فاروقی بھائی، یہ ناانصافی ہے۔ جب آپ مجھ سے لڑی پر گفتگو ختم کرنےکے لیے زور دے رہے تھے تو یہی زور آپ کو فریق مخالف پر بھی دینا چاہیے تھا۔ اور اگر وہ آپ کی بات نہ مانتے تو اور بات ہے، مگر آپ انکے مراسلوں پر اسکے بعد شکریہ بھی ادا کریں تو یہ صحیح بات نہیں۔
بہرحال، بات میری طرف سے شروع نہیں ہوئی۔ اس لیے میں جواب دینے کا حق محفوظ رکھتی ہوں۔
خاتون میں نے تو یہ کہا ہی نہیں کہ ان چیزوں سے شفا ہوتی ہے۔ میں نے تو کہا تھا کہ کچھ بزرگ ان چیزوں کو شفا کی نیت سے استعمال کرتے تھے۔ اس سے آپ نے مجھ پر یہ کہانی فٹ کردی کہ میں انہیں باعثِ شفا سمجھتا ہوں؟
خاور نوٹ کریں:
1۔ یہ بزرگ= صحابہ کرام [کیا میں غلط کہہ رہی ہوں؟]
2۔ اور کیا آپ کو اندازہ نہیں ہو رہا کہ جس چیز کا آپ سرسری ذکر کر کے آپ چپکے سے آگے نکل جانا چاہ رہے ہیں، اس کا کتنا خطرناک مطلب ہے؟
اسکا مطلب سوائے اسکے اور کچھ نہیں کہ یہ اصحاب بغیر کسی نص کے [آپکے زعم میں] تبرکات نبی سے شفا حاصل کرنے اور نفع حاصل کرنے کے لیے قبر میں ساتھ دفن کروانے پر شرکیہ افعال میں مبتلا ہیں۔
[بلکہ
آپ کی بدعت کی تعریف کے مطابق نہ صرف یہ شرکیہ افعال میں مبتلا ہیں، بلکہ ایسا
نیا فعل کر رہے ہیں جس کا آپکے مطابق قران و سنت نبوی سے دور دور تک تعلق نہیں بلکہ توحید و سنت کے بالکل مخالف ہے اور یوں شرک کے ساتھ ساتھ بدعت ضلالت میں بھی مبتلا ہیں۔]
3۔ اور نوٹ کریں کہ یہ بزرگ صحابہ و صحابیات "کچھ" یا "چند" نہیں [جیسا کہ آپ قیاس کر رہے ہیں]۔ بلکہ پوری کمیونٹی ہے۔ جناب عائشہ، اسماء بنت ابی بکر، ام المومنین ام سلمہ۔۔۔۔۔ ان کے پاس مدینہ کی پوری کمیونٹی [صحابہ و تابعین] کا یہ عمل تھا کہ وہ رسول ص کے کرتے اور بالوں جیسے تبرکات سے شفا حاصل کرنے کے لیے انکے پاس آتے تھے۔
اور یہ احادیث تواتر سے کہیں آگے تک پہنچی ہوئی ہیں اور ایک نہیں بے تحاشہ صحابہ کا تبرکات نبوی سے شفا و نفع اٹھانے اور قبر میں تبرکات نبی کے لے جانے کا ذکر ہے، ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اسکے مخالف ایک روایت بھی نہیں ملتی کہ ان میں سے کسی نے اسکی مخالفت کی ہو اور اسے شرک سے یا پھر [آپ کے زعم کے مطابق] بدعت ضلالت سے تعبیر کیا ہو۔
اور میں نے اوپر روایت نقل کی ہے جہاں رسول ص نے خود فاطمہ بنت اسد [علی ابن ابی طالب کی والدہ] کے لیے خاص طور پر اپنا کرتہ دیا اور حکم دیا کہ انہیں اس کرتے میں دفنایا جائے۔ پتا نہیں آپ نے کن بند آنکھوں سے یہ واضح اور روشن احادیث نبوی پڑھی ہیں [یا پھر فاروقی بھائی کی طرح پڑھے بغیر بحث میں مبتلا ہو گئے ہیں]
////////////////////////////////////////
از خاور بلال:
میرے نزدیک تو ان چیزوں میں سے قابلِ شفا وہی چیز ہوسکتی ہے کہ جس کے بارے میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت کردی ہو۔ اب آپ مجھے یہ بتائیں کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے استعمال کی کن چیزوں کے بارے میں صراحت کی ہے کہ ان سے شفاعت کی امید کی جاسکتی ہے؟
اللہ، کیا کوئی اتنے تواتر سے اتنی واضح اور روشن احادیث کے بعد بھی یہ سوال کر سکتا ہے؟ باخدا یا تو آپ نے فاروقی بھائی کی طرح احادیث پڑھنے کی زحمت ہی نہیں کی، یا پھر آپ بند آنکھوں اور دل سے باتوں کو پڑھتے ہیں۔
اللہ کے نام پر میں چند احادیث میں اور یہاں ھدیہ کر دیتی ہوں، باقی آپ وہ احادیث پھر پڑھ لیں جو میں اوپر نقل کر چکی ہوں، اور اس سے بھی زیادہ چاہیے تو محترم ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی وسیلے اور توسل پر آنلائن کتاب کا مطالعہ کر لیں۔
ان احادیث کو پڑھنے سے قبل اس دفعہ براہ مہربانی نوٹ کر لیں:
1۔ جو کام رسول کی موجودگی میں ہو اور رسول اس پر خاموش رہیں، وہ بھی حدیث رسول ہے۔
2۔ اور براہ مہربانی اس دفعہ آنکھیں اور اس سے بڑھ کر دل کو بند رکھنے کی بجائے کھول کر پڑھیے گا۔
3۔ اور ان تمام احادیث نبوی پڑھنے کے بعد میں آپ کا دامن پکڑوں گی کہ کیوں آپ نے قیاس کیا کہ آپ کے زعم کے مطابق یہ "چند بزرگوار" یعنی صحابہ کرام [اور چند نہیں بلکہ پوری کمیونٹی] بنا نص کے اپنی مرضی کے مطابق شرکیہ افعال کر رہی تھی یا پھر عین قول رسول پر عمل پیرا تھی اور آپ اپنے قیاس کے ساتھ انتہائی غلطی و گمراہی پر کھڑے ہیں۔
انس بن مالک روایت کرتے ہیں:
اللہ کے رسولﷺ جب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو خدام مدینہ اپنے پانی سے بھرے ہوئے برتن لے کر آتے۔ آپﷺ ہر پانی لانے والے کر برتن میں اپنا ہاتھ مبارک ڈبو دیتے۔ بسا اوقات یہ واقعہ موسم سرما کی صبح میں ہوتا اور آپﷺ اپنا ہاتھ اس میں ڈبو دیتے
صحیح مسلم جلد 2، صفحہ 356
تبصرہ: کیا آپکا خیال ہے معاذ اللہ معاذ اللہ، اگر اسکا فعل کا کوئی نفع نہ تھا تو اسکا مطلب ہوا کہ خدا کا رسول پانی میں اپنا ہاتھ ڈبونے کے فضول کام میں خاہ مخواہ ہی مشغول تھا؟
حضرت علی کا رسولﷺ کے لعاب دہن سے درد سے نجات پانا
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمن نے انہوں نے ابو حازم سے کہا مجھ کو سہل بن سعد نے خبر دی کہ آنحضرت ﷺ نے خیبر کے دن یوں فرمایا میں کل ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ فتح کرا دے گا۔ وہ اللہ اور رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور رسول اس سے محبت رکھتے ہیں۔ آپﷺ کا یہ فرمانا سن کر لوگ رات بھر کھسر پھسر کرتے رہے کہ دیکھئے جھنڈا کس کو ملتا ہے۔ صبح ہوتے ہی سب لوگ ّآنحضرت ﷺ کے پاس آئے۔ ہر ایک کو امید تھی شائد جھنڈا مجھ کو ملے۔ آپﷺ نے پوچھا کہ علی ابن ابی طالب کہاں ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ان کی تو آنکھیں دکھ رہی ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا ان کو بلا بھیجو۔ لوگ ان کو لے آئے۔ آنحضرتﷺ نے ان کی آنکھوں پر اپنا لعابِ دہن لگا دیا اور ان کے لئے دعا کی۔ پھر وہ تو ایسے تندردست ہوئے جیسے کوئی شکوہ ہی نہ تھا۔
صحیح بخاری، کتاب المغازی، ترجمہ از مولانا وحید الزمان خان
تبصرہ:
1۔ علی ابن ابی طالب نے براہ راست ڈائریکٹ اللہ سے ہی کیوں شفا نہ مانگ لی؟
2۔ اور رسول ص کو [آپکے زعم کے مطابق] اس بے کار و بے نفع و بیکار عمل کی کیا ضرورت تھی جب آپ ص نے اپنا لعاب دہن علی ابن ابی طالب کی آنکھوں پر لگایا؟
صحابی سلمہ کے زخم کا رسولﷺ کے لعاب دہن سے مندمل ہونا
ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا کہا ہم سے یزید بن ابی عبید نے انہوں نے کہا میں نے سلمہ بن اکوع کی پنڈلی میں ایک ضرب کا نشان دیکھا۔ میں نے پوچھا ابو مسلم (سلمہ کی کنیت) یہ نشان کیسا ہے، انہوں نے کہا یہ مار مجھے خیبر کے دن لگی تھی۔ لوگ کہنے لگے سلمہ مارے گئے (ایسی سخت مار لگی) پھر میں آنحضرت ﷺ کے پاس آیا۔ آپ ﷺ نے تین بار اس پر پھونک مار دی۔ مجھے (اُس دن کے بعد سے) آج تک کوئی تکلیف اس مار (ضرب) کی نہیں ہوئی۔
صحیح بخاری، کتاب المغازی، ج 2 ص 664 ، ترجمہ از مولانا وحید الزمان خان
تبصرہ:
1۔ آپ کے زعم کے مطابق، کیا رسول پھونکیں مارنے کے بے نفع و بے فائدہ کام میں مشغول تھا؟
حضرت عائشہ کا رسولﷺ کے ہاتھوں کو ان کی بیماری اور درد سے نجات کے لیے استعمال
مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہوں نے معمر سے انہوں نے زہری سے انہوں نے عروہ سے انہوں نے حضرت عائشہ سے کہ آنحضرتﷺ مرض الموت میں معوذات (سورہ فلق اور سورہ الناس) پڑھ کر اپنے اوپر پھونکتے۔ جب آپﷺ پر بیماری کی شدت ہوئی تو میں پڑھ کر آپ ﷺ پر پھونکتی اور آپﷺ کا ہاتھ آپ ﷺ کے جسم پر پھیراتی برکت کے لئے، معمر نے کہا میں نے زہری سے پوچھا کیونکر پھونکتے تھے۔ انہوں نے کہا دونوں ہاتھوں پر دم کر کے ان کو منہ پر پھیر لے۔
صحیح بخاری، کتاب الطب، ج 3 ص 338۔339 ، ترجمہ از مولانا وحید الزمان خان صاحب
تبصرہ:
جناب عائشہ کو کیا ضرورت تھی کہ بیمار رسول ص کو بیماری میں تکلیف دیتیں۔ کیا درد کے خلاف صرف اللہ سے دعا کر لیتیں تو کافی نہ تھا؟ چلیں معوذتین پڑھی تھی تو یہی کافی ہوتا۔ چلیں اس پر بس نہیں کیا تھا تو اپنے ہاتھوں پر پھونک کر جسم پر پھیر دیتیں۔۔۔۔ مگر نہیں، بیمار رسول ص کی اپنے ہاتھوں میں پھونک کر انہی کے ہاتھوں کو جسم پر پھیر رہی ہیں۔
اسی ضمن میں دوسری حدیث ہے:
ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، کہا مجھ سے عبد ربہ بن سعید نے، انہوں نے عمرہ سے، انہوں نے حضرت عائشہ سے کہ آنحضرت ﷺ بیمار کے لئے (کلمے کی انگلی زمین پر لگا کر) فرماتے بسم اللہ یہ ہماری زمین (مدینہ) کی مٹی ہم میں سے کسی کے تھوک کے ساتھ (ہمارے مالک کے حکم سے) چنگا (تندرست) کر دے گی۔
صحیح بخاری، کتاب الطب، ترجمہ از مولانا وحید الزمان خان صاحب
تبصرہ:
رسول ص تو کہیں کہ مدینہ کی زمین میں بھی شفا ہے مگر آپ کہیں کہ یہ چند بزرگوں کی اپنی بنائی ہوئی نئی بدعت ہے [جبکہ ہر بدعت ضلالت ہے اور آپ کے گمراہ کن قیاس پر چلیں تو ان بزرگواروں کی پوری کمیونٹی کو معاذ اللہ ضلالت و گمراہی میں مبتلا سمجھنا ہو گا]۔
وہ چشمہ کہ جہاں حضرت صالح کی اونٹنی نے پانی پیا تھا
ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا کہا ہم سے انس بن عیاض نے انہوں نے عبید اللہ عمری سے انہوں نے نافع سے ان سے عبداللہ بن عمر نے بیان کیا لوگ (غزوہ تبوک میں) آنحضرتﷺ کے ساتھ حجر میں جا کر اترے۔ وہاں کے کنویں سے مشکیں بھریں آٹا گوندھا، آنحضرتﷺ نے یہ حکم دیا کہ پانی (جو مشکوں میں تھا) بہا ڈالیں اور آٹا جو اس سے گوندھا تھا، وہ اونٹوں کو کھلا دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس کنویں کا پانی لو جس کا پانی حضرت صالح(علیہ السلام) کی اونٹنی پیا کرتی تھی۔ عبید اللہ کے ساتھ اس حدیث کو اسامہ نے بھی نافع سے روایت کیا ہے۔
صحیح بخاری، کتاب بدءالخلق، ترجمہ از مولانا وحید الزمان خان صاحب
تبصرہ:
صالح علیہ السلام کی اونٹنی شعائر اللہ میں سے تھی۔ مگر جس کنویں سے اس نے پانی پی لی وہ بھی متبرک بن گیا۔ اب لگائیے رسول ص پر شرک کا فتوی کہ بے نفع و بے فائدہ فعل میں صحابہ کو مبتلا کر رہا تھا [معاذ اللہ]
جب شیرِ خدا مولا علی (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد کا انتقال ہوا تو رسول ﷺ نے ان کی تجہیز و تکفین کے لیے خصوصی اہتمام فرمایا۔ غسل کے بعد جب انہیں قمیص پہنانے کا موقع آیا تو رسول ﷺ نے اپنا کرتہ مبارک عورتوں کو عطا فرمایا اور حکم دیا کہ یہ کرتہ پہنا کر اوپر کفن لپیٹ دیں۔
- المعجم لاکیبر للطبرانی 24:2
- الاستیعاب ابن عبد البر 282:4
- اسد الغابہ 213:7
- الاصابہ فہ تمیز الصحابہ 380:4
تبصرہ:
جب رسول کے کرتے کا کچھ فائدہ و نفع ہی نہیں تو کیوں فضول میں رسول اپنا کرتہ دے رہا ہے اور حکم دے رہا ہے کہ اس میں دفن کیا جائے؟ اور آپ کے اس سنگین غلط استدلال کی پیروی کی جائے تو معاذ اللہ معاذ اللہ رسول ص کے اسی فضول و بے کار فعل کی وجہ سے بے تحاشہ صحابہ گمراہی میں مبتلا ہو گئے اور جب دفن ہونے لگے تو وصیت کرنے لگے کہ تبرکات نبوی بھی انکے ساتھ دفن کیے جائیں [صحیح بخاری و مسلم کے بے تحاشہ حوالہ جات میں اوپر نقل کر چکی ہوں]
اے قوم! اللہ کی قسم! میں بادشاہوں کے درباروں میں حاضر ہوا ہوں اور قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے ہاں بھی گیا ہوں۔ اللہ کی قسم! میں نے کبھی کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا کہ جس کے اسحاب اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسی محمدﷺ کے اصحاب ان کی کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم! انہوں نے جب کبھی لعاب دہن پہینکا ہے تو ہو آپﷺ کے اصحاب میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ پر گرا ہے جسے انہوں نے اپنے منہ اور جسم پر مل لیا۔ جب وہ اپنے اصحاب کو حکم دیتے ہیں تو وہ اس کی تعمیل کے لیے دوڑتے ہیں اور جب ہو وضو فرماتے ہیں تو وہ ان کے وضو کے پانی کے حصول کے لیے باہم جھگڑنے کہ نوبت تک پہنچ جاتی ہے۔ اور جب وہ گفتگو کرتے ہیں تو اصحاب ان کے سامنے اپنی آوازیں پست کر لیتے ہیں اور ازروئے تعظیم ان کی طرف تیز نگاہ نہیں کرتے ہیں۔ انہوں نے تم پر ایک نیک امر پیش کیا ہے پس تم اسے قبول کر لو۔
صحیح بخاری، کتاب الشروط، ترجمہ از مولانا وحید الزمان خان
تبصرہ:
رسول ص کے سامنے صحابہ کرام وضو کے پانی کے حصول میں جلدی کرتے تھے اور برکت حاصل کرتے تھے۔ یہ تقریر رسول ہے اور یہی چیز رسول ص کی وفات کے بعد صحابہ کرام کر رہے تھے کہ جس کو آپ نے "چند بزرگواروں کا ذاتی فعل" کہہ کر مسلسل ٹھکرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
رسولﷺ کی کلی کے پانی سے حصولِ برکت
حضرت ابو موسیٰ روایت کرتے ہیں:
میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ تھا جب آپﷺ جعرانہ میں تشریف لائے، جو کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے۔ آپﷺ کے ساتھ حضرت بلال (رضی اللہ عنہ) بھی تھے۔ ایک اعرابی آپﷺ کے پاس آیا اور بولا: اے محمد! کیا آپ نے مجھ سے کیا ہوا وعدہ پورا نہیں کیا۔ آپﷺ نے اسے فرمایا: خوش ہو جاؤ۔ وہ بولا:آپﷺ نے بہت دفعہ کہا ہے کہ خوش ہو جاؤ۔ یہ سن کر رسولﷺ غصے کی حالت میں حضرت ابو موسیٰ اور حضرت بلال کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اس شخص نے میری بشارت کو رد کیا، اب تم دونوں میری بشارت قبول کرو۔ دونوں نے عرض کی: یا رسول اللہ! ہم نے خوشخبری کو قبول کیا۔ پھر آپﷺ نے ایک پیالہ پانی کا منگوایا اور دونوں ہاتھ اور چہرہ دھوئے اور اس میں کلی کی۔ پھر فرمایا کی اسے پی جاؤ اور اپنے منہ اور سینے پر ڈالو اور خوش ہو جاؤ۔ ان دونوں نے پیالہ لیا اور ایسے ہی کیا جیسے آپﷺ نے انہیں فرمایا تھا۔ حضرت ام سلمہ نے ان کو پردے کے پیچھے سے آواز دی: اپنی ماں کے لیے بھی اپنے برتنوں میں سے بچاؤ۔ پس انہوں نے ان کے لیے بھی کچھ پانی رکھ لیا۔
صحیح مسلم، کتاب الفضائل، ج 3 ص 721، ترجمہ از مولانا عزیز الرحمان، جامعہ االاشرفیہ، لاہور
صحیح مسلم، کتاب الفضائل، ج 3 ص 722، ترجمہ از مولانا عزیز الرحمان، جامعہ االاشرفیہ، لاہور
رسول اللہ ﷺ کا نوزائیدہ بچوں کے منہ میں برکت کے لئے اپنا لعابِ دہن دینا
حضرت اسماء بنت ابو بکر بیان کرتی ہیں:
میں مکہ میں ہی عبداللہ بن زبیر سے حاملہ ہو گئی تھی۔ حمل کے دن پورے ہونے کو تھے کہ میں مدینہ کے لیے روانہ ہوئی۔ میں پبا میں اتری اور قباء میں یہ میرا بچہ (عباللہ بن زبیر) پیدا ہوا۔ پھر میں اسے رسولﷺ کی خدمت اقدس میں لے کر حاضر ہوئی اور میں نے اسے آپﷺ کی گود مبارک میں ڈال دیا۔ پھر آپﷺ نے کھجور منگوائی اور اسے چبایا۔ پھر بچے کے منہ مین لعابِ دہن ڈال دیا اور جو چیز سب سے پہلے اس کے پیٹ میں داخل ہوئی وہ آپﷺ کا لعاب تھا۔ پھر آپﷺ نے اس کے تالو میں کھجور لگا دی اور اس کے حق میں دعا کی اور اس پر مبارکباد دی۔
صحیح مسلم، کتاب الاداب، ترجمہ از مولانا عزیز الرحمان، جامعہ اشرفیہ، لاہور
تقریباً 100 کے قریب انصار اور مہاجرین کے نام اسناد کے ساتھ کتابوں میں موجود ہیں کہ جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے لعابِ دہن سے برکت حاصل کی۔
رسولﷺ کے موئے مبارک سے حصولِ برکت
حضرت انس سے روایت ہے:
جب رسول ﷺحج کے موقع پر قربانی دینے سے فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے سر کا دایاں حصہ حجام کے سامنے کر دیا۔ اس نے بال مبارک مونڈھ دیے۔ پھر آپ ﷺ نے حضرت طلحہ کو بلایا اور وہ بال ان کو دے دیے ۔ اس کے بعد حجام کے سامنے دوسری جانب فرمائی۔ اس نے ادھر کے بال بھی مونڈھ دیے۔ رسول ﷺ نے وہ بال حضرت ابو طلحہ کو دیے اور فرمایا کہ یہ بال لوگوں میں بانٹ دو۔
صحیح مسلم، کتاب، کتاب الحج ترجمہ از مولانا عزیز الرحمان، جامعہ اشرفیہ لاہور
حضرت انس سے مروی ہے:
میں نے رسول ﷺ کو دیکھا کہ حجام رسول ﷺ کے سر مبارک کی حجامت بنا رہا ہے اور صحابہ کرام رسول ﷺ کے گرد حلقہ باندحے ہوئے کھڑے ہیں اور چاہتے ہیں کہ رسول ﷺ کا جو بال بھی گرے وہ کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گرے۔
- صحیح مسلم 256:2
- مسند احمد بن حنبل 137:3
احادیث کا ذخیرہ تو بہت ہی طویل ہے۔ مگر حق پانے کے لیے یہ بھی بہت۔
مزید اس لیے نہیں نقل کرتی کہ گھوڑے کو آپ پانی کے کنویں کے قریب تو لا سکتے ہیں مگر اسے پانی پینے پر مجبور نہیں کر سکتے۔
اور اگر کوئی اتنی تواتر والی، اتنی واضح اور روشن احادیث کو اب بھی ٹھکراتا ہے، تو مجھے یقین ہے کہ میں سو اور احادیث بھی یہاں پیش کر دوں تب بھی وہ ماننے والا نہیں،۔۔۔ بلکہ اگر اللہ اپنے رسول کو بھی اس موقع پر یہاں بھیج دے اور وہ انہیں یہ پیغام دے، تب بھی یہ ماننے والے نہیں۔