شمشاد
لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
صفحہ ۱۹۴
میں فوراً بول اتھا۔ "کون ننگ خاندان؟"
خدا کی پناہ! میرا یہ کہنا تھا کہ وہ پھٹ پڑے۔ "بدمعاش۔ بدتمیز۔ گردن زنی! کیا تیری موت آئی ہے؟"
میں نے ہاتھ جوڑ کر کہا "خدا کے واسطے مجھے کچھ تو بتائیے۔۔۔"
"حرامزادے ناشدنی، بتاؤں تجھے۔ پھر بلاؤں پہلوان کو۔ چپ بدتمیز ناہنجار، عذر گناہ بدتر از گناہ۔ تو یہ سمجھتا ہے کہ تیرے سیاہ اعمالنامے سے کوئی واقف ہی نہیں ہے۔ عذر کرتا ہے! اپنی بدمعاشی پر بجائے ندامت کے پاجی پن کرتا ہے۔ تو نے ایسی خطا کی ہے کہ تجھے جیتا نہ چھوڑا جائے اور ۔۔۔"
میں تنگ آ گیا اور گھبرا کر میں نے کہا۔ "میں بالکل بے قصور ہوں۔ بے گناہ ہوں۔ مجھے معلوم تو ہو کہ میں نے کیا خطا کی ہے۔"
جواب میں غضب ناک ہو کر انہوں نے مجھے چانٹے اور تھپڑ مارنے شروع کئے اور بے حد غصہ ہو کر بولے۔ "ازلی۔ اگر ایک حرف تو نے منہ سے نکالا تو سمجھ لے کہ تیری موت ہے۔ تو نے ہماری عزت لی۔ آبرو لی۔ تو سمجھتا ہے کہ ہم بے وقوف ہیں کچھ جانتے ہی نہیں کل رات کو میرے بھائی نے جب وہ رات کو سینما دیکھ کر واپس آ رہا تھا خود اپنی آنکھوں سے تجھے دیکھا۔ جب تو تختہ پر ہو کر اپنے مکان نیں جا رہا تھا اور تو ہے کہ ہمیں بیوقوف بناتا ہے۔ پھر اس سے پہلے کی حرکتیں بھی سب آشکارا ہو چکی ہیں۔ بس۔ اب چپ رہ۔ میں صرف اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ تو نے ہماری عزت میں بٹہ لگایا۔ ہم طے کر چکے تھے کہ تجھے اور تیرے ساتھ اس ناشاد و نامراد ننگ خاندان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے۔ یہ سب کچھ طے ہو چکا تھا۔ لیکں نہیں اب ہم ایسا نہ کریں گے۔ ہم نے یہ طے کیا ہے کہ اب اس ننگ خاندان کو شرع کے مطابق تیرے ہی سر تھوپیں۔ بس یہی علاج ہے کہ ابھی ابھی تیرا اس کے ساتھ نکاح کر دیں اور دونوں کو گھر سے نکال دیں۔ جاؤ کم بختو جہنم میں۔ ہمیں صورت نہ دکھانا۔ بولو کیا جواب دیتے ہو۔ اگر یہ بات منظور ہے تو خیر ورنہ تمہاری جان کی خیر نہیں۔"
میں نے کہا، "حضرت۔۔۔"
"بہ۔ بہ بس بس۔" سر ہلا کر وہ بولے۔ "میں کچھ نہیں سننا چاہتا۔ مرے پہ درے۔ تو وہ مضمون کرنا چاہتا ہے۔ بدمعاش۔ ازلی۔ موذی۔ بدکردار۔ ناہنجار۔ فاسق۔ مردود۔"
آپ خود غور فرمائیں کہ میں کس مخمصے میں تھا۔ کیا معاملہ ہے اور یہ کون لڑکی ہے اور یہ مصیبت کیا ہے۔ پوچھتا ہوں تو بتاتے نہیں۔ مارنے کو دوڑتے ہیں۔ عذر کرتا ہوں تو کاٹے کھاتے ہیں۔ بولنے نہیں دیتے۔ مرتا کیا نہ کرتا "بیچارگی" والا مضمون تھا۔ میں عذر کرنے پر اور اپنا