ٹائپنگ مکمل عظیم بیگ چغتائی کے افسانے

مقدس

لائبریرین
66
(130)

میرے پیر اسی طرح چھو کر اپنے لبوں اور آنکھوں سے لگائے' مگر اس مرتبہ بجائے اٹھ کر الگ جا کھڑا ہونے کے انہوں نے منھ اوپر کر کے میری طرف دیکھا۔ مجھ کو دل سے کہنا پڑا: "خدا نے تجھ کو غضب کا حسن عطا کیا! مگر۔۔۔۔۔" وہ میری طرف دیکھ رہی تھیں' اور دونوں ہاتھ جوڑے ہوئے تھیں ۔ ان کے لبوں ہر کچھ حرکت سی تھی' جیسے وہ کچھ کہنا چاہتی ہیں' کہ انہوں نے آہستہ سے اپنا داہنا ہاتھ میرے باہیں ہاتھ کی طرف بڑھایا۔ ان کا سبز رنگ کا کشمیری شال ان کے سر اور کاندھے پر سے سرک کر گر گیا' مگر انہیں شاید خبر نہ ہوئی۔ ہاتھ بڑھا کر جیسے جیسے ڈرتے ڈرتے انہوں نے میرا بایاں ہاتھ کلائی سے پکڑ لیا اور دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اس کو آنکھوں سے لگائا اور پھر لرزتی ہوئی آواز میں کہا: "پتی مہاراجہ!" میری طرف انہوں نے لجاجت آمیز نگایئں ڈالیں۔ جیسے کہ وہ مجھ سے رحم یا عفو تقصیر کی طالب تھیں۔ آہستہ آہستہ اٹھیں اور قبل اس کے کہ مجھے خبر ہو کہ کیا ہوا انہوں نے مجھے مسہری پر لا بٹھایا اور سامنے ہاتھ جوڑ کر کھری ہو گئیں۔ ساری مسہری عطر میں بالکل بسی ہوئی تھی۔ میں اس پر بیٹھ ہوا جونئیر مہارانی کو دیکھ رہا تھا' جو سب رنگ کی آب رواں (جارجٹ) کی ساڑھی باندھے ہوئے میرے سامنے کھڑی میری پرستش کر رہی تھیں' دسمنر کا سخت جاڑا تھا' مگر میرے کمرے کے اندر نہات ہی خوشگوار موسم تھا۔ کیونکہ جگہ جگہ بجلی کی انگیٹھیاں دہک رہی تھیں۔
میں نے ان سے بیٹھنے کا اشارہ کیا تو وہ میرے پیرچھو کر بیٹھ گئیں۔ فوراً انہوں نے ایک سبز رنگ کی صراحی سے دو آتشہ کا جام بھر کر مجھے دیا جو میں نے پی لیا اور ایک جام ان کو دے کر اس رسم کو پورا کیا۔
بہت جلد دو چار باتیں ہوئیں کہ سلسہ کلام چھڑ گیا اور جونئیر مہارانی نے اپنی سحرکاریوں کے جال میرے اوپر پھینکنا شروع کئے۔ اپنی طبعیت کو کیا کروں میں جھلا سا گیا اور ان کو شاید برا معلوم دیا۔ جب سینئر مہارانی کا مجھ کو خیال آیا اور میں نے بات کاٹ کر کہا: "سوجاؤ۔" اور یہ کہہ کر اپنی مسہری پر دراز ہو کر جو سویا تو صبح ہی خبر لایا۔ساڑھے آٹھ بجے ہوں گے جب سینئر مہارانی نے مجھے اٹھایا اور فوراً لڑائی شروع کر دی۔ میں خوب خوب رویا اور وہ بھی خوب خوب روئیں۔ میں بھی مجبور تھا اور وہ بھی مجبور تھیں۔ دراصل بھتیجی نے میری سردمہری کی شکایت کی تھی اور پھوپھی اپنی بھتیجی کی طرف سے وکیل ہو کر مشترکہ شوہر سے لڑنے آئی تھیں۔ غرض خون سینئر مہارانی سے لڑائی ہوئی۔
کسی نے کہا ہے اور ٹھیک کہا ہے
"ممکن نہیں کہ آگ لگے اور دھواں نہ ہو"
جانئیر مہارانی کا حسن لاثانی اور پھر پھوپھی بھتیجی دونوں کی کوشش خواہ مخواہ میں جونئیر مہارانی
 

مقدس

لائبریرین
66

(131)

سے گھل مل گیا۔ لیکن مجھے معلوم نہ تھا کہ گھلنا ملنا کچھ سے کچھ کر دے گا اور وہ بھی اس قدر جلد۔
پھوپھی تو جیسا گاتی تھی گاتی تھی ہی لیکن بھتیجی نے تو گانے میں ستم کی مہارت پہنچائی تھی۔ اتنی حسین اور دلچسپ لڑکی' نئی نئی جوانی اور پھر نئی شادی' میرا اس کی طرف کھینچاؤ اور اس کا میری طرف رجحان بڑھتا گیا۔ مجھ سے مل کر وہ عشق مجسم اور محبت کی پتلی بن گئی۔ ایک عجیب عالم میں تھیں' اور مجھے بھی اپنے ساتھ کھنیچے لیے جا رہی تھیں۔ ان کا بس نہ تھا کہ مجھے اپنے دل میں چھپا لیتیں۔ یہی جذبات آخر سینئر مہارانی میں تھے اور عورتوں میں ہوتے ہی ہیں' مگر جونئیر مہارانی میں نہ تو اتنی سمجھ کہ یہ جذبات کیا ہیں اور نہ عقل۔ وہ مھے دیکھتیں' تو ان کی آںکھیں غمازی کرتیں۔ ان کی حرکات و سکنات' اٹھنا' بیٹھنا' چلنا' پھرنا' کھانا' پینا' ہنسنا' گانا' ملنا' جلنا غرض ان کے تمام افعال سب کے سب ایک جذبہ کے تحت میں تھے اور ہر قدم پر دل کے چور کا راز افشا کرتے تھے۔ بس گویا جونئیر مہارانی کیا تھیں کہ سیماب بر آتش تھیں۔ بلکہ یوں کہیے کہ ایک دہکتا ہوا آگ کا انگارہ! بہت جلد انہوں نے میری ہستی کو کچھ سے کچھ کر دیا۔ وہ خود بھی مٹ گئیں اور مجھ کو بھی مٹا دیا۔ باالفاظ دیگر خود وارفتہ ہو کر مجھ کو بھی دیوانہ کر دیا۔ یہ سب باتیں اور ذرا غور کیجیئے کہ سینئر مہارانی اپنی بھتیجی کی زندہ دلی کو دیکھتیں اور باغ باغ ہوتیں اور جہاں تک ممکن ہوتا اپنی بھتیجی کے عیش میں مخل نہ ہوتیں۔
وہی ناچ رنگ کی محفلیں اور وہی رنگ رلیاں! جونئیر مہارانی اور سینئر مہارانی دونوں میرے ساتھ ہوتیں۔ پھوپھی اور بھتیجی دونوں مل کر خوب گاتیں' جشن میں دونوں شریک' طرح طرح کے ڈرامے کیے جاتے' سوانگ بنائے جاتے' سینئر مہارانی راجہ بنتیں' جونئیر مہارانی راجکمار بنتیں' میں راجکماری بنا دیا جاتا۔ میرے ساتھ شادی ہوتی۔ خوب خوب الٹی گنگا بہائی جاتی' مگر یہ حال سینئر مہارانی کا زیادہ عرصہ تک نہیں رہا۔ ویسے بھی وہ اپنی بھتیجی پر اپنا عیش قدم قدم پر خود قربان کرتیں تھیں' کبھی طبعیت کی کسلمندی' کبھی نیند کی خواہش' کبھی دلچسپی کا فقدان۔ غرض کوئی نہ کوئی پہانہ ان کو محفل سے بہت جلد اٹھا لے جاتا۔ رفتہ رفتہ انہوں نے ناغہ کرنا شروع کیا۔ دراصل ان کی طبعیت کا رجحان کچھ پوجا پاٹ کی طرف زیادہ ہو گیا تھا۔ میں سمجھا شاید اسی کی وجہ ہو۔
ظاہر ہے کہ ان سب باتوں کا نتیجہ کیا ہو گا۔ دفتر بےمعنی ہو کر میں جونئیر مہارانی میں ڈوب کر رہ گیا۔ اب مجھے معلوم ہوا کہ سینئر مہارانی سے سچ کہا تھا کہ جونئیر مہارانی میرے جوڑ کی ہیں۔
میری عمر سولہ اور سترہ سال کے درمیان تھی اور جونئیر مہارانی کی عمر پندرہ اور چودہ کے درمیان تھی۔ بہت جلد مجھ جو بجائے سینئر مہارانی کے جونئیر مہارانی کا جنون شروع ہو گیا۔ ہر دم
 

مقدس

لائبریرین
67

(132)

وہی تصویر سامنے رہی' اندر ہوں خواہ باہر' سوتے جاگتے ان ہی کی یاد رہتی۔رفتہ رفتہ وہ عبرت ناک حالت آپہنچی کہ سینئر مہارانی کی موجودگی اور غیر موجودگی یکساں ہو گئی اور پھر اس پر بس نہیں بلکہ ایک قدم اور آگے بڑھا اور سینئر مہارانی کی موجودگی غیر دلچسپ معلوم ہر کر کچھ کچھ شاق گزرنے لگی' ایسا معلوم ہونے لگا کہ یہ تو کوئی بزرگ ہیں' وہ خودکھنچی کھنچی دیدہ و دانستہ رہتیں۔ تھوڑے ہی دنوں میں ناچ رنگ کی رونق صرف جونئیر مہارانی رہ گئیں۔ وہی جھیل کا کنارہ'وہی مرمری چبوترہ' وہی پرسکون چاندنی اور وہی عیش و طرب! لیکن پرانا محبوب اب مجلسوں سے غیر حاضر رہتا۔ میرے صنم کدہ میں اب دوسرا بت تھا جس کی جدائی نے وحدانیت کا ڈنکا بجوا دیا۔ کبھی کبھی میرا دل میرے اوپر ملامت کرتا اور سینئر مہارانی کے یہاں اس نیت سے جاؤں کہ رات کو ان کے یہاں ہی رہوں' اور وہیں جلسہ ہو' تو اول تو وہ مجھے ٹکنے نہ دیتیں اور ہنس ہنس کر لڑتیں' اور دھکے دے کر نکالتیں اور جب بڑی مشکل سے راضی بھی ہوتیں تو بہت جلد کہتیں کہ "لیلا دتی کو بلا لو۔"جونئیر مہارانی فورا آ جاتی۔ دراصل ان کی مجال نہ تھی کہ انکار کریں۔ ان کے آتےہی خود ان کے سر میں درد ہونےلگتا اور نتیجہ یہ ہوتا کہ سینئر مہارانی کے محل میں خود ان کی غیر موجودگی ہو جاتی اور جونئیر مہارانی رہ جاتیں' مگر جونئیر مہارانی کے جنون کے ہوتے ہوئے بھی مجھ کو ایسا معلوم ہوتا کہ سئینر مہارانی کی محبت ایک لازوال شئے ہے۔ میرے دل میں ان کی بےحد محبت اب بھی تھی' مگر اس کی صورت بھی ایک عجیب ہو کر رہ گئی تھی۔ جبکہ کبھی ان کو سینے سے لگاتا یا ان کی پیشانی چومتا تو ان کے آنسو نکل پڑتے اور بہت جلد حالت بگڑ جاتی کہ سنبھالنا دشوار ہو جاتا۔ ان سے اگر کبھی اس پریشان خواب کا حال پوچھتا تو وہ بڑے اطمینان کا اظہار کرتیں۔ کبھی کبھی نہیں بلکہ اکثر دکھائی دیتا تھا مگر اب وہ خود مجھ سے کہتیں تھیں کہ محض وہم ہے' دوسری باتیں کرو۔ میں رہ رہ کر یہ بھی سوچتا کہ آخر یہ محبت کی کونسی قسم ہے جو مجھ کو سئینر مہارانی سے ہے۔ کیونکہ جونئیر مہارانی کی محبت اگر ایک طرف وبال جان تھی تو دوسری طرف سئینر مہارانی کے لیے دل پاش ہوتا تھا' اور ان کی بھولی بھولی نظریں تیر کی طرح دل میں ترازو ہو کر رہ جاتی تھیں۔ دراصل میرا جی چاہتا تھا کہ سئینر مہا رانی پر اپنی جان چھڑکتا رہوں!
رفتہ رفتہ' بتدریج' سئینر مہارانی کی حالت میں ایک انقلاب عظیم پیدا ہو رہا تھا' وہ زیادہ تر ساکت رہتی تھی۔ معلوم ہوا کہ راتوں کو اٹھ کر ٹہلتی ہیں۔ ان کے چہرے کی وہ غیر معمولی دمک اب معدوم تھی' مگر چہرے پر ایک ناقابل بیان نور مسلط رہتا تھا۔ اب ان کے بالوں میں وہ افشاں بھی نہ ہوتی تھی جس کی بارش ان کے حسین چہرے پر ہوتی رہتی تھی۔ ان کی تندرستی انحطاط پذیر معلوم ہو رہی تھی' اور وہ دبلی ہو گئی تھیں۔
 

مقدس

لائبریرین
67

(133)

(6)

دراصل انسان عیش کا بندہ ہے' خواہ غریب ہو یا امیر'پھر عیش و عشرت کی بھی کوئی حد نہیں' ہم سب لوگ خواہ کتنے ہی عیش کیوں نہ کریں یہی سمجھتے ہین کہ کافی نہیں۔ میری اور جونئیر مہارانی کی پرسرور پرکیف زندگی لے دن لمحوں کی طرح گزرتے معلوم ہوتے تھے۔ یہ معلوم ہوتا تھاکہ ہم دونوں ایک خوشگوار ہوا میں دنیا کی رنگینی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کسی اس سے بھی اچھے مقام پر جا رہے ہین دوسرا سال میری شادی کو شروع ہو چکا تھا۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جونئیر مہارانی گویا کل ہی آئی ہیں۔ جوں جوں جوانی آتی جاتی تھی' نشہ عشق و محبت اور بھی بڑھتا جاتا تھا۔ دراصل میں ایک عجیب نشے میں چور تھا' اور یہی حالت جونئیر مہارانی کی تھی۔
برساتھ کا زمانہ آیا۔ کالے کالے بادل اور دل خوش کن ہوائیں' جھیل کا منظر اور مے نوشی اور اس پر عشق و محبت کی گڑک! دن رات کھیل تماشے میں گزرتے تھے اور دن رات طرح طرح کے ناچ' کھیل اور رنگ رلیاں طرح طرح سے منائی جاتی تھیں' نت نئی تجویز اور اسکی تکمیل۔ بس مقصد حیات ہی یہی تھا۔جونئیر مہارانی نے تجویز کیا کہ جھیل کے پیچوں بیچ میں کشتیاں جوڑ کر دوسری طرح کا ایک جزیرہ بنایا جائے اور اس پر ایک بارہ دری قائم ہو اور وہاں' ہفتہ بھر برابر جلسہ رہے۔ دن رات وہیں رہیں'تجویز واقعی بہت دلچسپ تھی۔ حکم کی دیر تھی کہ سینکڑوں آدمی لگ گئے' دن رات کام ہونے لگا اور پندرہ بیس روز کے بعد یہ عارضی محل بن کر تیار ہو گیا۔ پہلے ہی جلسے کے روز چاروں طرف جھیل کے جھما جھم پانی برس رہا تھا اور یہاں مہارانی کا یہ حال تھا کہ اپنی مست کر دینے والی آواز سے جھوم جھوم کر روم جھوم گا رہی تھیں۔خوب مال پوئے کھائے اور شرابیں طرح طرح کی لنڈھائیں۔ دن کو سوتے اور رات بھر رنگ رلیاں مچائی جاتیں۔ طرح طرح کے ناچ ہوتے اور طرح طرح کے ڈرامے کئے جاتے'پھر کبھی مینھ میں نہاتے اور جبھی جھیل میں۔ غرض خوب دھماچوکڑی رہتی۔ اس عیش و طرب کے جلسے میں باوجود ہر طرح کے اصرار کے سینئر مہارانی نہیں آئیں۔ "تم جاؤ!" انہوں نے کہا۔
لیلا وتی ہے تو! اس کے جواب میں، میں نے انہیں سینے سے لگا لیا، اور کہا: " نہیں تم کو ضرور لے چلوں گا۔" بس یہ کہنا تھا کہ گویا بکھر گئیں۔ خوب روئیں اور مجھے بھی رلایا۔ مجبورا چلا آیا۔ اب اس جلسے میں ان کی موجودگی کا خیال تک نہ تھا۔ دراصل فرصت کہاں تھی۔
ناچ کود سے بھی چار چھ روز تنگ سے آگئے کہ آخری دن آٰا کہبس آج کا جلسہ اور ہو کل ختم۔ حسن اتفاق کہ بادل بھی جھوم کر امنڈ آیا کہ آسمان اور پہاڑ ایک ہوگیا اور پھر بارش بھی خوب خوب ہوئی۔ بجلی کی طرح طرح روشنی سے دن ہورہا تھا۔ پر کیف اور روح پرور ہواؤں کے جھونکے آرہے تھے اور گھومر کا دل پسند ناچ عجیب انداز ہورہا تھا۔
 

مقدس

لائبریرین
68

(134)

خوبصورت اور چلبلی خواصیں نشہ کی ترنگ میں بدمست ہو کر اپنی سریلی آواز مل کو پھولوں کے ہار پہنے اور ہاتھوں میں مور پنکھڑی کی سبز شاخیں لیے بل کھا کھا کر ساز کی تھاپ پر جھماکے کے ساتھ قدم ملا ملا کر ناچ رہی تھیں۔ جونئیر مہارانی تال پر تال دے رہی تھی۔ خدا نے انہیں بلا کا حسن دیا ہے۔ ان کے زرنگار کپڑے اور اس پر مرصع کلغی دار ٹوپی جو ہیروں سے جگمگا رہی تھی۔ میرا دل چھینے لیتی تھی۔ خوشی اور مسرت سے ان کا حسین چہرہ چمک رہا تھا اور اس پر وہ لمبی لمبی دل کھینچنے والی تانیں اور پھر روم جھوم کے گیت پر ان کا خود جھومنا اور پھر گھومر کے ناچ کا نپا تلا جھماکا جس کے ساتھ ساتھ ان کے سر کے جھٹکے سے ان کے حسین چہرے پر افشاں کی بارش ہوتی تھی۔ آج آخری رات کا جلسہ تھا اور کنٹر کے کنٹر شراب کے خالی ہو رہے تھے۔ !اور پیو!" اور پیو!" گانے بجانے والیاں' اور خواصیں سب دو آتشہ میں چور تھیں۔ جام پہ جام خالی ہو رہا تھا ور لاؤ کم نہ ہوتی تھی۔ میں بھی اسی سیلاب میں بہا چلا جا رہا تھا۔ قصئہ مختصر یہ کہ ہر کسی نے اتنی پی کر عقل و ہوش رخصت' بہت جلد محفل کی ترتیب درہم برہم ہو گئی۔ کسی نے کسی کی چوٹی پکڑی' کسی نے کسی کو گھسیٹا۔ میں نے خود انتہائی کوشش کی کہ سنبھلوں اور جلسے کی برہمی کو سنبھالوں' مگر وہاں تو ہر خواص اپنے کو مہارانی سمجھ رہی تھی۔ کوئی ادھر گرا' کوئی ادھر گرا۔ رات کے دو ویسے ہی بج گئے چکے تھے۔ ہفتہ بھر کی کود پھاند اور پھر نشہ اور اس پر جوانی کی نیند۔۔ تھوڑی ہی دیر میں مری پھیل گئی۔ جو جہاں وہیں غیں ہو کر رہ گیا۔ نشہ اور نیند نے ایسا دایا کہ سب غافل ہو گئے۔
نیند اور نشہ کے عالم میں' میں نے ایک خواب دیکھا' وہی خواب جو سئینر مہارانی کو دکھائی دیا کرتا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ میں دربار والے کمرے کی طرف جا رہا ہوں' وہاں پہنچا تو سین حرف بحرف سامنے موجود تھا۔ وہی مہارانی اور وہی کمرہ۔ غرض جو کچھ بھی انہوں نے دیکھا' وب وہی ۔ وہ بنی سجی بیٹھی ہوئی تھیں۔۔ صرف فرق اتنا تھا کہ وہاں وہ بلا نہیں تھی جس میں مہارانی نے دیکھا' بلکہ وہاں تو میرے پیاری جونئیر مہارانی تھی۔ جو تمسخرانہ لہجے میں سئینر مہارانی سے کہہ رہی تھی کہ "تو بیوہ ہو گئی' چتا میں بیٹھ۔" کہ اتنے میں' میں پہنچا۔ میں نے جونئیر مہارانی سے پوچھا کہ بات کیا ہے؟ اس نے مجھ سے مسکرا کر کہا کہ سینئر مہارانی بیوہ ہو گئیں۔ میں نے جونئیر مہارانی کو دیکھا اور پھر اور پھر سینئر مہارانی کو دیکھا اور کہا کہ "تو بیوہ ہو گئی' اب ستی ہو جا۔" اتنے میں دیکھتا ہوں کہ جونئیر مہارانی غائب' پھر خواب کا دوسرا سین دیکھا کہ سئینر مہارانی میرا جنازہ دیکھ رہی ہیں' اور میں بھی دیکھ رہا ہوں۔ میں نے جنازے پر سے کپڑا ہٹا کر خود اپنی لاش کو دیکھا اور ذرہ بھر تعجب نہ کیا۔ غرض خواب کا دوسرا سین بھی لفظ بہ لفظ اور حرف بہ حرف پروا ہوا۔
پھر اس کے بعد تیسرا سین دیکھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ساون بھادوں والے محل کے بڑے
 

مقدس

لائبریرین
68

(135)

کمرے میں کھڑا ہوں۔ سامنے سینئر مہارانی میری لاش کو گود میں لیے ساتوں سناگار کئے ہوئے ستی ہونے کو تیار بیٹھی ہیں۔ وہ میری طرف دیکھ رہی تھیں' اور میں ان کی طرف' وہ محبت سے مجھ کو اپنی طرف گویا نظروں ہی نظروں میں کھینچے لے رہی تھیں' اور میرے دل میں ڈوبی جا رہی تھیں۔ میں دیکھ رہا تھا کہ محبت کے انتہائی جذبات ان کے سینے میں گھٹ رہے ہیں۔ اسی طرح دیکھتے دیکھتے ان کی حالت انتہائی جذبات کی وجہ سے بےقابو ہو گئی اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے ان کے"ست" کے زور سے ان کے سینے سے ایک ذبردست شعلہ بھڑک کر اس زور سے نکلا کہ ساری چتا کو مع مہارانی کے اس نے لپیٹ لیا۔ میری آنکھیں چندھیا گئیں اور چشم زون میں اس زور سے کڑکا ہوا کہ بادل کی گرج کے ساتھ ساتھ میں بھی کرنے کو ہوا کہ میرے پہلو سے چیخ کی آواز آئی اور جونئیر مہارانی مجھ سے آکر چپٹ گئیں ہم دونوں بدل کی گرج کے ساتھ گرے۔
"تم یہاں کہاں؟" جونئیر مہارانی نے مجھ سے پوچھا۔
"کہاں؟" میں نے گھبرا کر چاروں طرف آنکھیں مل کر کہا۔
"ارے!" یہ کہہ کر مہارانی نے ایک چیخ ماری اور ساتھ ہی میں نے اپنے ہوش و حواس میں دیکھا کہ میرا خواب بالکل سچا ے۔ سئینر مہارانی سامنے بےجان پڑی ہیں۔ ان پر بجلی گری تھی اور ان کے سینے اور بالوں پر شعلے کا جھلسا موجود تھا۔ ان کی گود میں میری وہی رنگین تصویر تھی۔ جونئیر مہارانی بےہوش ہو کر گر گئیں اور میں نے دیکھا بھی نہ تھا۔
ملاح کہتا ہے کہ رات کو وہ میرے حکم سے مجھ کو جھیل کے عارضی جزیرے پر سے چپوترے تک لایا۔ توشہ خانے والا کہتا ہے کہ حضور نے اپنے درباری کپڑے مجھس ے رات کو طلب کئے اور میں نے تمام درباری کپڑے اور زیورات خود پہنائے پھر دوسرے ملازم کہتے ہیں کہ آپ نے اپنے حکم سے ہم سے لکڑی کی چتا بنوائی۔ سب یہی کہتے ہیں لیکن مجھے نہیں معلوم کہ کب آیا اور کس طرح آیا۔
مہارانی راماوتی ایک شیریں خواب تھیں اور آنکھ جو کھلی تو کچھ نہ تھا' یا پھر یوں کہیے کہ ایک رنگین حباب جس کی مختصر زندگی ایک ہلکورے سے ختم ہو گئی۔ ایک پروانی تھی جو تھوڑی دیر شمع سے کھیلنے کے بعد اس پر نثار ہو گئی۔
تھوڑے سن تو سر پیٹتا اور خاک اڑاتا رہا اور جونئیر مہارانی کا بھی اپنی پھوپھی کے غم میں یہی حال رہا۔ راتوں کو مجھے خواب میں دکھائی دیتیں اور ہائے راماوتی کہہ کر چیخ اٹھتا' مگر زمانہ گزرنے لگا اور گزرتا گیا۔ وہی محل اور وہی جھیل اور وہی جونئیر مہارانی اور وہی رنگ رلیاں ہیں اور سئینر مہارانی کی یاد ایک قصہ ماضی ہو گئی ہے۔۔۔۔۔
 

مقدس

لائبریرین
74

(146)

(1)
امتحان میں ہم تیسری مرتبہ شریک ہوئے تھے۔ آپ خود اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارے پاس ہونے کا کہاں تک یقین تھا کہ امتحان کی تیاری کے سلسلے میں پیٹتے پیٹتے منشی جی نے ہمارا نقشہ بگاڑ دیا تھا اور ہم سے پختہ وعدہ کیا تھا کہ اگر کہیں تو فیل ہو گیا تو میں تجھے قتل کر دوں گا۔ ڈر لے مارے ہمارا یہ حال تھا کہ ہم خود کہتے تھے کہ اگر زندگی ہے تو پاس ہی ہوں گے۔ قصہ مختصر منشی جی کو اور ہمارے والد صاحب کو ہمارے پاس ہونے کی بہت کچھ امید تھی۔
امتحان کے نتیجہ کا دن آیا تو ہمارے دل میں ایک عجیب امنگ اور گدگدی تھی' ہم محو خیال تھے اور خود اپنے کو دولہا بنا ہوا دیکھتے اور کبھی یہ سوچتے کہ جب ہمارے والدصاحب کے ملنے والے ہمیں مبارک باد دے کر ہماری قابلیت کی تعریف کریں گت تو مارے شرم کے ہم کیا جواب دیں گے۔ غرض خیال ہم کو کہیں سے کہیں لیے جا رہا تھا۔
خدا خدا کر کے گزٹ ہاتھ میں آیا اور ہم نے کانپتے ہوئے ہاتھوں سے اس کو کھولا۔ ہمارے اسکول کا نام ہماری نظر کے سامنے تھا اور ہمتیزی سے اپنا نام کامیاب طکبا کی فہرست میں تلاش کر رہے تھے۔ ہمارے والد صاحب قبلہ ہمارے کاندھے پر کھڑے تھے اور چونکہ ان کو ہماری کامیانی کی پوری توقع تھی' لہذا ان کی باچھیں ابھی سے کھلی ہوئی تھیں۔
ہم نے دل میں کہا: "ہائے" ہمارا کلیجہ دھک سے ہو گیا۔ آنکھوں تلے اندھیرا آ گیا۔ جلدی سے آنکھوں کو ملا اور خوب غور سے اپنے نام کو دیکھا مگر وہں بھلا کہاں' بند میں رعشہ سا آ گیا ۔ ہاتھ کانپنے لگے اور گزٹ ہاتھ سے چھوٹ پڑا۔ ہمارے والد صاحب نے غضب ناک ہو کر کہا : "ارے' کیا تو پھر فیل ہو گیا؟" ہم بھلا اس کا کیا جواب دیتے' چپ رہے' مگر ہمارے والد صاحب قبلہ پھٹ پڑے۔ مارے غصے کے ان کا برا حال ہو گیا اور انہوں نے جوتا لے کر ہماری مرمت کرنا شروع کی تو ہمیں بچھا بچھا کر اور لٹا لٹا دیا اور اس کے بعد ہمیں بیلوں کے چارہ کی کوٹھری میں بند کر دیا۔ ہم کوٹھری میں بے آبو دانہ پڑے رہے اور دن بھر آںے جانے والے ہمارے اوپر تبرا بھیجا گئے۔ رات گئے والدہ صاحبہ نے ہمیں اس قید خانہ سے رہا کیا۔ جب جاکر کہیں کھانا ملا۔
آٹھ دس سن تک ہمارے اوپر چاروں طرف سے لعنت و پھٹکار برسا کی۔ حالانکہ ہم کو ایسی فضول باتوں کی زیادہ پرواہ نہ تھی' مگر منشی رام سائے جا دھڑکا لگا ہوا تھا کہ وہ کیا کہیں گے۔ منشی جی سے ہمارے والد اور چچا بھی ڈرتے تھے کیونکہ یہ ان کے بھی استاد رہ چکے تھی' اور بہت مارا تھا۔
ہم دل میں سوچ رہے تھے کہ منشی جی کی بلا ٹل گئی اور وہ اب نہیں آئیں گے کہ ایک روز کا ذکر ہے کہ صبح آٹھ بجے ہوں گے اور ہم باہر بیٹھے منھ دھو رہے تھے' کہ ایک دن سے ایک یکہ آ کر رکا۔ ہم نے نظر اٹھا کر دیکھا اور ملک الموت کو دیکھ کر گویا ہمارے دیوتا کوچ کر گئے۔ منشی رام
 

مقدس

لائبریرین
74

(147)

سہائے نجائے اس کے کہ اپنا لوٹا یکہ پر سے اترواتے یا ہمارے والد کے سلام کا جواب سیتے بس چیل کی طرح ہمارے اوپر جھپٹے ۔"منشی جی" روتے ہوئے ہمارے منھ سے نکلا اور ہم ہاتھ جوڑ کر کھڑے ہو گئے' مگر وہاں بھلا رحم کہاں۔ منشی جی نے ایک لکڑی سے ہماری مرمت شروع کی۔ "پھر فیل ہو گا' پھر فیل ہو گا۔" کی صدا پر ہم کو دھنکے جا رہے تھے اور پم تڑپے تڑپے پھرتے تھے' مگرمنشی جی مارنا بند نہ کرتے تھے۔ جب ہمارا پٹتے پٹتے برا حال ہو گیا تو منشی جی نے ہاتھ روکا اور لکڑی لیے سیدھے ہمارے والد صاحب کی طرف ان کو "الو اور گدھا" کہےئ ہوئے اس طرف بڑھے کہ ہمیں اس مصیبت کے وقت میں بھی ایک خوشی اور امید کی جھلک نظر آنے لگی۔ مگر ان کے ساتھ انہوں نے رعایت کی اور ان کو مارا نہیں' مگر کہنے کے معاملے میں کوئی بات نہ اٹھا رکھی۔ قصہ مختصر ہمارے والد صاحب کو انہوں نے پیٹتے پیٹتے چھوڑا۔ دراصل وہ بال بال بچے کیونکہ منشی جی ہمارے فیل ہونے کا سارا الزام انہیں کے سر تھوپ رہے تھے۔ والد صاحب کے بعد والدہ صاحبہ کا نمبر آیا' اور ان کو بھی منشی جی نے خوب برا بھلا کہا۔
دو تین روز منشی جی ہماری چھاتی پر کودوں دلا کئے' اور اس دوران قیان میں کبھی چانٹا اور کبھی تھپڑ اور کبھی جوتا ہمارے اوپر پڑتا رہا۔ جب منشی جی کی واپسی کے لیے یکہ آیا تب جا کر ہماری جان میں جان آئی۔ چلتے وقت ہم نے اپنے ظالم استاد کے قدم چومے اور وہ روانہ ہوئے۔ یہ حضرت دراصل عجیب آدمی تھے۔ نتیجہ شائع ہونے کے بعد تمام طالب علموں کے ہاں دورہ کر کے فیل ہونے والوں کا یہی حال کیا کرتے تھے۔ غرض صرف ہمیں مارنے لے لیے آئے تھے۔

(2)

ہماری سمجھ میں نہ آیا تھا کہ آخر ہم کیا ترکیب کریں جو پاس ہوں۔ اب چوتھی مرتبہ امتحان کی تیاری کرنا تھی۔ وہی مضامین اور وہی کتابیں' رہ رہ کر سوچتے تھے کہ الہٰی ہم کیا تدبیر کریں جو پاس ہوں۔
ایک روز کا ذکر ہے کہ ہم اس خلجان میں پڑے ہوئے اپنی قسمت پر رو رہے تھے کہ ہمارے گھر کی اور پروس کی تمام عورتیں کسی دوسری جگہ ایک موت میں گئیں۔ ہم چھت پر چڑھ گئے اور اپنی دیوار پر چڑھ کر دوسرے مکان کی چھت پر آہستی سے کودے۔ چپکے چپکے رینگتے ہوئے سامنے دیوار کے پاس پہنچے۔ اسے پار کر لے اپنی سسرال کی چھت پر پہنچے۔ جھکے جھکے چھجے کے پاس پہنچ کر ادھر ادھر نظر دوڑائی۔ ایک لڑکی برآمدے میں بیٹھی کچھ سی رہی تھی' ہم محو دیدار تھے۔ کیونکہ یہی ہماری منگیتر یا منسوبی بیوی تھی۔ ہم نے آہستہ سے سیٹی بجا کر اس کو اپنی طرف مخاطب کیا۔ اس نے ہم کو دیکھ کر مسکراتے ہوئے ہاتھ سے اشارہ کیا اور دوڑ کر دروازے کی کنڈی لگا دیا۔ ہم جھٹ سے نیچے اتر آئے اور بےاختیاری کے والم میں اس کے ہاتھوں میں اپنا منھ چھپا کر
 

مقدس

لائبریرین
75

(148)

رونے لگے۔ سب سے پہلے تو اس نے ہمارے پٹنے پر اظہار غم کیا اور پھر ہمدردی کی اور پھر اس کے بعد ہماری ہمت بڑھائی اور اطمینان دلایا کہ اب کی بار ضرور پاس ہو جاؤ گے۔ ہم نے کہا کہ اب ہمارے بس کی بات نہیں کہ جو ہم اس مہم کو سر کر سکیں' یا اس بار گران کا ذمہ لے سکیں۔ بڑی بڑی تدبیریں سوچیں؛ مگر امتحان سے بچنے کی کوئی صورت نظر نہ آئی' مگر کسی نے کہا ہے
دو دل یک شود بشکنہ کوہ را

دو دماغ لڑیں اور کوئی تدبیر نہ نکلے یہ ناممکن ہے، سوچتے سوچتے ہماری منسوبہ کو خیال آئا اور اس نے یہ تجویز پیش کی کہ ہم مارے خوشی کے اچھل پڑے۔ یہ واقعہ تھا کہ شہر کے بڑے شاہ صاحب نے اس کی ماں کو ایک ایسا وظیفہ بتایا تھا کہ وہ ہارا ہوا مقدمہ جیت گئی تھیں۔ ہم نے شاہ صاحب کا پورا نام و پتہ معلوم کیا' اور دل میں ٹھان لی کہ ضرور ان شاہ صاحب سے رجوع کریں گے۔ اس کا اور ہمارا دونوں کا خیال تھا کہ شاہ صاحب کے محض ایک وظیفے میں یہ امتحان کی مشکل حل ہو جائے گی۔ تھوڑی دیر بعد ہم خوش خوش رخصت ہوئے۔ کامیابی کی امید دل میں ایک امنگ پیدا کر رہی تھی۔

(3)

شاہ صاحب نے سب سے پہلے تو ہمیں مرید کیا اور اس بکھیڑے میں ہمارے پانچ روپے خرچ ہوئے' جو ہمیں چلتے وقت ہماری منگیتر نے دیے تھے' کیونکہ وہ رئیس کی بیٹھی تھی اور ہمارے پاس کوڑی نہ تھی۔ جب ہم نے شاہ صاحب سے اپنی مشکل بیان کی تو انہوں نے مسکرا کر کہا: "ابھی کیا جلدی ہے' جب امتحان قریب آئے تو ہمارے پاس آنا۔"
سال بھر ہمارا بری طرح گزرا۔ منشی جی بات بات پہ ہمیں مارتے تھے' اور ہڈی پسلی ایک کیے دیتے تھے۔ چونکہ شاہ صاحب کے پاس ہم جب کبھی جاتے اپنی کامیانی کا اور بھی پختہ یقین ہو جاتا۔ لہذا قدرتاً پڑھنے کی طرف کم توجہ ہوتی اور نتیجہ اس کا یہ ہوتا کہ اور بھی پٹتے۔ اس سال ہم ضرورت سے زیادہ پٹ رہے تھے۔ حتٰی کہ تنگ آکر ہمیں شاہصاحب سے پٹنے سے بچنے ک تعویذ لینا پڑا۔ اس تعویذ نے ہمیں اور بھی پڑھنے سے باز رکھا اور نتیجہ یہ نکلا کہ اتنے پٹنے لگے کہ ہم سمجھے کہ تعویذ شاہ صاحب نئ کہیں غلطی سے الٹا تو نہیں دے دیا۔ چنانچہ ہم نے تعویذ کھول کر الگ رکھا اور ذرا پڑھنے کی طرف توجہ کی۔ تب جا کر کہین مار پڑنا کم ہوئی۔ دراصل ہم پٹتے وقت دل میں کہا کرتے کہ خیر مار لو' اب آئندہ سال تو ہم پاس ہو ہی جائیں گے۔
جب ہمارے امتحان کے دو مہینے رہ گئے' تو ہم شاہ صاحب کے پاس گئے۔ انہوں نے ہم سے کہا کہ تم چالیس روز کا جلالی چلا کھینچو' پوری تفصیل چلے ہمیں تلقین کی گئی' یہ چلہ ایک تنہا
 

مقدس

لائبریرین
75

(149)

مکان میں کھینچا جانا تھا اور اس لیے ہمیں بیس روپے کی ضرورت ہوئی' جو ہم نے اپنی منسوبہ سے لیے۔
ہم گھر سے ایک دم ایسے غائب ہوئے کہ گاؤں بھر میں سوائے ہماری منسوبہ کے کسی کو پتا نہ چلا کہ آخر ہم کیا ہوئے۔ ہم نے شہر میں جا کر سر گھٹایا۔ ایک مکان چھوٹا سا سنسان سی گلی میں کرایہ پر لیا اور چالیس دن کی خوراک کے لیے جو پسوا کر ساتھ لیے۔ ایندھن بھی کافی رکھ لیا۔ چالیس دن تک ہم سوائے جو کی روٹی کے کچھ نہ کھا سکتے تھے۔ ایک بہشتی کو ہم نے لگا لیا اور ہم نے اس سے طے کر لیا کہ وہ تیسرے دن پانی بھر جایا کرے' اور جمعے کے جمعے نائی بلا لیا کرے' کیونکہ سر گھٹانا اس میں سخت ضروری تھا۔ ہم چلہ شروع کرنے سے قبل شاہ صاحب سے ایک مرتبہ اور ملے اور انہوں نے ہمیں سب ترکیبیں دوبارہ تلقین کرنے کے بعد کچھ جنات کا بھی حال سنایا۔

(4)

ہم بسم اللہ کر کے مکان میں داخل ہوئے اور ہم اپنے ہم راز بہشتی کق تالا اور کنجی دی کہ مکان میں باہر سے تالا ڈال دے تاکہ کسی کو شبہ نہ ہو اور لوگ بھی سمجھیں کہ ما مکان خالی ہے۔ اندر پہنچ کر ہم نے زمین صاف اور اس کو لیپا پوتا' پھر صاف چونے سے تین حصار بنائے یعنی کنڈلیاں یا حلقے جن کو اصطلاح میں حصار کہتے ہیں۔ ایک سب سے بڑا اور اس کے اندر ایک اس سے چھوٹا اور اس کے اندر ایک سب سے چھوٹا اس طرح بنایا جو سب سے چھوٹا تھا اس کے اندر ہم نہا دھو وضو کر کے سر جھکا کر بیٹھ گئے اور "یابدھو" کا جلالی وظیفہ شروع کیا۔

ہمارا وظیفہ بڑے مزے سے جاری تھا۔ تین دن کی روٹی ہم ایک روز پکا لیتے۔ دن اور رات ہماری وظیفے میں گزرتا۔ جب نیند آتی تو حصار کے اندر ہی سو جاتے' ہر وقت باوضو رہتے۔ سوائے اوقات مقررہ اور ضروریات کے حصار سے باہر نہ نکلتے تھے۔ بہشی آتا اور چپ چاپ پانی بھر کر چلا جاتا اور نائی بھی اسی طرح سر مونڈ کر چلا جاتا۔ بات چیت کی سخت ممانعت تھی اور ہم اشاروں ہی سے کام لیتے تھے۔ دنوں کے شمار کے لیے روزانہ اٹھ کر دیوار پر کوئلہ کا ایک نشان بنا دیتے تھے÷
جوں جوں دن گزرتے جاتے تھے' ہمارا قپلب روشن اور منور ہوتا جاتا تھا۔ دو تین دن شروع شروع میں رات کو تو ہمیں کچھ ڈر بھی لگا' کیونکہ چاروں طرف سناٹے کا عالم تھا۔ اور ہم تن تنہا کڑوے تیل کے چراغ کی دھیمی روشنی میں اپنا جلالی وظیفہ پڑھتے ہوتے تھے لیکن اب ڈر مطلق نہ لگتا تھا بلکہ رات کا سناٹا دل کو اور قوت روحانی پہنچاتا معلوم ہوتا تھا۔
ابھی تک ہم کو جنات وغیرہ سے سابقہ نہ پڑا تھا۔ لیکن ہم ان کے لیے بھی تیار تھے۔ ایک
 

مقدس

لائبریرین
76

(150)

روز ایک چھپکلی اس گستاخی سے ہمارے پاس آئی کہ ہمیں شبہ سا ہوا۔ چونکہ شاہ صاحب نے ہم سے کہہ دیا تھا کہ جنات جانوروں کی شکل میں بھی ممکن ہے کہ آئیں لہذا ہم نے جونہی ایک عمل پڑھ کر اس کی طرف دم کیا تو اس چھپکلی کو بھاگتے ہی بن پڑا۔

(5)

ناظرین کو معلوم ہی ہے کہ ہم گھر سے اس طرح غائب ہوئے تھے کہ جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔ ہمارے غائب ہو جانے پر ہمارے والد صاحب اور چچا اور منشی جی نے بہت کچھ ڈھونڈا مگر نہ پایا۔ منشی جی کا خیال تھا کہ جب امتحان کے دو مہینے رہ اجئیں گے تو ہمارے اوپر خاص محنت اور توجہ کی جائے گی۔ اب حضرات کی توجہ اور محنت سے خدا ہر طالب علم کو بچائے۔ کیونکہ ان کی توجہ کے معنی یہ تھے کہ لڑکے کو گھر پر رکھ کر دن رات مار مار کر ایسا پڑھاتے تھے کہ اس کو دنیا اندھیر معلوم ہونے لگتی تھی۔ اب کی مرتبہ یہ نوبت ہمارے ساتھ ہونے والی تھی۔ ہماری والدہ کا ہفتہ بھر کے بعد ہی برا حال ہو گیا اور انہیں یقین کامل ہو گیا کہ منشی جی کی سخت گیری سے تنگ آ کر ہم نے موت کو لبیک کہہ ڈالا' لہذا انہوں نے وہ واویلا مچائی کہ گھر سر پر اٹھا لیا۔ منشی جی کو ہماری اماں جان کی واویلا کی تو خاک بھی پرواہ نہ ہوئی ہو گی۔ ان کو تو محض یہ فکر تھی کہ ہم کسی طرح ہاتھ آ جائیں تو امتحان قریب ہے ذرا مرمت اور پڑھائی سخت کی جائے' مگر ہم ایسے گوشہ نشین ہوئے کہ پولیس میں رپٹ لکھانے کا بھی کچھ نتیجہ نہ نکلا۔

ہم سے شاہ جی نے کہا تھا کہ ممکن ہے تم کو دوران چلہ کشی میں جنات ستائیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ جنات دن میں بھی آ سکتے ہیں اور رات کو بھی۔ کبھی جانوروں کی شکل میں آتے ہیں اور کبھی دوستوں یا عزیزوں کا بھیس بدل کر آتے ہیں اور طرح طرح کی حرکتیں کرتے ہیں' لیکن مقصد ان کا یہ ہوتا ہے کہ وظیفہ خراب کر دیں۔ کبھی تو وہ دھمکیاں دیتے ہین' اور کبھی ڈراتے ہیں' مگر نقصان کسی طرح بھی اس وقت تک نہین پہنچا سکتے جب تک حصار کھینچے ہوں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ جنات کئی طرح کے ہوتے ہیں جو زیادہ خبیث ہوتے ہیں اور بری بری ڈراؤنی شکلیں بناتے ہیں وہ تو تین حصاروں میں سے ایک کے اندر بھی نہیں آ سکتے۔ آنا تو درکنار اگر کہیں لکیر پر بھی پیر پڑ جائے تو جل کر راکھ ہو جائیں۔ دوسری قسم جنات کی وہ ہے جو پہلے اور دوسرے حصار کے اندر آ سکتے ہیں مگر تیسرے حصار میں نہیں آ سکتے۔ لیکن تیسیر قسم جنات کی وہ ہے کہ جو عزیزوں اور دوستوں کی شکل میں آتے ہیں اور گو سب نہیں' لیکن بعض ' چانکہ ان میں سے خود عاقل اور چلہ کش ہوتے ہیں' لہذا تیسرے حصار میں بھی بسا اوقات قدم رکھ دیتے ہیں اور ایسی صورت میں شاہ صاحب نے ہمیں ایک علیحدہ عمل بتایا تھا کہ جب ایسا ہو تو جلدی سے تیسرے
 

مقدس

لائبریرین
76

(151)

حصار کے اندر اپنے گرد ایک چوتھا حصار انگلی سے کھینچ کر عمل پڑھ کر جنات کی طرف پھونک دینا اور وہ دفع ہو جائیں گے۔

(6)

ہمارا وظیفہ اب قریب الختم تھا اور مہینہ بھر سے زائد ہو چکا تھا۔ سوائے اس جن کے جو ہمارے پاس چھپکی کی شکل میں آیا تھا اور کوئی جن یا بھوت نہیں آیا۔

جمعہ کا متبرک دن تھا' اور ہم نے اٹھ کر دیوار پر انتالیسیویں لکیر کھینچی۔ کل چالیسواں دن چلے کے ختم کا اور دعا کا تھا کہ چلے سے فارغ ہو کر جو دعا بھی ہم مانگیں گے وہ قبول ہو گئی۔ علاوہ پاس ہونے کے اب ہم یہ بھی سوچ رہے تھے کہ کیوں نہ کوئی دعا بھی اس میں شامل کر لیں مگر پھر یہ خیال آیا کہ شاہ صاحب نے کہا تھا کہ محض ایک دعا کے لیے چلہ کھینچا جاتا ہے اور گو کہ کئی دعائیں ایک ساتھ ملانے میں مضائقہ نہیں' مگر اندیشہ ضرور ہوتا ہے۔ کیوں کہ دعا صرف ایک ہی قبول ہوتی ہے۔ بہت پس وپیش کے بعد ہم نے یہ طے کیا کہ ہم دو دعائیں مانگیں گے۔ ایک تو پاس ہونے کی اور دوسری اپنی منگیتر سے نکاح کی۔ خواہ کوئی بھی قبول ہو بات ایک ہی تھی۔
غرض ہم اس جمعہ کے دن سر گھٹوایا اور نہائے دھوئے اور خوش خوش اپنا وظیفہ شروع کر دیا۔ اب گویا سارے بند کی سوئیاں نکل گئیں تھیں اور صرف آنکھوں کی باقی رہ گئی تھیں۔
جلال کا وقت تھا یعنی دن چڑھ رہا تھا اور دراصل تمام جلالی وظیفوں میں اسی مخصوص وقت میں نزول جلال ہوتا ہے اور وظیفہ بھی زوروں پر ہوتا ہے۔ غرض یہ کہ جلال کا وقت تھا۔ جب دوپہر کا وقت قریب پہنچا اور ہم اپنے وظیفے میں ایسے محو تھے کہ تن بدن کا ہوش نہ تھا۔ اس سناٹے کے عالم میں ایک دم سے ہمارے کانوں میں آواز آئی۔"کیں بے! یہ کیا ڈھکوسلہ ہے؟" ہم نے چھت کی طرف دیکھا اور کچھ نہ پایا تو ہمارے کان کھڑے ہوئے۔ جن آگئے' ہم نے دل میں کہا' پھر آواز آئی اور ہم کیا دیکھتے ہین کہ منشی رام سہائے سامنے مکان کی دیوار پر کھڑے ہیں۔ ہم جان گئے کہ جن آگئے اور ہم نے اپنی تسبیح کو ذرا تیزی سے گھمانا شروع کیا اور بجائے جواب دینے کے ہم دیوار کی طرف دیکھ رہے تھے۔ اتنے میں کیا دیکھتے ہیں کہ والد صاحب بھی دیوار پر آ موجود ہوئے۔ ہم برابر وظیفہ پڑھ رہے تھے' مگر دل میں ضرور ہنسے کہ جنات ہمیں الو بناتے ہیں۔ بھلا ہمارا کر ہی کیا سکتے تھے۔ ہم جانتے تھے کہ یہ جنات تیسری قسم کے ہیں' جو عجب نہیں کہ ہمارے حصار میں گھس آئیں۔ منشی رام سہائے ضعید آدمی تھے اور جب انہوں نے دو تین اور ڈانٹیں دیں اور ہم نے کچھ نہ سنا تو وہ دیوار پر چل کر پاخانے کے پاس پہنچے اور وہاں سے اترنے لگے۔ ہم نے دل میں کہا کہ منشی رام سہائے کا بھیس تو بیشک اس جن نے لاجواب بدلا ہے کہ آواز تک
 

مقدس

لائبریرین
77

(152)

ہو بہو ملا دی ہے' مگر اس نے یہ نہ سوچا کہ بھلا ایک ضعیف آدمی کیونکر اس طرح دیواروں پر تیزی سے چل سکتا ہے۔ قصہ مختصر یہ دونوں جنات جو منشی رام سہائے اور ہمارے والد کا بھیس بدلے ہوئے تھے پاخانے سے اتر کر ہمارے قریب آ کھڑے ہوئے' مگر ہم اسی طرح برابر وظیفہ کرنے میں مشغول تھے۔ ہم بڑے غور سے منشی رام سہائے والے جن کو دیکھ رہے تھے۔ جو کوئی شرارت کا پہلو نکالنے کی تیاری کرتے ہوئے دوسرے جن کو دیکھ کر ہنس رہا تھا' مگر ہم دل میں کہہ رہے تھے کہ حضرت ہم بھی تیار ہیں۔
ہمارے دیکھتے دیکھتے منشی جی کی شکل والے جن نے ایک دم ہنسنا بند کیا اور زور سے ڈپٹ کر کہا: "نالائق" اور یہ کہہ کر "ابے پاجی" کہتے ہوئے حصار میں قدم رکھ دیا۔ وہ چشم زون میں دوسرے حصار کو پار کر کے تیسرے میں قدم رکھا ہی تھا؛ ہم جان گئے کہ یہ قطعی تیسری قسم کا چلہ کش جن ہے' اور چھوٹے حصار میں گھس آئے گا۔ ہم نے پھرتی سے انگلی سے خاص چوتھا حصار بنایا اور عمل شریف پڑھ کر اس گستاخ کی طرگ جو منھ بڑھا کر پھونکا تو ہمارے بائیں گال پر اس زور سے سے کوئی 80 نمبر کا چانٹا پڑا کہ ہمارا منھ پھر گیا۔ ہم کچھ سوچنے بھی نہ پائے تھے کہ ہمارا کان اس خطرناک جن کے ہاتھ میں تھا اور ہماری تازہ گھٹہ ہوئی کھوپڑی پر منشی رام سہائے کا جوتا بج رہا تھا۔ تڑاتڑ۔ تڑاتڑ۔ دو تین جوتوں تک تو ہم یہی سمجھے کہ جن مار رہا ہے' یہ سلسلہ دیر تک بند نہیں ہوا' مگر جوتا اس زور سے پڑ رہا تھا کہ فوراً حقیقت آشکار ہو گئی۔ یعنی بڑی بری طرح اصلی رام سہائے ہماری تاج پوشی کر رہے تھے اور برابر یہ کہہ رہے تھے کہ تو نے مجھے بدنام کیا۔ امتحان کے زمانے میں بھاگ آیا۔ یہ سب تیرے نالائق باپ کی خطا ہے۔"آج تجھ کو زندہ نہ چھوڑوں گا۔۔۔۔ آخر یہ تو کیا کر رہا تھا۔۔"وغیرہ وغیرہ۔ قصہ مختصر منشی رام سہائے نے تھوڑی دیر میں وہ حال کردیا جو بیان سے باہر۔۔۔ جب انہوں نے خوب جی بھر کر پیٹ لیا اور ہمیں مارتے مارتے پیٹتے پیٹتے پڑا ک دیا جب جا کر کہیں چھوڑا۔ ہم کھڑے ہاتھ جوڑے رو رہے تھے اور اکا دکا چانٹا پڑ جاتا تھا اور سوالوں کا جواب دے رہے تھے۔
ہمیں بہشتی کا نام اور پتہ بتانا پڑا' جس کے پاس کنجی تھی۔ دروازے پر یکے والا موجود تھا۔ جو کواڑ کی دراعڑ میں جشن تاجپوشی دیکھ رہا تھا۔ وہ بہشتی کے پاس سے کنجی لایا اور ہم یکہ پر بیٹھ کر گاؤں روانہ ہوئے۔ جب مار کا درد کچھ کم ہوا تو ہم کو ذرا فرصت ملی کہ اپنی تیرہ بختی کے اوپر غور کریں ۔ یہ تو منشی جی کو بتا ہی چکے تھے کہ وظیفہ امتحان میں پاس کرنے کے لیے تھا۔ اب ہم دل میں سوچ رہے تھے کہ ہم سے زیادہ بدقسمت بھلا کون ہو گا کہ جب صرف ایک روز رہ گیا تو منشی جی نے آکر یہ ستم ڈھایا۔ چلہ ہمارا شکست ہو چکا تھا اور اب ہم کو ڈر تھا تو یہ کہیں ہمارا جلالی وظیفہ نامکمل رہ جانے کی وجہ سے ہمارے اوپر علاوہ اس مار کے جو پڑ چکی تھی اور کوئی
 

مقدس

لائبریرین
77
(153)
مصیبت نہ لائے' کیونکہ ہم سے شاہ صاحب نے کہا تھا کہ وظیفہ نامکمل رہ جاتا ہے تو اکثرلوٹ پڑتا ہے اور پھر طرح طرح کی مصیبت لاتا ہے۔
ہم گھر پہنچے تو ہماری والدہ صاحبہ نے ہمیں گلے سے لگایا اور خوب روئیں' انہوں نے سب قصہ سن کر کہا تو نے مجھے کیوں نہیں بتایا۔ تیرے لیے اس سے بڑھ کر قظیفہ کسی سیانے سے پڑھوا دیتی۔
مگر منشی جی کا یہ حال تھا کہ دانت پیس پیس کر ہمارے اوپر دوڑتے تھے اور مارتے تھے۔ اب امتحان کے صرف تین دن رہ گئے تھے اور ان تین دونوں میں منشی جی نے ہمارے اوپر وہ ظلم توڑے کہ ہمیں یقین ہو گیا کہ ضرور بالضرور یہ جلالی وظیفہ لوٹا پڑا اور ہماری خیر نہیں۔ غرض جو کچھ بھی اس قلیل عرصہ میں ممکن تھا منشی جی نے کیا اور ہم سے امتحان دلوایا۔ نتیجہ شائع ہوا۔ اب تک ہم صرف ایک ہی مضمون ریاضی میں فیل ہوتے تھے' مگر اب کی بار ہم اضافی پرچے میں بھی فیل ہوئے۔
منشی رام سہائے کا یکہ آن پہنچا اور نہوں نے حسب دستور مارتے مارتے ہمیں بے جان کر دیا' پھر اس کے بعد خود بھی بیٹھ کر رونے لگے۔ ہمارے والد صاحب بے جب اپنے شفیق استاد کو روتے دیکھا تو ان کی آنکھوں میں خون ہی اتر آیا۔"آج تجھے مار ڈالوں گا۔" یہ کہہ کر وہ ہمارے اوپر پل پڑے اور مارتے مارتے بےہوش کر دیا۔ ہمیں ہوش آیا تو ہماری دادی اور والدہصاحبہ ہماری تیماداری کر رہی تھی اور منشی جی اور والد صاحب کو برا بھلا کہہ رہی تھیں۔
دوسرے ہی روز سے ہمیں گھی شکر ملنے لگا اور ہم اور بھی ڈھونگ رچائے۔ جھوٹ موٹ کمزور بنے رہے۔ غرض کئی روز ہم گھر سے باہر نہیں نکلے۔ کیونکہ وہ فرزہ اجل یعنی منشی جی موجود تھے۔

جب ہم ٹھیک ہو گئے تو باہر بلائے گئے اور منشی جی نے ہم سے کہا کہ"تو نے جو چلی کھینچا تھا وہ تو غلط نکلا۔ اب میرا بتایا ہوا چلہ کھینچ۔"ہم سمجھے کہ واقعی کوئی چلہ ہو گا چنانچہ راضی ہو گئے۔ منشی جی نے کہا "میرا چلہ بڑا کٹھن ہے۔ عمدہ کھانا۔ عمدہ کپڑا#دل لگا کر پڑھائی۔۔۔۔۔۔پاس تو قطعی ہو جائے گا۔" منشی جی نے ہماری پیٹھ ٹھونکی اور کہا کہ "کل سے چلہ شروع ہے۔"
دوسرے روز منشی نے اپنا کٹھن چلہ شروع کر دیا۔ صبح سے شام تک انہوں نے ہمیں کوٹ کوٹ پڑھایا اور کھانے کو صرف ابلی ہوئی دال دلوائی۔ یہی ان کا چلہ تھا۔ معلوم ہوا کہ منشی جی اسوقت تک یہیں رہیں گے جب تک گرمیوں کی تعطیل ختم ہو کر اسکول نہ کھلے گا۔ غرض ہم ایک مصیبت میں گرفتار ہو گئے۔ دن رات منشی جی ہمیں باہر رکھتے اور مار مار کر پڑھاتے
 

مقدس

لائبریرین
78

(154)

اور پھر ظلم یہ کہ کھانے کو بہت برا دلواتے۔ ہم چھٹی کو ترس گئے' کیونکہ منشی جی یمیں کسی وقت بھی نہ چھوڑتے تھے۔ رات کو بھی چارپایہ سے چارپائی ملا کر سوتے اور لیٹے لیٹے زبانی سوالات سے تنگ کرتے اور جواب نہ ملنے پر فورا چھڑی رسید کرتے' بار بار یہی کہتے کہ میری وظیفے کی شرط یہی ہے۔
جب اسکول کھلا ہمیں معلوم ہوا کہ اب نئی مصیبت آنے والی ہے' یعنی ہم بجائے گھر پر پڑھنے کے منشی جی کے گھر پر رکھے جائیں گئ۔ ہمارا دم ہی نکل گیا۔ قصہ مختصر ہم منشی جی کے گھر پہنچے جہاں بڑی شدت سے ہمارے اوپر دن رات مار پرتی اور پڑھائے جاتے۔
مصیبت پر مصیبت یہ تھی کہ سوائے دال کے کچھ کھانا نہ ملتا تھا کیونکہ چلہ کشی میں یہ منع تھا۔ اگر ہمارے گھر سے کوئی عمدہ چیز آتی تو والد صاحب الو گدھے بنائے جاتے اور وہ چیز کتے کو ڈال دی جاتی مگر ہمیں نہ دی جاتی۔' کیونکہ منشی جی کہتے تھے کہ "اگر کوئی چیز بھی تو نے کھا لی تو وظیفہ بگڑ جائے گا۔"
گھر پر ہم روزے نہ رکھتےتھے' مگر منشی جی نے مار مار کر ہمیں ذبردستی سب روزے رکھائے۔ خدا خدا کر کے عید روز ہمیں گھر جانے کی اجازت ملی۔ ہماری شامت جو آئی تو ہماری اماں جان نے ہمیں عید کے بجائے ایک روز کے دو روز روک لیا۔ ہم جانتے تھے کہ ظالم سے سابقہ ہے اور ہم راضی نہ وہتے تھے لیکن جب ہمارے والد صاحب نے کہا کہ ہم منشی جی کو خط لکھ دیں گے' تم ڈرو نہیں' تو ہم بھی مان گئے۔ ہمارا رکنا تو بس ستم ہی تو ہو گیا حالانکہ ہمارے واپس ہونے پر والد صاحب کا سفارشی خط بھی موجود تھا مگر توبہ کیجیئے۔ خط دکھانے کی نوبت ہی نہ آئی۔ ہم "خط۔خط" کہتے ہی رہ گئے اور ادھیڑ کر ڈال دیئے گے۔ خوب مارے جانے کے بعد منشی جی نے خط پڑھا۔ اول تو ہمارے وا؛د صاحب کو خوب برا بھلا کہا اور پھر میرے اوپر یہ کہہ کر پل پڑے کہ"سفارشیں لایا ہے۔" اور جتنا مارا تھا اس سے کئی گناہ زیادہ مارا۔ دراصل ہم مار کھانے کے عادی تھے اور کبھی کے بھاگ کر اپنی جان دے چکے ہوتے اگر کہیں ہماری شادی کا سوال بیچ مین نہ ہوتا۔ دراصل ہماری محبوبہ کا خیال ہی تھا جو ہمیشہ کڑی منزلیں ثابت قدمی سے جھیل رہے تھ ورنہ ہم سچ کہتے ہیں کہ اگر کہین مجنوں کا بھی منشی جی کے مدرسے میں نام لکھا دیا جاتا تو وہ بھی لیلی کو بھول جاتا۔
منشی جی نے ریاضی کی ایک ایک کتان ہمیں دس دس مرتبہ پوری کی پوری حل کرا دی تھی مگر پھر بھی چین نہ لیتے تھے۔ یہی حال اور مضامین کا بھی تھا کہ بیسوں نہیں بلکہ سینکڑوں مرتبی یاد کراکر دہرا چکے تھے مگر اس ظالم کی سیری نہ ہوتی تھی اور برابر اسی مستقل مزاجی سے بار بار پرھاتے تھے کہ کہسے آج ہی پڑھانا شروع کرایا ہے۔ قصہ مختصر ہم سال بھی کی سخت پڑھائی اور پٹائی
 

مقدس

لائبریرین
78

(155)

اے دبلے ہو گئے ۔

(7)
سال بھر کی مسلسل پڑھائی اور پٹائی کے بعد اتحان ہوا اور ہم نہ صرف اول نمبر پر آئے بلکہ سارے صوبہ میں اول رہے۔ ہمارے پاس ہونے کی خونی میں منشی جی آئے اور ایک سخت چانٹا مار کر کہا کہ اگر اب کی بار تو فیل ہو جاتا تو تجھے مار ڈالتا اور خود بھی مر جاتا۔ غرض خوب ہمارے پاس ہونے کی خوشیاں کی گئیں اور خوب مٹھائی تقسیم ہوئیی اور منشی کی خدمت میں جوڑا اور روپے پیش کیے گئے۔

ہماری اس شاندار فتح کا تمام گاؤں میں ڈنکا بج گیا اور ہر شخص ہماری جواں مردی کا قائل ہو گیا اور خصوصاً ہمارے خسر صاحب۔۔ جلد تر ہماری شادی کی گئی اور منشی جی نے بھی شرکت کی۔ ہم نے دراصل شادی کے دن اطمینان کا سانس لیا۔ منشی جی ہمیں گلے سے لگا کر وعدہ پختہ کیا کہ اب تجھے کبھی نہیں ماروں گا۔
ہم نے بعد شادی اپنی بیوی سے سخت شکایت کی کہ تو نے اور تیرے شاہ صاحب کے ہمیں ایسی اصلاح دی کہ پورا سال ہمارا پٹتے گزرا۔
کچھ بھی ہو ہماری صلاح ہے کہ اگر کوئی صاحب جلالی چلہ کھینچیں تو خدا کے واسطے جنات اگر آئیں تو کم از کم عمل پڑھ کر پھونکتے وقت اپنا منھ ذرا فاصلے ہی پر رکھیں' ورنہ اس زور کا چانٹا پڑنے کا اندیشہ ہے کہ جس کا اثر قیامت تک رہے گا۔

×××
 

مقدس

لائبریرین
79

(156)

پٹی

پٹیاں ایک تو وہ ہوتی ہیں جو چارپائیوں میں لگائی جاتی ہیں اور ایک وہ جو سپاہیوں کے پیروں پر باندھی جاتی ہیں' پھر اور بہت قسم کی پٹیاں بھی ہیں' لیکن میرا مطلب یہاں اس پٹی سے ہے جو پھورا پھنسی یا اسی قسم کی مصیبتوں کے سلسلے میں ڈاکٹروں کے یہاں باندھی جاتی ہیں۔

میری بیوی کے ملنے والیوں میں ایک لیڈی ڈاکٹر تھیں۔۔ میں چھٹیوں میں سسرال جانے والا تھا اور مس اروما نے مجھ سے کہہ دیا کہ جس روز تم جاؤ مجھ سے ضرور مل جاؤ' چنانچہ میں صبح تڑکے ہی مس صاحبہ کے بنگلے پر جا پہنچا۔
قبل اس کے میں بتاؤں کہ بنگلہ پر کیا ہوا' ایک دو تین باتیں کچھ کتوں کے بارے میں کہنا چاہتا ہوں۔ وہ چھوٹے چھوٹے کتے جو خوبصورت کہے جاتے ہیں اور نبگلوں میں رہنے والے لامحالہ پالتے ہیں' یہ نالائق کتے خواہ کٹ کھنے نہ ہوں مگر ادھر آپ بنگلے میں داخل ہوئے اور ادھر یہ سیدھے آپ کے اوپر۔۔۔ ظاہر اطوار پر کاٹ کھانے کے لیے' مگر دراصل آپ کو دوڑا کر اور رپٹا کر چت کرنے کی نیت سے۔ چنانچہ آپ یقین مانیں کہ یہی ہوا۔ مس اروما کے تین چھوٹے چھوٹے کتے اس بری طرح میرے اوپر حملہ آور ہوئے کہ میرے ہوش جاتے رہے۔ گلاب کے ایک بھرے کانٹوں کے درخت پر میں نے ایسے پیر رکھ دیا جیسے کوئی ریشمی گدوں پر رکھتا ہے۔ وہاں سے پھنس کر بدحواسی کے ساتھ گملے پھاندا' ایک پھاندنا پڑے۔ وہ پھاند گیا' دو پھاند گیا' تیسرے میں پیر ایسا لگا کہ منھ کے بل گرا اور ساتھ ہی کتے سر پر! جناب! کیا بتاؤں کس طرح بےتحاشا پھر اٹھا کہ کتوں نے ایسی تانگ کی کہ ایک کتے پر پیر پڑ گیا اور اب کے سڑک پر گرا۔ وہاں سے گھبرا کر سیدھا اٹھ کر برآمدے میں آیا۔ کتے پیچھے تھے۔ چق اٹھانے کی کسے مہلت تھی' مع چق کے توپ گولے کی طرح زور سے کمرے میں داخل ہوا! ادھر سے مس صاحبہ بدحواس چیختی آ رہی تھیں۔ میں اس بری طرح مس صاحبہ سے جا ٹکڑایا کہ وہ کرسی پو چیخ مار کر گریں۔ میں نے سہارا دے کر جلدی سے اٹھایا۔ کتے کھڑے اب دم ہلا رہے تھے۔ وہی موذی جو لمحہ بھر پہلے میری جان لینے کو تیار تھے۔
 

مقدس

لائبریرین
79
157

(2)
جب ذرا ہوش درست ہوئے تو ہم دونوں نے باتیں کرنا شروع کیں۔ مس صاحبہ نے اپنی سہیلی سے ملنے کا اشتیاق ظاہر کیا کچھ اور فضول باتیں کیں' اتنے میں ان کی نگاہ میرے پاتھ پر پڑ گئی جو انگوٹھے کی جڑ کے پاس ست سڑک پر گرنے سے رگڑ کھا کر کچھ چھل گیا تھا۔
"اوہ۔۔۔یہ۔۔۔ کیا!" یہ کہہ کر آپ نے اسی نام نہاد زخم کا معائنہ کرتے ہوئے کہا: "اجی رہنے دیجیئے کوئی بات بھی ہو۔"
پریشان صورت بنا کر مس صاحبہ بولیں: "مرزا صاحب یہ معمولی بات نہیں' اس کو فوراً دریس کروانا چاہیے۔ ورنہ کہیں۔۔۔"
"ورنہ کہیں؟"میں نے سوال کیا۔ "ورنہ کیا؟"
بھویں چڑھا کر کچھ خوف زدہ صورت بنا کر مس اروما نے کہا: ہوئٹ اور "ٹیٹس۔"
"ٹیٹس" یہ میرے لیے بالکل نیا لفظ تھا۔ معا خیال گزرا کہ یہ شیکسپئیر کی ٹٹانیا کے کہیں کے کہیں بھائی بند تو نہیں' چنانچہ میں نے تفصیل پوچھی۔ یہ ایک مرض ہے از قسم زہر باد۔ سڑکی کی معمولی رگڑ سے ممکن ہے کہ خراش میں ذرا سوزش ہو اور رات ہی رات میں ہاتھ سوج کر دنیل ہو جائے اور صبح ہوتے ہی زہرباد شروع ہو جائے اور پھر۔۔۔۔!
میں کچھ سہم سا گیا۔ اس خوفناک مرض کے پریشان کن حالات سنتا جاتا تھا اور مس اروما کی نازک انگلیوں سے پٹی بندھواتا جاتا تھا۔ بنگلے سے جو نکلا ہوں تو حلیہ یہ تھا کہ گلے میں جھولا پڑا ہے اور اس میں جکڑ بند کیا ہوا ہاتھ۔ یہ کہ پہلے تانگے پہ آیا تھا ورنہ سائیکل پر ہوتا تو اور قیامت تھی۔

(3) راستہ میں ایک جان پہچان کے ملے۔ سلام علیک کے ساتھ ہی انہوں نے تانگہ رکوایا۔
"ارے میاں! یہ کیا؛ خیر تو ہے؟" انہوں نے کہا۔ میں نے اس جواب میں قصہ سنایا کہ جناب سڑک پر رگڑ لگ گئی اور اس ڈر سے کہ ٹیٹس نہ ہو جائے' یہ کاروائی عمل میں آئی۔
"لاحول ولاقوۃ" انہوں نے زور سے قہقہ لگایا اور ٹیٹس اور اس کے امکان پر لعنت بھیجی' اور کہا کہ "کھول کھال کے پٹی پھینک دو اور اس کی جگہ سیندور اور تیل رگڑ کر لگا لو۔"
اس کے بعد ایک صاحب اور ملے' انہوں نے بھی روکا۔ وہی بات چیت اور انہوں نے بھی ٹیٹس پر لعنت بھیجی۔ خوب ہنسے اور مذاق اڑایا۔ "قصہ مختصر راستے میں چار آدمی اور ملے۔ سب
 

مقدس

لائبریرین
80

158

کے سب "ٹیٹنس" پر لعنت بھیجتے اور مجھ پر ہنستے۔ کسی نے کالی مرچیں بتائیں' کسی نے صندل بتایا۔ کسی نے کہا کہ کچھ نہ باندھ یونہی سوکھ جائے گا۔
گھر پہنچا تو والد صاحب قبلہ نے پٹی کی تفصیل پوچھی۔ والدہ صاحبہ نے پوچھی۔بھائی بہنوں نے پوچھی۔ غرض سب کو حال بتانا پڑا۔ پھر نوکروں کی باری آئی۔ گھر کی بوڑھی ملازمہ نے ہمدردی سے سنے سنائے کی تفصیل پوچھی کہ بیٹا یہ "ٹن ٹس" کیا ہے جو تمہارے دشمنوں کو ہونے کا ڈر ہے۔ بڑی بی نے جب لڑکوں سے سنا تو ٹیٹنس کو شاید ترکاری وغیرہ کی قسم کی کوئی چیز سمجھی تھیں۔ جس طرح ہو سکا ان کو میں نے سمجھایا۔
اتنے میں باہر ایک ملنے والے آگئے۔ ان سے کسی نے سنی سنائی اڑا دی تھی۔ وہ بہت پریشان اور ہمدردانہ لہجہ میں انہوں نے تمام تفصیل پوچھی جو بتانا پڑی' یہ چلے گئے اور خربوزے والا آیا۔ روز آتا تھا بھلا کیسے بے پوچھے رہ جاتا۔ میں نے کہہ کر تالنا چاہا کہ چوٹ لگ گئی ہے کہ ملازم کا لڑکا بول اٹھا "ٹیں ٹس" ہو گیا۔ ادھر میں نے لونڈے کی طرف گھور کر دیکھا ادھر خربوزے والا چکرا کر بولا: "میاں یہ ٹیں ٹس کیا؟ کیا کوئی پھڑیا کا نام ڈاکٹروں نے رکھا ہے۔" میں نے جل کر کہا "مت بیہودہ بکو۔"
اس سے فرصت ائی تھی کہ اندر گیا' تو والدہ صاحبہ کو دیکھا کہ وہ دو چار عورتوں کو ٹیٹنس پر لیکچر دے رہی ہیں۔ میں پہنچا تو مجھ سے بھی استدعا کی گئی کہ کچھ روشنی ڈالوں۔ اب میں تنگ تھا اور ٹیٹنس کے نام سے غصہ آتا تھا۔ جوں توں کر کے بلا ٹالی۔

(4)

شام کے چار بجے کی گاڑی سے روانہ ہونے والا تھا۔ س دوران میں لوگوں نے میرا ناطقہ بند کر دیا۔ اب میں صرف یہ کہہ کر ٹالنا چاہتا تھا کہ چوٹ لگ گی ہے' مگر جناب پوچھنے والا بغیر ٹیٹنس کی بات چیت کے بھلا کا ہی کو مانتا۔ وہ فوراً کہتا کہ فلاں صاحب سے سنا ۔ وہ بتاتے تھے کہ ٹیٹنس کا اندیشہ ہے۔ مجبورا جس طرح بن پڑتا جان چھراتا۔
تانگہ آیا' اسباب لادا تو تانگے والے نے بھی پوچھا کہ "میاں ہاتھ میں پٹ کیسی ہے؟" میں بھنا کر رہ گیا۔ اسٹیشب پر البتہ میرا ناک میں دم آگیا۔ بہتوں کو یہ کہہ کر تالا کہ چوٹ لگ گئی ہے اور بہتوں کو کچھ نہ کچھ مجبورا ٹیٹنس کا حال بتانا پڑا۔
گاڑی چھوٹنے سے پلے ہی ایک حضرت سے اسی بنا پر بدمزگی ہو گئی۔
"ارے میاں ہاتھ میں چوٹ کیسی ہے؟" انہوں نے پوچھا۔
"معمولی چوٹ لگ گئی ہے۔"
"کیسے لگ گئی؟"
 

مقدس

لائبریرین
80

159

"کوئی بات بھی تو نہیں؟"
"کوئی بات نہیں؟"
"مگر عبدلحمید ملے تھے وہ کہتے تھے کہ خداںخواستہ ٹیٹنس و جانے کا اندیشہ ہے۔ یہ ٹیٹنس کیا ہوتا ہے۔"
اب مجھے ایسا غصہ آیا کہ ان کا منھ نوچ لوں کیوں کہ محض مجھے تنگ کر رہے تھے۔ اول تو آپ غور کریں کہ انہوں نے خواہ مخواہ پوی تفصیل شورع سے پوچھی۔ حالامکہ عبدالحمید کا یہ اچھی طرح مغز کھا چکے تھے اور پھر ٹیٹس کو پوچھتے ہیں کیا ہوتا ہے حالانکہ خوب اچھی طرح پوچھ چکے تھے۔
میں نے جل کر کہا: "ٹیٹنس ایک قسم کا بخار ہوتا ہے جس میں چھینکیں آتی ہیں۔"
"ہیں!" وہ بولے۔ ھمید صاحب تو کہتے تھے کہ زہرباد ہوتا ہے۔"
"معاف کیجیئے گا۔" میں نے کہا۔ "تو پھر آپ جانتے ہیں کہ ٹیٹنس کیا بلا ہے تو میرا دماغ چاتنے سے حاصل؟"
ظاہر ہے کہ اس قسم کی گفتگو کا کیا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ وہ برا مانے' میں اور بھی برا مانا۔ جس سے وہ اور بھی برا مانے۔

(5)

میرے ڈبے میں ویسے تو کئی آدمی تھے' مگر بالکل ہی پاس بیٹھنے والے تو ایک زمیندار صورت لکھنو کے اطراف کے مسلمان تھے ایک اور صاحب کچھ فوجی نما معلوم ہو رہے تھے۔ خاکی قمیض اور نیکر پہنے تھے۔ ان کے پاس ہی ایکمیرے ہم وطن یعنی ماداڑی مہاجر تھے۔ ان کے علاوہ دو ایک اور احباب بھی تھے۔ گاڑی چلی اور دو ایک ادھر ادھر کی زبردستی باتیں پوچھ کت ان فوجی حضرات نے آخر کوپوچھ ہی لیا کہ:
"آپ کے ہاتھ میں یہ پٹی کیسی بندھی ہے؟"
میں اس قسم کے سوالوں سے عاجز آ چکا تھا' فوراً کہہ دیا: "زخم ہو گیا ہے۔"
"کیسے" انہوں نے کہا۔
مارے غصے کے میں نے کہا : "بات دراصل یہ ہے کہ مگر نے کاٹ کھایا ہے۔"
"مگر نے!مگر نے!۔۔۔۔۔ مگر نے کاٹ کھایا؟"
"جیا ہاں" میں نے لاپرواہی سے کہا۔
"کیسے؟" انہوں نے نہایت اشتیاق کے ساتھ اب تفصیل پوچھنا چاہی کہ میں بیان کروں کہ کس طرح پانی یا دلدل میں مگر سے میرا سابقہ پڑا' مگر میں نے اب تنگ آکر دوسری ترکیب سوچی
 

مقدس

لائبریرین
113

(230)

یہ کہا ہی تھا کہ رفیق نے پردہ اٹھا کر جھانکا۔ افضل بھائی فوراً بولے۔ "تون" اور میں نے جملہ پورا کیا۔۔۔۔"وہ شرط یہ کہ اس مردی سے بھی کرنا پوگا۔" میں نے رفیق کی طرف اشارہ کر کے کہا۔
رفیق اندر آئی اس نے کہا۔ "اور کیا۔۔۔؟"
اب نہ پوچھیے افضل بھائی کا حال۔ سخت گھبرائے۔ پھر میں بھلا ماننے والی تھی۔ میں نے کہا۔
"کم بخت۔ افضل بھائی سے شادی کرتی ہے۔۔۔۔؟"
رفیق نے واقعی بگڑ کر کہا۔ "کیا بدتمیزی ہے۔۔۔"
افضل بھائی پھٹ پڑے۔ "چپ۔ چپ۔۔۔تھبردار۔۔۔ اچھا تو میں جاتا ہوں۔۔۔ بات سنو۔"
میں نے یہ بات سنی کہ مجھے خاموش رہنا چاہیے۔ میں نے کہا "میں خاوش تو رہوں گی مگر۔۔۔۔"
اتنا ہی کہا تھا کہ افضل بھائی بھاگ گئے۔میں نے رفیق سے کہا تو اس کی آنکھیں پھٹی پھٹی رہ گئیں۔ پہلے تو یقین نہ کیا۔ لیکن جب پوری بات سنی تو اس نے کہا۔
"مرنے جوگنی۔ اس خبر کو اپنے ہی تک رکھیو نہیں یاد رکھا ایک انار سو بیمار والا معاملہ ہو جائے گا۔ تجھ میں کیا لال لگے ہیں۔"
اس کے بعدغور کیا تو واقعی ہم دونوں کو بہت رنج پہنچا، افضل بھائی سے ہمیں ایسی توقع نہیں تھی۔ انہوں نے ایسی بدتمیزی اور بیہودگی کی ہے جس کو ہمارے لیے برداشت کرنا دشوار تھا، اس سے ہمیں روحانی تکلیف پہنچی۔ ایسا معلوم ہوا کہ جیسے کوئی اپنا پیارا مر گیا۔ سوال یہ تھا کہ اب کیا کیا جائے۔ بہت سوچا۔ ایک سے ایک بڑھ کر تدبیر سوچی۔ بالآخر ایک نہایت ہی قابل اعتراض تدبیر ذہن میں آئی۔ یہ سوچتے ہوئے کہ لڑکیوں کو ایسے نہیں کرنا چاہیے اور انتہا سے زیادہ بےشرمی اور بےحیائی ہو گی۔ لیکن سوال یہ تھا کہ ہم تو یہ چاہتے تھے کہ افضل بھائی ہمارے بارے میں سوا اس کے کوئی دوسری رائے قائم نہ کریں۔ لہذا ہم دونوں نے سوچ لیا کہ خواہ کچھ بھی ہو ہم دونوں چل کر افضل بھائی سے کیوں نہ کہیں کہ شادی ہم سے کرنا پڑے گی ہمارے حقوق آپ پر زیادہ ہیں۔
ظاہر ہے کہ سوچنے اور کرنے میں فرق ہے۔ مگر نہیں۔ ہمیں کرنا تھا۔ چنانچہ ہم دونوں نے پہنچ کر افضل بھائی کو گھیر کر ان کو جتا دیا۔ رفیق نے کہا کہ"پہلا حق میرا ہے اور مجھ سے شادی کرنا “ڑے گی اور اس چڑیل سے مت کیجیئے گا۔"
میں نے کہا "اس مردی سے بھول کر شادی نہ کیجیئے گا۔ روٹی پکانا یہ نہیں جانتی۔ کام چور
 
Top