ٹائپنگ مکمل عظیم بیگ چغتائی کے افسانے

مقدس

لائبریرین
۱۴۸

(۳۰۴)

وہ آرام کرسی کی طرف چلی اور مسکر کر کہنے لگی۔"آپ اٹھ کے تو نہیں بھاگیں گے؟ رات کو آُ نے بہت کوشش کی ہے۔ مگر شکر ہے کہ آج آپ بہتر معلوم ہوتے ہیں۔"
میں نے شکریے کے لہجے میں کہا۔ خدا آپ کو اس ہمدردی کا نیک بدلہ دے۔ جو آپ نے میرے ساتھ کی ہے اور کر رہی ہیں۔"
میری نے میری طرف غور سے دیکھ کر کہا:
"جو آتا ہے ہمیں دعائیں دیتا ہے۔ آپ اب خاموش ہو جائیے۔"
مجھ کو واقعی کچھ تکان سی معلوم ہو رہی تھی اور میں دل ہی دل میں یہ کہہ کر خاموش ہو گیا کہ میں تجھے کوری دعائیں نہیں دوں گا۔ پانچ سو روپیہ بھی تیری ہمدردی کے صلہ دوں گا۔ میں نے دل میں پھر سوچا واقعی دنیا بھی کیا ہے۔ نقد کوئی نہیں دیتا اور صرف دعائیں دے کر اور زبانی جمع خرچ کر کے چلے جاتے ہیں۔
دوسرے روز طبعیت میں کچھ سکون تھا۔ مگر جوڑ جوڑ میں اور سارے بدن میں میٹھا میٹھا درد ہو رہا تھا۔ میری نے تھرمامیٹر لگا کر دیکھا اور کہا "شکر ہے کہ بخار آج آپ کو کم ہے۔"
میں نے کہا۔"کتنا ہے؟"
میری نے مسکر ا کر کہا۔ "مریض کو یہ باتیں بتائی نہیں جاتیں' ڈاکٹر صاحب کی سخت تاکید ہے۔| یہ کہہ کر اس نے سرہانے سے نقشے کی تختی لی اور اس پر اندراج کیا۔ اور پھر کہا۔ "آج آپ کی طبعیت بہت اچھی ہے۔"
میں نے کمزور آواز میں کہا۔"میں بدن کے درد کے مارے مرا جا رہا ہوں۔"
"کیا زور سے ہو رہا ہے؟" میری نے پوچھا۔
"زور سے نہیں ہو رہا بلکہ میٹھا میٹھا درد اس طرح ہو رہا ہے کہ بیان میں نہیں آ سکتا اور خاص کر ہاتھ پیروں میں۔" یہ سن کر وہ قریب آگئی اور میرا ہاتھ لے کر انگلیوں کی پوروں سے آہستہ آہستہ دبانا شروع کیا بلکہ سہلانا شروع کیا۔"اس طرح آپ کو آرام اور سکون ملے گا۔" اس نے آہستہ آہستہ انگلیوں کو اس طرح بازور اور ہاتھوں پر چلاتے ہوئے کہا جیسے کوئی ہار مونیم کو دھیرے دھیرے مگر ذرا دباوَ سے بجائے۔ اس لے بعد آہستہ آسہتہ سہلا کر مالش سی کرتی رہی اس کے بعد وہ اٹھ کر پائنتی کی طرف گئی اور میرے پیروں کو دبانا چاہا۔ میں نے فورا اپنا پیر گھسیٹ کیا اور کہا"نہیں نہیں سسٹر یہ نہیں ہو گا۔" پاوَں کھینچنے سے ا سکو وہاں بیٹھنے کی جگہ مل گئی اور اس نے بیٹھتے ہوئے کہا:
"آپ کے ساتھ کچھ مجھے خصوصیت نہیں ہے۔ مریض کی تکلیف ڈاکٹر اور نرسوں کے لیے باعث تکلیف ہے۔ مجھے اپنی تکلیف میں کمی محسوس ہو گی۔" یہ کہہ کر اس نے پاوَں آہستہ سے
 

مقدس

لائبریرین
۳۰۵

گھسیٹ کر اپنی گود میں رکھ لیا۔ حالانکہ میں برابر نہیں نہیں کرتا رہا۔ مگر اس نے ایک نہ سنی اور بڑی دیر تک باوجود میرے مسلسل اور بار بار کے اعتراض کے اسی طرح میرے پیر بڑی محنت اور ہمدردی سے دباتی رہی' حتی کہ مجھے نیند آ گئی۔
اس کے بعد اس کا روز کا دستورہو گیا کہ میرے ہر طرح سے منع کرنے پر بھی وہ میرے ہاتھ اور سر برابر دابا کرتی۔ اور مین دل میں یہی سوچتا تھا کہ پانچ سو روپے اس کی محنت کا صلہ کم ہوں گے' لہذا اپنی سونے کی گھڑی بھی دوں گا۔

(۴)

اس بیماری سے مجھے یہ پتا چلا کہ گھر پر علاج کرانے اور اسپتال میں رہ کر علاج کرانے میں کیا فرق ہے۔ وقت پردوا اور وقت پر نپی تلی غذا نہ رائد نہ کم اور پھر وقت مقررہ پر علاوہ اسکے سخت بیماری کی حالت میں بھی روزانہ وقت مقررہ پر غسل اور پھر صفائی' یہ چیزیں ایسی تھیں کہ دوا بھی ان کے آگے کوئی چیز نہیں۔ پھر اس پر تیماداری۔ غرض بخار جاتا رہا اور محض کمزوری رہ گئی۔ اس حالت میں اگر وقت مقررہ پر پاخانہ نہ آنا تو فورا اس کی تدبیر ہوتی؛ سن میں چار مرتبی چڑیا کی سی غذا ملتی تھی او ر ہر وقت بھول لگی رہتی تھحی۔ڈاکٹر صاحب کہتے تھے کہ بھوک سے آدمی تندرست ہو سکتا ہے' مگر مر نہیں سکتا۔ یہ کہتے تھے اور ستم یہ کہ اس پر عمل کراتے تھے۔ میری اسی طرح میری خدمت کر رہی تھی۔
ایک روز کا ذکر ہے کہ میری اب میرے ہاتھ کی انگلیاں داب رہی تھی کہ اتنے میں اسٹاف نرس آ گئی۔ میری اٹھنے لگی تو اس نے اشارہ سے منع کیا کہ بیٹھی رہو، بڑے اخلاق سے اس نے میرا حال پوچھا اور پھر مذاق کی باتیں ادھر ادھر کی کرتی جا رہی تھی۔ ہوتے ہوتے میں نے میری کی ہمدردی اور تیماداری کا قصہ چھیڑ دیا۔ اسٹاف اسی طرح ہنس ہنس کے باتیں کرتی جاتی تھی کہ بولی۔ "میری! مریض بھی تمہارا کہیں ویسا ہی نہ نکلے۔" میری نے اسٹاف کی طرف دیکھا اور پھر میری طرف دیکھا۔ پھر نظر الگ کر لی۔ اور کچھ نہ بولی لیکن کچھ بےچین سی ضرور معلوم ہوئی کہ اسٹاف نے پھ کہا کہ "میری!کیوں!بولتی کیوں نہیں۔ کہیں یہ مریض بھی ویسا ہی نہ نکلے،"
میں نے کہا۔"کیسا؟"
اسٹاف میری کی طرف مسکرا کر دیکھ رہی تھی اور اس نے مجھ سے اشارہ کر کے کہا۔
"میری سے پوچھو۔ میری سے پوچھو۔"
"کیوں سسٹر کیسا مریض۔ اس سے مطلب کیا ہے؟" میں نے میری سے دریافت کیا۔
 

مقدس

لائبریرین
۱۴۹

۳۰۶

اسٹاف نے گلاس کو الگ رکھتے ہوئے قہقہ لگایا۔ "شرما گئی' میری شرما گئی۔ یہ مریض ویسا نہیں ہے، میری ہر مریض کی بڑی خدمت کرتی ہے اور انہیں بھولتی بھی نہیں ہے۔ بلکہ ان کو خطوں۔۔۔۔"
میری نے کہا۔ "خدا کے لیے اسٹاف صاحبہ رہنے دیجیے۔ آپ کیوں مجھے۔۔۔۔"
"اچھا جاتی ہوں۔ میں جاتی ہوں،" اسٹاف نے کہا۔ وہ کھڑی ہوئی اور میری کے گال پر محبت میں ہلکے سے دو انگلیوں سے طمانچہ مار کر کہا۔ "بےوقوف لڑکی۔" یہ کہہ کر اسٹاف چلی گئی۔
میری نے جاتی ہوئی استاف کو دیکھا۔ پھر دوسری طرف منہ کر لیا۔ میں دل میں سوچ رہا تھا کہ یہ کیا معاملہ ہے آخر اور مریض کیسے تھے، تاکہ میں ادازہ لگا سکوں کہ میں خود کیسا ہوں۔ میں نے میری سے کہا۔"سسٹر'سسٹر۔" اس نے جھٹ سے رومان سے منہ پوچھتے ہوئے کہا:
"کہیے!کیا ہے؟" میں نے اسغریب کو غور دے دیکھا۔ معلوم ہوتا تھا کہ اس نے کچھ آنسو پونچھ ڈالے اور بقیہ ضبط کر لیے۔ مجھے اپنے ہمدرد کو اس طرح غمناک دیکھ کر بہت صدمہ ہوا۔ میں نے متاثر ہو کر کہا۔ "سسٹر یہاں آوَتم کچھ رنجیدہ معلوم ہوتی ہو۔"وہ کچھ نہ بولی اور اسہ طرح گردن نیچی کیے بیٹھی رہی کہ میں نے پھر کہا ۔"سسٹر یہاں بیٹھو۔" وہ آکرکرسی پر بیٹھ گئی۔ وہ بےحد مغموم معلوم ہوتی تھی۔ میں اس کا بایاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا "کیا بات تھی۔ اسٹاف کیا کہہ رہی تھی؟"
"کچھ نہیں وہ مذاق کرتی رہتی ہیں۔" میری نے کہا۔
میں نے اس کا ہاتھ دبا کر کہا۔ "شاید یہ مذاق نہیں تھا۔ یہ تو کچھ اور تھا آخر میرا ذکر کیوں آیا۔ میں ویسا نہیں ہوں جیسے تمہارے پہلے مریض تھے۔ اس سے کیا مطلب؟ وہ کیسے تھے اور کون تھے۔"
"آپ رہنے دیجیئے۔" ایک ٹھنڈی سانس بھر کر میری نے کہا۔ "میں فلک کی ستائی ہوئی ہوں' نہیں آپ ویسے ہر گز نہیں ہیں' آپ بہت شریف اور اچھے آدمی ہیں۔"
"وہ کیسے تھے؟" میں نے پوچھا،
"بےایمان اور دغاباز تھے۔" میری نے کچھ رک کر کہا،
"کیا بےایمانی کی؟"
"نہیں کچھ بےایمانی نہیں کی۔ ان کی کچھ خطا نہیں۔ میری قسمت ہی ایسی ہے۔" میری نے درد بھری آواز میں کہا۔
میں اس غریب کی شکل دیکھ رہا تھا، وہ رنج و غم کی تصویر ہو رہی تھی۔ میں نے متعجب ہو
 

مقدس

لائبریرین
۳۰۷
ہو کر کہا۔"آخر معاملہ کیا ہے؟شاید۔۔۔شاید انہوں نے آپ سے وعدہ خلافی۔۔۔۔"
"اور پھر مجھ سے معافی مانگ کر شکریہ ادا کر کے چلے گئے۔" میری نے کہا۔
"سسٹر تم میری ہمدرد ہو اور میں تم سے ہمدردی کروں گا کیونکہ دراصل تم نے م=ہی میری جان بچائی ہے، میرا خیال ہے تم بتا دو گی۔ کیا سب نے ہی ایسا کیا؟"
"جی ہاں تین آدمیوں نے۔"
"آخر کیوں؟"
"اس لیے کہ میں بدصورت ہوں اور کالی ہوں اور غریب ہوں اور آگے پیچھے میرے اس دنیا میں کوئی نہیں۔ جو مجھ سے ہمدردی یا اخلاص سے پیش آئے۔"
"تم بدصورت ہر گز نہیں ہو اور نہ کالی ہو۔" میں نے اخلاقا کہا "سسٹر یہ تم سے کس نے کہا۔ تم تو بہت اچھی لڑکی ہو۔"
مہرے ہاتھ کی انگلیاں اس کے ہاتھ کی انگلیوں میں پھنسی ہوئی تھی۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا۔ بلکہ اپنا اور میرا ہاتھ اسی طرح میرے سینہ پر رکھ دیا۔ میں سمجھ گیا کہ کیا مطلب ہے۔ لیکن پھر میں نے کہا "سسٹر تم سے کس نے کہا کہ تم بدصورت ہو۔"
اس نے پھر کوئی جواب نہ دیا۔ میں اس کی طرف دیکھ رہا تھا اور وہ نظر نیچی کئے مغموم سی بیٹھی تھی۔ اس نے اپنی انگلیاں میری انگلیوں سے نکالتے ہوئے کہا"مجھے جانے دیجئے۔" اور یہ کہہ کر کھڑی ہو گئی۔ میں نے جھٹ سے ہاتھ پکڑ کے پھر اسی طرح انگلیوں میں انگلیاں ڈال لیں اور کہا "نہیں تم بیٹھو۔" اس نے میری طرف سے پیٹھ موڑ لی اور بایاں ہاتھ اپنے منہ پر لے گئی۔ "ارے یہ کیا۔۔ یہ کیا! سسٹر تم کیوں مغموم ہو۔ یہ کیوں؟" یہ کہہ کر میں نے اس کو اپنے برابر پلنگ پر بٹھا لیا اور وہ اپنے بائیں ہاتھ کی کہنی سے اپنا منہ چھپائے ہوئے تھی۔ میں نے جلدی سے اس کا ہاتھ منہ پر سے ہٹانے کی کوشش کی اور ہمدردی سے کہا۔ "تم کیوں رنج کرتی ہو۔ تمہیں کیا تکلیف ہے؟" اس نے رومال سے منہ پونچھتے ہوئے کہا:
"میرا دل کٹا جا رہا ہے۔ خدا کے واسطے مجھے اس وقت چلا جانے دیجئے۔" یہ کہہ کر وہ جانے لگی۔ میں نے بھی مناسب نہ سمجھا کہ اس کو روکوں۔ وہ سیدھی اپنے کوارٹر کی طرف چلی گئی۔
میں اب دل ہی دل میں اس غریب لڑکی کی حالت پر غور کر رہا تھا۔ اس کا دنیا میں کوئی نہ تھا۔ جن کے ساتھ اس نے ہمدردی کی تھی انہوں نے خواہ مخواہ اس کو دھوکہ دے کر اس کا دل توڑ دیا تھا۔ وہ سمجھتی تھی میں دنیا میں سب سے بدصورت لڑکی ہوں اور مجھ کو کوئی نہیں پوچھتا۔ کس طرح اس نے میری خدمت کی تھی۔ میں نے غور کیا کہ کس طرح دن اور رات اس نے
 

مقدس

لائبریرین
۱۵۰

۳۰۸

میرا پیشاب اور پاخانہ اٹھایا اور کس طرح لونڈیوں کی طرح میری خدمت کی۔ یہ سب اس کی سرگزشت میں داخل ہے۔ وہ دوسروں کے ساتھ بھی ایسا برتاوَ کر چکی تھی جس کا اس کو کیا کچھ صلہ مل چکا تھا۔ میں یہ سوچ رہا تھا کہ نرسوں کی وارڈ کی خادمہ آئی اور نے مجھے دو خط دئیے کہ یہ مس صاھبہ نے دئیے ہیں۔ میں نے خط لیتے ہوئے کہا۔ "وہ کیا کر رہی ہیں؟"
"وہ تو بڑی بری طرح رو رہی ہیں اور بستر میں منہ دئیے بیٹھی ہیں۔"
"کیوں رو رہی ہیں؟" میں نے پوچھا۔
اس نے ہنس کر کہا۔ " آپ کو نہیں معلوم؟ وہ تو اکثر رویا کرتی ہیں۔ ان کی شادی دو تین جگہ لگ لگ کے چھوٹ گئی ہے اور ان کی ساتھ والیاں سب یہی کہہ کر ان کو چھیڑتی ہیں کہ اب تیری شادی کہیں نہ ہوگی اور تو کالی اور بد صورت ہے۔"
میں نے کہا"مذاق میں کہتی ہوں گی۔"
"جی ہاں! مگر ان کو خواہ مخواہ دق کرنے سے انہیں سب باتیں یاد آ جاتی ہیں کہ کس طرح انہیں کئی دفعہ دھوکا ہوا۔" اور یہ کہہ کر اس نے تفصیل کے ساتھ بتایا کہ کس طرح ایک مریض آیا اور اس کی انہوں نے خدمت کی اور کس طرح خود ہی اس نے ان سے شادی کی درخواست کی اور پھر کس طرح ان کی ایک دوسری نرس دوست سے اس نے ان کو چھوڑ کر شادی کر لی۔ ایک اور شخص آیا جس کو انہوں نے مصیبت کے وقت روپیہ پیسہ بھی دیا۔ اور پھر اس نے بھی چھوڑ دیا اور پھر ایک اور آیا جو عرصے تک خط و کتابت کرتا رہا اور پھر اس نے بھی وعدہ خلافی کی۔
وہ یہ بیان کر کے چلی گئی۔ میں خط پڑھنے لگا۔ ایک تو بہن کا تھا جس میں یہ سبب لکھا تھا کہ کس طرح والد صاحب خفا ہیں کہ پہلے تو یہ بہانہ کیا کہ بٹوا کھو گیا اور پھر یہ بہانہ کیا کہ بیمار ہو گیا۔ یہ خط میری بیماری کے زمانے میں آئے تھے اور ڈاکٹر صاحب کے حکم سے کھول کر پڑھ لئے گئے تھے۔ لیکن مجھے اب ملے تھے۔کیونکہ بیماری کے زمانے میں خط مریض کو نہیں دیتے میں نے دل میں کہا کہ نہ بھیجِن خرچ میں بھی ان کچھ ہی کیوں نہ ہو جائے گھر نہ جاوَں گا، تھوڑی دیر پانی حالت پر غور کرتا رہا اور پھر میری کی حالت پر غور کرتا رہا۔ پھر سو گیا۔

(۵)
میں سو کر اٹھا ہی تھا کہ میری پہنچی۔ اس کے چہرے سے بشاشت ٹپک رہی تھی۔ اس نے آتے ہی مزاج پوچھا اور میرا منہ دھلانے کے لیے جگ اور صابون اٹھایا۔ میں منع کرتا رہامگر وہ نہ مانی۔ میں نے ہاتھ منہ دھویا۔ پھر باتیں کرنے لگا۔ وہ اس وقت بہت خوش تھی۔ کرسی گھسیٹ کر بالکل میرے پلنگ کے قریب بیٹھ گئی اور میری انگلیاں چٹخا کر باتیں کر رہی تھی۔ کہنے لگی "تم
 

مقدس

لائبریرین
۳۰۹
اب کل پرسوں تک کسی پہاڑ پر جانے کا انتظام کر لو۔"
میں نے کہا"تم سب قصہ سب چکی ہو۔ میرے پاس روپیہ ہی نہیں ہء۔ زنجیر کے روپوں میں سے ساٹھ روپیہ تم نے کہا تھا اور رہ گئے ہیں۔"
"مگر تمہاری تندرستی کے لیےیہ بہت ضروری ہے۔" میری نے کہا۔
"مگر مجبوری ہے بلکہ میں سوچ رہا ہوں کہ گھرو تو جاوَں گا نہیں۔ آخر کہاں جاوَں اور کیوں کر خرچ چلے گا۔"
میری نے کہا۔"تم ضرور پہاڑ جاوَ، روپیہ مجھے سے لے لینا۔ پھر جب ہو تو دے دینا۔"
میں نے متیحر ہو کر شکریہ کے لہجہ میں کہا۔ "سسٹر تم کیسی باتیں کرتی ہو! تمہیں کیا ہو گیا ہے؟"
"کیوں؟" میری نے کہا۔"تم پھر واپس کر دینا۔"
"معلوم ہوتا ہے تم بڑی روپے والی ہو۔" میں نے ہنس کر کہا۔
"میرے پاس تیرہ سو روپیہ ہے،" میری نے بھی مسکرا کر کہا۔
میں نے کہا کہ "میں روپیہ لے کر غائب ہو جاوَں تو کیا کرو گی؟"
"کچھ پروا نہیں۔" میری نے کہا۔ "تم سے بدتر لوگ لے کر چلے گئے۔ نہیں تم ایساکر ہی نہیں سکتے۔ تم ایسا کر ہی نہیں سکتے۔"
"کیوں؟" میں نے پوچھا،" تم کو کیا خبر میں کیسا ہوں؟"
"میرا دل گواہی دیتا ہے۔" میری نے کہا، "تم ضرور مجھ سے روپیہ لو۔ تمہاری تندرستی کے لیے ازحد ضروری ہے۔"
میں اس غریب کی طرف غور سے دیکھنے لگا اور مجھے معلوم ہوا کہ جو کچھ وہ کہہ رہی ہے۔ واقعی دل سے کہہ رہی ہے۔ وہ پھر بولی۔ "بولو کیا ہرج ہے؟ میں نے مہاری تیماداری کی ہے کہ بس میں ہی جانتی ہوں اور تم بالکل تندرست نہ ہوئے تو میری محنت ادھوری رہ جائے گی تم کو لینا پڑء گا۔"
"ایک شرط پر۔" میں نے میری سے کہا۔
"وہ کیا؟" اس نے مسکر اکر کہا۔
"وہ یہ کہ تم کو دوگنا واپس لینا پڑے گا۔" میں نے کہا،
"مجھے منظور ہے۔ اب بولا؟"
"مجھے بھی منظور ہے۔ مگر یاد رکھنا میں مذاق نہیں کرتا۔"
"میں نے پانچ سو روپیہ ڈاک خانہ سے کل ہی نکلوا کر رکھ لیا ہے۔ لے آوَں۔ یہ کہہ کر
 

مقدس

لائبریرین
434
"ایلو ۔ بھلا لڑکیاں بری ہونے لگیں۔۔۔ ۔۔ جھاڑو دیں‘ اپنے چولہا جھونکیں ‘ دن رات تقدیر کو روئیں اور لڑکے خدا رکھے تمہاری طرح بنے پھریں لیفٹینٹ۔۔"
"ارے مجھے تو چھجو بیچارے پہ آتا ہے۔۔۔ چچ چچ۔۔"
"ارے تو کیا ہوا۔"
"کچھ ہوا ہی نہیں۔۔۔ ۔ لو۔۔۔ ۔ وہ جو کسی نے کہا ہے۔۔ بھالے پہ بھالے گھاؤ پہ گھاؤ۔۔ چھجو بندے ۔۔۔ شابش ہے تیری جنتی کو‘ صد رحمت تو نے گھاؤ پہ گھاؤ کھائے پر اف جو کی ہو۔"
"گھاؤ! ارے گھاؤ نہیں تو کیا۔۔ لڑکا ہوا۔۔۔ ۔ ایک ہوا چاند سا وہ مر گیا۔۔۔ ۔ دوسرا ہوا۔۔ یہ شیر کا سا بچہ ایلو وہ بھی مر گیا‘ تیسری وہ آئیں لڑکی تو خود بھی مریں اور ماں کو بھی مارا اور شابش ہے چھجو کو دلہم کی کیسی پہاڑ سی لاش آگئی۔۔۔ ۔۔ لو صاحب گھر کا صفایا ہی ہو گیا۔۔۔ ۔۔"
"پھر انہوں نے برسوں سے شادی کیوں نہیں کی"
"اور تم نے کی تو کون سے حدق مارے۔۔۔ اولاد تقدیر میں ہوتی ہے رو شادی بھی ہوتی ہے۔۔۔ اب یہ آئیں۔۔۔ نیہ دلہن۔۔۔ مرنے والی کی جوتی برابر نہیں اور دماغ لے لو آسمان پر۔۔۔ ۔ نگوڑی! تیری کہیں کی۔۔۔ کیر صاحب ہم سمجھتے ہیں کہ چلو جیسی بھی بری بھلی ہیں ٹھیک ہیں کہ آج سن لو ایک چھوڑ دو ۔۔۔ ۔ ارے وای رے مالک میں تو تیری خدائی کا قائل ہوں۔۔۔ اور پھر بھیا میںکون؛ یہ کھری ہیں ناخوش ہوں۔ اللہ نے ایک دم سے دو بھتیجیوں کی پھوپھی بنا دیا۔۔۔ میں اپنے دیکھوں ہنڈیا چولہا۔۔۔ ۔ خاک پڑ جائے آلو لایا ہے کہ پتھر۔۔۔ ۔ گلتے ہی نہیں۔۔۔ "
اتنا کہا کہ سامنے باورچی خانے سے رحیماً بوا زور سے چیخیں۔ جمن تڑپ کے بھاگا اور بوا رحیماً اس کے پیچھے۔ اور دیا انہوں نے چمٹا گھما کے اور وہ ایک جالی میں الجھ کر گرا اور بھاگا اور رحیماً بوا چیخیں۔
"تھیر تو جا مردے۔۔۔ ۔ تجھے قربان کروں۔۔ ہیضہ سمیٹے۔ اسے ۔۔۔ ۔ سیکھتی ہو بیگم صاحبہ‘ اجرے نے چمٹا گرم کر کے میرے پیر میں لگا دیا۔۔۔ ۔۔۔ اسے تو کوئی کہنے والا ہی نہیں ہے۔۔۔ موا بنا پھرتا ہے لیفٹیننٹ۔۔۔ ۔۔"
"دیکھو یہ کیا واہیات ہے?" ڈاکٹر نے کہا۔۔ "منع کر دو ان کو لیفٹیننٹ کیوں کہتی ہیں۔"
"ہم سے کام نہیں ہوتا۔۔۔ دیکھتی ہو بیوی۔۔۔ پہلے تو لکڑیاں گھسیٹ گھسیٹ کے چولہا ٹھنڈا کیے دیتا تھا پھرمیرا پیر جلا دیا۔"
"بلاؤ جمن کو"
وہ خود ہی آیا دروازے کے پاس اور رک گیا اور رحیماً بوا جھپٹیں۔
"ٹھہر تو جا مونڈی کاٹے۔۔"
 

مقدس

لائبریرین
435
"خلو آپا نے آواز سی جمن۔۔۔ ۔۔۔ ۔ جمن۔۔۔ ۔"
"وہ تو لیفٹیننٹ بنے پھرتے ہیں۔۔۔ ۔ کرتے پھرو شرارتیں بچہ۔۔۔ "
"پھر وہی" ڈاکٹر نے بگڑ کر کہا۔۔ منع کرو ان کو۔"
خلو آپا نے رحیماً بوا سے کہا "اے بوا اسے لیفٹیننٹ مت کہا کرو۔"
"لیفٹیننٹ نہ کہوں?"
"ہاں۔۔۔ "
اور وہ میرا پیر جلا دے۔۔۔ لیفٹیننٹ تو ہے ہی وہ۔۔۔ ۔"
خلو آپا۔۔۔ اے بوا ہمارے بھائی اب لیفٹیننٹ ہو گئے ہیں ۔۔۔ "کون?۔۔"
ڈاکٹر صاحب خود برآمدے سے اتر کر نرمی سے بولے۔ " اے بوا بات یہ ہے کہ میں لیفٹیننٹ ہو گیا ہوں۔۔۔ ۔۔"
"تم۔۔۔ "
"ہاں۔۔۔ سرکار سے عہدہ ملا ہے۔۔ اب اس چھوکرے تو مت کہو۔۔۔ "
(منہ پھاڑ کر) "ہیں! ۔۔۔ ۔اسے کچھ نہ کہو۔۔۔ ۔ اور یہ مردی کا جایا میرا چمٹے سے پیر داغ دے۔"
"لیفٹیننٹ مت کہو اسے ۔۔۔ اے تم سمجھیں نہیں بوا۔۔۔ "
" میں سب سمجھ گئی۔۔ لیفٹیننٹ نہیں تو اے موئے کو چہیتا اور پیارا کہوں گی۔۔"
(بات کاٹ کر ) "فضول بکتی ہو سنو تو۔۔۔ ۔۔" "اے کیا سنوں?"
"میں خود لیفٹیننٹ ہو گیا اور تم اس چھوکرے کو لیفٹیننٹ کہو ۔۔۔ یہ مناسب نہیں ہے۔" یہ مناسب ہے کہ وہ بالشتیا میرا پیر داگ دے۔۔۔ ۔۔ اور میں کچھ نہ کہوں۔۔۔ ۔"
"ارے یہ میرا مطلب کب ہے‘ میرا مطلب یہ ہے کہ میں جو لیفٹیننٹ ہو گیا ہوں‘ سرکار کی طرف سے میں لیفٹیننٹ ہو گیا ہوں۔"
"تو مجھ نگوڑی سے کیا کہتے ہو۔ ایک تم کیا‘ یہاں جسے دیکھو وہی لیفٹیننٹ بنا پھرتا ہے۔ احمد کو دیکھ لو‘ مجال کیا جو سوکھی لکڑیاں آئیں‘ گیلی لکڑی پھونکتے پھونکتے اندھی ہوئی جاتی ہوں‘ نہیں مانتا ۔۔۔ ۔۔ اے لو وہ بہشتی ہے۔ کیسا کیسا چیخی ہوں پر چولہے کے سامنے تالاب کر جاتا ہے‘ ایک نہیں سنتا ۔۔۔ اور تو اور وہ موئی بھنگن کو دیکھ لو آج تین دن سے چیخ رہی ہوں‘ شلجم کے چھلکے ہیں کہ پرے سڑ رہے ہین پر مجال کیا جو سنے۔۔۔ ۔۔ تو میاں میرے بھنگن کیا۔۔۔ بہشتی کیا۔۔۔ احمد کیا۔۔۔ ۔ اور جمن کیا میرے لیے سب ہی لیفٹیننٹ ہیں۔۔۔ ۔ اب تم ہی آئے مجھ ہی کو ڈانٹنے۔۔۔ ۔ الٹا طور کوتوال کو ڈانٹے۔۔۔ ۔ اسے سنپولئے کو تو کچھ کہا نہیں کہ میرا پیر داغ گیا۔ الٹے
 

مقدس

لائبریرین
436
مجھی کو آگئے ۔۔۔ ۔ تو میاں تم تو گھر کے مالک ٹھہرے۔۔۔ "
" کیا بکواس لگا رکھی ہے۔۔۔ "
"میاں بکواس نہیں۔۔۔ "
"گھر کا تو یہ ہڈرا اور وہ موا سنپولیا پیر داغ کے دھو دھو کرتا کرتا پھرے۔ تم ڈانٹنے مارنے سے تو رہے‘ آئی وہاں سے کہنے کہ میں لیفٹیننٹ ہوں۔۔۔ "
"لاحول ولا قوۃ۔ ارے ان کو وکئی سمجھاؤ۔۔۔ "
"نہیں نہیں۔ سن لو آج۔۔۔ تو پھر میرا کہنا ہے کہ اسے مارنے کلے بجائے جو تم کہو میں بھی لیفٹیننٹ تو پھر یہاں یہ لوگ مجھے کاہے کو جینے دیں گے،،، مارنے سے رہے‘ الٹی اس کی یوں طرفداری کی جائے۔۔۔ ۔ نا بابا آج چالیس برس ہونے آئے کہ اسی گھر میں ہوں پر یہ رنگ تو کبھی نہ دیکھا۔۔۔ ۔۔
"ان کو سمجھاؤ خلو آپا۔۔۔ ۔"
"سمجھاؤ کیا۔۔ ٹانگ بربر شھوکرے نے میرا جینا سولی کر دیا ہے اور تم کرو اس کی طرف داری۔۔۔ ۔ اچھا بابا۔۔۔ جو جی میں آئے کرو۔۔۔ ۔۔۔ ۔ مجھے موت بھی نہیں آتی اجڑی کو (چیخ کر) لے تو گھر میں گھس۔۔۔ تو کیا اب تو گھر کا لیفٹیننٹ ہو گیا۔۔۔ خاک پڑے ایسے جینے پر۔۔۔ ۔۔" (بڑبڑاتی باورچی کانے میں چلی گئیں)
ڈاکٹر نے کہا۔ " یہ تو بڑی واہیات بات ہے‘ خلو آپا ان کو سمجھاؤ، خود سوچو کہ بھنگی بہشتی کو لیفٹیننٹ کہنا کہاں تک درست ہے۔۔"
"اے ٹھیک تو کہتی ہے بےچاری۔۔۔ اب سمجھے گی قبر میں‘ تمہیں تو آج فرصت ہے‘ نگوڑے مریض بھی مر گئے سارے‘ کھانے کو کیسا بےوقت ہوا جاتا ہے۔۔۔ ۔۔"
"بھیا تم جانو تمہارا کام مجھے بخشو۔۔۔ ۔"
یہ کہہ کر خلو آپا چل دین باورچی خانے کی طرف اور ڈاکٹر صاحب مع بیگم صاحبہ کے رہ گئے‘ دونوں کمرے میں جاکر اطمینان سے بیٹھے۔ ڈاکٹرصاحب نے شکایت کے لہجے میں کہا۔
"بڑے افسوس کی بات ہے کہ تم بالکل خوش نہیں ہوئیں۔"
"تم چاہو تو لڑکیوں پر تو میں خوش ہونے سے رہی‘ دو چھوڑ چار ہوں میری بلا سے"
"ارے لڑکیوں پر نہیں‘ کیا آدمی ہو" (جھنجلا کر) " پھر۔۔۔ ۔"
"میرے لیفٹیننٹ ہونے پر۔"
"لیفٹیننٹ ہونے پر۔"
" اور کیا۔ یہ کوئی معمولی بات ہے۔۔۔ بھلا ہر کوئی لیفٹیننٹ ہو سکتا ہے۔ تم کو تو بےحد
 

مقدس

لائبریرین
437
خوش ہونا چاہیے تھا۔ جب تم ہی خوش نہ ہو گی تو خود سوچو میری خوشی کیا رہ گئی۔۔"
"میں تو یہ جانتی ہوں کہ جس میں تم خوش اسی میں میں خوش۔۔"
"پھر کیوں خوش نہین ہوئیں۔۔"
"ایلو ہوئی۔۔"
"ہوئی۔۔۔ ۔"
"ہاں پھر اور کیا۔۔ جو تم کہو وہ میں کروں۔۔۔ "
"معاف کیجئے میں ایسی فرمائشی خوشی سے باز آیا، آپ کچھ نہ کریں۔" "ایلو ۔ ایلو۔ تم تو خفا ہو گئے۔"
"میں کیوں خفا ہوتا۔ ہاں رنج مجھے ضرور ہے کہ تم کو خوشی نہیں ہوئی۔"
"اے مجھے ڈالو تم چولہے میں۔۔۔ "
اتنے میں خلو آپا کمرے میں آتے ہوئے بولیں۔
"ایلو کھانا کھا لو تم۔۔۔ ۔ طاہری گرم گرم۔۔۔ ۔ میں نے کہا ٹھنڈی ہو جائے گئی۔۔" اور ساتھ ہی پیچھے بوا رحیماً آتی ہیں بڑبڑاتی ۔ کھانے کاخوان لئے "۔۔۔ خاک پڑ جائے۔۔۔ ۔۔دنیا کو موت آ رہی ہے پر نہیں تو کسے۔۔۔ ۔۔ رحیماً کو۔۔۔ ۔۔"
رحیماً نے خوان تحت پر رکھا اور ڈاکٹرصاحب نے کہا۔
"بوا تم خفا نہ ہو۔۔۔ خلو آپا۔۔۔ ذرا چمن کی خوب ہی خبر لینا۔۔"
"دیکھو۔۔۔ ۔ وہ چار جوت کی مار دی ہو کہ یاد ہی کرے بچا۔"
"اور ہاں۔۔۔ ۔ بوا ۔۔۔ ۔ سنو تو۔۔۔ ۔ میں نے جو تم سے کہا کہ اسے لیفٹیننٹ نہ کہنا تو اس لیے کہ جب میں لیفٹیننٹ ہو گیا تو چھوکرے کو لیفٹیننٹ کہنا تو خود تمہیں برا لگے گا۔"
رحیماً بوا تحت پر چمچے پٹخ کر بولیں۔۔۔ "اے میاں خدا تمہیں سلامت رکے۔ یہاں تو یہی جھر جھر ہے۔۔۔ لگی وہئی نگوڑی دم کے ساتھ۔۔۔ اور اس رحیماً بندی کو چین ہے نہ موت۔۔۔ دن ہے تو۔۔۔ ۔رات ہے تو۔۔۔ ۔ جھر جھر۔۔۔ جھر جھر۔۔۔ ۔ آج تم لیفٹیننٹ ہوئے کل میں لیفٹیننٹ ۔۔۔ کہہ تو چکی میاں۔۔۔ ۔ گھر کا گھر لیفٹیننٹ‘ سب ہی لیفٹیننٹ۔۔۔ اللہ کی شان یہ ٹانگ برابر چھوکرا میرے سر پر چڑھ کے موتے اور جو زبان کھولوں تو افٹنٹی۔۔۔ لیفٹیننٹی بیچ میں! اور دیکھ لو مزے سے اسے کے اپنے ڈنڈا ایسا پڑا ہے کہ گھوم رہا ہے۔۔۔ ۔ اور کرتا پھر رہا ہے۔۔۔ ۔ دھو !دھو!دھو!دھو!۔۔۔ ۔۔ اور یہاں وہ مثل کہ میری بلا کو سب لیفٹیننٹ۔۔۔ "
اور یہ کہتی رحیماً "اباؤٹ ٹرن" ہوا ہو گئیں۔۔۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا۔
"اے خلو آپا تم نے بھی نہ سمجھایا۔۔۔ "
 

مقدس

لائبریرین
438
"میرے دماغ میں خود بھس بھرا ہوا ہے۔" خلو آپا نے کہا،
"تم کھاؤ طاہری ٹھنڈی ہوتی ہے۔"
اور "باہمیں عورتاں یاید ساخت" کہتے ہوتے ڈاکٹر صاحب کھانا کھانے بیٹھے۔ خلو آپا بیٹھ گئیں۔ مزیدار کھانا۔۔۔ تھوڑی دیر کو لیفٹیننٹی بھو گئے، خلو آپا بولیں۔
"بھیا طاہری کیسی ہے۔۔"
"خوب ہی تو ہے گرا گرم۔۔"
گرما گرم کہا تھا کہ طوفان آگیا۔ آئیں ادھر سے چیختی رحیماً بوا اور دوسری طرف باہر سےاحمد کی آواز آئی۔
"اندھیر ہے کہ نہیں۔۔۔ ۔۔ میری کوئی شنوائی نہیں۔۔" کمرے میں رحیماً بوا نے داخل ہوتے ہوئے کہا۔۔۔ ۔"میں سر پٹ کے نکل جاؤں گی گھر سے۔"
"خیر تو ہے؟" خلو بی نے کہا۔
"کیا ہوا؟" ڈاکٹرصاحب بولے۔
اتنے میں کھڑکی کی طرف سے احمد بولا۔
"ہزار صلواتیں سنائی ہیں اور کہتی ہین کہ اب جو آپ کو لیفٹیننٹ کہا تو منہ توڑ دوں گی۔ منہ توڑ دوں گی۔۔۔ ۔"
"کوئی بات بھی ہو‘ منہ تور دیں گی۔۔۔ ۔"
رحیماً بوا بیچ میں بولیں۔
"لو اور سنو۔۔۔ سوپ تو سوپ چھلنی بھی بولے جس میں بہتر چھید۔۔۔ موا غلمٹا صاحب منع کر لو اس کو۔۔۔ ۔۔۔ "
"کیا واہیات ہے۔۔۔ ۔۔"
"مجھے یہ ڈھینگرے کا ڈھینگر بھی لگا چھیڑنے۔۔۔ "
"ارے کیوں چھیڑتے ہو۔۔۔ ۔ احمد۔۔۔ ۔۔"
"سرکار میں نے تو کچھ نہیں چھیڑا‘ ہم تو بس اتنے کے گنگار ہین کہ ان سے یہ پوچھا کہ رحیماً بوا لیفٹیننٹ صاحب کیا کر رہے ہیں‘ تو صاحب انہوں نے کہا کہ تیری میت کو پیٹ رہے ہیں اور اب کہتی ہیں کہ جو لیفٹیننٹ کہا تو جوتی سے منہ توڑ دوں گی۔۔"
"توڑ نہیں دوں گی۔۔۔ تو اور گھی شکر سے بھروں گی۔۔۔ سن لو میاں کان کھول کر میں تمہاری سن لوں گی۔۔۔ ۔ پر اس غلمٹے کو ماروں گی جوتی۔"
"رحیماً بوا یہ تم کو کیا ہو گیا۔۔۔ ایک تو خود نہین سمجھتیں اور دوسروں سے لڑتی ہو۔۔۔ ۔
 

مقدس

لائبریرین
439
بھئی ان کو سمجھاؤ۔۔۔ "
"مجھی کو سمجھا ڈالنا۔۔۔ ۔ ارے پیاروں پیٹی۔۔۔ تجھے موت بھی نہیں آتی۔۔۔ رحیماً اجڑی۔۔۔ ۔"
اور بوا بھناتی چلی گئیں کہتی۔۔۔ ۔
"خاک پڑے ایسے جینے پر۔۔۔ "
داکٹر صاحب نے احمد سے کہا
"تم بکنے دو اسے۔۔۔ "
احمد چلا گیا اور خلو بی نے کہا۔
"بھیا ایک بات کہوں۔۔"
"ہاں کہو۔"
"آئے ہوش جا رہے ہیں اس تمہاری لیفٹیننٹی سے تو۔۔۔ الہی لیفٹیننٹی نہ ہوئی موئی وہ ہو گئی۔۔۔ ۔"
"کیوں?"
"اے وہی مثل ہوئی تمہاری کہ کوئی تھے فتو۔۔۔ ایک دن بیوی کی چھاتی پر چڑھ کر بولے کہ کہو ہمیں فتح ڈریم خاں۔۔"
ڈاکٹر نے قہقہ لگایا اور ہنس کر پوچھا۔
"پھر؟" کیا کہا بیوی نے"
" اسے بیوی بےچاری کیا کہتی۔۔۔ ۔۔ بول بندا کس کا کہ تیرا۔۔۔ ۔ بیوی کا کیا ہے۔ پر دروازہ کسی نے فورا ہی آوز دی کہ "فتو" تو میں یہ بتاؤ کہ اور لوگ تم کو کیا کہیں گے۔"
"اور لوگ بھی لیفٹیننٹ کہیں گے۔۔۔ "
"اچھا مان کیا میں نے۔۔۔ پر کچھ تنخا و نخا۔۔۔ "
"تنخواہ تو کچھ بھی نہیں۔۔۔ "
"اے وئی" جیسے چونک کر بولیں "اسے کچھ بھی نہیں اور اس پر یہ ہلرا۔"
"دیکھتی بھی ہو عزت کتنی ہے۔۔ عہدہ کتنا برا ہے۔۔۔ ۔" "عزت کو کوئی چاٹے‘ پیسہ کوڑی مت دے پر نام دراوغہ دھر لے۔۔۔ ۔ وہ تمہاری مثل ہوئی۔"
"آپا تم اجنتی نہین ہو برا بھاری عہدہ ہوتا ہے۔"
"اے خالی نخولی!"
"یہی کیا کم ہے۔"
 

مقدس

لائبریرین
440

"ہو گا بھیا۔"
"واہ بھیا واہ۔۔۔ پوچھو کوئی تنخواہ۔۔۔ کہ نہیں۔۔۔۔ پوچھو کہ کوئی جو جاگیر۔۔۔ کہ نہیں۔۔۔۔ تو بھیا ہم عورتیں ہیں کوئی تنخواہ لاتے۔۔۔ کہ جاگیر ملتی۔۔۔ کہ گھر میں کوئی سوغات آتی اور پھر ہمیں خوشی نہ ہوتی تو بات۔۔۔ اور یوں شکایت کرنے کو تو کر لو۔۔۔"
"ایلو خوب یاد آیا۔۔۔۔ لو آج آتی ہے سو غات ابھی! دو سو روپیہ!"
ڈاکٹر۔ "نقد لو۔۔۔۔۔ مگر شرط یہ ہے تمہیں بھی ہمیں لیفٹیننٹ کہنا پڑے گا۔"
ڈاکٹرنی۔ "آں۔۔ ہاں میں تو ضرور کہوں گی۔۔۔" ذرا ہنس کر بولیں۔
خلو۔۔۔ "ہم کہں گے۔۔۔۔ ہم کہیں گے لیفٹیننٹ ایک چھوڑ دو دفعہ مگر ہماری یہی شرط ہے۔ یہ دو سو روپے آئیں گے تو حساب مت پوچھنا۔"
ڈاکٹر ۔"منظور۔۔۔ قطعی منظور"
"تو بس ہمیں بھی منظور۔۔۔تم ایک دفعہ نہیں سو دفعہ لیفٹیننٹ۔"
"اے کہاں سے آئیں گے۔۔" ڈاکٹرنی بولیں۔
"آج شام کو راگھو جی کی انگلی کا اپریشن انہیں کے گھر پر ہو گا۔۔۔" اے موئی اتنی سے انگلیا کے کوئی دو سو روپیہ دے دے گا۔ خلو آپا بولیں۔ "رئیس آدمی ہیں۔ ایک دو سو کیا نہ معلوم کتنا روپیہ خرچ ہو گا۔ صدر ہسپتال سے تمام بڑے آپریشن کا سامان اور کمپاوَنڈر اور بے ہوشی کا سامان اور میزیں آئیں گی۔ تم جانو رئیسوں کے ٹھاٹ ہیں جو۔"
"بے ہوش کرو گے۔" ڈاکٹرنی نے کہا۔
"نہیں جی کوکین لگا کے سن کر دوں گا۔ بات کا بتنگڑا نہ بنائیں تو یہ رئیس لوگ ہمارا علاج کاہے کو کریں۔ اپنے کمپاوَنڈر کو فیس علیحدہ ملے گی۔"
"تو پھر تم کب جاوَ گے۔"
"میں عین موقعے پر جاوَں گا وہاں سارا سامان تیار ہو جائے گا تو آدمی مجھے لینے آئے گا پہلے سے پہنچنے میں ڈاکٹر کی شان ہو جاتی ہے۔"
"روپے آج ہی مل جائیں گے۔"
"کہہ تو دیا نقد۔۔۔ نقد۔"
"لو بھیا لیفٹیننٹی مبارک ہو۔۔۔ مبارک اسے کہتے ہیں۔۔۔ کھا چکے کھانا۔۔ لاوَ کھانا بڑھاوَں' اسے بڑھیا کو تپ چڑھا ہے جیسے۔"
کھانے کے بعد ڈاکٹر صاحب پڑ رہے۔ بیگم اپنی طرف چلی گئیں۔ مگر ڈاکٹر کو چین کہاں۔
 

مقدس

لائبریرین
441

ایک مریض کے یہاں گئے جو باوجود کوشش کے غریب مر گیا۔ پرانا ملنے والا تھا۔ آکر پڑ رہے اور اسی انتظار میں شام ہو گئی کہ راگھو جی کے یہاں سے آپریشن لے لئے کوئی بلانے اب تک نہ آیا۔ اسی سوچ میں تھے کہ اٹھ کر صحن میں آئے بیوی پلنگ پر بیٹھی تھیں اور خلو آپا باورچی خانے میں تھیں' آتاے ہی بیوی کو مریض کی موت اطلاع دی۔
"رحمت خاں مر گئے بے چارے۔۔۔"
"اے ہے ! ۔۔۔ کب؟"
"وہیں تو گیا دوپہر کو۔۔۔۔۔ تین انجکشن دئیے مگر بےکار۔۔"
"اے ہے۔۔۔ دور سے چیخیں' دوڑتی آئیں۔۔ چچ چچ۔۔۔ کب۔۔۔ کیا ہوا تھا۔۔۔"
ہاتھ اٹھا کے ڈاکٹر صاحب کی طرف بتایا "کھڑے ہیں نا پوچھ لو۔۔۔ کہو لاکھ دفعہ کہا کہ تم رہنے دو۔۔۔ اس بےچارے کو رہنے دو۔۔۔ اس بےچارے کو رہنے دو۔۔۔ سوئی مت گھونپنا۔۔ گرم دوائیں مت دینا۔۔۔پردو تو نہیں۔۔۔ کیوں؟۔۔۔ میں نے جو کہا تھا۔۔۔ میری ضد۔۔۔"
"باوَلی ہو تم تو۔۔۔"
"اے مجھے بھی تو بتاوَ۔۔۔ کیا ہوا ایکا ایکی کیا ہو گیا نگوڑے کو۔۔"
"ہوتا کیا۔۔۔۔دل میں درد اٹھا تھا جب تک پہنچوں خاتمہ۔۔۔"
"اور کوئی دوا نہ دی"
"دی کیوں نہیں۔۔"
"کیا دیا ہو گا"
"انجکشن دیا۔۔۔"
"اے ہے" چونک کر خلو اوچھل سی پڑیں اور ڈاکٹرنی کے منہ سے نکلا "سوئی گھونپ دی۔۔۔۔"
خلو بولیں۔۔۔"دل میں۔۔"
"دل میں کیوں بھونکتا۔۔۔ خدا کی پناہ تم لوگوں سے۔۔"
"اے دل ہی میں تو درد اٹھا تھا۔۔۔ پھر کہیں اور دے دی۔"
"ہاتھ میں دی۔۔۔۔"
ڈاکٹرنی بولیں۔۔"اے ایلو۔۔ کہو آپا کیسی رہی۔۔۔ بےمروت مرا نگوڑا' نجو کے لڑنے کی سی ہوئی۔۔ نجو کے لڑکے کی سی۔۔۔"
"اے بھول گئے اتی جلدی' پیٹھ میں نگوڑے کے درد اٹھا اور تم نے دو سوئیاں ران میں
 

مقدس

لائبریرین
۴۴۲

گھونپ دیں۔ پیٹھ کا درد جیوں کا تیوں اور ران کا درد گھاٹے میں۔"
"اور میں ہاں ہاں کرتی رہ گئیں" خلو آپا بولیں۔
"تم کیا جانو۔۔ لاحول ولا قوۃ"
"ہم کیا جانیں؟ اے بھیا دل میں نگوڑے کے درد اٹھا اور ہاتھ میں سوئی دے دی وہ مضمون ہوا ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔۔۔۔اے پھر کسی راہ چلتے کو پکڑ کر گود دیا ہوتا۔ اے وای رے علاج۔۔۔۔"
ڈاکٹر۔ "تم جانتی نہیں ہو۔ ہاتھ میں انجکشن کیا' کہیں دو وہ خون میں مل کر فورا٘ پہنچ جاتا ہے۔"
"اے بہت پہنچا۔"
:رگوں میں ہو کر پہنچ جاتا ہے"
"اے بھیا ہم بےچارے کیا جانیں پر رگیں ہمارے بھی ہیں' سارے بدن میں پھیلی ہیں' تم نے سوئی سے دوا دی نہ معلوم کدھر پہنچی۔۔۔۔ کیا خبر پاوَں میں پہنچی۔۔۔۔۔"
ڈاکٹرنی۔۔ "اور دل نگوڑا دکھتا بےدوائی کے رہ گیا۔ مر گیا اکھیا تڑپ کے درد دل میں اور دوا پہنچی پاوَں میں۔"
ڈاکٹر۔ "پاوَں سے پھر وہی دل کی طرف آ جاتی ہے۔"
خلو۔۔۔" لو اور سنو یہ تو وہی ہوا کلو بھیا میرٹھ گئے باپڑ سے الٹے لوٹ پڑے۔۔ خون بھی موا دیوانہ ہے۔ اسے پیر کا خون پلٹ کے کلیجہ میں آگیا۔۔۔"
ڈاکٹرنی۔ "اے ہو گا مطلب یہ کہ بن موت گیا دکھیا۔"
خلو۔ بن موت' بن موت گیا۔۔ صاحب میرے بن موت!
ڈاکٹرنی۔ "کہو اس موقعہ پر نخلخہ سنگھا کے اور دو گھونٹ عرق بید مشک کے دیتے۔"
خلو۔۔"اے ہے نگوڑا جی جاتا۔"
ڈاکٹرنی۔ "یہ تیسرا مریض ہے۔۔۔۔ تیسرا ہے آپا جو اسی طرح گیا' کیسا کیسا کہا کہ نخلخہ اور بید مشک رکھو۔ اللہ بخشے حکیم چچا رکھتے ہی جو تھے۔۔۔"
ڈاکٹر۔ "واہ رہے حکیم چچا تمہارے۔"
ڈاکٹرنی۔ "اے وہ نخلخہ میں نے حکیم چچا کی بیاض سے بنوا کر رکھایا اور بید مشک ی شیشی بھی تو نکال کر پھکوا دی ہینڈ بیگ سے۔۔۔ کہو پڑی رہتی۔۔۔۔"
خلو۔ "تو آج کام آتی۔۔"
ڈاکٹرنی۔ "اور پھر کیسے کیسے کہا کہ اس دکھیا کو تو رہنے دو اس سے چار پیسے کی مستقل
 

مقدس

لائبریرین
۴۴۳

آمدنی ہے۔"
ڈاکٹر۔ "کیا رہنے دو۔"
ڈاکٹرنی۔ "اے صاحب گرم دوائین دیں بد پرہیزی کرائی۔"
ڈاکٹر۔ "تم کیا جانو دوائیں۔۔۔۔ کچھ بدپرہیزی نہیں کراِئی۔۔۔۔"
خلو۔۔۔"انڈا آگ۔"
ڈاکٹر۔ کیا جہالے ہے۔"
ڈاکٹرنی۔ " چوزے کی یخنی دی کہو ہاں۔"
خلو۔ "یخنی آگ۔"
ڈاکٹرنی۔ "اے بہن شرابیں دیں۔۔ دواوَں میں نگوڑے کو شراب۔"
خلو۔ "شراب آگ۔"
ڈاکٹرنی۔ "اے بہن ٹانک دئیے اسے،، اسے گرم گرم ٹانک۔۔۔"
خلو۔۔"ٹانک آگ۔۔۔۔۔آگ۔۔" ڈاکٹر۔ "کیا بکتی ہو۔۔"
ڈاکٹرنی۔ "غرض کیا کہوں نگوڑے کو جھلس کے رکھ دیا۔ وہ تو کہو اس طرف گرمیوں میں میں نے بچا لیا تھا۔۔ ترکیبوں سے۔۔"
ڈاکٹر۔ "آپ نے؟ ۔۔۔۔ آپ نے بچا لیا تھا۔۔ کیا کہنے ہیں ضرور۔۔؟
ڈاکٹرنی۔۔۔" اور خلو آپا تم تو میرٹح تھیں وہ چھوکرا آتا دوا لینے اور دوا لے کے سیدھا اندر ہی آتا' تو بہن میری اس میں ست گلو۔۔۔۔اسے بہن میری اس میں بن سلوچن۔۔۔اے بہن جائفل۔۔۔ ملا دیتی تب چھاتی کی گرمی دور کی۔۔"
ڈاکٹر۔ "ہائیں یہ کیا؟ یہ کیا غضب' تم نے یہ غضب کیا۔۔"
ڈاکٹرنی۔ "لو اور سنو غضب وہ تھا کہ سوئیاں گھونپ گھانپ خاتمہ۔۔۔ اور پھر لاکھ دفعہ کہا کہ ایسے مریض کو تو رہنے دو۔۔"
ڈاکٹر۔۔ "یہ کیا غضب ڈھایا تھا۔۔"
ڈاکٹرنی۔۔ تم تھوڑی دیکھتے ہو کچھ۔۔ اے بہن یہ نہیں دیکھتے کہ تیوہار پہ تو اور آئے گئے پہ تو۔۔۔۔یہ تو جب دیکھو بہن تحفے تحائف اور سال میں خدا جھوٹ نہ بلائے ڈیڑھ دو سو روپیہ فیس کے اسی رحمت خاں سے آتے۔۔ تو ایسے مریض کو سوئیاں نہ گھونپتے اچھا تھا۔۔"
ڈاکٹر۔۔"اس قسم کی حرکت میری ساتھ کی گئی ہے کہ حیرت ہوتی ہے اور مجھے ہر گز پسند نہیں۔۔"
ڈاکٹرنی۔۔"اور مجھے یہ پسند ہیں۔۔"
 

مقدس

لائبریرین
394

علاج کو کئی مہینے ہو گئے تھے اور اب درد سر کا تذکرہ تک نہ ہوتا تھا۔ مگر مالش روز ہوتی تھی۔ نہ وہ اس میں کچھ حیل و حجت کرتے اور نہ میں۔
مجھے اس دوران میں کچھ خاص آلات اور اوزار ڈاکٹری خریدنا تھے اور میں فہرست لیے دیکھ رہی تھی۔ میں نے جگہ جگہ نشانات لگا رکھے تھے مگر روپے پیسے کی وجہ سے منگا نہ سکتی تھی۔ ایک روز میں پھر اس فہرست کو دیکھ رہی تھی کہ مسٹر محسن آ گئے وہ بھی فہرست دیکھنے لگے ۔۔ میں ان کو مختلف اوزاروں کا اصول اور استعمال بتا رہی تھی۔ تذکرہ جو آیا تو مجھے بتانا پڑا کہ روپیہ نہ ہونے کی وجہ سے منگا نہیں سکتی۔ کہنے لگے "ہم سے قرض نہ لے لو۔ فیس میں کاٹتی رہنا۔"
میں نے غور سے دیکھا۔ مجھے ایک دم سے ہنسی آئی اور میں نے کہا۔ "مسٹر محسن آپ کی فیس نہ ہوئی ایک مصیبت ہو گئی۔ آپ کی ویسے ہی کیا کم عنایات ہیں۔ شکریہ صد شکریہ۔ مجھے قرضے کی ضرورت نہیں ہے۔ نہ معلوم کیسے کیسے تو میں آپ کا قرضہ ادا کر رہی ہوں۔"
پھر ادھر ادھر کی باتیں کر کے چلے گئے۔
مگرجناب کوئی پندرہ روز بعد محسن صاحب کا آدمی میری غیر موجودگی میں ایک پارسل میرے یہاں لایا اور بڑھئی سے کھلوا کر تمام اوزاروں کے بکس نکلوا کر سجانا شروع کر دیے، میں جو آئی تو دنگ رہ گئی۔ واقعہ جو معلوم ہوا تو میں سناٹے میں آگئی۔ ایک خط لکھا جس کا لہجہ شاید سخت تھا۔ میں نے اس میں لکھا کہ یہ میں ہر گز گوارا نہیں کرسکتی۔ چنانچہ میں نے سب واپس کروا دیے۔ دوسرے روز آئے تو ایک ڈبہ بغل میں دابے لائے۔ انہوں نے اپنی غلطی تسلیم کی اور کہا کہ اچھا یہ ڈبہ قرض لے کو۔ میں راضی ہو گئی ۔ اس طرح آہستہ آہستہ پورے ساڑھے تین ہزار کے اوزار ایک ایک ڈبہ کرکے مہینہ بھر میں ہی ان حضرت نے مجھے قرض دے دیئے۔
اس واقعہ کے کوئی پانچ مہینے بعد کا ذکر ہے۔ اس دوران مسٹر محسن برابر زیر علاج تھے۔ بات دراصل یہ تھی کہ بیماری کا نہ وہ ذکر کرتے اور نہ میں۔ نہ وہ کہتے کہ میں اب اچھا ہو گیا اور نہ میں کہتی کہ تم اچھے ہو گئے ہو۔ اب علاج مت کرو۔ کھانے کی دوائیں البتہ وہ چھوڑ چکے تھے۔ بس ان کا تو علاج یہ تھا کہ وہ آئے۔ اپنی پسندیدہ کرسی پر بیٹھ گئے اور میں آئی اور میں نے ان کے سر کی مالش کر دی۔ پھر بجائے صبح کے میں نے وقت بھی بدل دیا تھا۔ یعنی شام کا وقت رکھا تھا۔ اس کے بعد پھر اکثر ٹہلنے جاتے تھے۔ میں کہتی تھی کہ کس کدھر ملنسار اور سیدھا سادا شخص ہے۔ کوئی عیب نہیں اس میں سوائے اس کے بس داڑھی بڑھائے چلا جا رہا ہے۔ مالش میں مجھ کو یہ داڑھی سخت تکلیف دیتی تھی اور ایک آدھ دفعہ میں نے ایک آدھ ریمارک اس کے متعلق محتاط پیرائے میں کیا بھی تھا۔ مگر انہیں شاید داڑھی ضرورت سے زیادہ پسند تھی۔ اور یہ ان کا مشغلہ تھا کہ بیٹھے اس کو کریدتے رہیں۔
 

مقدس

لائبریرین
395

جیسا کہ میں نے عرض کیا کوئی پانچ چھ مہینہ بعد کا ذکر ہے کہ میں عجیب مخمصے میں پھنس گئی۔ جس مکان میں کرایہ پر رہتی تھی وہ فروخت ہو رہا تھا۔ ساڑھے سات ہزار روپیہ مانگتا تھا۔ میں چالیس روپیہ ماہوار کرایہ دیتی تھی اور ساڑھے سات ہزار میں کوڑیوں کے مول جا رہا تھا۔ مجھے امید تھی کہ سات ہزار میں قطعی اور فوراً مل جائے گا۔ میں دیر تک سوچتی رہی۔ نہ معلوم کدھر خیال گیا۔ اٹھی اور محسن صاحب کے حساب کا رجسٹر اٹھا لائی۔ میری آنکھیں کھلی رہ گئیں۔ یا اللہ میں اس سیدھے سادے شخص کا قرضہ کیسے ادا کروں گی۔ میں یہ سوچ رہی تھی ۔ قریب دو سو روپیہ ماہوار سے زائد کے میں یہ سلسلہ مالش اس شخص سے ٹھگ رہی تھی۔ مگر وہاں تو ہزاروں کی رقم تھی۔ وجہ یہ کہ میرے اخراجات بڑھ گئے تھے۔ میں اسی فکر میں تھی کہ اسکیم تیار کروں کہ دوا خانہ کی کل آمدنی قرضہ کی ادائی میں چلی جائے۔ چنانچہ میں نے اطمینان سے بیٹھ کر اسکیم تیار کر لی۔ مجھے اسکیم بنانے سے خوشی حاصل ہوئی' اطمینان سا ہو گیا۔
اس کے بعد پھر میں مکان کےمسئلے پر غور کرنے لگی۔ مجھے خیال آیا کہ ایسا اچھا سودا ہو رہا ہے۔ مسٹر محسن سے کہوں کہ وہ لے لیں۔ ان کا ہی فائدہ ہو جائے گا، چنانچہ شام کو محسن صاحب آئے تو میں نے تذکرہ کیا۔ انہوں نے میری طرف دیکھا۔ کہنے لگے کہ "تم کیوں نہیں خریدتیں۔"
میں کہہ چکی تھی اور میں نے پھر کہا۔ میرے پاس روپیہ ہوتا تو تم سے کیوں کہتی۔
وہ بولے۔ روپیہ ہم سے لے لو قرض۔
میں نے ہنس کر کہا۔ شکریہ۔ آپ کے مذاق میں سلیم کا شکریہ۔
مذاق نہیں۔ وہ سنجیدگی سے داڑھی کریتے ہوئے بولے۔ فیس میں کٹتا رہے گا۔
مجھے ہنسی آگئی۔ اور میں نے کہا۔ فیس نہ ہوئی ایک مصیبت ہوگئی۔ دنیا کے قرضے ہیں کہ اس میں وضع ہورہے ہیں۔
وہ بولے برسات آرہی ہے۔ مجھے بخار وخار بھی تو آخر آئے گا ہی۔ اس کی بھی تو فیس ہوگی۔
مجھے اور ہنسی آئی اور میں نے کہا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ یہ آپ کے درر سر کی اصلی وجہ شاید کچھ اور ہی ہے اور اس کا علاج بھی شاید دوسرا ہے۔
داڑھی کریدتے ہوئےبولے۔ تو وہ علاج کب کرو گی۔
میں نے کہا آپ فضول باتیں کرتے ہیں۔ موقع نکل گا اور ایسا مکان نہیں ملے گا۔
وہ بولے۔ تمہاری صلاح ہے تو لے لوں گا۔ تم بات پختہ کرلو۔ بلکہ پھر خرید ہی لو۔ صبح
 
Top