الف نظامی
لائبریرین
عمران خان کی یہ الزام تراشی تو بہت جائز ہے ، کیا اس کا کوئی جواب موجود ہے؟عمران خان صاف (گو) انسان ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انہیں عدلیہ پر الزام تراشی کا اجازت نامہ دیدیا جائے۔
عمران خان کی یہ الزام تراشی تو بہت جائز ہے ، کیا اس کا کوئی جواب موجود ہے؟عمران خان صاف (گو) انسان ہیں تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ انہیں عدلیہ پر الزام تراشی کا اجازت نامہ دیدیا جائے۔
نظامی بھائی، عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء کی شق 52 کے تحت تحریکِ انصاف نے انگوٹھوں کی شناخت کے لئے کل 31 درخواستیں عدالتِ عظمیٰ میں دے رکھی ہیں اور ان درخواستوں کو الیکشن ٹریبونلز میں بھی بھیجا جاچکا ہے۔عمران خان کی یہ الزام تراشی تو بہت جائز ہے ، کیا اس کا کوئی جواب موجود ہے؟
یہ کیا دہرا معیار ہے؟نظامی بھائی، عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء کی شق 52 کے تحت تحریکِ انصاف نے انگوٹھوں کی شناخت کے لئے کل 31 درخواستیں عدالتِ عظمیٰ میں دے رکھی ہیں اور ان درخواستوں کو الیکشن ٹریبونلز میں بھی بھیجا جاچکا ہے۔
آج تو ممکن نہیں، انشاءاللہ سوموار کو عدالتِ عظمیٰ میں درخواست دیتا ہوں کہ مجھے ڈیپوٹیشن میں عدالت کا ترجمان مقرر کرلیا جائے۔ تقرری کے بعد میں خبروں اور اطلاعات کی فراہمی کی بجائے عدالت کے مؤقف کی وضاحت کیا کروں گا۔ تب تک اس دہرے معیار والی بات کا جواب ملتوی کرلیتے ہیں۔
آپ عدلیہ اور انتظامیہ کی ذمہ داریوں کو خلط ملط کررہے ہیں۔
فیصلہ دینا عدلیہ کا کام ہے، عملدرآمد کرنا انتظامیہ کا!
اسی آئین میں لکھا ہے کہ صدرِ مملکت کو کسی مجرم کو معاف کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ قرآن و سنت کی بات کی جائے تو پھر صدر تو کیا صدر کا باپ بھی کسی مجرم کو معاف کرنے کا اختیار نہیں رکھتا! اسی آئین کے مطابق صدرِ مملکت، وزیراعظم، گورنروں اور وزرائے اعلیٰ کے استثنیٰ بھی حاصل ہے کئی معاملات میں، قرآن و سنت کے مطابق یہ استثنیٰ کیسے جائز ہے؟پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ یہاں کوئی ایسا قانون نہیں بنے گا جو قرآن و سنت کے مخالف ہو۔۔۔ ۔اب بتائیے کہ قرآن و سنت میں کہاں یہ لکھا ہے کہ اگر کسی شخص کو عدالت سے انصاف نہ ملے تو وہ اساکے خلاف کوئی بات نہیں کرسکتا ورنہ توہین عدالت کے جرم میں سزا پائے گا۔۔کوئی ایسی مثال ہے قرآن و سنت میں؟ قرآن تو یہ کہتا ہے کہ :
{لاَّ يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوَءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلاَّ مَن ظُلِمَ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعاً عَلِيماً} [سورة النساء: آية 148]
"اللہ بری بات کا اظہار پسند نہیں کرتاسوائے وہ شخض کہ جس پر ظلم کیا گیا(یعنی وہ ظالم کو برملا برا کہہ سکتا ہے)۔
محمود احمد غزنوی صاحب آپ کس کے سامنے بین بجا رہے ہیں جنہوں نے ایسا چشمہ لگا رکھا ہے جس میں صرف نواز شریف اور اس کا حامی چوہدری ہی نظر آتا ہے ۔پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ یہاں کوئی ایسا قانون نہیں بنے گا جو قرآن و سنت کے مخالف ہو۔۔۔ ۔اب بتائیے کہ قرآن و سنت میں کہاں یہ لکھا ہے کہ اگر کسی شخص کو عدالت سے انصاف نہ ملے تو وہ اساکے خلاف کوئی بات نہیں کرسکتا ورنہ توہین عدالت کے جرم میں سزا پائے گا۔۔کوئی ایسی مثال ہے قرآن و سنت میں؟ قرآن تو یہ کہتا ہے کہ :
{لاَّ يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوَءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلاَّ مَن ظُلِمَ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعاً عَلِيماً} [سورة النساء: آية 148]
"اللہ بری بات کا اظہار پسند نہیں کرتاسوائے وہ شخض کہ جس پر ظلم کیا گیا(یعنی وہ ظالم کو برملا برا کہہ سکتا ہے)۔
بہت کم معاملات ایسے ہی جن میں فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں عدالت ذمہ داران کے خلاف از خود توہینِ عدالت کی کارروائی کرسکتی ہے اور وہ معاملات قومی نوعیت کے مقدمات سے متعلق ہیں، ورنہ قانون کی یہ خرابی اپنی جگہ موجود ہے کہ فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں متاثرہ فریق کو عدالت سے جا کر رجوع کرنا پڑتا ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے کے خلاف الگ سے مقدمہ دائر کرنا پڑتا ہے۔ میں پھر یہی کہوں گا کہ مقننہ کا کام اس طرح کی خرابیوں کو رفع کرنے کے لئے قانون سازی کرنا ہے اور انتظامیہ اور عدلیہ کا کام ان قوانین کو معاشرے میں نافذ کرنا ہے۔ ہمارے ہاں مقننہ اور انتظامیہ چونکہ عموماً ایک ہی ہاتھ میں ہوتی ہیں اور اس ہاتھ کا احتساب بھی ممکن نہیں ہوتا، لہٰذا کسی بھی بہتری کے امکانات بہت ہی کم ہو کر رہ جاتے ہیں۔آپ کی بات بجا لیکن کیا وجہ تھی کہ عدلیہ کے واضح فیصلوں پر عملدارمد نہ ہوا۔ اور کیا وجہ تھی کہ ان ذمہ داران کے خلاف توہینِ عدالت کا مقدمہ نہیں بنایا گیا جو کارِ عدالت میں براہِ راست مزاحم تھے۔
اس معاملے میں عمران خان کا موقف بالکل درست ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر عمران خان لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے معافی نامہ جمع کروا دیتے ہیں تو ان کا نام بھی بابر اعوان اور اُن کی طرح کے دیگر "ربڑ کی ناک" والے سیاستدانوں کی فہرست میں آ جائے گا جو کہ عمران خان جیسے اصولی موقف رکھنے والے سیاست دان کے قد کاٹھ کو گھٹا دینے والی بات ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ عدالتِ عالیہ پچھلی عدالتوں کے مقابلے میں بہتر ہےلیکن کچھ معاملات میں عدلیہ کا رویہ سخت اور کچھ معاملوں میں انتہائی نرم ہے جو مناسب نہیں لگتا۔
عمران اور بڑا لیڈر !!!انصار عباسی کون ہوتا ہے عمران جیسے بڑے لیڈر کو مشورے دینے والا؟
عمران اور بڑا لیڈر !!!
بہت کم معاملات ایسے ہی جن میں فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں عدالت ذمہ داران کے خلاف از خود توہینِ عدالت کی کارروائی کرسکتی ہے اور وہ معاملات قومی نوعیت کے مقدمات سے متعلق ہیں، ورنہ قانون کی یہ خرابی اپنی جگہ موجود ہے کہ فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں متاثرہ فریق کو عدالت سے جا کر رجوع کرنا پڑتا ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے کے خلاف الگ سے مقدمہ دائر کرنا پڑتا ہے۔ میں پھر یہی کہوں گا کہ مقننہ کا کام اس طرح کی خرابیوں کو رفع کرنے کے لئے قانون سازی کرنا ہے اور انتظامیہ اور عدلیہ کا کام ان قوانین کو معاشرے میں نافذ کرنا ہے۔ ہمارے ہاں مقننہ اور انتظامیہ چونکہ عموماً ایک ہی ہاتھ میں ہوتی ہیں اور اس ہاتھ کا احتساب بھی ممکن نہیں ہوتا، لہٰذا کسی بھی بہتری کے امکانات بہت ہی کم ہو کر رہ جاتے ہیں۔
میں آپکی بات سے اتفاق کرتا ہوں لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے۔اسی آئین میں لکھا ہے کہ صدرِ مملکت کو کسی مجرم کو معاف کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ قرآن و سنت کی بات کی جائے تو پھر صدر تو کیا صدر کا باپ بھی کسی مجرم کو معاف کرنے کا اختیار نہیں رکھتا! اسی آئین کے مطابق صدرِ مملکت، وزیراعظم، گورنروں اور وزرائے اعلیٰ کے استثنیٰ بھی حاصل ہے کئی معاملات میں، قرآن و سنت کے مطابق یہ استثنیٰ کیسے جائز ہے؟
دراصل ذیشان صاحب ڈاکٹر عباس صاحب کا مطلب ہے کہ عمران خان زرداری کی طرح کرپٹ اور نواز شریف کی طرح کا بڑا لیڈر نہیں ہے جو کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ پانچ سالہ فرینڈلی اپوزیشن اور پھر ممنون حسین کی صدارت کے لیئے الطاف حسین کے قدموں میں بکھر جائے۔کیوں آپ کو شک ہے اس بات پر؟
مذہب میں بھی یہی رویہ پیش پیش ہے ۔میں اسی لیے سیاست میں نہیں پڑتا ۔ یہاں لوگ ذاتی حملے کرنے لگ جاتے ہیں ایک دوسرے کی بات کو نا تو غور سے سنتے ہیں اور نا ہی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ارے بھائی پہلے بات کو سمجھ تو لو پھر اس پر بحث کرو