ہم ایسے استاد کے متعلق جاننا مزید چاہیں گے. محترم عرفان، آپ کو عرفانِ ذات استاد سے ملتا چاہے دنیاوی ہو یا دینی ... یہ تو اچھا لگا پڑھ کے بُہت
ارادہ ہے کہ اپنے محبوب استاد کے لیے تفصیل سے کچھ لکھ کے محفل میں بھی شیئر کروں گا۔ فی الحال اتنا کہوں گا کہ نویں جماعت میں کلاس کے ۱۱۴ طالبعلموں میں ۱۳ ویں نمبر پر تھا۔ ایسا عظیم استاد کے جس نے علم کی وہ تڑپ پیدا کی کہ میٹرک کے بورڈ کے امتحانات میں پورے سکول کے ہزار طالب علموں میں دوسری پوزیشن پر تھا۔
ان کے اندازِ تدریس کے اسالیب اس قدر جدت و ندرت لیے ہوئے تھے کہ آج بھی سوچتا ہوں تو مسحور ہو جاتا ہوں۔
کاتبِ تقدیر نے آپ سے پوچھا تھا، کیا تھا من میں؟ یہ داستان کیمسٹری سے ہٹ کے تھی؟
بقول شاعر
خودی کو کر بلند اتنا ..........
من تو نجانے کیا تھا۔ لیکن داستان کیمیا کی ہی تھی۔
اک فاتح، اک شاعر اک سائنس دان ... تعجب ہے! سمت ہا سمت چلوں .. کبھی ادھر تو کبھی ادھر
اسکندر؛ بلاشبہ عظیم فاتح، لیکن ایک ایسا انسان جو اپنے عزائم کی تکمیل میں خون کا آخری قطرہ بھی بہا دینا جانتا ہے۔
ہومر: انسانی جذبات و احساسات کو تخیل کی انتہائی بلند ترین پرواز کے ساتھ لطفِ گویائی سے آشنا کرتا ہے۔
آئن سٹائن: زمان و مکان کو اس طرح بیان کرتا ہے گویا کائنات اور اس کے اندر وقت کے بہاؤ کی خمیدگی کو اپنے ہاتھوں سے محسوس کر رہا ہو۔
سنا ہے کہ خام علم جلالت میں بھی گمراہ کردیتا
کیا خیال ہے؟
"سنا ہے کہ خام علم جلالت میں بھی گمراہ کردیتا" آپ کی بات سے سو فیصد متفق ہوں۔ لیکن میری کوتاہیٔ سخن کہ اپنی بات کا ٹھیک سے ابلاغ نہیں کر پایا۔
کسی علمی منصوبے کی تکمیل اور اس کے مندرجات کی پختگی اور مشاقی بالکل دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ اس معاملے میں آخر الذکر بات کو یقین کے آخری درجے میں درست سمجھتا ہوں۔
جذباتی عمل پر یقین رکھتے ہیں؟
بالکل۔ شدید محبت میں تو عقل کو ٹھوکر مار دیتا ہوں۔
آپ تقاضے سمجھ چکے تو بتایے کہ آپ کے مرکبات ِِ روح کے کیا تقاضے تھے؟ ان کی کیمیا گری کیسے کی؟
عقل و شعور کی تسکین زندگی اور تعلیم میں۔
عمل کو اعلی اخلاقیات کا پابند کرکے۔
جذبات و احساسات کو آفاقی جمالیات سے متعلق کر کے۔
کیمیا گری کی کاوش جاری ہے۔