عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

الف عین

لائبریرین
تمہاری غزلوں میں اوزان تو مکمل درست ہوتے ہیں، البتہ چستی اور روانی کی خاطر کچھ الفاظ کی نشست بدلی جا سکتی ہے۔
لیکن مفہوم کے اعتبار سے کوئی خاص مضمون بھی نظر نہیں آتا۔ عام سے اشعار محسوس ہوتے ہیں۔ شعر کا حسن خیال آرائی میں ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ اس طرح پچاس پچاس اشعار کی غزلیں دن میں دس بارہ کہی جا سکتی ہیں!!

کیوں وہ مری ہستی کا نشاں ڈھونڈ کے لائے
جس نے ہیں مرے جیسے کئی نقش مٹائے
// کہاں سے ڈھونڈ کے لائے،

ظالم نہ کہوں تجھ کو اگر پھر میں کہوں کیا ؟
عاشق پہ یوں محبوب کوئی ظلم نہ ڈھائے
÷÷پہلا مصرع یوں رواں ہو سکتا ہے
ظالم نہ کہوں تجھ کو اگر میں تو کہوں کیا ؟

مانا کہ ہے وحشت یہ مری عشق نہیں ہے
لیکن مری وحشت یہ مجھے تجھ سے ملائے
÷÷روانی کی خاطر
مانا کہ یہ وحشت ہے مری عشق نہیں ہے

بہتا مری آنکھوں سے لہو جس نے نہ دیکھا
خلوت میں مری مجھ سے کبھی ملنے وہ آئے
÷÷ شعر بے ربط محسوس ہوتا ہے۔ دونوں مصرعوں کی روانی درست کی جا سکتی ہے
جو بھی مری آنکھوں کا لہو دیکھنا چاہے
خلوت میں مری مجھ سے وہ ملنے کبھی آئے

ڈرتا ہوں نہ مٹ جائے کہیں حسرتِ دیدار
جتنا میں تلاشوں اُسے چھپتا ہی وہ جائے
۔۔درست

جاتا ہوں گدا بن کے میں دربار پہ اُس کے
دنیا کے خداوں نے جہاں سر تھے جھکائے
÷÷دربار پہ یا دربار "میں"

مر جاوں جو وعدے پہ ترے مجھ کو یقیں ہے
الفت مری تربت پہ تجھے کھینچ کے لائے
÷÷درست، روانی بہتر کی جا سکتی ہے

کب میں تھا طلبگارِ جہاں تُو نے جو مجھ کو
دنیا کے یہاں سب سے حسیں باغ دکھائے
÷÷دوسرا مصرع بدلنے کی ضرورت ہے، ’یہاں‘ زائد ہے

رہنے دو عظیم اُس سے گلہ کس لیے کرنا
تاثیر جو لہجے کی مرے زہر سی پائے
÷÷دوسرا مصرع روانی چاہتا ہے
مجموعی طور پر یہی کہ ایسی خاص غزل بھی نہیں کہ زیادہ محنت کی جائے۔
 

عظیم

محفلین
بہت بہت شکریہ استادِ محترم انشا اللہ ضرور محنت کرونگا
اصلاح نوازی کے لئے تہہِ دل سے آپ کا شکر گزار ہوں
اللہ آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے آمین
 

عظیم

محفلین
ڈھل چکی شام دل جلا جاتے
پھر رقیبوں کے ساتھ آ جاتے

ہو گئی تھی کوئی خطا ہم سے
جانے والے یہی بتا جاتے

ہم نہ کرتے کبھی گلہ تم سے
جاتے جاتے جو مسکرا جاتے

دیکھ لیتے جو اک نظرتم بھی
ہم تمہاری نظر کو بھا جاتے

عمرِ رفتہ کو بھول جاتے ہم
ساتھ پل کا جو تم نبھا جاتے

ہم عظیم اُن کی آج محفل سے
چل دیئے ہیں اُنہیں بتا جاتے
 
آخری تدوین:
ڈھل چکی شام دل جلا جاتے
پھر رقیبوں کے ساتھ آ جاتے

ہو گئی کونسی خطا ہم سے
جانے والے یہی بتا جاتے

آج کرتے نہ ہم گلہ تم سے
جاتے جاتے جو مسکرا جاتے

دیکھ لیتے جو اک نظر تم بھی
ہم بھی آنکھوں کو تیری بھا جاتے

عمرِ رفتہ کو موڑ لاتے ہم
ساتھ پل کا جو تم نبھا جاتے

آدمی آدمی کا دشمن ہے
دوست کر کے بھی کیوں وفا جاتے

میاں بہت خوبصورت غزل ہے بے شک۔ کچھ اشعار چست نہیں ہیں۔ معمولی سی تبدیلی چاہتے ہیں۔ مین نشاندہی کر دیتا ہوں۔ تبدیل کرنا شاعر کے ذمے پر چھوڑا۔

دوسرے شعر میں "کونسی" مناسب نہیں لگ رہا۔
تیسرے شعر میں تعقید ہے ہلکی پھلکی جو کہ رفع ہو سکتی ہے۔ "نہ" کی جگہ تبدیل کرنے سے۔
اگلے شعر میں شتر گربہ ہو رہا ہے۔ پہلے مصرع میں "تم" استعمال ہوا ہے تو اسکی مناسبت سے اگلے میں "تمہاری" آنا چاہیے "تیری" نہیں۔
پانچویں شعر میں "موڑ لانا" قابل تعریف نہیں۔
آخری شعر کے دوسرے مصرع میں پھر شدید تعقید ہے۔ الفاظ معنی کو یک راست پہنچانے سے قاصر ہیں۔

یہ ہماری آرا ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہم ابھی نوآموز ہیں اور شاعری تو درکنار شعرفہمی بھی ہمارے بس کی بات نہیں۔ سو اصلاح سمجھ کر ہرگز رنجیدہ نہ کیجیے گا۔
آداب
 

عظیم

محفلین
میاں بہت خوبصورت غزل ہے بے شک۔ کچھ اشعار چست نہیں ہیں۔ معمولی سی تبدیلی چاہتے ہیں۔ مین نشاندہی کر دیتا ہوں۔ تبدیل کرنا شاعر کے ذمے پر چھوڑا۔

دوسرے شعر میں "کونسی" مناسب نہیں لگ رہا۔
تیسرے شعر میں تعقید ہے ہلکی پھلکی جو کہ رفع ہو سکتی ہے۔ "نہ" کی جگہ تبدیل کرنے سے۔
اگلے شعر میں شتر گربہ ہو رہا ہے۔ پہلے مصرع میں "تم" استعمال ہوا ہے تو اسکی مناسبت سے اگلے میں "تمہاری" آنا چاہیے "تیری" نہیں۔
پانچویں شعر میں "موڑ لانا" قابل تعریف نہیں۔
آخری شعر کے دوسرے مصرع میں پھر شدید تعقید ہے۔ الفاظ معنی کو یک راست پہنچانے سے قاصر ہیں۔

یہ ہماری آرا ہیں۔ ظاہر ہے کہ ہم ابھی نوآموز ہیں اور شاعری تو درکنار شعرفہمی بھی ہمارے بس کی بات نہیں۔ سو اصلاح سمجھ کر ہرگز رنجیدہ نہ کیجیے گا۔
آداب

بہت بہت شکریہ میرے بھائی اللہ آپ کو ہمیشہ خوش رکھے
آمین
 

الف عین

لائبریرین

@عظیم شہزاد، تم کو اصل مراسلے میں تدوین نہیں کرنی تھی، بلکہ اس کی اصلاح شدہ شکل ایک الگ مراسلے میں پوسٹ کرنی تھی۔ب میرے لئے محض دو اصلاحیں بچی ہیں۔
ہو گئی تھی کوئی خطا ہم سے
سوالیہ ہو تو بہتر ہے
کیا ہوئی تھی کوئی خطا ہم سے؟

ہم عظیم اُن کی آج محفل سے
بہتر ہو جو یوں ہو
آج ہم ان کی بزم سے جو عظیم
 

عظیم

محفلین
@عظیم شہزاد، تم کو اصل مراسلے میں تدوین نہیں کرنی تھی، بلکہ اس کی اصلاح شدہ شکل ایک الگ مراسلے میں پوسٹ کرنی تھی۔ب میرے لئے محض دو اصلاحیں بچی ہیں۔
ہو گئی تھی کوئی خطا ہم سے
سوالیہ ہو تو بہتر ہے
کیا ہوئی تھی کوئی خطا ہم سے؟

ہم عظیم اُن کی آج محفل سے
بہتر ہو جو یوں ہو
آج ہم ان کی بزم سے جو عظیم

معافی چاہتا ہوں استادِ محترم آئندہ خیال رہے گا انشا اللہ
جی بہتر ہے
دعائیں
 

عظیم

محفلین
دَرِ یار پر سر جھکانے کو آئے
ہم اپنا مقدر بنانے کو آئے

اِدھر بھی نگاہِ کرم ہو خدایا
کہ محبوب تیرا منانے کو آئے

خوشی کی تمنا تھی قربت میں جن کی
ہمیں آج ہیں وہ رُلانے کو آئے

عذابِ الہی سے کم تو نہیں وہ
سزا عشق کی جو سنانے کو آئے

تمہیں ہوں مبارک زمانے کی خوشیاں
تھے ہم تو فقط غم اُٹھانے کو آئے

اگر اُن کو ڈر تھا کہ ہم رو پڑیں گے
تو پھر کیوں ہمیں وہ ہنسانے کو آئے


کوئی کہہ دے ساقی سے گر مے نہیں تو
ہمیں وہ نظر سے پلانے کو آئے

چلے جا رہے ہیں وہ برباد کر کے
جو گھر تھے ہمارا بسانے کو آئے

ہمیں خوفِ ترکِ تعلق نہیں ہے
وہ آئے بھلے چھوڑ جانے کو آئے

عروج اُن کی قسمت میں لکھا ہے شاید
جو ہم کو نظر سے گرانے کو آئے

خبر کیا ہمیں غم سے رشتہ ہے کیسا
ہمارا جسے ہم نبھانے کو آئے

عظیم اُن سے کہنا کہ ہرگز نہیں ہم
یہاں نام و عزت کمانے کو آئے
 
آخری تدوین:
دَرِ یار پر سر جھکانے کو آئے
ہم اپنا مقدر بنانے کو آئے

اِدھر بھی نگاہِ کرم ہو خدایا
کہ محبوب تیرا منانے کو آئے

خوشی کی تمنا تھی قربت میں جن کی
ہمیں آج ہیں وہ رُلانے کو آئے

عذابِ الہی سے کم تو نہیں وہ
سزا عشق کی جو سنانے کو آئے

تمہیں ہوں مبارک زمانے کی خوشیاں
تھے ہم تو فقط غم اُٹھانے کو آئے

اگر اُن کو ڈر تھا کہ ہم رو پڑیں گے
تو پھر کیوں ہمیں وہ ہنسانے کو آئے


کوئی کہہ دے ساقی سے گر مے نہیں تو
ہمیں وہ نظر سے پلانے کو آئے

چلے جا رہے ہیں وہ برباد کر کے
جو گھر تھے ہمارا بسانے کو آئے

ہمیں خوفِ ترکِ تعلق نہیں ہے
وہ آئے بھلے چھوڑ جانے کو آئے

عروج اُن کی قسمت میں لکھا ہے شاید
جو ہم کو نظر سے گرانے کو آئے

خبر کیا ہمیں غم سے رشتہ ہے کیسا
ہمارا جسے ہم نبھانے کو آئے

عظیم اُن سے کہنا کہ ہرگز نہیں ہم
یہاں نام و عزت کمانے کو آئے


ایک عمدہ کوشش ہے۔
ڈھیروں داد۔ :)
 

الف عین

لائبریرین
یہ پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ فنی اعتبار سے کوئی نقص شاید ہی ملے تمہارے کلام میں۔ لیکن وہی میر کی بات یاد آتی ہے کہ خامی بھی کوئی نہیں، اور خوبی بھی کوئی نہیں۔ میں حوصلہ پست کرنے کی کوشش نہیں کر رہا ہوں۔ کچھ اشعار خوب بھی ہیں۔ لیکن زیادہ تر محض ردیف قوافی فٹ کرنے کی کوشش ہے۔ خود غور کیا کریں کہ کس شعر میں کوئی نئی بات کی گئی ہے، اسے رکھا کریں اور باقی اشعار القط کر دیا کریں۔ میرے دوست مصحف اقبال توصیفی ایک ایک خیال کو بیس بیس طریقے سے مختلف الفاظ میں اشعار میں ڈھالتے ہیں، اور پھر مشورہ طلب کرتے ہیں کہ کون سی صورت بہتر ہے۔
جن اشعار میں لگے کہ کوئی بات واقعی بن گئی ہے، ان کے الفاظ تبدیل کر کے مختلف شکلوں میں دیکھیں۔ امید ہے کہ کوئی شکل ضرور ایسی بنے گی جو خود تم کو بھی پسند آئےگی۔ محض بحر و اوزان مکمل ہو جانے پر مطمئن ہو کرنہ بیٹھ جایا کریں۔
 

الف عین

لائبریرین
مثلاً اس شعر کو دیکھو۔
اِدھر بھی نگاہِ کرم ہو خدایا
کہ محبوب تیرا منانے کو آئے
خطاب کس سے ہے؟ خدا سے یا محبوب سے، یا کسی اور عاشق سے؟ بات سمجھ میں نہیں آتی، ’تیرا‘ لفظ کلیدی ہے شاید۔ لیکن مطلب کیا نکلتا ہے؟ پہلا مصرع دعائیہ بھی لگتا ہے۔
 

عظیم

محفلین
گھِری ہے آفتوں میں زندگانی
ہمیں پل پل ہے شاید موت آنی

عجب دل کو لگا ہے آج دھڑکا
ستم گر نے ہے کردی مہربانی

ستارے بھر گئے اُس کی نظر میں
کہ جس نے راستوں کی خاک چھانی

دلِ مفلس نے پوچھا ایک شہ سے
تمہارے ساتھ کیا کیا شے ہے جانی

متاعِ جاں فقط ہیں چند آنسو
خریداروں نے بولی کیوں لگانی

وہ فتنہ جو ترے دل میں ہے برپا
اُسے کہہ دے گی تیری بد زبانی

جلے ہم آج اُن کی محفلوں میں
جنہیں آتی نہ تھی شمع جلانی

بہارو آؤ گلشن میں ہمارے
کہ اب برسے نہ آتش آسمانی

سنو صاحب ! ہمارے دل جگر میں
ازل سے بس رہی تھی جاں فشانی

کہاجو درد سے ہم نے تمہارا
کرے گا درد اُس کی ترجمانی

کِیا اس عشق نے رسوا ہمیں یوں
ہے جیسے خوار جگ میں بدگمانی

عروج اُس میں نہیں مطلوب ہم کو
کہ جس دنیا میں ہر اک شے ہے فانی

عظیم اپنی تو قسمت میں لکھا تھا
کہ رو رو کر ہی گزرے گی جوانی



 
آخری تدوین:
گھِری ہے آفتوں میں زندگانی
ہمیں پل پل ہے شاید موت آنی

پل پل موت آنا کچھ درست معلوم نہیں ہوتا!

عجب دل کو لگا ہے آج دھڑکا
ستم گر نے ہے کردی مہربانی

دوسرے مصرع میں تعقید لفظی معلوم ہوتی ہے۔ پہلا مصرع بھی اس طرح روان ہو سکتا ہے:
عجب دھجکا لگا ہے آج دل کو
ستم گر کر رہا ہے مہربانی (یا) ستم گر اور اس سے مہربانی!

ستارے بھر گئے اُس کی نظر میں
کہ جس نے راستوں کی خاک چھانی

مفہوم واضح نہیں۔ شاید میری ناسمجھی اس کی وجہ ہو!

دلِ مفلس نے پوچھا ایک شہ سے
تمہارے ساتھ کیا کیا شے ہے جانی

دل کو کسی سے بدل دیجیے تو زیادہ بہتر ہے۔ ایک شہ کو بھی بدلنے کی ضرورت ہے۔ شے ہے جانی میں تعقید لفظی ہے۔

متاعِ جاں فقط ہیں چند آنسو
خریداروں نے بولی کیوں لگانی

دوسرا مصرع چنداں رواں نہیں۔

وہ فتنہ جو ترے دل میں ہے برپا
اُسے کہہ دے گی تیری بد زبانی

پہلا مصرع توجہ طلب ہے۔ وہ اور جو دونوں ایک ہی جگہ رواں نہیں۔ محض جو استعمال کر کے بھی مطلب پہنچایا جا سکتا ہے جیسے: جو فتنہ ہے ترے سینے میں برپا۔

جلے ہم آج اُن کی محفلوں میں
جنہیں آتی نہ تھی شمع جلانی

شمعیں کر لیجیے شمع کو۔ تلفظ مفلوج ہو گیا ہے۔

بہارو آؤ گلشن میں ہمارے
کہ اب برسے نہ آتش آسمانی

آتش آسمانی؟ اور آتش کا بہار سے ربط؟

سنو صاحب ! ہمارے دل جگر میں
ازل سے بس رہی تھی جاں فشانی

کوئی خاص مضمون سامنے نہیں آ رہا۔

کہاجو درد سے ہم نے تمہارا
کرے گا درد اُس کی ترجمانی

سمجھ نہ سکا۔

کِیا اس عشق نے رسوا ہمیں یوں
ہے جیسے خوار جگ میں بدگمانی

زبردستی قافیہ باندھا گیا ہے۔ و الا بدگمانی سے زیادہ رسوا بھی کئی چیزیں ہیں جگ میں۔

عروج اُس میں نہیں مطلوب ہم کو
کہ جس دنیا میں ہر اک شے ہے فانی

درست۔

عظیم اپنی تو قسمت میں لکھا تھا
کہ رو رو کر ہی گزرے گی جوانی

اچھا شعر ہے۔ دوسرے مصرع میں "کہ" بھرتی کا لگ رہا ہے!

بہت خوب غزل ہے جناب۔ کچھ نکات کی نشاندہی کی ہے۔ البتہ ہماری رائے حرف آخر نہیں۔ اساتذہ بہتر روشنی ڈالیں گے! آداب۔
 

الف عین

لائبریرین
تکنیکی طور پر تو صرگ ’شمع‘ کے تلفظ کی غلطی ہے۔ ویسے روانی کی کمی کئی جگہ محسوس ہو رہی ہے۔ ۔اگر مہدی کے مشوروں کے مطابق خود ہی کچھ تبدیلیاں کر دو تو میں بھی تدصیل سے دیکھتا ہوں
 

عظیم

محفلین
جو مشق نا کامیاب ٹھہرے اُس کو دوبارہ وقت نہیں دے پاتا
اس لئے معذرت خواں ہوں کہ میں آپ کے حکم کی تکمیل نہ کر پایا
دعائیں
 

عظیم

محفلین
جب سے آیا ہوں قید خانے میں
محو رہتا ہوں دن بتانے میں

اُس ستم گر سے کوئی پوچھے تو
راز کیا ہے مرے ستانے میں

ظلم حد سے گزربھی جانے دے
کچھ مزاہ ہو لہو بہانے میں

تنکا تنکا بکھیرنے والے
عمر لگتی ہے گھر بسانے میں

دفن دنیا نے مجھ کو کر ڈالا
وقت لیکن تھا موت آنے میں

بے مروت ہو بے وفا تم ہو
تم سا دیکھا نہ اِس زمانے میں

لب پہ میرے جو سرد نالے ہیں
گونج اُٹھیں گے ہر ترانے میں

کون ہجراں میں جاں سے جاتا ہے
وصل درکار جاں سے جانے میں

کیا رقیبوں کی چال پنہاں تھی ؟
میرے دلبر نہ تیرے آنے میں


ڈھونڈتا ہوں میں داستانِ غم
اب خوشی کے ہر اک فسانے میں

شان محلوں کی وہ بھُلا دیں گے
آکے میرے غریب خانے میں

بعد میرے عظیم آئیں گے
میرے اُجڑے وہ آستانے میں
 
آخری تدوین:
Top