وہ دوڑتی ہوئی گئی اور میں اس کو روکتا ہی رہا، ذرا دیر بعد وہ آگئی اور نوٹ میرے ہاتھ میں دے دیئے۔ میری کی اس وقت عجیب حالت تھی مجھ کو اول تو سخت شرمندگی سی تھی اور پھر نہ معلوم کس سوچ میں تھا وہ اسی طرح بیٹھ گئی۔ میں نے سنجیدگی سے اس سے کہا "تم نے اس خوفناک مرض سے میری جان بچائی ہے۔" یہ کہہ کر میں نے شکریے کے طور پر اس کا ہاتھ دبایا اور دونوں ہاتھوں میں لے لیا اور کہا "اور پھر اتنا روپیہ دے رہی ہو، میں قسم کھا کر کہتا ہوں اس کا دوگنا تم کو لینا پڑے گا۔"
"میں نے کہہ دیا نہ کہ میں لے لوں گی۔ بس اب جھگڑا کیا رہا۔"
میری نے مسکرا کر کہا۔ جس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ سچ بول رہی ہے اور لے لی گی۔
میں نے میری سے اس کا ہاتھ پکڑ کر غور سے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔ "میری! خفا تو نہیں ہوگی۔ ایک بات کہتا ہوں۔ وہ یہ کہ تم سے جو شادی کرے گا وہ بڑا خوش قسمت ہوگا۔"
"آپ اس کا ذکر نہ کیجیئے۔" میری نے ایک دم سنجیدہ ہو کر مغموم لہجہ میں کہا۔
"آخر کیوں میری؟" میں نے اس سے کہا۔ "آخر کیوں بتاؤ تو سہی۔"
میری نے پھر مغموم ہو کر کہا "آپ خود جانتے ہیں۔"
"بیوقوف لڑکی۔" میں نے کہا۔ "تم کیوں مغموم رہتی ہو؟ تم یہ سمجھتی ہو کہ کیا اب تم سے کوئی شادی نہ کرے گا؟"
"میں اس لئے ہرگز مغموم نہیں رہتی۔ آپ میرے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔ میں تو یہ کہتی ہوں کہ میرا کوئی نہیں ہے جو میری خوشی اور غم کا شریک ہو۔" یہ کہنے میں اس کی آواز کچھ بیٹھ گئی، میرا دل پسیج گیا اور میں نے کہا "میری اگر دنیا میں تمہارا کوئی نہیں تو میں آج سے تمہارے لئے موجود ہوں۔ تم مجھے اپنا سمجھو۔ بولو مجھے اپنا سمجھو گی۔ تم آج سے میری ہو جاؤ۔"
وہ پھر کچھ نہ بولی۔ بلکہ میری طرف عجیب معصومیت سے دیکھنے لگی، اس کی نظریں کہتی تھیں کہ وہ دل میں کہہ رہی تھی کہ میں اس کو دفع الوقتی کے لئے خوش کر رہا ہوں۔ میں دل کی بات سمجھ گیا اور میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف گھسیٹ کر آہستہ سے اس کے کان کے پاس اپنا منہ کر کے کہا۔ "میری تم مجھ سے شادی کر لو تو میری قسمت بن جائے۔" وہ ایک دم سے چونک سی پڑی اور کہنے لگی۔
"نہیں نہیں، تم ضرورت سے زیادہ اچھے ہو۔ تم سے دوستی منقطع نہ کروں گی۔"
میں نے اور متائثر ہو کر کہا "تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ میری میں سچ کہتا ہوں۔ تم نے میری جان بچائی ہے اور ایسی خدمت کی ہے کہ مجھے زر خرید بنا لیا ہے۔ میں تمہیں ہمیشہ خوش رکھوں گا اور کبھی دل میلا نہ ہونے دوں گا۔"
"نہیں نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔" میری نے کہا۔
"کیوں؟"
"تم مجھے چھوڑ دو گے۔"
"ہرگز نہیں بلکہ۔۔۔"
"تمہارے ماں باپ چھڑا دیں گے۔ نہیں نہیں میں ایسا یقین نہیں کرتی۔ تم میرا دل نہ دکھاؤ۔ بس میرے ہمدرد دوست رہو۔ اس سے زیادہ میں کچھ نہیں جانتی۔"
میں پریشان سا ہو گیا اور بے تاب ہو کر میں نے اس کو اپنی طرف کر کے کہا۔ "کیوں مجھے دیوانہ کئے دیتی ہو۔ میں بغیر تمہارے زندہ نہیں رہ سکتا اور۔۔۔"
"خدا کے واسطے!" اس نے کھڑے ہو کر کہا۔ "میرے زخمی دل کو مت چھیڑو۔۔۔ اچھا تم پہلے خوب سوچ لو اور مجھے اس وقت جانے دو۔" یہ کہہ کر وہ۔۔۔ ہاتھ چھڑا کر سیدھی چلی گئی اور مجھ کو ایک عجیب حال میں چھوڑ گئی۔ میں واقعی اس کم رو لڑکی کے لئے اپنے دل میں ایک عجیب جگہ محسوس کر رہا تھا اور مجھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اگر اس نے انکار کر دیا تو میری زندگی تلخ ہو جائے گی۔ میں اسی سوچ میں تھا کہ اسٹاف آئی اور اس نے مجھ سے کہا۔ "کیا معاملہ ہے؟"
"کیوں؟ کیا ہوا۔" میں نے کہا۔
اسٹاف نے مسکرا کر دیکھا "میری رو رہی ہے اور کہتی ہے کہ میری قسمت خراب ہے۔"
"کیا ہوا، آخر کچھ تو کہئے۔"
اسٹاف نے مسکرا کر کہا۔ "وہ کہتی ہے کہ یہ مریض بھی ویسا ہی نکلا اور ویسی ہی باتیں کرتا ہے۔"
میں نے کچھ جھنجھلا کر کہا۔ "ان کا خیال غلط ہے۔"
اسٹاف نے کہا۔ "مسٹر آپ برا نہ مانئے گا، بہتر ہے کہ آپ اس قسم کی باتیں نہ کریں۔ کیا آپ واقعی اس سے شادی کرنا چاہتے ہیں یا محض اس کو چھیڑ کر کھلونا بنا رہے ہیں۔"
میں نے کچھ برا مان کر کہا۔ "آپ میری محسنہ ہیں اور آپ مجاز ہیں کہ جو کچھ بھی سخت و سست الفاظ چاہیں مجھے کہہ لیں۔"
"تو پھر آپ کو چاہئے کہ شریف آدمی کا سا وعدہ کریں نہیں بلکہ کل ہی اس سے باضابطہ نکاح کر لیں ورنہ خوامخواہ اس کو۔۔۔۔"
"میں ابھی تیار ہوں۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ آپ کو یا ان کو خوامخواہ میری طرف سے شک ہوا۔"
اسٹاف نے کہا۔ "آپ بے انصافی کر رہے ہیں۔ میرا یا اس کا شبہ حق بجانب ہے۔ دراصل وہ ایک بہت غریب لڑکی ہے۔ جس کے پاس خوبصورت نہیں۔ لہٰذا جب آپ کا سا شخص اس سے کہے تو ضرور وہ یہی سمجھے گی کہ خوامخواہ کا اس سے مذاق کر رہے ہیں۔ وہ بھگتے ہوئے ہے اور اس کو تجربہ ہے۔"
"ٹھیک، ٹھیک، ان کا شبہ حق بجانب ہے۔ مگر میں آپ سے بالکل صحیح عرض کرتا ہوں کہ مجھے خوبصورتی یا حسن قطعی درکار نہیں۔ مجھے وہ بے حد پسند ہے۔"
"میں ابھی جا کر بھیجتی ہوں۔" یہ کہتی ہوئی وہ چلی گئی۔
(۶)
"میری! یہاں آؤ۔" میں نے اسے دروازے پر دیکھ کر کہا، وہ آئی اور میں نے اس کو اپنے پاس بٹھا لیا۔ "میں تمہیں بھلا دھوکہ دوں گا بولو کیا میں تمہیں دھوکا دوں گا۔" میں نے با اصرار پوچھا۔
"نہیں۔" اس نے آہستہ سے کہا۔
"پھر مجھ سے شادی کرنے میں تمہیں کیوں انکار ہے۔" میں نے پوچھا۔
"اس لئے کہ میں غریب ہوں۔ آپ امیر ہیں۔ میں کالی ہوں۔ بدصورت ہوں اور آپ کو خدا نے روپیہ پیسہ شکل اور صورت۔۔۔" میں نے اس کا منہ اپنے ہاتھ سے بند کر دیا اور کہا "خدا کے واسطے میرے اوپر رحم کرو، میں تم کو اپنی آنکھوں پر رکھوں گا، کبھی تم کو رنج نہ پہنچاؤں گا اور ہمیشہ تمہاری خدمت کروں گا۔" وہ رو رہی تھی، میں نے اس کو گلے سے لگا لیا اور ہزاروں قسمیں کھا کھا کر اس کو خوشامد سے خاموش کر کے راضی کیا۔
(۷)
میری سے شادی کرنے کے بعد میں کوہ آبو گیا۔ وہ بھی ساتھ تھی۔ قسمت کی خوبی دو مہینے کے اندر ہی اندر ریلوے انجینئرنگ محکمہ میں مجھ کو ملازمت مل گئی۔
گھر بھی جانا ہو گیا اور والدہ صاحبہ اور والد صاحب سے بھی ملنا ہو گیا، مگر ایک مصیبت درپیش ہے۔ دنیا کے زور پڑ چکے اور پڑ رہے ہیں کہ میری کو چھوڑ دو۔ والدہ صاحبہ سے بات چیت ہو کر خاتمہ رسید ہوا کہ "مجھے دوزخ میں جانا منظور ہے اور آپ کے سب احکام منظور ہیں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ میری چھوٹ جائے۔"والدہ صاحبہ خفا ہیں اور کہہ چکی ہیں کہ تیرا منہ اس وقت تک نہ دیکھوں گی جب تک اس عیسائی لڑکی کو چھوڑ کر دوسری جگہ شادی نہ کرے گا۔ جہاں وہ طے کر چکی ہیں۔
یہ سب کچھ ہے مگر میرا خیال ہے کہ اگر میری سی بیوی مجھ کو نہ ملتی تو زندگی ہیچ ہوتی۔ جو خدا کو اپنے بندوں کی عبادت سے لطف آتا ہوگا وہ مجھے کو اپنی بیوی کی خدمت اور محبت سے حاصل ہے۔ اگر کسی کو دیکھنا ہو کہ خدائے مجازی کون ہے تو وہ مجھے اور پھر میرے پرستار کو دیکھے۔