"عظیم ارضی سیاروں کی زندگی۔۔۔۔" (۔۔۔۔۔THE LIFE OF SUPER-EARTHS)

زہیر عبّاس

محفلین
فوق ارضی سیاروں کی زندگی ...از دیمیتر سیسی لوف

حصّہ دوم - حیات کا ماخذ

باب یازدہم - حصّہ ششم


وقت کا سفر

کائنات نوخیز ، حیات نوخیز تر ہے۔

دوسرے افزود گی کا عمل آج تک جاری ہے اور ہم اس بات کا اندازہ کافی اچھی طرح سے لگا سکتے ہیں کہ ہماری کائنات کسی طرح سے طویل اور آنے والے لامحدود دور میں تبدیل ہو گی۔ مثال کے طور پر ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ضخیم ستارے پچھلے پانچ ارب سال کے دوران بننا کم ہو گئے ہیں اس طرح سے مستقبل میں چھوٹے ستاروں کا غلبہ عناصر کو بنانے اور ان کو افزودہ کرنے میں بڑھ جائے گا۔ اس کا عام طور پر مطلب یہ ہوگا کہ آکسیجن کے مقابلے میں کاربن زیادہ بنے گی۔ دور حاضر میں ہماری کہکشاں میں اکثر جگہ آکسیجن کے جوہر کاربن کے جوہروں کی نسبت تین گنا زیادہ ہیں لیکن ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب آکسیجن اور کاربن کے جوہر برابر کی تعداد میں موجود ہوں گے۔ جب کبھی بھی ایسا وقت آئے گا تو چٹانی سیاروں کی معدنیات بدل جائے گی۔ کاربائیڈ سیلیکٹ پر غالب آ جائے گا اور اس کے نہایت ہی اہم مضمرات ایسے سیاروں پر موجود حیات کے ماخذوں پر ہوں گے جیسا کہ اس کتاب کے شروع میں بیان کیا گیا تھا کہ کاربنی سیارے نایابی سے فراوانی کی طرف ہو جائیں گے۔

وسیع تناظر میں اگرچہ حیات کا مستقبل بہت ہی شاندار دکھائی دے رہا ہے۔ تاوقتیکہ حیات بہت ہی نایاب مظہر ہو ، مستقبل میں اس کی موجودگی کافی نہ صرف کافی زیادہ ہونی چاہئے بلکہ اس کو بہت زیادہ متنوع فیہ بھی ہونا چاہئے۔ ممکن ہے کہ سیارے کائنات کا بہت ہی معمولی حصّہ ہوں کیونکہ وہ بہت ہی چھوٹے ہوتے ہیں اس کے باوجود یہ اس قدر وافر مقدار میں موجود ہیں کہ حیات کے موجود ہونے کی کافی زیادہ جگہیں دستیاب ہیں۔ ہم یہ بات جانتے ہیں کہ ہماری کائنات اس دور سے گزر رہی ہے جس میں ستارے بننے کا عمل اپنی جوبن پر ہے ( جس کو ستاروں بھرا دور بھی کہتے ہیں ) لیکن ایسا بھی لگتا ہے کہ ساتھ ساتھ سیاروں کی پیدائش بھی اپنے عروج پر ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ فرمی کا تناقض جو ماضی کے بارے میں ہے وہ کائنات میں موجود کسی دوسری جگہ حیات کے بارے میں سوال کو غلط طریقے سے پوچھتا ہے۔ یہ تناقض اس بات کو فرض کرتا ہے کہ دوسرے کو ہم سے پہلے نمودار اور پروان چڑھنے کے لئے کافی وقت مل چکا ہے۔ نئے حاصل ہوئے شواہد اس فرض کی ہوئی بات کی آسانی کے ساتھ تائید نہیں کرتے۔ بات جب خرد بینی حیات کے بجائے ٹیکنالوجی کی ہو گی تو ہم حالیہ دور میں زبردست رفتار سے حاصل ہوئی اپنی ٹیکنالوجی کی قابلیت کو دیکھتے ہوئے پیش بینی کر سکتے ہیں۔ لہٰذا اگر ترقی کی اس رفتار کو بنیاد بنا کر ہم اندازہ لگائیں تو فرمی کا تناقض شماریاتی طور پر نہایت مضبوط رہے گا۔ لیکن حیات کے لئے جو منطقی سلسلہ میں دیکھوں گا وہ یہ ہے : (١) پیچیدہ کیمیا حیات کے نمودار ہونے لے لئے لازمی ہے - کافی مقدار میں بھاری عناصر درکار ہوں گے ؛ (٢) مستحکم ماحول جو کیمیا کو مرتکز کر سکے وہ درکار ہو گی- ارضی سیارے (ارض ، فوق ارضی سیاروں) کی ضرورت ہو گی۔ ماضی میں یہ تمام شرائط ہماری کائنات نے کس دور میں پوری کی ہیں ؟

اس کا جواب ہے کہ سات سے نو ارب سال پہلے یہ شرائط پوری ہو چکی تھیں۔ میں اس نتیجے پر دو مختلف آزاد ذرائع سے پہنچا ہوں۔ پہلا راستہ یا ذریعہ تو وہ ہے جس پر ہم ستاروں اور دور دراز کہکشاؤں میں موجود گیس پر انحصار کرتے ہوئے قیاس کر رہے ہیں جس میں ہم ستاروں اور گیس میں موجود بھاری عناصر (جو حیات کے ظہور کے لئے ضروری ہیں )کی فراوانی کو ناپتے ہیں، اس طرح سے ہم ان کی بڑھوتری کو وقت کے ساتھ ساتھ دیکھ رہے ہیں۔ جب ہم ان ستاروں کو دیکھنا شروع کر دیتے ہیں جو ارض یا فوق ارضی سیاروں کو بننے کے لئے درکار عناصر فراہم کر سکتے ہیں تو ہم ماضی میں دیکھے جانے والے اس وقت کی جانب اشارہ کر دیتے ہیں۔ مسئلہ صرف اس جگہ پر اٹکا ہوا ہے کہ ہم یہ بات کس طرح معلوم کریں کہ بڑے ارضی سیاروں کو بننے کے لئے کتنی مقدار میں بھاری عناصر درکار ہوتے ہیں۔ یہ سوال لوہے کے چنے چبانے کے مترادف ہے۔ اگر ہمارے سیاروی تشکیل دینے والے کمپیوٹر نمونے درست ہیں تب کسی بھی ایک نظام شمسی کو ہمارے سورج کے مقابلے میں ہزار کے نسبت ایک جتنے بھاری عناصر درکار ہوں گے۔ ہماری کہکشاں اس حالت میں آج سے نو ارب سال پہلے پہنچ گئی تھی۔

جواب حاصل کرنے کا دوسرا ذریعہ یا راستہ سیدھا سیاروں کی جانب جاتا ہے۔ کیا ہم نے ستارے کے گرد چکر لگاتے سیاروں میں ہلکے عناصر کا تناسب گرتے ہوئے دیکھا ہے ؟ جی ہاں بالکل ایسا ہی ہے۔ یہ شہادت سیاروں کی کھوج کے ابتداء میں ہی حاصل ہو گئی تھی۔ یہ شہادت اس قدر واضح تھی کہ زیادہ تر ٹیمیں سیاروں کی کھوج کرتے وقت وہ ستارے چنتی تھیں جن میں بھاری عناصر کی تعداد زیادہ ہوتی تھی۔ اس رجحان پر کسی کو بھی حیرت نہیں ہوئی تھی کہ جتنی زیادہ دھاتیں ستارے میں موجود ہوں گی اتنے ہی زیادہ سیارے موجود ہوں گے لیکن اس رجحان کی طاقت بہت زیادہ حیران کن تھی۔ یہ رجحان تیزی سے سیاروں کو ڈھونڈتے ہوئے گر گیا یہاں تک کہ جو میں نے اوپر بھاری عناصر کی سورج کے مقابلے میں ہزار کی نسبت ایک بتائی تھی وہ کافی فیاضانہ محسوس ہوتی ہے۔ نتائج سے ظاہر ہوا کہ سورج کے مقابلے میں بھاری عناصر کی نسبت سو کے مقابلے میں ایک کی ہے۔ اس کے نتیجے میں وہ وقت جب ماضی میں سیارے حیات کو پروان چڑھانے کے لئے سازگار ہوں گے کم ہو کر آٹھ سے سات ارب سال پہلے تک کا ہو گیا ہے۔

ایک بات میں یہاں پر واضح طور پر بتانا چاہوں گا کہ زیادہ دھاتیں زیادہ سیاروں کا رجحان فی الوقت مشتری اور زحل جیسے سیاروں کے لئے بالعموم یا پھر تپتے ہوئے مشتری کے لئے با الخصوص ہی دیکھا گیا ہے۔ میں نے فی الحال اس بات کو فرض کیا ہوا ہے کہ یہی رجحان ارضی سیاروں کے لئے بھی کارگر رہے گا لیکن کیپلر کا منصوبہ اس کو درست طور سے جانچنے کے لئے کام کر رہا ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
فوق ارضی سیاروں کی زندگی ...از دیمیتر سیسی لوف

حصّہ دوم - حیات کا ماخذ

باب یازدہم - حصّہ ہفتم


وقت کا سفر

کائنات نوخیز ، حیات نوخیز تر ہے۔

آج فلکیات دان اس بات کو قطعیت کے ساتھ جان چکے ہیں کہ کائنات کے ستارے اور سیارے پیدا کرنے کی قابلیت میں تیرہ ارب سال سے کم کا عرصہ گزرا ہے لہٰذا نجمی سیاروی کائنات بہت زیادہ نوخیز ہے۔( کیونکہ ہم اپنی کہکشاں اور باقی ماندہ قابل مشاہدہ کائنات کو دیکھ سکتے ہیں، جس میں دو کھرب سے زیادہ کہکشائیں واضح طور پر اس سلسلے کو آگے بڑھانے کی قوّت رکھتی ہیں اگرچہ ہم ان کو آج ابد تک تو نہیں لیکن پھر بھی مزید ہزار ہا ارب سال تک ایسے ہی دیکھیں گے اس لئے میں کائنات کو بیان کرنے کے لئے نوخیز کا لفظ بالکل درست سمجھتا ہوں۔) والدین اور بیٹی کی تشبیہی تمثیل نہایت خوبی سے کائنات کو سیاروں اور زمینی حیات کے ساتھ بیان کرتی ہے۔ زمین پر موجود حیات ہو سکتا ہے کہ خاندان میں موجود دوسرے بچوں میں سب سے بزرگ ہو۔

ابھی تک ہمارا دائرہ ذکر صرف خوردبینی حیات کے بارے میں تھا لیکن بڑے سوال کے بارے میں کیا خیال ہے : کیا ہم انسان اس کائنات میں اکیلے ہیں ؟ یہ اب تک کا پوچھا جانے والا سب سے مشکل سوال ہے۔ بہرکیف اگر سیارے اور حیات کائنات میں نوخیز تر ہیں تو شاید ہمیں اس کائنات میں آنے میں دیر نہیں ہوئی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم اولین حیات میں سے ہی ہوں۔ شاید یہی چیز اس امر کو بیان کر سکے کہ ہم کسی بھی قسم کی دوسرے لوگوں کی موجودگی کی شہادت کو کیوں نہیں دیکھ پاتے ہیں۔ اس بات کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ کائنات میں دوسرا کوئی اور موجود نہیں ہے۔

ہر طرح سے فرمی کا تناقض ابھی تک حل نہیں ہو سکا ہے اس کے کئی حیرت انگیز ممکنہ حل موجود ہیں - جو انتہائی گہرائی سے لے کر کافی تفریح والے ہیں ، ان میں سے ہر ایک جتنی توجہ چاہتا ہے وہ میں اس کو یہاں پر دینے کا کوئی منصوبہ نہیں بنا رہا ہوں لیکن بہرحال میں آپ کو اس بات کا مشورہ ضرور دوں گا کہ اس کو مزید پڑھئیے گا ضرور۔

سردست فرمی کے تناقض کے جواب دینے کے لئے ہم اب اس بات کا تخمینہ لگا سکتے ہیں کہ قابل رہائش سیاروں کا خاندان کتنا بڑا ہے اور اس کی آبادی کتنی ہے۔ اس کا جواب ہے ، بہت بڑا۔ ذرا اس پر توجہ دیں : کائنات میں زمین پر موجود تمام ساحلوں کی ریت کے ذرّوں سے کہیں زیادہ ستارے موجود ہیں اور اتنے ہی سیارے ہیں (خاکہ 11.1ملاحظہ کیجئے)جیسا کہ اس کتاب کے شروع میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ فلکیاتی اعداد اس بات پر اٹل دلالت نہیں کرتے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم اپنے نمونوں کے لئے جتنا بھی اچھا محسوس کریں۔ ہمیں خود سے ہی تلاش کرنا ہوگا۔ ناسا کا کیپلر منصوبے کے تحت ہونے والا سروے یہ کام کرے گا۔
11.2 by Zonnee, on Flickr
11.1 زمین پر موجود تمام ساحلوں کی ریت کے ذرّوں جتنی تعداد میں ستارے اور سیارے ہماری کائنات میں موجود ہیں۔ روشن نقطے سورج کے آس پاس کچھ نظام ہائے سیارگان ہیں جو ہم پہلے ہی دریافت کر چکے ہیں۔


اس دوران ابتدائی تخمینے لگانے کے لئے ہمیں حالیہ ماورائے شمس سیاروں کی دریافت کو بنیاد بنانا ہوگا۔ ٢٠١١ ء کی گرمیوں تک دریافت ہونے والے ماورائے شمس سیاروں کی تعداد کو بنیاد بنا کر شروع کرتے ہیں۔ جو سینکڑوں کی تعداد میں(لگ بھگ چھ سو کے قریب ) ہیں ان میں سے زیادہ تر کہکشاں میں ہمارے پڑوس میں ہی موجود ہیں (خاکہ نمبر 11.2ملاحظہ کیجئے)۔ یہ ایک مفید حوالہ ہوگا۔
11.1 by Zonnee, on Flickr
11.2 ابھی تک دریافت ہونے والے زیادہ تر ماورائے شمس سیارے ہمارے نظام شمسی سے قریب ہیں؛ تمام معلوم سیارے پانچ سو نوری برس کے دائرے کے اندر اور ملکی وے کہکشاں کے اور ا ئن بازو میں موجود ستاروں کے گرد ہی موجود ہیں۔

سب سے پہلے تو مجھے کہکشاں میں موجود ستاروں کی تعداد معلوم کرنا ہو گئی۔ یہ تعداد مستقل طور پر تازہ ہوتی رہتی ہے لیکن پچھلی کچھ دہائیوں سے اس میں کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی ہے اور اس کی بنیاد مختلف آزاد ہونے والے سروے پر ہے۔ کئی دسیوں لاکھ ستارے ، مختلف قسم کے اور ہماری کہکشاں کے مختلف حصّوں میں گنے جا چکے ہیں۔ کہکشاں کی وسعت اور اس میں موجود ستاروں کی تعداد کو دیکھتے ہوئے ستاروں کی مکمل تعداد کو حاصل کرنے کے لئے مجھے ضرب دینا ہو گی : جو مل ملا کر دو کھرب ستارے بنتے ہیں۔ ان میں سے نوے فیصد ستارے اتنی کم عمر کے ہیں کہ وہ کسی قسم کے سیاروں کو تشکیل نہیں دے پائیں گے۔ مزید براں صرف دس فیصد چھوٹے ستارے ایسے ہیں جن میں سیارہ زمین میں پائے جانے والے بھاری عناصر موجود ہوں گے۔ ابھی تک ہمارا تخمینہ بہت ہی محفوظ اور طاقتور ہے۔ اب مجھے ضرورت ہے کہ یہ معلوم کروں کہ ان دس فیصد ستاروں میں سے کتنے ایسے ہیں جو زمین جیسے سیاروں کو پیدا کر سکتے ہیں۔

اب میں واپس سیاروں کی تعداد پر آتا ہوں جیسا کہ ہم نے ستاروں کے ساتھ کیا تھا۔ میں اب اس کو گنتا ہوں کہ ہمارے اب تک کیے جانے والے سروے میں کتنے ارض اور فوق ارضی سیارے جیسے سیارے دریافت ہوئے ہیں۔ یہ ایک مشکل مرحلہ ہے کیونکہ ابھی تک چند ہی فوق ارضی سیارے دریافت ہوئے ہیں (کوئی بھی زمین جیسا سیارہ دریافت نہیں ہو سکا ہے )؛ جیسا کہ ہم نے دیکھا تھا کہ ان کو ڈھونڈنا بڑے اور بھاری جسیم سیاروں کے مقابلے میں جوئے شیر لانے کے برابر ہے لہٰذا اس مشکل بات کو ہمیں اپنے اندازہ لگانے کے کام میں مد نظر رکھنا ہوگا۔ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ سیاروں کی دریافت کے دو مختلف طریقوں کا موازنہ کیا اور دیکھا جائے کہ اس سے ہم فوق ارض اور گیسی دیو کی نسبت سے کس نتیجے پر پہنچتے ہیں۔ ڈوپلر منتقلی کے طریقے کا ثقلی عدسے کے طریقے کا مقابلہ کرتے ہوئے یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ بھاری عناصر والے آدھے ستاروں میں کم از کم ایک ارض یا فوق ارض جیسا سیارہ ضرور ہوگا۔ اگر ہم فرض کریں کہ کوئی استحقاقی مدار موجود نہیں ہے اور سب کے سب برابر ہیں اور سیارے بننے کے بعد کسی بھی مدار میں ستارے کے گرد چکر لگا سکتے ہیں تو صرف ایسے ارضی اور فوق ارضی سیاروں میں سے دو فیصد سیارے ایسے ہوں گے جو ستارے کے قابل رہائش علاقے میں واقع ہوں گے۔ باقی ماندہ اٹھانوے فیصد سیارے یا تو ستارے سے بہت نزدیک ہوں گے یا پھر کافی دور۔ حتمی جواب تو کیپلر کا منصوبہ چند سال بعد ہی دے سکے گا لیکن ابتدائی مواد ہمارے لگائے ہوئے تخمینا جات سے بہت حد تک میل کھاتا ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
فوق ارضی سیاروں کی زندگی ...از دیمیتر سیسی لوف

حصّہ دوم - حیات کا ماخذ

باب یازدہم - حصّہ ہشتم (آخری حصّہ)


وقت کا سفر

کائنات نوخیز ، حیات نوخیز تر ہے۔

اب میں اعداد کو جمع کرنے کے لئے تیار ہوں۔ ہماری کہکشاں میں موجود ان دو کھرب ستاروں کو محتاط اندازوں کے ساتھ کم کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ دس کروڑ ستارے ایسے ہیں جو قابل رہائش ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

یہ اعداد اگرچہ درست نہیں ہیں لیکن ہم اس کے بڑے ہونے سے فرار حاصل نہیں کر سکتے۔ دوسری جانب ان میں سے زیادہ تر سیاروں کی تعداد عمر میں ہماری زمین کے برابر ہی ہے۔ ان میں سے کچھ ہم سے چھوٹے ہیں جبکہ حال ہی میں بننے ہونے والے بھاری عناصر کی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے ان میں سے چند کو ہم سے بڑا ہونا چاہئے۔ اس طرح کے وقت کی روک کے ساتھ ہمیں حیات کی ناگزیریت کے بارے میں کافی محتاط رہنا چاہئے۔ جس بارے میں ہم قطعیت کے ساتھ کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ حیات کوئی نایاب مظہر نہیں ہے -غالب گمان ہے کہ لازمی طور پر یہ کم از کم دس کروڑ میں سے ایک سیارے میں تو ہو گی۔ یہ گمان کرنا کچھ ایسا بھی برا نہیں ہے ؛ ایسی شاذونادر واقع ضرور وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ مئی ٢٠١١ ء میں امریکہ کی میگا ملین لاٹری کا بڑا انعام اس سال میں چار دفعہ نکل آیا جس کا گمان سترہ کروڑ ساٹھ لاکھ میں سے ایک کا تھا۔ درحقیقت ثنائی تقسیم کے مطابق دس کروڑ میں سے اٹھارہ فیصد دو لگاتار کامیابی کے مواقع موجود ہیں۔

جیسا کہ میں نے پہلے بھی گزرے ہوئے ابواب میں بیان کیا ہے ، ہم ایک نوجوان اور بدلتی ہوئی کائنات میں رہتے ہیں ، لہٰذا صرف ہماری اپنی کہکشاں میں دس کروڑ قابل رہائش سیاروں کا تخمینہ صرف سمندر میں ایک قطرے کی مانند ہے۔ ایک دفعہ جائیداد کی خرید و فروخت کرنے والے نے مجھ سے قابل رہائش سیاروں کے رجحان کے بارے میں سوال کیا کہ آیا ان کی تعداد بڑھ رہی ہے یا گھٹ رہی ہے ؟ سوال بہت اچھا تھا !

ستارے اس کا جواب دیتے ہیں۔ صرف دس برس پہلے ، ہبل خلائی دوربین کی مدد سے کافی دور دراز موجود کہکشاؤں کو ناپنا ممکن ہوا اس عمل کے دوران وقت کے ماضی میں بھی جھانکا گیا۔ فلکیات دان کہکشاؤں کے رنگوں کو بھی دیکھ سکتے تھے۔ کہکشاں کے رنگ اصل میں ہزار ہا ستاروں کے رنگوں کا مجموعہ تھا۔ جب یہ کام انتہائی احتیاط کے ساتھ مکمل کر لیا گیا اور فلکیات دانوں نے اس بات کا مکمل یقین کر لیا کہ گرد کی وجہ سے ہونے والی سرخی کتنی ہے اور باقی کتنی تو ایک حیرت انگیز نمونہ ظاہر ہوا۔ کہکشاؤں کے رنگ ان کے ابتدائی وجود کے دور میں نیلے مائل تھے ، لیکن آج سے سات ارب سال پہلے ان کے سرخی مائل ہونے کی رفتار نہایت تیز ہونا شروع ہو گئی تھی۔

ان بدلتے رنگوں کا کیا مطلب ہے؟ کہکشاؤں کے رنگ ان کو بنانے والے ستاروں کے رنگ سے ہی بنتے ہیں لہٰذا ہمیں ستاروں کے رنگوں کو جاننا ہوگا۔ اپنی حیات کا لگ بھگ ٩٠ فیصد یا اس سے بھی زیادہ حصّے کے دوران ستاروں کا رنگ ان کی ضخامت کا بتا سکتا ہے۔ جیسا کہ ہم آخری باب میں دیکھیں گے کہ جتنا زیادہ ضخیم ستارہ ہوگا اتنی ہی تیزی سے وہ اپنا ہائیڈروجن کا ایندھن پھونک دے گا۔ اس طرح سے وہ ستارہ زیادہ گرم اور روشن ہو جائے گا۔ اس کی اضافی توانائی اس کو نیلی روشنی کے ساتھ منور کرنا شروع کر دے گی ، بعینہ جیسے کہ برقی قمقمے کا فلامنٹ بجلی کے اسٹوو ہیٹر کے مقابلے میں کرتا ہے۔ زیادہ تیزی سے جلنے کا مطلب یہ ہے کہ بڑے ستاروں کا دور حیات بھی کم ہوتا ہے۔

لہٰذا اگر ہم نے نیلی کہکشاؤں کا مشاہدہ کیا ہے تو ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ ان میں سے اکثر میں بہت زیادہ بڑے اور بھاری ستارے ہوں گے اور ایسے بڑے ستارے شرحاً بہت تیزی کے ساتھ پیدا ہو رہے ہوں گے۔ اگرچہ بعد کے دور میں نیلی کہکشائیں بہت ہی کمیاب ہوں گی۔ لہٰذا دور دراز کی کہکشاؤں کے رنگ ہمیں ستاروں کی شرح پیدائش کے بارے میں بتاتے ہیں۔

ہبل سے حاصل کردہ تصویر میں وقت کے ساتھ کہکشاؤں کے بدلتی رنگت ہمیں ستاروں کی بدلتی شرح پیدائش کے بارے میں بتاتی ہے۔ ستارے اور کہکشائیں شروع میں بنے اور اس کے بعد ستاروں نے اگلے پانچ ارب سال تک مستقل تیزی سے اپنی پیدائش کی شرح کو جاری رکھا۔ کچھ ارب سال پہلے ماضی میں اس شرح میں کمی دیکھنے کو ملی ہے جو ٢٠٠٨ء کو ہونے والی دنیا کی کساد بازاری سے بھی زیادہ خطرناک ہے کیونکہ اس شرح میں بہتری کی کوئی امید نہیں ہے۔ بڑے ستاروں کا دور پورا ہو چکا ہے ! ہماری اور دور حاضر کی کائنات کی دوسری کہکشاؤں میں دس سے پچاس گنا تک کم ستارے موجود ہیں جن میں سے زیادہ تر ستاروں کی تعداد چھوٹے ستاروں کی ہے۔

تاریخ کیمیا اور حیات دونوں کے لئے اچھی رہی ہے۔ کم عمر اولین ستاروں کی فراواں کھیپ نے کائنات اور اگلی نسل کے ستاروں (اور سیاروں ) کو ثمر آور بھاری عناصر سے لبریز کر دیا ہے۔ چند بڑے نیلے ستاروں والی کہکشاں کیمیا اور حیات دونوں کے لئے بہتر ہے۔ ایکس ریز اور بالائے بنفشی روشنی جو "نیلے " بڑے ستارے بڑی تعداد میں پیدا کرتے ہیں حیات کے لئے پرخطر ہوتی ہیں۔ ماضی میں سات سے آٹھ ارب سال پہلے تک ہماری کائنات حیات کے لئے زیادہ سے زیادہ مہربان ہونا شروع ہوئی ہوگی اور اس جانب اس کا ارتقاء مستقبل میں ایک لمبے عرصے کے لئے جاری رہے گا۔

اسی دوران کم از کم دو ایسی وجوہات موجود ہیں جو ہمیں اپنی کہکشاں میں کثیر جہانوں کے بارے میں پرامید لگتی ہیں جہاں ہر جگہ حیات کا ماخذ الگ ہوگا۔ پہلی وجہ تو بظاہر حیات کے نمودار ہونے اور زمین کی سطح پر اس کے قدم جمانے کا عرصہ نہایت ہی کم لگتا ہے۔ دوسرے اب ہم یہ جان گئے ہیں کہ قابل رہائش سیاروں کا خاندان ہمارے وہم و گمان سے بھی کہیں زیادہ بڑا ہے جس میں فوق ارضی سیارے تو حیات کو پالنے پوسنے کے لئے نہایت ہی شاندار جگہ ہیں۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
فوق ارضی سیاروں کی زندگی ...از دیمیتر سیسی لوف

حصّہ دوم - حیات کا ماخذ


باب دواز دہم - حصّہ اوّل


حیات کا مستقبل


زمین ہمارا سیاروی گھر ہے۔ ہم اس کو حیات کا پالنا کہتے ہیں۔ اس تصوّر کی جڑیں بہت گہری لیکن غلط ہیں۔ گھر ایک ایسی جگہ ہوتی ہے جہاں ہم رہتے ہیں ، بڑھتے ہیں اور اس جگہ کو چھوڑ دیتے ہیں ؛ ہم اس کی خریدو فروخت بھی کر سکتے ہیں۔ کوئی بھی سیارہ حیات کے لئے گھر نہیں ہو سکتا۔ اس کے بجائے ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ سیارہ اور اس پر موجود حیات دونوں ایک ہی چیز ہیں۔ اس بحث کو میں اگر اس جگہ پر چھوڑ دوں گا تو قارئین مجھ پر الزام لگائیں گے کہ میں نے کوئی بہت ہی سطحی بات کی ہے بالکل ان سیاست دانوں کی طرح جو ایک بات کو مختلف پیرائے میں بیان کرکے عوام کا خون مزید ٹیکس لگا کر نچوڑتے ہیں۔ بہرصورت حیات ایک سیاروی مظہر ہے ، اگرچہ یہ ایسی کوئی عارضی چیز نہیں ہے جیسا کہ کوئی طوفان یا کوئی بے ربط چیز جیسا کہ ٹیکٹونک پلیٹ۔ اس کے باوجود ہمارے پاس فرد واحد موجود مثال یہ بتاتی ہے کہ یہ (دوسرے "حیات سے محروم" سیارے پر ) منتقل ہونے کی خاصیت کی حامل ہے۔ یا کم از کم ہم تو ایسا سمجھتے ہیں۔

ایسا کیسے ہو سکتا ہے ؟جیسا کہ میں نے تمثیلی طور پر تین سیارے کے بارے میں تجویز کیا تھا۔ ہم پہلے ہی اس بات سے خبردار ہیں کہ کیمیائی عمل جس کو ہم حیات کے نام سے جانتے ہیں وہ اتنا طاقتور ہے کہ حیات کو زمین سے چاند کی طرح منتقل کر سکتا ہے۔ اس بات کی بھی کافی امید ہے کہ ہم نے جرثوموں کو اپنے خلائی جہاز میں بیٹھا کر مریخ کی سطح پر مستقل اتار دیا ہو – شاید اس سے بھی آگے چاہئے وہ ٹائٹن ہو جہاں پر ہم نے ہائے گنز بھیجا تھا یا پھر وائیجر جو اب پتا نہیں کہاں تک جا پہنچا ہے۔ لیکن اس قسم کی منتقلی خوردبینی حیات کی تخمک شاید ہمارے خلاء کو کھوجنے سے بہت پہلے ہی لمبے فاصلوں پر ہو گئی تھی۔ جب زمین پر اس کی تاریخ میں سیارچوں کی بارش ہوئی تھی تو اس میں آتا ہوا مادّہ اتنا ہی تھا جتنا خلاء میں جانے والا مادّہ تھا اور اس بات میں کوئی حیرانی نہیں ہونی چاہئے کہ اس مادّے میں موجود کچھ حیات نے گرد میں پیوستہ رہ کر یا پھر سیارچوں کی صورت میں بین النجمی سفر بھی کر لیا ہوگا یہاں تک کہ وہ کسی نئے گھر یا دوسرے قابل رہائش سیارے پر پہنچ گئے ہوں ۔ اس طرح سے ہم سیارہ زمین کو گھر تصوّر کر سکتے ہیں یا پھر ایک ایسا پالنا جو روایتی طور پر حیات کو پالتا پوستا ہو۔ یہ قدیم نظریہ "عالمگیر انتشار " (Panspermia)کہلاتا ہے۔

عالمگیر انتشار جس کا مطلب ہے' ہر جگہ بیچ " ہے ایک قدیم خیال ہے جو یونانیوں میں سقراط کے دور تک جاتا ہے۔ سویڈنی کیمیا دان سونتے ارہینیس (Svante Arrhenius) نے اس خیال کو بیسویں صدی میں دوبارہ اٹھایا۔ ١٩٧٠ء کی دہائی میں اس کی موافقت میں مزید دلائل فریڈ هوئیل (Fred Hoyle)اور چندرا وکرم سنگھ (Chandra Wickramasinghe) نے دیئے، جس میں سیارچوں کو بطور تخمک پرداز(Spores) تسلیم کیا گیا تاکہ حیات کو اشعاع کی تابکاری سے بچایا جا سکے۔(ہوئیل اور وکرم سنگھ ابدی دائمی کائنات کے حامیوں میں سے تھے۔ جس میں کسی بھی تخمک نے ہماری کہکشاں میں کافی دفعہ سفر کرکے اس کو ستاروں میں اچھی طرح سے شامل کر دیا تھا۔)

اس قسم کی سوچ نے فرمی کے تناقض کو بہت ہی زیادہ قابل توجہ بنا دیا۔( ایک علاقائی مفروضہ بھی موجود ہے جو بین السیارہ حیات کی منتقلی جیسا کہ مریخ سے زمین کو بیان کرتا ہے۔ اس نظرئیے کا تصوّر کچھ اس طرح سے ہے : ایک بڑے سیارچے نے گیلے مریخ سے ٹکر کھا کر گرد کو خلاء اور کچھ سورج کے گرد خودمختار مداروں میں بھیج دیا تھا۔ ہرچند کہ ان تصادموں کی شکل کچھ ڈرامائی دھماکوں کی صورت میں تھی (جس میں چٹانیں پگھل کر فضا میں تحلیل ہو گئیں تھیں) اس کے باوجود کچھ چٹانوں کی باقیات مکمل طور پر حرارت کے اثر اور ٹوٹنے سے بچ گئی تھی۔ اگر مریخ زندہ تھا ، اور اس کی گہرائی میں چٹانوں کے اندر جرثومے زندہ تھے ، تو جرثوموں کی کئی بستیاں چٹانی پتھروں کے اندر باقی رہ گئی ہوں گی۔

کروڑوں برس گزرنے کے ساتھ چھوٹی چٹانوں کے مداروں میں سیاروں کے بدلتے ہوئے ثقلی کھنچاؤ کی وجہ سے کچھ بے کلی ہوئی۔ اکثر یہ مدار ڈرامائی طور پر بدلتے ہوئے بڑے سیاروں کے مداروں کو پار کرنے لگے۔ ان میں سے کچھ کا سفر بطور شہابیے پڑوسی سیاروں کی سطح پر جا کر ختم ہو گیا۔ زمین پر کئی مریخی شہابیے موجود ہیں ؛ ان کی شناخت آسانی کے ساتھ ان میں موجود معدنیات اور چھوٹے مریخی فضائی بلبلوں سے کی جا سکتی ہے۔ یہ مفروضہ اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ اگر مریخ پر کبھی حیات موجود تھی تو وہ سیارہ زمین پر بھی پہنچ سکتی ہے۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اس سلسلے کی مخالفت میں دوسری جانب جانے کا امکان کم ہے کیونکہ باہری نظام شمسی سے آنے والا ٹریفک سورج کی جانب آتا ہے۔ جب مدار بدلتے ہیں تو اجسام سورج کی جانب آنا زیادہ پسند کرتے ہیں۔

کیا ایسا کبھی ہوا تھا اس سوال کا جواب صرف مشاہدہ ہی بیان کر سکتا ہے کیونکہ اس کا نظام خود کافی قرین قیاس ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ کچھ ایسے جرثومے ہیں جو اس قدر ڈھیٹ ہوتے ہیں کہ خلاء میں سفر کرتے ہوئے اونچے اور نچلے دونوں قسم کے درجہ حرارت اور اشعاع ریزی میں سے بھی زندہ بچ جاتے ہیں۔ ایک شہابیے کو مریخ سے زمین تک آنے میں لگ بھگ دس سال سے زائد کا عرصہ لگتا ہے۔ ایسے بین النجم سفر ممکن تو ہیں لیکن ایسے سفر میں درکار عرصہ بہت لمبا ہوگا۔ اگر تخمک ارب ہا برس کے سفر میں زندہ بھی باقی رہ گیا ہو (فی الوقت کوئی بھی ایسا تخمک معلوم نہیں ہے )، تو سوال اپنی جگہ قائم رہتا ہے کہ کیا ہماری کہکشاں کی تاریخ میں اس طرح کے سفر کو مکمل کرنے کے لئے کافی وقت موجود ہے۔ جیسا کہ پچھلے باب میں بیان کیا گیا ہے کہ ہماری کائنات کافی نوخیز ہے ، حیات کے لئے درکار اجزاء اس سے بھی نوخیز تر ہیں۔ جب حیات کے ارتقا اور اس کی نمو کے لئے موجود کائنات میں وقت اتنا نہیں گزر ا ، تو ہماری اتنی بڑی کہکشاں میں موجود دور دراز ستاروں کے لئے درکار تخمک کے سفر کے لئے وقت کہاں سے آیا ہوگا۔ ہرچند کہ آج حیات عالمگیر انتشار کی وجہ سے نہیں پھیلی ہے ، لیکن یقینی طور پر مستقبل میں ایسا ہو سکتا ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
فوق ارضی سیاروں کی زندگی ...از دیمیتر سیسی لوف

حصّہ دوم - حیات کا ماخذ

باب دواز دہم - حصّہ دوم


حیات کا مستقبل


عالمگیر انتشار ایک لمبے عرصے پر وقوع پذیر ہونے والا مظہر ہے، لہٰذا حیات کا مستقبل کم از کم ہمارے سیارے پر تو کافی تاریک لگتا ہے ایک طرح سے ارتقاء اسی اصول پر انہی اوزاروں مثلاً ڈی این اے آراین اے کے ساتھ جاری رہے گا۔ لیکن میرے خیال میں ایسا کوئی بھی منظر نامہ سچائی سے کہیں زیادہ دور ہوگا۔ در حقیقت ہم اکیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں جی رہے ہیں ، یہ وہ صدی ہے جہاں زمین کی تاریخ نے ایک شاندار موڑ لیا ہے۔ چار ارب سال میں پہلی دفعہ نئی نوع اس عملی طریقے سے نہیں نمودار ہو رہی ہیں جس نے سیارے پر موجود حیات کی بوقلمونی کی تھی۔ اس کے بجائے ایک نوع دوسری نوع کی ترکیب سازی کر رہی ہے - حیات کی شکل منفرد ہے لیکن اس طرح سے نہیں کہ کوئی کتے کی نئی قسم پیدا ہو رہی ہے یا کوئی جینیاتی طور پر تبدیل شدہ بھٹے کا پودا کچھ مختلف آرائشوں سے اپنے جد امجد سے منفرد ہو گیا ہے۔ وہ اس لئے نیا ہے کہ اس کی حیاتی کیمیا منفرد ہے ، ایک حیات کی نئی قسم جس کی جگہ زمین پر موجود شجر حیات میں کہیں بھی نہیں بنتی ، ایک نئی حیات کی شکل ایک نئی حیاتی شجر کی جڑ میں بن رہی ہے۔

میں ایک نئے میدان کے آغاز کو بیان کرنے جا رہا ہوں - تالیفی حیات(Synthetic Biology)۔ زمین پر موجود تمام حیات میں ایک قابل ذکر شراکتی حیاتی کیمیا موجود ہے یہ ہی وجہ ہے کہ ہم ای کولی (E۔ Coli)، پھل مکھی اور چوہوں کو اپنے نائبین کے طور پر اپنی حیاتیاتی تجربہ گاہ میں استعمال کرتے ہیں۔ خلوی نظام بھی کافی حد تک ایک جیسا ہی ہے۔ تالیفی لونیتی (Synthetic Genomics)] یا عام طور پر حیاتی انجینئرنگ کے طور پر جانے والے ]عمل کے ذریعہ سائنس دان اس وحدت کو استعمال کرتے ہوئے افعال اور اشکال میں بوقلمونی حاصل کر لیتے ہیں۔ ذرا پرانے افزائشی طریقوں کے بارے میں تصوّر کریں یا پھر حالیہ امید افزا مکمل جرثوموں کے لونیہ کی صورت گری سوچیں۔ تالیفی حیاتیات ، جس طرح سے میں اس میدان کا حوالہ یہاں پر دے رہا ہوں ، وہ تالیفی لونیت سے تصوری اور عملی دونوں اطوار پر کہیں زیادہ دور جائے گی۔ یہ صرف کسی لونیہ کی تبدیلی تک یا پھر کسی نئے لونیہ کو بنانے تک محدود نہیں رہے گی بلکہ یہ تو ایک تالیفی حیاتی نظام کو بنائے گی جو قدرتی طور پر پایا نہیں جاتا اور اس طریقہ استعمال سے یہ حیات کے عمل کو زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکے گی۔ یہ بنیادی حیاتیاتی کیمیا کو تبدیل کر دے گا اور اسی لئے حیات کی حاصل ہونے والی نئی شکل زمین پر موجود قدرتی شجر حیات سے تعلق نہیں رکھتی ہو گی۔

تالیفی حیاتیاتی تحقیق اپنی تعریف میں حیات سے زیادہ کیمیا سے قریب ہے، جبکہ جینیاتی انجینئرنگ کیمیا سے زیادہ حیات سے قریب ہے۔[یہی وجہ ہے کہ ٢٠٠٧ء میں پئیر لوگی لوسی(Pier Luigi Luisi) نے "کیمیائی تالیفی حیات "(Chemical Synthetic Biology) کی اصطلاح گڑھی]۔ میں اس کے ایک مرکزی حصّے کی تحقیق کا مقصد مصنوعی خلیہ اصغر کو دیکھتا ہوں جو ایک تھیلی میں ملفوف ایک مفروضی کیمیائی نظام ہو اور حیات کے اہم افعال سرانجام دے سکتا ہو ۔ اس کے یک خلیہ ہونے کی وجہ ایک تھیلی ہے ؛ یہ اصغر اس لئے ہے کہ اس کو چھوٹا کرکے صرف اس میں وہ چیزیں باقی رکھی گئی ہیں جو اپنے وجود کے خود کار دوام اور اس کے ارتقاء کے افعال کو سرانجام دے سکے ، یہ مصنوعی اس لئے ہے کہ ایسا کوئی بھی قدیمی نظام زمین پر پایا نہیں جاتا ، زمین پر سادے سے سادہ جرثومے بھی انتہائی پیچیدہ اور گنجلک خلیوں پر مشتمل ہیں اور ہر قابل تصور جگہ پر یہ پائے جاتے ہیں۔ اس کے برخلاف لونیاتی انجنیئر اسی طرح کے اونچے درجے کے پیچیدہ اجسام کے ساتھ کام کرتا ہے جس میں نباتات اور جاندار دونوں شامل ہیں اور وہ ان کو تبدیل کرنے میں جتے رہتے ہیں تاکہ وہ ان طریقوں سے کام کر سکیں جو قدرت کی ودیعت کردہ صلاحیتوں سے کہیں زیادہ بڑھ کر ہیں۔

تالیفی حیات ایک ایسی وعید لے کر آئی ہے جس میں ایک متبادل حیاتی کیمیا ممکن ہے جو خودمختار طور پر دوسرے سیاروں (یا زمین پر موجود حیات )سے الگ بنایا جا سکتا ہے۔ اس عمل کی غیر معمولی بات بجائے مادّے کی نئی اقسام یا نئی طاقتوں کو دریافت کئے جانے کے اس میں عام کیمیا کا استعمال کیا جاتا ہے۔ متوقع دریافتیں قدرت کے نئے بنیادی اصولوں (یا قوانین )کو جاننے میں ہی پنہاں ہیں۔ یہ اس لئے بھی غیر معمولی ہیں کیونکہ یہ ہمیں اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ ہم حیات کے ماخذ سے متعلق اس طرح سوال اٹھا سکیں جو سائنس کو کسی زبردست دریافت کی جانب لے جائے : ابتدائی شرائط کا زمینی حیاتی کیمیا کی اشکال کو وحدت دینے میں کیا کردار رہا ہے ؟ کیا سیاروی ماحول کی بوقلمونی کو متبادل حیاتی کیمیا کی بوقلمونی پر نقش کیا جا سکتا ہے ؟

یہ عمل انتہائی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ اس کتاب میں جگہ جگہ پروائے گئے ان تمام دھاگوں کو ایک ساتھ کھینچ کر ایک ایسی ترکیب میں بنے گا جو بمشکل اب جا کر ممکن ہوا ہے۔ تجربہ گاہ میں ہونے والے کام کے براہ راست مضمرات دور دراز سیاروں پر ہونے والی فلکیاتی حیات کی تلاش پر بالعکس پڑے ہیں: ان دور دراز پائی جانے والی چیزوں نے تجربہ گاہ میں ہونے والی متبادل حیاتی کیمیا کی تلاش کو بڑھاوا دیا ہے۔ اس بات کی کھوج کرنے کے لئے کہ ہم کائنات میں اکیلے نہیں ہیں ہمیں حیات کو سمجھنا ہوگا ، اور حیات کو سمجھنے کے لئے ہمیں یہ بات جاننی ہو گئی کہ اس کی کیمیا کو کیسے بنایا جائے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
فوق ارضی سیاروں کی زندگی ...از دیمیتر سیسی لوف

حصّہ دوم - حیات کا ماخذ

باب دواز دہم - حصّہ سوم


حیات کا مستقبل


جب ہم ان مشکلات کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں تو ارضی حیاتی کیمیا کی وحدت ہمیں اہم اور مدد گار معلومات فراہم کرتی ہے۔ تمام کیمیا کے بارے میں - اس کے کروڑوں سالمات اور ان تعاملات کے بارے میں جو ان کے درمیان مختلف ماحول میں وقوع پذیر ہوتے ہیں – بڑے پیمانے پر سوچیں۔ ریاضی کی زبان میں بات کریں تو خلاء کی کافی جہتیں ہیں جو انسانی فہم و ادراک سے بالا تر ہیں ، لیکن اگر ہم کچھ معلوم چیزوں کو چن لیں اور کئی جہتوں کو صرف دو یا تین جہتوں تک کم کر لیں، تو ہم کچھ نمونوں کو دیکھ سکتے ہیں جو اکثر و بیشتر پہاڑوں اور وادیوں کے جغرافیائی نقشے جیسے دکھائی دیں گے۔ سائنس دان اکثر ایسی خلاء کو "ارضی منظر"(Landscape) کہتے ہیں۔ کیمیائی ارضی منظر خاکہ نمبر 12.1میں دکھایا گیا ہے۔
12.1 by Zonnee, on Flickr

12.1یہاں پر پیش کیا جانے والا کیمیا میدان ایک تمثیل ہے جو تمام سالمات کی جگہ اور ان کے کیمیائی تعاملات کو مثال کے طور پر سالماتی تعاملیت کی صورت میں پیش کر رہی ہے ۔ خالی جگہ کے ارد گرد سالماتی ترتیب (جوہروں سے پائی گئی ) کے داخلی راستے مختلف ماحول میں گھرے ہوئے ہیں ۔ ہم ان کو "ابتدائی شرائط " کہتے ہیں ۔ ایسی ابتدائی حالت جیسی کہ زمین پر شروع میں تھی اکثر قدرتی طور پر نمودار ہو سکتی ہے؛ اکثر اس کو تجربہ گاہ میں بھی حاصل کیا جا سکتا ہے ۔ میدانی منظر میں دکھائی جانے والی سب سے اونچی چوٹی کرۂ ارض کی حیات کی حیاتیاتی کرہ کو بیان کرتی ہے ؛ابتدائی ارضی صورتحال سے ایک راستہ اس طرف جاتا ہے ۔ ہمیں نہیں معلوم اگر دوسری حیاتیاتی کیمیا اپنا وجود رکھتی ہیں نہ ہی ہمیں یہ بات معلوم ہے کہ ان کی جانب یا زمین کی حیاتیاتی کیمیا (یا اس کے عکسی ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ استعمال کرنے کی نسبت رجحان کا ورژن : دوسری قریبی چوٹی ) کے استعمال کی جانب ایک سے زیادہ راستے جاتے ہیں۔

کیمیائی ارضی منظر کی سب سے غیر معمولی خاصیت اس کی اونچی چوٹی ہے - تنگ اور اچھی طرح سے بیان کردہ - جو تمام ارضی حیات کی حیاتی کیمیا کا احاطہ کئے ہوئے ہے۔ چوٹی اونچی اس لئے ہے کیونکہ آج حیات بہت زیادہ پر اثر کیمیائی نظام ہے ؛ ارتقاء نے اپنا جوبن گزرتے وقت کے ساتھ حاصل کیا ہے۔ دوسری طرح اس کی تنگ بنیاد یہ بتاتی ہے کہ حیات اپنی کیمیائی پسند میں کس طرح سے چناؤ کرتی ہے۔ وسیع کیمیائی ارضی منظر میں دستیاب کروڑوں میں سے یہ چن کر صرف بیس امینو ایسڈ ، صرف الٹے ہاتھ والے ، صرف چند پروٹین ، صرف آر این اے اور ڈی این اے اور اسی طرح دیگرے کا استعمال کرتی ہے۔ کیا ارضی منظر میں دوسری اونچی چوٹیاں بھی موجود ہیں؟ اگر ہیں تو ان میں سے کون سی ایسی ہیں جو حیاتی کیمیا ("دوسری حیات")کے متبادل کے طور پر استعمال ہو سکتی ہیں؟ کیا ان میں سے کچھ کی رسائی مناسب سیاروی ماحول تک ہو سکتی ہے ؟

ہم متبادل حیاتی کیمیا کے سوال کا جواب مثبت دے سکتے ہیں کیونکہ جڑواں چوٹیاں "عکسی حیات " کے مطابق ہوتی ہیں - حیاتیاتی سالمات کا وہی چناؤ لیکن متضاد تشاکل کے ساتھ [(ایک ہاتھ کو دُوسرے ہاتھ کی نِسبَت زیادہ اِستعمال کرنے کا رجحان ) خاکہ نمبر 12.1 ملاحظہ کیجئے ]ہوگا۔ اس بات کی کوئی معقول وجہ نظر نہیں آتی کہ عکسی حیاتیاتی کیمیا تجربہ گاہ میں یا دوسرے سیارے پر مختلف برتاؤ کرے گی۔ اس دوران جب سائنس دان اس بات کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں آیا کیوں حیاتیاتی کیمیا کے مختلف آمیزے ناکام ہو جاتے ہیں ، سیدھے اور الٹے ہاتھ کا تشاکل ہو سکتا ہے کہ صرف اتفاق کی بات ہو۔ اس لحاظ سے بالعکس حیاتیاتی کیمیا غیر اہم ہے - اصل متبادل حیاتی کیمیا ممکن ہے یا نہیں اس بارے میں یہ کوئی براہ راست بصیرت فراہم نہیں کرتا ہے۔ بہرصورت اگر اس کو تجربہ گاہ میں بنایا جا سکتا ہے تو ایسا کوئی بھی حیاتیاتی کیمیائی نظام حیات کے بنیادی اصولوں کو سمجھنے کے لئے ایک طاقتور وسیلہ فراہم کرے گا۔ ایک طرح سے یہ کامیاب اجتماع اور اصغر خلیے کی پرورش کرے گا جو انگنت جہانوں کے دریچے وا کر دے گا۔ عکسی فعال نظام کم از کم ابتدائی شرائط(مثلاً مختلف سیاروی ماحول ) کی اہمیت کو جانچ لے گا ۔

عصر حاضر کے کیمیا دانوں کے پاس استعمال کے لئے وہ تجزیاتی آلات ہیں جس سے وہ غیر مانوس داخلی کیمیائی میدان کے علاقے کے ڈھیر کی تلاش کر سکیں۔ اسی طرح سے تاریخ میں پہلی بار ، فلکیات دانوں کے پاس وہ آلات موجود ہیں جس سے وہ زمین سے کہیں مختلف بلکہ نظام شمسی میں موجود دوسرے سیاروں کے ماحول سے بھی الگ دوسرے ماورائے شمس سیاروں پر موجود ماحول کو دیکھ سکتے ہیں ۔ امید کی جاتی ہے کہ جلد ہی وہ کوئی زمین کے کاربونیٹ سلیکیٹ عالمگیر چکر جیسے دوسرے ماورائے شمس سیاروں پر جو دیگر ستاروں کے گرد چکر کاٹ رہے ہیں، کوئی متبادل نظام ڈھونڈ لیں گے (ملاحظہ کیجئے باب دہم ) یہاں تک کہ وہ اب تک کے نامعلوم کیمیائی میدان کو گھیرے ہوئے ان علاقوں کی نقشہ سازی کر لیں گے جہاں پر ابتدائی شرائط موجود تھیں۔ اجتماعی طور پر کام کرتے ہوئے ، کیمیا دانوں کے پاس وہ معلومات موجود ہیں جو انھیں سیاروی ماہرین فلکیات نے مہیا کی ہیں ۔ ان معلومات کے بل بوتے پر کیمیا دان بلند چوٹیوں(متبادل حیاتی کیمیا ) کے اندرون کی تلاش کر سکتے ہیں ۔ کیا کوئی بھی فوق ارضی سیارہ جہاں سلفر ((SO2 کے چکر کا غلبہ ہو ان کو ایک نئے سلفر کے حیرت انگیز حیاتی کیمیا کی دنیا میں لے جا سکتا ہے ؟ یا وہ کوئی متبادل راستہ ہماری اپنی ارضی حیاتی کیمیا کا حاصل کر سکتے ہیں ۔ جو بھی انھیں ملے گا وہ یقینی طور پر یادگار چیز ہوگی! شاید سب سے اہم چیز وہ یہ علم حاصل ہوگا کہ کس طرح سے دور دراز سیاروں پر موجود حیات کی شہادتوں کو ذہانت سے پرکھا جا سکتا ہے بجائے اس کے کہ ہم بھولے پن سے زمین کی حیاتی کرہ کی کاربنی حیات کی نقل کو تلاش کریں ۔

بنی نوع انسان کی تاریخ میں کافی اہم سنگ میل آئے ہیں۔ زیادہ تر کو ہم جانتے ہیں جبکہ کچھ کو اب بھی تلاش کرنا باقی ہے ۔ ایک بات تو یقینی ہے : تمام سنگ میل ہماری اور حیات کی تاریخ میں اہم ہیں۔ بہرصورت جس سنگ میل کی میں امید کر رہا ہوں - تالیفی حیات - اس کے خصائص مختلف ہیں اور یہ سیارہ زمین اور اس پر بسنے والی بنی نوع انسان کی خصوصی صورت سے کہیں زیادہ آگے کی چیز ہوگی ۔ کیونکہ یہ ان واقعات کی کڑی کے سلسلے میں اہم ہے جو کائنات میں عام مادّے کی تشکیل کے بعد ہونا شروع ہوئے ہیں ۔زمین پر حیات پیچیدہ کیمیا کی ایک اکلوتی مثال ہے جس کو حیاتیات کہتے ہیں ، جو امکان پذیری کا ثبوت ہے ۔ حیات کا وقوع پذیر ہونا ممکن ہے لیکن اس سے یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ اس کے وقوع پذیر ہونے کا امکان کتنا ہے ۔ ایک دفعہ تالیفی حیاتیات کی ضمن میں تحقیق مکمل کامیاب ہو جائے تو پھر وہ اس بات کو ثابت کر سکتی ہے کہ مادّے میں خود کو ترتیب دینے اور اکلوتی حیاتی کیمیا سے مختلف اقسام کو پیدا کرنے کی جبلّت یا تخلیقی صلاحیت موجود ہے ۔(جو بات ہم نہیں جانتے وہ اس وسعت کی افزونی ہے ۔)

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
فوق ارضی سیاروں کی زندگی ...از دیمیتر سیسی لوف

حصّہ دوم - حیات کا ماخذ

باب دواز دہم - حصّہ چہارم


حیات کا مستقبل


آخری حصّہ تاریخ کا اہم موڑ ہوگا : ایک شجر حیات دوسرے شجروں کا بانی ہوگا (یا دوسرے شجروں کی جڑیں بنے گا )۔ یہ اہم موڑ اس لئے ہوگا کیونکہ یہ بوقلمونی کو افزوں کرنے کی ترکیب کہکشانی پیمانے پر لمبے عرصے (ارب ہا سال ) کے لئے ہو سکتی ہے اور کیونکہ یہ حیات کی نئی نسل کے وجود (حال یا مستقبل ) کی جانب اشارہ کرتی ہے ۔ ہم اپنی آسانی کی خاطر اس کو حیات کی نسل دوم کہے دیتے ہیں ۔ اس کو بیان کرنے کی خاصیت یہ ہے کہ اس شجر کی جڑیں حیاتیاتی کیمیا سے پہلے نہیں جڑی ہوئی ہیں بلکہ حیات کی نسل اوّل اس کا ماخذ ہے ۔ زمین پر حیات کی نسل اوّل ہے ، اور "نسل " کی اصطلاح بالکل ایسے ہی استعمال کی گئی ہے جیسے کہ انسانی سماج میں استعمال ہوتی ہے ۔ یہ ہم پلہ قبیلے پر دلالت کرتے ہوئے ایک مرحلے کو اپنے اجداد کے سلسلے میں بناتے ہوئے آگے بڑھاتا ہے ہرچند اس کے لئے اسی وقت پیدا ہونا ضروری نہیں ہے ۔نسل اوّل حیاتیاتی کیمیا کے مجموعہ پر مشتمل ہو سکتی ہے بشرطیکہ اس کا کوئی وجود ہو۔

ہم نہیں جانتے کہ ہماری اپنی حیاتیاتی کیمیا سے کتنی دوسری اقسام کی حیاتیاتی کیمیا (یا دوسرے حیات کے ماخذ ) بن سکتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ ہم یہ بات دریافت کر لیں کہ حیاتیاتی کیمیا کا میدان محدود حیات کے ماخذ اور شاید حیاتیاتی سالمات اور حیاتیاتی کیمیا کے ایک جیسے خاندان بنانے کی اجازت دیتا ہو ۔ اگر ایسا ہوا تو افزود گی والا امکان جو تالیفی حیاتیات سے حاصل ہوگا وہ محدود سمجھا جائے گا لیکن تب بھی یہ ایک افزودہ عامل رہے گا ۔ اس بات کا مطلب ہوگا کہ کائنات کے دور دراز مستقبل میں عام مادّے کی تقسیم میں اس کا کردار بڑھے گا ۔ اس بات کے پیش نظر کہ سیارے کیسے ہو سکتے ہیں یا کیسے ہوں گے - جب کاربائیڈ سیارے زمین جیسے سیلیکٹ سیاروں کو تعداد میں پیچھے چھوڑ دیں گے اس وقت کیمیائی میدان میں حیاتیاتی کیمیا کے لئے کافی گنجائش اور وسعت ہوگی۔ ہو سکتا ہے کہ نسل دوم کہکشاں میں پہلے ہی سے موجود ہو ۔

میری سوچ کے مطابق تالیفی حیات کے تین سنگ میلوں میں سے ایک سنگ میل کی طرف ہمارا سفر جاری ہے ۔ وہ بظاہر ایک دوسرے سے الگ اور اتفاقی طور پر ایک ساتھ بھی وقوع پذیر ہو سکتے ہیں ۔ ان میں سے ہر ایک انتہائی سرعت رفتار کی شرح سے پچھلی نصف صدی میں ہونے والی ہماری ٹیکنالوجی میں ہونے والی پیشرفت کا حاصل ہو سکتی ہے ۔ دوسرے دو، کوپرنیکن انقلاب کی تکمیل اور عالمگیریت کا حیرت انگیز عمل ہو سکتے ہیں ، پورے سیارے پر موجود انسان نہ صرف ایک دوسرے سے حیاتیاتی طور پر جڑے ہوئے ہیں بلکہ عملی طور پر اور شعوری طور پر عام زندگی میں بھی وہ ایک دوسرے کے شانہ بشانہ ہیں۔

عالمگیریت کا عمل پہلے ہی شروع ہو چکا ہے اور یہاں اس پر بحث کرنا غیر اہم بات ہوگی ، لیکن اس کا براہ راست تعلق جو کوپرنیکن انقلاب کی تکمیل سے ہے (اول الذکر کی مدد سے بعد الذکر کو ممکن کیا جا سکتا ہے ) اس کا اثر زمین کی تمام حیاتیاتی کرہ پر مکمل طور پر مثبت نہیں پڑا ہے ۔ میں امید کرتا ہوں کہ کوپرنیکن انقلاب کی تکمیل ہمیں یہ دکھا کر کہ زمین ان دوسرے سیاروں میں سے صرف ایک سیارہ ہے جو حیات کے لئے مسکن ثابت ہو سکتے ہیں، ہمیں اس بات کو سوچنے میں مددگار ثابت ہوگی کہ ہم کوئی خاص نہیں ہیں ۔کسریٰ نفسی ہمارے لئے بہتر ثابت ہوگی ۔ حیات کو بطور سیاروی مظہر دیکھنے کے جس کی بنیاد میں حیاتیاتی کیمیا خود سیارے سے گہرائی میں پیوستہ ہے ، ہمیں اس آگاہی دینے میں مدد کرے گی جس میں ہم اپنی زمین کے ساتھ ایک ایسی منفرد حیاتیاتی کیمیا کا خلاصہ ہیں جو آج سے چار ارب سال پہلے نمودار ہوئی تھی اور قطعی طور پر زمینی ہے ۔ ہم یہاں پر موجود ایک اچھی چیز کا حصّہ ہیں اور شاید اس کے بارے میں سیکھ رہے ہیں اور یہ بات ہمیں خراب کرنے کے بجائے شاید تحریک دے گی ۔

تالیفی حیات کا سورج ایک بہت ہی خوش نصیب وقت میں طلوع ہو رہا ہے : یہ ہمارے اس سوال کا جواب دے گا کہ آگے کیا ہے ؟ یہ کوپرنیکن انقلاب کی تکمیل کے بعد نمودار ہوگا ۔ یہ دنیا سے متعلق انسانی آگاہی کے سبق پر ختم ہوگا جہاں سے دنیا میں انسان کے مقام کا سبق شروع ہوگا ۔

اس صفحات پر میں نے بہت ہی رجائیت پسندانہ تصویر کا رخ دکھایا ہے جہاں حیات بہت ہی طاقتور ہے اور آسانی کے ساتھ کائنات میں نمودار ہو جاتی ہے جو ایسی جگہوں سے لبریز ہے جہاں یہ پروان چڑھ سکے ۔ ہم اصل میں نہیں جانتے کہ حیات آسانی کے ساتھ ظہور پذیر ہو سکتی ہے یا نہیں ۔ ہم تو صرف اتنا جانتے ہیں کہ اس نے یہاں پر زمین پر ایسا کیا ہے ۔ صرف ایک مثال سے نتیجوں کو اخذ کرنا کافی نہیں ہوگا ۔

میں نے عالمگیر انتشار کی جانب بھی اشارہ کیا تھا جس میں چاہئے جان بوجھ کر یا اتفاقی طور پر ، بذریعہ پتھر ، شہابیے یا بین السیارہ کھوجیوں کے حیات کا منتشر ہونا بھی ممکن ہے ۔ یہی ایک وہ وجہ ہے جو یہ بیان کرتی ہے کہ حیات ایک عمل ہے ، ایک دفعہ یہ نمودار ہو گئی تو پھر لامحدود طور پر جاری رہ سکتی ہے ، یہ کبھی بھی اپنے ماحول کے ساتھ نجمی پیمانے پر یا بین النجم پیمانے پر میزان نہیں بنا پائے گی۔ اس بات کے ثبوتوں میں سے ایک ثبوت تو ہم ہی ہیں - ہم جانتے ہیں کہ ہم حیات کی شکل ہیں ، ہم اس قابل ہیں کہ اپنا اصلی سیارہ چھوڑ کر دوسرے جگہوں کو کھوجنے نکل سکیں ۔ اگر ہم مستقل طور پر بھی اپنا سیارہ نہ چھوڑیں ، تب بھی یہ حقیقت اپنی جگہ رہے گی کہ حیات ایک ایسا مظہر ہے جو کسی عام ستارے مثلاً سورج کے دور حیات میں رفعت حاصل کرنے کے قابل ہوتی ہے۔

جاری ہے۔۔۔۔۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
فوق ارضی سیاروں کی زندگی ...از دیمیتر سیسی لوف

حصّہ دوم - حیات کا ماخذ

باب دواز دہم - حصّہ پنجم (آخری حصّہ)


حیات کا مستقبل


ایک اچھی بات بھی ہے ! اپنے سورج کو آج سے پانچ ارب سال بعد چشم تصوّر سے دیکھیں ۔ سورج ہمارا مورث ستارہ ، روشنی کا منبع ، زندہ چیزوں کو حرارت اور توانائی فراہم کرنے والا ، ہمارے سیارہ کو حیات کے لئے تبدیل کرنے والا اپنے بڑھاپے کی دہلیز پر قدم رکھ رہا ہوگا اور اس کا بڑھاپے کا سفر بہت ہی تیز رفتار ہوگا اور زمین ؟ زمین کو تو جانا ہوگا ۔ زہرہ اور عطارد بھی نہیں بچیں گے - سورج کے غلاف میں ڈھکے یہ پگھل کر سرخ دیو کی بتدریج پھیلتی ہوئی گیسی کرہ کی شکل میں تحلیل ہو جائیں گے ہمارا سورج اب متقاعد(Emeritus) بن چکا ہوگا۔ سیارہ ارض اور اس کا نو ارب سال پرانا حیاتیاتی کرہ مستقل طور پر ختم ہو چکا ہوگا! خرد بینی حیات کے پاس فرار کا کوئی منصوبہ نہیں ہوگا۔

پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ہے کیونکہ پانچ ارب سال ایک ایسا عرصہ ہے جس میں ہم میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا ۔ اس بات سے قطع نظر ، سورج کی موت ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں ہم اچھی طرح سے پہلے ہی سے منصوبہ بنا سکتے ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ جبلّی طور پر بنی نوع انسان اس راستہ پر پہلے ہی گامزن ہو چکی ہو ۔زمین پر موجود حیات کی روح کو سمجھنا ہمیں کائنات میں دوسری جگہوں پر موجود حیات کے ماخذوں کو سمجھنے میں مدد دے گا ۔ اپنے اس علم کے ذریعہ ہم دوستانہ ٹھکانے تلاش کر سکیں گے ۔ اور ایک دن ہم وہاں لنگر انداز بھی ہو جائیں گے ۔ یہ انسانیت اور کرہ ارض پر موجود حیات کے لئے اپنے آپ کو آسمانی آفات اور سورج سے آزادی دلانے کا یوم آزادی کا دن ہوگا۔

ہم انسان اپنی مختصر تاریخ میں اس قسم کے کافی سفر کر چکے ہیں۔ یہاں پر صرف ایک مثال دی جا رہی ہے۔ لگ بھگ چار ہزار برس قبل جنوبی وسطی یورپ میں قبیلوں نے گھوڑوں کو پالنا شروع کیا اور گھوڑا گاڑی ایجاد کی ۔ اس کی مدد سے ان کے پورے کے پورے گاؤں ایک جگہ سے دور دراز – ہزار میل یا اس سے بھی زیادہ فاصلے پر منتقل ہو سکتے تھے ۔ کئی نسلوں کے بعد یورپی دشتوں میں قابل رہائش ماحول باقی نہیں رہا لہذا ایک دن انہوں نے اپنا بوریا بستر سمیٹا اور مشرق کی سمت رخت سفر باندھ لیا جہاں پر کم آبادی والی جگہوں نے ان کا استقبال کیا ۔ اگلی ایک صدی تک مزید یا شاید اس سے بھی زیادہ کوئی بھی نہیں جانتا تھا کہ کتنے عرصے تک یہ لوگ مشرق کی طرف چلتے رہے یہاں تک کہ وہ آسمان سے باتیں کرتے ہوئے وسطی ایشیاء کے پہاڑوں تک جا پہنچے ۔ مقامی قبیلوں کے ذریعہ انہوں نے زرخیز وادی کے بارے میں جانا جو پامیر اور تیان شان کی پہاڑیوں کے جنوب مشرق میں واقع تھی جہاں پہنچنا تو بڑا کٹھن تھا لیکن اس کو بغیر کسی پریشانی کے حاصل کیا جا سکتا تھا ۔ میدانی علاقے کے ان لوگوں کو اونچے پہاڑوں جس میں سے کچھ دس ہزار فٹ سے بھی بلند تھے سے گزرنے کا علم بھی تھا اور ان کے پاس فنی مہارت بھی تھی۔ یہ دوسری جانب ان لوگوں کے لئے بالکل ایسی ہی تھی جیسے وہ اس دنیا کے باہر کی جگہ ہو ۔ آج ایشیاء کے قلب میں موجود یہ خشکی سے محصور طارم طاس زیادہ تر نمکین ریتی صحرا - صحرائے تکلا مکان ہے ۔ لیکن ارضی ثبوت اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ کم از کم دو ہزار برس سے پہلے طارم میں پانی اور نباتات کی کثرت تھی ۔ یورپ کے قبیلے نہ صرف زندہ بچے رہے بلکہ پھل پھول بھی گئے۔ دور حاضر میں آج ہم ان کے نفیس لباسوں ، خوبصورت دستکاریوں اور بھرپور ثقافت کی تعریف کرتے ہیں جو ہم نے حیرت انگیز مدفون کی صورت میں بے آب و گیا طارم کے صحرا میں پچھلی عشروں میں دریافت کی ہیں ۔

یہ تو صرف ایک کہانی ہے ۔کرہ ارض پر اس طرح کی نقل مکانی اپنے انجام کو پہنچ گئی ہے ۔ آج سیارہ زمین کافی آباد اور عالمگیر ہو گیا ہے ۔ ہمارا سیارہ ایک خوبصورت جگہ ہے اور ہم اگلے آنے والے ہزار ہا برسوں میں یہاں پر خوشی خوشی زندگی گزر بسر کریں گے ۔ لیکن ہم یہ بات پہلے سے ہی جانتے ہیں کہ ایک دن ہماری نوع کو ایک دفعہ پھر سے ویسا ہی سامنا کرنا پڑے گا جس کا سامنا طارم کے تارک وطن نے کافی برسوں پہلے کیا تھا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہمارے مستقبل کے رشتے داروں کے پاس وہ علم اور فنی مہارت ہوگی کہ یہ ایسے کسی سفر کو بخیر خوبی انجام دے سکیں؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تمام شد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

سعود الحسن

محفلین
زہیر عباس صاحب ، آپ کی اس کوشش کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ نہ صرف ایک مشکل سائینسی موضوع جو کہ نیا بھی ہے کہ اس کی درست اصطلاحات بھی مروج نہیں ہیں آپ نے نہ صرف بہت شاندار ترجمہ کیا جو عام فہم بھی تھا اور مشکل سائینسی اصطلاحات سے بوجھل بھی نہ تھا۔ پھر سب سے بڑھ کے آپ کی مستقل مزاجی کہ ہر روز جب میں اردو محفل پر آتا تھا تو آپ کی طرف سے ایک اور باب کے ترجمہ ملنے کا یقین ہوتا تھا۔ امید ہے آپ ہمیں نئی سائینسی کتابوں یا مضامین کے تراجم سے مستفیذ کرتے ر ہینگے۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
زہیر عباس صاحب ، آپ کی اس کوشش کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔ نہ صرف ایک مشکل سائینسی موضوع جو کہ نیا بھی ہے کہ اس کی درست اصطلاحات بھی مروج نہیں ہیں آپ نے نہ صرف بہت شاندار ترجمہ کیا جو عام فہم بھی تھا اور مشکل سائینسی اصطلاحات سے بوجھل بھی نہ تھا۔ پھر سب سے بڑھ کے آپ کی مستقل مزاجی کہ ہر روز جب میں اردو محفل پر آتا تھا تو آپ کی طرف سے ایک اور باب کے ترجمہ ملنے کا یقین ہوتا تھا۔ امید ہے آپ ہمیں نئی سائینسی کتابوں یا مضامین کے تراجم سے مستفیذ کرتے ر ہینگے۔

سعود الحسن صاحب پسندیدگی کا شکریہ !!!!

شکر ہے کہ کچھ لوگ ایسے موجود ہیں جو اس طرح کی سائنس کو پسند کرتے ہیں ورنہ تو مجھے لگتا ہے کہ میں صرف خود لذتی کے لئے ہی یہ کام کررہا ہوں۔

بہرحال علم فلکیات سے مجھے عشق ہے اور انٹرنیٹ کی بدولت اب جبکہ وافر مقدار میں معلومات موجود ہے تو میرے بچپن یا لڑکپن کا خواب پورا ہورہا ہے کہ اردو میں بھی کچھ علم فلکیات کا مواد مل سکے۔ گلوبل سائنس اور مشعل بک والوں نے اس سلسلے میں کافی اچھا کام کیا ہے۔ تاہم تازہ کتب کا اردو ترجمہ اب ابھی عنقا ہی ہے۔ یہ سوچ کر خود ہی ترجمہ کرنے کا سوچا۔ اس طرح سے سلسلے چل پڑا۔

یقین جانئے کہ "ناممکن کی طبیعیات" کا ترجمہ جب میں کررہا تھا تو اس وقت ایک ضد سی لگ گئی تھی کہ ہر اصطلاح کو اردو میں لکھوں لہٰذا اس میں اپنا شوق کافی حد تک پورا کیا۔ تاہم اکثر لوگوں نے شکایات کے ڈھیر لگا دیئے کہ وہ کافی مشکل اردو میں ہے۔

بہرحال کچھ مزید کتب کا ترجمہ کیا ہے۔ ایک تو میچو کاکو کی ہی ہے جب کہ ایک مائیکل کیرول کی ہے۔ دونوں کی پروف ریڈنگ باقی ہے امید ہفتہ پندرہ دن میں شاید اس قدر کرسکوں کہ پوسٹ ہونے کے قابل ہوجائیں۔

امید ہے کہ آپ نے "How The Universe Works - Season 2" کا ترجمہ بھی ملاحظہ کیا ہوگا جو یہاں پر "آفاق کی یہ کارگہ شیشہ گری حصّہ دوم" کے نام سے شایع ہوچکا ہے۔
 

سعود الحسن

محفلین
جی بلکل ، آپ کے پچھلے دونوں ترجمہ پڑھنا تو شروع کیے تھے، لیکن درمیان میں مصروفیت کی وجہ سے اردو محفل پر نہ آسکا جس کی وجہ سے مکمل نہ پڑھ سکا ، انہیں اب مکمل کرونگا۔

مجھے اندازہ ہے کہ ترجمہ کتنا مشکل اور مستقل مزاجی کا متقاضی کام ہے۔ اگلے تراجم کا انتظار رہے گا۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
گلوبل سائنس میں بھی لکھیں۔ وہاں آپ جیسے لکھاریوں کی ضرورت ہے۔
شکریہ! ویسے سب سے پہلے میں نے اپنے تمام مضامین وہیں بھیجے تھے۔ اب تک ان میں سے صرف ایک ہی چھپا ہے "سپرنووا" اپریل ٢٠١٥ میں۔
اس کتاب اور ناممکن کی طبیعیات کو بھی علیم صاحب کے بھیج چکا ہوں دیکھیں انہیں کب فرصت ملتی ہے ان پر نظر ڈالنے کی۔
 
Top