رونے دهونے سے قرار آتا ہے کیا
پیٹتا کم بخت سر جاتا ہے کیا
ہو سکا ممکن کسی کی بات کو
اپنے منہ سے غیر دہراتا ہے کیا
اے جہاں تیری نگاہیں دیکھ لیں
آنکھ مجھ کو اب یہ دِکهلاتا ہے کیا
پوچهنا اُس کم سخن سے اس طرح
کوئی سمجها کوئی سمجهاتا ہے کیا
مرض ہے عشقِ بتاں کا شیخ جی
آپ کے دعوں سے یہ جاتا ہے کیا
خاک چهانی ہے زمانے بهر کی مَیں
قیس بهی مجنون کہلاتا ہے کیا
دیکهنا ہے چاک دامن کر عظیم
یہ گریباں ہاتھ میں آتا ہے کیا