زہیر عبّاس
محفلین
فوق ارضی سیاروں کی زندگی ...از دیمیتر سیسی لوف
باب چہارم - حصّہ پنجم
عبور کا تعاقب
ناسا کا کیپلر مشن عبوری طریقے کو استعمال کرتے ہوئی زمین جیسے حجم کے اور اسی جیسے مدار میں موجود سیاروں کو دریافت کرے گا ۔ اس مہم کا مقصد منظم اور جامع طریقے سے کام کرنا ہے تاکہ ہم اس بات کی تلاش کر سکیں کہ کتنے ستاروں کے گرد زمین جیسے سیارے موجود ہیں ۔ اس مہم کو اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ معیاری عبوری طریقے کو غیر متوقع چیزوں سے بچاتے ہوئے ایک جامع اور انتہائی محتاط دو لاکھ ستاروں پر مشتمل فہرست کو سیاروں کی تلاش کے لئے کھنگالا جائے ۔ اس دوربین کو بنانے کے لئے کئی برسوں کی کڑی محنت کی گئی ہے تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل ہوں ۔ شروع کے چند مہینوں میں ان میں سے زیادہ تر کو دیکھ لینے کے بعد، کیپلر کو ایک لاکھ سے ایک لاکھ بیس ہزار ستاروں کو دیکھنے کے لئے تقریباً تین سے چار برسوں کے لئے ٹھہرا دیا۔ تمام جدید کام کا مطلب تھا کہ کیپلر کی ضیا پیمائی کے نتیجے میں حاصل ہونے والے امیدوار سیاروں کے ہمیں بہت ہی کم غلط اشارے ملیں گے ؛ کیپلر کی ٹیم میں موجود ہم لوگوں نے ایک منصوبہ ترتیب دیا تھا کہ کس طرح سے ہم غلط اشاروں کو اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے الگ کریں گے جو ہم نے اوگل فہرست کے لئے اپنایا تھا ، جیسا کہ میں لکھ رہا ہوں ہمارے طریقہ کار کامیاب ہو رہا تھا ؛ ہماری ابتدائی آزمائش نے بتایا کہ غلط اشاروں کی تعداد بہت ہی کم تھی ۔
آخر کار عبوری طریقہ سیاروں کی دریافت کے لئے انتہائی کامیاب ثابت ہو رہا تھا ، ان سیاروں میں زمین جیسے قابل قدر سیارے بھی شامل تھے ۔ عبوری سیارے ہمارے لئے کم عرصہ میں تجزیہ کرنے کے لئے سب سے زیادہ بہترین تھے۔ ان کی درست کمیت اور حجم معلوم ہونے کی وجہ سے ہم ان کے انبار کے اجزاء کو ان کی اوسط کمیت سے نکال سکتے تھے ۔ مزید براں یہ کہ عبور کا مشاہدہ کرتے ہوئے ہم دور بیٹھ کر بھی سیارے کے ماحول کا تجزیہ کر سکتے تھے ۔عبوری مدت کے دوران ، ستارے کی روشنی سیارے کے ماحول سے رنگدار ہو جاتی ہے ؛ ہم اس وقت کے طیف کو سیارے کے اس وقت کے طیف سے مماثل کر سکتے تھے جب وہ ستارے کو عبور نہیں کر رہا ہو اور ہم طیف نگار کے فن کے استعمال سے سیارے کے ماحول میں موجود کیمیائی اجزاء جیسا کہ پانی ، میتھین یا کاربن ڈائی آکسائڈ کو شناخت کر سکتے تھے ۔
تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ۔ اہمیت کے اعتبار سے پراسرار متوازیت سترویں صدی میں پہلے پہل مشاہدے کیے گئے عطارد اور زہرہ کے عبور اور آج کے دور کے پہلے ماورائے شمس سیارے کے عبور کے مشاہدے میں موجود ہے ۔آج، جیسا کہ سترویں صدی میں ہوا تھا کہ پہلے عبوری مشاہدے نے ایک بڑے نئے تصوّر پر کسی بھی باقی رہنے والے شک کو زائل کیا تھا۔ آج ، جیسا کہ سترویں صدی میں ہوا تھا ، ویسے بھی پہلے عبوری مشاہدے نے غیر معمولی نتائج دیئے تھے ۔ آج ، جیسا کہ سترویں صدی میں ہوا تھا، پہلے عبوری مشاہدے نے عبور طریقے کے مستقبل کے استعمال کے نئے دریچے کھول دیئے ہیں ۔ شاید فرق صرف اتنا ہوگا کہ پچھلے دور میں عبوری طریقے کا فائدہ اٹھانے میں پوری ایک صدی لگ گئی تھی جبکہ ، ہم نے پہلے ہی سے فائدہ اٹھانا شروع کر دیا ہے ۔
یہ کوئی اتفاق نہیں تھا کہ جو ہا نز کیپلر (Johannes Kepler)جو ایک فلکیات دان ، ریاضی دان ، پیش گو اور صوفی تھا اس کا نام نئی دنیاؤں کی کھوج کی اس مہم کو دیا گیا ۔ اس نے ان قوانین کو دریافت کیا تھا جو سیاروں کی حرکت کو بیان کرتے ہیں ، اس کے لکھے ہوئے قوانین کو ہم آج بھی ناسا کی کیپلر دوربین سے دریافت کیے ہوئے سیاروں کے مداروں کا حساب لگانے میں استعمال کرتے ہیں۔ لیکن بس یہ ہی کافی نہیں ہے ۔ ایک حقیقت جو زیادہ تر لوگ نہیں جانتے وہ یہ ہے کہ جو ہا نز کیپلر وہ پہلا شخص تھا جس نے انتہائی درستگی کے ساتھ عطارد اور زہرہ کے عبور کی پیش گوئی کی تھی ۔
جو ہا نز کیپلر نے یہ عبور کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ وہ اپنے پہلے عبور کی پیش گوئی کو دیکھنے سے صرف ایک سال پہلے ہی وفات پا گیا تھا ، جو عطارد کا ١٦٣١ء میں ہوا تھا ۔ لیکن کم از کم ایک فلکیات دان ، پیری گیسنڈی (Pierre Gassendi)نے کیپلر کی پکار پر توجہ دی اور پیرس سے اس نے ٧ نومبر ١٦٣١ء میں اس عبور کا مشاہدہ کیا ۔
پیرس میں نومبر کا مہینہ اکثر ابر آلود رہتا ہے ، ایک دن پہلے ہی گیسنڈی کو بارش اور بادلوں نے گھیر لیا تھا ۔ اس نے سورج کا مشاہدہ کرنے کا منصوبہ عبور کی پیش گوئی کیے ہوئے وقت سے پہلے اور بعد میں کرنے کا فیصلہ کیا ، کیونکہ کیپلر نے اپنے حساب کتاب میں کافی زیادہ غیر یقینی کو درج کیا ہوا تھا ۔ ٧ نومبر کی صبح تھوڑی دیر کے لئے مطلع صاف ہوا اور گیسنڈی نے چھوٹا کالا عطارد کا نقطہ شمسی قرص پر دیکھا ۔ وہ سورج کا عکس ایک سفید اسکرین پر ڈال رہا تھا بعینہ ایسے جیسے کہ آج کل عوام الناس گھر پر سورج کو دیکھنے کے لئے کرتے ہیں ۔ گیسنڈی اس بات سے باخبر تھا کہ کس طرح سے سورج کے تاریک دھبوں کو عطارد کے گہرے دھبے سے الگ کیا جاتا ہے ۔ صرف بیس برس قبل ہی گلیلیو گلیلی نے اپنی نئی دوربین سے سورج کے ان دھبوں کو دریافت کیا تھا کہ وہ کسی طرح سے حرکت کرتے اور تبدیل ہوتے ہیں ؛ گیسنڈی گلیلیو اور اس کے تجرباتی طریقوں کا ایک پرجوش پیرو تھا اور اس بات کو جانتا تھا کہ عطارد کے ننھے نقطے کو اس کے مدار کا پیچھا کر کے دیکھا جا سکتا ہے ۔
١٦٣١ء میں ہونے والی عطارد کا عبور کافی ساری وجوہات کی وجہ سے اہم تھا۔ اگرچہ زیادہ تر عالموں نے کوپرنیکن انقلاب کو قبول کر لیا تھا تاہم پھر بھی کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے ایسا نہیں کیا تھا ۔ الغرض روم میں ہوئی جیورڈانو برنو(Giordano Bruno) کی موت کے صرف تیس برس ہی گزرے تھے، جبکہ گلیلیو کی سرکاری تفتیش تو ابھی تازہ تازہ تھی ۔ عبور شمس مرکزی نظام کے ایک اور کامیاب ثبوت تھا، اسی طرح سے گلیلیو کا مشاہدہ زہرہ کی ١٦٠٩ء میں رویت تھا ۔ کیپلر کے عبور کے وقت سے متعلق پیش گوئی گھنٹوں کے حساب سے انتہائی درست تھی ، جو اس دور کے لحاظ سے ایک انتہائی حیرت انگیز بات تھی اور کوپرنیکن کے نظام کی کامیابی اور اس کے پیش بینی کی طاقت کا مظہر تھی ۔
بہرحال ، جو حیرت انگیز بات کیپلر اور گیسنڈی کے عطارد اور زہرہ کے عبور کی تھی وہ براہ راست ان سیاروں یا کسی بھی دوسرے سیاروں کے حجم کو ناپنے کا موقع تھا اور یہ بہت اہم بات تھی ۔ کیپلر سمجھتا تھا کہ اس نے ایک اور قانون دریافت کر لیا تھا یعنی کہ سیارے کی ضخامت اس کے سورج کے فاصلے کی نسبت سے راست تناسب سے ہوتی ہے ۔ سیاروں کے مدار میں حرکت کے قانون کے برخلاف یہ کسی شہادت پر مبنی نہیں تھا بلکہ یہ راست تناسب کی ہم آہنگی پر انحصار کرتا ہے جو کیپلر کے عالمگیری منظر نامے ، کرۂ کی ہم آہنگی کا حصّہ تھا ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
باب چہارم - حصّہ پنجم
عبور کا تعاقب
ناسا کا کیپلر مشن عبوری طریقے کو استعمال کرتے ہوئی زمین جیسے حجم کے اور اسی جیسے مدار میں موجود سیاروں کو دریافت کرے گا ۔ اس مہم کا مقصد منظم اور جامع طریقے سے کام کرنا ہے تاکہ ہم اس بات کی تلاش کر سکیں کہ کتنے ستاروں کے گرد زمین جیسے سیارے موجود ہیں ۔ اس مہم کو اس طرح سے بنایا گیا ہے کہ معیاری عبوری طریقے کو غیر متوقع چیزوں سے بچاتے ہوئے ایک جامع اور انتہائی محتاط دو لاکھ ستاروں پر مشتمل فہرست کو سیاروں کی تلاش کے لئے کھنگالا جائے ۔ اس دوربین کو بنانے کے لئے کئی برسوں کی کڑی محنت کی گئی ہے تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل ہوں ۔ شروع کے چند مہینوں میں ان میں سے زیادہ تر کو دیکھ لینے کے بعد، کیپلر کو ایک لاکھ سے ایک لاکھ بیس ہزار ستاروں کو دیکھنے کے لئے تقریباً تین سے چار برسوں کے لئے ٹھہرا دیا۔ تمام جدید کام کا مطلب تھا کہ کیپلر کی ضیا پیمائی کے نتیجے میں حاصل ہونے والے امیدوار سیاروں کے ہمیں بہت ہی کم غلط اشارے ملیں گے ؛ کیپلر کی ٹیم میں موجود ہم لوگوں نے ایک منصوبہ ترتیب دیا تھا کہ کس طرح سے ہم غلط اشاروں کو اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے الگ کریں گے جو ہم نے اوگل فہرست کے لئے اپنایا تھا ، جیسا کہ میں لکھ رہا ہوں ہمارے طریقہ کار کامیاب ہو رہا تھا ؛ ہماری ابتدائی آزمائش نے بتایا کہ غلط اشاروں کی تعداد بہت ہی کم تھی ۔
آخر کار عبوری طریقہ سیاروں کی دریافت کے لئے انتہائی کامیاب ثابت ہو رہا تھا ، ان سیاروں میں زمین جیسے قابل قدر سیارے بھی شامل تھے ۔ عبوری سیارے ہمارے لئے کم عرصہ میں تجزیہ کرنے کے لئے سب سے زیادہ بہترین تھے۔ ان کی درست کمیت اور حجم معلوم ہونے کی وجہ سے ہم ان کے انبار کے اجزاء کو ان کی اوسط کمیت سے نکال سکتے تھے ۔ مزید براں یہ کہ عبور کا مشاہدہ کرتے ہوئے ہم دور بیٹھ کر بھی سیارے کے ماحول کا تجزیہ کر سکتے تھے ۔عبوری مدت کے دوران ، ستارے کی روشنی سیارے کے ماحول سے رنگدار ہو جاتی ہے ؛ ہم اس وقت کے طیف کو سیارے کے اس وقت کے طیف سے مماثل کر سکتے تھے جب وہ ستارے کو عبور نہیں کر رہا ہو اور ہم طیف نگار کے فن کے استعمال سے سیارے کے ماحول میں موجود کیمیائی اجزاء جیسا کہ پانی ، میتھین یا کاربن ڈائی آکسائڈ کو شناخت کر سکتے تھے ۔
تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے ۔ اہمیت کے اعتبار سے پراسرار متوازیت سترویں صدی میں پہلے پہل مشاہدے کیے گئے عطارد اور زہرہ کے عبور اور آج کے دور کے پہلے ماورائے شمس سیارے کے عبور کے مشاہدے میں موجود ہے ۔آج، جیسا کہ سترویں صدی میں ہوا تھا کہ پہلے عبوری مشاہدے نے ایک بڑے نئے تصوّر پر کسی بھی باقی رہنے والے شک کو زائل کیا تھا۔ آج ، جیسا کہ سترویں صدی میں ہوا تھا ، ویسے بھی پہلے عبوری مشاہدے نے غیر معمولی نتائج دیئے تھے ۔ آج ، جیسا کہ سترویں صدی میں ہوا تھا، پہلے عبوری مشاہدے نے عبور طریقے کے مستقبل کے استعمال کے نئے دریچے کھول دیئے ہیں ۔ شاید فرق صرف اتنا ہوگا کہ پچھلے دور میں عبوری طریقے کا فائدہ اٹھانے میں پوری ایک صدی لگ گئی تھی جبکہ ، ہم نے پہلے ہی سے فائدہ اٹھانا شروع کر دیا ہے ۔
یہ کوئی اتفاق نہیں تھا کہ جو ہا نز کیپلر (Johannes Kepler)جو ایک فلکیات دان ، ریاضی دان ، پیش گو اور صوفی تھا اس کا نام نئی دنیاؤں کی کھوج کی اس مہم کو دیا گیا ۔ اس نے ان قوانین کو دریافت کیا تھا جو سیاروں کی حرکت کو بیان کرتے ہیں ، اس کے لکھے ہوئے قوانین کو ہم آج بھی ناسا کی کیپلر دوربین سے دریافت کیے ہوئے سیاروں کے مداروں کا حساب لگانے میں استعمال کرتے ہیں۔ لیکن بس یہ ہی کافی نہیں ہے ۔ ایک حقیقت جو زیادہ تر لوگ نہیں جانتے وہ یہ ہے کہ جو ہا نز کیپلر وہ پہلا شخص تھا جس نے انتہائی درستگی کے ساتھ عطارد اور زہرہ کے عبور کی پیش گوئی کی تھی ۔
جو ہا نز کیپلر نے یہ عبور کبھی نہیں دیکھا تھا ۔ وہ اپنے پہلے عبور کی پیش گوئی کو دیکھنے سے صرف ایک سال پہلے ہی وفات پا گیا تھا ، جو عطارد کا ١٦٣١ء میں ہوا تھا ۔ لیکن کم از کم ایک فلکیات دان ، پیری گیسنڈی (Pierre Gassendi)نے کیپلر کی پکار پر توجہ دی اور پیرس سے اس نے ٧ نومبر ١٦٣١ء میں اس عبور کا مشاہدہ کیا ۔
پیرس میں نومبر کا مہینہ اکثر ابر آلود رہتا ہے ، ایک دن پہلے ہی گیسنڈی کو بارش اور بادلوں نے گھیر لیا تھا ۔ اس نے سورج کا مشاہدہ کرنے کا منصوبہ عبور کی پیش گوئی کیے ہوئے وقت سے پہلے اور بعد میں کرنے کا فیصلہ کیا ، کیونکہ کیپلر نے اپنے حساب کتاب میں کافی زیادہ غیر یقینی کو درج کیا ہوا تھا ۔ ٧ نومبر کی صبح تھوڑی دیر کے لئے مطلع صاف ہوا اور گیسنڈی نے چھوٹا کالا عطارد کا نقطہ شمسی قرص پر دیکھا ۔ وہ سورج کا عکس ایک سفید اسکرین پر ڈال رہا تھا بعینہ ایسے جیسے کہ آج کل عوام الناس گھر پر سورج کو دیکھنے کے لئے کرتے ہیں ۔ گیسنڈی اس بات سے باخبر تھا کہ کس طرح سے سورج کے تاریک دھبوں کو عطارد کے گہرے دھبے سے الگ کیا جاتا ہے ۔ صرف بیس برس قبل ہی گلیلیو گلیلی نے اپنی نئی دوربین سے سورج کے ان دھبوں کو دریافت کیا تھا کہ وہ کسی طرح سے حرکت کرتے اور تبدیل ہوتے ہیں ؛ گیسنڈی گلیلیو اور اس کے تجرباتی طریقوں کا ایک پرجوش پیرو تھا اور اس بات کو جانتا تھا کہ عطارد کے ننھے نقطے کو اس کے مدار کا پیچھا کر کے دیکھا جا سکتا ہے ۔
١٦٣١ء میں ہونے والی عطارد کا عبور کافی ساری وجوہات کی وجہ سے اہم تھا۔ اگرچہ زیادہ تر عالموں نے کوپرنیکن انقلاب کو قبول کر لیا تھا تاہم پھر بھی کچھ لوگ ایسے تھے جنہوں نے ایسا نہیں کیا تھا ۔ الغرض روم میں ہوئی جیورڈانو برنو(Giordano Bruno) کی موت کے صرف تیس برس ہی گزرے تھے، جبکہ گلیلیو کی سرکاری تفتیش تو ابھی تازہ تازہ تھی ۔ عبور شمس مرکزی نظام کے ایک اور کامیاب ثبوت تھا، اسی طرح سے گلیلیو کا مشاہدہ زہرہ کی ١٦٠٩ء میں رویت تھا ۔ کیپلر کے عبور کے وقت سے متعلق پیش گوئی گھنٹوں کے حساب سے انتہائی درست تھی ، جو اس دور کے لحاظ سے ایک انتہائی حیرت انگیز بات تھی اور کوپرنیکن کے نظام کی کامیابی اور اس کے پیش بینی کی طاقت کا مظہر تھی ۔
بہرحال ، جو حیرت انگیز بات کیپلر اور گیسنڈی کے عطارد اور زہرہ کے عبور کی تھی وہ براہ راست ان سیاروں یا کسی بھی دوسرے سیاروں کے حجم کو ناپنے کا موقع تھا اور یہ بہت اہم بات تھی ۔ کیپلر سمجھتا تھا کہ اس نے ایک اور قانون دریافت کر لیا تھا یعنی کہ سیارے کی ضخامت اس کے سورج کے فاصلے کی نسبت سے راست تناسب سے ہوتی ہے ۔ سیاروں کے مدار میں حرکت کے قانون کے برخلاف یہ کسی شہادت پر مبنی نہیں تھا بلکہ یہ راست تناسب کی ہم آہنگی پر انحصار کرتا ہے جو کیپلر کے عالمگیری منظر نامے ، کرۂ کی ہم آہنگی کا حصّہ تھا ۔
جاری ہے۔۔۔۔۔