عظیم کی شاعری برائے اصلاح و تنقید و تبصرہ

عظیم

محفلین
شوق کا امتحان لیتے ہیں
اپنے عاشق کی جان لیتے ہیں

آپ راضی ہیں ہم کو مرتا دیکھ
چلئے مرنے کی ٹھان لیتے ہیں

کس طرح مانئے بتا دیجئے
کون سی بات مان لیتے ہیں

اپنے بیمار کو دوا دیجئے
درد اِس دِل کے جان لیتے ہیں

یُوں نہ رکھئے خُدا کی خاطر بیر
جان کب مہربان لیتے ہیں

اللہ اللہ جنابِ صاحب آپ
کوئی مجنوں ہیں مان لیتے ہیں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
آپ کی چاہتوں میں کھونا تھا
یہ مری زندگی کا ہونا تھا

یُوں نہ ہوتا تو کیا ہوا ہوتا
یُوں نہ ہوتا تو کیا نہ ہونا تھا

ہر خُوشی چھین لیجئے مُجھ سے
میری قسمت میں صرف رونا تھا

ہائے معلوم کب یہ تھا مُجھ کو
دل نہیں دل مرا کھلونا تھا

اے غمِ روزگار تیرا ہی
اِس زمانے میں ایک رونا تھا

چھوڑ کر چل دیئے حقیقت میں
جن کو خوابوں میں دور ہونا تھا

وہ بھی اب پوچھتے ہیں صاحب کیا
میری خاطر ہی تیرا رونا تھا
 

عظیم

محفلین
تیری قسمت میں یہ سرور نہیں
عاجزی ہے مرا غرور نہیں

ہم جو بولے تو لوگ اُٹھ بولے
بات اُن کی ابھی حضور نہیں

بیخودی اضطراب وحشتِ غم
اِن تراکیب کا ضرور نہیں

کیوں نہ کہہ دیں تمام عالم سے
جو دکھائی دے وہ ظہور نہیں

میں نہیں جانتا مگر صاحب
عاجزی ہے مِرا غرور نہیں
 

عظیم

محفلین
دم اکھڑنے سے پہلے آ جاؤ
آ مری روح میں سما جاؤ

تم نہ آؤ تسلیاں دینے
بے شُبہ درد ہی بڑھا جاؤ

اے مرے رازداں چلے آؤ
میری غزلیں مجھے سُنا جاؤ

آ بھی جاؤ کہ مر چلا ہُوں مَیں
تم پئے فاتحہ ہی آ جاؤ

ہو چکے سب تمام جھگڑے آج
ایک رشتہ تو تُم نبھا جاؤ

کہنے صاحب کو صاحبو آؤ
جاتے جاتے کہا سُنا جاؤ
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
کہو وہ مان جائے نا
نہ یوں ہم کو ستائے نا

مٹے بیٹھے ہیں پہلے سے
خُدارا اب مٹائے نا

کہاں جائیں ہم اُس کے بن
ہمیں بھی کُچھ بتائے نا

یہ کیا نزدیکیاں ہم سے
ذرا سا پاس آئے نا

ہمیں کیوں دیکھئے اُس کو
ہمیں بھی دیکھ جائے نا

کہو کہ مر چکا صاحب
وہ پھر سے آ جگائے نا
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
یہ کیا نزدیکیاں ہم سے
ذرا سا پاس آئے نا
۔۔یہ کیسی دوریاں ہم سے

ہمیں کیوں دیکھئے اُس کو
ہمیں بھی دیکھ جائے نا
۔۔۔ہمیں خود اس کو کیوں دیکھیں
کبھی وہ دیکھ۔۔۔۔

کہو کہ مر چکا صاحب
وہ پھر سے آ جگائے نا
کہ ’کے‘ کے بطور غلط ہے
 

عظیم

محفلین
جانتے ہیں جہان دھوکا ہے
جانے کس آرزُو نے روکا ہے

بات کرتے تھے حسنِ صادق کی
کن رقیبوں نے آن ٹوکا ہے

نام جب جب زباں پہ آیا اُن
ہم سے رندوں نے سانس روکا ہے

اِن خرابات میں بتاؤ کیا
کیا نہیں ہے جو صرف دھوکا ہے

صاحب اپنا یقین صادر ہے
ہم کو کُچھ کافروں نے روکا ہے
 

عظیم

محفلین
کہو وہ مان جائیں ناں
نہ ہم کو یُوں ستائیں ناں

سنیں ناں ہو چکیں صدیاں
گھڑی پل لوٹ آئیں ناں

اجی ہم پیار کرتے ہیں
ہمارا دل جلائیں ناں

کہ ہم ہی دیکھئے اُن کو
ہمیں بھی دیکھ جائیں ناں

مٹے بیٹھے ہیں پہلے سے
خُدارا اب مٹائیں ناں

یہ کیسی دوریاں ہم سے
ذرا کُچھ پاس آئیں ناں

کہاں جائیں ہم اُن کے بن
ہمیں بھی کُچھ بتائیں ناں

کہو جی مر چُکے صاحب
اجی اب آ بھی جائیں ناں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
مُجھ کو اِس خوف سے رہائی دے
اے خُدا قلب کی صفائی دے

دے دِیا ہے جو مجھ کو اپنا غم
کیوں نہ اِس قید سے رہائی دے

مَیں نہیں جانتا کہ دیکھوں کیا
تُو نہیں ہو کے گر دِکھائی دے

بات کرتا ہُوں اپنی لیکن آج
مُجھ کو تُجھ بن نہ کُچھ سجھائی دے

دے جو اغیار کو غلط فہمی
مُجھ کو اِس فہم تک رسائی دے

اے مرے دِل تُجھے طلب کیا ہے
وہ خُدا ہو کے بھی خُدائی دے

یاد یعنی وہ اُن کی آتی ہے
منہ پہ صاحب جو یُوں رضائی دے
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
باقی دوستوں سے بھی گزارش ہے کہ کسی خوبی کی طرف اشارہ نہیں کرتے مت کریں مگر کوئی خامی تو بتا دیں ۔ جزاک اللہ
 

عظیم

محفلین
واہ ! اُلفت کے خواب دیکھے ہیں
گویا ہم نے عذاب دیکھے ہیں

دیکھئے ہم سے آپ نے واعظ
کم ہی خانہ خراب دیکھے ہیں

یاد جب جب نہ اپنی آئی تب
اُن کے آنے کے خواب دیکھے ہیں

کیا بتائیں کہ اِس سفر میں ہم
کیسے کیسے سراب دیکھے ہیں

کون پوچھے ہمیں ہمارا حال
کس نے ہم سے جناب دیکھے ہیں

جس کا صاحب سدھار سدھروں آپ
اُس نے خود سے خراب دیکھے ہیں
 

عظیم

محفلین
یار کی محفلیں سجاتے ہیں
ہم سے کم بخت کُچھ کماتے ہیں

لیجئے آج چھوڑ کر خُود کو
آپ کے ہم قریب آتے ہیں

یہ وفا ہم سے کس لئے آخر
کہہ جفاکار کیوں بلاتے ہیں

زندگی موت بن چکی اب تو
اب یہ جینا کسے سکهاتے ہیں

دیکھئے جانتے ہیں ہم سنئے
یُوں منانے پہ روٹھ جاتے ہیں

ہم ہیں صاحب گدا اُسی در کے
اُس کے در پر ہی دُم ہلاتے ہیں
 
آخری تدوین:

عظیم

محفلین
غم جو اپنا ہی مُجھ کو دینا تھا
حوصلہ بے بہا دِیا ہوتا

اے ستم ساز یُوں بنانے سے
لاکھ بہتر مٹا دیا ہوتا

اب مجھے کس لئے کہو منکر
آپ مسلم بنا دیا ہوتا

مر نہ جاتا جنابِ واعظ کیا
میں جو اُس کو بھلا دیا ہوتا

یہ جو کرتے ہیں بات دنیا کی
اِن کو کاسہ تھما دیا ہوتا

اٹھتے صاحب جو اُن کی محفل سے
ایک فتنہ اُٹھا دِیا ہوتا
 
آخری تدوین:
Top