مقدس
لائبریرین
۱۴۸
(۳۰۴)
وہ آرام کرسی کی طرف چلی اور مسکر کر کہنے لگی۔"آپ اٹھ کے تو نہیں بھاگیں گے؟ رات کو آُ نے بہت کوشش کی ہے۔ مگر شکر ہے کہ آج آپ بہتر معلوم ہوتے ہیں۔"
میں نے شکریے کے لہجے میں کہا۔ خدا آپ کو اس ہمدردی کا نیک بدلہ دے۔ جو آپ نے میرے ساتھ کی ہے اور کر رہی ہیں۔"
میری نے میری طرف غور سے دیکھ کر کہا:
"جو آتا ہے ہمیں دعائیں دیتا ہے۔ آپ اب خاموش ہو جائیے۔"
مجھ کو واقعی کچھ تکان سی معلوم ہو رہی تھی اور میں دل ہی دل میں یہ کہہ کر خاموش ہو گیا کہ میں تجھے کوری دعائیں نہیں دوں گا۔ پانچ سو روپیہ بھی تیری ہمدردی کے صلہ دوں گا۔ میں نے دل میں پھر سوچا واقعی دنیا بھی کیا ہے۔ نقد کوئی نہیں دیتا اور صرف دعائیں دے کر اور زبانی جمع خرچ کر کے چلے جاتے ہیں۔
دوسرے روز طبعیت میں کچھ سکون تھا۔ مگر جوڑ جوڑ میں اور سارے بدن میں میٹھا میٹھا درد ہو رہا تھا۔ میری نے تھرمامیٹر لگا کر دیکھا اور کہا "شکر ہے کہ بخار آج آپ کو کم ہے۔"
میں نے کہا۔"کتنا ہے؟"
میری نے مسکر ا کر کہا۔ "مریض کو یہ باتیں بتائی نہیں جاتیں' ڈاکٹر صاحب کی سخت تاکید ہے۔| یہ کہہ کر اس نے سرہانے سے نقشے کی تختی لی اور اس پر اندراج کیا۔ اور پھر کہا۔ "آج آپ کی طبعیت بہت اچھی ہے۔"
میں نے کمزور آواز میں کہا۔"میں بدن کے درد کے مارے مرا جا رہا ہوں۔"
"کیا زور سے ہو رہا ہے؟" میری نے پوچھا۔
"زور سے نہیں ہو رہا بلکہ میٹھا میٹھا درد اس طرح ہو رہا ہے کہ بیان میں نہیں آ سکتا اور خاص کر ہاتھ پیروں میں۔" یہ سن کر وہ قریب آگئی اور میرا ہاتھ لے کر انگلیوں کی پوروں سے آہستہ آہستہ دبانا شروع کیا بلکہ سہلانا شروع کیا۔"اس طرح آپ کو آرام اور سکون ملے گا۔" اس نے آہستہ آہستہ انگلیوں کو اس طرح بازور اور ہاتھوں پر چلاتے ہوئے کہا جیسے کوئی ہار مونیم کو دھیرے دھیرے مگر ذرا دباوَ سے بجائے۔ اس لے بعد آہستہ آسہتہ سہلا کر مالش سی کرتی رہی اس کے بعد وہ اٹھ کر پائنتی کی طرف گئی اور میرے پیروں کو دبانا چاہا۔ میں نے فورا اپنا پیر گھسیٹ کیا اور کہا"نہیں نہیں سسٹر یہ نہیں ہو گا۔" پاوَں کھینچنے سے ا سکو وہاں بیٹھنے کی جگہ مل گئی اور اس نے بیٹھتے ہوئے کہا:
"آپ کے ساتھ کچھ مجھے خصوصیت نہیں ہے۔ مریض کی تکلیف ڈاکٹر اور نرسوں کے لیے باعث تکلیف ہے۔ مجھے اپنی تکلیف میں کمی محسوس ہو گی۔" یہ کہہ کر اس نے پاوَں آہستہ سے
(۳۰۴)
وہ آرام کرسی کی طرف چلی اور مسکر کر کہنے لگی۔"آپ اٹھ کے تو نہیں بھاگیں گے؟ رات کو آُ نے بہت کوشش کی ہے۔ مگر شکر ہے کہ آج آپ بہتر معلوم ہوتے ہیں۔"
میں نے شکریے کے لہجے میں کہا۔ خدا آپ کو اس ہمدردی کا نیک بدلہ دے۔ جو آپ نے میرے ساتھ کی ہے اور کر رہی ہیں۔"
میری نے میری طرف غور سے دیکھ کر کہا:
"جو آتا ہے ہمیں دعائیں دیتا ہے۔ آپ اب خاموش ہو جائیے۔"
مجھ کو واقعی کچھ تکان سی معلوم ہو رہی تھی اور میں دل ہی دل میں یہ کہہ کر خاموش ہو گیا کہ میں تجھے کوری دعائیں نہیں دوں گا۔ پانچ سو روپیہ بھی تیری ہمدردی کے صلہ دوں گا۔ میں نے دل میں پھر سوچا واقعی دنیا بھی کیا ہے۔ نقد کوئی نہیں دیتا اور صرف دعائیں دے کر اور زبانی جمع خرچ کر کے چلے جاتے ہیں۔
دوسرے روز طبعیت میں کچھ سکون تھا۔ مگر جوڑ جوڑ میں اور سارے بدن میں میٹھا میٹھا درد ہو رہا تھا۔ میری نے تھرمامیٹر لگا کر دیکھا اور کہا "شکر ہے کہ بخار آج آپ کو کم ہے۔"
میں نے کہا۔"کتنا ہے؟"
میری نے مسکر ا کر کہا۔ "مریض کو یہ باتیں بتائی نہیں جاتیں' ڈاکٹر صاحب کی سخت تاکید ہے۔| یہ کہہ کر اس نے سرہانے سے نقشے کی تختی لی اور اس پر اندراج کیا۔ اور پھر کہا۔ "آج آپ کی طبعیت بہت اچھی ہے۔"
میں نے کمزور آواز میں کہا۔"میں بدن کے درد کے مارے مرا جا رہا ہوں۔"
"کیا زور سے ہو رہا ہے؟" میری نے پوچھا۔
"زور سے نہیں ہو رہا بلکہ میٹھا میٹھا درد اس طرح ہو رہا ہے کہ بیان میں نہیں آ سکتا اور خاص کر ہاتھ پیروں میں۔" یہ سن کر وہ قریب آگئی اور میرا ہاتھ لے کر انگلیوں کی پوروں سے آہستہ آہستہ دبانا شروع کیا بلکہ سہلانا شروع کیا۔"اس طرح آپ کو آرام اور سکون ملے گا۔" اس نے آہستہ آہستہ انگلیوں کو اس طرح بازور اور ہاتھوں پر چلاتے ہوئے کہا جیسے کوئی ہار مونیم کو دھیرے دھیرے مگر ذرا دباوَ سے بجائے۔ اس لے بعد آہستہ آسہتہ سہلا کر مالش سی کرتی رہی اس کے بعد وہ اٹھ کر پائنتی کی طرف گئی اور میرے پیروں کو دبانا چاہا۔ میں نے فورا اپنا پیر گھسیٹ کیا اور کہا"نہیں نہیں سسٹر یہ نہیں ہو گا۔" پاوَں کھینچنے سے ا سکو وہاں بیٹھنے کی جگہ مل گئی اور اس نے بیٹھتے ہوئے کہا:
"آپ کے ساتھ کچھ مجھے خصوصیت نہیں ہے۔ مریض کی تکلیف ڈاکٹر اور نرسوں کے لیے باعث تکلیف ہے۔ مجھے اپنی تکلیف میں کمی محسوس ہو گی۔" یہ کہہ کر اس نے پاوَں آہستہ سے