" عشق " پر اشعار

جاسمن

لائبریرین
عشق میں ڈوب کے جو کچھ بھی لکھوں کاغذ پر
خود بخود لوح زمانہ پہ رقم ہو آمین
رحمان فارس
 

Afzal

محفلین
چلنے کا حوصلہ نہیں، رُکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مُجھ کو نڈھال کر دیا

ملتے ھوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی
اُس نے مگر بچھڑتے وقت کوئی اور سوال کر دیا

اے میری گُل زمیں تُجھے چاہ تھی اک کتاب کی
اہل کتاب نے مگر، کیا تیرا حال کر دیا

ممکنہ فیصلوں میں اک حجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی، اُس نے کمال کر دیا

میرے لبوں پہ مُہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو
شہر کے شہر کو میرا واقف حال کر دیا

چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے
وقت نے کس شبیہہ کو، خواب و خیال کر دیا

(پروین شاکر)
 

جاسمن

لائبریرین
عشق اعلان سے پہلے تھا شناورؔ کیا چیز
حسن اظہار خیالات سے پہلے کیا تھا
شناور اسھاق
 

سیما علی

لائبریرین
مولانا رومؒ فرماتے ہیں:

عشق آں شعلہ است کہ چوں بر افروخت
ہر چہ جز معشوق باشد جملہ سوخت​

ترجمہ: عشق ایسا شعلہ ہے کہ جب بھڑک اُٹھتا ہے تو معشوق (حقیقی) کے سوا تمام چیزوں کو جلادیتا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
میاں محمد بخش رحمتہ ﷲ علیہ فرماتے ہیں:

جنہاں عشق خرید نہ کیتا عیویں آ بھگتے
عشقے باہجھ محمد بخشا کیا آدم کیا کتے​

ترجمہ: جنہوں نے اس دنیا میں عشق کا سودا نہ کیا اُن کی زندگی فضو ل اور بے کار گزری۔ عشق کے بغیر آدم اورکتے میں کوئی فرق نہیں ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
شاہ شمس تبریز رحمتہ اللہ علیہ عشقِ مرشد کے بارے میں فرماتے ہیں:

عشق معراج است سوئے بام سلطانِ ازل
از رخِ عاشق فرو خواں قصۂ معراج را​

ترجمہ: عشقِ حقیقی معراج ہے اور عشق ہی بارگاہِ ایزدی میں باریابی دلاتا ہے۔ اگر معراج کی داستانِ حقیقی پڑھنی ہے تو کسی عاشق صادق (مرشد کامل) کے چہرہ پر نظر جماؤ۔!!!!!!!
 

سیما علی

لائبریرین
بلھے شاہؒ کے نزدیک بھی عشقِ مجازی عشقِ حقیقی کا سرچشمہ ہے۔ عشقِ مجازی سے عشقِ حقیقی پیدا ہوتا ہے۔

جے چر نہ عشق مجازی لاگے
سوئی سیوے نہ بن دھاگے
عشق مجازی داتا ہے
جس پچھے مست ہو جاتا ہے​

ترجمہ: اگر مرشد سے عشق نہ ہو تو انسان خدا تک نہیں پہنچ سکتا۔ جس طرح دھاگے کے بغیر سوئی سلائی نہیں کر سکتی اِسی طرح عشقِ مجازی کے بغیر عشقِ حقیقی تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ عشقِ مجازی داتا ہے، جسے نصیب ہو جائے وہ مست ہو جاتا ہے۔!!!!!!!!
 

سیما علی

لائبریرین

چوں تمام افتد سراپا ناز می گردد نیاز
قیس را لیلیٰ ہمی نامند در صحرائے من
(پیامِ مشرق)​

ترجمہ: جب عشق کمال کو پہنچ جاتا ہے تو وہ سراپا ناز (محبوب) کی صورت اختیار کر لیتا ہے، چنانچہ میرے صحرائے عشق میں قیس کو لیلیٰ کہا جاتا ہے۔ یعنی عاشق کا عشق جب کمال کو پہنچ جاتا ہے تو عاشق گویا خود معشوق بن جاتا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
مولانا رومؒ کا قول ہے ’’ ہم عشقِ ﷲ کو علم وعقل سے بیان نہیں کرسکتے۔‘‘
آپؒ فرماتے ہیں:

عشق آمد عقل خود آوارہ شد
شمس آمد شمع خود بیچارہ شد​

ترجمہ: عشق آ گیا تو عقل بے چاری بے کار ہوگئی جیسے سورج نکلا تو شمع کی ضرورت نہ رہی۔
 
Top