نبیل نے کہا:
میں یہاں مولویوں یا علما پر تنقید پر پابندی نہیں لگانا چاہتا لیکن آپ سب دوستوں سے درخواست ہے کہ بغیر کسی سیاق و سباق کے ایسا کرنے سے گریز کریں۔
(جاری۔۔)
مجھے لگتا ہے کہ میں اپنے پیغام کو کبھی بھی صحیح طریقہ سے نہیں پہنچا پاتی ہوں، اور اسی لیے دیگر احباب اکثر میری بات کو اُن معنوں میں نہیں سمجھ رہے ہوتے جس میں میں کسی چیز کو دیکھ رہی ہوتی ہوں۔
میں نے جس سیاق و سباق کے حوالے سے علماء طبقے پر اعتراض اٹھایا تھا، پتا نہیں اس میں میں صحیح ہوں یا نہیں، مگر میں جو بات بھی کہنے کی کوشش کروں، مجھ پر لازم ہے کہ کسی کی دشمنی یا تعصب مجھے اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ میں اُس کے ساتھ انصاف نہ کروں۔
تو میرے سامنے سوالات یہ ہیں کہ کیا واقعی میں علماء طبقے کے خلاف کسی قسم کے تعصب میں مبتلا ہوں؟
اور کیا واقعی میں نے صرف اُن کی دشمنی میں آ کر بغیر کسی سیاق و سباق کے اُن پر اعتراضات کیے ہیں؟
اللہ بہتر جاننے والا ہے اور میری تو دعا یہی ہے کہ اللہ مجھے ایسی کینہ پرور عادات سے محفوظ رکھے۔ امین۔
بہرحال، میری ابتک کی رائے کے مطابق ہمارے مسلم معاشرے کا ہر ہر وہ شخص گناہگار ہے جس نے اسلامی شریعت کے اصولوں کے خلاف کوئی بھی کام کیا ہے۔
لیکن ان گناہگاروں میں بھی دو طبقے ہیں، اور میں ان میں گھوڑوں اور گدھوں کے درمیان تمیز کرنے کی قائل ہوں تاکہ ان گھوڑوں اور گدھوں کے ساتھ ان کی صفات کے مطابق انصاف ہو سکے۔
ان گناہگاروں کا پہلا طبقہ تو وہ ہے جو ان پڑھ ہے اور کم علمی کی وجہ سے ان کی اپنی کوئی ذاتی رائے نہیں۔ نہج البلاغہ میں علی ابن ابی طالب نے ایسے لوگوں کی مثال یہ دی ہے کہ یہ لوگ اُن سواری کے جانوروں کی طرح ہیں جنہیں چلانے والے ہر اُس طرف ہنکا کر لیجاتے ہیں جہاں وہ چاہیں۔
لیکن ان کی یہ کم علمی کبھی بھی اس بات کا بہانہ نہیں بن سکتی کہ انہیں ان کے غلط کاموں سے مکمل براۃ مل جائے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے انسانوں کو سب سے پیارا تحفہ عقل ہے۔ اور یہ عقل ہے جو کم علمی کے باوجود انسان کو بغیر کسی شک و شبہ کے یہ بتا دیتی ہے کہ کیا چیز صحیح ہے اور کیا چیز غلط۔
ان گناہگاروں کا دوسرا گروہ ہے وہ صاحبان علم، جنہیں شریعت کے تمام اصولوں کا علم ہے، مگر پھر بھی انہوں نے شریعت کے اس حصے کو چھپا کر رکھا اور عوام الناس تک پیغام صحیح طریقے سے نہیں پہنچایا اور نہ اس کی تبلیغ صحیح طریقے سے کی۔
صحیح طریقے سے تبلیغ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر انہوں نے عوام الناس تک پیغام صحیح طریقے اور بھرپور طریقے سے پہنچایا ہوتا، تو عوام الناس بھی اس گناہ سے بچ جاتی۔
میں پھر وہی مثال دہراؤں گی کہ علم دین نے جو قتل کیا، اگرچہ کہ وہ دین اسلام کے بالکل خلاف تھا، مگر پھر بھی وہ عوام الناس کا ہیرو بن گیا اور اس کی تقلید میں اور بھی بہت سے علم دین پیدا ہو گئے جو کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لینا عین عبادت سمجھنے لگے۔
اب اس سلسلے میں عوام الناس کم قصوروار ہیں، جبکہ بہت بڑا کریڈٹ اہل علم پر جاتا ہے جنہوں نے جانتے بوجھتے عوام الناس کو صحیح چیز کی تبلیغ نہیں کی۔
یہ ہے وہ گھوڑے اور گدھے کی تمیز، جو اس معاملے میں انصاف کا تقاضہ ہے۔
اور اس اہل علم دائرے میں صرف علماء ہی نہیں، بلکہ دیگر غیر مولوی اہل علم و دانش بھی موجود ہیں۔ مگر چونکہ یہ ایک مذہبی معاملہ ہے، چنانچہ عوام الناس عام اہل دانش کی بہ نسبت اس معاملے میں علماء کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں، اس لیے ان گناہوں کی سب سے بڑی ذمہ داری بھی علماء پر ہی عائد ہوتی ہے۔
اب اگر مولوی حضرات نے اگرچہ کہ خود بھی بلا واسطہ Direct کوئی سفارت خانہ یا گاڑیاں یا دیگر املاک نہیں جلائیں، مگر بالواسطہ Indirectly وہ پھر بھی گناہگار ہیں کیونکہ وہ اپنے فرائض صحیح طور پر نہیں انجام دے رہے۔
اس کی ایک مثال میں آپ کو یوں دوں گی کہ ایک فرقے کے عوام الناس دوسرے فرقے کے بڑوں کو برا بھلا کہہ رہے ہوں، اور عالم دین وہاں موجود ہو اور وہ اپنے فرقے کے عوام الناس کو اس سے منع نہیں کرتا۔
تو اب اگرچہ کہ وہ عالم دین خود ذاتی طور پر برا بھلا نہ بھی کہے، مگر پھر بھی سب سے بڑا ذمہ دار/ گناہگار وہ ہے۔
میں نے اپنے تئیں تو پھر سے بھرپور کوشش کی ہے کہ اپنا پیغام آپ حضرات تک پہنچاؤں۔ اگر آپ لوگ اب بھی محسوس کرتے ہیں کہ مولوی طبقے پر اس معاملے میں تنقید کرنے کے لیے کوئی سیاق و سباق موجود نہیں ہے، تو پھر میری طرف سے معذرت قبول فرمائیے کیونکہ میں آپ کی اس رائے سے شاید متفق نہ ہو پاؤں۔
آخر میں علامہ اقبال کا ایک شعر:
فطرت افراد سے اغماض بھی کر لیتی ہے
کبھی کرتی نہیں مگر ملت کے گناہوں کو معاف
چنانچہ، یہ وہ گناہ ہیں جو کہ انفرادی بنیادوں پر نہیں، بلکہ ملی سطح پر ہو رہے ہیں اور مجھے کوئی ایسا رُجل نظر نہیں آتا جو عوام الناس کو آ کر کبھی حق بات کی تبلیغ بھی کرے۔ مجھے واقعی ڈر لگنے لگا ہے کہ کہیں فطرت جلد ہی ہم پر غضبناک نہ ہو جائے۔