" عشق " پر اشعار

سارہ خان

محفلین
چلنے کا حوصلہ نہیں، رُکنا محال کر دیا
عشق کے اس سفر نے تو مُجھ کو نڈھال کر دیا

ملتے ھوئے دلوں کے بیچ اور تھا فیصلہ کوئی
اُس نے مگر بچھڑتے وقت کوئی اور سوال کر دیا

اے میری گُل زمیں تُجھے چاہ تھی اک کتاب کی
اہل کتاب نے مگر، کیا تیرا حال کر دیا

ممکنہ فیصلوں میں اک حجر کا فیصلہ بھی تھا
ہم نے تو ایک بات کی، اُس نے کمال کر دیا

میرے لبوں پہ مُہر تھی پر میرے شیشہ رو نے تو
شہر کے شہر کو میرا واقف حال کر دیا

چہرہ و نام ایک ساتھ آج نہ یاد آ سکے
وقت نے کس شبیہہ کو، خواب و خیال کر دیا

(پروین شاکر)
 

سارہ خان

محفلین
شعر غزل قطعہ نظم جو دل چاہے لکھ دیں ۔۔ پہلے والا تھریڈ مقفل ہو گیا تھا نہ ۔۔ اس لئے نیا کھول دیا۔۔۔:cat:
 

شمشاد

لائبریرین
دل عشق میں بے پایاں، سودا ہو تو ایسا ہو
دریا ہو تو ایسا ہو، صحرا ہو تو ایسا ہو

اس درد میں کیا کیا ہے، رسوائی بھی لذّت بھی
کانٹا ہو تو ایسا ہو، چھبتا ہو تو ایسا ہو​
 

بلال

محفلین
شرعِ محبت میں عشرتِ منزل حرام
شورشِ طوفاں حلال لذتِ ساحل حرام
عشق پے بجلی حلال عشق پے حاصل حرام
 

شمشاد

لائبریرین
تا عمر وہی کارِ زیاں عشق رہا یاد
حالانکہ یہ معلوم تھا اُجرت نہ ملے گی
(پیرزادہ قاسم)
 

سارہ خان

محفلین
رنجِ خزاں سے موج ہوائے بہار تک
وہ خوب سلسلہ تھا کہ آنکھوں کو تر کیا

ہم پہ تھا ایک عشق کا سایہ کہ ساری عمر
اپنی ہی روشنی میں کیا‘ جو سفر کیا۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
نہ وہ عشق میں رہیں گرمیاں، نہ وہ حسن میں رہیں شوخیاں
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی، نہ وہ خم ہے زلف ایاز میں
(علامہ)
 

زونی

محفلین
کیا عشق ایک زندگی مستعار کا
کیا عشق پائیدار سے ناپائیدار کا
وہ عشق جس کی شمع بجھا دے اجل کی پھونک
اس میں مزا نہیں تپش و انتظار کا
 

شمشاد

لائبریرین
اس عشق، نہ اُس عشق پہ نادم ہے مگر دل
ہر داغ ہے ، اس دل میں بجز داغِ ندامت
(فیض احمد فیض)
 

شمشاد

لائبریرین
گلاب کی طرح عشق میرا مہک رہا ہے
مگر ابھی اس کی کشتِ دل میں کھلا نہیں ہوں
(ڈاکٹر پیرزادہ قاسم)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
توڑ دے ہر اک آس کی ڈوری، آسوں میں کیا رکھا ہے
عشق محبت باتیں ہیں اور باتوں میں کیا رکھا ہے
قسمت میں جو لکھا ہے وہ آخر ہو کر رہنا ہے
چند لکیریں الجھی سی اور ہاتھوں میں کیا رکھا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
جہاں میں حُسن کی صورت نہیں رہی ویسی
تمہارے عشق کی سچائیاں بھی جھوٹی ہیں
(نزھت عباسی)
 

ہما

محفلین
اے عشق نہ چھیڑ آآ کے ہمیں
ہم بھولے ہوؤں کو یاد نہ کر
پہلے ہی بُہت ناشاد ہیں‌ہم
تو اور ہمیں‌ناشاد نہ کر
قسمت کا ستم ہی کم نہیں‌کچھ
یہ تازہ ستم ایجاد نہ کر
یوں‌ظُلم نہ کر برباد نہ کر
اے عشق ہمیں برباد نہ کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
موسم عشق تیری بارش میں
خط جو بھیگے سنبھال کررکھے
جن کی خُوشبو اُداس کرتی تھی
وہ بھی گجرے سنبھال کر رکھےّ
 
Top