فوق ارضی سیاروں کی زندگی ...از دیمیتر سیسی لوف
حصّہ دوم - حیات کا ماخذ
باب دہم - حصّہ دوم
وہ ٹھکانے جنہیں ہم اپنا گھر کہہ سکتے ہیں
یہ جان کر آپ کو زیادہ حیرت نہیں ہوگی کہ جن تین سیاروں کے بارے میں اوپر بیان کیا گیا ہے آپ ان کو بہت اچھی طرح سے - مریخ ، زہرہ اور زمین کے نام سے جانتے ہیں۔ اس منظر نامے میں صرف زمین ہی حیات کے لئے ایک موزوں جگہ ہو سکتی ہے۔ لیکن کیا زمین حیات کے لئے مثالی جگہ ہے ؟ میں اس سوال پر واپس آتا ہوں جو میں کتاب کے شروع میں اٹھایا تھا۔ اب میں اس کا جواب دینے کی کوشش کروں گا۔ اور جواب ہے نہیں۔ فوق ارض کافی بہتر ہیں۔
جس سیارے کو بھی ہم پاتے ہیں چاہئے وہ فوق ارض ہو یا نہ ہو ، ہم اس کے قابل رہائش ہونے کی جانچ کرتے ہیں۔ یہ ذرا مشکل بات ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم کسی بھی جگہ کو قابل رہائش اس لئے بیان کریں کہ ہم انسان وہاں بغیر کسی خصوصی حفاظت کے رہ سکیں تو زمین پر کئی ایسی جگہیں ہوں گی جو ایسا ماحول مہیا کرنے میں ناکام ہوں گی۔ اگر ہمیں اس بات کی اجازت ہو کہ ہم اپنی بہترین ٹیکنالوجی کے ساتھ زندہ رہ سکیں تو مریخ کا خط استواء بھی قابل رہائش جگہ ہو سکتی ہے تاہم آگ کی بھٹی زہرہ نہیں۔ زمین کے کچھ خرد بینی جاندار اتنے سخت جان ہوتے ہیں کہ وہ مریخی مٹی میں بھی زندہ رہ سکتے ہیں۔ واضح طور پر کسی بھی سیارے کی سکونت پذیری اس کے محل وقوع پر منحصر ہوتی ہے :سورج سے بہت زیادہ دور وہ سیارہ بہت ٹھنڈا ہوگا ، اور قریب ہونے کی صورت میں بہت گرم ہوگا۔ یہ اطمینان بخش فاصلہ سکونت پذیر علاقہ(Habitual Zone) کہلاتا ہے اور اس کی پہچان یہ ہے کہ پانی سطح کے اوپر موجود ہوتا ہے۔ ہر ستارے کے پاس ایک ایسا علاقہ ضرور ہوتا ہے۔
میں ایسے ماحول کی تلاش میں ہوں جو پیچیدہ سالماتی کیمیائی عمل کے لئے مناسب ہو۔ میری دلچسپی کائنات میں حیات کے راستے(اس کے اصل ماخذ ) میں ہے ، لہٰذا میں ایسے سیاروں کی تلاش کر رہا ہوں جو سطح کے درجہ حرارت پر مائع پانی کو باقی رکھ سکیں تاکہ اس میں بڑے سالمے زندہ رہ کر کیمیائی ارتکاز حاصل کر کے وقت کے دوران پائیدار بھی رہ سکیں۔ اگرچہ قابل سکونت تصوّر درجہ حرارت کے لحاظ سے تو مدد گار ہو سکتا ہے لیکن صرف یہ ہی کافی نہیں ہے۔ کئی دوسرے ایسے بھی عوامل ہیں جو سیارے کی سکونت پذیری میں اپنا حصّہ ڈالتے ہیں۔ فوق ارض سے متعلق اپنے انتہائی قلیل علم کو مد نظر رکھتے ہوئے اس وقت تک جب ہم مستقبل کے کسی دن وہاں کا سفر نہیں کر لیتے میں ان کے سکونت پذیری کی قابلیت کے بارے میں ہی بات کرنا پسند کروں گا۔
پہلے دریافت شدہ ہوئے فوق ارضی سیاروں میں کتنی سکونت پذیری کی صلاحیت موجود ہے ؟ چلیں ان میں سے کچھ کو دیکھتے ہیں۔ گلیز ٨٧٦ ڈی ایک چھوٹے بونے ستارے کے گرد ہر دو دن میں ایک چکر مکمل کر رہا ہے ! اس کا مطلب ہے کہ اس کا مدار سورج سے زمین کے فاصلے کا صرف دو فیصد ہی ہے۔ اگرچہ اس کا مرکزی ستارہ سورج کے وزن اور حجم کے مقابلے میں ایک تہائی ہے اور یہ سورج کے مقابلے میں آدھا گرم ہے ،اس کے باوجود ستارے سے نزدیکی کا مطلب یہ ہے کہ گلیز ٨٧٦ ڈی کی سطح کا درجہ حرارت زہرہ کے تپش دار درجہ حرارت (لگ بھگ ٧٣٠ کیلون ) سے بھی زیادہ ہوگا۔ فوق ارض گلیز ٨٧٦ ڈی سکونت پذیر علاقے میں نہیں ہے اور اس میں فی الوقت سکونت پذیری کی کوئی قابلیت نہیں ہے۔(خاکہ10.1)۔
اس ماورائے نظام شمسی میں دو اورمشتری جیسے سیارے موجود ہیں۔ ان کو ٢٠٠٠ء میں جیف مارسی اور کیلی فورنیا کارنیگی ٹیم نے دریافت کیا تھا اور ان کا نام گلیز ٨٧٦ ب اور ٨٧٦ ج دیا تھا ان کی کمیت بالترتیب لگ بھگ ٢ اور ٠۔٦ مشتری کے تھی۔ سکونت پذیر علاقے میں موجود ہونے کے باوجود یہ سیارے گیسی دیو ہیں جس میں کسی بھی قسم کی ٹھوس سطح نہیں ہے لہٰذا ان میں کسی بھی قسم کی سکونت پذیری کی قابلیت موجود نہیں ہے۔ بہرحال ان میں سے کسی کے بڑے چاند بھی ہو سکتے ہیں جن میں زبردست سکونت پذیری کی صلاحیت موجود ہو سکتی ہے۔ بدقسمتی سے یہ دونوں مشتری جیسے سیارے ایک دوسرے کے کافی نزدیک ہیں اور آپس میں ثقلی طور پر کافی تعامل کرتے ہیں جس کی وجہ سے غالب امکان ہے کہ وہ بڑے چاند نہیں رکھتے ہوں گے۔
10.1 by
Zonnee, on Flickr
دو سیاروی نظام اور ان کے سکونت پذیر علاقے۔ گلیز ٨٧٦ میں اندرونی سیارہ ڈی ایک فوق ارض ہے۔ گلیز ٥٨١ کا اندرونی سیارہ ب اصل میں ایک تپتا ہوا نیپچون ہے۔ سیارے گلیز ٥٨١ ڈی صرف وہ فوق ارض ہے جو بمشکل اس مدار میں موجود ہے جہاں سکونت پذیری ممکن ہے، اس کا مدار تھوڑا سا کج رو ہے گلیز ٥٨١ ای ، چوتھا سیارہ ہے جو یہاں نہیں نظر آ رہا ہے اس کا حجم زمین کے حجم کا بمشکل دوگنا ہے لیکن وہ ستارے کے سیارے ب کے مدار کے بھی اندر گردش کر رہا ہے اور بہت زیادہ گرم ہے۔
ایک اور ایم بونا ستارہ ، گلیز ٥٨١ کے بھی تین عظیم ارضی سیارے ہیں (خاکہ 10.1) ایک تپتا ہوا نیپچون جو ٢٥ ایم ای کے برابر ہے اور (گلیز ٥٨١ ب) کہلاتا ہے جس کو ہم ٢٠٠٥ء سے جانتے ہیں ، یہ اپنے ستارے کے گرد صرف5.4 دن میں ایک چکر مکمل کر لیتا ہے۔ بعد میں مچل میئر کی جنیوا کی ٹیم نے دو چھوٹے سیارے جو فوق ارض سے کافی ملتے جلتے تھے دریافت کیے اور یہ بمشکل سکونت پذیر علاقے میں مدار میں چکر لگاتے ہوئے لگتے تھے۔ کیونکہ گلیز ٥٨١ اور ٨٧٦ ایک جیسے ستارے ہیں ، لہٰذا ان کے نظام سیارگان اور قابل سکونت علاقوں کا موازنہ کرنا بہت آسان ہے۔ یہ سادہ خیال کہ فوق ارضی سیاروں کا کرۂ فضائی ضرور موجود ہونا چاہئے ۔ خاکے میں دکھائے گئے سکونت پذیر علاقوں کو فرینک سیلسیس اور اس کے رفقائے کاروں کے کام سے ہی بنایا گیا ہے۔ فوق ارض سیارہ جس میں سب سے زیادہ سکونت پذیری کی صلاحیت موجود ہے وہ گیلز ٥٨١ ڈی ہے جس کا حجم زمین کے مقابلے میں آٹھ گنا زیادہ ہے اور یہ اپنے ستارے سے کافی دور ہے ، تاہم اس کا کرۂ فضائی اس کو گرم رہنے میں کافی مدد دے گا۔ گلیز ٥٨١ سی کی کمیت زمین سے پانچ گنا زیادہ ہے وہ کافی گرم لگتا ہے اور اس سے بھی گرم تر فوق ارض ای ، ب کے مدار میں موجود ہے۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔