدمت کررہے ہیں؟

جنگ کی خبر کا لنک اور متن دونوں دئے ‌ہیں۔

یہ لڑکا کہتا ہے کہ ایک مولوی نے اس کو تیار کیا کہ وہ ٹریننگ کے لئے جنوبی وزیرستان جائے۔
Shah had told his interrogators a Muslim cleric sent him to South Waziristan where he lived in Makeen, a Mehsud stronghold.
کیا یہ ہمارے روزمرہ کے مولوی ہیں جو اس طرح لڑکوں کو قتل عام کرنے کے لئے تیار کررہے ہیں؟‌ ایسا ماننا مشکل ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مجرموں‌نے ہمارے معاشرے میں مولویوں کا روپ دھارا ہے کہ ان کی سب سے زیادہ عزت ہوتی ہے۔

بنیادی سوال یہ ہے کہ اگر اسلامی لبادہ پہن کر کوئی کالا چور بھی آجاتا ہے تو لوگ اسے ہاتھوں ہاتھ لیتے ہیں۔ یہاں تخریب کاروں نے مذہبی رہنماؤں کا روپ دھار رکھا ہے اور معصوم بچوں کو تیار کررہے ہیں کہ جاؤ لوگوں کو برسرعام قتل کرو۔ جنگ نے یہ خبر مکمل نہیں دی، اسی خبر کا ڈان کا ورژن دیکھئے۔ اندوہناک ہے۔ واضح رہے کہ میں ‌سٹیٹ ‌ڈپارٹمنٹ ‌کے لئے کام نہیں‌کرتا لیکن فواد نے جو لکھا ہے بلا شبہ درست ہے۔ امریکہ پاکستان کے لئے خطرہ نہیں، یہ مجرم جنہوں نے مولویوں کا روپ دھار رکھا ہے، زیادہ بڑا خطرہ ہیں۔

خبر دیکھیں:
http://search.jang.com.pk/update_details.asp?nid=25560#
ڈیرہ اسماعیل خان...........جنگ نیوز..........ڈیرہ اسماعیل خان میں2خودکش حملہ آور گرفتارکرلئے گئے ہیں۔ذرائع کے مطابق ڈیرہ اسماعیل خان میں آج دوپہر کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے میں ایک خودکش حملہ آور کو گرفتا ر کیا جس کی عمر 15 سے 17 سال بتائی جاتی ہے ۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ملز م محترمہ کو قتل کر نے والے خودکش حملہ آوروں کی ٹیم میں شامل تھا اور اس کی نشاندہی پر ایک اور خودکش حملہ آور کو بھی گرفتا ر کر لیا گیا ہے جس کی عمر 18 سے 19 سال تک بتائی گئی ہے جو محر م الحرام کے موقع پر تخریب کاری کا منصوبہ بنارہاتھا۔دوسرے خود کش حملہ آور سے دھماکہ خیز موادبھی برآمد ہو اہے۔ وزارت داخلہ کی جانب سے بینظیر بھٹو کے قتل کے مقدمے میں خودکش حملہ آور کو گرفتا رکر نے کی تصدیق کی گئی ہے تاہم دوسرے خودکش حملہ آور کے بارے میں تفصیلات ظاہر نہیں کی گئیں۔
معافی چاہتا ہوں‌مگر اس سے زیادہ جہالت شاید ہی پڑھی ہو۔ ذرا انکھیں‌کھول کر اور ذہن کو وسیع کرکے امریکی پروپیگنڈے سے ہٹ کر سوچیں۔
یہ معاملات جو بھی ہورہے ہیں‌ کس وجہ سے؟ کیا یہ امریکی جارحیت، دوسرے ممالک میں مداخلت کے صرف چھوٹے ردعمل نہیں۔ اپ معاملات کو اس کی اصل صورت میں‌کیوں‌نہیں‌دیکھتے۔ صرف چند ظاہری وہ بھی بہت محدود پیمانے پر معاملے کو روتے رہتے ہیں۔ یہ ایسے ہی کہ جیسے اندھے ہاتھی ٹٹول ٹٹول کر اس کے اعضا کو ہی ہاتھی جانتے رہے۔ پورے ہاتھی کی طرف اندھوں‌کی نظر جاتی ہی نہیں۔
غور کیجیے کیا افغان جہاد میں‌ امریکیوں‌نے اسلحے اور پروپیگنڈے کی یلغار نہیں‌کی۔ کیا یہ لوگ جو اس کو برے لگ رہے ہیں خود امریکی پیداور نہیں‌ہیں؟
کیا امریکہ نے عراق و افغانستان و سوڈان، فلسطین و ویتنام و کوریا میں‌قتل عام نہیں‌کیے۔ اپ اس عظیم قتل عام کا موازنہ اس واقعے سے کرسکتے ہیں جس میں‌صرف چند لوگ جان سے جاتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو افسوس ہے اپ کی عقل پے۔ ذرا ذھن و وسیع کریں اور معاملے کی اصل پر نظر ڈالیں۔ اندھادھند چکاچوند کے پیچھے بھاگنے سے ایسا نہ ہو جسے چکاچوند سمجھ رہے ہوں‌وہ جہنم کے گڑھے کی اگ ہو۔
 
معافی چاہتا ہوں‌مگر اس سے زیادہ جہالت شاید ہی پڑھی ہو۔ ذرا انکھیں‌کھول کر اور ذہن کو وسیع کرکے امریکی پروپیگنڈے سے ہٹ کر سوچیں۔
یہ معاملات جو بھی ہورہے ہیں‌ کس وجہ سے؟ کیا یہ امریکی جارحیت، دوسرے ممالک میں مداخلت کے صرف چھوٹے ردعمل نہیں۔ اپ معاملات کو اس کی اصل صورت میں‌کیوں‌نہیں‌دیکھتے۔ صرف چند ظاہری وہ بھی بہت محدود پیمانے پر معاملے کو روتے رہتے ہیں۔ یہ ایسے ہی کہ جیسے اندھے ہاتھی ٹٹول ٹٹول کر اس کے اعضا کو ہی ہاتھی جانتے رہے۔ پورے ہاتھی کی طرف اندھوں‌کی نظر جاتی ہی نہیں۔
غور کیجیے کیا افغان جہاد میں‌ امریکیوں‌نے اسلحے اور پروپیگنڈے کی یلغار نہیں‌کی۔ کیا یہ لوگ جو اس کو برے لگ رہے ہیں خود امریکی پیداور نہیں‌ہیں؟
کیا امریکہ نے عراق و افغانستان و سوڈان، فلسطین و ویتنام و کوریا میں‌قتل عام نہیں‌کیے۔ اپ اس عظیم قتل عام کا موازنہ اس واقعے سے کرسکتے ہیں جس میں‌صرف چند لوگ جان سے جاتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو افسوس ہے اپ کی عقل پے۔ ذرا ذھن و وسیع کریں اور معاملے کی اصل پر نظر ڈالیں۔ اندھادھند چکاچوند کے پیچھے بھاگنے سے ایسا نہ ہو جسے چکاچوند سمجھ رہے ہوں‌وہ جہنم کے گڑھے کی اگ ہو۔

پاکستانی اور مسلمانوں کا خون خودکش دھماکوں سے بہانا اور پھر ایسے مجرمانہ اقدامات کے لئے توجیہات پیش کرنا، انتہائی بچکانہ باتیں ہیں‌بھائی۔ نا آپ، نا میں، اپنی ذاتی حیثیت میں امریکی یا پاکستانی خارجہ پالیسی وضع کرنے کے قابل ہیں اور نہ ہی حقدار۔ ایسی تڑی مڑی بے کار باتوں سے کسی کو فائیدہ نہیں ہوگا۔ آپ کی اپنی ذاتی رائے ہے اور انتہائی محدود، جو بین الاقوامی تجربہ سے خالی ہے۔ امریکہ نے کیا کیا، روس نے کیا کیا، چین جاپان نے کون کون سی جنگیں لڑیں، بابر نے کہاں کہاں حملہ کیا، مسلمانوں نے کتنے ہندو مارے، ایسی کوئی جدید یا قدیم تاریخ کسی طور مجرموں کو مولوی بننے کا حق نہیں دیتی ہے۔ چھوٹے چھوٹے لڑکوں کو اجتماعی خودکشی کی تعلیم دینے کا حق نہیں‌دیتی اور بے گناہ مسلمانوں اور خصوصاَ‌ پاکستانیوں‌کے خون کا حق نہیں دیتی ہے۔ آپ ایسے لوگوں کا ساتھ دے کر، اس کے لئے توجیہات پیش کرکے، تخریب کاروں اور مجرموں کا ساتھ نہ دیں اور نہ ہی ان مجرمانہ خیالات کو فروغ دیں کہ اس طرح بم باندھ کر پاکستانیوں کا خون کرنا ایک جائز قدم ہے کیونکہ امریکہ نے ویتنام میں یہ کیا، اور روس نے یہ کیا اور تاریخ میں یہ لکھا ہے۔ یہ وجہ ہے کہ ایسی توجہیات کو بے وقوفانہ اور جاہلانہ تصور کیا جائے گا۔

سچی بات یہ ہے کہ ہر ظالم کو ظلم کا حساب دینا پڑتا ہے۔ ذرا ہندوستان کی نفرت پاکستان سے دیکھئے، اس کی کیا وجہ ہے؟ 1947 میں جو خون بہا پاکستانیوں نے ادا کیا وہ کس ظلم کا معاوضہ تھا؟ کبھی سوچا آپ نے۔ لیجئے کچھ اشعار نذر ہیں۔ بہت پہلے پڑھے تھے اگر درست نہ ہوں تو تصحیح پر ناراض نہ ہوں گا۔

بے جور و خطا جس ظالم نے معصوم ذبح کر ڈالا ہے
اس ظالم کے بھی لہو کا پھر بہتا ندی نالہ ہے
یاں دیر نہیں اندھیر نہیں، یاں عدل و انصاف پرستی ہے
اس ہاتھ سے دو، اس ہاتھ ملے، یاں سودا دست بدستی ہے

امریکہ نے پاکستان کے قیام سے آج تک جو اقدامات پاکستان کی خوشحالی کے لئے کئے ہیں‌، ان کی ایک بہت لمبی فہرست ہے۔ کراچی کورنگی میں مہاجروں کے لئےگھروں کی تعمیر، پاکستان میں پولی ٹیکنیک اداروں کا قیام، تعلیم، صحت، زراعت، ٹکنالوجی اور مالی اداروں کے لئے امداد، نہری نظام کے لئے مدد اور انجینئرنگ کے انفارمیشن اور نالج کی فراہمی، صرف ایک چھوٹی سی لسٹ ہے۔ ایک مظبوط پاکستان، امریکہ کے لئے ایک کمزور پاکستان سے بہتر ہے۔ جو باتیں سامنے ہیں ان کو دیکھئے۔ اس میں‌مکمل خیر سگالی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ ایسی نام نہاد سازشوں کا کوئی وجود نہیں جو صرف ابن صفی کے ناولوں‌میں ہی مل سکتی ہیں۔
 
دل تو نہیں‌چاہ رہا تھا کہ اپ کی اس پوسٹ کا جواب دوں‌کیونکہ اپ کو کچھ نظر ہی نہیں‌ارہا۔ اپ تو چند ٹکڑوں پر ہی خوش ہیں۔ اپنی غیرت اور حمیت ملی اور جذبہ ایمانی بیچ کر اس پر ہی خوش ہیں۔ عراق و افغانستان اور پوری دنیا میں امریکی دھشت گردی کو گٹاگٹ پینے کو تیار ہیں‌کیونکہ امریکی خیرات مل جارہی ہے۔ انھیں‌مسلمانوں‌کے قتل عام ابن صفی کے ناول نظر ارہے ہیں۔ افسوس ہے اپ کی دانش پر۔ اور اگر یہ دانش ہے تو ہم جاہل ہی بھلے۔
 
Top