عظیم بیگ چغتائی کے افسانے

شمشاد

لائبریرین
@fahimوہ مصباح صاحب والے صفحات نہیں ہوئے۔ انہیں بھی ایک ایک کر کے بانٹ دیں۔

ایک مجھے دے دیں، ایک شمشاد کو، ایک منتظم کو، پھر بھی کوئی بچ جائے تو وہ بھی کر لوں گا۔
 

فہیم

لائبریرین
@fahimوہ مصباح صاحب والے صفحات نہیں ہوئے۔ انہیں بھی ایک ایک کر کے بانٹ دیں۔

ایک مجھے دے دیں، ایک شمشاد کو، ایک منتظم کو، پھر بھی کوئی بچ جائے تو وہ بھی کر لوں گا۔

جی ایک آپ کا
ایک شمشاد بھائی کا
ایک ہمارے منتظم صاحب کا
ایک عقاب والا اوتار جن کا ہے ان کا
باقی ایک آپ کو بھی آپ دیکھ لیں :)
 

مقدس

لائبریرین
ویسے بھی نیکسٹ والے شمشاد بھیا نے کہا ہے کہ میں تقسیم کروں گی
اس میں کوئی نہیں بولے گا
ابھی بتا رہی ہوں
پھر کوئی نہ بولے
 

فہیم

لائبریرین
ویسے بھی نیکسٹ والے شمشاد بھیا نے کہا ہے کہ میں تقسیم کروں گی
اس میں کوئی نہیں بولے گا
ابھی بتا رہی ہوں
پھر کوئی نہ بولے

وہ ایک محاورہ یاد آرہا ہے۔
کچھ گنجے اور ناخن ایسا ہی تھا:ROFLMAO:

تم نے پھر کچھ اسطرح تقسیم کرنے ہیں

شروع کے دس مقدس
اس کے بعد کا 1 فہیم
اس کے بعد کے دن مقدس
پھر 1 شمشاد بھائی
پھر 20 مقدس۔۔۔۔۔۔۔:ohgoon:
 

مقدس

لائبریرین
ہی ہی ہی ہی ہی
جی نہیں ایسا بھی نہیں ہے۔۔
ویسے وہ اتنے زیادہ ہیں بھی نہیں
شاید 20،23 فائلز ہیں
 

مقدس

لائبریرین
ہی ہی ہی ایسا ہی ہوتا اگر میرے پاس دوسرا پروجیکٹ نہ ہوتا تو
اس لیے اس کو بھی ساتھ ساتھ چلانا ہے ناں
سو یہ والے سب میں برابر تقسیم ہوں گے


سیدہ شگفتہ آپی
پلیزز آپ اپ لوڈ کر دیں سارے
پرامس میں نے سارے نہیں کرنے۔ سب میں بانٹ دینے ہیں
 

قیصرانی

لائبریرین
وہ دوڑتی ہوئی گئی اور میں اس کو روکتا ہی رہا، ذرا دیر بعد وہ آگئی اور نوٹ میرے ہاتھ میں دے دیئے۔ میری کی اس وقت عجیب حالت تھی مجھ کو اول تو سخت شرمندگی سی تھی اور پھر نہ معلوم کس سوچ میں تھا وہ اسی طرح بیٹھ گئی۔ میں نے سنجیدگی سے اس سے کہا "تم نے اس خوفناک مرض سے میری جان بچائی ہے۔" یہ کہہ کر میں نے شکریے کے طور پر اس کا ہاتھ دبایا اور دونوں ہاتھوں میں لے لیا اور کہا "اور پھر اتنا روپیہ دے رہی ہو، میں قسم کھا کر کہتا ہوں اس کا دوگنا تم کو لینا پڑے گا۔"
"میں نے کہہ دیا نہ کہ میں لے لوں گی۔ بس اب جھگڑا کیا رہا۔"
میری نے مسکرا کر کہا۔ جس سے صاف ظاہر تھا کہ وہ سچ بول رہی ہے اور لے لی گی۔
میں نے میری سے اس کا ہاتھ پکڑ کر غور سے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔ "میری! خفا تو نہیں ہوگی۔ ایک بات کہتا ہوں۔ وہ یہ کہ تم سے جو شادی کرے گا وہ بڑا خوش قسمت ہوگا۔"
"آپ اس کا ذکر نہ کیجیئے۔" میری نے ایک دم سنجیدہ ہو کر مغموم لہجہ میں کہا۔
"آخر کیوں میری؟" میں نے اس سے کہا۔ "آخر کیوں بتاؤ تو سہی۔"
میری نے پھر مغموم ہو کر کہا "آپ خود جانتے ہیں۔"
"بیوقوف لڑکی۔" میں نے کہا۔ "تم کیوں مغموم رہتی ہو؟ تم یہ سمجھتی ہو کہ کیا اب تم سے کوئی شادی نہ کرے گا؟"
"میں اس لئے ہرگز مغموم نہیں رہتی۔ آپ میرے ساتھ زیادتی کرتے ہیں۔ میں تو یہ کہتی ہوں کہ میرا کوئی نہیں ہے جو میری خوشی اور غم کا شریک ہو۔" یہ کہنے میں اس کی آواز کچھ بیٹھ گئی، میرا دل پسیج گیا اور میں نے کہا "میری اگر دنیا میں تمہارا کوئی نہیں تو میں آج سے تمہارے لئے موجود ہوں۔ تم مجھے اپنا سمجھو۔ بولو مجھے اپنا سمجھو گی۔ تم آج سے میری ہو جاؤ۔"
وہ پھر کچھ نہ بولی۔ بلکہ میری طرف عجیب معصومیت سے دیکھنے لگی، اس کی نظریں کہتی تھیں کہ وہ دل میں کہہ رہی تھی کہ میں اس کو دفع الوقتی کے لئے خوش کر رہا ہوں۔ میں دل کی بات سمجھ گیا اور میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنی طرف گھسیٹ کر آہستہ سے اس کے کان کے پاس اپنا منہ کر کے کہا۔ "میری تم مجھ سے شادی کر لو تو میری قسمت بن جائے۔" وہ ایک دم سے چونک سی پڑی اور کہنے لگی۔
"نہیں نہیں، تم ضرورت سے زیادہ اچھے ہو۔ تم سے دوستی منقطع نہ کروں گی۔"
میں نے اور متائثر ہو کر کہا "تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ میری میں سچ کہتا ہوں۔ تم نے میری جان بچائی ہے اور ایسی خدمت کی ہے کہ مجھے زر خرید بنا لیا ہے۔ میں تمہیں ہمیشہ خوش رکھوں گا اور کبھی دل میلا نہ ہونے دوں گا۔"
"نہیں نہیں یہ نہیں ہو سکتا۔" میری نے کہا۔
"کیوں؟"
"تم مجھے چھوڑ دو گے۔"
"ہرگز نہیں بلکہ۔۔۔"
"تمہارے ماں باپ چھڑا دیں گے۔ نہیں نہیں میں ایسا یقین نہیں کرتی۔ تم میرا دل نہ دکھاؤ۔ بس میرے ہمدرد دوست رہو۔ اس سے زیادہ میں کچھ نہیں جانتی۔"
میں پریشان سا ہو گیا اور بے تاب ہو کر میں نے اس کو اپنی طرف کر کے کہا۔ "کیوں مجھے دیوانہ کئے دیتی ہو۔ میں بغیر تمہارے زندہ نہیں رہ سکتا اور۔۔۔"
"خدا کے واسطے!" اس نے کھڑے ہو کر کہا۔ "میرے زخمی دل کو مت چھیڑو۔۔۔ اچھا تم پہلے خوب سوچ لو اور مجھے اس وقت جانے دو۔" یہ کہہ کر وہ۔۔۔ ہاتھ چھڑا کر سیدھی چلی گئی اور مجھ کو ایک عجیب حال میں چھوڑ گئی۔ میں واقعی اس کم رو لڑکی کے لئے اپنے دل میں ایک عجیب جگہ محسوس کر رہا تھا اور مجھے ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اگر اس نے انکار کر دیا تو میری زندگی تلخ ہو جائے گی۔ میں اسی سوچ میں تھا کہ اسٹاف آئی اور اس نے مجھ سے کہا۔ "کیا معاملہ ہے؟"
"کیوں؟ کیا ہوا۔" میں نے کہا۔
اسٹاف نے مسکرا کر دیکھا "میری رو رہی ہے اور کہتی ہے کہ میری قسمت خراب ہے۔"
"کیا ہوا، آخر کچھ تو کہئے۔"
اسٹاف نے مسکرا کر کہا۔ "وہ کہتی ہے کہ یہ مریض بھی ویسا ہی نکلا اور ویسی ہی باتیں کرتا ہے۔"
میں نے کچھ جھنجھلا کر کہا۔ "ان کا خیال غلط ہے۔"
اسٹاف نے کہا۔ "مسٹر آپ برا نہ مانئے گا، بہتر ہے کہ آپ اس قسم کی باتیں نہ کریں۔ کیا آپ واقعی اس سے شادی کرنا چاہتے ہیں یا محض اس کو چھیڑ کر کھلونا بنا رہے ہیں۔"
میں نے کچھ برا مان کر کہا۔ "آپ میری محسنہ ہیں اور آپ مجاز ہیں کہ جو کچھ بھی سخت و سست الفاظ چاہیں مجھے کہہ لیں۔"
"تو پھر آپ کو چاہئے کہ شریف آدمی کا سا وعدہ کریں نہیں بلکہ کل ہی اس سے باضابطہ نکاح کر لیں ورنہ خوامخواہ اس کو۔۔۔۔"
"میں ابھی تیار ہوں۔ بڑے افسوس کی بات ہے کہ آپ کو یا ان کو خوامخواہ میری طرف سے شک ہوا۔"
اسٹاف نے کہا۔ "آپ بے انصافی کر رہے ہیں۔ میرا یا اس کا شبہ حق بجانب ہے۔ دراصل وہ ایک بہت غریب لڑکی ہے۔ جس کے پاس خوبصورت نہیں۔ لہٰذا جب آپ کا سا شخص اس سے کہے تو ضرور وہ یہی سمجھے گی کہ خوامخواہ کا اس سے مذاق کر رہے ہیں۔ وہ بھگتے ہوئے ہے اور اس کو تجربہ ہے۔"
"ٹھیک، ٹھیک، ان کا شبہ حق بجانب ہے۔ مگر میں آپ سے بالکل صحیح عرض کرتا ہوں کہ مجھے خوبصورتی یا حسن قطعی درکار نہیں۔ مجھے وہ بے حد پسند ہے۔"
"میں ابھی جا کر بھیجتی ہوں۔" یہ کہتی ہوئی وہ چلی گئی۔
(۶)​
"میری! یہاں آؤ۔" میں نے اسے دروازے پر دیکھ کر کہا، وہ آئی اور میں نے اس کو اپنے پاس بٹھا لیا۔ "میں تمہیں بھلا دھوکہ دوں گا بولو کیا میں تمہیں دھوکا دوں گا۔" میں نے با اصرار پوچھا۔
"نہیں۔" اس نے آہستہ سے کہا۔
"پھر مجھ سے شادی کرنے میں تمہیں کیوں انکار ہے۔" میں نے پوچھا۔
"اس لئے کہ میں غریب ہوں۔ آپ امیر ہیں۔ میں کالی ہوں۔ بدصورت ہوں اور آپ کو خدا نے روپیہ پیسہ شکل اور صورت۔۔۔" میں نے اس کا منہ اپنے ہاتھ سے بند کر دیا اور کہا "خدا کے واسطے میرے اوپر رحم کرو، میں تم کو اپنی آنکھوں پر رکھوں گا، کبھی تم کو رنج نہ پہنچاؤں گا اور ہمیشہ تمہاری خدمت کروں گا۔" وہ رو رہی تھی، میں نے اس کو گلے سے لگا لیا اور ہزاروں قسمیں کھا کھا کر اس کو خوشامد سے خاموش کر کے راضی کیا۔
(۷)​
میری سے شادی کرنے کے بعد میں کوہ آبو گیا۔ وہ بھی ساتھ تھی۔ قسمت کی خوبی دو مہینے کے اندر ہی اندر ریلوے انجینئرنگ محکمہ میں مجھ کو ملازمت مل گئی۔
گھر بھی جانا ہو گیا اور والدہ صاحبہ اور والد صاحب سے بھی ملنا ہو گیا، مگر ایک مصیبت درپیش ہے۔ دنیا کے زور پڑ چکے اور پڑ رہے ہیں کہ میری کو چھوڑ دو۔ والدہ صاحبہ سے بات چیت ہو کر خاتمہ رسید ہوا کہ "مجھے دوزخ میں جانا منظور ہے اور آپ کے سب احکام منظور ہیں مگر یہ نہیں ہو سکتا کہ میری چھوٹ جائے۔"والدہ صاحبہ خفا ہیں اور کہہ چکی ہیں کہ تیرا منہ اس وقت تک نہ دیکھوں گی جب تک اس عیسائی لڑکی کو چھوڑ کر دوسری جگہ شادی نہ کرے گا۔ جہاں وہ طے کر چکی ہیں۔
یہ سب کچھ ہے مگر میرا خیال ہے کہ اگر میری سی بیوی مجھ کو نہ ملتی تو زندگی ہیچ ہوتی۔ جو خدا کو اپنے بندوں کی عبادت سے لطف آتا ہوگا وہ مجھے کو اپنی بیوی کی خدمت اور محبت سے حاصل ہے۔ اگر کسی کو دیکھنا ہو کہ خدائے مجازی کون ہے تو وہ مجھے اور پھر میرے پرستار کو دیکھے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
قصاص​
بازار سے سودا لے کر گھر چلا تو نہ معلوم کیوں دل دھڑک رہا تھا۔ گلی کے موڑ پر پہنچا تو منہ میں پان کڑوا ہو گیا۔ تیزی سے گھر کے قریب جو آیا تو گھر میں سے شیون کی آواز آئی، کلیجہ منہ کو آ گیا۔ ہانپتا کانپتا گھر میں گھسا۔ ایک طرف بھاوج کو زمین پر پچھاڑیں کھاتے دیکھا، دوسری طرف بڑھیا ماں غش کھائے زمین پر پڑی تھیں۔ چھوٹا بھائی چارپائی پر پڑا تھا۔ اس کے گلے سے جوانی کا خون ایسے بہہ رہا تھا جیسے پرنالہ۔ تمام چارپائی خون سے تربتر تھی۔ سرخ و سفید چہرہ مٹی کی طرح پیلا ہو رہا تھا۔ میں نے ہائے کا نعرہ مارا اور گرتے گرتے بچا۔ بھائی نے آنکھیں کھولیں مردہ آواز سے کہا "بھیا" اور ہاتھ اٹھا دیئے۔ میں بچہ کی طرح چھوٹے بھائی پر گر کر چپٹ گیا، اور اس نے کمزور ہاتھوں سے مجھے چپٹانے کی کوشش کی "تجھے کس نے قتل کیا ہے؟" میں نے بیتاب ہو کر اس کے خون آلود چہرے پر اپنا منہ ملتے ہوئے کہا "تجھے کس نے قتل کیا ہے" خشک زبان ہونٹوں پر پھیر کر اس نے کہا "عبدالجبار۔۔۔" اس کی بیوہ ہاں بیوہ ہی تھی، کیونکہ وہ مرنے والا تھا، اس کے خشک ہونٹوں کو پانی سے تر کر رہی تھی۔
چشم زدن میں نزع کا عالم تھا۔ جوان کڑیل میرے سامنے دم توڑ رہا تھا۔ "تیری جوان موت کا میں بدلہ لوں گا۔" سینہ پیٹ کر میں نے کہا "تیرے قاتل کو میں ماروں گا۔" بھائی کے چہرے پر گویا مسکراہٹ سی آئی۔ اس نے ایک نظر اپنی بیوی کی طرف ڈالی، ہاتھ اٹھانا چاہا تو روح پرواز کر گئی۔ ادھر میں پچھاڑ کھا کر گرا۔
(۱)​
جوان بھائی کی موت اور بھائی بھی کیسا جیسے شیر کا بچہ اور یوں ظالم کی تلوار کا شکار ہو جائے۔ میرے لئے دنیا اندھیر ہو گئی۔ عبدالجبار کا نام تو میں نے سنا تھا مگر دیکھا نہ تھا۔ کم بخت چور اور کمینہ تھا۔ پیشہ ور بدمعاش تھا، کسی دشمن نے سو پچاس دے کر قتل کروا دیا یا پھر اس نے بدلہ لیا، کیونکہ بھائی نے اس کو اسی ہفتے بدزبانی کی پاداش میں خوب مارا تھا۔ دروازے پر آیا آواز دے کر مقتول کو بلایا۔ بات چیت کی، دو چار ساتھی بھی تھے۔ پان لینے کے لئے مرحوم نے جو پیٹھ پھیری تو تلوار کا شہ رگ پر ایسا ظالم نے ہاتھ دیا کہ آدھی گردن تک تلوار در آئی۔ بمشکل ہاتھ سے اپنی گردن سنبھال کر غریب چارپائی پر آ پڑا اور حال زار سنایا۔
بھاوج اور ماں کا جو حال تھا مجھ سے دیکھا نہ جاتا تھا۔ قاتل ریاست سے بھاگ چکا تھا۔ ماں نے کھانا چھوڑ دیا اور بھاوج نے بھی چھوڑ دیا۔ میں نے دونوں سے کہا کہ تم کھاؤ میں بھائی کے خون کا بدلہ لوں گا۔ ماں نے کہا بیٹا اگر تو بھائی کے خون کا بدلہ لینے میں مارا بھی جائے تو بھی میرا دل ٹھنڈا ہو جائے گا، میں نے کہا اماں میں بغیر بدلہ لئے نہ مانوں گا، تم اطمینان رکھو۔
جبار ایسا غائب ہوا کہ اس کا پتہ نہ چلا۔ ریاست کی طرف سے سرکار مرحوم نواب کلب علی خاں بہادر نے گورنمنٹ میں لکھا اور ملزم کا حلیہ جاری کر ادیا گیا۔ ماں کا غم بالکل تازہ تھا اور وہ تڑپتی تھیں اور یہی کہتی تھیں کہ بیٹا تو اپنے بھائی کے خون کا بدلہ کب لے گا۔ غرض سارے گھر کی زندگی جوش انتقام کی وجہ سے تلخ تھی۔ جب سال بھر گذر گیا تو میں نے اماں سے رخصت طلب کی کہ میں قاتل کو خود ڈھونڈنے جاؤں گا۔ اماں نے دعائیں دے کر رخصت کیا۔ میں رامپور سے سیدھا بریلی پہنچا۔ میں نے کپتان صاحب سے کہا کہ میں پولیس کی نوکری کرنا چاہتا ہوں اس لئے کہ بھائی کے قاتل کا سراغ لگاؤں۔ میری طرف تعجب سے کپتان صاحب نے دیکھا۔ میں نے ماں اور بھاوج کا حال سنایا کہ ماں اور بھاوج نے قسم کھا لی ہے کہ کبھی خوش نہ ہوں گی جب تک قاتل سزا کو نہ پہنچے گا۔ دنیا کے عیش حرام ہیں۔ گھر کے گذر کا کوئی سہارا نہیں، سوا اس کے کہ اندوختہ بیچ بیچ کر جو کی روٹی اور چٹنی کھائیں۔
سپرنٹنڈنٹ پولیس نے میری باتیں دلچسپی سے نیں اور مجھ کو خفیہ کام سپرد کرنے کا وعدہ کیا اور دس روپیہ ماہوار اور خرچہ پولیس سے دلوانے کا اقرار کیا۔
(۲)​
سال بھر کے عرصے میں میں نے خفیہ پولیس میں نام پیدا کر لیا۔ تین قاتلوں کا سراغ لگایا۔ خونی ملزن کے پیچھے میں اس طرح ہاتھ دھو کر پڑتا کہ جیسے میرے بھائی کا قاتل یہی ہے۔ ان مین سے ایک قاتل کو تو پکڑنے میں میں نے بائیں بازو میں گولی کھائی لیکن میں نے موذی کو جانے نہ دیا۔ پولیس سے مجھے پانچ سو روپیہ انعام ملا۔ دراصل مجھ کو جگہ جگہ بھیجا جاتا تھا اور جس جگہ میں جاتا اپنے بھائی کے قاتل کا حلیہ جیب میں رکھتا۔ مجھے اس کا حلیہ یاد تھا بلکہ حفظ تھا، کیونکہ بلا مبالغہ میں ہر شخص کو اسی نیت سے دیکھتا تھا کہ کہیں میرے بھائی کا قاتل تو نہیں ہے، قاتل کے حلیہ میں لکھا تھا کہ اس کی بائیں طرف کنپٹی کے قریب ماتھے پر ابرو کے بالکل ہی پاس ایک چاندنی کی چونی کے برابر بالوں کا زائد گچھا ہے جو گھنا ہوا مثل ابرو کے ہے اور میری سراغ رسانی کا دارومدار گویا اسی پر تھا کیونکہ میں نے شکل تو دیکھی نہ تھی۔
سال بھر اور گذر گیا لیکن قاتل کا پتہ نہ لگنا تھا نہ لگا۔ جب گھر پر آتا تو بھائی کے خونی کپڑے ماں میرے سامنے ڈال دیتیں اور کہتیں کہ "کم بخت تو کیا کر رہا ہے، دیکھ تو بھائی کا خون قصاص طلب کر رہا ہے اور خون کی سرخی ماند ہونے کی بجائے روز بروز تیز ہوتی جا رہی ہے۔" میں بھلا کیا کہتا۔ یہی کہتا تھا کہ اگر زندہ ہوں تو قاتل کو پکڑوں گا۔ اماں نے قسم کھا لی کہ دنیا کی کوئی چیز نہ کھاؤں گی سوا جو کی روٹی اور چٹنی کے اور بھاوج کی بھی یہی قسم تھی۔ لہٰذا میری جو بھی سنتا کہ میں اسی وجہ سے دنیا چھوڑے بیٹھا ہوں وہ تعجب نہ کرتا۔
(۳)​
ایک ملزم کی تلاش میں مجھے سارا پنجاب اور راجپوتانہ گھومنا پڑا اور پھر اپنے صوبہ کے بھی تمام ضلعوں کا گشت کیا مگر سب بیکار۔ اٹاوہ کاسٹیشن آیا تو مجھے خیال ہوا کہ اس چھوٹی سی جگہ کو بھی دیکھ ہی لوں۔ رات کو میں وہیں مقیم ہوا اور صبح اٹھ کر بازار اور محلوں کا گشت لگایا۔ گرمی کا زمانہ تھا کوئی دس گیارہ بجے تک گشت لگانے سے شل ہو گیا۔ شہر کی اس بڑی سڑک پر جا رہا تھا جو سیدھی اسٹیشن سے آتی ہے۔ ایک پیپل کا درخت تھا، قریب ہی پوجا پاٹ کا سامان رکھا تھا۔ مگر یہاں ٹھنڈک تھی اور میں بیٹھ گیا کہ ذرا سستا لوں۔ چبوترے پر اکڑوں بیٹھا ہوا گھٹنوں پر ہاتھ رکھے منہ چھپائے آنکھیں بند کئے نہ معلوم کیا سوچ رہا تھا کہ اونگھ گیا اور خواب میں کیا دیکھتا ہوں کہ بھائی کہہ رہا ہے کہ "بھیا تم نے وعدہ کیا تھا کہ میرے خون کا بدلہ لوگے، اطمینان سے پڑے سو رہے ہو۔" میں نے چاہا کہ بھائی سے دوڑ کر چپٹ جاؤں کہ جاگ پڑا اور گرتے گرتے بچا۔ میں دامن جھاڑ کر کر اٹھ کھڑا ہوا۔ بھائی کی شکل دیکھ کر بیتاب ہو گیا تھا۔ بے اختیار دو آنسو ٹپک پڑے۔ میں نے ٹھنڈی سانس کھینچی اور رومال سے آنسو پونچھے اپنے راستے پر چل دیا۔ مشکل سے دس بیس ہی قدم گیا ہوں گا کہ سامنے سے ایک یکہ لڑکھڑاتا چلا آ رہا تھا۔ اس پر تین آدمی علاوہ یکہ بان کے بیٹھے ہوئے تھے۔ یکہ قریب جو آیا تو دیکھتا ہوں کہ یکہ بان کی ابرو پر بالکل ویسا ہی بالوں کا گچھا ہے جیسا کہ میرے بھائی کے قاتل کے حلیہ میں درج تھا۔ میں چونک پڑا مگر فوراً ہی مایوس ہو گیا کیونکہ یہ تو ہندو تھا۔ جس کی بڑی سی چوٹی تھی وہ دھوتی باندھے ہوئے تھا۔ یکہ نکل کر مشکل سے دس قدم گیا ہوگا کہ میں نے زور سے پکارا "جبار۔" یکہ بان نے مڑ کر فوراً دیکھا۔ رامپور والے کی صورت شکل نہیں چھپتی اور پھر جبار تو مجھے پہچانتا ہی ہوگا۔ فوراً ادھر وہ یکے سے کود کر بھاگا اور ادھر میں اس کے پیچھے ڈانٹ کر لپکا۔ لینا! پکڑنا! خونی! قاتل! میری زبان سے نکل رہا تھا اور میں گلیوں میں اس کے پیچھے چلا۔ ا س کے ہاتھ میں چمکتا ہوا چاقو تھا اور لوگ راستہ چھوڑ کر الگ ہو جاتے اور کوئی ہمت نہ کرتا۔ کچھ فاصلے پر جا کر میں نے اس کو جالیا اور للکار کر میں نے کہا کہ خبردار جاتا کہاں ہے۔ لوٹ کر فوراً اس نے میرے سینہ پر چاقو کا وار کیا۔ میں نے بائیں ہاتھ سے روکا۔ چاقو میری ہتھیلی کاٹتا نکل گیا مگر میں نے نہ چھوڑا۔ دوسرے ہاتھ سے ایک مکا اس کے منہ پر دیا اور چشم زدن میں اس کا چاقو چھین کر اس کو دے مارا۔ میری آنکھوں سے چنگاریاں نکل رہی تھیں اور میں نے اس کا گلا گھونٹنا شروع کیا اور عجب نہیں کہ وہیں اس کو مار ڈالتا اگر کہیں پولیس والا نہ آ جاتا۔ اس کو پولیس والا بھی جانتا تھا اور طرفداری کرنے لگا۔ مگر میں نے اس کو نہ چھوڑا اور کہا کہ اسے کوتوالی لے چلو۔ جبار سے میں نے کہا کہ تو نے میرے بھائی کو قتل کیا ہے۔ اب تجھے ڈونگر پور کے دروازے پر ذبح کروں گا۔
کوتوالی پہنچ کر میں نے اس کو پولیس کے سپرد کرایا اور اس کا حلیہ وغیرہ دکھایا اور خود کو بتایا کہ کون ہوں۔ جبار گویا مردہ سا ہو گیا تھا۔ اپنے ساتھ لے جا کر میں نے اس کو جیلر کے سپرد کرایا اور اس کی رسید لے کر سیدھا گھر پہنچا۔ اماں سے مارے خوشی کے لپٹ گیا اور ان کو حال سنایا۔ مارے خوشی کے اماں اور بھاوج کی باچھیں کھل گئیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین

(۴)​
رامپور پولیس کی حراست میں جبار ایا۔ مقدمہ قاضی صاحب کی عدالت کے سامنے پیش ہوا۔ وہاں سے فیصلہ میرے حق میں ہوا۔ یعنی یہ کہ میرا جی چاہے اس کو اپنے ہاتھ سے قتل کروں اور جی چاہے روپیہ لے کر چھوڑ دوں۔ میں خوشی خوشی گھر آیا اور فیصلہ سنایا۔ آبدیدہ ہو کر اماں نے گلے سے لگایا اور کہا کہ میرے سامنے جبار کو قتل کر کے میری آنکھیں روشن کرنا۔ روپیہ لے کر اس موذی کو چھوڑ دینے کا تو سوال ہی نہ تھا۔
مجھے گھر پہنچے زیادہ دیر نہ گذری تھی۔ عزیز و اقارب مبارکباد دے رہے تھے کہ اتنے میں ایک شخص آیا۔ مجھ سے تنہائی میں کچھ جبار کے بارے میں کہنا چاہتا تھا۔ میں اسے بات چیت کرنے کے لئے علیحدہ ایک جگہ لے آیا۔ اس نے اپنا نام وغیرہ بتا کر کہا کہ میں فلاں رئیس کے پاس سے آیا ہوں۔ اس نے کہا کہ روپیہ لے کر جبار کو چھوڑ دو۔ میں نے حقارت آمیز لہجے میں ٹکا سا جواب دیا۔ اس نے ایک ہزار سے بولی شروع کی اور دس ہزار پر جا کر ختم کی۔ دراصل اس رئیس نے جبار کی ماں کا دودھ پیا تھا۔ میں ہر لالچ ٹھکرا دیااور وہ اپنا سا منہ لے کر چلا گیا۔
شام تک قاصدوں کا تانتا بندھا رہا اور روپے کے علاوہ اب دھمکی بھی دی جانے لگی کہ اگر تم نہ مانے تو خود تمہاری جان کی خیر نہیں۔ رات گئے تک گفت و شنید کرنے کے بعد مجھ کو اپنی جان کا پورا خطرہ ہو گیا کہ ضروری جاتی رہے گی، اس لئے کہ جبار کے بھائی نے قسم کھائی کہ اگر تم نے روپیہ لے کر نہ چھوڑا تو میں تمہیں مار ڈالوں گا۔ ان سب باتوں کا میرے پاس بس ایک ہی جواب تھا اورہ وہ یہ کہ میں دم توڑتے بھائی سے وعدہ کر چکا ہوں اور پھر ماں سے وعدہ الگ ہے۔ اس کے بعد اما ں کو راضی کرنے کے لئے عورتیں آئیں۔ دس ہزار اور ایک گاؤں ورنہ میری جان کی خیر نہیں، یہ شرائط میرے اور میری ماں کے سامنے پیش کی گئیں۔ مگر سب بےس ود۔ "چاہے میری جان رہے چاہے جائے میں نہ مانوں گا۔" یہ تو میرا جواب تھا۔ "ساری دنیا کی دولت میرے آگے رکھ دو مگر میرا دل ٹھنڈا نہ ہوگا۔ جب تک اپنے بیٹے کے قاتل کی لاش نہ دیکھ لوں۔" یہ جواب میری ماں کا تھا۔
(۵)​
صبح تڑکے میں اٹھا ۔آج گھر میں خوشی تھی۔ پالکی کو میں نے رات ہی کو کہہ دیا تھا۔ صبح کہار آ گئے اور فوج کے سپاہی بھی تھے۔ ماں اور بھاوج کو میں نے پالکی میں سوار کرایا۔ خود ساتھ ہو لیا۔ میری تلوار میرے پاس تھی جس کو میں نے خوب اچھی طرح تیز کرایا تھا۔ اندیشہ تھا کہ مقتل میں پہنچنے سے یہلے ہی کہیں جبار کے بھائی بند یا اس کے دودھ شریک بھائی رئیس کے آدمی میرا خاتمہ نہ کر دیں، اس لئے میرے ساتھ سپاہی تھے۔ پالکی کے ساتھ میں ڈونگر پور دروازہ یعنی مقتل میں پہنچا۔ یہاں فوج کی کمپنی کا انتظام تھا۔ میرے بھائی کا قاتل میرے سپرد کر دیا گیا۔ چاروں طرف ہزاروں آدمیوں کا مجمع تھا۔ ہر چہار طرف سے آواز کر رہی تھی "معاف کر دو۔" "معاف کر دو۔" جبار کی مشکیں کسی ہوئی تھیں۔ میں نے اس کی گردن پکڑ کر کہا۔ "چل بیچ میں آ۔" وہ رو رہا تھا۔ "بھیا معاف کر دو۔ خدا کےو اسطے رحم کرو۔ معاف کر دو۔ معاف کر دو۔" یہ کہہ کر وہ لیٹ گیا۔ مگر میرے دل میں رحم کہاں! میں نے اور سپاہیوں نے اس کو کھینچا اور بیچ مقتل میں گھیسٹ کر میں اس کو لے آیا۔ پالکی میرے سامنے کچھ فاصلہ پر رکھی تھی جس میں سے ماں اور بھاوج یہ سب دیکھ رہی تھیں۔ گھسیٹ کر میں نے اس کو اوندھا کیا مگر وہ تڑپ کر اٹھ بیٹھا۔ "ارے مجھے معاف کر دو۔ خدا کے لئے مجھے معاف کر دو۔" گڑگڑا کر جبار نے کہا۔ میں نے گھسیٹتے ہوئے تلوار چمکا کر کہا۔ "میں تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔" مجمع سے آواز آئی۔ "معاف کر دو۔ معاف کر دو۔۔۔" پالکی میں سے والدہ صاحبہ پکاریں۔ "ہرگز نہیں۔ ہرگز نہیں۔۔۔" جبار نے پالکی طرف منہ کر کے گڑگڑا کر کہا۔ "میرے اوپر رحم کرو۔" والدہ صاحبہ چیخ کر پکاریں۔ "یہ رحم کا موقعہ نہیں ہے۔ انصاف کا وقت ہے۔" میں نے پھر جبار کو پکڑا اور کہا۔ "جبار اب سیدھی طرح آؤ ورنہ تلوار چلاتا ہوں۔" مجمع میں سے کوئی لقندرا چلایا۔ "ارے بیٹا مرے کیوں جاتے ہو۔"
ہو ہو! ہو ہو! کر کے جبار لرز کر رو رہا تھا۔ آنسو اور زبان خشک۔ چہرہ بھیانک۔ "ارےبھیا۔۔۔ ہو ہو! ہو ہو! ارے بھیا۔۔۔ ارے مجھے بچاؤ۔۔۔" جبار نے لرزتے ہوئے کہا۔ میں نے کہا "جبار تم کتے کی موت مرنا چاہتے ہو؟ مرنا اول مرنا آخر۔ اب یا تو کندے پر ماتھا رکھ دو ورنہ مجبوراً بکرے کی طرح ذبح کر دوں گا۔ اس میں بہت دکھ ہوگا۔"
یہ کہہ کر میں نے لکڑی کا کندہ آگے کیا۔ اس کی گردن پکڑ کر سجدہ میں جھکا کر کندے پر رکھ دی اور کہا آنکھیں بند کر لو۔ جبار نے ماتھا کندے پر رکھا ہی تھا کہ مجمع سے کوئی شریر چلایا۔ "ہیں ہیں۔ ارے بچا گردن۔۔۔" جبار نے "ارے۔۔۔" کہہ کر سر تیزی سے اٹھا لیا۔ والدہ صاحبہ نے پالکی میں سے چیخ کر کہا۔"جلدی کرو۔" میں نے جل کر کہا۔ "تو یوں نہیں مانے گا۔۔۔" یہ کہہ کر میں نے تلوار کی نوک اس کی گردن میں چبھو کر سر کے بال پکڑ کر، گھسیٹ کر ماتھا اس کا کندے پر ٹکا دیا۔ تلوار کی نوک گردن پر تھی کہ اٹھنے نہ پائے۔ میں نے کہا "جبار کلمہ پڑھو۔ "
اتنا کہہ کر میں نے پالکی کی طرف نظر ڈالی۔ پھرتی سے بالوں پر سے پیر ہٹایا اور پوری قوت سے جو تلوار کا دوہتڑ دیا تو تلوار گردن کو کاٹ کر زمین میں در آئی۔ مرغ بسمل کی طرح تڑپ کر جسم نے ایک خون کے فوارے کے ساتھ پلٹا کھایا۔ سر کٹ کر علیحدہ گرا۔ لبوں پر تھرتھراہٹ اور آنکھوں میں ایک دفع پھڑکن ہوئی۔ مارے خوشی کے میرا دم رک گیا اور میں پالکی کی طرف دوڑااور ماں کے قدم پکڑ لئے۔ انہوں نے دیوانہ وار مجھے گلے سے لگا لیا۔
(۶)​
گھر پر جو پہنچا تو ماں کا خوشی کے مارے عجیب حال تھا۔ بار بار وہ میرا سر چوم رہی تھیں اور بلائیں لے رہی تھیں۔ آج اتنے عرصے بعد گھر میں خوشی اور رونق نظرآ ئی تھی۔ دوست مبارکباد دے رہے تھے اور خوش تھے اور بھائی کا بچہ تو گویا عید منا رہا تھا۔ جس کی خوشی دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔
میں نہیں کہہ سکتا کہ خون کا بدلہ لینے سے کتنی خوشی ہوتی ہے۔ شاید اس کے سوا ضائع شدہ جان کی کوئی تلافی ہی نہیں۔ بس ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بھائی ک یموت کا رنج اور صدمہ اور کلفت سب دور ہو گئی۔ ایسا معلوم ہوتا کہ بھائی جی اٹھا۔ بھائی کی موت کا صدمہ آج تک ہے مگر وہ غم نہیں رہا۔ اگر بھائی کی جدائی کا خیال آتا ہے تو فوراً ساتھ ہی بدلہ لینے کی خوشی سے دل عجیب راحت پاتا ہے حتٰی کہ لبوں پر مسکراہٹ آ جاتی ہے۔ یہی حال مرتے دم تک ماں کا رہا۔ کس خوشی سے بھائی کے خون کے بدلے کا وہ ذکر کرتی تھیں اور مجھے لاکھوں دعائیں دیتی تھیں۔ ناممکن تھا کہ بیٹے کی موت کا ذکر کر کے رنجیدہ ہونے کے بعد بدلہ لینے کا ذکر کر کے خوش نہ ہو جائیں۔ افسوس کہ اب قصاص کا رواج اٹھ گیا اور مقتول کی ماں یا بیوی کے زخم دل کا مرہم ہی نہیں رہا۔
 

مقدس

لائبریرین
السلام علیکم

کیونکہ کھانسی کی وجہ سے مجھ کو نیند نہیں آ رہی تھی اور کرنے کو بھی کچھ نہیں تھا
اس لیے میں نے زین بھیا والا پیجزز کر دیے ہیں
اور خبردار جو کسی نے مجحے ڈانٹا تو
میں نے رونے لگ جانا ہے
ابھی سے بتا رہی ہوں

فہیم بھیا آپ زین بھیا کو بتا دیجیے گا کال کر کے
کہ وہ نہ کریں میں نے کر دیے ہیں
 
Top