حشو و زوائد کے بارے میں:
حشو کے لغوی معنی تو ٹھونسنے کے ہیں لیکن علم الکلام کی اصطلاح میں اس زائد لفظ کو کہا جاتا ہے جو عبارت کے معنی میں کوئی اضافہ نہ کرے اور جس کے حذف کرنے سے عبارت کے معنی میں کوئی فرق نہ آئے ۔ بلکہ حشو کو نکالنے سے کلام کی خوبی اور حسن میں اضافہ ہوجاتا ہے ۔عام طور پر حشو کے بجائے حشو و زوائد کی اصطلاح بھی دیکھنے میں آتی ہے ۔ عملی طور پر ان دونوں اصطلاحات سے ایک ہی بات مراد ہے ۔
علما نے حشو کی دو اقسام بیان کی ہیں ۔ پہلی قسم کو
حشوِ ملیح کہا جاتا ہے ۔ اس کی مثال یوں ہے جیسے کسی کے نام کے آگے دعا ، تحسین، توضیح وغیرہ کے لئے کلمات کا اضافہ کرنا ۔ مثلاً رحمۃ اللہ علیہ ، رضی اللہ عنہ ، شاعرِ مشرق وغیرہ ۔ جیسا کہ نام سے ظاہر یہ حشو برا نہیں ۔ اور یہ عام طور پر شعر میں استعمال بھی نہیں کیا جاتا ۔ نثر میں البتہ عام ہے ۔
دوسری قسم کو
حشوِ قبیح کہا گیا ہے ۔ یہ وہ کلمہ یا کلمات ہیں کہ جو عبارت کے معانی میں کوئی اضافہ نہیں کرتے ۔ بلکہ انہیں داخلِ عبارت کرنے سے زبان و بیان کا معیار متاثر ہوتا ہے اور بعض اوقات معانی میں خلل بھی پیدا ہوجاتا ہے ۔ حشو قبیح کئی طرح کا ہوسکتا ہے ۔
تکرار: ہم معنی الفاظ کا استعمال ۔ مثلاً اس کی
شجاعت اور دلیری کے
واقعات و کہانیاں مشہور ہیں ۔ میرے دل میں اس کی بہت
عزت اور احترام ہے ۔
طویل نویسی یا دراز نویسی: کسی بات کو براہِ راست اور کم الفاظ میں بیان کرنے کے بجائے الفاظ زیادہ کرنا ۔ مثلاً اس نے راستہ طے کیا کے بجائے اس نے راستے کو طے کیا ۔ آخر کار وہ مان گیا کے بجائے وہ آخر میں آکر مان گیا ۔ وغیرہ
حشوِ زائد: سنگِ حجرِ اسود ، فصلِ بہار کا موسم ، بمع وغیرہ
سید علی رضوی