چلئے جناب آپ کے دیوانے ہی سہی
دُنیا ہے ہوشمند تو مستانے ہی سہی
شمعِ غزل نہ ہم کو میسر ہُوئی تو کیا
محفل میں اُڑ پھریں جو پروانے ہی سہی
دیکھیں حضور آپ ہمارے نہیں مگر
کُچھ تو جناب ہو گئے بیگانے ہی سہی
ہو کر قریب اتنا دُوری تو کم کرو
مرجائیں ہم سے آپ پر مرجانے ہی سہی
تُم بھی اے ظالمو کُچھ ہم سے لحاظ برتو
اپنوں سے ہم بھلے ہیں بیگانے ہی سہی
صاحب نہیں جو مسجد آباد آج کیا ہے
ہم سے منافقوں کے میخانے ہی سہی