یعنی آپ مابعد طبیعات پر یقین رکھتے ہیں، لگے ہاتھوں یہ بھی بتادیں سٹرنگ تھیوری کے مستقبل کے بارے میں آپ کا.کیا خیال.ہے؟ "
انسان کا وجود سراسر مادی تو نہیں ہے۔انسان کی اصل تو اسکا نفس، اس کی شخصیت ہے، جو اپنی حیثیت میں ایک پوری کائنات ہے اور جس کی توضیح طبیعاتی قوانین سے تو نہیں ہو سکتی۔
طبیعات میرا میدان نہیں اور سٹرنگ تھیوری کا ذکر ایک دوست سے سنتا رہتا ہوں۔ زیادہ معلومات نہیں ہیں تو کوئی تبصرہ کرنا بھی مناسب نہیں ہو گا۔
البتہ ایک اصولی بات عرض کرتا چلوں۔کوئی بھی سائنسی نظریہ معلوم حقائق کی توجیہہ کرنے کے لیے وضع کیا جاتا ہے۔ نئے حقائق کی دریافت یا تو اس نطریے کو مستحکم کرتی ہے یا ایک نئے نظریے کی ضرورت کا اشارہ کرتی ہے۔ دیکھیے ارسطو کے بنائے ہوئے علم کے محل کو نیوٹن کی سائنس نے مسمار کیا، اور نیوٹن کے بنائے ہوئے قصر کو آئن سٹائن نے گرا دیا۔ یہ علم کی دنیا ہے اور یہ اس کی ریت ہے۔
من تو نہ جانے کیا تھا .........! داستان کیمیا کی ہی تھی. ..... کیا جملے ہیں! مار ڈالا ان جملوں سے آپ نے ..... کچھ پردہ اس داستان سے اٹھایے، ہم.جیسوں کا بھلا ہو جائے گا.
یعنی نویں جماعت میں کلاس کے سب سے کم درجے پر ہوں۔ اس کے بعد ان کی غیر معمولی تدریس نے فکر و عمل میں انقلاب برپا کر دیا۔ ذیل کا جواب اس کو مزید واضح کر رہا ہے۔
واہ واہ خوب... انداز لیکچر بیسڈ تھا یا ایکٹیوٹی؟ یا وہ خود اک ایسا "خیال " تھے جنہوں نے آپ کے "خیال " کو جڑ سے نمو دی، گویا تخم بیج سے گلستان کردیا.؟
مختصر طور پر عرض کیے دیتا ہوں۔
۱۔ لیکچر کا انداز تو کمال تھا ہی۔ غیر مرئی اور دقیق سائنسی تصورات کو اس انداز سے بیان کرنا کہ گویا زندہ حقیقتیں ہیں جو آپ کے قرب و جوار میں موجود ہیں، جو آپ سے ہم کلام ہوتی ہیں، آپ ان کی سانسوں کی دھڑکنوں کو محسوس کرتے ہیں، جو آپ کو پکار پکار کر کہہ رہی ہوں کہ ہمیں طبعی دنیا کے قفس میں مت بند کرو۔ ہم مماثل شکلوں میں تمہاری زندگی کے قدم قدم پر بھی موجود ہیں۔
۲۔ دوسری خصوصیت پوری کلاس کو ایک اکائی میں تبدیل کر دینا ہے۔ طالب علموں میں مسابقت بھی ہے لیکن موافقت بھی انتہا درجے کی ہے۔ ہر طالب علم نصابی سرگرمیوں میں دوسروں کی مدد کرنے کے لیے ہر دم تیار ہے۔
۳۔ تیسری چیز ہمارے اند یہ شعور پیدا کرنا تھا کہ نمبروں کی اندھی میراتھن میں دوڑنے کی بجائے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کی آبیاری حصولِ علم کا منتہائے مقصود ہے۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ رٹے کی بجائے ہم نصاب کی ہر چیز کا بے لاگ جائزہ لیتے اور نئے زاویے تلاش کرنے کی کوشش کرتے۔
۴۔ بحیثیت انسان اس دانش کو ہمارے اندر پروان چڑھایا کہ شدید اختلافات کو بھی تہذیب و شائستگی کی چاردیواری کے اندر رہنا چائیے۔
مزید تفصیل اور مثالیں کسی اور موقع کے لیے۔