بہت اچھے جناب..اس نا چیز کی طرف سے داد قبول کریں..اساتذه اصلاح كریں گے محمد یعقوب آسی صاحب اور دوسرے اساتذه كو بهی ٹیگ کیا کریں
یہاں ’’مرے‘‘ کو ’’مجھے‘‘ میں بدل کر دیکھئے۔اُس ستم گر سے کوئی پوچھے تو
راز کیا ہے مرے ستانے میں
بات سمجھ میں آ رہی ہے لیکن لفظیات کی سطح وہ نہیں جو ہونی چاہئے۔دفن دنیا نے مجھ کو کر ڈالا
وقت لیکن تھا موت آنے میں
’”داستانِ الم‘‘ کی صوتیت شاید بہتر رہے گی۔ڈھونڈتا ہوں میں داستانِ غم
اب خوشی کے ہر اک فسانے میں
’’وہ‘‘ بہت دور چلا گیا، اس کو تعقیدِ لفظی کہتے ہیں۔بعد میرے عظیم آئیں گے
میرے اُجڑے وہ آستانے میں
اس کو نکھاریئے عظیم شہزاد صاحب! آپ میں بہت صلاحیت ہے اور فکری پختگی بھی جھلک رہی ہے۔ اوزان کے معاملے میں بھی آپ کامیاب دکھائی دے رہے ہیں، تاہم دیگر فنی حوالوں سے مزید توجہ دینی ہو گی۔ چند ایک سامنے سامنے کی باتیں دیکھ لیجئے:
یہاں ’’مرے‘‘ کو ’’مجھے‘‘ میں بدل کر دیکھئے۔
بات سمجھ میں آ رہی ہے لیکن لفظیات کی سطح وہ نہیں جو ہونی چاہئے۔
’”داستانِ الم‘‘ کی صوتیت شاید بہتر رہے گی۔
’’وہ‘‘ بہت دور چلا گیا، اس کو تعقیدِ لفظی کہتے ہیں۔
جناب الف عین بہتر راہنمائی کر سکتے ہیں۔ مزید بات چیت پھر سہی۔
دفن دنیا نے کر دیا لیکن
وقت باقی تھا موت آنے میں
اس کو یوں کہیں تو بہتر ہو
کر دیا مجھ کو دفن دنیا نے
ابھی مدت تھی موت آنے میں
اور
کون ہجراں میں جاں سے جاتا ہے
وصل درکار جاں سے جانے میں
۔۔درکار کے ساتھ ’ہے‘ کی ضرورت ہے ورنہ بات مکمل نہیں لگتی
چاہے وصل
بہتر ہو شاید
کیا رقیبوں کی چال پنہاں تھی ؟
میرے دلبر نہ تیرے آنے میں
۔یہ دلبر بھرتی کا ہے، اس کی جگہ کچھ اور کہیں۔
علی خاں کا مشورہ بھی درست ہے۔
باقی اشعار مجھے درست محسوس ہو رہے ہیں فی الحال
رسوا پھرے دنیا میں پرستار تمہارا
قابل ہے اِسی کے یہ خطا وار تمہارا
÷÷درست
پائے گا رہائی تو گیا جان سےسمجھو
زندہ ہے اسیری میں گرفتار تمہارا
بہت خوب، پہلے مصرع کا صیغہ بدل دیں
مل جائے رہائی ۔۔۔ یا ’آزاد ہوا جب تو گیا۔۔۔‘ کیا جا سکتا ہے
عاشق کو نہیں زیب یہ دیتا ،کرے شکوہ
منگتا نہیں دنیا کا طلب گار تمہارا
÷÷یہ ’منگتا‘ لفظ پہلے تو میں غلط ہی سمجھتا تھا، پھر پتہ چلا کہ یہ لفظ احمد رضا بریلوی صاحب نے بہت برتا ہے۔ بہر حال یہ کوئی سند نہیں۔ پہلا مصرع بھی چست نہیں۔
عاشق کو نہیں زیب کہ کرتا پھرے شکوہ
بہتر ہوگا شاید
ہائے رے غلامی میں ہے اغیار کی لیکن
بدلے نہ بیاں سے یہ طرف دار تمہارا
÷÷واضح نہیں، ’ہائے رے‘ جیسے زوائد کی جگہ کچھ اور لایا جائے کہ شعر واضح بھی ہو جائے۔
واعظ تری باتوں سے تو لگتا ہے کہ شاید
مجھ سے کہیں ابتر ہوا کردار تمہارا
÷÷درست
قربان ترے ناز پہ انداز پہ واری
جاوں جو ہو انکار بھی اقرار تمہارا
÷÷جاؤں کا محل؟ کیا پہلے مصرع میں واری سے تعلق ہے؟ ناز کے بعد کاما لگا کر پہلا مصرع مکمل ہو جاتا ہے۔
کہنا وہ سخن ساز تھا جھوٹا سرِ محشر
جس نے کِیا رہنا یہاں دشوار تمہارا
۔۔شعر واضح نہیں۔ اس کی بھی روانی بہتر ی جا سکتی ہے۔
تم مجھ سے عظیم اُس کی سفارش پہ تلے ہو
جو مجھ سے زیادہ ہے گنہگار تمہارا
÷÷درست