زہیر عبّاس
محفلین
فوق ارضی سیاروں کی زندگی ...از دیمیتر سیسی لوف
حصّہ دوم - حیات کا ماخذ
باب یازدہم - حصّہ ششم
وقت کا سفر
کائنات نوخیز ، حیات نوخیز تر ہے۔
دوسرے افزود گی کا عمل آج تک جاری ہے اور ہم اس بات کا اندازہ کافی اچھی طرح سے لگا سکتے ہیں کہ ہماری کائنات کسی طرح سے طویل اور آنے والے لامحدود دور میں تبدیل ہو گی۔ مثال کے طور پر ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ضخیم ستارے پچھلے پانچ ارب سال کے دوران بننا کم ہو گئے ہیں اس طرح سے مستقبل میں چھوٹے ستاروں کا غلبہ عناصر کو بنانے اور ان کو افزودہ کرنے میں بڑھ جائے گا۔ اس کا عام طور پر مطلب یہ ہوگا کہ آکسیجن کے مقابلے میں کاربن زیادہ بنے گی۔ دور حاضر میں ہماری کہکشاں میں اکثر جگہ آکسیجن کے جوہر کاربن کے جوہروں کی نسبت تین گنا زیادہ ہیں لیکن ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب آکسیجن اور کاربن کے جوہر برابر کی تعداد میں موجود ہوں گے۔ جب کبھی بھی ایسا وقت آئے گا تو چٹانی سیاروں کی معدنیات بدل جائے گی۔ کاربائیڈ سیلیکٹ پر غالب آ جائے گا اور اس کے نہایت ہی اہم مضمرات ایسے سیاروں پر موجود حیات کے ماخذوں پر ہوں گے جیسا کہ اس کتاب کے شروع میں بیان کیا گیا تھا کہ کاربنی سیارے نایابی سے فراوانی کی طرف ہو جائیں گے۔
وسیع تناظر میں اگرچہ حیات کا مستقبل بہت ہی شاندار دکھائی دے رہا ہے۔ تاوقتیکہ حیات بہت ہی نایاب مظہر ہو ، مستقبل میں اس کی موجودگی کافی نہ صرف کافی زیادہ ہونی چاہئے بلکہ اس کو بہت زیادہ متنوع فیہ بھی ہونا چاہئے۔ ممکن ہے کہ سیارے کائنات کا بہت ہی معمولی حصّہ ہوں کیونکہ وہ بہت ہی چھوٹے ہوتے ہیں اس کے باوجود یہ اس قدر وافر مقدار میں موجود ہیں کہ حیات کے موجود ہونے کی کافی زیادہ جگہیں دستیاب ہیں۔ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ ہماری کائنات اس دور سے گزر رہی ہے جس میں ستارے بننے کا عمل اپنی جوبن پر ہے ( جس کو ستاروں بھرا دور بھی کہتے ہیں ) لیکن ایسا بھی لگتا ہے کہ ساتھ ساتھ سیاروں کی پیدائش بھی اپنے عروج پر ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ فرمی کا تناقض جو ماضی کے بارے میں ہے وہ کائنات میں موجود کسی دوسری جگہ حیات کے بارے میں سوال کو غلط طریقے سے پوچھتا ہے۔ یہ تناقض اس بات کو فرض کرتا ہے کہ دوسرے کو ہم سے پہلے نمودار اور پروان چڑھنے کے لئے کافی وقت مل چکا ہے۔ نئے حاصل ہوئے شواہد اس فرض کی ہوئی بات کی آسانی کے ساتھ تائید نہیں کرتے۔ بات جب خرد بینی حیات کے بجائے ٹیکنالوجی کی ہو گی تو ہم حالیہ دور میں زبردست رفتار سے حاصل ہوئی اپنی ٹیکنالوجی کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے پیش بینی کر سکتے ہیں۔ لہٰذا اگر ترقی کی اس رفتار کو بنیاد بنا کر ہم اندازہ لگائیں تو فرمی کا تناقض شماریاتی طور پر نہایت مضبوط رہے گا۔ لیکن حیات کے لئے جو منطقی سلسلہ میں دیکھوں گا وہ یہ ہے : (١) پیچیدہ کیمیا حیات کے نمودار ہونے لے لئے لازمی ہے - کافی مقدار میں بھاری عناصر درکار ہوں گے ؛ (٢) مستحکم ماحول جو کیمیا کو مرتکز کر سکے وہ درکار ہو گی- ارضی سیارے (ارض ، فوق ارضی سیاروں) کی ضرورت ہو گی۔ ماضی میں یہ تمام شرائط ہماری کائنات نے کس دور میں پوری کی ہیں ؟
اس کا جواب ہے کہ سات سے نو ارب سال پہلے یہ شرائط پوری ہو چکی تھیں۔ میں اس نتیجے پر دو مختلف آزاد ذرائع سے پہنچا ہوں۔ پہلا راستہ یا ذریعہ تو وہ ہے جس پر ہم ستاروں اور دور دراز کہکشاؤں میں موجود گیس پر انحصار کرتے ہوئے قیاس کر رہے ہیں جس میں ہم ستاروں اور گیس میں موجود بھاری عناصر (جو حیات کے ظہور کے لئے ضروری ہیں )کی فراوانی کو ناپتے ہیں، اس طرح سے ہم ان کی بڑھوتری کو وقت کے ساتھ ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ جب ہم ان ستاروں کو دیکھنا شروع کر دیتے ہیں جو ارض یا فوق ارضی سیاروں کو بننے کے لئے درکار عناصر فراہم کر سکتے ہیں تو ہم ماضی میں دیکھے جانے والے اس وقت کی جانب اشارہ کر دیتے ہیں۔ مسئلہ صرف اس جگہ پر اٹکا ہوا ہے کہ ہم یہ بات کس طرح معلوم کریں کہ بڑے ارضی سیاروں کو بننے کے لئے کتنی مقدار میں بھاری عناصر درکار ہوتے ہیں۔ یہ سوال لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے۔ اگر ہمارے سیاروی تشکیل دینے والے کمپیوٹر نمونے درست ہیں تب کسی بھی ایک نظام شمسی کو ہمارے سورج کے مقابلے میں ہزار کے نسبت ایک جتنے بھاری عناصر درکار ہوں گے۔ ہماری کہکشاں اس حالت میں آج سے نو ارب سال پہلے پہنچ گئی تھی۔
جواب حاصل کرنے کا دوسرا ذریعہ یا راستہ سیدھا سیاروں کی جانب جاتا ہے۔ کیا ہم نے ستارے کے گرد چکر لگاتے سیاروں میں ہلکے عناصر کا تناسب گرتے ہوئے دیکھا ہے ؟ جی ہاں بالکل ایسا ہی ہے۔ یہ شہادت سیاروں کی کھوج کے ابتداء میں ہی حاصل ہو گئی تھی۔ یہ شہادت اس قدر واضح تھی کہ زیادہ تر ٹیمیں سیاروں کی کھوج کرتے وقت وہ ستارے چنتی تھیں جن میں بھاری عناصر کی تعداد زیادہ ہوتی تھی۔ اس رجحان پر کسی کو بھی حیرت نہیں ہوئی تھی کہ جتنی زیادہ دھاتیں ستارے میں موجود ہوں گی اتنے ہی زیادہ سیارے موجود ہوں گے لیکن اس رجحان کی طاقت بہت زیادہ حیران کن تھی۔ یہ رجحان تیزی سے سیاروں کو ڈھونڈتے ہوئے گر گیا یہاں تک کہ جو میں نے اوپر بھاری عناصر کی سورج کے مقابلے میں ہزار کی نسبت ایک بتائی تھی وہ کافی فیاضانہ محسوس ہوتی ہے۔ نتائج سے ظاہر ہوا کہ سورج کے مقابلے میں بھاری عناصر کی نسبت سو کے مقابلے میں ایک کی ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ وقت جب ماضی میں سیارے حیات کو پروان چڑھانے کے لئے سازگار ہوں گے کم ہو کر آٹھ سے سات ارب سال پہلے تک کا ہو گیا ہے۔
ایک بات میں یہاں پر واضح طور پر بتانا چاہوں گا کہ زیادہ دھاتیں زیادہ سیاروں کا رجحان فی الوقت مشتری اور زحل جیسے سیاروں کے لئے بالعموم یا پھر تپتے ہوئے مشتری کے لئے با الخصوص ہی دیکھا گیا ہے۔ میں نے فی الحال اس بات کو فرض کیا ہوا ہے کہ یہی رجحان ارضی سیاروں کے لئے بھی کارگر رہے گا لیکن کیپلر کا منصوبہ اس کو درست طور سے جانچنے کے لئے کام کر رہا ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔
حصّہ دوم - حیات کا ماخذ
باب یازدہم - حصّہ ششم
وقت کا سفر
کائنات نوخیز ، حیات نوخیز تر ہے۔
دوسرے افزود گی کا عمل آج تک جاری ہے اور ہم اس بات کا اندازہ کافی اچھی طرح سے لگا سکتے ہیں کہ ہماری کائنات کسی طرح سے طویل اور آنے والے لامحدود دور میں تبدیل ہو گی۔ مثال کے طور پر ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ضخیم ستارے پچھلے پانچ ارب سال کے دوران بننا کم ہو گئے ہیں اس طرح سے مستقبل میں چھوٹے ستاروں کا غلبہ عناصر کو بنانے اور ان کو افزودہ کرنے میں بڑھ جائے گا۔ اس کا عام طور پر مطلب یہ ہوگا کہ آکسیجن کے مقابلے میں کاربن زیادہ بنے گی۔ دور حاضر میں ہماری کہکشاں میں اکثر جگہ آکسیجن کے جوہر کاربن کے جوہروں کی نسبت تین گنا زیادہ ہیں لیکن ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب آکسیجن اور کاربن کے جوہر برابر کی تعداد میں موجود ہوں گے۔ جب کبھی بھی ایسا وقت آئے گا تو چٹانی سیاروں کی معدنیات بدل جائے گی۔ کاربائیڈ سیلیکٹ پر غالب آ جائے گا اور اس کے نہایت ہی اہم مضمرات ایسے سیاروں پر موجود حیات کے ماخذوں پر ہوں گے جیسا کہ اس کتاب کے شروع میں بیان کیا گیا تھا کہ کاربنی سیارے نایابی سے فراوانی کی طرف ہو جائیں گے۔
وسیع تناظر میں اگرچہ حیات کا مستقبل بہت ہی شاندار دکھائی دے رہا ہے۔ تاوقتیکہ حیات بہت ہی نایاب مظہر ہو ، مستقبل میں اس کی موجودگی کافی نہ صرف کافی زیادہ ہونی چاہئے بلکہ اس کو بہت زیادہ متنوع فیہ بھی ہونا چاہئے۔ ممکن ہے کہ سیارے کائنات کا بہت ہی معمولی حصّہ ہوں کیونکہ وہ بہت ہی چھوٹے ہوتے ہیں اس کے باوجود یہ اس قدر وافر مقدار میں موجود ہیں کہ حیات کے موجود ہونے کی کافی زیادہ جگہیں دستیاب ہیں۔ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ ہماری کائنات اس دور سے گزر رہی ہے جس میں ستارے بننے کا عمل اپنی جوبن پر ہے ( جس کو ستاروں بھرا دور بھی کہتے ہیں ) لیکن ایسا بھی لگتا ہے کہ ساتھ ساتھ سیاروں کی پیدائش بھی اپنے عروج پر ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ فرمی کا تناقض جو ماضی کے بارے میں ہے وہ کائنات میں موجود کسی دوسری جگہ حیات کے بارے میں سوال کو غلط طریقے سے پوچھتا ہے۔ یہ تناقض اس بات کو فرض کرتا ہے کہ دوسرے کو ہم سے پہلے نمودار اور پروان چڑھنے کے لئے کافی وقت مل چکا ہے۔ نئے حاصل ہوئے شواہد اس فرض کی ہوئی بات کی آسانی کے ساتھ تائید نہیں کرتے۔ بات جب خرد بینی حیات کے بجائے ٹیکنالوجی کی ہو گی تو ہم حالیہ دور میں زبردست رفتار سے حاصل ہوئی اپنی ٹیکنالوجی کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے پیش بینی کر سکتے ہیں۔ لہٰذا اگر ترقی کی اس رفتار کو بنیاد بنا کر ہم اندازہ لگائیں تو فرمی کا تناقض شماریاتی طور پر نہایت مضبوط رہے گا۔ لیکن حیات کے لئے جو منطقی سلسلہ میں دیکھوں گا وہ یہ ہے : (١) پیچیدہ کیمیا حیات کے نمودار ہونے لے لئے لازمی ہے - کافی مقدار میں بھاری عناصر درکار ہوں گے ؛ (٢) مستحکم ماحول جو کیمیا کو مرتکز کر سکے وہ درکار ہو گی- ارضی سیارے (ارض ، فوق ارضی سیاروں) کی ضرورت ہو گی۔ ماضی میں یہ تمام شرائط ہماری کائنات نے کس دور میں پوری کی ہیں ؟
اس کا جواب ہے کہ سات سے نو ارب سال پہلے یہ شرائط پوری ہو چکی تھیں۔ میں اس نتیجے پر دو مختلف آزاد ذرائع سے پہنچا ہوں۔ پہلا راستہ یا ذریعہ تو وہ ہے جس پر ہم ستاروں اور دور دراز کہکشاؤں میں موجود گیس پر انحصار کرتے ہوئے قیاس کر رہے ہیں جس میں ہم ستاروں اور گیس میں موجود بھاری عناصر (جو حیات کے ظہور کے لئے ضروری ہیں )کی فراوانی کو ناپتے ہیں، اس طرح سے ہم ان کی بڑھوتری کو وقت کے ساتھ ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ جب ہم ان ستاروں کو دیکھنا شروع کر دیتے ہیں جو ارض یا فوق ارضی سیاروں کو بننے کے لئے درکار عناصر فراہم کر سکتے ہیں تو ہم ماضی میں دیکھے جانے والے اس وقت کی جانب اشارہ کر دیتے ہیں۔ مسئلہ صرف اس جگہ پر اٹکا ہوا ہے کہ ہم یہ بات کس طرح معلوم کریں کہ بڑے ارضی سیاروں کو بننے کے لئے کتنی مقدار میں بھاری عناصر درکار ہوتے ہیں۔ یہ سوال لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے۔ اگر ہمارے سیاروی تشکیل دینے والے کمپیوٹر نمونے درست ہیں تب کسی بھی ایک نظام شمسی کو ہمارے سورج کے مقابلے میں ہزار کے نسبت ایک جتنے بھاری عناصر درکار ہوں گے۔ ہماری کہکشاں اس حالت میں آج سے نو ارب سال پہلے پہنچ گئی تھی۔
جواب حاصل کرنے کا دوسرا ذریعہ یا راستہ سیدھا سیاروں کی جانب جاتا ہے۔ کیا ہم نے ستارے کے گرد چکر لگاتے سیاروں میں ہلکے عناصر کا تناسب گرتے ہوئے دیکھا ہے ؟ جی ہاں بالکل ایسا ہی ہے۔ یہ شہادت سیاروں کی کھوج کے ابتداء میں ہی حاصل ہو گئی تھی۔ یہ شہادت اس قدر واضح تھی کہ زیادہ تر ٹیمیں سیاروں کی کھوج کرتے وقت وہ ستارے چنتی تھیں جن میں بھاری عناصر کی تعداد زیادہ ہوتی تھی۔ اس رجحان پر کسی کو بھی حیرت نہیں ہوئی تھی کہ جتنی زیادہ دھاتیں ستارے میں موجود ہوں گی اتنے ہی زیادہ سیارے موجود ہوں گے لیکن اس رجحان کی طاقت بہت زیادہ حیران کن تھی۔ یہ رجحان تیزی سے سیاروں کو ڈھونڈتے ہوئے گر گیا یہاں تک کہ جو میں نے اوپر بھاری عناصر کی سورج کے مقابلے میں ہزار کی نسبت ایک بتائی تھی وہ کافی فیاضانہ محسوس ہوتی ہے۔ نتائج سے ظاہر ہوا کہ سورج کے مقابلے میں بھاری عناصر کی نسبت سو کے مقابلے میں ایک کی ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ وقت جب ماضی میں سیارے حیات کو پروان چڑھانے کے لئے سازگار ہوں گے کم ہو کر آٹھ سے سات ارب سال پہلے تک کا ہو گیا ہے۔
ایک بات میں یہاں پر واضح طور پر بتانا چاہوں گا کہ زیادہ دھاتیں زیادہ سیاروں کا رجحان فی الوقت مشتری اور زحل جیسے سیاروں کے لئے بالعموم یا پھر تپتے ہوئے مشتری کے لئے با الخصوص ہی دیکھا گیا ہے۔ میں نے فی الحال اس بات کو فرض کیا ہوا ہے کہ یہی رجحان ارضی سیاروں کے لئے بھی کارگر رہے گا لیکن کیپلر کا منصوبہ اس کو درست طور سے جانچنے کے لئے کام کر رہا ہے۔
جاری ہے۔۔۔۔۔