مقدس
لائبریرین
66
(130)
میرے پیر اسی طرح چھو کر اپنے لبوں اور آنکھوں سے لگائے' مگر اس مرتبہ بجائے اٹھ کر الگ جا کھڑا ہونے کے انہوں نے منھ اوپر کر کے میری طرف دیکھا۔ مجھ کو دل سے کہنا پڑا: "خدا نے تجھ کو غضب کا حسن عطا کیا! مگر۔۔۔۔۔" وہ میری طرف دیکھ رہی تھیں' اور دونوں ہاتھ جوڑے ہوئے تھیں ۔ ان کے لبوں ہر کچھ حرکت سی تھی' جیسے وہ کچھ کہنا چاہتی ہیں' کہ انہوں نے آہستہ سے اپنا داہنا ہاتھ میرے باہیں ہاتھ کی طرف بڑھایا۔ ان کا سبز رنگ کا کشمیری شال ان کے سر اور کاندھے پر سے سرک کر گر گیا' مگر انہیں شاید خبر نہ ہوئی۔ ہاتھ بڑھا کر جیسے جیسے ڈرتے ڈرتے انہوں نے میرا بایاں ہاتھ کلائی سے پکڑ لیا اور دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اس کو آنکھوں سے لگائا اور پھر لرزتی ہوئی آواز میں کہا: "پتی مہاراجہ!" میری طرف انہوں نے لجاجت آمیز نگایئں ڈالیں۔ جیسے کہ وہ مجھ سے رحم یا عفو تقصیر کی طالب تھیں۔ آہستہ آہستہ اٹھیں اور قبل اس کے کہ مجھے خبر ہو کہ کیا ہوا انہوں نے مجھے مسہری پر لا بٹھایا اور سامنے ہاتھ جوڑ کر کھری ہو گئیں۔ ساری مسہری عطر میں بالکل بسی ہوئی تھی۔ میں اس پر بیٹھ ہوا جونئیر مہارانی کو دیکھ رہا تھا' جو سب رنگ کی آب رواں (جارجٹ) کی ساڑھی باندھے ہوئے میرے سامنے کھڑی میری پرستش کر رہی تھیں' دسمنر کا سخت جاڑا تھا' مگر میرے کمرے کے اندر نہات ہی خوشگوار موسم تھا۔ کیونکہ جگہ جگہ بجلی کی انگیٹھیاں دہک رہی تھیں۔
میں نے ان سے بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ میرے پیرچھو کر بیٹھ گئیں۔ فوراً انہوں نے ایک سبز رنگ کی صراحی سے دو آتشہ کا جام بھر کر مجھے دیا جو میں نے پی لیا اور ایک جام ان کو دے کر اس رسم کو پورا کیا۔
بہت جلد دو چار باتیں ہوئیں کہ سلسہ کلام چھڑ گیا اور جونئیر مہارانی نے اپنی سحرکاریوں کے جال میرے اوپر پھینکنا شروع کئے۔ اپنی طبعیت کو کیا کروں میں جھلا سا گیا اور ان کو شاید برا معلوم دیا۔ جب سینئر مہارانی کا مجھ کو خیال آیا اور میں نے بات کاٹ کر کہا: "سوجاؤ۔" اور یہ کہہ کر اپنی مسہری پر دراز ہو کر جو سویا تو صبح ہی خبر لایا۔ساڑھے آٹھ بجے ہوں گے جب سینئر مہارانی نے مجھے اٹھایا اور فوراً لڑائی شروع کر دی۔ میں خوب خوب رویا اور وہ بھی خوب خوب روئیں۔ میں بھی مجبور تھا اور وہ بھی مجبور تھیں۔ دراصل بھتیجی نے میری سردمہری کی شکایت کی تھی اور پھوپھی اپنی بھتیجی کی طرف سے وکیل ہو کر مشترکہ شوہر سے لڑنے آئی تھیں۔ غرض خون سینئر مہارانی سے لڑائی ہوئی۔
کسی نے کہا ہے اور ٹھیک کہا ہے
"ممکن نہیں کہ آگ لگے اور دھواں نہ ہو"
جانئیر مہارانی کا حسن لاثانی اور پھر پھوپھی بھتیجی دونوں کی کوشش خواہ مخواہ میں جونئیر مہارانی
(130)
میرے پیر اسی طرح چھو کر اپنے لبوں اور آنکھوں سے لگائے' مگر اس مرتبہ بجائے اٹھ کر الگ جا کھڑا ہونے کے انہوں نے منھ اوپر کر کے میری طرف دیکھا۔ مجھ کو دل سے کہنا پڑا: "خدا نے تجھ کو غضب کا حسن عطا کیا! مگر۔۔۔۔۔" وہ میری طرف دیکھ رہی تھیں' اور دونوں ہاتھ جوڑے ہوئے تھیں ۔ ان کے لبوں ہر کچھ حرکت سی تھی' جیسے وہ کچھ کہنا چاہتی ہیں' کہ انہوں نے آہستہ سے اپنا داہنا ہاتھ میرے باہیں ہاتھ کی طرف بڑھایا۔ ان کا سبز رنگ کا کشمیری شال ان کے سر اور کاندھے پر سے سرک کر گر گیا' مگر انہیں شاید خبر نہ ہوئی۔ ہاتھ بڑھا کر جیسے جیسے ڈرتے ڈرتے انہوں نے میرا بایاں ہاتھ کلائی سے پکڑ لیا اور دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اس کو آنکھوں سے لگائا اور پھر لرزتی ہوئی آواز میں کہا: "پتی مہاراجہ!" میری طرف انہوں نے لجاجت آمیز نگایئں ڈالیں۔ جیسے کہ وہ مجھ سے رحم یا عفو تقصیر کی طالب تھیں۔ آہستہ آہستہ اٹھیں اور قبل اس کے کہ مجھے خبر ہو کہ کیا ہوا انہوں نے مجھے مسہری پر لا بٹھایا اور سامنے ہاتھ جوڑ کر کھری ہو گئیں۔ ساری مسہری عطر میں بالکل بسی ہوئی تھی۔ میں اس پر بیٹھ ہوا جونئیر مہارانی کو دیکھ رہا تھا' جو سب رنگ کی آب رواں (جارجٹ) کی ساڑھی باندھے ہوئے میرے سامنے کھڑی میری پرستش کر رہی تھیں' دسمنر کا سخت جاڑا تھا' مگر میرے کمرے کے اندر نہات ہی خوشگوار موسم تھا۔ کیونکہ جگہ جگہ بجلی کی انگیٹھیاں دہک رہی تھیں۔
میں نے ان سے بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ میرے پیرچھو کر بیٹھ گئیں۔ فوراً انہوں نے ایک سبز رنگ کی صراحی سے دو آتشہ کا جام بھر کر مجھے دیا جو میں نے پی لیا اور ایک جام ان کو دے کر اس رسم کو پورا کیا۔
بہت جلد دو چار باتیں ہوئیں کہ سلسہ کلام چھڑ گیا اور جونئیر مہارانی نے اپنی سحرکاریوں کے جال میرے اوپر پھینکنا شروع کئے۔ اپنی طبعیت کو کیا کروں میں جھلا سا گیا اور ان کو شاید برا معلوم دیا۔ جب سینئر مہارانی کا مجھ کو خیال آیا اور میں نے بات کاٹ کر کہا: "سوجاؤ۔" اور یہ کہہ کر اپنی مسہری پر دراز ہو کر جو سویا تو صبح ہی خبر لایا۔ساڑھے آٹھ بجے ہوں گے جب سینئر مہارانی نے مجھے اٹھایا اور فوراً لڑائی شروع کر دی۔ میں خوب خوب رویا اور وہ بھی خوب خوب روئیں۔ میں بھی مجبور تھا اور وہ بھی مجبور تھیں۔ دراصل بھتیجی نے میری سردمہری کی شکایت کی تھی اور پھوپھی اپنی بھتیجی کی طرف سے وکیل ہو کر مشترکہ شوہر سے لڑنے آئی تھیں۔ غرض خون سینئر مہارانی سے لڑائی ہوئی۔
کسی نے کہا ہے اور ٹھیک کہا ہے
"ممکن نہیں کہ آگ لگے اور دھواں نہ ہو"
جانئیر مہارانی کا حسن لاثانی اور پھر پھوپھی بھتیجی دونوں کی کوشش خواہ مخواہ میں جونئیر مہارانی