نیرنگ خیال
لائبریرین
الف نظامی صاحب کی طرف سے شروع کیئے دھاگے سے جیسے ہی پتہ چلا کہ ایسی اک تقریب اسلام آباد میں منعقد کی جانے والی ہے۔ جس میں سید شاکرالقادری کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے ان کو اردو ویب کی طرف سے اک ہدیہ عقیدت پیش کیا جائے گا۔ تو ذہن اسی وقت بنا لیا کہ اس تقریب میں لازماً شامل ہوا جائے گا۔ بقول الف نظامی بھائی غالباً میں ہی وہ پہلا آدمی تھا جس نے اس تقریب میں شمولیت کے لیئے اپنا نام لکھوایا تھا۔ ظاہر ہے الف نظامی بھائی سے پہلا تو نہ تھا کہ وہ تو منتظم تھے۔ خیر شدت سے اس دن کا انتظار کرنے لگا۔ اسی دوران لاہور والے احباب سے بھی رابطہ ہوا اور انہوں نے بھی اپنی شمولیت کو یقینی بنانے کا اظہار کیا۔ دو نومبر بروز اتوار کو تقریب پر جانے کے لیئے تیاری کی۔ 2بجے کا وقت مقرر تھا۔ مگر میں ساڑھے گیارہ تک مکمل تیار تھا۔ لاہور سے ساجد بھائی، عاطف بٹ اور باباجی (پینو والے) کی آمد کی اطلاع بھی موصول ہو چکی تھی۔
اب درمیان کی تفصیلات کو حذف کرتے ہیں۔ تو جناب میں جا پہنچا سیدھا اکادمی ادبیات۔ ذوالفقار علی بھٹو کی 1976 کی بنوائی ہوئی اس پرشکوہ عمارت میں داخل ہوا تو اک بار تھوڑا سا اعتماد کھو بیٹھا۔ الماریوں میں جابجا کتابیں سجی ہوئیں تھیں۔ میں نے زندگی میں اتنی کہانیاں نہیں پڑھیں تھیں جتنی الماریوں میں کتابیں سجی تھیں۔ داخلی دروازے سے داخل ہوا تو دیکھا کہ قائد اعظم اور شاعر مشرق مجھے گھور رہے ہیں۔ جیسے کہہ رہے ہوں کہ تیرا ادھر کیا کام۔ اس خیال سے رہے سہے اوسان بھی خطا ہوگئے۔ معذرت کی کہ قبلہ خود نہیں آیا۔ ان لوگوں نے صرف اردو ویب کا رکن ہونے کے ناطے دعوت نامہ دیا اور میں بھی شوخی شوخی میں چلا آیا۔ سیڑھیوں پر پاؤں رکھا تو فیض احمد فیض نے گھورنا شروع کر دیا۔ میں نے فیض سے تکرار مناسب نہ سمجھی اور جلدی جلدی سیڑھیاں چڑھ کر کانفرس والے ہال کی طرف جانے کی کوشش کی۔ مگر یہ کیا۔ گیلری کے دروازے پر جناب منیر نیازی۔ میں نے گھڑی دیکھی۔ 2 بج کر 5منٹ ہو چکے تھے۔ میں نے گھڑی منیر نیازی کو دکھا کر راہداری میں قدم رنجہ فرما دیا۔ مگر ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ ادیب ہی ادیب میری طرف نظریں جمائے بیٹھے تھے۔ میں نے پلٹ کر واپس جانا چاہا تو جون ایلیاء کی تصویر کچھ یوں گویا ہوئی۔ کاکا کدھر۔ میں دوبارہ گھوم گیا۔ تو نظر دروازے پر پڑ گئی۔
اب میں نے جلدی سے اپنا فون نکالا کے ان ادیبوں کا بتاؤں یوں تصویروں میں بیٹھ کر یہ مجھے نہیں پریشان نہیں کر سکتے۔ فون ملانے کے دوران ہی کانفرس روم میں داخل ہوگیا۔ تو نظر اک وجیہہ شخصیت پر پڑی جس کا سر چھت سے اک آدھ انچ ہی نیچے تھا۔ بعد میں پتہ چلا یہ موصوف سعادت ہیں۔ اسی دوران ساتھ کھڑے باوقار شخص نے فون اٹنڈ کر کے میرے سے بات شروع کر دی۔ اور چھوٹتے ہی مجھے کانفرس روم کا راستہ سمجھانا شروع کر دیا۔ سعادت بھائی ان کی اس ادائے کافری پر اک ادائے رندانہ سے مسکرائے۔ یہ دونوں ادائیں ابھی تک ذہن کے تختے پر نقش ہیں۔ الف نظامی بھائی جس گرمجوشی سے مجھے ملے۔ میرے لیئے وہ قابل فخر ہے۔ اس گرمجوشی اور محبت بھرے خوش آمدید سے میرے ذہن پر جو تہہ حاوی ہوتی جا رہی تھی کہ بچہ آج تو ادب ہی ادب وہ ذرا اترتی محسوس ہوئی۔ سعادت بھائی سے بھی دو چار الفاظ کا تبادلہ ہوا اور پتہ چلا کہ انکی رکنیت کی عمر محفل کی عمر سے کوئی اک آدھا سال ہی کم ہے۔ اس کم عمری پر مجھے اک جلن کا احساس ہوا۔ سید زبیر سر سے ملاقات ہوئی۔ بے انتہا شفقت اور محبت سے وہ ملے۔ انکے ساتھی سے بھی تعارف ہوا۔ مگر انہوں نے کچھ ہی لمحوں بعد دھواں اڑانے کے بہانے اجازت چاہی۔
اب میں نے ہال پر اک طائرانہ نگاہ ڈالنا چاہی۔ مگر الف نظامی بھائی مجھے بٹھانے کے چکر میں تھے۔ شائد انہیں ڈر تھا کہ بلونگڑا ادھم مچا کر کرسیوں کی ترتیب نہ خراب کر دے۔ یا اور ایسے اندیشے جو انکے ذہن میں ہوں۔ واللہ اعلم۔ مگر ہم کہاں بیٹھنے والے تھے۔ خالی ہال کی دیواروں کو دیکھا تو ہر دیوار پر ادیب یوں لٹکے نظر آئے جیسے ادب سے محبت کرنے والوں کے انتظار میں پتھر ہو گئے ہیں۔ اک مصرعہ دل میں دھڑکن سی بن گیا۔
اب درمیان کی تفصیلات کو حذف کرتے ہیں۔ تو جناب میں جا پہنچا سیدھا اکادمی ادبیات۔ ذوالفقار علی بھٹو کی 1976 کی بنوائی ہوئی اس پرشکوہ عمارت میں داخل ہوا تو اک بار تھوڑا سا اعتماد کھو بیٹھا۔ الماریوں میں جابجا کتابیں سجی ہوئیں تھیں۔ میں نے زندگی میں اتنی کہانیاں نہیں پڑھیں تھیں جتنی الماریوں میں کتابیں سجی تھیں۔ داخلی دروازے سے داخل ہوا تو دیکھا کہ قائد اعظم اور شاعر مشرق مجھے گھور رہے ہیں۔ جیسے کہہ رہے ہوں کہ تیرا ادھر کیا کام۔ اس خیال سے رہے سہے اوسان بھی خطا ہوگئے۔ معذرت کی کہ قبلہ خود نہیں آیا۔ ان لوگوں نے صرف اردو ویب کا رکن ہونے کے ناطے دعوت نامہ دیا اور میں بھی شوخی شوخی میں چلا آیا۔ سیڑھیوں پر پاؤں رکھا تو فیض احمد فیض نے گھورنا شروع کر دیا۔ میں نے فیض سے تکرار مناسب نہ سمجھی اور جلدی جلدی سیڑھیاں چڑھ کر کانفرس والے ہال کی طرف جانے کی کوشش کی۔ مگر یہ کیا۔ گیلری کے دروازے پر جناب منیر نیازی۔ میں نے گھڑی دیکھی۔ 2 بج کر 5منٹ ہو چکے تھے۔ میں نے گھڑی منیر نیازی کو دکھا کر راہداری میں قدم رنجہ فرما دیا۔ مگر ہاتھوں کے طوطے اڑ گئے۔ ادیب ہی ادیب میری طرف نظریں جمائے بیٹھے تھے۔ میں نے پلٹ کر واپس جانا چاہا تو جون ایلیاء کی تصویر کچھ یوں گویا ہوئی۔ کاکا کدھر۔ میں دوبارہ گھوم گیا۔ تو نظر دروازے پر پڑ گئی۔
اب میں نے جلدی سے اپنا فون نکالا کے ان ادیبوں کا بتاؤں یوں تصویروں میں بیٹھ کر یہ مجھے نہیں پریشان نہیں کر سکتے۔ فون ملانے کے دوران ہی کانفرس روم میں داخل ہوگیا۔ تو نظر اک وجیہہ شخصیت پر پڑی جس کا سر چھت سے اک آدھ انچ ہی نیچے تھا۔ بعد میں پتہ چلا یہ موصوف سعادت ہیں۔ اسی دوران ساتھ کھڑے باوقار شخص نے فون اٹنڈ کر کے میرے سے بات شروع کر دی۔ اور چھوٹتے ہی مجھے کانفرس روم کا راستہ سمجھانا شروع کر دیا۔ سعادت بھائی ان کی اس ادائے کافری پر اک ادائے رندانہ سے مسکرائے۔ یہ دونوں ادائیں ابھی تک ذہن کے تختے پر نقش ہیں۔ الف نظامی بھائی جس گرمجوشی سے مجھے ملے۔ میرے لیئے وہ قابل فخر ہے۔ اس گرمجوشی اور محبت بھرے خوش آمدید سے میرے ذہن پر جو تہہ حاوی ہوتی جا رہی تھی کہ بچہ آج تو ادب ہی ادب وہ ذرا اترتی محسوس ہوئی۔ سعادت بھائی سے بھی دو چار الفاظ کا تبادلہ ہوا اور پتہ چلا کہ انکی رکنیت کی عمر محفل کی عمر سے کوئی اک آدھا سال ہی کم ہے۔ اس کم عمری پر مجھے اک جلن کا احساس ہوا۔ سید زبیر سر سے ملاقات ہوئی۔ بے انتہا شفقت اور محبت سے وہ ملے۔ انکے ساتھی سے بھی تعارف ہوا۔ مگر انہوں نے کچھ ہی لمحوں بعد دھواں اڑانے کے بہانے اجازت چاہی۔
اب میں نے ہال پر اک طائرانہ نگاہ ڈالنا چاہی۔ مگر الف نظامی بھائی مجھے بٹھانے کے چکر میں تھے۔ شائد انہیں ڈر تھا کہ بلونگڑا ادھم مچا کر کرسیوں کی ترتیب نہ خراب کر دے۔ یا اور ایسے اندیشے جو انکے ذہن میں ہوں۔ واللہ اعلم۔ مگر ہم کہاں بیٹھنے والے تھے۔ خالی ہال کی دیواروں کو دیکھا تو ہر دیوار پر ادیب یوں لٹکے نظر آئے جیسے ادب سے محبت کرنے والوں کے انتظار میں پتھر ہو گئے ہیں۔ اک مصرعہ دل میں دھڑکن سی بن گیا۔
اسکو کہتے ہیں انتظار میاں
الف نظامی بھائی سٹیج کے پاس جا کر کچھ اوراق خاکی لفافوں میں لپیٹنے لگے۔ میں انہیں وہ لفافے سمجھا جن کا تذکرہ صحافت میں عام ہے۔ مگر بعد میں پتہ چلا ان اوراق پر کچھ قیمتی باتیں درج ہیں۔ اسی کام کے دوران ہم نے شیلڈ کی تصاویر کھینچ لیں۔ الف نظامی بھائی نے دبے الفاظ میں وقت کی پابندی پر روشنی ڈالی۔ مگر الحمداللہ ہم صرف پانچ منٹ لیٹ تھے۔ لہذا کچھ خاص پریشان نہ ہوئے۔ یعنی کے اس بات کو دل پر نہ لیا۔ سٹیج کے سامنے صوفے تھے جو غالباً قابل احترام ساتھیوں کے لیئے تھے۔ مگر الف نظامی بھائی نے بتایا کہ میں بھی ان پر بیٹھ سکتا ہوں۔ مگر ہم اتنے دلیر ثابت نہ ہوئے۔ اور دوسری رو میں کرسیوں کی پہلی قطار میں براجمان ہو گئے۔
آہستہ آہستہ احباب کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ افتخار احمد بھوپال صاحب تشریف لے آئے۔ اسکے بعد تلمیذ سر تشریف لائے۔ اور بے انتہا شفقت سے ملے۔ انکے خلوص اور محبت کے باعث ہم نے سوچا کہ بیٹھے بیٹھے اس تلمیذ کو استاد اور خود کو انکا تلمیذ کر لیا جائے۔ اسکے بعد مہمانان گرامی داخل ہوئے۔ اور صوفوں پر براجمان ہو گئے۔ الف نظامی بھائی نے سٹیج سنبھال لیا۔ اور مہمانان خصوصی ڈاکٹر ارشد محمود ناشاد، سید شاکرالقادری اور صدر چیئرمین اکادمی ادبیات کو سٹیج پر سجی کرسیوں پر تشریف آوری کی دعوت دی گئی۔
الف نظامی بھائی نے اپنی خوبصورت آواز میں تلاوت قرآن پاک سے تقریب کا باقاعدہ آغاز کیا۔ اسکے بعد سید بلال نے اپنی بے حد خوبصورت آواز میں حضور کے حضور نعتیہ ہدیہ عقیدت پیش کیا۔ جس نے تمام سامعین کرام بشمول فدوی کو مسحور کر دیا۔ ماشاءاللہ۔
(جاری ہے)
نوٹ: تمام احباب سے التماس ہے کہ اس دھاگے میں تبصرے کرنے سے گریز کریں۔ جب تک میں مکمل روداد نہیں لکھ لیتا۔ اسکے بعد یہی روداد تصویری شکل میں بھی پیش کی جائے گی۔ میرے پاس دوستوں کی تصاویر تو اتنی نہیں ہیں۔ مگر جو ہیں پیش کر دیں جائیں گی۔ ویسے بھی احباب کی تمام تصاویر تو پیش ہو ہی چکی ہیں۔