میں نے کئی برس پہلے یہ ناول پڑھا تھا۔ کچھ باتیں میں بھی عرض کرنا چاہوں گا۔ امید ہے کہ طالب علموں کے لیے دلچسپی کا باعث بنیں گی۔ میری رائے سو فیصد معروضی اور تنقیدی ہے۔ غیر متفق ہونے والوں کو اس کا پورا حق ہے۔ "عشق کا عین" پر تبصرہ کرنے سے پہلے میں ایک لمحے کو اردو ناول کے بارے میں ایک مختصر ترین رائے پیش کرنے کی اجازت بھی چاہوں گا۔
یہ تو ہم سب کو معلوم ہی ہے کہ اردو ناول صدی سے اوپر کی عمر پا لینے کے باوجود ابھی شیر خوارگی کے زمانے سے نہیں نکل سکا۔ میں اس کی تفصیلات میں نہیں جاتا۔ اگر کچھ حضرات بحث کرنا چاہیں تو ایسا کسی نئے دھاگے میں ہو سکتا ہے۔ حتیٰ کے اردو کے عظیم ترین ناول بھی اس معیار کے نہیں کہ انھیں دنیا کے "بڑے ناولوں" کے مقابلے میں پیش کیا جا سکے۔ مزیدار ناول البتہ بہت لکھے گئے ہیں۔ مثال کے طور پر ابنِ صفی ہی کے ناول۔ جو دلچسپ تو ہیں، مگر تنقیدی ذہن انھیں کبھی "عظیم" تسلیم کرنے پر راضی نہیں ہو سکتا۔ یاد رہے کہ ادبی دنیا میں کسی تحریر کا "بیسٹ سیلر" ہونا، اس کے مقام کا تعین نہیں کرتا۔
دوسری طرف راجہ گدھ جیسے ناول بھی ہیں، جنھیں ان کے تخلیق کاروں نے بڑی محنت سے لکھا اور یہ سوچ کر لکھا کہ "بڑا" کام کیا جائے۔ مگر اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ بانو قدسیہ کا موازنہ آپ ڈی ایچ لارنس، جیمز جوائس، ٹامس ہارڈی، لیو ٹالسٹائی، ورجینیا وولف وغیرہ (لسٹ بڑی طویل ہے) سے نہیں کر سکتے۔ مایوسی ہی ہوتی ہے۔
چلیں میں اپنے پیمانے کو ایک مختلف انداز میں بیان کرتا ہوں۔ ادبی صنف کو کچھ دیر کے لیے ذہن سے نکال کر دیکھتے ہیں۔ ذرا موازنہ کیجیے راجہ گدھ، جنت کی تلاش اور عشق کے عین کا، ضربِ کلیم، دیوانِ غالب اور میر کی بہترین غزلوں سے۔ شاعری چھوڑیے، خطوطِ غالب ہی سے ملا لیجیے! مجھے یقین ہے کہ آپ خود ہی مان جائیں گے کہ خواب و خیال تک میں برابری ممکن نہیں۔
اب میں ذکر کرنا چاہوں گا زیرِ بحث ناول کا۔ مجھے اس ناول میں کسی طرح بھی فنکاری کا عنصر دکھائی نہیں دیا۔ ظا ہراً تو یوں لگتا ہے کہ ناول بڑی جلدی میں لکھا گیا ہے۔ اور موصوف ناول نگار نے محض
جذباتیت اور تصوف کے ایک عجیب امتزاج سے "دلوں کو گرمانے" کی کوشش کی ہے۔
(نوجوان؟) "دلوں کو گرمانے" میں تو وہ شاید کامیاب ہو گئے ہیں، مگر ادبی محاذ پر کچھ زیادہ کامیابی حاصل نہیں کر پائے۔ قاری کو بہر صورت رُلا دینا ہی ادب کا بڑا کمال نہیں ہوتا۔ میں ادب میں جذباتیت کے خلاف کے خلاف نہیں۔ کوئی بھی نہیں ہو سکتا کہ اگر موضوع انسان ہے تو ظاہر ہے کہ جذبات کا ذکر تو ہو گا۔ مگر آپ ذرا زیرِ بحث ناول میں پیش کردہ جذباتیت کا "سنز اینڈ لورز" اور "پورٹریٹ آف دی آرٹسٹ" کی جذبات نگاری سے موازنہ کریں۔ ایک طرف سطحیت ہے اور دوسری طرف گہرائی۔ ایک طرف انسانی نفسیات سے لا علمی ہے اور دوسری طرف اس کا گہرا ادراک۔
"عشق کے عین" میں ایک اور بہت بڑی کمزوری اس کی زبان ہے۔ مصنف کو شاید زبان و بیان کی نوک پلک سنوارنے کا خیال تک نہیں آیا۔ کہانی کی زبان بہت عام سی اور کسی بھی قسم کی ادبی بلندی سے عاری ہے۔ آپ چاہیں تو اس ناول میں ایسے جملے ڈھونڈنے کی کوشش کر سکتے ہیں، جنھیں "معرکتہ الآراء" کہا جا سکے۔ کامیابی نہ ملے گی۔ عظیم ادب میں تو عام زبان، حتیٰ کہ گرائمر کی غلطیوں سے اٹی زبان، بھی کچھ ایسے انداز میں ملتی ہے کہ پڑھنے والے کے دل و دماغ میں اتر جائے۔ یقین نہیں تو "گریٹ ایکسپکٹیشنز" میں دیے گئے "لوہار" کے ڈائلاگ ہی نکال کر دیکھ لیجے کہ کس خوبصورتی سے انھیں ناول میں پرویا گیا ہے۔
لکھتے رہے جنوں کی حکایاتِ خونچکاں
ہر چند اس میں ہاتھ ہمارے قلم ہوئے