اور سول نا فرمانی عوام کا حق ہے
تو آپ نے حق استعمال کیا یا صرف زبانی کلامی ہی چیخ و پکار کر رہے ہیں ؟؟؟ ویسے کچھ چیزیں اور بھی تھیں اس نئے طرز سیاست میں۔ کیا وہ بھی حقوق میں ہی آتے ہیں ؟
آپ نے ماشاء اللہ تعالیٰ حقیقی علماء کو ضرور سنا ہو گا اور ان کی صحبت بھی اختیار کی ہو گی، آپ کو ان میں اور نام نہاد ملاؤں میں فرق تو ضرور نظر آیا ہو گا۔
جی بلکل۔ میں نے بہت سے علماء کو سن رکھا ہے، لیکن پہچان نہیں ہے ۔
یقیناً آپ نے بھی بہت سوں کو سنا ہو گا اور آپ کے تجزیوں سے لگتا ہے کہ آپ کو حقیقی علماء اور نام نہاد ملاؤں کا اچھا خاصا علم ہے اور ان میں فرق بھی روا رکھ سکتے ہیں۔ براہ مہربانی آپ کچھ حقیقی علماء کا نام لیں جو مسلکوں کو بالائے طاق رکھ کر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں شریعت کے عین مطابق اسلامی آئین کا نفاذ کر سکنے کی طاقت رکھتے ہوں۔ کم از کم میرے علم میں اضافہ ہو جائے گا۔
ہم یہی تو نہیں چاہتے۔ آپ لوگوں کے نزدیک کسی کے لیڈر ہونے کے لیے صرف ایک ہی کو الیفیکیشن کافی ہے اور وہ ہے لیڈر کی اولاد ہونا۔ یا ن لیگ کے کیس میں بٹ ہونا۔
آپ کے نا چاہنے سے ان کی فالو شپ کُلی طور پرختم تو نہیں ہو سکتی۔ زندگی میں بہت کچھ ہماری مرضی کے مطابق نہیں ہوتا یا ہونے جا رہا ہوتا، لیکن پھر بھی ہم اسے بادل نخواستہ قبول کر لیتے ہیں، کہ نا ماننے میں نقصان ہمارا ہے ان کا نہیں۔
ترقی یافتہ ممالک میں اس طرح کے سکولوں کا کانسیپٹ نہیں ہے۔ وہاں سب امیر غریب، عوام حکمران کے بچے ایک ہی سکول میں پڑھتے ہیں اور تمام سکولوں کا سٹینڈرڈ ایک سا ہوتا ہے۔ یہاں سرکاری سکول بیکن ہاؤس و غیرہ کا مقابلہ نہیں کر سکتے، لیکن سرکاری سکولوں میں پڑھنا غریبوں کی مجبوری ہے۔ وہ ابھی ان غریبوں کی جن کی گزر اوقات ہو سکتی ہے، ورنہ ڈھائی کروڑ بچے تو ویسے بھی سکولوں سے باہر بیٹھے ہوئے ہیں۔ آخر کیوں بیکن ہاؤس جیسے سکولوں کی ضرورت ختم نہیں ہوتی ؟ کیوں عوام اور حکمران کے بچے ایک ہی سکول میں نہیں پڑھتے ؟ جمہوریت کے ہو تے ہوئے یہ تفریق کیوں ہے ؟ آپ کے لیڈر نے اب تک اس سلسلے میں کیا کِیا ہے ؟ کئی دہائیوں سے سیاست و حکمرانی کرتے ہوئے اس سلسلے میں آپ کے لیڈر نے کوئی وژن، کوئی پالیسی دی ہے اب تک ؟
پی پی اور ن لیگ والے تو ہیں ہی آسمان سے گری ہوئی مخلوق، وہ اس فرق کو کیسے مٹا سکتے ہیں۔ البتہ نئے پاکستان کے ممکنہ بانی بسم اللہ کر کے اپنے دو یا تین
بچوں کو کے پی کے کے سکولز میں داخل کروا دیں وہاں تو انھیں کوئی مسئلہ نہیں ہو گا، کیونکہ تعلیم کا شعبہ صوبائی حکومتوں کے دائرہ اختیار میں ہے۔
ویسے اطلاعاً عرض ہے کہ یہ سکولوں کا فرق ہم عوام نے اپنے اپنے سٹیٹس کے مطابق خود اختیار کر رکھا ہے۔ ضرورت سب کے لیے بیکن ہاؤس ٹائپ سکولوں کی نہیں ۔۔۔ بلکہ سب کے لیے ایک جیسے نصاب تعلیم کی ہے۔۔۔۔حکومت کا کام صرف یہ ہے کہ نصاب تعلیم سب کے لیے ایک رکھے
اور یہ کام اور کسی صوبے میں ہو نا ہو لیکن کے پی کے میں ضرور ہو جانا چاہیے تھا، وہاں سے تو کسی نے استعفیٰ بھی نہیں دیا اور کوئی حکومت کو گرانے کے لیے دھرنا بھی نہیں دے رہا۔
ہم کوشش کر رہے ہیں اور جب کرتے ہیں تو کبھی آپ پاشا کی مدد کا الزام لگا دیتے ہیں، کبھی ملک کے خلاف سازش کا اور کبھی غیر ملکی ایجنٹ ہونے کا۔
جمہوری حکومتوں کا بوریا بستر لپیٹنے کے لیے اسمبلی سے باہر کی جانے والی ساری کوششیں سازش ہی تو ہوتیں ہیں۔ چاہے وہ اندرونی ہوں یا بیرونی
اور یہ پلیز مت بتائیں کی موجودہ قانون میں صوبے کیسے بنائے جا سکتے ہیں ۔ دو تہائی اکثریت سے بِل لے کر آئیں اور اختیارات مرکزی اسمبلی میں واپس لے آئیں، پھر اس اکثریت سے یکمشت نئے یونٹ بنا دیں۔ ساری پارلیمنٹ تو آپ کے ساتھ کھڑی ہے، 35، 40 سیٹوں سے کیا فرق پڑنا ہے ؟
یہی بات آپ کنٹینر پر کھڑے نئے پاکستان کے بانی اور ہمنواؤں کو پہنچا دیں۔ کہ ان کے استعفیٰ تو منظور نہیں ہو رہے، وہ تھوڑا ہوم ورک کریں اور اسمبلی میں بل پیش کر دیں۔ اگر وہاں ناکامی ہوتی ہے تو جہاں ان کے پاس طاقت ہے وہاں نیا صوبہ بنا کر سب کو بیک فٹ پر کر دیں۔
کمال ہے، پھر برطانیہ اور اسرائیل کیسے قائم ہیں جہاں آئین کی کوئی دستاویز سرے سے موجود ہی نہیں۔ یہ آئین ایک دستاویز تو ہو سکتی ہے، لیکن نہ تو یہ آئین اسلامی ہے، نہ ہی مکمل جمہوری۔ اور نہ ہی یہ کوئی بہت مقدس شے ہے جسے چھیڑا نہیں جا سکتا۔
آپ کی معلومات تھوڑا سا غلط ہیں۔ ان دونوں ممالک جن کا آپ نے ذکر فرمایا، ان کے آئین کی دستاویز کسی ایک کتاب میں دستیاب نہیں۔ لیکن ایسا نہیں کہ وہ لکھا ہوا نہیں ہے۔
برطانیہ کا آئین ان 4 ایکٹز میں موجود ہے۔۔۔
میگنا کارٹا
دی بل آف رائیٹز
دی ایکٹ آف سیٹلمینٹ
دی پارلیمینٹ ایکٹ
ہاں۔۔۔۔۔اسرائیل کے آئین کے مختلف حصوں کی معلومات کے لیے آپ تھوڑی محنت خود کر لیں تا کہ آپ کی غلط فہمی ہمیشہ کے لیے دور ہو سکے۔
آئین کو نئے سرے سے ترتیب دینا، کہہ دینے میں تو بہت آسان ہے لیکن نئے سرے سے لکھنا اور وہ بھی اس طرح کے ملک کے طول و عرض میں پھیلے تمام لسانی، سیاسی، مسلکی گروہ اس کو برضا و تسلیم قبول کر لیں، شاید اس وقت پاکستان کا مشکل ترین کام ہو۔ شاید نئے پاکستان میں یہ ممکن ہو جائے۔ فی الحال تو اسی پرانے پر اکتفا کرنا پڑے گا۔
بہت شکریہ