محترمی جناب الف عین صاحب کا ارشاد توجہ طلب ہے کہ ردیف اور قوافی غزل کی فضا بنانے میں اور مضامین کی حدود کے تعین میں بہت اہم ہوتے ہیں۔ مجھے کمی ایک اور حوالے سے محسوس ہو رہی ہے۔ کہ فاضل شاعر ( عظیم شہزاد ) اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے بھرپور کام نہیں لے رہے۔ قافیہ بہت کھلا ہے اور اس میں متنوع مضامین لائے جا سکتے ہیں۔ غزل کے محاسن و معائب پر دیگر احباب بھی گفتگو کریں گے، اگرچہ جناب الف عین کے بعد کچھ کہنے کو کم ہی بچا کرتا ہے۔
مصرعے کی لمبائی بھی (جسے عرفِ عام میں ہم چھوٹی بحر یا بڑی بحر کہہ دیتے ہیں) آپ پر کچھ پابندیاں لگاتی ہے، ایک مضمون ایسا ہے کہ آپ کو زیادہ الفاظ چاہئیں، آپ کے پاس بحر چھوٹی ہے، وہاں مشکل ہو جاتی ہے۔ ایسے میں آپ دو شعروں میں بھی ایک مضمون بیان کر سکتے ہیں (یعنی غزل کے اندر قطعہ)۔ مضمون مختصر الفاظ کا متقاضی ہے اور آپ کے پاس بحر لمبی ہے تو آپ کو بھرتی کے الفاظ لانے پڑتے ہیں جس سے شعر کی گیرائی متأثر ہوتی ہے۔
ایسے میں آپ یہ بھی کر سکتے ہیں کہ بسیط مضامین اور مختصر مضامین کو الگ الگ نظم کر لیں، ایک کی بجائے دو، تین غزلیں چل پڑیں، سب میں شعر کہتے چلے جائیں، بعد میں قطع و برید کر کے غزلوں کو مکمل کر لیجئے۔ اور ہاں میں نے شعر گوئی کے لئے کبھی خود پر جبر نہیں کیا۔ تنہا فن کاری کی بنا پر آپ اچھا شعر کہہ بھی سکتے ہیں، تاہم وہ جو دل سے نکلی ہوئی بات ہوتی ہے اس کی کمی بہرحال محسوس ہوا کرتی ہے۔ لفظی بازی گری اور صنائع کی اہمیت بجا تاہم اصل چیز وہ بات، وہ مضمون، وہ پیغام، وہ محسوسات ہیں جس میں آپ اپنے قاری یا سامع کو شریک کر رہے ہیں، اور بنیادی اہمیت بھی اسی کی ہے (لفظ خیال کے تابع ہونا چاہئے نہ کہ خیال لفظ کے تابع)۔
خوش رہئے، اور اس فقیر کو دعا دیجئے۔
محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب
میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں آپ کا شکریہ ادا کر سکوں
آپ کا احسان ہے مجھ پر جو آپ نے میری اس ادنا سی کاوش پر اپنی مفصل رائے کا اظہار کیا
آپ کی بتائی ہوئی تمام باتیں مستقبل میں میرے لیئے بہت مفید ثابت ہونگی
اللہ سبحان و تعالی آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے اور آپ کو ہمیشہ اپنی رحمتوں کی پناہ میں رکھے
آمین