یہی تو مسئلہ ہے کہ عوام کی اکثریت کو اس بات کا نہ ادراک ہے نہ شعور۔ اور یہ پارٹیاں اپنی باریاں چلانے کے لیے اس شعور کے بیدار نہیں ہونے دے رہیں۔ تعلیم عام ہو جائے تو تب عوام کی رائے بہتر ہو گی، اب تو شائد بھیڑ چال ہی چلی رہی ہے۔
شعور بھی ایک ارتقائی عمل ہے، آپ دیکھیے گا یہی پارٹیاں، موجودہ راہنما اور ان کے بعد ان پارٹیوں میں شامل ہونے اور عنان اقتدار سنبھالنے والے لوگ خود ٹھیک ہوتے جائیں گے۔ آج سے 15 سال پہلے تک کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ پیپلز پارٹی کا ملک کے مختلف حصوں سے انتخابی سیاست کی حد تک صفایا ہو جائے گا۔
اسے بھی شعور کی بہتری ہی کہا جا سکتا ہے کہ ایک پارٹی جس کے پاس حکومت چلانے کا سرے سے ہی کوئی تجربہ نہیں تھا اسے ایک صوبے میں اچھی خاصی سیٹیں ملیں اور دوسرے صوبوں میں بھی اس کے ووٹرز کی تعداد بڑھ گئی۔ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ ملک کے مختلف خطوں میں اس شعور کی رفتار میں کمی بیشی موجود ہے ، لیکن ایسا دنیا میں ہر جگہ ہوتا ہے، آپ سب کو بیک وقت ایک لیول پر نہیں لا سکتے۔
شمالی پنجاب کی حد تک تعلیم عام ہو چکی، اب وہ پہلے والی باتیں نہیں رہیں۔ پاکستان کے باقی علاقوں کے بارے کچھ کہہ نہیں سکتا کہ عرصہ ہوا کبھی کہیں چکر نہیں لگا۔
8کروڑ میں سے قریباً ایک کروڑ 48 لاکھ ووٹ، یہ تقریباً ساڑھے 18 فیصد بنتے ہیں، ساڑھے 18 فیصد !!!!
تناسب ڈالے گئے ووٹوں میں سے نکالا جائے تو اس سے زیادہ بنتا ہے۔ اور جنھوں نے ووٹ کاسٹ ہی نہیں کیا انھیں اس سسٹم کے اچھے یا برے ہونے کے بارے میں بات ہی نہیں کرنی چاہیے
80 فیصد سے زیادہ لوگوں نے نواز شریف کو نہیں چُنا، پھر بھی وہ سیاہ و سفید کا مالک بن کر بیٹھے ہوئے ہیں اس ارضِ پاکستان کے۔ اس نظام کو کیونکر درست کہتے ہیں آپ ؟؟؟
آپ کا تناسب ٹھیک نہیں ہے۔
سیاہ و سفید کے مالک تب ہوتے جب ملک میں موجود 6 انتظامی یونٹس میں ایک ہی پارٹی کی حکومت ہوتی۔ جبکہ یہاں کشمیر، گلگت، بلتستان، سندھ اور کے پی کے (4 انتظامی یونٹس) میں اس پارٹی کی حکومتیں نہیں ہیں۔
نواز لیگ اور پی پی کے ووٹ دیکھیں کہ زیادہ کہاں سے پڑے ہیں اور پی ٹی آئی کو کہاں سے۔ اور ابھی تو دھاندلی زدہ ووٹوں کی بات کی ہی نہیں جہاں شہروں میں زبردستی پی ٹی آئی کو ہرایا گیا۔
پی ٹی آئی کو ایک صوبے سے زیادہ ووٹ ملے ہیں اور باقیوں سے کم۔ دھاندلی زدہ ووٹوں پر عوام کی اکثریت اب تک پی ٹی آئی کی منطق سے متفق نہیں۔ اگر عوام کی اکثریت متفق ہوتی تو اب تک نئے انتخابات بھی ہو چکے ہونے تھے۔
حکومتِ وقت کونسا مشورے لے کر قدم اٹھاتی ہے۔ دشمن کو موسٹ فیورٹ نیشن قرار دینا کہاں کا انصاف ہے ؟ ان حکمرانوں پر ہی تکیہ کر کے رہتے تو یہ لوگ آج شاید پاکستان کو بیچ کر کھا بھی چکے ہوتے۔ یہ لوگ کشمیر کا سیاسی حل نہیں ڈھونڈ سکتے، تو فوج کا اتنا تو حق بنتا ہے کہ پاکستان کی شہ رگ کو بزورِ بازو دشمن سے آزاد کروایا جائے۔ اور اگر ان لوگوں کے بغیر مشورے کے کوئی قدم اٹھا بھی لیا تھا تو نواز شریف نے کون سا ساتھ دے دیا تھا فوج کا ؟
الٹا اپنی غلطی کہہ کر فوجوں کو واپس آنے کا کہہ دیا۔
آپ کا کیا خیال ہے کہ اگر فوج سویلین حکومت کو بھی اس ٹاپ سیکرٹ مشن میں رازدار بنا لیتی تو کتنی دیر تک راز ، راز رہتا ؟ مجھے تو کوئی خاص توقع نہیں ہے۔
فوج ہو یا کوئی اور ادارہ جب وہ آئین سے ماوراء ہو کر کچھ فیصلہ کریں گے تو انارکی پھیلے گی۔ کارگل کا نتیجہ کیا نکلا ۔۔۔دس سال کی آمریت۔ فوج کیا، کسی بھی ادارے کو اپنی حد سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔
چلیں آدھی بات تو آپ نے تسلیم کر لی کہ ایک آمر نے وہ درست نظام دیا جو کہ ترقی یافتہ دنیا میں چل رہا ہے۔ اب یہ بھی تسلیم کر لیں کہ وہ کیا وجہ تھی کہ مرکز میں جمہوری حکومت کے ہونے کے باوجود، ملک میں آئین کے تحت اب تک بلدیاتی انتخابات نہیں کروائے گئے ؟ کیا یہ وجہ فنڈز کو اپنے پاس رکھنا، اپنی مرضی سے استعمال کرنا، عوام کو اختیارات نہ دینا نہیں ہے ؟ تسلیم کریں کہ نون لیگ کی ترجیحات غلط ہیں، کم از کم بلدیاتی انتخابات تک، جس میں وہ آئین و قانون کی کھلم کھلا مخالفت کر رہے ہیں۔
آمر نے جو نظام دیا تھا وہ اس کی مجبوری تھی۔ اور اس کے لیے اس نے کیا کیا پاپڑ بیلے تھے ان کا ذکر اس لڑی میں ہی کہیں میں نے کیا بھی تھا۔
لیکن بہرحال بلدیاتی نظام ہونا چاہیے۔
بلدیاتی انتخابات صرف ایک صوبے میں ہوئے ہیں۔ پھر آپ یہ بھی تسلیم کریں کہ دیگر صوبوں میں موجود حکمران جماعتوں کی ترجیحات بھی غلط ہیں۔
اور اتنا بھی مان لیں کہ بہت سارے صوبے، بے شمار مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔
فی الوقت بہت سارے صوبے بے شمار مسائل پیدا کریں گے اور سیاسی تفریق مزید بڑھ جائے گی۔
آپ اپنے وزیرِ اعظم کو میجارٹی والا مانتے ہیں تو مطلق العنان کیوں نہیں مانتے ؟؟
مطلق العنان تب ہوتا جب ہر صوبے میں ایک ہی پارٹی کی حکومت ہوتی
پارلیمنٹ سے ہر ڈویژن کو صوبہ بنانے کی قرارداد اور بل پاس کروانا کیوں نا ممکن ہے ؟
اس لیے کہ موجودہ آئین کے تحت پارلیمینٹ ایسا کر نہیں سکتی۔ اگر پی ٹی آئی ایک اچھی مثال بنانا چاہتی ہے تو ہزارہ کو صوبے کا درجہ دلوانے کے لیے کے پی کے اسمبلی میں قرارداد منظور کروائے اور وہ بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہو۔
ایک پاکستانی ہوتے ہوئے آپ کو یہ بات نہیں کرنی چاہیے، اس مذہب کے اصولوں پر تو اس ریاست کو چلانا قائدِ اعظم کا عزم تھا، جس کو ہم نے پوری دنیا میں ایک مثال بنا کر پیش کرنا تھا ، تا کہ لوگ یہ بات نہ کر سکیں جو آپ کر رہے ہیں۔ لیکن اس عظیم قائد کے آنکھیں موندتے ہی سب کچھ ختم کر کے رکھ دیا۔
پاکستان میں آپ کس مسلک کے اصولوں اور تشریح کے مطابق ریاست چلائیں گے؟ یہاں مسلک طاقتور ہے، مذہب نہیں۔ اور یہ ایک حقیقت ہے