عمران خان کی ٹیم

خوش آئند بات ہے۔ یکسانیت سے دل اکتا جاتا ہے
آپ نے تو اسے خوش آئند ہی کہنا ہے، کچھ عرصہ جان جو چُھوٹی رہے گی۔
اتھارٹی کا تو علم نہیں لیکن اپنے دس محب وطن مراسلے پرنٹ کریں اور تین تین کاپیاں کریں
آج ماشاء اللہ جمعہ ہے ایک سیٹ تو نماز کے بعد مسجد کے باہر تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ بقیہ دو کے بارے میں کیا کہتے ہیں محبان وطن !

مراسلے کسی سیاسی پارٹی (سوائے محب وطن پارٹی) کے حق میں نہ ہوں نہ ہی علاقائیت پر مبنی ہوں
اٹھارہ انیس ہزار ہیں، دس بارہ تو نکل ہی آئیں گے۔ :)
 
کل فردوس آپا کی کارکردگی دیکھی، تو کیا مجھے تنقید کا حق نہ ہو گا اور آپ اسے بھی بغض عمران پر قیاس فرمائیں گے؟
بالکل۔۔۔ یہ100 فیصد بغض عمران بلکہ بغض پاکستان کہلائے گا۔

مندوخیل نے محترمہ آپا صاحبہ سے ایسی بات کی ہی کیوں کہ محترمہ آپا صاحبہ کو انتہائی مجبوری کی حالت میں (بالکل اس طرح جیسے کچھ حالات میں حرام حلال ہو جاتا ہے) اپنے پوتر ہاتھ کو استعمال کرنا پڑ گیا۔ مندوخیل پر تو سیکشن 6 کے تحت مقدمہ درج ہونا چاہییے۔
 
آخری تدوین:
مجھے اس معاملے میں خلیل بھائی سے ایک شکوہ ہے جس کی طرف وارث بھائی نے بھی اشارہ کیا ہے کہ خاتون اول کے حوالے سے ہمارا رویہ کافی حد تک تضحیک آمیز ہو جاتا ہے اور یہ ٹرینڈ سوشل میڈیا پر بھی عام ہے۔ ذاتی طور پر میں ان کے غلط قسم کے القاب (٭نی یا ٭گرنی) وغیرہ رکھنے کے حق میں نہیں ہوں۔ اگر تنقید اس طرح کے الفاظ کے بغیر ہو تو اس کا وزن زیادہ ہوتا ہے۔ بہرحال میں کیا، میری اوقات کیا، مگر یہ محض ایک مشورہ ہے کہ ان کو بھی اچھے نام سے پکارا جانا چاہیے یعنی کہ بشری بی بی یا خاتون اول۔ :) ہم ان کے متعلق کچھ بات کرنے کا، تنقید کرنے کا حق رکھتے ہیں مگر ان کے برے نام رکھنے کا شاید کسی کو بھی حق نہیں۔
پیرنی کہنا یا کہلانا تو کوئی باعث ندامت و شرمندگی وغیرہ نہیں۔ زوجیت خان صاحب میں آنے سے پہلے وہ اپنے حلقہ احباب میں پنکی پیرنی کے نام سے ہی مشہور تھی۔

البتہ جادوگرنی و دیگر القابات غیر مناسب ہیں لیکن انھیں مخالف سپورٹران کے الزامی ہتھیاروں میں رکھا جا سکتا ہے کہ بلاول کو بلو رانی اور مریم کو نانی و دیگر وغیرہ کے طنزیہ ناموں سے پکارنے کا سلسلہ پیر صاحب نے خود ہی شروع کیا / کروایا تھا۔
 

جاسم محمد

محفلین
البتہ جادوگرنی و دیگر القابات غیر مناسب ہیں لیکن انھیں مخالف سپورٹران کے الزامی ہتھیاروں میں رکھا جا سکتا ہے کہ بلاول کو بلو رانی اور مریم کو نانی و دیگر وغیرہ کے طنزیہ ناموں سے پکارنے کا سلسلہ پیر صاحب نے خود ہی شروع کیا / کروایا تھا۔
ہر سیاسی چھیڑ کے پیچھے ایک حقیقی تاریخ ہوتی ہے۔ آپ کی پارٹی کی نائب صدر مریم نواز پی ڈی ایم تحریک کے دوران فوج کو ان الفاظ میں للکارا کرتی تھی: “ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے” :)
اب مزے کی بات یہ ہے کہ مریم نواز اس سے قبل اپنے غنڈوں کیساتھ نیب دفتر پر پتھراؤ کروا چکی تھی اور عمر کے لحاظ سے کہیں سے بھی “لڑکی” نہیں لگتی۔ یہیں سے نانی والی چھیڑ کا آغاز ہوا تھا۔
باقی بلاول کو بلو رانی کہنا انتہائی نامعقول ہے۔ یہ براہ راست ان کی مردانہ جنس کو نشانہ بنانے والی بات ہے۔ اس کا آغاز وزیر داخلہ شیخ رشید نے کیا تھا۔ الفاظ شاید کچھ یوں تھے: “دور سے دیکھو تو بلاول لگتا ہے، قریب سے دیکھو تو بلو رانی لگتی ہے” :)
 
ہم ہی میں سے کچھ ہیں جو اپنی ماں پر احسان جتاتے ہیں کہ ہم نے تمہاری کوکھ سے پیدا ہو کرتم پر احسان کیا ہے تیری اوقات کیا ہم نے تمہارے ہاں پیدا ہو کر تمہیں ماں بنایا ہے
 

سیما علی

لائبریرین
ہم ہی میں سے کچھ ہیں جو اپنی ماں پر احسان جتاتے ہیں کہ ہم نے تمہاری کوکھ سے پیدا ہو کرتم پر احسان کیا ہے تیری اوقات کیا ہم نے تمہارے ہاں پیدا ہو کر تمہیں ماں بنایا ہے
یہ وہی لوگ ہیں جو ملک پر بھی احسان کرتے ہیں کہ ملک ہم سے ہے اور باہر جاکر بھی ملک کا نام بدنام کرتے ہیں بھول جاتے ہیں کہ لاکھ امریکن پاسپورٹ لے لیں اوریجن میں پاکستان ہی لکھا رہے گا لال اور نیلے پاسپورٹ سے کچھ فرق نہیں پڑنے والا۔۔۔۔۔۔
 

علی وقار

محفلین
بالکل۔۔۔ یہ100 فیصد بغض عمران بلکہ بغض پاکستان کہلائے گا۔

مندوخیل نے محترمہ آپا صاحبہ سے ایسی بات کی ہی کیوں کہ محترمہ آپا صاحبہ کو انتہائی مجبوری کی حالت میں (بالکل اس طرح جیسے کچھ حالات میں حرام حلال ہو جاتا ہے) اپنے پوتر ہاتھ کو استعمال کرنا پڑ گیا۔ مندوخیل پر تو سیکشن 6 کے تحت مقدمہ درج ہونا چاہییے۔
:ROFLMAO:
 

علی وقار

محفلین
اپنے تئیں محب وطن بننا اور دیگر کی حب الوطنی پر شبہات کا اظہار کرنا مناسب نہیں۔ ہجرت کے کرب سے گزرنا بہرحال ایک سانحہ ہے اور اس سانحہ عظیم کے اثرات ہمارے ملک کی تاریخ پر پڑے ہیں۔ جس مقصد کے لیے ہجرت کی گئی تھی، اس کو پورے نہ ہوتے دیکھ کر زیادہ دکھ ہجرت کرنے والوں کو ہوتا ہے اور وہ اس کرب کا اظہار کر سکتے ہیں۔ اس میں احسان کا کوئی معاملہ نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ کرب کا اظہار کریں گے تو وہ احسان جتائیں گے۔ یہ بات سامنے کی ہے کہ جو تکلیف سے گزرتا ہے، اسے بات کہنے کا حق زیادہ ہوتا ہے۔ شاید یہ نفسیاتی معاملہ بن چکا ہے کہ جب ہجرت کرنے والے اپنے غم کا اظہار کرتے ہوں گے تو انہیں یہ جتلایا جاتا ہو گا کہ ہجرت کی ہی کیوں تھی؟ کیا کوئی احسان کیا ہم پر؟ تو تب سے غالباََ اس بات کے سننے سے پہلے ہی وہ مدافعانہ انداز اختیار کرتے ہوئے اوور ری ایکٹ کرتے ہوئے بات کو اس طرف لے گئے کہ اب ہم میں نے یہ بات کرنی ہی نہیں ہے کہ ایسا جواب سننے کو ملے۔ یہ نفسیاتی حوالے سے ایک فطری سی بات ہے۔ البتہ، مجھے یہ ضرور کہنا ہے کہ ہجرت کرنے والے مجھ سے زیادہ افضل ہیں کہ ان کے آباء و اجداد خون بہا کر یہاں آئے، اور یہ ان کی عظمت ہے کہ وہ خود کو اس وطن میں میرے برابر سمجھیں۔ اس میں احسان کا کوئی معاملہ نہیں ہے۔ وطن سے محبت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان کے احساسات و جذبات کو مکمل طور پر مائنس کر دیا جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ وطن سے محبت کے علاوہ انسان کے ذہن میں کسی احساس کو جگہ ہی نہ دی جائے۔ ایک فرد کی زندگی میں احساسات کئی خانوں میں تقسیم ہوتے ہیں اور وطن سے محبت کا جذبہ ہر ایک کے اندر منفرد تصور کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ ہر ایک کو ایک ہی طرح سے سوچنے پر مجبور کرنا نادانی ہے اور ایسی حب الوطنی سے ہم بے زار ہی بھلے جہاں قدم قدم پر اس کا اظہار کر کے مقتدر حلقوں سے بصورت ستائش اس کا سرٹیفکیٹ بھی لینا پڑے۔
 
اپنے تئیں محب وطن بننا اور دیگر کی حب الوطنی پر شبہات کا اظہار کرنا مناسب نہیں۔ ہجرت کے کرب سے گزرنا بہرحال ایک سانحہ ہے اور اس سانحہ عظیم کے اثرات ہمارے ملک کی تاریخ پر پڑے ہیں۔ جس مقصد کے لیے ہجرت کی گئی تھی، اس کو پورے نہ ہوتے دیکھ کر زیادہ دکھ ہجرت کرنے والوں کو ہوتا ہے اور وہ اس کرب کا اظہار کر سکتے ہیں۔ اس میں احسان کا کوئی معاملہ نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ وہ کرب کا اظہار کریں گے تو وہ احسان جتائیں گے۔ یہ بات سامنے کی ہے کہ جو تکلیف سے گزرتا ہے، اسے بات کہنے کا حق زیادہ ہوتا ہے۔ شاید یہ نفسیاتی معاملہ بن چکا ہے کہ جب ہجرت کرنے والے اپنے غم کا اظہار کرتے ہوں گے تو انہیں یہ جتلایا جاتا ہو گا کہ ہجرت کی ہی کیوں تھی؟ کیا کوئی احسان کیا ہم پر؟ تو تب سے غالباََ اس بات کے سننے سے پہلے ہی وہ مدافعانہ انداز اختیار کرتے ہوئے اوور ری ایکٹ کرتے ہوئے بات کو اس طرف لے گئے کہ اب ہم میں نے یہ بات کرنی ہی نہیں ہے کہ ایسا جواب سننے کو ملے۔ یہ نفسیاتی حوالے سے ایک فطری سی بات ہے۔ البتہ، مجھے یہ ضرور کہنا ہے کہ ہجرت کرنے والے مجھ سے زیادہ افضل ہیں کہ ان کے آباء و اجداد خون بہا کر یہاں آئے، اور یہ ان کی عظمت ہے کہ وہ خود کو اس وطن میں میرے برابر سمجھیں۔ اس میں احسان کا کوئی معاملہ نہیں ہے۔ وطن سے محبت کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان کے احساسات و جذبات کو مکمل طور پر مائنس کر دیا جائے اور یہ سمجھ لیا جائے کہ وطن سے محبت کے علاوہ انسان کے ذہن میں کسی احساس کو جگہ ہی نہ دی جائے۔ ایک فرد کی زندگی میں احساسات کئی خانوں میں تقسیم ہوتے ہیں اور وطن سے محبت کا جذبہ ہر ایک کے اندر منفرد تصور کے ساتھ موجود ہوتا ہے۔ ہر ایک کو ایک ہی طرح سے سوچنے پر مجبور کرنا نادانی ہے اور ایسی حب الوطنی سے ہم بے زار ہی بھلے جہاں قدم قدم پر اس کا اظہار کر کے مقتدر حلقوں سے بصورت ستائش اس کا سرٹیفکیٹ بھی لینا پڑے۔
بہترین، خوبصورت۔

چند دن پہلے ہی ایک ہم جماعت جو نیوزی لینڈ کی ایک جامعہ میں پروفیسر ہیں، کی فیس بک وال پر ایک تحریر پڑھنے کر ملی۔ جس کا آخری جملہ کچھ یوں تھا۔

Critical Thinking ملک دشمن نہیں ہوتی اور خامیوں کا اظہار غیر ملکی ایجنڈا نہیں ہوتا۔

اور اسی ایک سطر پر میں نے رائے دی تھی کہ تنقیدی، مبصرانہ یا طنزیہ اظہار خیال کو ہمارا معاشرہ ابھی تک 'شریکا' سمجھتا ہے.
 

زیک

مسافر
چند دن پہلے ہی ایک ہم جماعت جو نیوزی لینڈ کی ایک جامعہ میں پروفیسر ہیں، کی فیس بک وال پر ایک تحریر پڑھنے کر ملی۔ جس کا آخری جملہ کچھ یوں تھا۔

Critical Thinking ملک دشمن نہیں ہوتی اور خامیوں کا اظہار غیر ملکی ایجنڈا نہیں ہوتا۔
آخری جملے اور آپ کے دوست کے نیوزی لینڈ ہونے کا بہت گہرا تعلق ہے
 

سید رافع

محفلین
وطن وہاں کے بسنے والوں کے وعدوں سے وجود میں آتا ہے۔ یہ وعدے وفا ہوتے رہنے چاہیں۔ جو کوئی کسی بھولے وعدے کی یاد دلائے اسکی سننی چاہیے۔ اسی صورت میں وطن پھیلتا یا سکڑتا ہے۔ پاکستان پہلے بڑا تھا اب سکڑ گیا۔

یونیسکو کی رپورٹ پڑھ رہا تھا کہ 42 فیصد بچے جو پانچ سال کے ہوتے ہیں انکی رجسٹریشن ہوتی ہے. مطلب کہ 58 فیصد رجسٹرڈ نہیں ہوتے۔ ان رجسٹرڈ بچوں میں سے ہر سو میں 67 زندہ رہتے ہیں اور 33 مر جاتے ہیں۔

ایسا وطن جو اپنے بچوں کو صحتمند نہ کر سکے زندہ نہ رکھ سکے وہاں حکومت وقت کو القاب سے نوازنا تو چھوٹی بات معلوم ہوتی ہے۔

Pakistan (PAK) - Demographics, Health & Infant Mortality - UNICEF DATA
 

سید رافع

محفلین
ابھی کچھ دنوں پہلے بحریہ ٹاون کراچی پر سندھ کی قوم پرست جماعتوں کی جانب سے مظاہرہ، توڑ پھوڑ اور نعرے بازی ہوی۔ دوستوں میں کراچی کے شہریوں کی حُب الوطنی کی بات نکلی۔ میں نے اپنے دوستوں سے کہا:

کراچی مشرقی و مغربی پاکستان کی قیادت کاچنا ہوا اور قائداعظم کا منتخب کردہ دارلحکومت تھا۔

ایوب کا دور آتے آتے قومی ترجیحات جو کہ قائداعظم اور لیاقت علی خان نے تجویز کیں تبدیل ہو گئیں۔ بس اب یہ ملک ان ترجیحات کے ماتحت ہے۔

آپ تصور کریں کہ پاکستان کا اسٹیٹ بینک اسی اردو کمیونٹی کے ایک صاحب زاہد حسین نے چار ماہ میں بنا کر دے دیا۔

اب جبکہ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے آپ کو ازسر نو خطے کی سیاست اور دھاروں کا جائزہ لینا ہو گا۔ تلخ حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے نیا لائحہ عمل بنانا یو گا۔

صاف بات ہے جو پاکستان کو کینسر کہہ کر جاگیردارنہ نظام ختم کرنے کی بات کرے اس پر حیرت ہی کی جا سکتی ہے کہ ایسی سخت گرہ کو کھولنے کا کیا سطحی طریقہ!

رینجرز کیوں آئے جب آپ کے انکے درمیان اچھی خاصی چپقلش ہو چکی۔ ابھی بھی ان کے نمائندے منتخب ہو رہے ہیں۔ اسکا کیا مقصد ہے؟ مقصد یہ ہے کہ وہی سب ہو جو پہلے ہوتا رہا۔ کوئی نیا دماغ نئی سوچ نئی ترقی کی بات قوم میں پنپ نہیں پائی! آپ نے انکی سوچ کو اسمبلی میں مسترد نہیں کیا۔

سندھ پولیس اور رینجرز سندھ حکومت کے ماتحت ہے۔ وہ خود سے کچھ نہیں کر سکتی۔ یہ ہاتھ مروڑنے کا عمل ہے۔ اس سے زائد کچھ نہیں۔

مٹی کے بچے جب بنیں گے جب آپ سیاچن سے سو شہید کراچی لائیں یا سو شہید ٹرائبل ایریا سے لائیں۔ آپکی ترجیحات قومی نہیں لسانی ہیں۔ عالمی نہیں ایک خطے کی زبان سے متعلق ہیں۔
 
Top