چلنے کا حوصلہ نہیں، رُکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مُجھ کو نڈھال کر دیا
ملتے ھوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی
اُس نے مگر بچھڑتے وقت کوئی اور سوال کر دیا
اے میری گُل زمیں تُجھے چاہ تھی اک کتاب کی
اہل کتاب نے مگر، کیا تیرا حال کر دیا
ممکنہ فیصلوں میں اک حجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی، اُس نے کمال کر دیا
میرے لبوں پہ مُہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو
شہر کے شہر کو میرا واقف حال کر دیا
چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے
وقت نے کس شبیہہ کو، خواب و خیال کر دیا
(پروین شاکر)