عمران خان اپنی انا پر قابو پائیں۔۔۔ (تبصرہ: انصار عباسی)

الف نظامی

لائبریرین
نظامی بھائی، عوامی نمائندگی ایکٹ 1976ء کی شق 52 کے تحت تحریکِ انصاف نے انگوٹھوں کی شناخت کے لئے کل 31 درخواستیں عدالتِ عظمیٰ میں دے رکھی ہیں اور ان درخواستوں کو الیکشن ٹریبونلز میں بھی بھیجا جاچکا ہے۔
یہ کیا دہرا معیار ہے؟
عمران خان نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے حافظ آباد میں ن لیگ کے امیدوار کی درخواست پر وہاں انتخابی عمل کو کالعدم قرار دے دیا لیکن ہمیں کہا جاتا ہے کہ الیکشن ٹریبونل میں درخواست جمع کرائی جائے۔

مزید اس خبر کے مندرجات بھی دیکھیے
1101919606-1.gif
 

عاطف بٹ

محفلین
آج تو ممکن نہیں، انشاءاللہ سوموار کو عدالتِ عظمیٰ میں درخواست دیتا ہوں کہ مجھے ڈیپوٹیشن میں عدالت کا ترجمان مقرر کرلیا جائے۔ تقرری کے بعد میں خبروں اور اطلاعات کی فراہمی کی بجائے عدالت کے مؤقف کی وضاحت کیا کروں گا۔ تب تک اس دہرے معیار والی بات کا جواب ملتوی کرلیتے ہیں۔ :)
ویسے کچھ فیصلے نون لیگ کے خلاف بھی آچکے ہیں اور ایسے ہی ایک فیصلے کے نتیجے میں چوہدری نثار علی خان صوبائی اسمبلی کے حلقہ 7 کی راولپنڈی والی نشست سے کامیابی کے اعلان کے بعد ناکام قرار دیئے گئے اور تحریکِ انصاف کے محمد صدیق خان کو ان کے مقابلے میں فاتح قرار دیا گیا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
آپ عدلیہ اور انتظامیہ کی ذمہ داریوں کو خلط ملط کررہے ہیں۔
فیصلہ دینا عدلیہ کا کام ہے، عملدرآمد کرنا انتظامیہ کا!

آپ کی بات بجا لیکن کیا وجہ تھی کہ عدلیہ کے واضح فیصلوں پر عملدارمد نہ ہوا۔ اور کیا وجہ تھی کہ ان ذمہ داران کے خلاف توہینِ عدالت کا مقدمہ نہیں بنایا گیا جو کارِ عدالت میں براہِ راست مزاحم تھے۔

اس معاملے میں عمران خان کا موقف بالکل درست ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر عمران خان لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے معافی نامہ جمع کروا دیتے ہیں تو ان کا نام بھی بابر اعوان اور اُن کی طرح کے دیگر "ربڑ کی ناک" والے سیاستدانوں کی فہرست میں آ جائے گا جو کہ عمران خان جیسے اصولی موقف رکھنے والے سیاست دان کے قد کاٹھ کو گھٹا دینے والی بات ہے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ عدالتِ عالیہ پچھلی عدالتوں کے مقابلے میں بہتر ہےلیکن کچھ معاملات میں عدلیہ کا رویہ سخت اور کچھ معاملوں میں انتہائی نرم ہے جو مناسب نہیں لگتا۔
 
پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ یہاں کوئی ایسا قانون نہیں بنے گا جو قرآن و سنت کے مخالف ہو۔۔۔۔اب بتائیے کہ قرآن و سنت میں کہاں یہ لکھا ہے کہ اگر کسی شخص کو عدالت سے انصاف نہ ملے تو وہ اساکے خلاف کوئی بات نہیں کرسکتا ورنہ توہین عدالت کے جرم میں سزا پائے گا۔۔کوئی ایسی مثال ہے قرآن و سنت میں؟ قرآن تو یہ کہتا ہے کہ :
{لاَّ يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوَءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلاَّ مَن ظُلِمَ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعاً عَلِيماً} [سورة النساء: آية 148]
"اللہ بری بات کا اظہار پسند نہیں کرتاسوائے وہ شخض کہ جس پر ظلم کیا گیا(یعنی وہ ظالم کو برملا برا کہہ سکتا ہے)۔
 

عاطف بٹ

محفلین
پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ یہاں کوئی ایسا قانون نہیں بنے گا جو قرآن و سنت کے مخالف ہو۔۔۔ ۔اب بتائیے کہ قرآن و سنت میں کہاں یہ لکھا ہے کہ اگر کسی شخص کو عدالت سے انصاف نہ ملے تو وہ اساکے خلاف کوئی بات نہیں کرسکتا ورنہ توہین عدالت کے جرم میں سزا پائے گا۔۔کوئی ایسی مثال ہے قرآن و سنت میں؟ قرآن تو یہ کہتا ہے کہ :
{لاَّ يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوَءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلاَّ مَن ظُلِمَ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعاً عَلِيماً} [سورة النساء: آية 148]
"اللہ بری بات کا اظہار پسند نہیں کرتاسوائے وہ شخض کہ جس پر ظلم کیا گیا(یعنی وہ ظالم کو برملا برا کہہ سکتا ہے)۔
اسی آئین میں لکھا ہے کہ صدرِ مملکت کو کسی مجرم کو معاف کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ قرآن و سنت کی بات کی جائے تو پھر صدر تو کیا صدر کا باپ بھی کسی مجرم کو معاف کرنے کا اختیار نہیں رکھتا! اسی آئین کے مطابق صدرِ مملکت، وزیراعظم، گورنروں اور وزرائے اعلیٰ کے استثنیٰ بھی حاصل ہے کئی معاملات میں، قرآن و سنت کے مطابق یہ استثنیٰ کیسے جائز ہے؟
 
پاکستان کا آئین کہتا ہے کہ یہاں کوئی ایسا قانون نہیں بنے گا جو قرآن و سنت کے مخالف ہو۔۔۔ ۔اب بتائیے کہ قرآن و سنت میں کہاں یہ لکھا ہے کہ اگر کسی شخص کو عدالت سے انصاف نہ ملے تو وہ اساکے خلاف کوئی بات نہیں کرسکتا ورنہ توہین عدالت کے جرم میں سزا پائے گا۔۔کوئی ایسی مثال ہے قرآن و سنت میں؟ قرآن تو یہ کہتا ہے کہ :
{لاَّ يُحِبُّ اللَّهُ الْجَهْرَ بِالسُّوَءِ مِنَ الْقَوْلِ إِلاَّ مَن ظُلِمَ وَكَانَ اللَّهُ سَمِيعاً عَلِيماً} [سورة النساء: آية 148]
"اللہ بری بات کا اظہار پسند نہیں کرتاسوائے وہ شخض کہ جس پر ظلم کیا گیا(یعنی وہ ظالم کو برملا برا کہہ سکتا ہے)۔
محمود احمد غزنوی صاحب آپ کس کے سامنے بین بجا رہے ہیں جنہوں نے ایسا چشمہ لگا رکھا ہے جس میں صرف نواز شریف اور اس کا حامی چوہدری ہی نظر آتا ہے ۔
ایک وقت تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے پیچھے یہی گروپ ڈنڈا لیکر پڑ گیا تھا اور دھاگے پہ دھاگہ لگاتا جاتا تھا ۔۔۔۔ دنیا نے دیکھ لیا کہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب درست کہتے تھے عمران خان نے صحت یابی کے بعد پارلیمنٹ میں تقریر کے دوران اس بات کا اعتراف کیا ۔ اب یہ ریا کار لوگ جو کہ اپنی ایمانداری کے جھوٹے کالم لکھوا کر پھر داد بھی وصول کرتے ہیں اب عمران کے پیچھے پڑ گئے ہیں۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے پرسوں کے پروگرام میں ہارون الرشید کہہ رہا تھا کہ اگر عمران نے معافی مانگ لی تو وہ مرد کا بچہ ہی نہیں ہے۔
لیجئے سنئے شیخ رشید کا بیان اپنے ممدوح کے بارے میں کہ کس طرح دو دو گھنٹے لال حویلی کے باہر کھڑا رہتا تھا
 
آخری تدوین:

عاطف بٹ

محفلین
آپ کی بات بجا لیکن کیا وجہ تھی کہ عدلیہ کے واضح فیصلوں پر عملدارمد نہ ہوا۔ اور کیا وجہ تھی کہ ان ذمہ داران کے خلاف توہینِ عدالت کا مقدمہ نہیں بنایا گیا جو کارِ عدالت میں براہِ راست مزاحم تھے۔

اس معاملے میں عمران خان کا موقف بالکل درست ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ اگر عمران خان لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے معافی نامہ جمع کروا دیتے ہیں تو ان کا نام بھی بابر اعوان اور اُن کی طرح کے دیگر "ربڑ کی ناک" والے سیاستدانوں کی فہرست میں آ جائے گا جو کہ عمران خان جیسے اصولی موقف رکھنے والے سیاست دان کے قد کاٹھ کو گھٹا دینے والی بات ہے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ عدالتِ عالیہ پچھلی عدالتوں کے مقابلے میں بہتر ہےلیکن کچھ معاملات میں عدلیہ کا رویہ سخت اور کچھ معاملوں میں انتہائی نرم ہے جو مناسب نہیں لگتا۔
بہت کم معاملات ایسے ہی جن میں فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں عدالت ذمہ داران کے خلاف از خود توہینِ عدالت کی کارروائی کرسکتی ہے اور وہ معاملات قومی نوعیت کے مقدمات سے متعلق ہیں، ورنہ قانون کی یہ خرابی اپنی جگہ موجود ہے کہ فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں متاثرہ فریق کو عدالت سے جا کر رجوع کرنا پڑتا ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے کے خلاف الگ سے مقدمہ دائر کرنا پڑتا ہے۔ میں پھر یہی کہوں گا کہ مقننہ کا کام اس طرح کی خرابیوں کو رفع کرنے کے لئے قانون سازی کرنا ہے اور انتظامیہ اور عدلیہ کا کام ان قوانین کو معاشرے میں نافذ کرنا ہے۔ ہمارے ہاں مقننہ اور انتظامیہ چونکہ عموماً ایک ہی ہاتھ میں ہوتی ہیں اور اس ہاتھ کا احتساب بھی ممکن نہیں ہوتا، لہٰذا کسی بھی بہتری کے امکانات بہت ہی کم ہو کر رہ جاتے ہیں۔

عمران خان نے اپنے مؤقف کے حوالے سے کل جو وضاحتیں عدالت کے سامنے پیش کی ہیں وہ بھی قریب قریب ربڑ کی ناک والا معاملہ ہی لگ رہا تھا۔

عدلیہ میں خرابیاں موجود ہیں اور انہیں دور کرنے کے لئے طریقہء کار بھی موجود ہے، اب مسئلہ یہ ہے کہ ان خرابیوں کو جن لوگوں نے دور کرنا ہے وہ سرے سے سنجیدہ ہی نہیں ہیں اس معاملے میں۔
 

محمداحمد

لائبریرین
بہت کم معاملات ایسے ہی جن میں فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں عدالت ذمہ داران کے خلاف از خود توہینِ عدالت کی کارروائی کرسکتی ہے اور وہ معاملات قومی نوعیت کے مقدمات سے متعلق ہیں، ورنہ قانون کی یہ خرابی اپنی جگہ موجود ہے کہ فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے کی صورت میں متاثرہ فریق کو عدالت سے جا کر رجوع کرنا پڑتا ہے اور ایسا بھی ہوتا ہے کہ فیصلے پر عملدرآمد نہ ہونے کے خلاف الگ سے مقدمہ دائر کرنا پڑتا ہے۔ میں پھر یہی کہوں گا کہ مقننہ کا کام اس طرح کی خرابیوں کو رفع کرنے کے لئے قانون سازی کرنا ہے اور انتظامیہ اور عدلیہ کا کام ان قوانین کو معاشرے میں نافذ کرنا ہے۔ ہمارے ہاں مقننہ اور انتظامیہ چونکہ عموماً ایک ہی ہاتھ میں ہوتی ہیں اور اس ہاتھ کا احتساب بھی ممکن نہیں ہوتا، لہٰذا کسی بھی بہتری کے امکانات بہت ہی کم ہو کر رہ جاتے ہیں۔

ایسی عدالت کا کیا وقار رہ جاتا ہے کہ جس کے احکامات ہی نہ مانیں جائیں (چاہے وجہ کچھ بھی ہو)۔ پھر عمران خان سے تحریر معافی نامہ لکھوا کر عدلیہ کون سا ملک کی خدمت کرے گی۔

پھر اگر عدلیہ انتخابات کو حتی الامکان شفاف بنانے کے لئے اپنا فرض انجام دیتی تو یقیناً عوام کے حقیقی نمائندے اسمبلی میں جا کر اُن قانونی پیچیدگیوں کو دور کرتے جن کی وجہ سے عدلیہ بے دست و پا ہے۔ سچی بات تو یہی ہے کہ عدلیہ کے نمائندے انتخابات میں اپنے فرائض انجام نہیں دے سکے۔ عمران خان نے یہی کہا ہے تو کیا غلط کہا ہے۔

بات پر واں زبان کٹتی ہے
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی​
 
اسی آئین میں لکھا ہے کہ صدرِ مملکت کو کسی مجرم کو معاف کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ قرآن و سنت کی بات کی جائے تو پھر صدر تو کیا صدر کا باپ بھی کسی مجرم کو معاف کرنے کا اختیار نہیں رکھتا! اسی آئین کے مطابق صدرِ مملکت، وزیراعظم، گورنروں اور وزرائے اعلیٰ کے استثنیٰ بھی حاصل ہے کئی معاملات میں، قرآن و سنت کے مطابق یہ استثنیٰ کیسے جائز ہے؟
میں آپکی بات سے اتفاق کرتا ہوں لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے۔ :)
 

ظفری

لائبریرین
مجھے تو آج تک پاکستان میں " بڑے لیڈر " کی اصطلاح سمجھ نہیں آئی ۔ بڑا لیڈر وہ ہے جو عشروں سے اپنے دولت اور اثرو رسوخ کی وجہ سے مشہور ہے اور کئی بار حکومت کے مزے لوٹ چکا ہے ۔ یا بڑا لیڈر وہ ہے جو اپنی طاقت کی بناء پر حکومت پر قابض ہوجاتا ہے ۔ یا بڑا لیڈر وہ ہے جو عوام کو اپنے خوف و ستم سے دوچار رکھ کر انہیں قابو میں رکھتا ہے ۔ اگر بڑا لیڈر یہی ہے تو کوئی اختلاف کی گنجائش نہیں کہ یہ عوام کی خود اپنی پسند اور انتخاب ہے ۔
ہاں اگر کوئی ان تمام چیزوں سے مبرا ہے تو وہ کیسے بڑا لیڈر بن سکتا ہے ۔ کیونکہ وہ عوام کی خواہش اور ترجیحات کے عین مطابق نہیں ہے ۔
 
آخری تدوین:
کیوں آپ کو شک ہے اس بات پر؟
دراصل ذیشان صاحب ڈاکٹر عباس صاحب کا مطلب ہے کہ عمران خان زرداری کی طرح کرپٹ اور نواز شریف کی طرح کا بڑا لیڈر نہیں ہے جو کہ پیپلز پارٹی کے ساتھ پانچ سالہ فرینڈلی اپوزیشن اور پھر ممنون حسین کی صدارت کے لیئے الطاف حسین کے قدموں میں بکھر جائے۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
میں نے مورخہ 26 تاریخ کو عمران خان کی وہ پریس کانفرنس سنی تھی عدلیہ کا لفظ بول کر شرمناک کا لفظ جب خان صاحب نے بولا تو مجھے بھی ایک دم سے شاک لگا اورمجھےیقین تھا کہ خان صاحب کے ان الفاظ پر انکی پکڑ ہوجائے گی اور وہی ہوا اب انھے یہ چاہیے کہ اپنی غلطی مان لیں اور جیسا وہ اپنی نیت کے بارے میں کہہ رہے ہیں کہ وہ اعلٰی عدلیہ کے بارے میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتے تو پھر اپنی غلطی مان کر اپنے الفاظ واپس لے لیں مگر الیکشنز میں جو کچھ ہوا اس پر اپنے مؤقف پر ڈٹے رہیں
 

آبی ٹوکول

محفلین
اور مجھے یقین بھی ہے کہ عمران نے عدلیہ کی توہین نہیں کی اور نہ انکی ایسی کوئی نیت تھی مگر الفاظ کا چناؤ درست نہ تھا اور اوپر سے سیاق و سباق بھی مبھم تھا ۔ یہی وجہ تھی کہ جو کچھ وہ کہنا چاہ رہے وہ گڈ مڈ ہوگیا اور معاملہ کسی اور طرف نکل گیا
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
میں اسی لیے سیاست میں نہیں پڑتا ۔ یہاں لوگ ذاتی حملے کرنے لگ جاتے ہیں ایک دوسرے کی بات کو نا تو غور سے سنتے ہیں اور نا ہی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ارے بھائی پہلے بات کو سمجھ تو لو پھر اس پر بحث کرو
 

ظفری

لائبریرین
میں اسی لیے سیاست میں نہیں پڑتا ۔ یہاں لوگ ذاتی حملے کرنے لگ جاتے ہیں ایک دوسرے کی بات کو نا تو غور سے سنتے ہیں اور نا ہی سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ارے بھائی پہلے بات کو سمجھ تو لو پھر اس پر بحث کرو
مذہب میں بھی یہی رویہ پیش پیش ہے ۔
 

ظفری

لائبریرین
میں عمران کی انانیت کی بات تو نہیں کروں گا ۔ مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ اسے کئی معاملات میں لچک کی ضرورت ہے ۔ سیاست، مفاہمت اور ضرورت کا نام ہے ۔اپنی سیاسی ترجیحات میں حالات اور وقت کے تقاضوں کے مطابق ردوبدل لانا پڑتا ہے اور اسی کو سیاست کہتے ہیں ۔ بصورتِ دیگر سیاسی مصلحت اور شاہی فرمان میں کیا فرق رہ جائے گا ۔ آخرکار عمران نے اپنی سیاسی جماعت میں چند ناپسند عناصر کو جگہ دی ناں ۔ اسی قسم کی ناپسند ترجیحات وقت اور حالات کو سامنے رکھ کر کی جاتیں ہیں ۔ بعض معاملات میں عمران کا رویہ انتہائی سخت ہے ۔ اس میں میانہ روری کی ضرورت ہے ۔
 
Top