عقیدت اور عقیدہ - تبرکات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

مہوش علی

لائبریرین
میرے خیال سے کافی مراسلات ہو گئے ہیں ...........آپ کا کیا خیال ہے خاتون مہوش علی......؟

اس طرح بحث کبھی ختم نہیں ہو گی............دو تیر میں چلاوں گا چار آپ ماریں گی ......ایک دو کوئی اور کھینچ دے گا........لیکن فائدے کی بجائے نقصان ہی ہو گا...............میرے خیال سے اب اسے یہیں چھوڑ دینا چاہیئے .......نہیں تو منتظمین آتے ہی ہوں گے......

کسی کو میری باتوں سے تکلیف پہنچی ہو تو میں معذرت خواہ ہوں...........والسلام علیکم

چلیں ٹھیک ہے فاروقی بھائی،
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ اس موضوع پر ہم اپنے اپنے دلائل پیش کر چکے ہیں تو تبرکات کی اس بحث کو ہم یہیں ختم کرتے ہیں اور میں اپنے طور پر اس بحث سے الگ ہونے کا اعلان کر دیتی ہوں۔ باقی بات اب صرف اصل ٹاپک آب زمزم پر رہنے دیتے ہیں۔
 

خاور بلال

محفلین
یعنی یہ تو مانتے ہیں کہ یہ چیزں بیماری سے شفا دیتی ہیں، مگر پھر بھی انکی شفاعت کا انکار ہے

خاتون میں نے تو یہ کہا ہی نہیں کہ ان چیزوں سے شفا ہوتی ہے۔ میں نے تو کہا تھا کہ کچھ بزرگ ان چیزوں کو شفا کی نیت سے استعمال کرتے تھے۔ اس سے آپ نے مجھ پر یہ کہانی فٹ کردی کہ میں انہیں باعثِ شفا سمجھتا ہوں؟ میرے نزدیک تو ان چیزوں میں سے قابلِ شفا وہی چیز ہوسکتی ہے کہ جس کے بارے میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت کردی ہو۔ اب آپ مجھے یہ بتائیں کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے استعمال کی کن چیزوں کے بارے میں صراحت کی ہے کہ ان سے شفاعت کی امید کی جاسکتی ہے؟

یہ صرف آپ کے دل کی بیماری ہے جو آپ کو مجبور کر رہی ہے کہ "دیگر اعمال کی اصلاح" کی اس شرط کو صرف حجر اسود سے منسلک کر دیں۔ حالانکہ اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے اور اللہ چاہتا ہے کہ ہر ہر میدان میں ہم [مسلمان] اپنے تمام تر دیگر اعمال کی اصلاح کریں اور کوئی ایسا عمل نہ کریں جو گناہ کا باعث ہو۔چنانچہ دیگر اعمال کی اصلاح کی یہ شرط الف تا ے تمام اعمال کے ساتھ ہی لگی ہوئی ہے، مثلا ایک شخص خیرات تو خوب کرتا ہو مگر کمائی حرام کی کماتا ہو تو اسکی یہ خیرات قبول نہ ہو گی۔

خیرات ایک ایسا عمل سے جس سے مخلوق کو فائدہ ہوتا ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ حرام مال سے بھی کوئ خیرات کرتا ہے تو اس کو کچھ نہ کچھ نمبر ضرور ملیں گے کیونکہ کسی غریب کا چولھا جل جانے سے اور اس غریب کی دعاؤں سے ضرور اجر میں اضافہ ہوسکتا ہے۔ لیکن مجرد کسی تبرک کو چومنے یا اسے پانی سے مس کرکے پینے یا اسے اپنے ساتھ دفنانے سے کیونکر شفاعت ہونے لگی؟ خدا کی بستی میں تبرکات نبوی آخر کتنے لوگوں کے پاس ہوں گے؟ چند ایک کے پاس۔ تو باقی مخلوقِ خدا نے کیا غلطی کی کہ وہ ان تبرکات کی سستی شفاعت سے محروم رہی۔ تبرکات نبوی تو چھوڑیں کیا خدا کے ہاں کسی کو اس وجہ سے امتیاز حاصل ہوسکے گا کہ اس نے براہِ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض حاصل کیا انہیں چھوا یا ان کی قربت میں بیٹھا یا ان سے کلام کیا؟ اگر واقعی محض نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضری دے لینا وجہ امتیاز ہوسکتا ہے تو میں خدا سے یہ سوال ضرور کروں گا کہ تو نے مجھے نمبر بڑھانے کا یہ موقع کیوں نہ دیا۔

علی ابن ابی طالب کہتے ہیں کہ حجر اسود روز شفاعت کرے گا، مگر علی ابن ابی طالب کی بھلا آپکے قیاسات کے مقابلے میں کیا حیثیت۔

ایک بات میں صاف کہہ دوں کہ علی ابنِ طالب رضی اللہ تعالیٰ کے ثابت شدہ قول کو جھٹلانے کی ہمت مجھ میں نہیں۔ انہوں نے حجرِ اسود سے متعلق جو بات کہی ہے وہ میں مانتا ہوں۔ حجرِ اسود سے متعلق جو دوسری صحیح احادیث ہیں ان کی روشنی میں اس قول کو دیکھیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اصل میں تو کسی شخص کے اعمال ہی اسے اس قابل بناتے ہیں کہ آیا حجرِ اسود اس کی سفارش کرے گا یا نہیں۔ اور پھر نیکو کاروں کی ایک بڑی تعداد جو استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے حجرِ اسود کو چومنے سے محروم رہی اور دنیا سے چل بسی تو کیا خدا کے ہاں ان لوگوں کو اس لیے کم نمبر ملیں گے کہ انہوں نے حجرِ اسود کو نہ چوما؟
 
اللہ تعالی فرماتا ہے کہ دلیل لاو اگر تم سچے ہو۔
اور میں ایسے مراسلوں کا کیا جواب دوں جو دلائل سے بالکل عاری ہوں
۔
اس پوسٹ کی مخاطب آپ نہیں‌بلکہ خاور بلال تھے۔
ویسے میں دالائل اور حوالہ جات کا حشر سیاست کے زمرہ میں دیکھ چکا ہوں بلکہ کئی اور جگہ بھی اور اس کے بعد بلا وجہ اپنی توانائیاں برباد کرنے کو جی چاہتا نہیں اور وہ بھی بطور خاص آپ کے حوالے سے۔ تا ہم تا ہم۔۔

۔ ظاہر بالمقابل مجاز
2۔ ظاہر بالمقابل باطن

اگرچہ کہ ظاہر دونوں جگہ بطور مدمقابل ہے، مگر "مجاز" اور "باطن" میں فرق ہے۔

مجاز کے متعلق میں نے قران سے بے تحاشہ دلائل اوپر نقل کر دیے ہیں کہ نبی کو روف و رحیم اگر ماننے انکار کر دو کہ اللہ روف و رحیم ہے، تو یہ ظاہر پرستی ہے جبکہ مجازی معنوں میں رسول کو بھی روف و رحیم ماننا واجب۔
اسی طرح جب اللہ خود فرما دے کہ اللہ کے ساتھ اسکا رسول بھی اپنے فضل سے غنی کرتا ہے تو ظاہر پرست لاکھ سر پٹخ لیں، اور کرتے رہیں مجاز کو ماننے کا انکار، یہ انکی قسمت مگر میں تو قران و قول رسول سے کسی کے کہنے سے منحرف نہیں ہو سکتی۔
قرآن کے مجازی اور باطنی معنی ان لوگوں کو مبارک ہوں جو قرآن کو اپنے مطلب کے مطابق استعمال کرنا چاہتے ہوں یہ ضرور ہے کہ قرآن سلاست کے ساتھ ساتھ بلاغت کا بھی شاہکار ہے تاہم تاریخ اسلام میں مجازی معنی اور ساتھ ساتھ قرآن کے باطنی معنی کے حوالوں سے جو کچھ اناپ سناپ بکا جاتا رہا ہے میں اس سے بھی بخوبی واقف ہوں الحمد للہ اس سلسلے میں کسی اسلام پورٹ یا مکتبہ شاملہ (جو کہ اغلاط سے پر ہیں(کا بھی محتاج نہیں۔

جو کچھ آپ نے اپنے موقف کے لیے بطور دلائل کے باتیں بیان کی ہیں وہ از قسم دلائل ہے ہی نہیں آپ نے صرف تصویر کا ایک رخ دکھایا ہے اور باقی باقی باتیں نظر انداز کر دی ہیں اور بات صرف وہی ہے جو خاور بلال کہ چکے ہیں اہل سنت اہل تشیع اور اسماعیلیت ( جو کہ باطنیت اور مجازی معنوں کے سب سے بڑے علمبردار ہیں ( کے حوالوں سے قرآن کے مجازی اور باطنی معنوں پر اور نظریہ امامت جو کہ اس فتنے کی جڑ ہے پر میں جلد ہی ایک پوسٹ اس فورم پر کروں گا جس سے انشا ء اللہ نہ صرف اس مجازی اور باطنی معنوں کی قلعی کھل جائے گئی بلکہ امامت کا پردہ بھی چاک ہو جائے گا۔
 

طالوت

محفلین
مجھے اس کاوش کا انتظار رہے گا ابن حسن ، لیکن ساتھ یہ خدشہ بھی کہ وہ چل نہ سکے گی ، کہ ہمارے یہاں دلائل نہ ہونے پر ذاتیات کی طرف رجوع کیا جاتا ہے ۔۔
وسلام
 

مہوش علی

لائبریرین
فاروقی بھائی، یہ ناانصافی ہے۔ جب آپ مجھ سے لڑی پر گفتگو ختم کرنےکے لیے زور دے رہے تھے تو یہی زور آپ کو فریق مخالف پر بھی دینا چاہیے تھا۔ اور اگر وہ آپ کی بات نہ مانتے تو اور بات ہے، مگر آپ انکے مراسلوں پر اسکے بعد شکریہ بھی ادا کریں تو یہ صحیح بات نہیں۔
بہرحال، بات میری طرف سے شروع نہیں ہوئی۔ اس لیے میں جواب دینے کا حق محفوظ رکھتی ہوں۔
خاتون میں نے تو یہ کہا ہی نہیں کہ ان چیزوں سے شفا ہوتی ہے۔ میں نے تو کہا تھا کہ کچھ بزرگ ان چیزوں کو شفا کی نیت سے استعمال کرتے تھے۔ اس سے آپ نے مجھ پر یہ کہانی فٹ کردی کہ میں انہیں باعثِ شفا سمجھتا ہوں؟
خاور نوٹ کریں:
1۔ یہ بزرگ= صحابہ کرام [کیا میں غلط کہہ رہی ہوں؟]
2۔ اور کیا آپ کو اندازہ نہیں ہو رہا کہ جس چیز کا آپ سرسری ذکر کر کے آپ چپکے سے آگے نکل جانا چاہ رہے ہیں، اس کا کتنا خطرناک مطلب ہے؟
اسکا مطلب سوائے اسکے اور کچھ نہیں کہ یہ اصحاب بغیر کسی نص کے [آپکے زعم میں] تبرکات نبی سے شفا حاصل کرنے اور نفع حاصل کرنے کے لیے قبر میں ساتھ دفن کروانے پر شرکیہ افعال میں مبتلا ہیں۔
[بلکہ آپ کی بدعت کی تعریف کے مطابق نہ صرف یہ شرکیہ افعال میں مبتلا ہیں، بلکہ ایسا نیا فعل کر رہے ہیں جس کا آپکے مطابق قران و سنت نبوی سے دور دور تک تعلق نہیں بلکہ توحید و سنت کے بالکل مخالف ہے اور یوں شرک کے ساتھ ساتھ بدعت ضلالت میں بھی مبتلا ہیں۔]
3۔ اور نوٹ کریں کہ یہ بزرگ صحابہ و صحابیات "کچھ" یا "چند" نہیں [جیسا کہ آپ قیاس کر رہے ہیں]۔ بلکہ پوری کمیونٹی ہے۔ جناب عائشہ، اسماء بنت ابی بکر، ام المومنین ام سلمہ۔۔۔۔۔ ان کے پاس مدینہ کی پوری کمیونٹی [صحابہ و تابعین] کا یہ عمل تھا کہ وہ رسول ص کے کرتے اور بالوں جیسے تبرکات سے شفا حاصل کرنے کے لیے انکے پاس آتے تھے۔
اور یہ احادیث تواتر سے کہیں آگے تک پہنچی ہوئی ہیں اور ایک نہیں بے تحاشہ صحابہ کا تبرکات نبوی سے شفا و نفع اٹھانے اور قبر میں تبرکات نبی کے لے جانے کا ذکر ہے، ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اسکے مخالف ایک روایت بھی نہیں ملتی کہ ان میں سے کسی نے اسکی مخالفت کی ہو اور اسے شرک سے یا پھر [آپ کے زعم کے مطابق] بدعت ضلالت سے تعبیر کیا ہو۔
اور میں نے اوپر روایت نقل کی ہے جہاں رسول ص نے خود فاطمہ بنت اسد [علی ابن ابی طالب کی والدہ] کے لیے خاص طور پر اپنا کرتہ دیا اور حکم دیا کہ انہیں اس کرتے میں دفنایا جائے۔ پتا نہیں آپ نے کن بند آنکھوں سے یہ واضح اور روشن احادیث نبوی پڑھی ہیں [یا پھر فاروقی بھائی کی طرح پڑھے بغیر بحث میں مبتلا ہو گئے ہیں]
////////////////////////////////////////
از خاور بلال:
میرے نزدیک تو ان چیزوں میں سے قابلِ شفا وہی چیز ہوسکتی ہے کہ جس کے بارے میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت کردی ہو۔ اب آپ مجھے یہ بتائیں کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے استعمال کی کن چیزوں کے بارے میں صراحت کی ہے کہ ان سے شفاعت کی امید کی جاسکتی ہے؟
اللہ، کیا کوئی اتنے تواتر سے اتنی واضح اور روشن احادیث کے بعد بھی یہ سوال کر سکتا ہے؟ باخدا یا تو آپ نے فاروقی بھائی کی طرح احادیث پڑھنے کی زحمت ہی نہیں کی، یا پھر آپ بند آنکھوں اور دل سے باتوں کو پڑھتے ہیں۔
اللہ کے نام پر میں چند احادیث میں اور یہاں ھدیہ کر دیتی ہوں، باقی آپ وہ احادیث پھر پڑھ لیں جو میں اوپر نقل کر چکی ہوں، اور اس سے بھی زیادہ چاہیے تو محترم ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کی وسیلے اور توسل پر آنلائن کتاب کا مطالعہ کر لیں۔

ان احادیث کو پڑھنے سے قبل اس دفعہ براہ مہربانی نوٹ کر لیں:
1۔ جو کام رسول کی موجودگی میں ہو اور رسول اس پر خاموش رہیں، وہ بھی حدیث رسول ہے۔
2۔ اور براہ مہربانی اس دفعہ آنکھیں اور اس سے بڑھ کر دل کو بند رکھنے کی بجائے کھول کر پڑھیے گا۔
3۔ اور ان تمام احادیث نبوی پڑھنے کے بعد میں آپ کا دامن پکڑوں گی کہ کیوں آپ نے قیاس کیا کہ آپ کے زعم کے مطابق یہ "چند بزرگوار" یعنی صحابہ کرام [اور چند نہیں بلکہ پوری کمیونٹی] بنا نص کے اپنی مرضی کے مطابق شرکیہ افعال کر رہی تھی یا پھر عین قول رسول پر عمل پیرا تھی اور آپ اپنے قیاس کے ساتھ انتہائی غلطی و گمراہی پر کھڑے ہیں۔

انس بن مالک روایت کرتے ہیں:
اللہ کے رسولﷺ جب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تو خدام مدینہ اپنے پانی سے بھرے ہوئے برتن لے کر آتے۔ آپﷺ ہر پانی لانے والے کر برتن میں اپنا ہاتھ مبارک ڈبو دیتے۔ بسا اوقات یہ واقعہ موسم سرما کی صبح میں ہوتا اور آپﷺ اپنا ہاتھ اس میں ڈبو دیتے
صحیح مسلم جلد 2، صفحہ 356
تبصرہ: کیا آپکا خیال ہے معاذ اللہ معاذ اللہ، اگر اسکا فعل کا کوئی نفع نہ تھا تو اسکا مطلب ہوا کہ خدا کا رسول پانی میں اپنا ہاتھ ڈبونے کے فضول کام میں خاہ مخواہ ہی مشغول تھا؟

حضرت علی کا رسولﷺ کے لعاب دہن سے درد سے نجات پانا

ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا کہا ہم سے یعقوب بن عبدالرحمن نے انہوں نے ابو حازم سے کہا مجھ کو سہل بن سعد نے خبر دی کہ آنحضرت ﷺ نے خیبر کے دن یوں فرمایا میں کل ایسے شخص کو جھنڈا دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ فتح کرا دے گا۔ وہ اللہ اور رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور رسول اس سے محبت رکھتے ہیں۔ آپﷺ کا یہ فرمانا سن کر لوگ رات بھر کھسر پھسر کرتے رہے کہ دیکھئے جھنڈا کس کو ملتا ہے۔ صبح ہوتے ہی سب لوگ ّآنحضرت ﷺ کے پاس آئے۔ ہر ایک کو امید تھی شائد جھنڈا مجھ کو ملے۔ آپﷺ نے پوچھا کہ علی ابن ابی طالب کہاں ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ان کی تو آنکھیں دکھ رہی ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا ان کو بلا بھیجو۔ لوگ ان کو لے آئے۔ آنحضرتﷺ نے ان کی آنکھوں پر اپنا لعابِ دہن لگا دیا اور ان کے لئے دعا کی۔ پھر وہ تو ایسے تندردست ہوئے جیسے کوئی شکوہ ہی نہ تھا۔
صحیح بخاری، کتاب المغازی، ترجمہ از مولانا وحید الزمان خان
تبصرہ:
1۔ علی ابن ابی طالب نے براہ راست ڈائریکٹ اللہ سے ہی کیوں شفا نہ مانگ لی؟
2۔ اور رسول ص کو [آپکے زعم کے مطابق] اس بے کار و بے نفع و بیکار عمل کی کیا ضرورت تھی جب آپ ص نے اپنا لعاب دہن علی ابن ابی طالب کی آنکھوں پر لگایا؟

صحابی سلمہ کے زخم کا رسولﷺ کے لعاب دہن سے مندمل ہونا

ہم سے مکی بن ابراہیم نے بیان کیا کہا ہم سے یزید بن ابی عبید نے انہوں نے کہا میں نے سلمہ بن اکوع کی پنڈلی میں ایک ضرب کا نشان دیکھا۔ میں نے پوچھا ابو مسلم (سلمہ کی کنیت) یہ نشان کیسا ہے، انہوں نے کہا یہ مار مجھے خیبر کے دن لگی تھی۔ لوگ کہنے لگے سلمہ مارے گئے (ایسی سخت مار لگی) پھر میں آنحضرت ﷺ کے پاس آیا۔ آپ ﷺ نے تین بار اس پر پھونک مار دی۔ مجھے (اُس دن کے بعد سے) آج تک کوئی تکلیف اس مار (ضرب) کی نہیں ہوئی۔
صحیح بخاری، کتاب المغازی، ج 2 ص 664 ، ترجمہ از مولانا وحید الزمان خان
تبصرہ:
1۔ آپ کے زعم کے مطابق، کیا رسول پھونکیں مارنے کے بے نفع و بے فائدہ کام میں مشغول تھا؟

حضرت عائشہ کا رسولﷺ کے ہاتھوں کو ان کی بیماری اور درد سے نجات کے لیے استعمال

مجھ سے ابراہیم بن موسیٰ نے بیان کیا کہا ہم کو ہشام بن یوسف نے خبر دی، انہوں نے معمر سے انہوں نے زہری سے انہوں نے عروہ سے انہوں نے حضرت عائشہ سے کہ آنحضرتﷺ مرض الموت میں معوذات (سورہ فلق اور سورہ الناس) پڑھ کر اپنے اوپر پھونکتے۔ جب آپﷺ پر بیماری کی شدت ہوئی تو میں پڑھ کر آپ ﷺ پر پھونکتی اور آپﷺ کا ہاتھ آپ ﷺ کے جسم پر پھیراتی برکت کے لئے، معمر نے کہا میں نے زہری سے پوچھا کیونکر پھونکتے تھے۔ انہوں نے کہا دونوں ہاتھوں پر دم کر کے ان کو منہ پر پھیر لے۔
صحیح بخاری، کتاب الطب، ج 3 ص 338۔339 ، ترجمہ از مولانا وحید الزمان خان صاحب
تبصرہ:
جناب عائشہ کو کیا ضرورت تھی کہ بیمار رسول ص کو بیماری میں تکلیف دیتیں۔ کیا درد کے خلاف صرف اللہ سے دعا کر لیتیں تو کافی نہ تھا؟ چلیں معوذتین پڑھی تھی تو یہی کافی ہوتا۔ چلیں اس پر بس نہیں کیا تھا تو اپنے ہاتھوں پر پھونک کر جسم پر پھیر دیتیں۔۔۔۔ مگر نہیں، بیمار رسول ص کی اپنے ہاتھوں میں پھونک کر انہی کے ہاتھوں کو جسم پر پھیر رہی ہیں۔

اسی ضمن میں دوسری حدیث ہے:
ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، کہا مجھ سے عبد ربہ بن سعید نے، انہوں نے عمرہ سے، انہوں نے حضرت عائشہ سے کہ آنحضرت ﷺ بیمار کے لئے (کلمے کی انگلی زمین پر لگا کر) فرماتے بسم اللہ یہ ہماری زمین (مدینہ) کی مٹی ہم میں سے کسی کے تھوک کے ساتھ (ہمارے مالک کے حکم سے) چنگا (تندرست) کر دے گی۔
صحیح بخاری، کتاب الطب، ترجمہ از مولانا وحید الزمان خان صاحب
تبصرہ:
رسول ص تو کہیں کہ مدینہ کی زمین میں بھی شفا ہے مگر آپ کہیں کہ یہ چند بزرگوں کی اپنی بنائی ہوئی نئی بدعت ہے [جبکہ ہر بدعت ضلالت ہے اور آپ کے گمراہ کن قیاس پر چلیں تو ان بزرگواروں کی پوری کمیونٹی کو معاذ اللہ ضلالت و گمراہی میں مبتلا سمجھنا ہو گا]۔
وہ چشمہ کہ جہاں حضرت صالح کی اونٹنی نے پانی پیا تھا

ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا کہا ہم سے انس بن عیاض نے انہوں نے عبید اللہ عمری سے انہوں نے نافع سے ان سے عبداللہ بن عمر نے بیان کیا لوگ (غزوہ تبوک میں) آنحضرتﷺ کے ساتھ حجر میں جا کر اترے۔ وہاں کے کنویں سے مشکیں بھریں آٹا گوندھا، آنحضرتﷺ نے یہ حکم دیا کہ پانی (جو مشکوں میں تھا) بہا ڈالیں اور آٹا جو اس سے گوندھا تھا، وہ اونٹوں کو کھلا دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا اس کنویں کا پانی لو جس کا پانی حضرت صالح(علیہ السلام) کی اونٹنی پیا کرتی تھی۔ عبید اللہ کے ساتھ اس حدیث کو اسامہ نے بھی نافع سے روایت کیا ہے۔
صحیح بخاری، کتاب بدءالخلق، ترجمہ از مولانا وحید الزمان خان صاحب
تبصرہ:
صالح علیہ السلام کی اونٹنی شعائر اللہ میں سے تھی۔ مگر جس کنویں سے اس نے پانی پی لی وہ بھی متبرک بن گیا۔ اب لگائیے رسول ص پر شرک کا فتوی کہ بے نفع و بے فائدہ فعل میں صحابہ کو مبتلا کر رہا تھا [معاذ اللہ]

جب شیرِ خدا مولا علی (علیہ السلام) کی والدہ ماجدہ حضرت فاطمہ بنت اسد کا انتقال ہوا تو رسول ﷺ نے ان کی تجہیز و تکفین کے لیے خصوصی اہتمام فرمایا۔ غسل کے بعد جب انہیں قمیص پہنانے کا موقع آیا تو رسول ﷺ نے اپنا کرتہ مبارک عورتوں کو عطا فرمایا اور حکم دیا کہ یہ کرتہ پہنا کر اوپر کفن لپیٹ دیں۔
quote_end.gif


  1. المعجم لاکیبر للطبرانی 24:2
  2. الاستیعاب ابن عبد البر 282:4
  3. اسد الغابہ 213:7
  4. الاصابہ فہ تمیز الصحابہ 380:4
تبصرہ:
جب رسول کے کرتے کا کچھ فائدہ و نفع ہی نہیں تو کیوں فضول میں رسول اپنا کرتہ دے رہا ہے اور حکم دے رہا ہے کہ اس میں دفن کیا جائے؟ اور آپ کے اس سنگین غلط استدلال کی پیروی کی جائے تو معاذ اللہ معاذ اللہ رسول ص کے اسی فضول و بے کار فعل کی وجہ سے بے تحاشہ صحابہ گمراہی میں مبتلا ہو گئے اور جب دفن ہونے لگے تو وصیت کرنے لگے کہ تبرکات نبوی بھی انکے ساتھ دفن کیے جائیں [صحیح بخاری و مسلم کے بے تحاشہ حوالہ جات میں اوپر نقل کر چکی ہوں]

اے قوم! اللہ کی قسم! میں بادشاہوں کے درباروں میں حاضر ہوا ہوں اور قیصر و کسریٰ اور نجاشی کے ہاں بھی گیا ہوں۔ اللہ کی قسم! میں نے کبھی کوئی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا کہ جس کے اسحاب اس کی ایسی تعظیم کرتے ہوں جیسی محمدﷺ کے اصحاب ان کی کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم! انہوں نے جب کبھی لعاب دہن پہینکا ہے تو ہو آپﷺ کے اصحاب میں سے کسی نہ کسی کے ہاتھ پر گرا ہے جسے انہوں نے اپنے منہ اور جسم پر مل لیا۔ جب وہ اپنے اصحاب کو حکم دیتے ہیں تو وہ اس کی تعمیل کے لیے دوڑتے ہیں اور جب ہو وضو فرماتے ہیں تو وہ ان کے وضو کے پانی کے حصول کے لیے باہم جھگڑنے کہ نوبت تک پہنچ جاتی ہے۔ اور جب وہ گفتگو کرتے ہیں تو اصحاب ان کے سامنے اپنی آوازیں پست کر لیتے ہیں اور ازروئے تعظیم ان کی طرف تیز نگاہ نہیں کرتے ہیں۔ انہوں نے تم پر ایک نیک امر پیش کیا ہے پس تم اسے قبول کر لو۔
صحیح بخاری، کتاب الشروط، ترجمہ از مولانا وحید الزمان خان
تبصرہ:
رسول ص کے سامنے صحابہ کرام وضو کے پانی کے حصول میں جلدی کرتے تھے اور برکت حاصل کرتے تھے۔ یہ تقریر رسول ہے اور یہی چیز رسول ص کی وفات کے بعد صحابہ کرام کر رہے تھے کہ جس کو آپ نے "چند بزرگواروں کا ذاتی فعل" کہہ کر مسلسل ٹھکرانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
رسولﷺ کی کلی کے پانی سے حصولِ برکت

حضرت ابو موسیٰ روایت کرتے ہیں:
میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ تھا جب آپﷺ جعرانہ میں تشریف لائے، جو کہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ہے۔ آپﷺ کے ساتھ حضرت بلال (رضی اللہ عنہ) بھی تھے۔ ایک اعرابی آپﷺ کے پاس آیا اور بولا: اے محمد! کیا آپ نے مجھ سے کیا ہوا وعدہ پورا نہیں کیا۔ آپﷺ نے اسے فرمایا: خوش ہو جاؤ۔ وہ بولا:آپﷺ نے بہت دفعہ کہا ہے کہ خوش ہو جاؤ۔ یہ سن کر رسولﷺ غصے کی حالت میں حضرت ابو موسیٰ اور حضرت بلال کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: اس شخص نے میری بشارت کو رد کیا، اب تم دونوں میری بشارت قبول کرو۔ دونوں نے عرض کی: یا رسول اللہ! ہم نے خوشخبری کو قبول کیا۔ پھر آپﷺ نے ایک پیالہ پانی کا منگوایا اور دونوں ہاتھ اور چہرہ دھوئے اور اس میں کلی کی۔ پھر فرمایا کی اسے پی جاؤ اور اپنے منہ اور سینے پر ڈالو اور خوش ہو جاؤ۔ ان دونوں نے پیالہ لیا اور ایسے ہی کیا جیسے آپﷺ نے انہیں فرمایا تھا۔ حضرت ام سلمہ نے ان کو پردے کے پیچھے سے آواز دی: اپنی ماں کے لیے بھی اپنے برتنوں میں سے بچاؤ۔ پس انہوں نے ان کے لیے بھی کچھ پانی رکھ لیا۔
صحیح مسلم، کتاب الفضائل، ج 3 ص 721، ترجمہ از مولانا عزیز الرحمان، جامعہ االاشرفیہ، لاہور
صحیح مسلم، کتاب الفضائل، ج 3 ص 722، ترجمہ از مولانا عزیز الرحمان، جامعہ االاشرفیہ، لاہور
رسول اللہ ﷺ کا نوزائیدہ بچوں کے منہ میں برکت کے لئے اپنا لعابِ دہن دینا

حضرت اسماء بنت ابو بکر بیان کرتی ہیں:

میں مکہ میں ہی عبداللہ بن زبیر سے حاملہ ہو گئی تھی۔ حمل کے دن پورے ہونے کو تھے کہ میں مدینہ کے لیے روانہ ہوئی۔ میں پبا میں اتری اور قباء میں یہ میرا بچہ (عباللہ بن زبیر) پیدا ہوا۔ پھر میں اسے رسولﷺ کی خدمت اقدس میں لے کر حاضر ہوئی اور میں نے اسے آپﷺ کی گود مبارک میں ڈال دیا۔ پھر آپﷺ نے کھجور منگوائی اور اسے چبایا۔ پھر بچے کے منہ مین لعابِ دہن ڈال دیا اور جو چیز سب سے پہلے اس کے پیٹ میں داخل ہوئی وہ آپﷺ کا لعاب تھا۔ پھر آپﷺ نے اس کے تالو میں کھجور لگا دی اور اس کے حق میں دعا کی اور اس پر مبارکباد دی۔
صحیح مسلم، کتاب الاداب، ترجمہ از مولانا عزیز الرحمان، جامعہ اشرفیہ، لاہور
تقریباً 100 کے قریب انصار اور مہاجرین کے نام اسناد کے ساتھ کتابوں میں موجود ہیں کہ جنہوں نے رسول اللہ ﷺ کے لعابِ دہن سے برکت حاصل کی۔
رسولﷺ کے موئے مبارک سے حصولِ برکت

حضرت انس سے روایت ہے:
جب رسول ﷺحج کے موقع پر قربانی دینے سے فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے سر کا دایاں حصہ حجام کے سامنے کر دیا۔ اس نے بال مبارک مونڈھ دیے۔ پھر آپ ﷺ نے حضرت طلحہ کو بلایا اور وہ بال ان کو دے دیے ۔ اس کے بعد حجام کے سامنے دوسری جانب فرمائی۔ اس نے ادھر کے بال بھی مونڈھ دیے۔ رسول ﷺ نے وہ بال حضرت ابو طلحہ کو دیے اور فرمایا کہ یہ بال لوگوں میں بانٹ دو۔
صحیح مسلم، کتاب، کتاب الحج ترجمہ از مولانا عزیز الرحمان، جامعہ اشرفیہ لاہور


حضرت انس سے مروی ہے:

میں نے رسول ﷺ کو دیکھا کہ حجام رسول ﷺ کے سر مبارک کی حجامت بنا رہا ہے اور صحابہ کرام رسول ﷺ کے گرد حلقہ باندحے ہوئے کھڑے ہیں اور چاہتے ہیں کہ رسول ﷺ کا جو بال بھی گرے وہ کسی نہ کسی کے ہاتھ میں گرے۔

  1. صحیح مسلم 256:2
  2. مسند احمد بن حنبل 137:3
احادیث کا ذخیرہ تو بہت ہی طویل ہے۔ مگر حق پانے کے لیے یہ بھی بہت۔
مزید اس لیے نہیں نقل کرتی کہ گھوڑے کو آپ پانی کے کنویں کے قریب تو لا سکتے ہیں مگر اسے پانی پینے پر مجبور نہیں کر سکتے۔
اور اگر کوئی اتنی تواتر والی، اتنی واضح اور روشن احادیث کو اب بھی ٹھکراتا ہے، تو مجھے یقین ہے کہ میں سو اور احادیث بھی یہاں پیش کر دوں تب بھی وہ ماننے والا نہیں،۔۔۔ بلکہ اگر اللہ اپنے رسول کو بھی اس موقع پر یہاں بھیج دے اور وہ انہیں یہ پیغام دے، تب بھی یہ ماننے والے نہیں۔
 

مہوش علی

لائبریرین
از بلال خاور:
خیرات ایک ایسا عمل سے جس سے مخلوق کو فائدہ ہوتا ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ حرام مال سے بھی کوئ خیرات کرتا ہے تو اس کو کچھ نہ کچھ نمبر ضرور ملیں گے کیونکہ کسی غریب کا چولھا جل جانے سے اور اس غریب کی دعاؤں سے ضرور اجر میں اضافہ ہوسکتا ہے۔
خاور صاحب، بحث برائے بحث میں پڑنے کا فائدہ کیا۔
حجر اسود کو چومنا اور خیرات کرنا دونوں نیک اعمال ہیں، اور اگر کوئی ایک شخص چند ایک دیگر غلط کام کرتے ہیں تو بھی ان دونوں کا ثواب و اجر ملے گا۔
مگر آپ کی چالاکی اور ناانصافی یہ ہے کہ حجر اسود کے معاملے میں بقیہ تمام کے تمام اعمال کو سیاہ بنا دیتے ہیں اور اس بنا پر حجر اسود کے متعلق مطلقا کسی بھی اجر و ثواب کا انکار کر دیتے ہیں اور اسے صرف اور صرف بے اجر و بے فائدہ عقیدت قرار دے دیتے ہیں۔
عقلمند کے لیے اشارہ کافی۔ جتنا مرضی سر پٹخ لیں مگر شعائر اللہ کی تعظیم کا نیک اعمال میں شامل ہونے کا انکار ممکن نہیں، اور جسے ہدایت حاصل کرنا ہے وہ حاصل کر کے رہے گا۔ انشاء اللہ۔
///////////////////////////////////////////
از خاور بلال:
خدا کی بستی میں تبرکات نبوی آخر کتنے لوگوں کے پاس ہوں گے؟ چند ایک کے پاس۔ تو باقی مخلوقِ خدا نے کیا غلطی کی کہ وہ ان تبرکات کی سستی شفاعت سے محروم رہی۔ تبرکات نبوی تو چھوڑیں کیا خدا کے ہاں کسی کو اس وجہ سے امتیاز حاصل ہوسکے گا کہ اس نے براہِ راست رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض حاصل کیا انہیں چھوا یا ان کی قربت میں بیٹھا یا ان سے کلام کیا؟ اگر واقعی محض نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضری دے لینا وجہ امتیاز ہوسکتا ہے تو میں خدا سے یہ سوال ضرور کروں گا کہ تو نے مجھے نمبر بڑھانے کا یہ موقع کیوں نہ دیا۔۔۔اور پھر نیکو کاروں کی ایک بڑی تعداد جو استطاعت نہ ہونے کی وجہ سے حجرِ اسود کو چومنے سے محروم رہی اور دنیا سے چل بسی تو کیا خدا کے ہاں ان لوگوں کو اس لیے کم نمبر ملیں گے کہ انہوں نے حجرِ اسود کو نہ چوما؟

انتہائی بدقسمتی ہے کہ نص کے مقابلے میں عقل کے ایسے ایسے ہتھکنڈے استعمال کر کے اتنے تواتر ، روشن اور واضح احادیث نبوی کا انکار کیا جا رہا ہے۔
جب ہم نے اللہ کو اپنا رب تسلیم کر لیا، اور اسکے رسول کے فرمان فرمان کو اپنے لیے حکم سمجھ لیا تو پھربھی نص کے مقابلے میں ایسے عقلی ہتھکنڈے استعمال کر کے انکے انکار کا کیا مقصد؟
اور واضح اور روشن حکم الہی کے مقابلے میں سب سے پہلے ایسا عقلی ہتھکنڈہ استعمال کر کے انکا انکار کرنے والا سب سے پہلا شخص شیطان ابلیس تھا جو وہ حکم الہی کے مقابلے میں عقلی دلیل لے آیا کہ میں کیوں اس خاک کے پتلے کو سجدہ کروں جبکہ میں آگ سے بنا ہوں۔

اور اگر ایسے ہی نص کو اپنی عقل سے رد کرنا ہے تو تبرکات نبوی کے متعلق عدل الہی پر انگلی اٹھانے سے قبل ذیل کے نمونے دیکھ لیں:
1۔ کیا ہو گا جب آپکی روش پر چلتے ہوئے پہاڑوں، غاروں اور بیابانوں میں رہنے والا انسان، جو کہ مسلمان گھرانے میں پیدا نہ ہوا، اُس تک کبھی کوئی اللہ کا نام لینے والا مبلغ نہیں پہنچا، جس کے چہار طرف صرف شرک ہی شرک تھا اور روشنی کی کوئی کرن نہ تھی۔۔۔۔ وہ آگے بڑھ کر خدا کا دامن تھام لے کہ یا الہی یہ کیسی ناانصافی کہ مجھ سے شرک کرنے کا حساب مانگ رہا ہے۔ کیوں تو نے مجھے نہیں پھر پیدا کر دیا مسلمان گھرانے میں، جہاں اسلام اور توحید کو میری ماں اپنے دودھ میں مجھے پلاتی اور توحید مرے گٹھی میں پڑی ہوتی، اور میرے چہار سو توحید کی کرنیں پھوٹ رہی ہوتیں۔
2۔ اور فرعون کا جب وقت حساب آئے تو آپکی اس روش پر چلتا ہوا وہ بھی خدا کا دامن تھام لے کہ اگر تو نے موسی کی بجائے مجھے اپنا منتخب بندہ چن لیا ہوتا تو میں بھی شرک نہ کرتا، اگر میرے ماں باپ بھی مسلمان ہوتے اور میری گٹھی میں اسلام ڈالتے تو میں بھی موسی کی طرح موحد ہوتا۔
3۔ اور نمرود بھی یوم حساب آپ کی روش پر چلتا ہوا یوم حساب آگے بڑھ کر خدا کے عدل کو چیلنج کر دے کہ بجائے ابراہیم کے مجھے اپنا معصوم و چنندہ بندہ منتخب لیا ہوتا تو میں بھی موحد ہوتا۔
4۔ اور لاکھوں کڑوڑوں عیسائی و یہودی بھی آپکی روش پر چلتے ہوئے خدائی عدل پر انگلی اٹھا دیں کہ اگر تو نے بھی قرآن کی طرح توریت اور انجیل کی بھی حفاظت کی ہوتی اور توحید کی تعلیمات ان تک بنا تحریف کے پہنچا دی ہوتی تو وہ بھی موحد ہوتے۔ اور محمد ص کے نام، قبیلے، سن ولادت، مقام پیدائش۔۔۔ ان سب کو توریت و انجیل میں بیان کر کے انکی حفاظت کر لی ہوتی تو لاکھوں کڑوڑوں اہل کتاب یہودی و عیسائی بنا مشکل کے محمد ص کے ہاتھوں پر اسلام لے آتے۔

تو نص کے مقابلے میں اپنی عقلی ہتھکنڈے استعمال کر کے جس لائن میں آپ لگنا چاہ رہے ہیں، تو دیکھ لیں کہ اس لائن میں آپ سے پہلے فرعون و نمرود پہلے ہی اپنا نمبر لگائے بیٹھے ہیں۔

اور اب بھی آپ ان واضح، روشن اور تواتر سے کہیں زیادہ آگے پہنچی ہوئی احادیث نبوی کو عقلی دلیل کی بنیاد پر عدلی الہیہ پر تنقید کرتے ہوئے رد کرتے ہیں تو اللہ اور اسکا رسول ص اور اسکے فرشتے آپ کے اعمال پر بہتر گواہ ہیں، اور اللہ کے حکم کے مطابق میرا کام، میرا فرض، میری ڈیوٹی ہرگز منوانا نہیں بلکہ صرف اچھے طریقے سے دلائل کے ساتھ اللہ کے پیغام کو پہنچا دینا ہے۔
اللھم صلی اللہ محمد و آل محمد۔
 

فاروقی

معطل
فاروقی بھائی، یہ ناانصافی ہے۔ جب آپ مجھ سے لڑی پر گفتگو ختم کرنےکے لیے زور دے رہے تھے تو یہی زور آپ کو فریق مخالف پر بھی دینا چاہیے تھا۔ اور اگر وہ آپ کی بات نہ مانتے تو اور بات ہے، مگر آپ انکے مراسلوں پر اسکے بعد شکریہ بھی ادا کریں تو یہ صحیح بات نہیں۔
بہرحال، بات میری طرف سے شروع نہیں ہوئی۔ اس لیے میں جواب دینے کا حق محفوظ رکھتی ہوں۔

دیکھیئے میں نے وہ پیغام سب کے لیئے لکھا تھا ۔۔۔۔۔۔اب کسی سے منوانا نہ منوانا تو میرے اختیار میں نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے اس پغام کے بعد خود بحث کو ختم کر دیا ہے ۔۔۔۔۔۔آپ کا ماننا نہ ماننا آپ لوگوں کے اختیار میں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور شکریہ کا یہ مطلب مت لیا کیجیئے کہ پوسٹ پسند آنے پر ہی ادا کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔آپ اپنی پیچھلی پوسٹیں پہلے بھی دیکھ چکی ہوں گی کہ آپ سے اختلاف ہوتے ہوئے بھی میں نے آپکی پوسٹوں کا شکریہ ادا کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ صرف اس لیئے کہ ۔۔۔۔۔۔۔ایک تو مجھے پتا چل جاتا ہے کہ میں یہ پوسٹیں پڑھ چکا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دوسرا یہ کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ مجھے اس سے کوئی ذاتی عناد یا بغض ہے۔۔۔۔۔۔۔۔امید ہے آپکا شک دور ہو چکا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر بھی معذرت خواہ ہوں کہ آپ کو انجانے میں تکلیف پہنچی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

[یا پھر فاروقی بھائی کی طرح پڑھے بغیر بحث میں مبتلا ہو گئے ہیں]
باخدا یا تو آپ نے فاروقی بھائی کی طرح احادیث پڑھنے کی زحمت ہی نہیں کی، یا پھر آپ بند آنکھوں اور دل سے باتوں کو پڑھتے ہیں۔
ا

اب جانے بھی دجیئے اس بات کو :)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے خود شرمندگی ہوئی اپنی کہی ہوئی بات سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور آپ ہیں کہ چاروں عالم میں ڈھنڈھورا پیٹ رہی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ہماری غلطی کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔امید ہے معذرت قبول کریں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔:rolleyes:

آپ سب ایک دوسرے کے جوابات شوق سے دیجیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں میں تو باز آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں کہ ہار کر بھی مخالف فریق ہار نہیں مانتا اس طرح کی مباحث سے۔۔۔۔۔۔۔۔اور فائدے کی بجائے الٹا نقصان ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپنا بھی اور دوسرے پڑھنے والوں کا بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں اگر سب دل دماغ کھول کر ایک دوسرے کی بات سنیں ،سمجھیں، اور جب محسوس کریں کہ واقعی ہم غلطی پر تھے تو مان لینے میں ہی ہم سب کی اور اسلام کی عظمت پوشیدہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جسے میری کو ئی بات ناگوار گزرے ۔۔۔۔۔۔۔۔جاہل سمجھ کر معاف کر دے
والسلام علیکم
 

مہوش علی

لائبریرین
دیکھیئے میں نے وہ پیغام سب کے لیئے لکھا تھا ۔۔۔۔۔۔اب کسی سے منوانا نہ منوانا تو میرے اختیار میں نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے اس پغام کے بعد خود بحث کو ختم کر دیا ہے ۔۔۔۔۔۔آپ کا ماننا نہ ماننا آپ لوگوں کے اختیار میں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور شکریہ کا یہ مطلب مت لیا کیجیئے کہ پوسٹ پسند آنے پر ہی ادا کیا جاتا ہے۔۔۔۔۔آپ اپنی پیچھلی پوسٹیں پہلے بھی دیکھ چکی ہوں گی کہ آپ سے اختلاف ہوتے ہوئے بھی میں نے آپکی پوسٹوں کا شکریہ ادا کیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ صرف اس لیئے کہ ۔۔۔۔۔۔۔ایک تو مجھے پتا چل جاتا ہے کہ میں یہ پوسٹیں پڑھ چکا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دوسرا یہ کہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ مجھے اس سے کوئی ذاتی عناد یا بغض ہے۔۔۔۔۔۔۔۔امید ہے آپکا شک دور ہو چکا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر بھی معذرت خواہ ہوں کہ آپ کو انجانے میں تکلیف پہنچی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔



اب جانے بھی دجیئے اس بات کو :)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے خود شرمندگی ہوئی اپنی کہی ہوئی بات سے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور آپ ہیں کہ چاروں عالم میں ڈھنڈھورا پیٹ رہی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ہماری غلطی کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔امید ہے معذرت قبول کریں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔:rolleyes:

آپ سب ایک دوسرے کے جوابات شوق سے دیجیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں میں تو باز آیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کیوں کہ ہار کر بھی مخالف فریق ہار نہیں مانتا اس طرح کی مباحث سے۔۔۔۔۔۔۔۔اور فائدے کی بجائے الٹا نقصان ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپنا بھی اور دوسرے پڑھنے والوں کا بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں اگر سب دل دماغ کھول کر ایک دوسرے کی بات سنیں ،سمجھیں، اور جب محسوس کریں کہ واقعی ہم غلطی پر تھے تو مان لینے میں ہی ہم سب کی اور اسلام کی عظمت پوشیدہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جسے میری کو ئی بات ناگوار گزرے ۔۔۔۔۔۔۔۔جاہل سمجھ کر معاف کر دے
والسلام علیکم
فاروقی بھائی،
:) آپکے اس مراسلے اور اس وضاحت کے بعد میرا دل آپکی طرف سے بالکل صاف ہو گیا ہے۔
اللہ تعالی آپ پر اور محمد و آل محمد پر اپنی رحمتیں و برکتیں نازل فرمائے۔ امین۔
والسلام۔
 

خاور بلال

محفلین
اسکا مطلب سوائے اسکے اور کچھ نہیں کہ یہ اصحاب بغیر کسی نص کے تبرکات نبی سے شفا حاصل کرنے اور نفع حاصل کرنے کے لیے قبر میں ساتھ دفن کروانے پر شرکیہ افعال میں مبتلا ہیں۔ [بلکہ آپ کی بدعت کی تعریف کے مطابق نہ صرف یہ شرکیہ افعال میں مبتلا ہیں، بلکہ ایسا نیا فعل کر رہے ہیں جس کا آپکے مطابق قران و سنت نبوی سے دور دور تک تعلق نہیں بلکہ توحید و سنت کے بالکل مخالف ہے اور یوں شرک کے ساتھ ساتھ بدعت ضلالت میں بھی مبتلا ہیں۔] اور ان تمام احادیث نبوی پڑھنے کے بعد میں آپ کا دامن پکڑوں گی کہ کیوں آپ نے قیاس کیا کہ آپ کے زعم کے مطابق یہ "چند بزرگوار" یعنی صحابہ کرام [اور چند نہیں بلکہ پوری کمیونٹی] بنا نص کے اپنی مرضی کے مطابق شرکیہ افعال کر رہی تھی یا پھر عین قول رسول پر عمل پیرا تھی اور آپ اپنے قیاس کے ساتھ انتہائی غلطی و گمراہی پر کھڑے ہیں۔

میری باتوں کو محض توڑ مروڑ کر ہی نہیں بلکہ انہیں کوٹ کوٹ کر سرمہ بنا کر مہوش نے پیش کیا اور پھر اس سرمے کی شان میں ایک تقریر فرمائی ہے۔ اب ظاہر ہے تقریر کرنے کے لیے کچھ "باعثِ تقریر" دستیاب نہ ہوا تو "ایجاد" کرلیا۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نشانیوں سے صحابہ کو جو عقیدت تھی اسے میں نے کہیں شرک کہا؟ کائنات کے سب سے بڑے انسان کی کچھ نشانیوں کو لوگ اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتے تھے اور اسے بطور عقیدت اپنے ساتھ رکھتے تھے اسے میں نے کہیں بدعت کہا؟ جن اصحاب نے خدا کے نبی کی کسی نشانی کو اپنے ساتھ دفنانے کی ہدایت کی، اس عمل کو میں نے گمراہی کہا؟ لیکن مہوش نے جو غلط بیانی مجھ سے منسوب کی اس سے مجھے اندازہ ہورہا ہے کہ انہوں نے میرے الفاظ کے ظاہری مفہوم پر اکتفا نہ کیا بلکہ اس کے باطنی معنی "کشید" کرکے یہ مفہوم نکالا ہے۔

میں نے یہ بات صاف کہہ دی تھی کہ جن چیزوں کے بارے میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صراحت کرچکے ہیں ان سے انکار ممکن نہیں۔ اس ضمن میں جو احادیث انہوں نے پیش کی ہیں ان سے یہ باتیں پتہ چلتی ہیں

1 لوگ رسول اللہ کے پاس پانی کے برتن لاتے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا ہاتھ ڈبوتے
2 بہت سے صحابہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لعابِ دہن (تھوک) سے شفا ہوئی
3 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو سلمہ کے زخم پر پھونک ماری جس سے تکلیف رفع ہوگئی
4 پانی کے پیالے میں ہاتھ اور چہرہ مبارک دھویا اور اس میں کلی کی، پھر اس پانی کو حضرت ابو موسیٰ اور بلال رضی اللہ تعالیٰ کو دیا کہ اسے پی لو اور اپنے منہ اور سینے پر ڈال لو
5 نوزائیدہ بچے کے منہ میں لعاب ڈالنا
6 حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ کی تکفین کے لیے اپنا کرتہ عنایت کرنا
7 حجامت کے بعد بال ابو طلحہ کو دئیے کہ لوگوں میں بانٹ دو
8 جس کنویں کا پانی حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی نے پیا تھا اسی کا پانی استعمال کرنے کی ترغیب

اب یہ بتائیے کہ اس سے پہلے غارِ ثور والا واقعہ جو میں نے لکھا تھا وہ کیا ان واقعات سے مختلف تھا؟ میں نے تو خود اقرار کیا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ کے زخموں پر تھوک لگایا جس سے ان کے زخم ٹھیک ہوگئے۔ اب جبکہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم رخصت ہوگئے ہیں تو ایسی چیزوں کا دروازہ خود سے خود بند ہوگیا ہے۔ رہی بات حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ کی والدہ کی تکفین کے لیے اپنا کرتا عنایت کرنے کی تو خدا کے نبی نے یہ نہیں کہا کہ یہ کرتا آخرت میں ان کے کام آئیگا۔ کرتا تو صرف ایک علامت ہے آخرت میں جو چیز کام آئیگی وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ جذبہ ہوگا جس کے اظہار کے لیے آپ نے اپنا کرتا انہیں عنایت فرمایا۔ یعنی بذات خود کرتے کی کوئی ویلیو نہیں بلکہ ویلیو یہ ہے کہ خدا کے نبی حضرت علی کی والدہ سے اتنے خوش تھے کہ اپنا کرتا ان کے نام کردیا۔ اور خدا اس جذبے کی قدر کرے گا کرتے کی نہیں۔ کرتا تو قبر میں ہی رہ جائے گا۔ بالکل یہی معاملہ بالوں کا بھی ہے کہ خدا کے نبی اپنے صحابہ کی جانثاری کی اتنی قدر کرتے تھے کہ اپنے بال انہیں بطور نشانی عنایت کیے اصل چیز یہاں بھی جذبہ ہے جس کے تحت بال دیے گئے۔ ان بالوں سے عقیدت کی جاسکتی ہے لیکن یہ بال دربارِ خدا وندی میں کسی کی سفارش کرنے نہیں آئیں گے۔ خدا کے سامنے سرخرو ہونے کے لیے تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور ہی طریقہ بتایا ہے جو کہ سستی شفاعت کے اس فارمولے سے بالکل الٹ ہے اور صحابہ بھی اصل معاملے سے بخوبی واقف تھے جبھی انہوں نے خدا کی خوشنودی پانے کے لیے اپنی زندگیاں لٹائیں۔ اگر عقیدت و تعظیم کے نام پر چومنے چامنے کا یہ کاروبار کسی کام آتا تو خدا کے بندے اپنی آخرت سنوارنے کے لیے آزمائشوں کے دہکتے الاؤ میں کودنے کو ہرگز تیار نہ ہوتے۔

کنویں والا معاملہ یہ ہے کہ غزوۂ تبوک کے موقع پر مسلمانوں کا گزر مدائنِ صالح نامی مقام سے ہوا۔ یہ مقام قوم ثمود کے آثار و کھنڈرات پر مشتمل ہے۔ یہاں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو قومِ ثمود کے یہ آثار دکھائے اور انہیں ثمود کے انجام پر عبرت دلائی۔ ایک جگہ آپ نے ایک کنویں کی نشاندہی کرکے بتایا کہ یہی وہ کنواں ہے جس سے حضرت صالح کی اونٹنی پانی پیتی تھی اور مسلمانوں کو ہدایت کی کہ صرف اسی کنویں سے پانی لینا۔ باقی کنووں کا پانی نہ لینا۔ یہ کنواں یاد دلاتا ہے حضرت صالح کی، ان کی اونٹنی کی جو کہ عام اونٹنی نہیں تھی بلکہ خدا کی نشانی تھی۔ خدا کی یہ نشانی ساری بستی کے صرف اسی ایک کنویں کا پانی پیتی تھی جس کی تقلید میں مسلمانوں نے بھی ساری بستی کے کنویں چھوڑ کر صرف ایک اسی کنویں کے پانی کو استعمال کرنا اپنے لیے باعثِ سعادت سمجھا۔ اگر اس پانی سے کسی کو دنیاوی یا اخروی فائدہ ہونا ہوتا تو خود قومِ ثمود کو ہونا چاہیے تھے جو کہ اس کنویں کا پانی استعمال کرتی تھی۔ آپ اس پانی کو حضرت صالح کی یاد میں پئیں، ان کی اونٹنی سے محبت میں پئیں، خدا کی ایک نشانی کی نشانی سمجھیں، باعثِ سعادت و برکت سمجھ کر پئیں لیکن آخر آپ اسے باعثِ شفاعت ہی سمجھ کر کیوں پینا چاہتے ہیں کہ جس کے بارے میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وعدہ نہیں کیا۔

اسی ضمن میں دوسری حدیث ہے:
ہم سے علی بن عبد اللہ مدینی نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے، کہا مجھ سے عبد ربہ بن سعید نے، انہوں نے عمرہ سے، انہوں نے حضرت عائشہ سے کہ آنحضرت ﷺ بیمار کے لئے (کلمے کی انگلی زمین پر لگا کر) فرماتے بسم اللہ یہ ہماری زمین (مدینہ) کی مٹی ہم میں سے کسی کے تھوک کے ساتھ (ہمارے مالک کے حکم سے) چنگا (تندرست) کر دے گی۔
صحیح بخاری، کتاب الطب، ترجمہ از مولانا وحید الزمان خان صاحب

مدینے کی مٹی سے متعلق جو حدیث پیش کی گئی ہے وہ کلیتاً مدینے کی مٹی کے متعلق نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو آج مدینے میں مٹی کا نام و نشان نہ ہوتا بلکہ ساری مٹی دنیائے عرب و عجم میں بٹ چکی ہوتی۔ یہ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اعجاز ہے کہ ان کے لیے کوئ بھی چیز باعثِ شفا بن سکتی ہے۔ ورنہ تو ایک واقعہ یہ بھی ہے کہ چند لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور شکایت کی کہ مدینہ کی آب و ہوا ہمیں موافق نہیں آرہی ہے، ہم فلاں فلاں بیماریوں میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا، سرکاری جانوروں کے ریوڑ میں جاکر رہو اور سرکاری اونٹنیوں کے دودھ اور ان کے پیشاب پیو۔ اب جس عقیدے کی رو سے مدینے کی مٹی کلیتاً بابرکت ہوسکتی ہے اسی عقیدے کی رو سے اونٹنیوں کا پیشاب بھی کلیتاً بابرکت کیوں نہ ہوا؟ کچھ لوگوں کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم سے کراہت آئے گی اس لیے میں وضاحت کے لیے اس حدیث سے متعلق ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم کے مضمون "تاریخ حدیث شریف" سے ایک پیراگراف نقل کررہا ہوں:

"ایک حدیث میں ہے کہ چند لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور ایک شکایت کی کہ مدینہ کی آب و ہوا ہمیں موافق نہیں آرہی ہے، ہم فلاں فلاں بیماریوں میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا، سرکاری جانوروں کے ریوڑ میں جاکر رہو اور سرکاری اونٹوں اور اونٹنیوں کے دودھ اور ان کے پیشاب پیو۔ بظاہر یہ بات ہمیں حیران کن معلوم ہوتی ہے کہ پیشاب پینے کا حکم کیسے دیا جاسکتا ہے، جب کہ وہ نجس چیز ہے۔ اس مشکل کا حل ہمیں اصول روایت یا درایت کے ذریعے ملتا ہے اور یہ ٹیکنیکل چیز بھی ہے جو میری آپ کی رائے پر مبنی نہیں، بلکہ طبیبوں اور ڈاکٹروں کی رائے پرمبنی ہوگی۔ مثلاً زہر ہمارے لیے سم قاتل ہے لیکن ایک ڈاکٹر کسی خاص بیماری میں مریض کے لیے زہر ہی تجویز کرتا ہے۔ زہر کے بغیر اس کا کوئ علاج ممکن نہیں۔ اس طرح یہ ممکن ہے کہ کوئ خاص بیماری اونٹوں کے پیشاب کے بغیر دور نہ ہوسکتی ہو۔ جب کوئ اور چارہ کار نہ ہوتو ممنوع اور مکروہ چیزیں جائز ہوجاتی ہیں۔ اونٹنیوں کے پیشاب کے متعلق بعض ہمعصر سیاح بیان کرتے ہیں کہ وہ آج بھی بعض بدوی قبائل میں کچھ مخصوص بیمارییوں کے علاج کے لیے مستعمل ہے۔ (ڈاکٹر حمید اللہ)۔" پورا مضمون یہاں

محض خدا کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضری دے لینے، ان کا مشاہدہ کرنے انہیں عیقدت سے چوم لینے یا چھونے سے کسی کو خدا کے ہاں کوئ امتیاز نہیں حاصل ہونے والا۔ یہی بات میں نے کہی تھی کہ جس کے جواب میں فرعون، نمرود اور اہلِ کتاب کی مثالیں دی گئیں۔ میں نے کہا تھا کہ اگر ایسا ہونے لگتا تو تب میں خدا سے سوال کرتا کہ تونے مجھےاس موقع سے کیوں محروم رکھا۔ لیکن مجھے یقین ہے کہ ایسا نہیں ہونے والا۔ جو لوگ براہِ راست نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض یاب ہوئے انہیں یہ advantage ضرور حاصل تھا کہ ان کے سامنے خدا کا نمائندہ بذاتِ خود موجود تھا جس کی شفقت و تعلیم سے وہ براہِ راست ہدایت حاصل کرسکتے تھے اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پر اثر شخصیت بھی ان کے معاملات پر ضرور اثر انداز ہوتی تھی لیکن اسی طرح کا ایک advantage بعد والوں کو بھی حاصل ہے وہ یہ کہ ان کے لیے رعایتیں بہت ہیں اور انہیں ایسی آزمائشوں کا سامنا نہیں جو دورِ نبوی کے مسلمانوں کو پیش آئیں۔ آپ کبھی انبیاء اور ان کے ساتھیوں کی آزمائشوں کا تصور تو کریں آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ بعد والے کتنے سستے میں رہے۔ اور خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سیدھی بات ہمیں سمجھائ ہے وہ یہی ہے کہ جزا وسزا کا معیار اعمال ہوں گے نہ کہ کسی بزرگیدہ شخصیت یا نبی کی رفاقت۔

مہوش تلخ گوئ پر معذرت۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ میری کسی بات کو تسلیم کریں۔ آپ کو چاہیے کہ جوابی پوسٹ میں ان سب باتوں کر رد کردیں۔ لیکن یہ سوچئیے گا ضرور کہ آج جو خرافات ہمارے ہاں پائی جاتی ہیں ان کی ابتدا کیسے ہوئی۔ شروع میں کوئ چیز بھی غلط نہیں ہوتی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ لوگ اس کی شان میں غلو کرکرکے اسے زمین سے آسمان پر پہنچادیتے ہیں یوں ایک کام جو کبھی محض ایک عقیدت کے کے اظہار کے طور پر کیا جارہا تھا اب نجات کے لیے کیا جانے لگا۔ میرا اشارہ آپ کی جانب نہیں اس قوم کی جانب ہے جو خدا کے دین کو عبادات و وظائف کا مجموعہ سمجھتی ہے اور اسی میں نجات ڈھونڈتی ہے۔ جو اسلام کبھی اتنا آفاقی تھا کہ اس نے دنیا کی دنیا بدل ڈالی اسی اسلام کے نام لیواؤں کو آج درود و وظائف، معجزات و تبرکات کی تو سب خبر ہے لیکن دینِ محمد کو اپنا نظامِ حیات بنانے پر کوئی تیار نہیں۔ امت مسلمہ کی موجودہ زبوں حالی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جن چیزوں کی حیثیت ثانوی ہونی چاہیے تھی انہیں اولین ترجیح پر رکھ لیا گیا اور رسول اللہ کے سچے جانشین کا جو اصل مقصد ہونا چاہیے تھا وہ تو کہیں رخصت ہی ہوگیا۔
 

Raheel Anjum

محفلین
صحیح روایات میں ہے کہ سردار منافقین عبداللہ بن ابی کا جب انتقال ہوا تو اس کی تدفین رسول اللہْ کے کرتے میں کی گٕئی۔ کیا یہ کرتا اس کی کوئی شفاعت کر سکے گا؟
 

وجی

لائبریرین
صحیح روایات میں ہے کہ سردار منافقین عبداللہ بن ابی کا جب انتقال ہوا تو اس کی تدفین رسول اللہْ کے کرتے میں کی گٕئی۔ کیا یہ کرتا اس کی کوئی شفاعت کر سکے گا؟

یہ درخواست اس کے بیٹے نے کی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا بھی تھا اور نماز جنازہ بھی پڑھانے کھڑے ہوئے تھے لیکن اللہ کے حکم کے بعد آپ نے نماز جنازہ نہیں پڑھائی اور اس حکم کے بارے میں سورہ توبہ میں ایک آیت بھی موجود ہے
میں دیکھ کر بتاؤں گا ابھی یاد نہیں کون سی آیت ہے
 

طالوت

محفلین
اب جب اس کو بیان کر ہی رہے ہیں تو بخاری کا پورا قصہ بھی بیان کیجیے گا کہ کسطرح عمر فاروق (رض) نے رسول اللہ کو مصلے سے کھینچا ۔۔۔ کہ آیت اتر چکی ہے پھر آپ کیوں پرھا رہے ہیں ۔۔ تاکہ سب جان سکیں کہ موصوف بخاری نے یا کسی اور نے ان کے نام سے کیا خوب نقشہ کھینچا ہے رسول اور صحابہ کے تعلقات کا اور کس طرح سے رسول اللہ کو کم علم اور عمر کو ان سے گستاخی کرتے دکھایا گیا ہے ۔۔۔
(صلوۃ و سلام ہو تمام انبیاء پر)
وسلام
 

وجی

لائبریرین
سورہ توبہ آیت 80 میں ارشاد موجود ہے
" آپ خواہ ان (بدبخت، گستاخ اور آپ کی شان میں طعنہ زنی کرنے والے منافقوں) کے لئے بخشش طلب کریں یا ان کے لئے بخشش طلب نہ کریں، اگر آپ (اپنی طبعی شفقت اور عفو و درگزر کی عادتِ کریمانہ کے پیشِ نظر) ان کے لئے ستر مرتبہ بھی بخشش طلب کریں تو بھی اللہ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا، یہ اس وجہ سے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ کفر کیا ہے، اور اللہ نافرمان قوم کو ہدایت نہیں فرماتا "

میں نے ایسی کوئی حدیث نہیں سنی جس طالوت آپ ذکر کر رہے ہیں
 

مہوش علی

لائبریرین
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نشانیوں سے صحابہ کو جو عقیدت تھی اسے میں نے کہیں شرک کہا؟ کائنات کے سب سے بڑے انسان کی کچھ نشانیوں کو لوگ اپنے لیے باعثِ فخر سمجھتے تھے اور اسے بطور عقیدت اپنے ساتھ رکھتے تھے اسے میں نے کہیں بدعت کہا؟
خاور، برا نہ مانئیے گا، مگر آپ کا طرز عمل یہ ہے کہ ہر چیز کو اپنے بے بنیاد قیاس کے بل بوتے سینہ ٹھونک کر تبدیل کر کے اپنے مرضی کے معنی پہنا دیتے ہیں اور پھر اس پر پوری عمارت کھڑی کر دیتے ہیں، جبکہ بنیاد تا آخر آپ غلط ہی غلط ہوتے ہیں۔
مثلا صحابہ کے متعلق آپ کنی کھا کر کہہ رہے ہیں کہ وہ صرف اور صرف تبرکات نبی سے "عقیدت" رکھتے تھے۔ مگر روایات اتنی واضح و روشن ہیں کہ لاکھ سر پٹخ لیں اور لاکھ قیاسات کے جامعے پہنا کر انکے معنی کچھ کے کچھ کرتے پھریں، مگر یہ حقیقت نہ جھٹلا سکیں گے کہ صحابہ کی یہ پوری کمیونٹی نہ صرف تبرکات نبی سے عقیدت رکھتی تھی، بلکہ ان کو باعث شفا اور باعث نفع سمجھتی تھی اور رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی ان سے شفا و نظر بد وغیرہ کے خلاف مدد حاصل کرتی تھی [جو کہ سوائے شفاعت کے اور کچھ نہیں] اور علی ابن ابی طالب نے بھی حجر اسود کے متعلق یہی کچھ فرمایا تھا، مگر آپ نے اس روایت کا بھی کچھ کا کچھ کر دیا۔

جن اصحاب نے خدا کے نبی کی کسی نشانی کو اپنے ساتھ دفنانے کی ہدایت کی، اس عمل کو میں نے گمراہی کہا؟ لیکن مہوش نے جو غلط بیانی مجھ سے منسوب کی اس سے مجھے اندازہ ہورہا ہے کہ انہوں نے میرے الفاظ کے ظاہری مفہوم پر اکتفا نہ کیا بلکہ اس کے باطنی معنی "کشید" کرکے یہ مفہوم نکالا ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ آپ لوگوں نے دوہری شریعتیں جاری کی ہوئی ہیں۔ ایک بزرگوارں کے نام پر صحابہ کے لیے، اور دوسری ہم جیسوں کے لیے۔

1۔ اور خاور، آپ کی انفرادی بات نہیں مگر کیا یہ ظاہر پرست حضرات کا گروہ نہیں جو پوری قوت سے شرک کے فتوے لگا رہا یہ دعوی کرتے ہوئے کہ اللہ کے سوا کسی اور سے نفع و نقصان کی توقع رکھنا شرک ہے؟

2۔ مگر دوسری طرف صحابہ کرام کھل کر تبرکات نبوی سے شفا و نفع حاصل کر رہے ہیں۔ [دیکھ لیجئے جناب عائشہ بنت ابی بکر اور جناب ام سلمہ سلام اللہ علیھا کو کہ وہ تبرکات نبوی سے شفا و نفع حاصل کر نے کی نیت سے استعمال کر رہی ہیں اور مدینے کی پوری کی پوری کمیونٹی اس عمل میں انکے ساتھ شریک ہے۔

3۔ اور ان سینکڑوں روایات کے مقابلے میں ایک بھی روایت ایسی نہیں جو تبرکات نبوی سے شفا و نفع حاصل کرنے کو شرک خیال کرتی ہو، یا اسے قران و سنت کے خلاف قرار دیتی ہو، یا اسے صرف خالی خولی بے فائدہ عقیدت پر محول کرتی ہے۔

تو میں تو آپ سے سوال کر کر کے تھک گئی کہ اگر صحابہ نے یہ حکم نص کے بغیر کیا ہے تو ان پر بدعت و ضلالت کا فتوی کیوں نہیں، اور اگر نص کے عین پیروی کرتے ہوئے کیا ہے تو پھر تبرکات نبی کا نفع پہنچانے سے انکار کیوں اور یہ تکرار کیوں کہ صرف خالی خولی بے فائدہ عقیدت ہے۔ [مگر آپ جناب ہیں کہ ایک کا اقرار کرتے ہیں نہ دوسرے کا انکار، بلکہ دوہرے رویے اپناتے ہوئے ہر چیز کے لیے قیاسات کی مدد سے اپنے معنی پہنچائے چلے جا رہے ہیں]

اور جب ہم آپ کے ان دہرے رویوں اور ڈبل سٹینڈرڈز کی طرف اشارہ کرتے ہیں تو الٹا ہم پر الزام لگا رہے ہیں۔

تو بات یہ ہے کہ صحابہ کرام کی پوری کی پوری کمیونٹی کے مطابق جو چیز بھی رسول سے مس ہو گئی، وہ متبرک ہو گئی اور اسکی تعظیم کرنا خالی خولی بے فائدہ عقیدت نہیں بلکہ وہ شفا و نفع کا باعث ہے۔ آپ کو اب اس بات کو یا تو قبول کرنا ہے یا پھر انکار۔
اور اگر کہتے ہیں کہ صحابہ کی یہ پوری کمیونٹی انتہائی غلطی پر تھی اور نص کے خلاف یہ کام کر رہی تھی تو یہ بتانا ہو گا کہ آپ شرک و بدعت کے بنائے ہوئے اپنے اصولوں کو پھر ان پر اپلائی کیوں نہیں کرتے اور آپ نے آیا انہیں شریعت سے بالاتر کر دیا ہے یا پھر انکے لیے کوئی دوسری شریعت بنا لی ہے کہ جسکا اطلاق صرف انہی پر ہوتا ہے جبکہ آج ہمارے جیسوں کے لیے الگ شریعت ہے؟

//////////////////////////////////////////////////

از خاور بلال:
میں نے یہ بات صاف کہہ دی تھی کہ جن چیزوں کے بارے میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صراحت کرچکے ہیں ان سے انکار ممکن نہیں۔

1 لوگ رسول اللہ کے پاس پانی کے برتن لاتے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا ہاتھ ڈبوتے
2 بہت سے صحابہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لعابِ دہن (تھوک) سے شفا ہوئی
3 نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو سلمہ کے زخم پر پھونک ماری جس سے تکلیف رفع ہوگئی
4 پانی کے پیالے میں ہاتھ اور چہرہ مبارک دھویا اور اس میں کلی کی، پھر اس پانی کو حضرت ابو موسیٰ اور بلال رضی اللہ تعالیٰ کو دیا کہ اسے پی لو اور اپنے منہ اور سینے پر ڈال لو
5 نوزائیدہ بچے کے منہ میں لعاب ڈالنا
6 حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ کی تکفین کے لیے اپنا کرتہ عنایت کرنا
7 حجامت کے بعد بال ابو طلحہ کو دئیے کہ لوگوں میں بانٹ دو
8 جس کنویں کا پانی حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی نے پیا تھا اسی کا پانی استعمال کرنے کی ترغیب

کیا یہ آپکے قیاسات میں کھلے دہرے پن اور تضادات کا ثبوت نہیں کہ ایک طرف خود اپنے منہ سے قبول کر رہے ہیں کہ تبرکات نبوی خالی خولی عقیدتی نہیں بلکہ ان میں شفا و نفع کی قوت ہے، تو دوسری طرف چھوٹتے ہیں اس شفا و نفع کا انکار بھی ہے اور پھر وہی خالی خولی بے فائدہ عقیدت کا شور و غوغا۔

اور اللہ میرا گواہ کہ میری طرف سے اتمام حجت ہو چکی ہے اور میں اپنی طرف سے ممکنہ حد تک نص کو واضح کر چکی ہوں اور آپ لوگ جو اس معاملے میں بار بار غلطیاں کر رہے ہیں ان کو آپ پر واضح کر چکی ہوں۔
////////////////////////
از خاور بلال:
اب یہ بتائیے کہ اس سے پہلے غارِ ثور والا واقعہ جو میں نے لکھا تھا وہ کیا ان واقعات سے مختلف تھا؟ میں نے تو خود اقرار کیا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ کے زخموں پر تھوک لگایا جس سے ان کے زخم ٹھیک ہوگئے۔ اب جبکہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم رخصت ہوگئے ہیں تو ایسی چیزوں کا دروازہ خود سے خود بند ہوگیا ہے۔
اول تو آپ ایک زبان سے نفع و شفا کا اقرار کرتے ہیں، اور دوسری زبان سے اس سے پھر جاتے ہیں اور پھر خالی اور بے فائدہ عقیدت کا پرچار شروع کر دیتے ہیں۔
دوم، رسول ص کے رخصت ہو جانے کے باوجود بھی تبرکات نبوی میں سے شفا و نفع پہنچانے کی خاصیت ختم نہیں ہوئی ہے اور مدینے میں صحابہ کی پوری کمیونٹی کے مطابق جو جو چیز رسول ص سے مس ہوئی تھی وہ تبرکات نبوی میں شامل ہے، مثلا آپکا پسینہ، آپکا کرتہ، آپکا مس کیا ہوا پانی۔۔۔۔۔۔ اور رسول ص کی وفات کے بعد بھی وہ ان تبرکات نبوی سے شفا و نفع حاصل کر رہے ہیں اور نطر بد سے بچنے کے لیے ان سے مدد لے رہے ہیں۔
سوم، اور باقی تبرکات نبوی کے متعلق تو آپ لوگ شکوک و وسوسے دلوں میں ڈالتے ہیں، اور اسی بل بوتے پر سعودی حکومت نے مدینے کے بہت سے متبرک مقامات کو گرا بھی دیا [جس کی پوری فہرست مل جائے گی] مگر حجر اسود کے متبرک ہونے کا انکار تا قیامت آپ سے نہ ہو سکے گا، اور نہ ہی اسکے متبرک ہونے کے متعلق آپکا کوئی شک و وسوسے کا پلان کامیاب ہو سکے گا۔ انشاء اللہ [خاور یہ آپ پر انفرادی تنقید نہیں بلکہ سعودی حکومت اور پورے ظاہر پرست گروہ پر اجتماعی تنقید ہے]

از خاور بلال:
رہی بات حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ کی والدہ کی تکفین کے لیے اپنا کرتا عنایت کرنے کی تو خدا کے نبی نے یہ نہیں کہا کہ یہ کرتا آخرت میں ان کے کام آئیگا۔ کرتا تو صرف ایک علامت ہے ۔۔۔۔۔ یعنی بذات خود کرتے کی کوئی ویلیو نہیں بلکہ ویلیو یہ ہے کہ خدا کے نبی حضرت علی کی والدہ سے اتنے خوش تھے کہ اپنا کرتا ان کے نام کردیا۔
یہ صرف آپ کا قیاس ہے اور رسول نے کبھی نہیں فرمایا کہ یہ صرف خالی خولی بے فائدہ علامت ہے۔
اور صحابہ کرام کی پوری کمیونٹی کا بھی آپ کے اس قیاس کے برعکس فیصلہ ہے اور وہ تبرکات نبوی کے شفع و نفع پہنچانے کا عقیدہ رکھتے ہیں۔
اور اگر علی ابن ابی طالب کی والدہ سے خوش تھے تو رسول ص کو اپنا کرتہ انکی زندگی میں دے دینا چاہیے تھا تاکہ انہیں کچھ فائدہ تو ہوتا۔ یقینا آپکے ان قیاسات کی یہاں کوئی جگہ نہیں، مگر آپ ان سے چمٹا رہنا چاہیں تو آپکی مرضی۔


از خاور بلال:
بالکل یہی معاملہ بالوں کا بھی ہے کہ خدا کے نبی اپنے صحابہ کی جانثاری کی اتنی قدر کرتے تھے کہ اپنے بال انہیں بطور نشانی عنایت کیے اصل چیز یہاں بھی جذبہ ہے جس کے تحت بال دیے گئے۔
یعنی کہ آپ کے قیاس کے مطابق تو رسول ص نے تو محص اور صرف بطور نشانی بال صحابہ میں تقسیم کروائے تھے، مگر مدینہ کے صحابہ و تابعین کی پوری کمیونٹی خرافات میں مبتلا ہو گئی اور صحابہ کرام جیسے ام المومنین حضرت عائشہ نے بالوں کو پانی میں بھگو کر شفا و نفع اور نظر بد وغیرہ کے خلاف لوگوں کو پلانا شروع کر دیا؟۔۔۔۔۔۔ تو آپ اگرچہ کہ اپنی رائے میں آزاد ہیں، مگر شاید ہر چیز کی کوئی نہ کوئی انتہا ہو۔

مہوش تلخ گوئ پر معذرت۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ میری کسی بات کو تسلیم کریں۔ آپ کو چاہیے کہ جوابی پوسٹ میں ان سب باتوں کر رد کردیں۔ لیکن یہ سوچئیے گا ضرور کہ آج جو خرافات ہمارے ہاں پائی جاتی ہیں ان کی ابتدا کیسے ہوئی۔ شروع میں کوئ چیز بھی غلط نہیں ہوتی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ لوگ اس کی شان میں غلو کرکرکے اسے زمین سے آسمان پر پہنچادیتے ہیں یوں ایک کام جو کبھی محض ایک عقیدت کے کے اظہار کے طور پر کیا جارہا تھا اب نجات کے لیے کیا جانے لگا۔ میرا اشارہ آپ کی جانب نہیں اس قوم کی جانب ہے جو خدا کے دین کو عبادات و وظائف کا مجموعہ سمجھتی ہے اور اسی میں نجات ڈھونڈتی ہے۔ جو اسلام کبھی اتنا آفاقی تھا کہ اس نے دنیا کی دنیا بدل ڈالی اسی اسلام کے نام لیواؤں کو آج درود و وظائف، معجزات و تبرکات کی تو سب خبر ہے لیکن دینِ محمد کو اپنا نظامِ حیات بنانے پر کوئی تیار نہیں۔ امت مسلمہ کی موجودہ زبوں حالی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جن چیزوں کی حیثیت ثانوی ہونی چاہیے تھی انہیں اولین ترجیح پر رکھ لیا گیا اور رسول اللہ کے سچے جانشین کا جو اصل مقصد ہونا چاہیے تھا وہ تو کہیں رخصت ہی ہوگیا۔

بھائی جی، آپ حضرات جو مسلسل تبرکات نبوی کے نفع و شفا پہنچانے اور حجر اسود کی شفاعت کا انکار کر رہے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ:

1۔ آپ لوگ شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔
2۔ آپ کے نزدیک چونکہ اس سے لوگ غلو میں مبتلا ہو جاتے ہیں اس لیے آپ لوگ اللہ کے اس حکم کو اپنی طرف سے تبدیل کر دینا چاہتے ہیں اور حلال اللہ کو کسی نہ کسی بہانے حرام بنا دینا چاہتے ہیں۔

مگر یقین کریں، اللہ ہم سب سے بہتر جاننے والا ہے اور اللہ سے زیادہ توحید کو جان لینے کا زعم رکھنا بربادی کا باعث ہے۔ اور جو چیز اللہ نے شریعت اسلامیہ میں حلال کر دی ہے اسے محض اپنے ظن کی بنیاد پر حرام قرار دے دینا فتنے کا باعث ہے۔

ہر چیز کو اُس کے مقام اور جگہ پر رکھنے کا نام "عدل" ہے۔

اگر کوئی غلو میں مبتلا ہے اور مزاروں پر سجدوں جیسے حرام فعل میں مبتلا ہے، یا چرس بیچ رہا ہے، یا نماز روزے کو بھول کر صرف ملنگ بابا بنا بیٹھا ہے یا اس جیسی اور دیگر ہزاروں بیماریوں اور لعنتوں میں مبتلا ہے، ۔۔۔۔۔۔ تب بھی تبرکات نبوی اور دیگر شعائر اللہ کے نفع و شفا کا انکار کرنا فتنہ ہے اور حلال اللہ کو حرام بنا دینا ہے۔ اور فتنہ یوں کہ پھر ان سینکڑوں احادیث کو جلا دینا ہو گا جہاں رسول و اصحاب رسول ان شعائر اللہ سے شفا و نفع حاصل کر رہے ہیں، اور پھر ایک طبقہ پیدا ہو گا جو صرف یہاں تک محدود نہیں رہے گا بلکہ اسی غلو کے نام پر "تین شیطانوں کو کنکریاں" مروانا بند کر دے گا کہ یہ بس ڈھونگ ہے اور رسول ص کے حکم کے مطابق رکنِ حج نہیں، اور وہ مقام ابراہیم کو بھی ڈھا دے گا کہ یہ شرک کی دعوت دیتا ہے، اور حجر اسود کو بھی مس کرنا اور چومنا حرام قرار دے دے گا کہ اس میں بھی شرک کا شائبہ پایا جاتا ہے اور غیر مسلم اس بنیاد پر مسلمانوں کو پتھر پرستش کا طعنہ دیتے ہیں۔

میری نصیحت تو آپ لوگوں کو یہی ہے کہ ہر چیز کو اس کے مقام پر رکھتے ہوئے عدل قائم کریں، اور ان سینکڑوں واضح و روشن احادیث سے کھلواڑ نہ کریں اور انہیں خرافات قرار نہ دیں کیونکہ آپ کے زعم کے مطابق یہ چیزیں غلو میں مبتلا کر دیں گی۔
 

مہوش علی

لائبریرین
جنگ جاری رہے گی :rolleyes: ۔۔۔۔۔۔کی بیزاری تک !
وسلام
بھائی جی، پرہیز کریں۔
موضوع پر بات چھوڑ کر ذاتی چیزوں پر جانے پرہیز کریں۔ اللہ پرہیزگاروں کو پسند فرماتا ہے۔:) ۔ میرا خیال ہے کہ میں نصوص پیش کرنے کے کام سے فارغ ہو چکی ہوں اور دیگر تمام بڑے اعتراضات و شکوک و شبہات کا جواب بھی دے چکی ہوں۔ اب بس ایک دو چھوٹے موٹے اعتراض و وسوسے رہ گئے ہوں تو رہ گئے ہوں اور وہ بھی جلد ہی نپٹ جائیں گے۔
چنانچہ بات ختم پر ہے، اور میں نے اپنا مقصد کبھی بھی فریق مخالف کو منوانا نہیں رکھا، بلکہ اپنے پیغام کو واضح طور پر سامنے پیش کر دینا رکھا ہے۔۔۔۔۔ اور بہت سے اگر اس سے سبق حاصل نہیں کرتے تو بھی بہت سے ایسے ہیں جو سبق حاصل بھی کرتے ہیں اور جب وہ یہ نصوص دیکھتے ہیں تو انکا ایمان اور بڑھ جاتا ہے، اور اب کسی کے لیے ممکن نہیں کہ انہیں راہ راست سے بھٹکا سکے۔
تو بس تھوڑا سا صبر اور، کہ یہ بحث ختم ہونے ہی کو ہے۔
//////////////////////////////
صحیح روایات میں ہے کہ سردار منافقین عبداللہ بن ابی کا جب انتقال ہوا تو اس کی تدفین رسول اللہْ کے کرتے میں کی گٕئی۔ کیا یہ کرتا اس کی کوئی شفاعت کر سکے گا؟

بھائی جی، اُس وقت تک شریعت آہستہ آہستہ نازل ہو رہی تھی اور بہت سی چیزیں حرام نہیں ہوئی تھیں۔
یہ بھی اُس وقت کا واقعہ ہے جب شریعت پورا نازل نہیں ہوئی تھی، بلکہ اس واقعے پر خدا کی طرف سے آیات نازل ہوئیں اور اس میں یہ چیزیں رسول پر واضح کی گئیں:

1۔ کفار و منافقین کے لیے نماز جنازہ نہ پڑھو [کیونکہ نماز جنازہ سے مردے کو فائدہ پہنچتا ہے اور اس میں اسکی بخشش کی دعا کی جاتی ہے جو شفاعت ہے] ۔ چنانچہ اس واقعے کے بعد جب یہ آیات نازل ہوئیں تو یہ اصول سامنے آ گیا کہ شفاعت [چاہے وہ کسی بھی شکل میں ہو، وہ صرف اور صرف مسلمانوں کے لیے ہے اور کفار و منافقین کو اسکا فائدہ نہیں]

2۔ اور کفار و منافقین کے لیے یہ بھی منع ہو گیا کہ انکے لیے استغفار کیا جائے [استغفار بھی شفاعت ہی کی ایک قسم ہے، یعنی ہمارے گناہوں کی معافی کی لیے رسول ص اللہ کے حضور ہمارے لیے جو دعا کرتے ہیں اسے استغفار کہا جاتا ہے]

3۔ اور چونکہ رسول ص جس جگہ بھی کھڑے ہو جاتے تھے، وہاں پر برکت کا نزول شروع ہو جاتا تھا [اور بہت سی احادیث و قرانی آیت اسکو بیان کرتی ہیں] اس لیے رسول ص کو سختی سے منع کر دیا گیا کہ وہ کفار و منافقین کی قبروں تک پر کھڑے نہ ہوں۔

///////////////////////////////////////

اور بہتر ہوتا ہے کہ اگر کسی حدیث کا حوالہ دیا جا رہا ہے تو اسے پورا نقل کر دیا جائے [اگر ممکن ہو سکے]۔ آپ اس حدیث سے مزید بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں اگر آپ اسے غور سے پڑھیں:

Bukhari, Volume 2, Book 23, Number 433 :

Narrated Jabir bin 'Abdullah:
Allah's Apostle came to Abdullah bin Ubai (a hypocrite) after his death and he has been laid in his pit (grave). He ordered (that he be taken out of the grave) and he was taken out. Then he placed him on his knees and threw some of his saliva on him and clothed him in his (the Prophet's) own shirt. Allah knows better (why he did so). 'Abdullah bin Ubai had given his shirt to Al-Abbas to wear. Abu Harun said, "Allah's Apostle at that time had two shirts and the son of 'Abdullah bin Ubai said to him, 'O Allah's Apostle! Clothe my father in your shirt which has been in contact with your skin.'

1. رسول ص نے عبداللہ ابن ابی کی لاش کو خصوصی طور پر قبر سے نکلوایا، اور پھر اس پر خصوصا اپنے لعاب دہن کو چھڑکا ، [پتا نہیں خاور اب اس لعاب دہن چھڑکنے کو کس کھاتے میں ڈالیں گے] اور پھر خصوصی طور پر اپنا کرتہ پہنایا۔
[نوٹ: اس روایت کی رو سے اس وقت تک کفار و منافقین کے متعلق آیات نازل نہ ہوئی تھِیں اور رسول ص کا خیال تھا کہ انکے تبرکات سے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ کفار کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے]

2۔ عبداللہ ابن ابی کا بیٹا پکا مسلمان تھا۔
اس نے رسول ص سے خصوصا ان الفاظ میں درخواست کی تھی کہ "یا رسول اللہ، میرے والد کو اپنا وہ کرتہ عطا فرمائیے جو کہ خصوصی طور پر آپکی جلد سے مس رہا ہو۔"
[بہت اہم: اس پوائنٹ پر غور کریں]
 

طالوت

محفلین
بھائی جی، پرہیز کریں۔
موضوع پر بات چھوڑ کر ذاتی چیزوں پر جانے پرہیز کریں۔ اللہ پرہیزگاروں کو پسند فرماتا ہے۔:)

شکریہ بہن ۔۔۔
میرے اس جملے میں کہیں بھی ذاتیات کا ذکر نہیں آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ۔۔ میں نے یہ بات انتظامیہ کے حوالے سے کہی ہے ۔۔:)
ورنہ میں آپ کو کب جانتا ہوں ؟
البتہ اگر کوئی عقیدہ جسے آپ اپنائے ہوئی ہوں اسے آپ ذاتیات خیال کریں تو یہ آپ کا محض خیال ہے ۔۔۔ ورنہ آپ اور دوسرے کئی احباب جب اپنی بات بیان کرتے ہوئے اس پر یہ شرط لگا دیتے ہیں کہ "صاحب ایمان" تو اسے ذاتیات میں داخل سمجھنا چاہیے جس کی پرواہ کوئی بھی اسلام کا علمبرادر شاید یہاں نہیں کرتا اس لیے اکیلی آپ سے شکایت نہیں ہو سکتی ۔۔۔

وجی میں کوشش کرتا ہوں کہ وہ حدیث بمع حوالوں کے پیش کر سکوں ۔۔۔
وسلام
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top