عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
محترمی جناب الف عین صاحب کا ارشاد توجہ طلب ہے کہ ردیف اور قوافی غزل کی فضا بنانے میں اور مضامین کی حدود کے تعین میں بہت اہم ہوتے ہیں۔ مجھے کمی ایک اور حوالے سے محسوس ہو رہی ہے۔ کہ فاضل شاعر ( عظیم شہزاد ) اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے بھرپور کام نہیں لے رہے۔ قافیہ بہت کھلا ہے اور اس میں متنوع مضامین لائے جا سکتے ہیں۔ غزل کے محاسن و معائب پر دیگر احباب بھی گفتگو کریں گے، اگرچہ جناب الف عین کے بعد کچھ کہنے کو کم ہی بچا کرتا ہے۔

مصرعے کی لمبائی بھی (جسے عرفِ عام میں ہم چھوٹی بحر یا بڑی بحر کہہ دیتے ہیں) آپ پر کچھ پابندیاں لگاتی ہے، ایک مضمون ایسا ہے کہ آپ کو زیادہ الفاظ چاہئیں، آپ کے پاس بحر چھوٹی ہے، وہاں مشکل ہو جاتی ہے۔ ایسے میں آپ دو شعروں میں بھی ایک مضمون بیان کر سکتے ہیں (یعنی غزل کے اندر قطعہ)۔ مضمون مختصر الفاظ کا متقاضی ہے اور آپ کے پاس بحر لمبی ہے تو آپ کو بھرتی کے الفاظ لانے پڑتے ہیں جس سے شعر کی گیرائی متأثر ہوتی ہے۔

ایسے میں آپ یہ بھی کر سکتے ہیں کہ بسیط مضامین اور مختصر مضامین کو الگ الگ نظم کر لیں، ایک کی بجائے دو، تین غزلیں چل پڑیں، سب میں شعر کہتے چلے جائیں، بعد میں قطع و برید کر کے غزلوں کو مکمل کر لیجئے۔ اور ہاں میں نے شعر گوئی کے لئے کبھی خود پر جبر نہیں کیا۔ تنہا فن کاری کی بنا پر آپ اچھا شعر کہہ بھی سکتے ہیں، تاہم وہ جو دل سے نکلی ہوئی بات ہوتی ہے اس کی کمی بہرحال محسوس ہوا کرتی ہے۔ لفظی بازی گری اور صنائع کی اہمیت بجا تاہم اصل چیز وہ بات، وہ مضمون، وہ پیغام، وہ محسوسات ہیں جس میں آپ اپنے قاری یا سامع کو شریک کر رہے ہیں، اور بنیادی اہمیت بھی اسی کی ہے (لفظ خیال کے تابع ہونا چاہئے نہ کہ خیال لفظ کے تابع)۔

خوش رہئے، اور اس فقیر کو دعا دیجئے۔


محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب
میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں آپ کا شکریہ ادا کر سکوں
آپ کا احسان ہے مجھ پر جو آپ نے میری اس ادنا سی کاوش پر اپنی مفصل رائے کا اظہار کیا
آپ کی بتائی ہوئی تمام باتیں مستقبل میں میرے لیئے بہت مفید ثابت ہونگی
اللہ سبحان و تعالی آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے اور آپ کو ہمیشہ اپنی رحمتوں کی پناہ میں رکھے
آمین
 

عظیم

محفلین
بڑے استاد جی الف عین کی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ جناب عظیم شہزاد صاحب گو کہ میری طرح بہت زبردست موزوں طبع انسان ہیں۔ مگر الفاظ و تراکیب، نشست و برخواست، فصاحت اور بلاغت میں قواعد کو کافی اوپر نیچے یا آگے پیچھے کر گئے ہیں۔ چلیں پوری غزل پر اپنی رائے لکھ دیتا ہوں۔ امید ہے کہ اساتذہ اور خود شاعر ہماری جسارت کو ناگوار نہیں محسوس فرمائیں گے۔

جب تک کہ اُس کے نام کا غلبہ زمانے پر نہ ہو
تب تک خدا سے عہد کر کافر کا اُونچا سر نہ ہو
//کس کے نام کا غلبہ ؟ اور خدا سے عہد ”کرنا“ سے مراد؟ یہاں عہد لینا تو کسی حد تک درست ہوتا لیکن اس صورت میں تو بالکل درست نہیں ہے۔ ترتیب بھی مجروح ہے۔ ”کافر کا انچا سر ہونا“ یا ”کافر کا سر اونچا ہونا“؟ پھر شعر مبہم ہے، کچھ وضاحت ہو تو مزید کہوں۔

ممکن ہے میری زندگی میں آ ہی جائے وہ گھڑی
جس پل کو میرے واسطے اُس کا بھی کھلتا در نہ ہو
//اتنے آسان الفاظ بھی ابلاغ سے خالی ہیں۔ غالباً یہ مالک الملک کے بارے میں کہا گیا ہے کہ میری زندگی میں وہ گھڑی آنا بھی ممکن ہے جس گھڑی میرے مالک کا در بھی میرے لئے بند ہوجائے۔ یا اگر غیر حقیقی شعر ہے تو اس شعر کے وجود سے عدم ہی بہتر تھا۔ عموماً مجازی اشعار کے لئے یہ مضمون باندھا نہیں جاتا۔ وضاحت مطلوب ہے۔

اب سوچتا ہوں کیا مرے لفظوں میں کوئی ہے کمی
محبوب تک لے جائے خط راضی ہی نامہ بر نہ ہو
// پہلی ہی قرات میں لفظ ”ناما بر“ بہت چبھا ہے۔ بہر حال۔ کچھ بہتر صوت یہ تھی:
شاید مرے الفاظ میں کچھ عیب ہے جو خط مرا
محبوب تک لے جانے کو راضی ہی نامہ بر نہ ہو۔
جب کہ اور بہتری بھی ممکن ہے۔ البتہ مضمون کوئی خاص نہیں۔

خود سے میں اپنے آپ میں ملتا رہا برسوں مگر
لیکن نجانے کیوں مرا کم خود سے ملتے ڈر نہ ہو
//شعر کوئی ایسا نہیں کہ جس کی درستی کے لئے محنت کی جائے۔ لیکن مشق کے لئے الفاظ اور گرائمر کو درست کرنا اور توجہ کرنا بہر حال ضروری ہے۔ بڑے استاد جی کی بات پر ایک مزید اضافے کی جرات کر رہا ہوں: پہلے مصرعے کے آخر میں لفظ ”مگرۙ“ موجود ہے، پھر بھی دوسرا مصرع ”لیکن“ سے شروع ہورہا ہے، ایسا کیوں؟

منظر نگاری آہ کیوں جاتی ہے میری رائیگاں
جس کو بناوں لفظ میں ناقص وہی منظر نہ ہو
//دونوں مصرعوں میں آپس میں ہی اختلاف ہے۔ جب آپ کو شکایت یہ ہے کہ میری منظر نگاری ضائع جاتی ہے پھر اگلے مصرعے میں اس دعوے کی نفی ”ناقص وہی منظر نہ ہو“ یہ وہی تاکید کا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس منظر کو آپ لفظ بناتے ہیں وہ ناقص نہیں ہوتا، پھر پہلے مصرعے کے مطابق آپ کی منظر نگاری کیوں رائیگاں جاتی ہے؟ دوسرے مصرعے کو مزید وضاحت کے ساتھ کہیں۔

کہنا عظیم اُس معتبر سے تُم نے سوچاہے کبھی
عزت یہی ذلت تمہاری واں سرِ محشر نہ ہو
//اس معتبر۔۔۔ ۔؟ معتبر خالص اسمِ صفت ہے جو اپنے ساتھ ایک اسم چاہتا ہے۔ پھر یہاں اس لفظ کا محل بھی میرے کوڑھ مغز میں نہیں سما رہا۔ شاید اس معتبر سے آپ کی مراد اطمینان یا مطمئن شخص سے ہے، جس کو سرِ محشر پیش ہونے کا خوف نہیں۔
دوسرا مصرع پھر تعقیدِ لفظی کا شکار ہے۔

شاعر کو کوشش کی ضرورت ہے، مشورہ یہ ہے کہ مایوس نہ ہوں، آپ نے بہت اچھی غزل کہی ہے۔ لکھتے رہیں، اور اصلاح کرواتے رہیں۔ اغلاط سے پاک کوئی نہیں ہے، اس لئے تنقید اور دوسروں کی آراء کو اپنے لئے سیڑھی بنائیں، دیوار مت بنائیں۔


جناب مزمل شیخ بسمل صاحب
میں آپ کا تہہ دل سے شکر گزار ہوں کے آپ نے اپنی قیمتی وقت میں سے کچھ وقت میری اس ادنا سی کاوش کو بخشا

جب تک کہ اُس کے نام کا غلبہ زمانے پر نہ ہو
تب تک خدا سے عہد کر کافر کا اُونچا سر نہ ہو

جی بجا فرمایا آپ نے شعر مبہم ہے انشا اللہ اسے دوبارہ کہنے کی کوشش کرونگا

ممکن ہے میری زندگی میں آ ہی جائے وہ گھڑی
جس پل کو میرے واسطے اُس کا بھی کھلتا در نہ ہو

جی میرے بھائی شعر حقیقی ہے شاید یہاں بھی خیال کو واضح کرنے سے قاصر رہا


شاید مرے الفاظ میں کچھ عیب ہے جو خط مرا
محبوب تک لے جانے کو راضی ہی نامہ بر نہ ہو۔

متفق

خود سے میں اپنے آپ میں ملتا رہا برسوں مگر
لیکن نجانے کیوں مرا کم خود سے ملتے ڈر نہ ہو

دوسرے مصرے میں لیکن کا محل نہیں اس شعر سے میں خود بھی مطمئن نہ تھا

منظر نگاری آہ کیوں جاتی ہے میری رائیگاں
جس کو بناوں لفظ میں ناقص وہی منظر نہ ہو

مزمل بھائی پہلے مصرے میں بلا شبہ شکایت ہے
مگر دوسرے میں اس کی نفی نہیں کر رہا
بلکہ اس وہم کا شکار پاتا ہوں خود کو کہ کہیں وہ منظر ہی ناقص نہ ہو
واضح نہ کرپایا یہاں بھی

کہنا عظیم اُس معتبر سے تُم نے سوچاہے کبھی
عزت یہی ذلت تمہاری واں سرِ محشر نہ ہو

یہاں کسی ایک خاص شخص کی طرف اشارہ تھا جو میری ذات سے وابستہ ہے
قاری کے لیئے شاید اسی بنا پر وضاحت طلب رہا


اللہ مایوسی سے بچائے مگر کبھی کبھار ہمت جواب دے جاتی ہے
اگر آپ تمام احباب یونہی اصلاح فرماتے رہے اور میری ہمت افزائی کرتے رہے تو انشا اللہ جلد ان تمام غلطیوں سے چھٹکارا نصیب ہوگا
اللہ بہتر جاننے والا ہے

بہت سی دعائیں
 
۔
آپ کا احسان ہے مجھ پر جو آپ نے میری اس ادنا سی کاوش پر اپنی مفصل رائے کا اظہار کیا
آپ کی بتائی ہوئی تمام باتیں مستقبل میں میرے لیئے بہت مفید ثابت ہونگی
۔
آمین

اپنا علمی فریضَہ سمجھتے ہوئے عرض کرتا چلوں کہ
(1)۔ ’’ادنا‘‘ ’’اعلا‘‘ کی درست املاء ’’ادنٰی‘‘ ’’اعلٰی‘‘ ہے۔
(2)۔ ’’لیئے‘‘۔ اہلِ علم اس کو ’’لیے‘‘ لکھتے ہیں اور مجھ جیسے کم علم کے ’’لئے‘‘ کو بھی قبول کر لیتے ہیں۔
(3)۔ الفاظ کو بلاضرورت جوڑ کر لکھنا مستحسن نہیں ہے۔ ’’ہوں گی‘‘ لکھئے۔
اور ہاں! برا مت مانئے گا، دعاؤں میں یاد رکھئے گا۔
 

عظیم

محفلین
چھن گئی جس کے ہاتھوں ہماری خوشی
کب ہمیں اس سے بڑھ کر تھی پیاری خوشی

غم سبھی عاشقوں کا مقدر ہوئے
دلبروں کو ملی جگ کی ساری خوشی

کیوں کریں ہم سکوں کی تمنا صنم ؟
جب جنوں میں ہمارے تمہاری خوشی

دکھ ملا ہم کو بدلے میں جب بھی کبھی
ہم نے اپنوں کی خوشیوں پہ واری خوشی

بوجھ غم کا ہمیں روح سے ہلکا لگے
اور لگے جاں سے اپنی یہ بھاری خوشی

کیوں عظیم اپنی میت پہ روئیں گے وہ ؟
دشمنوں کی ہے آنکھوں سے جاری خوشی

 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
یہ غزل بہتر ہے۔ روح و جاں کی خلیل کی اصلاح قبول کر لو۔
اس کے علاوہ یہ شعر
کیوں کریں ہم سکوں کی تمنا صنم ؟
جب جنوں میں ہمارے تمہاری خوشی
اس میں ’صنم ‘ زائد ہے، اس کی بجائے ’بھلا‘ استعمال کیا جائے تو بہتر ہو۔ دوسرے مصرع میں ’ہے‘ کے بغیر مصرع میں روانی کی کمی بھی ہے
 
میاں واہ۔ بہترین غزل ہے۔
بس ایک نشاندہی یہ دیکھ لو کہ زبان کے اعتبار سے دوسرے شعر کے مصرع ثانی میں "لوٹ" کی جگہ محض "لٹ" درست ہے۔
بہت بہترین کلام ہے بھئی واہ واہ۔

تم قریب آؤ نہ آئے ہو جو، اپنی لاش کو
اپنے کاندھوں پر اٹھانے کو ہمارا جی کرے
بہترین۔
 

عظیم

محفلین
میاں واہ۔ بہترین غزل ہے۔
بس ایک نشاندہی یہ دیکھ لو کہ زبان کے اعتبار سے دوسرے شعر کے مصرع ثانی میں "لوٹ" کی جگہ محض "لٹ" درست ہے۔
بہت بہترین کلام ہے بھئی واہ واہ۔

تم قریب آؤ نہ آئے ہو جو، اپنی لاش کو
اپنے کاندھوں پر اٹھانے کو ہمارا جی کرے
بہترین۔

ہمت افزائی کے لیے شکر گزار ہوں میرے بھائی
جی بجا فرمایا آپ نے
مگر لوٹ جانے اور لٹ جانے میں بہت فرق ہے
سمجھ نہیں سکا میں
معذرت

دعائیں
 

عظیم

محفلین
ق
جنوں میں وحشت میں نہ سکوں میں
نہیں بروں وہ نہ ہے دروں میں

میں دیکھ پاوں جمال اُس کا
تپش کہاں اتنی میرے خوں میں
---
خرد کی حد تک نہ پا سکا ہوں
تلاش تھی عبث جنوں میں

چلا ہوں ناصح سے پوچھنے کو
بھلا ہے کیا میرا اُس کی "یوں" میں

وہ بے خبر ہیں بیاں سے میرے
میں دیکھتا اُن کی "ہاں" میں "ہوں" میں

عظیم ، غفلت زدہ گھرے ہیں
جہاں کی رونق کے اِس فسوں میں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
یہ غزل بہتر ہے۔ روح و جاں کی خلیل کی اصلاح قبول کر لو۔
اس کے علاوہ یہ شعر
کیوں کریں ہم سکوں کی تمنا صنم ؟
جب جنوں میں ہمارے تمہاری خوشی
اس میں ’صنم ‘ زائد ہے، اس کی بجائے ’بھلا‘ استعمال کیا جائے تو بہتر ہو۔ دوسرے مصرع میں ’ہے‘ کے بغیر مصرع میں روانی کی کمی بھی ہے


جی بہتر ۔۔۔
ہمت افزائی کے لیے شکرگزار ہوں
اللہ سبحان و تعالی آپ کے علم میں مزید اضافہ فرمائے
آمین
 

عظیم

محفلین
چھن گئی جس کے ہاتھوں ہماری خوشی
کب ہمیں اس سے بڑھ کر تھی پیاری خوشی

غم سبھی عاشقوں کا مقدر ہوئے
دلبروں کو ملی جگ کی ساری خوشی

کیوں کریں ہم سکوں کی تمنا کہ جب
ہے جنوں میں ہمارے تمہاری خوشی

دکھ ملا ہم کو بدلے میں جب بھی کبھی
ہم نے اپنوں کی خوشیوں پہ واری خوشی

بوجھ غم کا ، ہمیں جاں سے بھاری لگے
اور لگے روح سے اپنی بھاری خوشی

کیوں عظیم اپنی میت پہ روئیں گے وہ ؟
دشمنوں کی ہے آنکھوں سے جاری خوشی

 

الف عین

لائبریرین
کیا مکمل غزل ہی قطعہ بند ہے؟
حسب معمول الفاظ کی نشست بے ترتیب لگ رہی ہے اس لئے اچھی نہیں لگ رہی۔ صاف زبان اسرعمال کیا کریں تاکہ لہجے میں روانی پیدا ہو سکے۔ مثلآ
جنوں میں وحشت میں نہ سکوں میں
نہیں بروں وہ نہ ہے دروں میں
کو یوں تبدیل کیا جا سکتا ہے، اگر اس سے مطلب وہی نکل سکتا ہے جو کہنا چاہ رہے ہو
جنوں میں ہے اور نے سکوں میں
بروں میں ملتا ہے یا دروں میں

اسی طرح یہ دونوں اشعار تبدیل کئے جا سکتے ہیں
میں دیکھ پاوں جمال اُس کا
تپش نہ اتنی ہے میرے خوں میں

خرد کی حد تک نہ پا سکا ہوں
جسے میں ڈھونڈوں عبث جنوں میں
کو یوں کہیں تو۔۔
میں دیکھ پاوں جمال اُس کا
تپش کہاں اتنی میرے خوں میں

خرد کی حد تک نہ پا سکا میں
تلاش تھی جو عبث جنوں میں

اور
وہ بے خبر ہیں بیاں سے میرے
میں دیکھتا اُن کی "ہاں" میں "ہوں" میں
یوں تبدیل کیا جا سکتا ہے
وہ بے خبر ہیں بیاں سے میرے
میں دیکھوں کیا اُن کی "ہاں" میں "ہوں" میں
باقی دونوں اشعار درست ہیں۔
 

عظیم

محفلین
کیا مکمل غزل ہی قطعہ بند ہے؟
حسب معمول الفاظ کی نشست بے ترتیب لگ رہی ہے اس لئے اچھی نہیں لگ رہی۔ صاف زبان اسرعمال کیا کریں تاکہ لہجے میں روانی پیدا ہو سکے۔ مثلآ
جنوں میں وحشت میں نہ سکوں میں
نہیں بروں وہ نہ ہے دروں میں
کو یوں تبدیل کیا جا سکتا ہے، اگر اس سے مطلب وہی نکل سکتا ہے جو کہنا چاہ رہے ہو
جنوں میں ہے اور نے سکوں میں
بروں میں ملتا ہے یا دروں میں

اسی طرح یہ دونوں اشعار تبدیل کئے جا سکتے ہیں
میں دیکھ پاوں جمال اُس کا
تپش نہ اتنی ہے میرے خوں میں

خرد کی حد تک نہ پا سکا ہوں
جسے میں ڈھونڈوں عبث جنوں میں
کو یوں کہیں تو۔۔
میں دیکھ پاوں جمال اُس کا
تپش کہاں اتنی میرے خوں میں

خرد کی حد تک نہ پا سکا میں
تلاش تھی جو عبث جنوں میں

اور
وہ بے خبر ہیں بیاں سے میرے
میں دیکھتا اُن کی "ہاں" میں "ہوں" میں
یوں تبدیل کیا جا سکتا ہے
وہ بے خبر ہیں بیاں سے میرے
میں دیکھوں کیا اُن کی "ہاں" میں "ہوں" میں
باقی دونوں اشعار درست ہیں۔


جی نہیں استادِ محترم پہلے دو اشعار قطعہ بند ہیں
اور مفہوم بھی کچھ یوں نہ تھا جیسا الفاظ کی نشست نے بنا دیا

جنوں میں وحشت میں نہ سکوں میں
نہ ہے بروں وہ نہ ہے دروں میں

وہ بے خبر ہیں بیاں سے میرے
میں دیکھ لوں اُن کی 'ہاں' میں ' ہوں'میں

یہ صورت کیسی رہے گی حضور ؟

اللہ سبحان و تعالی آپ کو اپنی رحمتوں کی پناہ میں رکھے آمین
 

عظیم

محفلین

کیوں وہ مری ہستی کا نشاں ڈھونڈ کے لائے
جس نے ہیں مرے جیسے کئی نقش مٹائے

ظالم نہ کہوں تجھ کو اگر پھر میں کہوں کیا ؟
عاشق پہ یوں محبوب کوئی ظلم نہ ڈھائے

مانا کہ ہے وحشت یہ مری عشق نہیں ہے
لیکن مری وحشت یہ مجھے تجھ سے ملائے

بہتا مری آنکھوں سے لہو جس نے نہ دیکھا
خلوت میں مری مجھ سے کبھی ملنے وہ آئے

ڈرتا ہوں نہ مٹ جائے کہیں حسرتِ دیدار
جتنا میں تلاشوں اُسے چھپتا ہی وہ جائے

جاتا ہوں گدا بن کے میں دربار پہ اُس کے
دنیا کے خداوں نے جہاں سر تھے جھکائے

مر جاوں جو وعدے پہ ترے مجھ کو یقیں ہے
الفت مری تربت پہ تجھے کھینچ کے لائے

کب میں تھا طلبگارِ جہاں تُو نے جو مجھ کو
دنیا کے یہاں سب سے حسیں باغ دکھائے

رہنے دو عظیم اُس سے گلہ کس لیے کرنا
تاثیر جو لہجے کی مرے زہر سی پائے
 
Top